منٹو اور ترقی پسندی
ندیم احمد
شعبہ اردو، کلکتہ یونی ورسٹی، کولکتا، مغربی بنگال
(Mantoo aur Taraqqi Pasandi by Dr. Nadim Ahmad)
معمولی ادیب تو خیر کیا بیچتے ہیں بڑے فن کاروں کو بھی کسی ایسے آفاقی نظام کا سہارا لینا پڑتا ہے جو وقتی طور پر ہی سہی لیکن ان کے بے ربط احساسات میں ایک توازن پیدا کرے۔ کسی آفاقی نظام کے بغیر ادیب کچھ چکرا سا جاتا ہے۔ محض محسوسات کے بھروسے ادیب کچھ دور تو چل سکتا ہے لیکن زیادہ دنوں تک ادب تخلیق نہیں کرسکتا۔ اسے کسی نہ کسی نظام کا سہارا لینا ہی پڑتاہے۔ یہ سہارا مذہب اشتراکیت یا شہوانیت، کوئی بھی چیز ہوسکتی ہے۔ اتفاق سے منٹو نے اپنی ابتدأ میں اشتراکیت کا انتخاب کیا۔ منٹو کو اگر باری علیگ جیسے کمیونسٹ رہنما نہ بھی ملتے تو بھی وہ اشتراکیت کی طرف کھنچے چلے جاتے کیونکہ اس زمانے کا عام رجحان ہی یہی تھا۔ ہندوستان ہی میں نہیں ساری دنیا میں عام نوجوان اس تحریک میں ایک عجیب و غریب کشش محسوس کررہے تھے۔ سوریلسٹوں تک نے موجودہ سماجی نظام پر تنقید کے لئے اشتراکی نقطۂ نظر کی پابندی قبول کرلی تھی۔ محمد حسن عسکری نے اس صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے ایک دفعہ بڑی عمدہ بات کہی تھی :
’’ کسی آفاقی نظام پر یقین کے بغیر عام فن کار کا تخیل اتنا مہمل، بے جان اور بانجھ ہوجاتا ہے کہ مصوری کو موت سے بچانے کے لئے یہ رائے دی گئی کہ مصور تجارتی کمپنیوں کے اشتہار بنایا کریں۔ کم سے کم لکس سوپ کے پرچار سے اشتراکیت کا پروپگنڈہ تو بہتر ہے۔اور تو الگ رہے سوریلسٹوں کو دیکھئے جوہر پابندی یہاں تک کہ عقل کی پابندی تک سے آزاد ہونا چاہتے ہیں لیکن ان کی لاچاری اور بے بسی قابل غور ہے۔ ان کے بنیادی اُصول ہیں:
۱- ذہن میں لاشعور کی نمائندگی
۲- مارکسی نقطۂ نظر سے موجودہ سماج پر تنقید
ممکن ہے اشتراکیت گھنائونی اور قابل نفرت ہو لیکن اس کو کیا کیا جائے کہ دنیا بے اختیار اس کی طرف کھنچی چلی جارہی ہے ۔‘‘
ایک نوجوان ادیب کی حیثیت سے منٹو نے بھی اس اشتراکی انقلاب کا اثر قبول کیا۔ اس زمانے میں اشتراکیت اور اس کے زیر اثر لکھے گئے روسی فکشن کا مطالعہ منٹو نے ۳۶ء کے نام نہاد ترقی پسندوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی کیا تھا۔ افسانے کی دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے اس نے ۱۹۳۳ء میں روسی ادب کے تراجم پیش کئے اور رسالہ ’ہمایوں‘ اور رسالہ ‘عالمگیر‘ لاہور کے لئے روسی اور فرانسیسی ادب نمبر مرتب کئے۔ وکٹر ہیوگو کے نال Last Days of Condemned کا ترجمہ اسیر کی سرگذشت ۱۹۳۳ء میں شائع ہوچکا تھا۔ آسکر وائلڈ کے ڈراما ’ویرا‘ کا ترجمہ منٹو نے ’انقلاب روس کی خونی داستان‘ کے ذیلی عنوان کے ساتھ ۱۹۳۴ء میں کیا۔ روسی افسانوں کے تراجم پر مشتمل اس کی کتاب باری علیگ کے بائیس صفحات کے دیباچے کے ساتھ ۱۹۳۴ء میں شائع ہوئی۔ گویا اس طرح آہستہ آہستہ نہایت ہی غیر محسوس طریقے سے وہ ادبی دنیا میں ایک نئی ادبی تحریک کے لئے راہ ہموار کررہا تھا۔ باری علیگ نے جو اس نئے ادیب میں ایک بڑا انقلابی دیکھ رہے تھے ’روسی افسانے‘ کے دیباچے میں لکھا:
’’ روسی ادب کے مطالعہ کے بعد مترجم نے روسی طرز کا ایک مختصر طبع زاد افسانہ ’تماشا‘ لکھا ہے۔ افسانہ کا محل وقوع امرتسر کی جگہ ماسکو نظر آتا ہے۔ خالد نقاب پوش ہندوستانی خاتون کا بچہ ہونے کی نسبت سرخ دامن کا پروردہ دکھائی دیتا ہے۔ ‘‘
ایک آتش نفس انقلابی کی طرح منٹو نے اس دور میں روس کے اشتراکی انقلاب اور روسی ادب کا پر جوش علمی اور عملی خیر مقدم کیا تھا۔ اپنی تخلیقی زندگی کے تشکیلی دور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے منٹو نے خود اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے:
’’کہاں ماسکو، کہاں امرتسر، مگر میں اور حسن عباس نئے نئے باغی نہیں تھے۔ دسویں جماعت میں دنیا کا نقشہ نکال کر ہم کئی بار خشکی کے راستے روس پہنچنے کی اسکیمیں بنا چکے تھے۔ حالانکہ ان دنوں فیروز الدین منصور ابھی کامریڈ ایف- ڈی منصور نہیں بنے تھے اور کامریڈ سجاد ظہیر شاید بنّے میاں ہی تھے ۔ ہم نے امرتسر ہی کو ماسکو متصور کرلیا تھا اور اسی کے گلی کوچوں میں مستبد اور جابر حکمرانوں کا انجام دیکھنا چاہتے تھے۔ کٹڑہ جمیل سنگھ، کرموں ڈیوڑھی، یاچوک فرید میں زاریت کا تابوت گھسیٹ کر اس میں آخری کیل ٹھونکنا چاہتے تھے۔ ‘‘
سوویت روس اور اشتراکیت اس دور میں منٹو کے لئے عجیب و غریب کشش رکھتے تھے اور یہ کشش اس کے پاکستان جانے کے بعد بھی قائم رہا ۔ چنانچہ قیام پاکستان کے دوران لکھے گئے اپنے ایک فیچر نما مضمون ’کارل مارکس‘ میں اس نے لکھا :
’’سویت روس اب خواب نہیں۔ خیال خام نہیں۔ دیوانہ پن نہیں — ایک ٹھو س حقیقت ہے — وہ ٹھوس حقیقت جو ہٹلر کے فولادی ارادوں سے کئی ہزار میل لمبے جنگی میدانوں میں ٹکرائی او ر جس نے فاشیت — آہن پوش فاشیت کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے — وہ اشتراکیت جو کبھی سر پھرے لونڈوں کا کھیل سمجھا جاتا تھا۔ وہ اشتراکیت جو کبھی دل بہلاوے کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا تھا — وہی اشتراکیت جس کے ساتھ یورپ کی متعدد طہارت پسند قوموں نے ایک فاحشہ کا سا سلوک کیا — وہی اشتراکیت جو ننگ دین اور ننگ انسانیت یقین کی جاتی تھی۔ آج روس کی وسیع و عریض میدانوں میں بیمار انسانیت کے لئے امید کی ایک کرن بن کر چمک رہی ہے۔ یہ وہی اشتراکیت ہے۔ جس کا نقشہ آج سے تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے کارل مارکس نے تیار کیا— قابل احترام ہے یہ انسان جس نے اپنی ذات کے لئے نہیں، اپنی قوم کے لئے نہیں۔ اپنی نسل کے لئے نہیں۔ اپنے ملک کے لئے نہیں۔ بلکہ ساری دنیا کے لئے۔ ساری انسانیت کے لئے، مساوات اور اخوت کا ایک ذریعہ تلاش کیا۔‘‘
۱۹۳۵ء میں جب منٹو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں زیر تعلیم تھا اس زمانے میں منٹو سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے سردار جعفری نے بھی اس کی انقلاب پسندی اور اشتراکی نظام سے والہانہ شیفتگی کا ذکر کیا ہے:
’’جب مشاعرے سے باہر نکلا تو ایک انتہائی ذہین آنکھوں اور بیمار چہرے کا طالب علم مجھے اپنے کمرے میں یہ کہہ کر لے گیا ۔ میں بھی انقلابی ہوں۔ اس کے کمرے میں وکٹر ہیوگو کی بڑی تصویر لگی ہوئی تھی اور میز پر چند دوستوں کے ساتھ اس کی اپنی تصویر تھی۔ جس کی پشت پر گورکی کا ایک اقتباس لکھا ہوا تھا۔ یہ سعادت حسن منٹو تھا۔ اس نے مجھے بھگت سنگھ پڑھنے کے لئے دئیے اور وکٹر ہیوگو اور گورکی سے آشنا کیا۔ ‘‘
روسی ادیبوں سے منٹو کی یہ محبت اس انقلاب کی خاطر تھی جو وہ دنیا بھر میں لانا چاہتا تھا۔ اس محبت کے جذبے کے ساتھ ساتھ برطانوی سامراج کی وحشت و بربریت سے حقارت کا جذبہ بھی اس کے یہاں شباب پر تھا چنانچہ ان دنوں جذبوں کی فنکارانہ تجسیم منٹو کے پہلے افسانوں کے مجموعے ’آتش پارے‘ میں موجود ہے۔ ۱۹۳۶ء میں شائع ہونے والی اس کتاب کے بیشتر افسانے انقلابی حقیقت نگاری کے بہترین بیانیہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس مجموعے میں شامل چند افسانوں کے یہ اقتباسات دیکھیں:
ان دنوں جب کبھی میں سلیم کے جواب پر غور کرتا ہوں تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ سلیم در حقیقت انقلاب پسند واقع ہوا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ کسی سلطنت کا تختہ اُلٹنے کے در پے ہے۔ یا وہ دیگر انقلاب پسندوں کی طرح چوراہوں میں بم پھینک کر دہشت پھیلانا چاہتا ہے، بلکہ جہاں تک میرا خیال ہے، وہ ہر چیز میں انقلاب دیکھنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نظریں اپنے کمرے میں پڑی ہوئی اشیاء کو ایک ہی جگہ پر نہ دیکھ سکتی تھیں۔ ممکن ہے میرا یہ قیافہ کسی حد تک غلط ہو مگر میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کی جستجو کسی ایسے انقلاب کی طرف رجوع کرتی ہے جس کے آثار اس کے کمرے کی روزانہ تبدیلیوں سے ظاہر ہیں۔ (انقلاب پسند)
—
ہر وہ چیز جو تم سے چرا لی گئی ہو، تمھیں حق حاصل ہے کہ اسے ہر ممکن طریقے سے اپنے قبضے میں لے آئو ۔۔۔۔۔۔ مگر یاد رہے تمہاری یہ کوشش کامیاب ہونی چاہئے ورنہ ایسا کرتے ہوئے پکڑے جانا اور اذیتیں اٹھانا عبث ہے
لڑکے اٹھے اور بابا جی کو شب بخیر کہتے ہوئے کوٹھری کے دروازے سے باہر چلے گئے۔ بوڑھے کی نگاہیں ان کو تاریکی میں گم ہوتے دیکھ رہی تھیں۔ تھوڑی دیر اسی طرح دیکھنے کے بعد وہ اٹھا اور کوٹھری کا دروازہ بند کرتے ہوئے بولا ـ:
آہ! اگر بڑے ہو کر وہ صرف کھوئی ہوئی چیزیں واپس لے سکیں ! بوڑھے کو خدا معلوم ان لڑکوں سے کیا امید تھی؟ (چوری)
—
وقت گزرتا گیا — وہ خونی گھڑی قریب تر آتی گئی ۔
سہ پہر کا وقت تھا۔ خالد، اس کا باپ اور والدہ صحن میں خاموش بیٹھے ایک دوسرے کی طرف خاموش نگاہوں سے تک رہے تھے۔ ہوا سسکیاں بھرتی ہوئی چل رہی تھی۔
تڑ – تڑ – تڑ- تڑ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ آواز سنتے ہی خالد کے باپ کے چہرے کا رنگ کاغذ کی طرح سفید ہوگیا۔ زبان سے بمشکل اس قدر کہہ سکا : گولی! (تماشہ)
’’تماشہ‘‘ کا یہ آخری اقتباس بتاتا ہے کہ ۱۹۱۹ء میں رونما ہونے والے جلیانوالہ باغ کے قتل عام نے انقلابی منٹو کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ سات برس کے منٹو پر اس واقعہ نے ایسی وحشت قائم کررکھی تھی کہ زندگی کے آخری ایام میں بھی وہ اس کی گرفت سے نہ نکل سکا۔ اس کے افسانے ’اسٹوڈنٹ یونین کیمپ‘، ’سوراج‘ اور ’۱۹۱۹ء کی ایک بات ‘ میں بھی اس سانحہ کا ذکر موجود ہے۔ ’آتش پارے‘ کے افسانوں کے ذریعہ منٹو ایک نئے انقلابی کی حیثیت سے پوری طرح قائم ہوچکا تھا۔ انجمن ترقی پسند مصنّفین ابھی وجود میں نہیں آئی تھی لیکن منٹو نے عام زندگی کے المیوں کو سمیٹنا شروع کردیا تھا۔ ’آتش پارے‘ کے متعلق فتح محمد ملک نے درست لکھا ہے کہ ’’اس کتاب کا ہر افسانہ انقلابی حقیقت نگاری کی روسی روایت سے پھوٹا ہے۔ اگر ہم ’آتش پارے‘ کا موازنہ نامور ترین ترقی پسند افسانہ نگاروں کے پہلے افسانوی مجموعہ کے ساتھ کریں تو یہ حقیقت بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ جس وقت یہ لوگ خواب و خیال کی وادیوں میں فرار کی راہوںپر گامزن تھے اور ایک پادر ہوا رومانیت ان کا ادبی مسلک ہو کر رہ گئی تھی عین اس وقت سعادت حسن منٹو زندگی کے سنگین حقائق سے مردانہ وار پنجہ آزما تھے۔ ‘‘
اردو ادب کی تاریخ کی یہ بہت بڑی ستم ظریفی تھی کہ جس شخص نے زندگی کی سفاک حقیقتوں اور ٹھکرائے ہوئے مخلوق کے مصائب و آلام کو سب سے پہلے اپنے افسانوں میں جگہ دی اور اس طرح ۳۶ء کی تحریک کی اصلی روح کو برقرار رکھا اس پر ترقی پسندوں نے رجعت پرستی کی تہمت عائد کی اور اس طرح مطعون کیا کہ ملاح بھی پانی مانگنے لگے۔ ترقی پسند تحریک نئی بنیادوں پر نئی تعمیر کا خواب لے کر آئی تھی اور بقول سلیم احمد ’’اس کا بنیادی یقین یہ تھا کہ معاشرے کو ادب کے ذریعے بدلا جاسکتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ تحریک خارجی تبدیلیوں سے زیادہ انسانوں کی باطنی تبدیلیوں میں یقین رکھتی تھی اور اندر کے انقلاب کو حقیقی انقلاب سمجھتی تھی اور ان معنوں میں اس تحریک کا مقصد صرف ایک خاص قسم کا ادب پیدا کرنا نہیں تھا۔ بلکہ وہ ادب کے ذریعے ایک نیا طرز زندگی تخلیق کرنا چاہتی تھی ۔ ‘‘ کم سے کم منٹو کی نظر میں اس تحریک کا یہی مقصد تھا اپنی تحریروں کے ذریعے اس نے ساری زندگی اسی طرز کی معنویت دریافت کرنے میں گزاری۔ ممکن ہے وہ ساری عمر ایک مخصوص طرح کا ترقی پسند رہا ہو لیکن نام نہاد ترقی پسندوں نے بعض خارجی اسباب کی بنا پر اس کے ساتھ جو سلوک کیا وہ ہماری ادبی تاریخ کا ایک نہایت ہی تکلیف دہ واقعہ ہے۔ فتح محمد ملک نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک دفعہ یہ بات کہی تھی کہ ’’یہ کتنی المناک حقیقت ہے کہ ترقی پسند تحریک اپنے عروج کو پہنچنے کے بعد انڈین کمیونسٹ پارٹی کی آمریت کا شکار ہو کر انحطاط کے راستوں پر سرپٹ دوڑنے لگی اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ جس شخص نے اپنے معاصرین پر فکری صلابت اور نظریاتی استقامت میں سبقت حاصل کرتے ہوئے آغاز کار ہی میں حریت فکر و عمل کی روشن مثال قائم کردی تھی اس پر کمیونسٹ ملّائیت نے رجعت پسندی کا فتویٰ صادر کردیا۔‘‘
ترقی پسندوں سے منٹو کا اصل جھگڑا تقسیم ہند کے بعد شروع ہوا۔ محمد حسن عسکری سے ادبی رفاقت بھی اس کی ایک وجہ بنی۔ ’جھلکیاں‘ میں محمد حسن عسکری نے ترقی پسند ی پر جس طرح کے تیز حملے کئے تھے اس سے ترقی پسند بھنّائے ہوئے تھے۔ منٹو، عسکری اتحاد انہیں کسی قیمت پر گوارا نہ تھا۔ اس زمانے کی ادبی سیاست کو یاد کرتے ہوئے انتظار حسین صاحب نے ’چراغوںکا دھواں‘ میں بڑی دلچسپ اور معنی خیز باتیں کہی ہیں۔ انہوں نے لکھاہے کہ:
’’عسکری ، منٹو دوستی بہت بار آور ثابت ہوئی۔ عسکری صاحب کو جس شے کی اس وقت تلاش تھی وہ اولاً منٹو صاحب ہی کے یہاں انہیں دستیاب ہوئی۔ اصل میں وہ پاکستانی ادب کی ضرورت کا اعلان تو کر بیٹھے تھے مگر انہیں کوئی ایسا نمونہ دستیاب نہیں ہورہا تھا جسے وہ اعتماد کے ساتھ پاکستانی ادب کے طور پر پیش کرسکیں۔ ’کھول دو‘ نے ان کی اس ضرورت کو پورا کیا۔ ادھر کراچی میں ممتاز شیریں نے پاکستانی ادب کے دو نمونے دریافت کئے۔ قدرت اللہ شہاب کی طویل مختصر کہانی ’یاخدا‘ اور محمود ہاشمی کے رپورتاژوں کا مجموعہ ’کشمیر اداس ہے‘ عسکری صاحب اور ممتاز شیریں کو اول اول انہیں تین نمونوں پر گذارہ کرنا پڑا۔ ترقی پسندوں کو ’کھول دو‘ کی حد تک منٹو صاحب سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ یہ افسانہ ان کے لئے قابل قبول تھا۔ جب حکومت کو اس پر اعتراض ہوا تو اور زیادہ قابل قبول ہوگیا۔ تین ترقی پسند رسالوں ’سویرا‘، ’ادب لطیف‘ اور ’نقوش‘ پر بیک وقت سرکاری عتاب آیا تھا۔ ان میں ’نقوش‘ کی بڑی خطا یہ تھی کہ اس میں ’کھول دو‘ شائع ہوا تھا۔ سرکاری کارروائی کے خلاف ترقی پسند ادیبوں کو تو احتجاج کرنا ہی تھا۔ عسکری صاحب بھی اس احتجاج میں پیش پیش تھے۔ عسکری صاحب ترقی پسند ادب پر اعتراض کرنا اپنا حق سمجھتے تھے۔ سرکار کو یہ حق دینے کے روادار نہیں تھے۔‘‘
یہ وہ زمانہ تھا جب ترقی پسندوں کو منٹو کے محاسن بھی عیوب نظر آرہے تھے۔ جن افسانوں کو ترقی پسند ایک زمانے میں سر پر لئے پھرتے تھے اب وہ ان کے لئے باعث ننگ تھے۔ یہ جھگڑا ۱۹۴۷ء کے آس پاس شروع ہوا تھا چنانچہ ایک سال کے بعد ۱۹۴۸ء میں جب منٹو کے افسانوں کا مجموعہ ’چغد‘ سامنے آیا تو انہوں نے اپنے ترقی پسند احباب کا ذکر ان الفاظ میں کیا:
’’اس کتاب کا ایک افسانہ ’بابو گوپی ناتھ‘ جب ’ادب لطیف‘ میں شائع ہوا تو میں بمبئی ہی میں مقیم تھا۔ تمام ترقی پسند مصنّفین نے اس کی بہت تعریف کی۔ اس کو اس سال کا شاہکار افسانہ قرار دیا۔ علی سردار جعفری، عصمت چغتائی اور کرشن چندر نے خصوصاً اس کو بہت سراہا ، ’ہل کے سائے‘ میں کرشن چندر نے اس کو نمایاں جگہ دی۔ مگر یکایک خدا معلوم کیسا دورہ پڑا کہ سب ترقی پسند اس افسانے کی عظمت سے منحرف ہوگئے۔ شروع شروع میں دبی زبان میں اس پر تنقید شروع ہوئی، سرگوشیوں میں اس کو برا بھلا کہا گیا۔ مگر اب بھارت اور پاکستان کے تمام ترقی پسند ممٹیوں پر چڑھ کر اس افسانے کو رجعت پسند، اخلاق سے گرا ہوا، گھنائونا اور شر انگیز قرار دے رہے ہیں۔ یہی سلوک میرے افسانے ’میرا نام رادھا ہے‘ کے ساتھ کیا گیا، حالانکہ جب شائع ہوا تھا تو تمام ترقی پسندوں نے اچھل اچھل کر اس کی تعریف و توصیف کی تھی۔ ‘‘
آگے چل کر منٹو نے سردار جعفری کے ایک خط کے حوالے سے ترقی پسندوں سے ان کے اختلاف کے ابتدائی وجوہ کو ان لفظوں میں بیان کیا:
’’یہاں لاہور سے میرے پاس ایک خبر آئی ہے کہ تمہاری کسی نئی کتاب پر حسن عسکری مقدمہ لکھ رہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آسکا تمہارا اور حسن عسکری کا کیا ساتھ ہے۔ میں حسن عسکری کو بالکل مخلص نہیں سمجھتا۔ ’ترقی پسندوں‘ کی ’خبر رسانی‘ کا سلسلہ اور انتظام قابل داد ہے۔ یہاں کی خبریں ’کھیت واڑی‘ کے ’کرملن‘ میں بڑی صحت سے یوں چٹکیوں میں پہنچ جاتی ہیں۔علی سردار کو یہاں سے جو خبر ملی، بڑی معتبر تھی۔ چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ ’سیاہ حاشیے‘ پریس کی سیاہی لگنے سے پہلے ہی ’روسیاہ‘ کرکے رجعت پسندی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی۔‘‘
’سیاہ حاشیے‘ تک آتے آتے حالات بالکل بدل چکے تھے۔ اس کتاب کو ترقی پسندوں نے محض اس لئے ٹاٹ باہر کیا کہ اس کا بیانیہ ان کے سیاسی اعتقادات پر ضرب لگاتا تھا اور اس کا دیباچہ ایک ایسے شخص نے لکھا تھا جسے ترقی پسند اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے تھے۔ ’سیاہ حاشیے‘ پر جو لے دے شروع ہوئی اس میں گرمی اس وقت آئی جب احمد ندیم قاسمی نے منٹو کے نام ایک کھلی چٹھی لکھی۔ تیرہ صفحات پر پھیلا ہوا یہ خط بقول فتح محمد ملک ’’محمد حسن عسکری کی نثری ہجو تھی ‘‘ اس وقت تو منٹو یا عسکری صاحب نے اس کا جواب نہیں دیا مگر جب ۱۹۵۱ء میں وہ ’یزید‘ کا اختتامیہ لکھنے بیٹھے تو ’سیاہ حاشیے‘ کے حوالے سے ترقی پسندوں کے حسن سلوک کا ذکرکرتے ہوئے لکھا کہ ’’میرے ایک عزیز دوست نے تو یہاں تک کہا کہ میں نے لاشوں کی جیبوں میں سے سگریٹ کے ٹکڑے، انگوٹھیاں اور اس قسم کی دوسری چیزیں نکال نکال کر جمع کی ہیں۔ اس عزیز نے میرے نام ایک کھلی چٹھی بھی شائع کی جو وہ بڑی آسانی سے مجھے خود دے سکتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے غصّہ تھا اس کا نہیں کہ مجھے الف نے کیوں غلط سمجھا۔ مجھے غصہ تھا اس بات کا کہ الف نے محض فیشن کے طو رپر ایک سقیم و عقیم تحریک کی انگلی پکڑ کر بیرونی سیاست کے مصنوعی ابرو کے اشارے پر میری نیت پر شک کیا اور مجھے اس کسوٹی پر پرکھا جس پر صرف ’سرخی‘ ہی سونا تھی۔‘‘
منٹو، عسکری اتحاد ترقی پسندوں کا ایک نیا مسئلہ تھا جسے انہوں نے یوں حل کیا کہ انجمن ترقی پسند مصنّفین کے اجلاس میں باقاعدہ ناموں کا اعلان کرکے منٹو سمیت چند ادیبوں کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ نوجوان ادیبوں میں انتظار حسین بھی ان میں سے ایک تھے۔ ’نظام‘ میں ان کا قلم بعض اہم ترقی پسندوں کے خلاف رواں تھا۔ چنانچہ احتشام صاحب نے انہیں خط لکھا:
’’بارود خانہ، لکھنؤ
۲۰؍ جولائی ۴۸ء
محترمی تسلیم!
کئی دن ہوئے آپ کا خط ملا تھا کہ عید نمبر کے لئے کچھ لکھوں۔ میری خود خواہش تھی لیکن کچھ نہ لکھ سکا۔ ایک نظم ارسال خدمت ہے ۔ اگر پسند آئے تو شائع کردیجیے گا ۔ موقعہ ملا تو پھر کچھ لکھوں گا۔ ’نظام‘ تو نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ مجھے صحیح طور پر اب تک اندازہ نہ ہوسکا کہ آپ اور عسکری صاحب اور آپ کے دوسرے ہم خیال کیا چاہتے ہیں۔ وہ کھل کر کچھ نہیں کہتے۔ عسکری صاحب تو اب کچھ صاف صاف کہنے لگے ہیں مگر ابھی تھوڑی سی جھنجھلاہٹ اور بڑھے گی تو وہ اور صاف باتیں کریں گے ۔ جس راہ پر آپ لوگ چاہتے ہیں اس پر میں آپ کے ساتھ نہ چل سکوں گا۔ ادھر آپ حضرات نے میرے متعلق بہت کچھ لکھا ہے۔ لیکن میں جواب الجواب کے طور پر کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ خیر اختلافات رکھنا برا نہیں بشرطیکہ ہم لوگ پر خلوص ہوں۔
’نظام‘ کبھی ملتا ہے کبھی نہیں۔ آپ کے بعض اڈیٹوریل تو بہت تکلیف دہ تھے لیکن بعض پسند آئے۔ آپ ترقی پسند ی کو بھی تقسیم کرنا چاہتے ہیں توپھر میں نہ جانے کس کے حصے میں پڑوں گا، اور پڑوں گا بھی یا نہیں۔ آپ ملت کی حکومت چاہتے ہیں اور میری عقل حیران ہے۔ آپ حضرات کا جوش وخروش نودولتوں اور مذہب بدلنے والوں کا سا ہے۔ یہ کارواں کہاں جائے گا۔ میں نے دو مختصر مضامین حال ہی میں لکھے تھے۔ ایک ’نیا دور‘ کراچی میں شائع ہورہا ہے۔ دوسرا ’نقوش‘ میں۔ میری خواہش ہے کہ آپ اور عسکری صاحب اس کے متعلق اپنے تاثرات سے مجھے آگاہ کریں۔ لیکن طعن و طنز کا نہیں، صحیح تنقید کا متمنی ہوں۔ یقین رکھئے کہ ہندوستان یا ہندوستان کے ادیب پاکستان کے دشمن نہیں ہیں۔ وہ کسی کے دشمن نہیں ہیں۔ لیکن پاکستان جس طرح بنا ہے اس کی وجہ سے آپ خود مشکوک ہیں اور پریشان ۔ آپ کے یہاں خود یہ کانٹا کھٹکتا ہے کہ جو کچھ ہوا اچھا نہیں ہوا۔ لیکن آپ آج محب وطن اور وفادار بن کر نہ جانے کیا کیا کہہ رہے ہیں۔ مجھے احساس ہے کہ آپ اور عسکری صاحب دونوں خامکار اور پر جوش ہیں لیکن یاد رکھئے ابھی آپ رد عمل کے ایک شدید دور سے گزریں گے۔
حسن عسکری صاحب سے تسلیم کہئے گا۔ ناشر نے ’آخری سلام‘ بھیج دیا ہے۔ پڑھ لوں تو اپنی رائے بھیج دوں گا۔ ابھی پڑھا نہیں۔ ترجمہ یقینا اچھا ہی ہوگا۔ امید ہے کہ آپ لوگ اچھے ہوں گے۔‘‘
نیاز مند
احتشام حسین
احتشام حسین صاحب بڑے معتدل تھے لیکن دوسرے ترقی پسند اس رویے سے کوسوں دور تھے۔ انجمن کے اجلاس میں منٹو کے بائیکاٹ کے بعد بقول ’’انتظار صاحب پارٹی نے رجعت پسند ادیبوں کا حقہ پانی بند کردیا تھا۔ باقاعدہ ناموں کا اعلان کیا گیا کہ فلاں فلاں ادیب ترقی پسند رسالوں میں نہیں چھپیں گے ۔ مزید اعلان کیا گیا کہ سرکاری اور غیر سرکاری رجعت پسند رسالوں کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ کوئی ترقی پسند ان سے قلمی تعاون نہیں کرے گا۔‘‘
اس زمانے کے ادبی ماحول میں لاہور سے تین رسالوں کی بڑی دھوم تھی۔ ’سویرا‘ اور ’ادب لطیف‘ تو پوری طرح قائم تھے۔ ’نقوش‘ ابھی ابھی نکلا تھا۔ تینوں ترقی پسند ادب کے ترجمان تھے اور ترقی پسند جم کر اس میں کوس لمن المکی بجا رہے تھے۔ مکتبۂ جدید کی جانب سے منٹو اور عسکری کی مشترکہ ادارت میں نکلنے والے رسالے ’اردو ادب‘ کا بھی ڈنکا بج رہا تھا۔ دراصل یہی وہ رسالہ تھا جس کے پہلے شمارے کی اشاعت کے بعد ترقی پسندوں اور منٹو کے درمیان کبھی نہ ختم ہونے والے اختلاف نے حتمی شکل اختیار کرلی تھی۔ ’اردو ادب‘ کے دو ہی پرچے نکلے مگر بڑی دھوم دھام سے۔ پہلے پرچے کی اشاعت کے بعد ہی منٹو اور عسکری سمیت چند رجعت پسند ادیبوں کا بائیکاٹ ہوچکا تھا چنانچہ اس کے دوسرے شمارے میں منٹو نے احمد ندیم قاسمی کے اس خط پر ’حقہ پانی بند‘ کی سرخی جمائی جس میں یہ اطلاع تھی کہ اب منٹو پر ترقی پسندوں کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند ہیں۔
’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ میرا وہ خط جو میں نے کوئٹہ سے لکھا تھا، اپنے رسالہ ’اردو ادب‘ میں شائع کررہے ہیں، میرے اس خط کی اشاعت روک لیں، جب میں نے آپ سے افسانہ طلب کیا تھا، تو ہماری انجمن (انجمن ترقی پسند مصنّفین) نے ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کررکھی تھی کہ وہ رسالے جنہیں ترقی پسند ادب کی نمائندگی کا دعویٰ ہے ، ایسے ادیبوں کی تحریریں شائع نہ کریں جنہیں ترقی پسند ادب کی تحریک سے اتفاق نہیں، اب یہ فیصلہ ہوچکا ہے اور میں انجمن کے منشور، آئین اور فیصلوں کا پابند ہونے کے باعث یہ نہیں چاہتا کہ میرا وہ خط پڑھ کر ہماری تحریک کے ہمدرد الجھن میں پڑ جائیں، امید ہے آپ میرا وہ خط روک لیں گے اور اگر ایسا ناممکن ہوا تو یہ خط بھی شائع کردیں گے۔ شکریہ!‘‘
انقلاب کی بات کرنے والا منٹو اب خود نام نہاد انقلابیوں کے ہاتھوں معتوب ہوچکا تھا۔ ترقی پسند وں سے منٹو کا یہ اختلاف انقلاب کی روح کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری تھا۔ اگر منٹو غالی ترقی پسندوں کی طرح سوچتا تو آج حالات اس موافق نہ ہوتے سلیم احمد نے درست لکھا ہے کہ ’’ ۳۶ء کی تحریک نے اپنے زمانے کے ’حاضرو موجود‘ سے بغاوت او ر زندگی کے غیر تخلیقی اسلوب کی نفی کی جو بنیاد ڈالی تھی اس کے جھوٹے پیغمبروں کا حشر ہمارے سامنے ہے۔ حالات سے ابتدائی پسپائی کے بعد ان میں سے بیشتر اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہیں اور اس ماحول سے سمجھوتہ کرچکے ہیں جس کو رد کرنے کے لئے اس تحریک نے انقلاب کا نعرہ بلند کیا تھا۔ دراصل اس تحریک نے صرف تین ہی سچے پیغمبر پیدا کئے۔ میراجی، منٹو اور عسکری ‘‘ اور ان تینوں کے بارے میں ترقی پسندوں کا سرکاری نظریہ یہ تھا کہ سماج اور معاشرے کے تعلق سے ان کا رویہ نیک نہیں ہے۔
اگر منٹو صرف ایک طرح کا، صرف نیک یا صرف بد ہوتا تو بڑی خطرناک چیز ہوتا۔ اس کے یہاں بہت سی باتیں بالکل ان مل بے جوڑ ہیں اور اس کی فطرت کا یہ ان مل بے جوڑ پن ہی اس کے افسانوں میں ٹھوس تخلیقی تجربے کی شکل میں ظاہر ہوا ہے۔ اس کے کردار بیک وقت فرشتہ بھی ہیں اور شیطان بھی۔ یعنی یہاں دہشت اور رجائیت ایک دوسرے کو کاٹتی نہیں بلکہ ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ انسان کا قتل کئے چلے جانا ہولناک چیز ہے لیکن اس سے بھی زیادہ دہشت ناک عمل یہ ہے کہ لوگوں کویہ فکر بھی لاحق ہو کہ کہیں خون سے ریل کا ڈبہ نہ گندہ ہوجائے۔ تقابل اور تضاد سے پیدا ہونے والی یہ معنویت انسانی زندگی کے متعلق ہمارے استعجاب اور تحیر میں بے پایاں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ منٹو کے یہاں غیر معمولی واقعات قدم قدم پر ہوتے ہیں لیکن اس کے افسانوں کی بڑائی ان غیر معمولی واقعات کے درمیان اچانک در آنے والی کسی معمولی بات میں چھپی ہوتی ہے۔ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی واقعات یا افعال ہمیں چونکانے میں کامیاب نہیں ہوتے لہٰذا فنکار کو بالکل معمولی اور روز مرہ کی سی باتوں سے مددلینی پڑتی ہے۔ معمولی باتوں سے چونکانے کے اس عمل کو بعض لوگ منٹو کی شعبدہ بازی سمجھ بیٹھے ہیں جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ عسکری صاحب نے درست کہا تھا کہ ’’ایسے لوگوں کو بیس سال سے منٹو پر یہی اعتراض رہا ہے کہ منٹو تو بس ایسی باتیں کرتا ہے جس سے لوگ چونک پڑیں۔ شاید یہ کوئی غیر شریفانہ یا غیر ادیبانہ بات ہو ۔ لیکن میں نے جو تھوڑا بہت ادب پڑھا ہے اس سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کو چونکانا ادیب کا ایک مقد س فریضہ ہے۔‘‘
اب رہا یہ سوال کہ منٹو نے ہمیں چونکانے کے بعد انسانی فطرت یا بڑے بڑے معاشرتی مسائل کے متعلق تفکر پر کتنا اکسایا تو اس کے لئے آپ ہتک، کالی شلوار، کھول دو، بو، ٹھنڈا گوشت، نیا قانون اور بابو گوپی ناتھ جیسے افسانے پڑھ لیں۔ کیا ان افسانوں کو پڑھنے کے بعد زندگی کے متعلق ہمارے شعور میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، کیاان افسانوں سے گذرنے کے بعد حقیقت کے متعلق ہمارے محدود تصور میں وہ گھنا پن نہیں آتا جو آدمی کے جسمانی ،ذہنی اور اخلاقی اعصاب کو یک لخت زندہ کردے۔
منٹو کے یہاں چونکانے کا عمل دراصل انسانی معنویت اور انسانی صداقت کی تلاش کا دوسرا نام ہے۔ میں یہاں منٹو کو بودلیر اور فلوبیر سے بھڑانا نہیں چاہتا لیکن منٹو نے کیا وہی جو فرانسیسی میں ان دونوں بدنام لوگوں نے کیا تھا۔ بودلیر نے اپنی شاعری اور فلوبیر نے مادام بواری کے ذریعہ متوسط طبقہ کو جس طرح چونکایا تھا اس کی نظیر اردو میں منٹو کے علاوہ کہیںاور نظر نہیں آتی۔ منٹو کا ایک ادبی اصول ہی یہ تھا کہ عام لوگوں کو چونکایا جائے۔ چونکنے کو وہ شخصیت کی نشوونما کے لئے ضروری سمجھتا تھا اس کا خیال تھا کہ جس شخص کے اعصاب زندہ ہوں وہ چونکنے سے گھبراتا نہیں اور بقول عسکری صاحب ’’جو آدمی دوسروں کو چونکانا چاہے اس میں پہلے خود چونکنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ جس شخص کے جسمانی ذہنی اور اخلاقی اعصاب زندہ نہ ہوں وہ کسی کو کیا چونکائے گا۔ ننگی کیا نہا ئے گی کیا نچوڑے گی ۔ ‘‘ منٹو نے اپنے آپ کو زندہ رکھا تھا بہت ہی خطرناک حد تک زندہ ہمارے یہاں بہت سے لوگ منٹو کو ادبی دیانت داری کے حوالے سے کیا کچھ نہیں کہتے لیکن اب آپ منٹو کی اس دیانت داری کا حال عسکری صاحب کی زبانی سنئے یہ اقتباس میں نے بیسویں دفعہ پڑھے ہیں اور ہر بار منٹو کو سوچتے وقت ایک تھرتھری سی محسوس کی ہے:
’’منٹو شرابی تھا، جو کچھ بھی تھا وہ سب کو معلوم ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن اخلاقی طہارت کی جیسی دھن منٹو کو تھی ویسی میں نے کسی اور میں نہیں دیکھی، وہ باہر سے رند تھا اندر سے زاہد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گونا صح کبھی نہیں بنا۔ یہ اخلاقی طہارت وہ اپنے اندر بھی ڈھونڈتا تھا، اور دوسروں میں بھی۔ بہت سے افسانے جو بعض لوگوں کو فحش معلوم ہوئے دراصل اس کی اسی طہارت پسندی کے نمونے ہیں۔ اسی طرح بعض افسانوں میں چند حضرات کو پاکستان کی مخالفت نظر آئی، حالانکہ اس میں منٹو نے ٹھیٹ اسلامی دیانت داری اور اس اخلاقی احتساب کا مظاہر کیا تھا جس کا استعمال وہ اوروں پر ہی نہیں، اپنے آپ پر بھی کرتا تھا۔ پھر آزادی فکرو احساس کچھ ایسی اس کی گٹھی میں پڑی تھی کہ یہ میسر نہ ہو تو وہ سانس نہیں لے سکتا تھا۔ ہزاروں روپئے کی آمدنی پر لات ما رکر ہندوستان سے چلا آیا اس لئے کہ وہاں ’ڈان‘ اس کے پڑھنے کو نہیں مل پاتا تھا۔ یہ وہ اخبار ہے جس نے منٹو کی زندگی میں اسے دو دو کالم لمبی گالیاں دیں۔ اس کی کتابوں کی ضبطی کا مطالبہ کیا، اور اس کے مرنے کے بعد افسوس کا ایک لفظ نہ لکھا۔ شرابی اور آوارہ منٹو کا وہ حال تھا ’باطل سے نہ دبنے والوں‘ کا یہ حال۔ ہمارے ملک میں منٹو کی جس طرح قدر دانی ہوئی وہ ہماری تہذیبی زندگی کا ایک خونی ورق ہے۔ پھر آج جس طرح منٹو کی مجاوری ہورہی ہے وہ بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ اگر مجھ میں منٹو جیسی جرأت ہوتی تو میں ’سیاہ حاشیے‘ کا دوسرا حصہ لکھتا۔‘‘
منٹو کے اخلاقی احتساب کا ہی یہ کرشمہ ہے کہ اس کے افسانوں کا انسان اپنے افعال و اعمال کے ذریعے ہمیں ہر وقت جگائے رکھتا ہے۔ انسان بحیثیت ظالم، انسان بحیثیت مظلوم، انسان بحیثیت تماش بین ،لیکن ان انسانوں کو پیش کرتے وقت منٹو کا کمال یہ ہے کہ اس نے سچ اور جھوٹ کا جھنجھٹ ہی نہیں پالا۔ وہ تو انسان کو ایک کل کی حیثیت سے اپنی تمام دہشت ناکی اور رجائیت کے ساتھ بیک وقت محسوس کرنا چاہتا تھا۔ اس معاملے میں اس کی معروضیت ہمیں دو ستو فسکی کی یاد دلاتی ہے جو اپنے کرداروں کو دور کھڑے رہ کر ناخن تراشتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ عسکری صاحب نے منٹو پر لکھتے ہوئے اس سلسلے میں بڑی عمدہ بات کہی تھی کہ ’’ منٹو نے نیک اور بد کے سوال ہی کو خارج از بحث قرار دے دیا ہے ان کا نقطۂ نظر نہ سیاسی ہے، نہ عمرانی، نہ اخلاقی، بلکہ ادبی اور تخلیقی، منٹو نے تو صرف یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ ظالم یا مظلوم کی شخصیت کے مختلف تقاضوں سے ظالمانہ فعل کا کیا تعلق ہے ، ظلم کرنے کی خواہش کے علاوہ ظالم کے اندر اور کون کون سے میلانات کار فرما ہیں، انسانی دماغ میں ظلم کتنی جگہ گھیرتا ہے، زندگی کی دوسری دلچسپیاں باقی رہتی ہیں یا نہیں۔ منٹو نے نہ تو رحم کے جذبات بھڑکائے ہیں ، نہ غصے کے، نہ نفرت کے ، وہ تو آپ کو صرف انسانی دماغ ، انسانی کردار اور شخصیت پر ادبی اور تخلیقی انداز سے غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔‘‘
منٹو نے عام انسانوں کی زندگی ان کے تصور کائنات اور لائحۂ حیات کا گہرا مشاہدہ کیا ہے۔ کم سے کم اس وقت تو مجھے کسی ایسے آدمی کا نام یاد نہیں آرہا ہے جس نے ہمارے یہاں مشاہدے کے ذریعہ حاصل ہونے والی بصیرت کو اتنی خوبی سے اپنے افسانوں میں منتقل کیا ہو جو منٹو کا خاصہ ہے۔ منٹو کو عام انسانوں کی معمولی معمولی باتوں کا تجزیہ کرنے میں بڑا مزہ ا ٓتا ہے۔ وہ انسانوں کو اپنی تمام تر خواہشوں اور حماقتوں کے ساتھ پیش کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا انسان کسی دوسری دنیا کی مخلوق نہیں بلکہ اسی دنیا کا باسی معلوم ہوتا ہے۔ ہم اس کے ساتھ انسانی سطح پر معاملہ کرسکتے ہیں اس کے ساتھ کچھ وقت گذار سکتے ہیں اور اس کے تجربات میں اپنا عکس دیکھ سکتے ہیں۔ ’نیا قانون ‘میں انسانی حماقتیں اس کی خدائی معصومیت اور خود کو دھوکہ دینے کی صلاحیت کا جس شدت سے اظہار ہوا ہے وہ نئے افسانے میں ’آنندی‘ کے علاوہ کہیں اور نظر نہیں آتا یا کم سے کم مجھے نظر نہیں آتا۔
جب استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھیڑ جانے کی افواہ سنی تھی تو اس نے گاما چودھری کے چوڑے کاندھے پر تھپکی دے کر مدبرانہ انداز میں پیشین گوئی کی تھی۔ دیکھ لینا چودھری، تھوڑے ہی دنوں میں اسپین میں جنگ چھڑ جائے گی۔ اور جب گاما چودھری نے اس سے یہ پوچھا تھا کہ اسپین کہاں واقع ہے تو استاد منگو نے بڑی متانت سے جواب دیا تھا۔ ولایت میں اور کہاں۔
—
استاد منگو نے سرپر سے خاکی پگڑی اُتاری اور بغل میں داب کر بڑے مفکرانہ لہجے میں کہا۔ یہ کسی پیر کی بددعا کا نتیجہ ہے کہ آئے دن ہندوئوں اور مسلمانوں میں چاقو اور چھریاں چلتے رہتے ہیں ۔ اور میں نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ اکبر بادشاہ نے کسی درویش کا دل دکھایا تھا اور اس درویش نے جل کر یہ بددعا دی تھی۔ جا تیرے ہندوستان میں ہمیشہ فساد ہی ہوتے رہیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دیکھ لو جب سے اکبر ادشاہ کا راج ختم ہوا ہے ہندوستان میں فساد پر فساد ہوتے رہتے ہیں۔
—
پہلی اپریل کو صبح سویرے استاد منگو اٹھا او ر اصطبل میں جا کر تانگے میں گھوڑے کو جوتا اور باہر نکل گیا۔ اس کی طبیعت آج غیر معمولی طور پرمسرور تھی۔۔۔۔۔۔۔ وہ نئے قانون کو دیکھنے والا تھا۔ اس نے صبح کے سرد دھندلکے میں کئی تنگ اور کھلے بازاروں کا چکر لگایا۔ مگر اسے ہر چیز پرانی نظر آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ آسمان کی طرح پرانی۔ اس کی نگاہیں آج خاص طور پر نیا رنگ دیکھنا چاہتی تھیں۔
—
پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ فوں ۔۔۔۔۔۔۔ پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ فوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ہمارا راج ہے بچہ! لوگ جمع ہوگئے اور پولس کے دو سپاہیوں نے بڑی مشکل سے گورے کو استاد منگو کی گرفت سے چھڑایا۔ استاد منگو دو سپاہیوں کے درمیان کھڑا تھا۔ اس کی چوڑی چھاتی پھولی ہوئی سانس کی وجہ سے اوپر نیچے ہورہی تھی۔ منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا اور اپنی مسکراتی ہوئی آنکھوں سے حیرت زدہ مجمع کی طرف دیکھ کر وہ ہانپتی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا۔ وہ دن گذر گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب نیا قانون ہے میاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیا قانون !
یوں منٹو کے تصور انسان اور افسانوں میں اس کی پیش کش کے علاوہ بھی بعض چیزیں ایسی ہیں جو اردو افسانے کو منٹو کی دین ہیں۔ فاروقی صاحب نے قمر احسن پر گفتگو کرتے وقت یہ بات کہی تھی کہ ’’نئے افسانے کی تاریخ کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ منٹو کے افسانے ’پھندنے‘ سے شروع ہوتی ہے۔ یہ افسانہ ۱۹۵۵ء میں لکھا گیا تھا لیکن ۱۹۵۵ء کے بعد بھی صدہا ایسے افسانے لکھے گئے ہیں (بلکہ آج بھی لکھے جا رہے ہیں) جن میں اور ’پھندنے‘ میں کوئی بات مشترک نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ’کفن ‘ اور ’پھندنے‘ دونوں افسانوں میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کا وجود ان کے پہلے افسانے میں نہیں ملتا۔‘‘ جس زمانے میں نئے افسانے کے نام پر صرف خام مواد پیش کیا جارہا تھا او ر افسانے میں نام نہاد حقیقت نگاری اور جذبات کی ریل پیل تھی اس وقت بھی منٹو کا رویہ بڑا تخلیقی تھا۔ منٹو کے اس تخلیقی رویے کا اظہار یوں تو اس کے بیشتر افسانوں میں ہوا ہے لیکن ’سیاہ حاشیے‘ کی منی کہانیاں اور وہ افسانے جو فسادات کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں اس میں یہ رویہ زیادہ طاقتور صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ’سیاہ حاشیے‘ کی چیزیں اور وہ افسانے جن میں کسی نہ کسی حوالے سے فسادات کا ذکر ملتا ہے اس کے متعلق یہ غلط فہمی بہت عام ہے کہ یہ افسانے فسادات کے موضوع پر ہیں۔ اس غلط فہمی کو پھیلانے میں ہمارے بعض ترقی پسند نقادوں نے جو زور صرف کیا ہے اس کے بھی کئی وجوہ ہیں ۔ اول تو یہ کہ کسی طرح ٹھونک پیٹ کر منٹو کو ترقی پسند چوکٹھے میں قید کیا جائے دوسری یہ کہ وہ ترقی پسند افسانہ نگار جنھوں نے فسادات کے موضوع پر دو چار افسانے لکھ کر انسانیت کے نام پر آنسو بہائے ہیں ان کی کمک کے لئے منٹو کا نام استعمال کیا جاسکے۔ جب کے حقیقت اس کے برعکس ہے منٹو کے افسانے فسادات پر ہیں ہی نہیں وہ تو انسانوں پر لکھے گئے افسانے ہیں۔ تخلیق کار منٹو فسادات پر لکھ بھی نہیں سکتا تھا۔ اسے خوب معلوم تھا کہ محض خارجی حالات اور واقعات کے بیان سے انسانوں کی داخلی زندگی کو نہیں بدلا جاسکتا۔ محض فرض سمجھ کر لکھنے کے بجائے منٹو نے تخلیق کی اندرونی لگن کو اہمیت دی تھی۔ ٹھنڈا گوشت، سہائے، گورمکھ سنگھ کی وصیت، کھول دو، شریف، موذیل، خدا کی قسم اور ’سیاہ حاشیے‘ کے منی افسانے محض چند مخصوص خیالات کی حمایت میں نہیں لکھے گئے اور نہ ہی یہ افسانے ظلم کے خلاف لوگوں میں نفرت پیدا کرنے کے لئے لکھے گئے ہیں۔ یہ افسانے تو اس حقیقت کا بیان ہیں کہ انسانی دماغ میں ظلم کرنے کی خواہش کتنی جگہ گھیرتی ہے ۔ ظلم کرنے والا ظلم کرتے وقت کیا کیا سوچ رہا ہوتا ہے اور اس کی سائیکی کن مراحل سے گذرتی ہے۔ ظلم کے نتیجے میں انسانی دماغ کس طرح معطل ہوتا ہے۔
گاڑی رکی ہوئی تھی۔
تین بندوقچی ایک ڈبے کے پاس آئے ۔کھڑکیوں میں سے اندر جھانک کر انہوں نے مسافروں سے پوچھا ۔’’کیوں جناب کوئی مرغا ہے۔‘‘
ایک مسافر کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ باقیوں نے جواب دیا ۔ ’’جی نہیں!‘‘
تھوڑی دیر کے بعد چار نیزہ بردار آئے۔ کھڑکیوں میں سے اندر جھانک کر انہوں نے مسافروں سے پوچھا ۔ ’’کیوں جناب کوئی مرغاورغا ہے۔‘‘
اس مسافر نے جو پہلے کچھ کہتے کہتے رک گیا تھا جواب دیا۔ ’’جی معلوم نہیں — آپ اندر آکے سنڈاس میں دیکھ لیجیے۔‘‘
نیزہ بردار اندر داخل ہوئے۔ سنڈاس توڑا گیا۔ تو اس میں سے ایک مرغا نکل آیا ۔ ایک نیزہ بردار نے کہا۔ ’’کردو حلال۔‘‘
دوسرے نے کہا ۔ ’’نہیں میاں نہیں۔ ڈبہ خراب ہوجائے گا — باہر لے چلو۔‘‘ (صفائی پسند)
کلونت کور نے تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا اور پوچھا: ’’ پھر کیا ہوا؟‘‘
ایشر سنگھ کے حلق سے بمشکل یہ الفاظ نکلے: ’’ میں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے پتا پھینکا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن‘‘ ۔۔۔۔۔۔ اس کی آواز دب گئی۔
کلونت کور نے اسے جھنجھوڑا : ’’ پھر کیا ہوا؟ ‘‘
ایشر سنگھ نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھیں کھولیں اور کلونت کور کے جسم کی طرف دیکھا جس کی بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی: ’’وہ ۔۔۔۔۔۔ وہ مری ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ لاش تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ بالکل ٹھنڈا گوشت ۔۔۔۔۔۔۔۔ جانی، مجھے اپنا ہاتھ دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘
کلونت کور نے اپنا ہاتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ پر رکھا جو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا تھا۔ (ٹھنڈا گوشت )
—
’’ میں نے اس کی شہ رگ پر چھری رکھی۔ ہولے ہولے پھیری اور اس کو حلال کردیا۔ ‘‘
’’ یہ تم نے کیا کیا؟ ‘‘
’’ کیوں ؟ ‘‘
’’اس کو حلال کیوں کیا؟ ‘‘
’’مزہ آتا ہے اس طرح۔‘‘
’’مزہ آتا ہے کے بچے، تجھے جھٹکا کرنا چاہیے تھا۔ اس طرح اور حلال کرنے والے کی گردن کا جھٹکا ہوگیا۔‘‘ (حلال اور جھٹکا)
—
’’نہیں میری بیٹی کو کوئی قتل نہیں کرسکتا ۔‘‘
’’ میں نے پوچھا — کیوں؟ ‘‘
بڑھیا نے ہولے ہولے کہا — ’’وہ خوبصورت ہے — اتنی خوبصورت ہے کہ اسے کوئی قتل نہیں کرسکتا۔ اسے طمانچہ تک نہیں مار سکتا ۔‘‘
میں سوچنے لگا — ’’ کیا وہ واقعی اتنی خوبصورت تھی۔ ہر ماں کی آنکھوں میں اس کی اولاد چندے آفتاب وچندے ماہتاب ہوتی ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ وہ لڑکی در حقیقت خوبصورت ہو۔ مگر اس طوفان میں کون سی خوبصورتی ہے جو انسان کے کھردرے ہاتھوں سے بچی ہے — ہوسکتا ہے پگلی اس خیال خام کو دھوکہ دے رہی ہو — فرار کے لاکھوں راستے ہیں — دکھ ایک ایسا چوک ہے جو اپنے ارد گرد لاکھوں بلکہ کروڑوںمسٹرکوں کا جال بن دیتا ہے۔
(خدا کی قسم)
—
’’میری آنکھوں کے سامنے میری جوان بیٹی کو نہ مارو ۔‘‘
چلو اسی کی مان لو — کپڑے اتار کرہانک دو ایک طرف۔‘‘ (رعایت)
—
اس کے حلق سے صرف اتنا نکل سکا: ’’ جی میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی میں اس کا باپ ہوں ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا، پھر لاش کی نبض ٹٹولی اور اس سے کہا کھڑکی کھول دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مردہ جسم میں جنبش ہوئی ،بے جان ہاتھوں نے ازار بند کھولااور شلوار نیچے سرکا دی
بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا : ’’زندہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بیٹی زندہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہوچکا تھا۔ (کھول دو)
—
پکڑ لو – پکڑلو – دیکھو جانے نہ پائے۔شکار تھوڑی سی دوڑ دھوپ کے بعد پکڑلیا گیا جب نیزے اس کے آر پارہونے کے لئے آگے بڑھے تو اس نے لرزاںآواز میں گڑگڑاکر کہا۔ مجھے نہ مارو- مجھے نہ مارو- میں تعطیلوں میں اپنے گھر جارہا ہوں۔ (ہمیشہ کی چھٹی)
—
’’ مرا نہیں — دیکھو ابھی جان باقی ۔‘‘
’’رہنے دو یار — میں تھک گیا ہوں۔‘‘ (آرام کی ضرورت )
—
ہماری قوم کے لوگ بھی کیسے ہیں — پچاس سور اتنی مشکلوں کے بعد تلاش کرکے اس مسجد میں کاٹے ہیں۔ وہاں مندروں میںدھڑا دھڑ گائے کا گوشت بک رہا ہے لیکن یہاں سور کا مانس خریدنے کے لئے کوئی آتا ہی نہیں! (آنکھوں پر چربی)
—
چھری پیٹ چاک کرتی ہوئی ناف کے نیچے تک چلی گئی۔ ازار بند کٹ گیا۔ چھری مارنے والے کے منہ سے دفعتاً کلمۂ تاسف نکلا۔
چ، چ، چ،چ —مسٹیک ہوگیا۔‘‘ (سوری)
عسکری صاحب نے جس زمانے میں ’فسادات اور ہمارا ادب‘ میں یہ لکھا کہ فسادات ادب کا موضوع نہیں بن سکتے تو کافی ہائے توبہ مچی اور لوگ یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ اب عسکری منٹو کو کہاں لے جائیں گے۔ لیکن جب عسکری صاحب کا مضمون ’منٹو فسادات پر‘ سیاہ حاشیے کے دیباچے کے طور پر سامنے آیا تو لوگوں کو ان کا جواب مل گیا۔ فسادات سے متعلق منٹو کے افسانوں کا محاکمہ کرتے ہوئے عسکری صاحب نے صاف لفظوں میں یہ بات کہی کہ ’’یہ افسانے فسادات کے متعلق نہیں ہیں، بلکہ انسانوں کے بارے میں ہیں۔ منٹو کے افسانوں میں آپ انسانوں کو مختلف شکلوں میں دیکھتے رہے ہیں۔ انسان بحیثیت طوائف کے، انسان بحیثیت تماش بین کے وغیرہ ان افسانوں میں بھی آپ انسان ہی دیکھیں گے، فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں انسان کو ظالم یا مظلوم کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اور فسادات کے مخصوص حالات میں، سماجی مقصد کا تو منٹو نے جھگڑا ہی نہیں پالا۔ اگر تلقین سے آدمی سدھر جایا کرتے تو مسٹر گاندھی کی جان ہی کیوں جاتی۔ منٹو کو افسانوں کے سماجی اثرات کے بارے میں نہ زیادہ غلط فہمیاں ہیں نہ انہوں نے ایسی ذمہ داری اپنے سر لی ہے جو ادب پوری کر ہی نہیں سکتا۔ سچ پوچھئے تو منٹو نے ظلم پر بھی کوئی خاص زور نہیں دیا انہوں نے چند واقعات تو ضرور ہوتے دکھائے ہیں ، مگر یہ کہیں نہیں ظاہر ہونے دیا کہ یہ واقعات یا افعال بنفسٖہ اچھے ہیں یا برے۔ نہ انہوں نے ظالموں پر لعنت بھیجی ہے نہ مظلوموں پر آنسو بہائے ہیں۔ انہوں نے تو یہ تک فیصلہ نہیں کیا کہ ظالم لوگ برے ہیں یا مظلوم اچھے ہیں۔‘‘
ظلم یا ظالم کے متعلق اپنے تاثرات اور تعصبات بیان کرنے کے بجائے منٹو کے افسانے انسانی قدروں کے زوال اور انسانی دماغ کے مکمل مفلوج ہوجانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کا بیان کرتے ہیں۔ یہی وہ خوبی بھی ہے جو منٹو کے افسانوں کو فسادات پر لکھے گئے دوسرے افسانوں سے ممتاز کرتی ہے ۔ عسکری صاحب نے درست لکھا ہے کہ فسادات پر لکھتے ہوئے منٹو کا رویہ ہی بدلا ہوا ہے ان کے مطابق ’’منٹو کے افسانوں میں انسان ہر وقت اور بیک وقت انسان بھی ہوتا ہے اور حیوان بھی۔ اس میں خوف کا پہلو یہ ہے کہ انسانیت کے احساس کے باوجود انسان حیوان بننا کیسے گوارا کرلیتا ہے اور تسکین کا پہلو یہ ہے کہ وحشی سے وحشی بن جانے کے بعد بھی انسان اپنی انسانیت سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔ منٹو کے ان افسانوں میں یہ دونوں پہلو موجود ہیں۔ خوف بھی اور دلاسا بھی۔‘‘
منٹو کوئی قاضی، مفتی، محتسب یا چوکیدار تو تھا نہیں کہ انسانوں کے اچھے برے ہونے کا فیصلہ کرتا پھرتاا س نے انسانوں کو مصفا و منزہ اور معصوم بنانے کی کوشش نہیں کی۔ انسان جس حیثیت سے اس کے تجربے میں آتے گئے اس کا بیان اس نے اپنے افسانوں میں نہایت ہی طاقتور طریقے سے کیا ہے۔ ایک انسان کے اچھے یا برے ہونے کا معاملہ دراصل اتنا پیچیدہ ہے کہ آسانی سے اس کے مضمرات کو واضح بھی نہیں کیا جاسکتا۔ منٹو کو اس حقیقت کا ادراک تھا یہی وجہ ہے کہ اس کے افسانوں میں بیسویں صدی کا انسان اپنی ساری روحانی مایوسیوں ، مجبوریوں، معذوریوں اور حسرتوں کے ساتھ اپنی شکست کا منظر دیکھنے کے لئے موجود ہے۔ منٹو کے افسانے ان معنوں میں محض افسانے نہیں بلکہ اپنے دور کی سماجی او ر اخلاقی تاریخ میں ایک دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ منٹو کے افسانوں میں اگر کوئی طوائف / انسان سماجی نظام اور وقت کے جبر کا شکار ہوتا ہے تو یہ ناکامی صرف ان تک محدود نہ رہ کر زندگی کے اس نظام کی شکست میں ظاہر ہوتی ہے جس میں ہم اور آپ سانسیں لے رہے ہیں۔
منفی عناصر کی موجودگی میں بعض لوگوں کو منٹو سے یہ شکایت ہے کہ ان کے افسانے اخلاقی اعتبار سے انحطاطی ہیں پتہ نہیں یہ لوگ یونانی فلسفیوں اور بودلیر کی شاعری کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہوں گے جس نے کہا تھا کہ میں بچے ابال بال کر کھاتا ہوں ۔ نام نہاد اخلاقیات کا دعویٰ کرکے منٹو کے افسانوں کو جس طرح مطعون کیا گیا اس سے ہمارے ذہنی اضمحلال کا پتہ چلتا ہے۔ اصل میں منٹو کے یہاں معمولی اخلاقیات سے یکسر کنارہ کشی کا رجحان ایک نئی اخلاقیات ڈھونڈنے کی کوشش سے عبارت ہے اور یہ کوشش منٹو کو اکیسویں اور بیسویں صدی کے بڑے فن کاروں کے درمیان لا کھڑا کرتی ہے۔ صنعتی دور کے بڑے فنکاروں کے اخلاقی رجحانات کے تعلق سے عسکری صاحب نے یہ بات کہی تھی کہ :
’’ان فنکاروں کے روحانی مسئلے اور ان کی بیزاری اپنی جگہ پر مسلم، لیکن اب ایک خالص فنی مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ اخلاقی معیار چھوڑنے کو تو چھوڑ دئیے جائیں کوئی بات نہیں، لیکن کسی نہ کسی معیار کے بغیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ معیار شعوری ہو یا غیر شعوری، اس سے بحث نہیں۔ فن پارے کی تخلیق کس طرح ممکن ہے ؟ فن پارے کے اجزا اور کل کے درمیان، اور اس طرح فن پارے اور اس سے متاثر ہونے والے آدمی کے درمیان کسی نہ کسی طرح کا تعلق، کسی نہ کسی طرح کا رشتہ تو ہونا ہی چاہئے اور ان رشتوں کا کوئی معیار بھی لازمی ہے یہ مسئلہ نفسیاتی کیا معنی حیاتیاتی بھی بن سکتا ہے لیکن فی الحال فنکار کے نقطۂ نظر سے دیکھتے ہوئے ہم اسے ایک بہت بڑا فنی مسئلہ کہیں گے۔ یہ مسئلہ یوں حل ہوا کہ فن برائے فن کا نظریہ وجود میں آیا۔ یہاں بھی میں بڑے زور شور سے اس بات سے انکار کروں گا کہ یہ نظریہ اخلاقی حیثیت سے انحطاط پرستانہ ہے۔ میں اوپر دکھا آیا ہوں کہ معمولی اخلاقی تعلقات فنکار کے لئے کس طرح ناممکن ہوگئے تھے۔ یہ نظریہ اخلاقیات سے یکسر کنارہ کشی نہیں ہے بلکہ فن اور فنکار کے لئے ایک نئی اخلاقیات ڈھونڈنے کی کوشش ہے۔‘‘
ٍ گویا نئے فنکار بشمول منٹو کے یہاں اخلاقیات کے معنی محدود نہیں بلکہ ان میں بڑی وسعت ہے۔ منٹو حالات کا لحاظ کئے بغیر ہر مروجہ اخلاقی قانون کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔ وہ رابوں کی طرح اخلاقیات کو دماغ کی کمزوری تو نہیں بتاتا لیکن اخلاقیات کے مروجہ معیار کو بجنسہٖ قبول کرنے سے انکاری ہے۔ منٹو کے اندر خود نئی اخلاقی اقدار فراہم کرنے کی کتنی سکت موجود تھی یہ ایک الگ بحث کا موضوع ہے لیکن اپنے بعض افسانوں میں اس نے نیک کو بد اور بد کو نیک سمجھ کر جو تجربے کئے ہیں، وہ اسی نئی اخلاقی حقیقت تک پہنچنے کی ایک لڑکھڑاتی ہوئی سی کوشش ضرور ہے۔
صبح سویرے جب وہ اُٹھ کر بالکنی میں آتی تو ایک عجیب سماں نظر آتا۔ دھندلکے میں انجنوں کے منہ سے گاڑھا گاڑھا دھواں نکلتا اور گدلے آسمان کی جانب موٹے اور بھاری آدمیوں کی طرح اٹھتا دکھائی دیتا۔ بھاپ کے بڑے بڑے بادل بھی ایک شور کے ساتھ پڑیوں سے اٹھتے اور آنکھ جھپکنے کی دیر میں ہوا کے اندر گھل مل جاتے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ گاڑی کے کسی ڈبے کو جسے انجن نے دھکا دے کر چھوڑ دیا ہو، اکیلے پٹریوں پر چلتا دیکھتی تو اسے اپنا خیال آتا۔ وہ سوچتی کہ اسے بھی کسی نے زندگی کی پٹری پر دھکا دے کر چھوڑ دیا ہے اور وہ خود بخود جارہی ہے، دوسرے لوگ کا نٹے بدل رہے ہیں اور وہ چلی جارہی ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ جانے کہاں؟ پھر ایک روز ایسا آئے گا جب اس دھکے کا زور آہستہ آہستہ ختم ہوگا اور وہ کہیں رک جائے گی، کسی ایسے مقام پر جو اس کا دیکھا بھالا نہ ہوگا۔ (کالی شلوار)
منٹو دراصل اس حقیقت کو جانتا تھا کہ نیکی اور بدی جیسے اخلاقی تصورات سے متعلق ہمارے یہاں جو خیالات متداول ہیں وہ ایک زمانے سے چلے آرہے ہیں اور ان کا تعلق زیادہ تر اس سماجی نظام سے ہے جو اندر سے مکمل ہم آہنگ تھا۔ اب جب زمانہ بدل چکا ہے اور صورت حال وہ نہیں جو آج سے دو سو سال قبل ہم آہنگی اور توازن کے زمانے میں تھی تو نئی حقیقتوں کو دریافت کرنے کے لئے منٹو نے چیزوں کو اُلٹ پلٹ کر دیکھنا شروع کیا۔ اس کام کے لئے اسے جس چیز کی قربانی سب سے پہلے دینی پڑی وہ اس کے نیک جذبات تھے۔ پتہ نہیں منٹو نے اندرے ژید کو پڑھا تھا یا نہیں لیکن اس معاملے میں وہ ژید کا ہم نوا نکلا۔ ژید کا مشہور بلکہ رسوائے زمانہ جملہ ہے:
نیک جذبات سے صرف برا ادب پیدا ہوتا ہے
عسکری صاحب کے مطابق ’’ اس بیان سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کہ ژید فن کار کو نیکی سے بالکل بے نیاز ہوجانے کا مشورہ دیتا ہے بلکہ اسے کہنا یہ ہے کہ معاشرے کا اندرونی توازن بگڑ چکا ہو، مگر نیک و بد کا تصور وہی چلا آرہا ہو جو مکمل ہم آہنگی اور توازن کے وقت تھا، تو ایسا تصور فن کار کو صحیح تخلیق میں مدد نہیں دے سکتا۔ کیونکہ اس کا کام نئی حقیقتوں کی دریافت بھی ہے۔ بالکل انہیں معنوں میں بودلیر نے شیطان کو جلا وطنوں کا عصا اور موجدوں کا چراغ کہا ہے۔ اگر آپ کو نئے اخلاقی معیار ڈھونڈنے ہیں تو مروجہ معیاروں کو بجنسہ قبول نہیں کرسکتے اس کے لئے تو بعض وقت نیک کو بد اور بد کو نیک سمجھ کر تجربہ کرنا پڑے گا کہ حقیقت کیا ہے۔‘‘
دراصل انیسویں صدی میں نوآبادیاتی اقتدار کے بوجھ تلے گردن کو جھکائے ہمارے بعض ناقدین نے ادب کو چند احکام کا پابند بنانے کی کوشش کی تھی انہوں نے ادب سے جو مطالبے کئے اس میں جذبات ، اصلیت اور افادیت پر اتنا زور دیا گیا کہ آنے والے زمانے میں کیا شاعری اور کیا نثر ہر چیز کو اسی چھلنی سے چھانا گیا۔ اس تثلیث کے پہلے رکن یعنی جذبات نے تو وہ دھماچوکڑی مچائی کہ ہر کوئی اپنے کچے پکے جذبات کے سہارے ادب تخلیق کرنے کا دعویدار ہوا۔ جذبات تنظیم بھی چاہتی ہے اس کی انہیں نہ تو فکری تھی اور نہ ہی اتنی مہلت۔ وہ تو بس مولانا حالی کی بنائی ہوئی ایک نئی شریعت پر عمل کرنا جانتے تھے۔ ان پر عمل کرنا ان کے لئے یوں بھی آسان تھا کہ دل پر چوٹ کھا کر کچھ نظمیں اور کچھ افسانے تو لکھے ہی جاسکتے ہیں۔ خدا شکر خورے کو شکر ہی دیتا ہے کہ مصداق انہیں قاری بھی میسر آگئے لیکن ان تمام معاملات میں جس چیز کا حال سب سے زیادہ پتلا ہوا وہ ادب تھا۔ عسکری صاحب نے درست کہا تھا کہ ’’حالی تک کو یہ شکایت پیدا ہوئی کہ ہمارے ادب کا بہت بڑا حصہ جذبات سے خالی ہے۔ اگر یہ ادب جذبات سے خالی ہے تو کیوں؟ اس میں جذبات کی جگہ اور کیا ہے؟ جذبات کی کمی کے باوجود یہ ادب واقعی ادب ہے یا نہیں؟ ان سوالوں پر حالی کی نسل نے کبھی غور نہیں کیا۔ جو سوال مسٹر مکالے کے ذہن میں پیدا نہیں ہوسکا وہ ان بیچاروں کے ذہن میں کہاں سے آتا۔‘‘ ترقی پسندبھی چونکہ مولانا حالی کی ہی نسل کی کڑی تھے اور جس طرح کا کام وہ ادب سے لینا چاہتے تھے اس میں جذباتیت سے بڑی امیدیں تھیں لہٰذا یہاں بھی جذبات کی ریل پیل ہے۔ منٹو چونکہ ایک بڑا ادیب تھا اور خالص جذبے کی کمزوریاں اس پر عیاں تھی لہٰذا اکثر وہ ذہن کو جذبات سے الگ کرکے اشیا اور خیالات کو مجرد شکل میں برتنے پر بھی قادر تھا منٹو نے جذبات سے پیچھا چھڑایا اور ترقی پسندوں نے اس سے۔ اس کھینچا تانی میں منٹو کا تو کوئی نقصان نہیں ہوا لیکن ترقی پسندوں کو ایک بڑے فنکار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اب انقلاب پسند منٹو کا راستہ بالکل الگ تھا اور وہ اپنے مضمون ’گناہ کی بیٹیاں گناہ کے باپ‘ میں اپنے کمیونسٹ ساتھیوں کے بارے میں اس طرح کی رائے بھی دینے پر مجبور تھا۔ (اتفاق سے اس کا یہ مضمون علی احمد فاطمی صاحب کی کتاب ’کامریڈ منٹو‘ میں بھی شامل ہے)
’’مجھے نام نہاد کمیونسٹوں سے بڑی چڑتھی۔ وہ لوگ مجھے بہت کھلتے تھے جو نرم نرم صوفوں پر بیٹھ کر درانتی اور ہتھوڑے کی ضربوں کی باتیں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ چاندی کی لٹیا سے دودھ پینے والا کامریڈ سجاد ظہیر میری نظروں میں ہمیشہ ایک مسخرہ رہا۔ محنت کش مزدوروں کی صحیح نفسیات کچھ ان کا اپنا پسینہ ہی بطریق احسن بیان کرسکتا ہے۔ اس کو دوات کے طور پر استعمال کرکے، اس کے پسینے کی روشنائی میں قلم ڈبو ڈبو کر گرانڈیل لفظوں میں منشور لکھنے والے ہوسکتا ہے بڑے مخلص آدمی ہوں ۔ مگر معاف کیجیے میں اب بھی انہیں بہروپیے سمجھتا ہوں۔‘‘
Leave a Reply
Be the First to Comment!