شمیم احمد شمیم ؔبحیثیت خاکہ نگار

محمدیاسین گنائی

کشمیر، انڈیا

7006108572

                شمیم احمد شمیمؔ ۱۹۳۴ء میں ضلع شوپیان کے ناسنور علاقے میں مولوی محمد یعقوب کے گھر میں پیدا ہوئے تھے۔ان کے دادا مولوی محمد عبداللہ وکیل نہ صرف ناسنور بلکہ پورے کشمیر میں غلام احمد قادیانی کے پیروکار اور الہ کار تھے اور مولوی محمد یعقوب نے ہی جرت کرکے اہلِ شوپیاں اوراہل کشمیرکواپنے والد کی کافرانہ چالوں اور قادیانی جالوں سے پہلی بار باخبر کیا تھا،جس کے سبب ان کو گائوں سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا تھا اور بڑی مشکلات میں ضلع شوپیان میں ڈھیرا ڈالنا پڑنا تھا۔شمیم احمد شمیمؔ نے اس واقعہ کا ذکر خود ان الفاظ میں کیا ہے:

’’شمیمؔ کی پیدائش کا سانحہ سرینگر سے چالیس میل دور ناسنور نامی گائوں میں آج سے تیس برس پہلے وقوع پذیر ہوا۔ناسنور ،مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروں کی ایک بستی ہے۔جہاں ہر بچہ پیدا ہوتے ہی قادیانی ہوجاتا ہے۔اسی لئے شمیم صاحب اس دنیائے آفرینش میں قدم رکھتے ہی دنیائے آخرت کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔

یعنی قادیانی ہوگئے اور چار پانچ برس کی عمر میں ہی انہیں نے قرآن مجید،احادیث اور روایات کے اس اسلحہ سے لیس کیا گیا،جس سے مرزا صاحب کے مسیح موعود ثابت کرنے کی جنگ لڑی جاسکتی تھی۔گیارہ برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے شمیم صاحب اچھے خاصے مولوی ہوگئے۔پابندِ صوم صلواۃ،متقی،پرہیز گار وغیرہ وغیرہ‘‘۔(شیرازہ،شمیم نمبر،ص:۵۶۹،۵۷۰)

 انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گائوں سے حاصل کی تھی ۔اسکولی سطح پر ان کے ہم اسکول مشہور محقق محمد یوسف ٹینگ رہے ہیں۔دونوں اگرچہ اسکول کے پروگراموں اور لائبریری میں ساتھ ساتھ ہوتے تھے لیکن دونوں الگ الگ جماعت میں پڑھتے تھے۔محمد یوسف ٹینگ کا کہنا ہے کہ دونوں لائبریری کی کتابوں کو بڑے شوق سے پڑھتے تھے اور دونوں کو فیضؔ کی شاعری اور پریم چند کی کہانیاں پڑھنے کا شوق عشق کی انتہاتک تھا۔طالب علمی کے زمانے میں ٹینگ صاحب اور شمیم صاحب نے ڈراما’’تیس مار خان‘‘’جو روزنامہ زمیندار پاکستان میں شائع ہواتھا‘ کو اسکول میں اسٹیج ڈرامے کے طور پر پیش کیا۔محمد یوسف ٹینگ نے ہیروئین اور شمیم احمد نے ہیرو کا رول ادا کیا تھا۔یوں ٹینگ صاحب جیسے محقق کی وضاحت سے صاف ہوتا ہے کہ شمیم احمد بچپن سے ہی ذہن اورہونہار طالب علم تھا۔انہوں نے محمد یوسف ٹینگ کے ساتھ مل کر شوپیان میں ’’ینگ بوائز ایسوسی ایشن‘‘بھی قائم کی تھی،جس کی مجالس میں شیخ محمد عبداللہ نے بھی شرکت کی تھی۔شمیم احمد نے پہلے بچوں کے شاعر شفیع الدین نیر کے اثر سے نیرؔ تخلص رکھا تھا لیکن بہت جلد اپنا تخلص شمیمؔ اختیار کیا۔حالانکہ شمیم کو شاعری کے مقابلے نثر سے زیادہ دلچسپی تھی۔محمد یوسف ٹینگ نے شمیم احمد شمیمؔ کے جذبہ مطالعہ اور عشقِ فیض کے بارے میں لکھا ہے:

’’شمیمؔ کو پڑھنے کا خصوصاً فیضؔ کی شاعری پڑھنے کا اس حد تک شوق تھا کہ ایک دن رسالے میں فیضؔ کی نئی غزل شائع ہوئی تھی،شمیم نے اپنی Zoology کی نصابی کتاب کم قیمت پر بیچ کر وہ رسالہ خریدا‘‘۔(شیرازہ،شمیم نمبر،ص:۲۵۲)

شمیمؔ نے سرینگر سے ہی میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا اور بعد میں سری پرتاپ کالج سے ایف ایس سی کرنے کے بعد بی ایس سی میں داخلہ لیا تھا لیکن دو بار امتحان میں ناکامی ملی تھی۔یہاں نہ صرف فاروق عبد اللہ ان کے ہم جماعت تھے بلکہ شمیم کو رسالہ’’پرتاپ‘‘کے اردو سیکشن کا مدیر بھی بنایا گیا تھا۔ان کے ابتدائی مضامین اسی رسالے میں شائع ہوئے تھے۔خصوصاً غالبؔ شکنی سے تعبیر کیا جانے والا تنقیدی مضمون’’ہم سُخن فہم ہیں‘‘ ۔یہ مضمون’’پرتاپ‘‘ کے شمارہ د سمبر ۱۹۵۳ء میں شائع ہواتھا۔ پروفیسر محمد طیب صدیقی نے اس مضمون کے بارے میں لکھا تھا کہ:

’’کلام غالبؔ اور جناب غالبؔ پر ایک تنقیدی حملہ ہے جو جارحانہ ہونے کے ساتھ ساتھ وحشیانہ بھی ہے‘‘۔(شیرازہ،شمیم نمبر ،ص:۲۶۵)

عظمت ِغالب سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے۔ان کی فکر اور فلسفیانہ خیالات کی چاشنی ان کے اشعار،خطوط اور قصائد میں بخوبی نظر آتی ہے۔اس مضمون میں غالب ؔ،غالب پرستوںاور غالبؔ شناسوں کے بارے میں شمیم احمد نے تنقیدی وار کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’غالب پرستوں نے جذبہ عقیدت سے اثر پذیر ہوکر غالبؔ کو ایک آئیڈیل(IDEAL)

شخصیت بنا دیا ہے۔اس کی شکل وصورت ،عادات وفضائل اور کردار پر کچھ اس انداز سے حاشیہ آرائی کی گئی ہے کہ غالبؔ کی سوانح حیات سے واقفیت نہ رکھنے والے قاری کو وہ ایک فرشتہ سیرت،وجیہہ صورت،مکمل اور جامع شخصیت نظر آتے ہیں۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مرزا کی جو عام تصاویر ملتی ہیں،ان کو دیکھ کر اُنہیں خوبصورت کہنا جمالیاتی ذوق کی توہین اور پرے درجے کی بدمذاقی ہے۔جہاں تک اُن کی سیرت کا تعلق ہے،میری رائے میں اُن کی سیرت میں کوئی ایسی غیر معمولی خصوصیت نہیں ہے،جو اُنہیں عام انسانوں سے ممتاز کرسکتی ہو‘‘۔(شمیم نمبر،ص:۲۶۶)

ایس پی کالج میں شمیمؔ کے خاص استاد اور دوست پروفیسر نصر اللہ تھے،جن کی بدولت شمیم احمد کو ادبی مجالس میں شرکت کرنے اور کچھ سنانے کا موقع ملاتھا۔انہوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ۱۹۵۶ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی(ماہنامہ گگن،ہندوستانی مسلمان نمبر،ص:۲۲۸) اور بعدمیں۱۹۶۳ سے ۱۹۶۵ء تک ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی تھی ۔ خود شمیم ؔکے مطابق وہ یہاں اشتراکیت کے بہت قریب ہوتے گئے اور یہاں ان کے مراسم خلیل الرحمان اعظمی سے بھی پیدا ہوئے تھے۔علی گڑھ کی فضا اور یہاں کے اثرات کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ علی گڑھ جانے سے پہلے وہ پاکستانی تھے اور علی گڑھ کی فضا نے مجھے اشتراکی بنا دیا۔ ان کا انتقال عین شباب میں ۴۵ سال کی عمر میں ۱۹۸۰ء میں ہواتھا۔وہ ایک موذی بیماری کے شکار ہوئے تھے اور اس سلسلے میں بمبی اور امریکہ میں بھی علاج کرایا تھا۔ان کے وفات پر اختر انصاری نے لکھا ہے کہ’’اچھے شاعر تو جوانی میں مرا کرتے ہیں‘‘(شیرازہ،شمیم نمبر،ص:۱۵۶)

                شمیم احمد شیم کے مذہبی اعتقادات اوراشتراکیت سے متاثر ہونے کوایک طرف رکھ کر ان کی ۴۵ سالہ زندگی کا جائزہ پیش کرتے ہوئے حیرت ہوتی ہے کہ اتنی کم عمر میں کیسے ایک عام انسان سیاست،صحافت اور ادب تینوں نگارخانوں میں کامیاب ہوسکتا ہے اور کامیابی بھی ایسی کہ دشمن پر سانپ سونگھ جائیں اور دوست بھی دامن بچا بچا کر چلیں ،کہ کہیں شمیم ؔ کی بے باکی اورخوداعتمادی ہم کوبھی نہ ڈوب کر لے جائے۔ان کی سیاست،صحافت اور ادبیت تینوں کا منبع دراصل ان کی آزاد خیالی،نڈر اوربے باک ہونا ہی ہے اور سچ کہیں تو اگران کا انتقال ۴۵ سال میں نہ ہواہوتا تو وہ ضرور جموں وکشمیر کے وزیر اعلیٰ بنے ہوتے۔

                شمیم احمد شمیم ریاست جموں وکشمیرکے سب سے باشعور اور پختہ گو خاکہ نگار ہیں ۔اشتراکیت کے علمبردار ناقد احتشام حسین نے ان کے خاکوں کو تاثراتی خاکوں کا نام دیا ہے۔انہوں نے ’’آئینہ نما ‘‘ کا ’’شخصیات نمبر‘‘ ۱۹۶۹ء میں شائع کیا تھا ،جس میں کل ۳۴ شخصیات کے خاکے شامل ہیں۔حالانکہ انہوں نے اس سے زیادہ خاکے تحریر کیے ہیں جو آئینہ کے مختلف شماروں میں بکھرے پڑے ہیں۔شمیمؔ خود ایک سچے،بے باک،ایماندار اورحاضر جواب انسان تھے اور یہی خوبیا ں ان کے خاکو ں میں بھی نظر آتی ہے۔وہ اپنی خاکہ نگاری اور خاکہ کے فن کے ضمن میں لکھتے ہیں:

’’یہ خاکے نہ سوانح حیات کا درجہ رکھتے ہیں اور نہ عدالتی فیصلوں کا۔ان میں افراد کے کارناموں سے زیادہ ان کی شخصیت اور کردار کی نمایاں خصوصیات کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن کو میری نگاہ میں ان کے عناصر ترکیبی کی حیثیت حاصل ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں میری پسند اور ناپسند کا بڑا عمل دخل رہا ہوگا۔۔میں نے جو کچھ لکھا ہے،ایمانداری سے لکھاہے۔لیکن ایمانداری بھی ایک اضافی قدر ہے اور اس لئے مجھے اس کا دعویٰ نہیں کہ ہر فرد کے متعلق میری رائے بالکل صحیح اور میرا تجربہ بالکل ایماندارانہ ہے۔ہوسکتا ہے کہ بعض شخصیات کے بارے میں ،میں نے ذہنی تشدد کا مظاہرہ کیا ہو۔اس کے بہت سے سیاسی اور نفسیاتی اسباب ہیں‘‘‘‘۔(شیرازہ ،شمیم نمبر،ص:۸۸)

 ان کے تحریر کردہ اہم خاکوں میں’’ شیخ محمد عبداللہ،خواجہ غلام محمد صادق،مرزا افضل بیگ،مولانا مسعودی،سید میر قاسم،سید میرک شاہ،مختار صاحب،مولانا فاروق،زُتشی صاحب،تب جی،شیو نرائن فوطیدار،کارصاحب،موتی لال مصری صاحب،بنسی نردوش،محی الدین حاجنی ،دینا ناتھ نادم،غلام رسول سنتوشی،عبدالقادر دیوان،شمیم صاحب‘‘

وغیرہ قابل ذکر ہیں۔خاکہ نگاری میں عام پر زیادہ زور حلیہ اور شخصیت پر دیا جاتا ہے لیکن شمیمؔ کے یہاں زیادہ زور طنز ومزاح اور حقیقت نگاری پر نظر آتا ہے۔اگرچہ متعدد خاکوں میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ شخصیت کو مسخ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن جلدی ہی قلم سنبھل کر ان کے اوصاف بیان کرنے لگ جاتے ہیں۔خلیق انجم ’جن کی نظر تنقید کے ساتھ ساتھ خاکہ نگاری پر گہری ہے‘ نے ان کی خاکہ نگاری کے بارے میں لکھا ہے:

’’شمیم صاحب نے جن لوگوں کے خاکے لکھے ہیں۔ان کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں سے تھا۔ان میں اہم اور غیر اہم سیاسی لیڈروں کے علاوہ سرکاری ملازم،صحافی اور ادیب سبھی طرح کے لوگ شامل تھے۔شمیم صاحب کی یہ کوشش تھی کہ وہ ایسے لوگوں کے خاکے لکھیں گے جو سیاسی،سماجی اور ادبی زندگی میں اپنے لئے کوئی مقام بناچکے ہیںاور جو کشمیر کی سیاسی،سماجی،اقتصادی،تعلیمی اور ادبی زندگی کے بہائو کی سمت متعین کرتے ہیں۔یہ سمت منفی ہو یا مثبت‘‘۔(شیرازہ،شمیم نمبر،ص:۸۷)

اردو میں خاکہ نگاری کی روایت فرحت اللہ بیگ کے’’نذیر احمد کی کہانی کچھ اُن کی کچھ میری زبانی‘‘سے ہوئی تھی۔آج تک متعدد خاکہ نگار اور ان کے بہترین خاکے جیسے’’نام دیومالی(عبدالحق)،کندن(رشید احمدصدیقی)،مولانا محمد علی(عبدالماجد دریاآابادی)،آغا حشر(چراغ حسن حسرت)،ددزخی(عصمت چغتائی)،میراصاحب(منٹو)،باندی(ممتاز مفتی)وغیرہ منظر عام پر آئے ہیں ۔ٹھیک اسی طرحؔشمیم اور کشمیری خاکہ نگاروں کے قلم سے نکلا بہترین خاکہ وہی ہے جو شمیمؔ نے اپنے بارے میں’’شمیم صاحب‘‘ کے نام سے لکھا ہے۔اردو خاکہ نگاری میں جو اہمیت مولوی عبدالحق کے’’نورخان‘‘ کو حاصل ہے کچھ وہی اہمیت شمیم کے اس خاکہ میں ملتی ہے۔انہوں نے اپنی خوبیاں اور خامیاں بیان کرنے میں کسی لاج وشرم کا پردہ نہیں کیا ہے۔یہ ایک طنزیہ ومزاحیہ قسم کا خاکہ ہے،اس کا آغاز ان الفاظ سے کیا ہے:

’’وہ بڑا بے ایمان ہے‘‘

’’وہ ایک نمبر کا فراڈ ہے‘‘

’’وہ باتوں کا سودا گر ہے‘‘

’’وہ بڑا منہ پھٹ اور گستاغ ہے‘‘(آئینہ نما،جلد۲،ص:۱۷۰)

اس خاکے میں اپنے بارے میں سب کچھ ایمانداری سے کہا ہے اور خود کو سیاسی دنیا کا منٹو کہا تھا۔ادبی دنیا کے منٹو اور سیاسی دنیا کے منٹو میں یہ خوبی مشترک نظر آتی ہے کہ دونوں انسان،سماج،سیاست اور ہر چیز کے بارے میں بے باک انداز میں بات کرتے ہیں۔ ان کو کسی چیز کا ڈر اور لحاظ نہیں روک پاتا ہے۔جس طرح منٹو نے ہر چیز پر جارہانہ تنقید کی ہے،ٹھیک اسی طرح شمیم نے غالبؔ،حامدیؔ کاشمیری،فاروقؔ نازکی،کشمیر میں اردو زبان کا مستقبل وغیرہ پر شدید وار کیے ہیں۔منٹو اور شمیمؔ مرحم کے بجائے کریدنے پر یقین رکھتے ہیں،ان کا ماننا ہے کہ بیماری پر لحاظ کرنا بیماری کو پھلانے کے برابر ہے ،چاہیے وہ انسانوں کی بیماری ہویا سماجی ،معاشی یا سیاسی بیماری۔ان بیماریوں کو ہرحال میں ٹھیک کرنا لازمی ہے۔اپنے بارے میں شمیم صاحب لکھتے ہیں:

’’وہ سیاسی دنیا کا سعادت حسن منٹو ہے،جو چونکا دینے پر یقین رکھتا ہے۔آپ شمیمؔ سے نفرت کرسکتے ہیں،اس کو گالی دے سکتے ہیں،لیکن آپ اسے نظر انداز نہیں کرسکتے‘‘۔

(شمیم نمبر،ص:۱۷۳)

شمیم ؔکا تعلق چونکہ سیاست سے زیادہ قوی رہا ہے، لہٰذا انہوں نے سیاسی شخصیات کے خاکے زیادہ لکھے ہیں۔ان میں

سب سے اہم خاکہ ان کے سیاسی پیشوا اور مینٹر(Mentor) شیخ محمد عبداللہ کا ہے۔شمیم ؔاورشیخ عبدا للہ کا تعلق سیاست کے تیسرے پڑائو پر اُس وقت ہواتھا،جو باری باری بخشی او رصادق نے ان کوشہربدر وپارٹی بدر کیا تھا۔یہ شیخ عبداللہ کا ہی کارنامہ ہے جن کی وجہ ہے شمیمؔ لوک سبھا الیکشن میں کامیاب ہوئے تھے۔شیخ صاحب کے ساتھ شمیم ؔکے والدکے تعلقات بھی بڑے اچھے تھے۔بہرحال شیخ محمد عبداللہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’لیکن ایک بات جس پر ان کے دشمن سبھی متفق ہیں۔وہ ہے اُن کی حب الوطنی،اُنہیں کشمیر سے بے پناہ عشق ہے۔وہ کشمیر کی خاطر ساری دنیا کی بادشاہی کو بھی ٹھکرا سکتے ہیں اور اُن کی ساری زندگی اس عشق کی تفسیر ہے۔یہ اُن کی بہت سی کمزوریوں اور نامرادیوں کا منبع بھی ہے اور اُن کی بے پناہ قوت کا خزینہ بھی۔۱۹۳۱ء کی صبح سے لے کر ۱۹۶۹ء کی شام تک اُن کی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب کیجیے ، تو اندازہ ہوگا کہ اُن

کی ہر سانس کشمیر کے غم،اس کے دکھ درد اور اس کی خوشبو سے عبارت ہے اور یہی خصوصیت اُنہیں دیگر کشمیری رہنمائوں سے بلند اور ممتاز کردیتی ہے‘‘۔(آئینہ نما،شخصیات نمبر۲،ص: )

ان کی خاکہ نگاری کے حوالے اقبال انسٹی کشمیر یونیورسٹی کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر آل احمد سرور نے کیاخوب کہا ہے کہ’اُس کے خاکوں اور تبصروں کو جمع کیا جائے تو آج بھی وہ لطف سے پڑھے جائیں گے۔ان میں ایک انفرادی نظر،ایک ادبی حس،ایک رعنائی فکر ،خاصی نمایاں ہے‘۔ لطافت اور انفرادیت کی بات کریں تو آج چالیس سال بعد بھی ان کے خاکوں میں وہی تازہ گی اور شگفتگی نظر آتی ہے جوان میں پہلی بار اشاعت کے وقت نظر آتی ہے۔حالانکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تازگی میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہواہے۔شمیم احمد کے خاکوں میں طنز ومزاح کے عمدہ نمونے اور حاضر جوابی کی زندہ مثالیں ملتی ہیں۔ایک بار کسی نے شمیم ؔاحمد سے یوں ہی پوچھ لیا کہ’ آپ خود اپنیPUBLICITY کیوں کرتے ہیں۔شمیم احمد نے نہ غصّہ کیا اور نہ بُرا بلا کہا،البتہ نرمی اور ہنستے ہنستے یوں جواب دیا:

’’غریب آدمی ہوں،ملازم رکھ نہیں سکتا۔اس لئے یہ کام بھی خود ہی سنبھال لیا ہے‘‘(شیرازہ،شمیم نمبر،ص:۳۱۷)

ان کاصرف ایک خاکہ کسی خاتون یعنی ’’بہن جی‘‘ کے بارے میں ملتا ہے۔ادبی شخصیات کی بات کریں تو صرف ان ادبی شخصیات کا خاکہ لکھا ہے جو کسی نہ کسی طرح سیاست سے جڑے ہوئے تھے مثلاًدینا ناتھ نادم ،عزیز حاجنی، غلام رسول سنتوشی،بنسی نردوش،موتی لال مصری،پریم ناتھ بزاز،راجپوری صاحب،درصاحب وغیرہ ۔غلام احمد راجپوری سیاست،صحافت اور ادب تینوں سے جڑے ہوئے تھے ۔انہوں نے’’کشمیر میں سامراجی سازش‘‘ کے نام سے ایک کتاب یادگار چھوڑی ہے اور وہ ’’جہانِ نو‘‘کے نام سے ایک اخبار بھی نکالتے تھے۔ وہ بخشی دور میں منسٹر بھی رہ چکے ہیں۔شمیم احمد نے ان کی متنوع خوبیوں اور خامیوں کے حوالے سے ان کا خاکہ یوں کھینچا ہے:

’’وہ تیرہ سال کی عمر میں جماعت اوّل میں داخل ہوئے۔ان دنوں راجپورہ میں اس دور کے مشہور رئیس حسہ لال کا سکہ چلتا تھا،ان کی امارت،شان وشوکت اور دبدبہ سے متاثر ہوکر راجپوری کے دل میں بھی رئیس اعظم بننے کی خواہش کروٹیں لینے لگی۔لیکن رئیس بننا اتنا آسان نہیں،جتنا آسان انقلابی بننا ہے۔اس لئے راجپوری صاحب انقلابی ہوگئے۔بی اے پاس کرنے کے بعد وہ کچھ دیر صحرانوردی کرتے رہے۔اور اسی دوران میں ماکسزم میں انہیں حسہ لال کو ختم کرنے کی سبیلیں نظر آئیں۔اس لئے انہوں نے فکری طور پر یہ فلسفہ اپنالیا‘‘۔(آئینہ نما،جلد ۲،ص:۹۴)

یوں شمیم احمد نے اس خاکے میں راجپوری صاحب کے مشن اور مستقبل کا مکمل خاکہ پیش کیا ہے۔شمیم صاحب کے اسی طرزِتحریر اور انداز بیان سے لوگ بے صبری سے ان کے اخبار کا انتظار کرتے تھے۔ان کے خاکوں میں بقول عبدالحق ایسا جادو نظر آتا ہے جو قارئین کو نہ صرف سوچنے پرمجبور کرتے ہیں بلکہ قارئین کی دلچسپی برقرار رکھنے میں بھی کامیاب ہوتے ہیں۔ان کے خاکوں کی زبان پر بات کریں تو خالص ادبی زبان نظر آتی ہے،یہ الگ بات ہے کہ زیادہ تر خاکے سیاستدانوں کے بارے میں ہیں اور ان میں شخصیت کی عکاسی اور مزاحیہ انداز کے بجائے زیادہ زور طنز پر دیا گیا ہے۔طنز کی بھی اپنی اہمیت ہے لیکن ایسا طنز جس میں اکبر الہ آبادی،کہنیالال کپور،پطرس بخاری،رشید احمد صدیقی اور دیگر طنزومزاح نگاروں کی طرح تعمیری پہلو عیاں ہو۔عبدالغنی شیخ لداخی نے شمیمؔ کی تحریرکی جازبیت وادبیت کے حوالے سے لکھا ہے:

’’شمیم احمد شمیم کی تحریر کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ قارئین کو اپنے ساتھ بہالے جاتی ہے اور قائل کرتی ہے۔ان کے نظریات اور خیالات سے اختلاف کی گنجائش ہے لیکن وہ کسی بھی اختلافی اور متنازعہ مسئلے پرخامہ فرسائی کرتے تو اپنے طرزِ نگارش،اسلوبِ بیان،غیر معمولی استدلال،شوخیانہ انداز اور طنز وظرافت سے قاری کواپنا ہم نوا بنا دیتے‘‘۔(شمیم نمبر،ص:۱۸۸)

سیاست او رصحافت کے ساتھ شمیم صاحب نے خالص ادبی لوگوں کا بھی خاکہ کھینچا ہے۔انہوں نے جموں وکشمیرکے مشہور کشمیری زبان کے شاعر دینا ناتھ نادمؔ کا خاکہ بہترین انداز میں کھینچا ہے۔نادمؔ اور شمیمؔ میں حب الوطنی اور کیمونسٹ ہونے کے سبب اشتراک نظر آتا ہے۔نادم ؔ کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے اور کلچرل اکادمی سرینگر کے سکریٹری بھی رہ چکے ہیں۔جموں وکشمیر کے شعراء میں ان کی حیثیت چکبستؔ جیسی تھی اور وہ شاعری میں لل دید سے بہت حد تک متاثر نظر آتے ہیں۔ان کا خاکہ یوں کھینچا ہے:

’’نادمؔ شاید سارے کشمیری شاعروں میں واحد شخصیت ہے،جس کی جسمانی شباہت عام پیمانوں سے بڑھ کرہے اور جس کودیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی بڑے اہرام کے سامنے گزر رہے ہیں۔لمبے قد اور چکلے ہاڑ کا نادمؔ جو گردن تک بال رکھتا ہے،اپنی ظاہری شکل وصورت میں بڑا مرعوب کن ہے ۔کبھی وہ چین کے ماوزے تنگ کے فیشن کاکوٹ پہنتا تھا کیونکہ وہ چین جانے کے بعد اس کا بڑا گرویدہ ہوگیا تھا۔اس کے شاعرانہ ذہن کو مائو کی رومانی شخصیت نے متاثر کیا تھا‘‘۔(آئینہ نما،جلد ۲،ص:۱۱۴)

نادمؔ کی طرح ہی شمیم احمدنے مزید کچھ ادبی شخصیات کی ادبی سرگرمیوں کا خاکہ کھینچا ہے۔حاجنی صاحبکی ادبی خدمات سے کون واقف نہیں ہے ۔ان کی زندگی کا بڑا حصہ ادب کی خدمت میں گزرا ہے۔محی الدین حاجنی کو کشمیر کا حالیؔ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے’’کاشرمسدس حالی‘‘لکھی ہے اور’’کلیات مولوی صدیق اللہ، الف لیلہ کا کشمیری ترجمہ اور مقالات حاجنی‘‘بھی ان کی اہم کتابیں ہیں۔شمیم احمد نے ان کو ایس پی کالج کا اہم ستون گردانتے ہوئے لکھا ہے:

’’شاید حاجنی اورایس پی کالج کا رشتہ پچھلے جنم ہی سے طے ہوگیا تھا،کوئی نہیں جانتا کہ وہ ایس پی کالج میں کب آئے اور کیسے آئے۔امتدادِ زمانہ سے اب وہ ایس پی کالج کی عمارت کا ایک حصّہ معلوم ہوتے ہیں۔اس کی ایک چمنی کی طرح اس کے ہال میںلگی ہوئی کسی بنچ کی طرح اُن کو دیکھ کر یہ سوال ہی ذہن میں نہیں آتا کہ وہ ایس پی کالج کب آئے اور کیسے آئے۔۔۔حاجنی صاحب اس فانی دنیا میں روشنی کا مینار بن کر ایس پی کالج میں ڈٹے ہوئے ہیں۔روایت ہے کہ وہ حاجن کے رہنے والے ہیں اور ا س کی تصدیق اُس وقت ہوتی ہے جب سونا واری میں ہرسال سیلاب آتا ہے اور حاجنی صاحب اوڈین ہوٹل میں چاپ چاپ کی بلند آہنگ آواز کے ساتھ کباب کی کئی پلیٹیں صاف کرتے ہیں اور اپنی جائیداد کی تباہی کا رونا روتے ہیں‘‘۔(آئینہ نما،جلد۲،

ص:۱۱۹۔۱۲۰)

شمیم کے خاکوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان میں طنز ومزاح کے منفرد پہلونظر آتے ہیں۔حالانکہ اردو کے بہترین طنزیہ ومزاحیہ مضامین میں پطرس بخاری کا’’مرحوم کی یاد میں‘‘اولیت کا درجہ رکھتاہے لیکن بدقسمتی سے تعبیر کرتے ہوئے علاقائی ادب کے تحت کشمیری ناقدین ومحقیقین نے شمیم احمد کے طنزیہ ومزاحیہ مضامین کو عالمی سطح پرلانے کی افضل کوشش نہیں کی ہے۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو شمیم اردو کے بہترین طنزومزاح نگاروں میں شمار ہوتے۔اس کی ایک عمدہ مثال شمیم احمد کے قلم سے ۲۶ جنوری ۱۹۷۰ء کو تراشا ہوا ایک طنزیہ ومزاحیہ مضمون ہے ،جس میں شمیمؔ نے کشمیر کی سیاست اور یہاں کے سیاست دانوں کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔اسکا مطالعہ کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شمیمؔ احمد اگر مشق سخن سنجیدگی سے جاری رکھتے تو وہ کشمیرکے پطرس بخاری کہلانے کے مستحق ہوجاتے ہیں۔اس مضمون میں ریاست کو چڑیا گھر اورسیاستدانوں کو مختلف جانوروں سے مشابہت دیتے ہوئے لکھا ہے:

’’ریاستی چڑیا گھر کا سب سے دلچسپ اور قابلِ دید شعبہ وہ ہے کہ جس پر ریاست کی آمدن کا اکثر حصّہ صرف ہوتا ہے اور جسے وزیروں کا شعبہ کہتے ہیں۔بخشی صاحب نے اپنے دورِ اقتدار میں اس شعبے میں ہاتھی،گینڈے،گائے،بیل،گھوڑے اوربھیڑ جیسے کارآمد جانور جمع کررکھے تھے۔صادق صاحب نے چڑیا گھر کی رونق بڑھانے کے لئے بہت سے گدھے اور بندر بھی جمع کردئیے ہیں اور بچوں کا دل بہلانے کے لئے مسخروں کی خدمات بھی حاصل کی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ریاست کایہ چڑیا گھر سال کے چھ ماہ جموں میں عوام کی دلچسپی کا باعث بنا رہتا ہے اور اس لحاظ سے یہ دنیا کا واحد متحرک چڑیا گھر ہے۔بخشی صاحب اس بات کے لئے تعریف کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے چڑیا گھر میں ایک سے ایک نادر نمونہ جمع کررکھا ہے‘‘۔(شمیم نمبر،ص:۲۳۹)

اس مزاحیہ تحریر میں اگرچہ بخشی کے دور حکومت کا تمسخر اُڑایا گیا ہے لیکن مزاح کا جو لطف شمیمؔ نے پیدا کیا ہے وہ اپنا حسن برقرار رکھے ہوئے نظر آتا ہے۔طنز ومزاح کی یہی خوبی مانی جاتی ہے کہ ان میں مصنف کبھی کبھی اپنی ذات تک کاتمسخر اُڑاتا ہے اورحکومت کو طنز کانشانہ بنانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔پریم چند،اکبر الہ آبادی،فیض احمد،سرسید اور دیگر قلمکار حکومت کو اشاروں اور کنایوں میں نشانہ بناتے تھے لیکن شمیمؔ خود ایک منجھے ہوئے سیاستدان تھے،اور ان پر اس قانون کا لحاظ رکھنا ضروری نہیں تھا۔شمیم کو نہ گرفتاری کا ڈر تھا اورشہرِ بدر ہونے کی فکر،یہی وجہ ہے کہ وہ کھلے عام اپنی شکایات درج کرتے تھے۔شمیم احمد شمیم اپنے طنز ومزاح کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’وہ ہنسنے اور ہنسانے کے لئے کوئی نہ کوئی پہلو نکال ہی لے گا۔۔۔وہ دراصل چٹکیاں لے لے کر خود محظوظ ہونے کی کوشش کررہا ہے۔اسے معلوم ہے کہ یہاں کے لوگوں میں اب ہنسنے کی ہمت نہیں،اسی لئے خود رونی صورت بنا کر لوگوں کو رُلانا چاہتا ہے تاکہ پھر اُن کی حماقت پر وہ جی بھر کر ہنس سکے۔وہ انتہا درجے کا باتونی ہے‘‘۔(شیرازہ،م نمبر،ص۵۷۴)

 غرض شمیم احمد شمیم کی تحریریں آج بھی دعوت دے رہی ہے کہ ہمیں مختلف زائویوں سے پڑھنے او رسمجھنے کی کوشش کرو اور یہی دعوت ایک عام قاری کے ساتھ ساتھ سنجیدہ قاری کو بھی حیرت میں ڈالتی ہے کہ شمیمؔ جیسے قلمکار کو اردو زبان وادب میں وہ مقام نہیں مل پایا ہے جس کے وہ حقدار معلوم ہوتے ہیں۔ان کی صحافتی خدمات اور خاکہ نگاری پر الگ سے تحقیقی کام کرنے وسیع تر گنجائش ہے ۔میں پھر اپنے قول کو دہراتا ہوں کہ جب علاقائی ادب کی پذیرائی اور علاقائی شخصیات کی تشہیر میں اُس علاقے کی نوجوان نسل کام نہیں کرے گی تو دیگر علاقوں خصوصاً اردو کی پرانی بستیوں کے قلمکاروں کو کوئی سی تڑپ واحساس اس کی طرف راغب کرے گی۔کسی علاقے سے تعلق رکھنے والے قلمکاروں اور ریسرچ اسکالروں کا پہلا حق ہے کہ اپنی زبان کی حفاظت ہر حال میں یقینی بنائے اور دوسرا حق اپنے علاقے کے گمشدہ قلمکاروں،جوان مرگ قلمکاروں،مشہورقلمکاروں،علاقائی ادب،کلچر اور تہذیب کی اہمیت وافادیت سے عالمی سطح کے قارئین کو واقف کرائیں۔بہرحال شمیم جیسا بے باک صحافی،مزاحیہ وطنزیہ خاکہ نگار اور غیر جانبدار ناقد صدیوں میں ایک پیدا ہوتاہے۔اوربیسویں صدی کا یہ ادبی ہیرو ریاست جموں وکشمیر کے ضلع شوپیان میں پیدا ہواتھا۔

*****

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.