دردِ آدمیت کا زِندہ استعارہ:ڈاکٹرافتخار بیگ

ڈاکٹرعرفان پاشا

 اسسٹنٹ پروفیسرشعبہ اردو

یونیورسٹی آف ایجوکیشن،لاہور۔

فیصل آباد کیمپس

Cell. No. 0321-4758717, 0335-4758777

Email id: irfan.ahsan@ue.edu.pk

 pashajee4u@yahoo.com

ABSTRACT

                Pain and agony is a motif in the poetry of Dr. Iftekhar Shafi. His anthology named Dard Lafzon men Saans Leta Hay depicts many shades of pain, agony and sorrows of the saloew human beings of the modern times. His existantial approach confers these agonies uopn all human beings and like Mir Taqi Mir his subjective pain encompasses all his contemporary society.He has used different technics and styles to enhance the impact ofhis content. He is himself a living metaphor of the sufferings of humanity. In this way he becomes an important poet among the modernists. His vision of poetry is that of a creater ofthe 20th century. By all means of thought art and craft his poerty is worth reading and long lasting.

…………………………

کلیدی الفاظ:گلوبلایزیشن۔عالم گیریت۔افتخاربیگ۔موٹف۔درد۔

…………………………

                ڈاکٹر افتخار بیگ علمی حلقوں میں ایک باوقار اور سنجیدہ فکرعالم ،وجودی مفکراور فلسفی کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔اسی طرح تدریس کی دنیا میںایک طویل عرصہ گزارنے کے بعدجہاں ان کے کامیاب اورمختلف اعلامناصب پرفائز شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے وہیں انہیں اپنے شاگردوں کے سامنے پیر ومرشد کا سا مقام حاصل ہے۔ڈاکٹر افتخار بیگ نے اپنی زندگی کی طویل جدوجہد اورتجربات وفکریات کی جمع پونجی یعنی جدید طرز احساس کی حامل آزاد نظموں کو’’دردلفظوں میں سانس لیتا ہے‘‘کی صورت میںتسوید کیا ہے۔دکھ، درد انسانی زندگی کا لابدی حصہ ہے اوراس کا تعلق علاقے،رنگ یا نسل سے نہیں بلکہ یہ طبقاتی تقسیم سے بھی ماوراجذبہ ہے جس کا سامنا ہر انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پراورکسی نہ کسی حوالے سے کرنا ہی پڑتا ہے۔’’دردلفظوں میں سانس لیتا ہے‘‘ڈاکٹرافتخار بیگ کا ایسا مجموعہ ہے جو اسم بامسمٰی ہے۔دکھ کی ایک مستقل لہر ہے جو ہر نظم کے ہر مصرعے میں رواں محسوس ہوتی ہے۔ان نظموں کا پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے درد کو اپنی زندگی میںجھیلا ہے،اپنے روز مرہ میں برتا ہے اور اس کے ساتھ حیات بسر کی ہے اورغریب طبقوں اور درد سے جڑت کا یہی وہ ترقی پسند فلسفہ ہے جس کی ترویج میں انہوں نے عمر عزیز کا بیش تر حصہ گزارا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دکھ اور درد کی جو تصویر کشی ان کی نظموں میں کی گئی ہے اس کی نیو حقیقی تجربے پر اُساری گئی ہے۔یہ دکھ اور کرب شاعر کی زندگی میں بھی مسلسل جاری ہے اور ان کی شاعری میں بھی یہی ایک درد کا موسم ٹھہر گیا ہے:

 سارے موسم ہواؤں کے روٹھے رہے

 شہر جاں کی رتیں اجنبی ہوگئیں

 دل سے دل چھن گیا

 آنکھ سے آنکھ کے فاصلے بڑھ گئے

 میرا من پیار سے چور جلتا رہا

 سوچ ویراں رہی

 باد صرصر کی جولانیاں بڑھ گئیں

 میرے صحرا کی ویرانیاں بڑھ گئیں(اجڑے من کے موسم) ۱

                درد ایک موٹف(MOTIF) کی طرح ان کی شاعری میں ہر سو رواں دواں ہے۔موٹف وہ نظریہ یا خیال ہوتا ہے جو کسی ادب پارے میں بار بار دہرایا جائے۔بات کچھ بھی ہو گھوم پھر کر اسی دردیلے مرکز پر پہنچ جاتی ہے۔یہ درد کاایسا جال ہے جس سے کسی کے لیے بھی فی زمانہ مفر ممکن نہیں۔درد کے ساتھ زندگی بتاتے ہوئے درد اور زندگی ان کے ہاں لازم و ملزوم اور یک جان ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔’’میں اور زندگی‘‘کے نام سے لکھے ہوئے اپنے دیباچے میں ڈاکٹرافتخار بیگ اس کا اعتراف یوں کرتے ہیں:

’’میں نے زندگی کو کسی محبوبہ کی طرح چاہا اور محسوس کیا ہے مگر قدم قدم پر میرے جذبوں اور سوچوں کو شکستگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اندر سے ٹوٹنے والا فرد زمانے کی نظر میں کتنا بے وقعت اور اپنی ہی نظر میں کتنا رُسوا ہوتا ہے،یہ کچھ میں ہی جانتا ہوں۔‘‘۲

                ان کی نظموں کے بیش تر عنوانات ہی درد کی تجسیم کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔اردو شاعری میں درد کو بیان کرنے کی روایت بہت پرانی ہے اورہر شاعر نے اپنی شاعری میں درد کے مختلف پہلووں اورقسم ہا قسم کے احساسات کو بیان کیا ہے۔ڈاکٹر افتخار بیگ نے نظموں میں درد کی ہی مختلف شکلیں بیان کی ہیں جن میں کرب،دکھ، لاحاصلی،اجڑنا،نوحہ وغیرہ جیسے الفاظ سے نظموں کے عنوانات کا مزاج متعین ہوتا ہے۔ان کے عنوانات ہی پوری نظم کی پیش بینی کردیتے ہیں۔چند نظموں کے عنوانات دیکھئے:

گرد ہوتے ہوئے موسموں کا قصہ، بستی …بستی سے جنگل بنی کس طرح…؟،مرا کاسہ تو خالی ہے،سبھی مقسوم ہے ہمرا،محبت ہارنے کا نام ہے…؟،کرب مسلسل،کہاں ہے زندگی؟،لاحاصلی، جیون کا تہی دست خریدار،دیکھو…!میں مجبور بہت ہوں، ہماری آہوں کی آبرو کیا ہے، شکست جان کا جواز کیا ہے؟،اجڑے من کے موسم،بے اعتباریوں کی رت،نسل آدم سسک رہی ہے،عصر حاضر کا آخری نوحہ، مرے ہمراہیو…!منزلوں کے فسانے فسانے ہی تھے،یہ تاباں سویروں کا سستا سا سودا،میں کہوں بھی تو کیا…؟ اور کس سے کہوں …؟،مایوسی کے لمحوں میں،ہوائیں زہر میں لتھڑی ہوئی سی چلتی ہیں، میں جینا چاہتا ہوں،سارا جیون درد۔

                ان سب نظموں کے عنوانات کتاب کی عنوان کا تحتی بیانہ(SUBORDINATE NARRATIVE) معلوم ہوتے ہیں۔بالکل ایسے ہی جیسے ایک درخت کے تمام پھلوں میں شکل صورت،حجم اور ذائقے کی سانجھ پائی جاتی ہے ۔یا جیسے صنعت مراۃالنظیر میں ایک ہی چیز سے متعلق دیگراشیا،مظاہراور پہلوؤں کا ذکر آتا چلا جاتا ہے۔ان نظموں کا درد انسان کولامحالہ طور پرمایوسی اور بے دماغی میں مبتلا کردیتا ہے اوریہی وجہ ہے کہ ڈاکٹرافتخار بیگ میں میر تقی میر کا پرتو نظر آنا شروع ہو جاتا ہے:

 یہ گرد ہوتے ہوئے موسموں کا قصہ ہے

 میں ایک عمر سے بے کل ہوں

 درد سہتا ہوں…

 کبھی فسانہ پڑھوں … یا کہ نظم کوئی پڑھوں

 کسی غزل کی روانی ہو میر کا کھ ہو…

 کہیں پہ تاج محل ذکر میں جوآئے

 ………

 تمہاری آنکھیں مجھے ہر جگہ ستاتی ہیں

 یہ گرد ہوتے ہوئے موسموں کا قصہ ہے(یہ گرد ہوتے ہوئے موسموں کا قصہ )۳

                وجودیت ڈاکٹرافتخار بیگ کا پسندیدہ موضوع ہے ۔انہوں نے مجید امجد کی شاعری میں وجودیت کے عناصر پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی سند افتخار حاصل کی ہے۔وجودیت کے فلسفے سے اس گہری شناسائی کی بہ دولت ان کی نظموں میں بھی وجودیت کا گہرا پرتو نظر آتا ہے ۔ان کے نزدیک سب سے بڑا کرب اور سب سے بڑی مسرت وجود(EXISTANCE)ہی ہے۔انسانی زندگی کے تمام دھارے وجود کے ہی چشمے سے پھوٹتے ہیں اود مادی دنیا کی کل کائنات ایٹم کا ہی سپر سٹرکچر ہے۔جس میں انسان ہی شائد سب سے حقیر مخلوق ہے کہ وہ سوچنے سمجھنے کی اذیت اور کرب سے گزرتا ہے۔اشرف المخلوقات کی حیثیت اسفل السافلین سے بھی گئی گزری ہے اور وہ اپنے وجود (EXISTANCE)کو برقرار رکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہاہے لیکن ان کی سعی مشکور ہونے کے بجائے دن بہ دن مردود ہوتی چلی جارہی ہے۔ افتخار بیگ کے ہاں یہ وجودی تصور نارسائی اور حسرت سے مل کر دوچند ہوجاتا ہے:

 بہت سوچا تھا میں نے

 زندگی یوں کاٹ دوں گا میں

 مگر اس زندگی نے کاٹ کر قاشیں

 ہتھیلی پر مری رکھ دیں

 مرا جینا انہی قاشوں میں بٹ کر رہ گیا ہے

 مرا جیون دنوں کی قاش میں بدلا

 مرا ہنسنا،سمے کی کاش کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے

 سمے اور دن، مہینوں کی سبھی قاشیں

 کبھی واپس نہیں جڑتیں(لاحاصلی)۴

                ڈاکٹر افتخار بیگ کی نظمیں مابعد نوآبادتی تناظر بھی پیش کرتی ہیں۔پوسٹ کلونیل ازم اردو تنقید میںایک نسبتاً نیا زاویہ نظر ہے لیکن مابعد نوآبادیات کے اثرات کو ایک عرصے سے محسوس کیے جارہے ہیں۔نوآبادیات میں ایک سامراجی آقا کا خوف زبانوں پر قفل بندی کرتا تھا مگر پس نوآبادیاتی نظام میں بھی کالونیاں پوری طرح سے خود مختار نہیں ہوئیں۔ ان کی قسمت کا فیصلہ اب بھی ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا اور اب کی ان کی حیثیت کٹھ پتلیوں کی سی ہے جن کے ڈوریاں کہیں اور سے ہلائی جاتی ہیں۔ وہ نادیدہ قوتیں جو یہ سارا کھیل کھیلتی ہیں وہی ہیں جو نوآبادیات کے زمانے میں سرگرم تھیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب وہ قوتیں پس پردہ چلی گئی ہیں اور جمہور کواس سراب میں مبتلا کر دیا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں میں خود مختار ہیں جب کہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔عوام بھی اسی طرح بے بس اور بے حس ہیں:

 سارے سنتے ہے

 پر تمہارے لبوں کے قفل نہ کھلے

 کل کے دن لد گئے

 گنگ گلیوں میں میں…آج آیا ہوں پھر

 شہر والو…! اٹھو

 ایک ہی نعرہ’’ہو‘‘

 ایک ہی نعرہ’’ہو‘‘

 بولتے کیوں نہیں… جاگتے کیوں نہیں؟(بولتے کیوں نہیں)۵

                تکرار لفظی اگرمناسب انداز میں اور سلیقے سے کی جائے تو کلام کے معنوی ابعاد کو کثرتعطا کرتی ہے اور ظاہری حسن اورصوتی تاثرکو بھی دوچند کردیتی ہے۔تکرار لفظی کے ذریعے ڈاکٹر افتخار بیگ نے اپنے مصرعوں کو زیادہ جامع اور پرزور بنانے کی کامیاب سعی کی ہے۔لفظوں کی یہ تکرار جہاں ظاہری حسن پیدا کرتی ہے وہاں معنی کی گہرائی اورگیرائی میں بھی معتد بہ اضافی کرتی ہے۔

 ؎ دل سے دل چھن گیا

 آنکھ سے آنکھ کے فاصلے بڑھ گئے(اجڑے من کے موسم)۶

 ؎ آؤ یارو چلو …آج چوپال میں

 آؤ سارے چلو…میں کہانی کہوں …تم کہانی سنو(آج چوپال میں پھر کہانی کہیں)۷

                لفظوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے پورے پورے مصرعوں اور کئی مقامات پر تراکیب کی تکرار سے بھی شعری حسن کے ساتھ ساتھ اپنی بات میں زور پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اوروہ اس میں کامیاب بھی ٹھہرے ہیں۔ تراکیب اور مصرعوں کی یہ تکرارایک نغمگی اور لے کی حامل ہے جو ان نظموں کو زیادہ رواں اور سبکسار بنا دیتی ہے۔یہ ترنم ہی نظموں کی پڑھت کو زیادہ آسان اور مزے دار عمل میں تبدیل کرتی ہے اور پڑھنے والا نظم کے بہاؤ کے ساتھ اپنے آپ کو بہتا ہوا محسوس کرتا ہے۔یہ تکرار بلا وجہ نہیں بلکہ بہت معنی خیز ہے۔یہ تکرار مصرعوں میں اور آخر کار پوری نظم میں ایک ایسا جہان معنی تشکیل دیتی ہے جس سے پہلو داری پیدا ہوتی ہے اورمفاہیم کی کئی پرتیں کھلتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔مصرعوں کی تکرار کی چند مثالیں دیکھیں:

                ؎             ہوائیں رقص کرتی ہیں

 ہوائیں رقص کرتی ہیں (نفی اثبات کا قصہ)۸

                ؎             میں نہیں جانتا

 میں نہیں جانتا(بستی…بستی سے جنگل بنی کس طرح؟)۹

                ؎             تم بتاو مجھے

 تم بتاو مجھے(بستی…بستی سے جنگل بنی کس طرح؟)۱۰

                ؎             بتاو میں کہاں جاوں

 بتاو میں کہاں جاوں(لفظوں کا احتجاج)۱۱

                ؎             خدایا…!تیری ہر سو دھوم

 خدایا…!تیری ہر سو دھوم(خدایا…!تیری ہر سو دھوم)۱۲

                ڈاکٹرافتخار بیگ نے نظم کے کرافٹ کے ساتھ پورا انصاف کیا ہے اورآزاد نظم کی ہیئت استعمال کی ہے جو ان کے تخیل کے بہاؤمیں رکاوٹ نہیں بنتی بلکہ اس کے ساتھ ایک جوئے نرم رو کی طرح بہتی چلی جاتی ہے۔یہ رم انہیںقافیہ ردیف جیسی شاعرانہ جکڑ بندیوں سی آزادی فراہم کرتا ہے البتہ خود وہ کہیں کہیں مصرعوں میں ترنم پیدا کرنے کے لیے قوافی کا التزام کرتے ہیں لیکن یہ دوگام چلنے جیسا ہے جادہ منزل بنانے جیسا نہیں ہے۔قاسم یعقوب کا یہ کہنا بجا ہے کہ’’بیگ صاحب کے ہاںآزاد نظم کا وہ اسلوب حاوی دکھائی دیتا ہے جو نثری بیانیے کے قریب ہے۔ان کے ہاں بیانیے کی ایک قسم کہانی پن بھی ہے جو انہوں نے نظموں کی طوالت میں خوب برتا ہے۔‘‘ص۱۹

                رموز اوقاف ڈاکٹرافتخار بیگ کی نظموں کا ایک جزو لاینفک ہیں۔انگریزی میں اس کی بین مثال ایملی ڈکنسن کی شاعری ہے جس میں رموز اوقاف یا پنکچوئیشن کے استعمال نے اسے مزید بامعنی اورتہ دار بنا دیا ہے۔ڈاکٹر افتخار بیگ نے سب سے زیادہ علامت حذف(…) کا استعمال کیا ہے جو بات کے نامکمل رہ جانے کی دلیل ہے اور کچھ کہتے کہتے رہ جانے والی ان کہی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔انہوں نے مصرعوں کوکئی چھوٹے بڑے ٹکڑوں (CHUNKS)کی صورت میں ترتیب دیا ہے اور ان کو اس علامت حذف کے ذریعے آپس میں مربوط کیا ہے۔اس سے ان میں شعور کی رو (STREAM OF CONSCIOUSNESS) جیسی کیفیت در آتی ہے۔اس کے بعد دوسری بڑی علامت سوالیہ (؟)ہے۔یہ بھی ڈاکٹرافتخار بیگ کے ذہن میںاگنے والے سوالات کو الفاظ کی شکل دینے اور ان کا استفہامی لہجہ متعین کرنے میں معاون ہوتی ہے۔یہ سلسلہ ساری کتاب میں جاری و ساری رہتا ہے مگر یہاں صرف بہ خوف طوالت چند مثالوں پر ہی اکتفا کیا جائے گا:

                ؎             آدمی بھی ہے کیا

 من کی آواز پر…یہ لہکتا ہے کیا…؟

 گل کھلیں چار سو…یہ چہکتا ہے کیا…؟

 تتلیاں جب اڑیں …یہ ہمکتا ہے کیا…؟(جیون)۱۳

                ؎             یہ کہانی کے لمحے کہاں کھو گئے…؟

 آج کا رنگ پھر…کیا سے کیا ہوگیا؟

 تم کہاں سو گئے …؟

 تم کہاں سو گئے …؟(تم کہاں سو گئے)۱۴

                ڈاکٹرافتخار بیگ کی نظمیں ایک بڑے پیمانے پراستفہامی لب و لہجہ اختیار کیے ہوئے ہیں ۔پورے مجموعے میں ایسی نظمیں کم ہوں گی جن میں کوئی سوال نہ اٹھایا گیا ہو۔بہت سی نظموں کے عنوانات بھی سوالیہ ہیں۔ڈاکٹرافتخار بیگ کے ذہن میں اٹھ کر صفحہ قرطاس پر پھیلنے والے یہ سوالات اکیسویںصدی کی جدید دنیا کو درپیش مسائل اور اس میں فرد کی لاچاری اور بے کسی کا نوحہ ہیں،یہ سولات صرف ڈاکٹرافتخار بیگ کے نہیں بلکہ یہ موجودہ دور کے ہر آدمی کے سوالات ہیں جو اس کے مسائل کی کوکھ سے جنم لے رہے ہیں لیکن دکھ اور المیے کی بات یہ ہے کہ ان سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ذیل میں ان سوالات کی نوعیت دکھانے کے لیے بغیر کسی خاص تگ و دو کے چند نظموں کے مختلف مصاریع دیے گئے ہیں جو ان ہی سولوں سے لبریز ہیں اورعہد جدید کے فرد کے دماغ کا ادبی سی ٹی سکین پیش کرتے ہیں:

                ؎             کہ میں باتیں کروں…باتیں مگرکیا؟کون سی باتیں؟(ایک لیکچر جو کبھی نہیں دیا گیا)۱۵

                ؎             بتاؤ…میں کہاں ہوں؟

 کہاں جاؤں؟(لاحاصلی)۱۶

                ؎             ہمرے دل پہ کیا بیتے ہے؟

 تم کیا جانو؟(کرب مسلسل)۱۷

                ؎             پہیلی کون سمجھے گا(نیلاب کا افسوں)۱۸

                ؎             آخر کس کی خاطر جینا…؟

 یہ زہراب دکھوں کا پینا…؟   (خدایا…!تیری ہر سو دھوم)۱۹

                ؎             بولو تم کو کیا کہنا ہے…؟

 میں ہارا…

 تم جیتو گے کیا…؟

 تم ہارے…

 میں کب جیتوں گا…؟(محبت ہارنے کا نام ہے…؟)۲۰

                ؎             سمندر کس قدر پایاب ہے…؟(سمندر آب ہے اور آگ بھی ہے)۲۱

                ؎             یہ کہانی کے لمحے کہاں کھو گئے…؟

 آج کا رنگ پھر…کیا سے کیا ہوگیا…؟

 تم کہاں سو گئے…؟(تم کہاں سو گئے)۲۲

                ؎             میں کہوں بھی تو کیا…؟ اور کس سے کہوں…؟

 کون ہے جو بندھائے گا ڈھارس مری؟

 کون ہے…؟کون ہے…؟(میں کہوں بھی تو کیا…؟ اور کس سے کہوں…؟)۲۳

                ؎             مگر بتاؤ…؟

 کہاں تلک میرا ساتھ دوگے…؟(نسل آدم سسک رہی ہے)۲۴

                لسانی تشکیلات ترقی پسندوں کا خاصہ رہا ہے۔ڈاکٹر تبسم کاشمیری صاحب نے کتاب کے بیک ٹایٹل پر بالکل درست لکھا ہے کہ افتخار جالب اورڈاکٹر انیس ناگی نے جدید طرز احساس کے اظہار کے لیے لسانی تشکیلات کا عمل شروع کیا اور اپنے نئے خیالات کو پرانی کٹھالی میں ڈالنے کی بجائے اپنے لیے نئی زبان کا ڈول ڈالا[بیک ٹائٹل]۔ڈاکٹر افتخار بیگ بھی بائیں بازو کے سرخیل ہیں انہوں نے بھی اپنے جدید فکر کی تجسیم کے لیے زبان کا نیا کینڈا تراشا ہے جو کچھ کچھ کم آشنا ہونے کا باوجودمکمل طور پر اجنبی نہیں ہے۔ان کے نزدیک خیال زبان کا تابع نہیں بلکہ زبان خیال کی تابع ہے یہی وجہ ہے کہ جہاں انہیں نیا لفظ متشکل کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے یا موجود لفظوں کو نئی شکل میں ڈھالنے اور ان سے نئی معنویت نکالنے کا خیال آتا ہے وہ اس سے دریغ نہیں کرتے۔لسانی تشکیلات کی ضرورت اسی کو محسوس ہوتی ہے جو بہ قول غالب’’کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے‘‘ کا جویا ہو۔ڈاکٹر افتخار بیگ یقینا اپنے ہم نام(افتخار جالب )اور ان کی لسانی تشکیلات کی تحریک سے متاثر نظر آتے ہیں۔زبان کے روایتی ڈانچے کے ساتھ ڈاکٹر افتخار بیگ کی چھیڑ چھاڑ کی چندمثالیں دیکھئے:

                ؎             خدایا تونے کب اس زندگی کے درد

 سسکن اور جلن کو سہہ کے دیکھا ہے(مرا کاسہ تو خالی ہے)۲۵

                ؎             بجا ہم مان لیتے ہیں

 کہ ہم پہ جو بھی بیتی تھی وہی مقسوم تھاہمرا(سبھی مقسوم ہے ہمرا)۲۶

                ؎             گنگ بستی میں کوئی بھی ایسا نہ تھا

 شیریں لفظوں کی چھیاں جو دیتا اسے(کہاں ہے زندگی)۲۷

                گلوبلائزیشن کے اس دور میں جہاں مقامیت مٹ کر بین الاقوامیت کو جگہ دے رہی ہے ڈاکٹر افتخار بیگ کی یہ جدید نظمیں اس امر کی غماز ہیں کہ نئی فکر ،نئے اسلوب اور نئے لسانی ڈھانچے سے مملو یہ شاعری اردو ادب کا مستقبل ہے۔یہ جدید ادب کا چہرہ ہیں اور اردو دنیا کے لیے ایک نئے ذائقے کی مناد ہیں۔ہمیں پورا یقین ہے کہ یہ نظمیں طویل عرصے تک زندہ رہنے کے لیے منصہ شہود پرآئی ہیں۔

٭٭٭٭٭

حوالہ جات:

۱۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۴۰

۲۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۱۱

۳۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۲۳۔۲۴

۴۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۸۲

۵۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۳۹

۶۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۱۰۷

۷۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۴۳

۸۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۲۸

۹۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۳۰

۱۰۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۳۰

۱۱۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۳۴

۱۲۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۶۳

۱۳۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۹۴

۱۴۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۱۴۶

۱۵۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۸۵

۱۶۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۸۳

۱۷۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۷۲

۱۸۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۶۸

۱۹۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۶۰

۲۰۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۵۸۔۵۹

۲۱۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۱۵۱

۲۲۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۱۴۶

۲۳۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۱۴۲

۲۴۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۱۱۹

۲۵۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۵۱

۲۶۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۵۵

۲۷۔افتخار بیگ؛درد لفظوں میں سانس لیتا ہے؛مثال پبلشرز؛فیصل آباد؛۲۰۱۶؛ص۷۸

***

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.