امبیڈکرازم کے اثرات اردو ادب پر

ڈاکٹر اعظم انصاری

 اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہء اردو،خواجہ معین الدین چشتی لسان یونیور سٹی،لکھنؤ

Ambedkarism ke asarat Urdu adab par By Dr, Azam Ansari

                زمانہ قدیم سے ہمارا سماج چار طبقوں میں منقسم رہا ہے۔چوتھا طبقہ جسے شودر یا دلت کے نام سے جانا جاتا ہے،ہزاروں سال سے اس کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔انہیں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔انگریزوں نے جب ہندوستان پر قبضہ کر لیا توذات پات اور اونچ نیچ کے بھید بھائو کو ختم کرتے ہوئے سب کے لئے یکساں قانون بنایا تو دلتوں کے برابری کے دروازے کھل گئے۔۱۸۱۳ء ؁ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک حکم نامہ کے مطابق تعلیم کے دروازے سب کے لئے کھول دئے گئے۔ عیسائی مشنریوں نے دلت سماج کو ہندوئوں سے الگ سماج مان کرتعلیم یافتہ بنانے کا کام شروع کر دیا،لیکن اس کے لئے کوئی باقاعدہ اسکول نہیں کھولا تھا۔راجہ رام موہن رائے کی’ برہم سماج‘،گووند رانا ڈے کی’ پرارتھنا سماج‘،آتما رام پانڈورنگ کی’ دلت ادھار سمیتی‘،کشن بھا گو بنسوڑے کی’ سن مارگ بودھک اسپرشیہ سماج‘،وی آر شنڈے کی’ ڈیپریشڈ کلاسیز مشن‘ جیسی دوسری سماجی و مذہبی تنظیموں کے رہنمائوںاور اس سے جڑے دیگرلوگوں نے دلتوں کے مسائل و مصائب کو اپنی تحریروں و تقریروں میں جگہ دینا شروع کر دیا۔ ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر کے پیش رو مہاتما جیوتی با پھولے نے دلتوں کے اندر خودی کا احساس پیدا کرنے اور انہیں تعلیم یافتہ بنانے کے لئے ہندوستان میں دلتوں کے لئے پہلا اسکول مہا راسٹر کے پونا ضلع میں ۱۸۴۸ء؁ میں قائم کیا۔ انہوں نے دلتوں پر ڈھائے جانے والے جبر واستبداد کو عام ہندوستانیوں تک پہنچانے کے لئے۱۸۷۳ء؁ میں’غلام گیری‘ نام کتاب لکھ کر کارہائے نمایاں انجام دیا۔اس کتاب کو لکھنے کا مقصد ،زمانہ قدیم سے دلتوں کے ساتھ برتے جانے والے عدم مساوات اور غیر انسانی سلوک کو روکا جاسکے۔اپنے اس مشن کو آگے بڑھانے اور اسے مضبوطی عطا کرنے کے لئے انہوں نے دسمبر ۱۸۷۳ء؁ میں ستیہ سودھک سماج کی بنیاد ڈالی۔دکن کے نارائن گرو اور کیرل کے این کلی نے دلتوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے لئے اسکول کھولے،سوامی اچھوتا نند نے اچھوت مہاسبھا نام کی تنظیم قائم کی اور دلتوں کے حقوق و آزادی کے لئے تحریک چلائی۔ وی آر شنڈے کی کوششوں سے پہلی بار کانگریس نے۱۹۱۷ء ؁ کے کلکتہ اجلاس میں دلتوں کے مسائل کو پیش کیا گیا اور۱۹۲۰ء ؁ کے کلکتہ اجلاس میں جس کی صدارت کر رہے تھے دلتوں کے رفاہ عام کی چیزوںاب عام ہندوستانیوں استعمال کے لئے کھولی جاتی ہیں۔انگریزی سرکار کے ذریعہ ۱۹۱۰ء ؁ کی مردم شماری میں دلتوںکو ہندو سماج سے الگ تسلیم کر لیا گیا۔اس کے بعدانگریزی سرکار نے۱۹۲۳ء ؁ میں ایک قرار داد کو منظوری دی۔ اس قرارداد کو بمبئی ودھان سبھا اور مہاڑ نگر پالیکانے بھی اپنی منظوری دیدی ۔اس قرار داد کی رو سے اسکولوں، تالابوں، کنووں، مندروں،ہوٹلوں،دھرم شالوں،ریل گاڑیوںاور سڑکوں وغیرہ کو عام ہندوستانیوں کے استعمال کی اجازت دی جاتی ہے۔اسی قرارداد کو پیش نظر رکھ کر ڈاکڑ بھیم رائو امبیڈکر نے دلتوں کو انصاف و حقوق دلانے کیلئے سماجی بیداری کا علم بلند کیا۔

                دلت سماج کے لوگوں کو عام اسکولوں میں داخلہ کے لئے طرح طرح کی دقتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ۔بھیم رائو امبیڈکر کا اسکول میں داخلہ ایک انگریز افسر کی سفارش پر ہوا تھا ۔اسکول میں انہیں سنسکرت پڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔اسکول میں اشرافیہ طبقہ کے اساتذہ اور بچوں کے ذریعہ ان کے ساتھ غیرمساویانہ سلوک کیا جاتا تھا۔ بھیم رائو امبیڈکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے بیرون ملک بڑودہ کے ساہو جی مہاراج کی مدد سے گئے تھے ۔یہ ایک اقرارنامہ کے طور پر تھی اور اسی کے تحت۱۹۱۷ء؁ ؁ میں انہیں فوجی سکریٹری بنا یا گیاتھا ۔پندرہ مہینے کے بعد انہوں نے نوکری سے استعفیٰ دیدیاکیونکہ ان کے شعبے کے لوگ ان کے ساتھ ذات پات کے نام پربھید بھائو کا سلوک کرتے تھے۔ ۱۹۱۸ء؁ میںبڑودہ ریاست کے ’بمبئی سڈنیہم کالج‘ میں معاشیات کے لکچرر مقرر کئے گئے اور وہاں پر بھی ان کے ساتھ اسی طرح کا سلوک روا رکھا گیا ۔ بمبئی ہائی کورٹ میں وکالت کرتے وقت انہیں ذات کے نام پر چڑھایا جاتا تھا۔یہی غیر انسانی سلوک اور جبر واستبداد سہتے ہوئے ان کی شخصیت پروان چڑھی تھی جس نے انہیں باغی بننے ،دلت سماج کے اندر بیداری مہم چلانے اور ان کو سماجی،مذہبی ،سیاسی اور اقتصادی حقوق و آزادی دلانے کے لئے عملی طور پر کام کرنے کے لئے مجبور کر دیاتھا۔

                ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر نے دلتوں کے مسائل ومصائب کوانگریزی سرکا ر اور انسانیت پسند ہندوستانیوں تک پہنچانے کے لئے ۳۱؍جنوری ۱۹۲۰ء؁ کو ’موک نائک‘نام کا اخبار نکالنا شروع کیا۔یہ اخبار ساہو جی مہاراج کی اقتصادی امداد سے ہی ممکن ہوسکا تھا۔موک نائک کے لفظی معنی ہیں [گونگا ہیرو]، اسی موک نائک کے ذریعہ انہوں نے کروڑوں گونگے لوگوں کو آواز دی تاکہ ہندوستانی سماج سے اپنے حقوق کو مانگیںاور اس کے لئے جدوجہد کریں۔بھیم رائو امبیڈ کر نے دلت سماج کے اندر سماجی،سیاسی ومذہبی بیداری پیدا کرنے اور ان کے جذبات و احساسات کو زبان دینے کے لئے ۲۵؍جولائی ۱۹۲۴ء؁ کو بہشکرت ہتکارنی سبھا کی بنیاد ڈالی۔انہوں نے دلتوں کی آزادی کے لئے ایک نعرہ دیا۔’’تعلیم یافتہ بنو،متحد ہو اور جدوجہد کرو‘‘

                مہاڑ نگر پالیکا کی قرار داد کو عملی شکل دینے کے کئے ڈاکٹر امبیڈکر کی رہنمائی میں دلتوں نے ۲۰ ؍مارچ ۱۹۲۷ء؁ کو مہاڑ تالاب کی طرف مارچ کیا اور اس کا پانی پیا۔ انہوں نے دلتوں کو پہلی بار آندولن کے ذریعہ ان کی طاقت کا احساس دلایا۔اس واقعہ سے طبقہ اشرافیہ میں کھلبلی مچ گئی کیونکہ اس سے پہلے اس تالاب سے دلتوںکوپانی پینے کی اجازت نہیں تھی جبکہ کتے اور بلی اس تالاب سے پانی پی سکتے تھے۔ڈاکٹر امبیڈ کر نے ۳؍اپریل ۱۹۲۷ء؁ کو’بہشکرت بھارت ‘ نام سے اخبار نکالنا شروع کیا۔اس اخبار میں ڈاکٹر امبیڈ دلتوں کی زندگی سے جڑے مختلف مسائل و مصائب پر خود مضامین لکھا کرتے تھے اور دوسرے دلت ادیبو ں کو مضامین لکھنے کے لئے ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتے رہتے تھے۔انہوں نے اپنے مشن کو آگے بڑھانے کیلئے۲۴؍ستمبر ۱۹۲۷ء؁ کو’ سمتا سینک دل ‘کے نام سے دلت رضاکاروں کا ایک گروپ تیار کیا۔یہ رضاکار ان کے ذریعہ نکالے جانے والے اخبار کو دلتوں اور عام ہندوستانیوں تک پہنچانے میں ہاکروں کا کام کرتے تھے تاکہ دلتوں تک اپنی باتوںکو آسانی سے پہنچایا جا سکے ۔انہوں نے اس اخبار کے ذریعہ دلت سماج میں حیات نو لانے ، عام ہندوستانیوں تک اپنے مقاصد اور نظریہ کو صحیح طور پر پہنچانے کی کامیاب کوشش کی ۔اسی سال انہوں نے۲۵؍دسمبر ۱۹۲۷ء؁ کو’ منو سمرتی‘کو جلانے کا پروگرام رکھااور جلا دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ منو سمرتی پاک کتاب نہیں،اس کے ہندو قانون دلتوں کو ان کے حقوق سے روکتے ہیں اور ان کی شخصیت کو روندتے ہیں۔اس واقعہ کو انہوں نے فرانس کی نیشنل کرانتی سے تعبیر کیا تھا۔

                ڈاکٹر امبیڈکر نے ۲؍مارچ ۱۹۳۰ء؁ کو ناسک کے کالا رام مندر داخلہ کی تاریخ مقرر کی کیونکہ اسی دن گاندھی جی نے انگریزی سرکار کے خلاف سول نا فرمانی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔مندر داخلہ کو لے کر دلتوں اور ہندوئوں میں مار پیت شروع ہوگئی اور ڈاکٹر امبیڈکر سمیت دونوں طرف سے لوگ زخمی ہوئے۔سمتا سینک دل کی عورتوں نے اس مہم میں بہت ہی اہم رول ادا کیا تھا۔ڈاکٹرامبیڈکر ،گاندھی جی اور دوسرے لوگوں کو یہ احساس دلا ناچاہتے تھے کہ ان کو جو شکایتیں انگریزوں سے ہیں وہی شکایتیں دلتوں کو ہندوئوں سے ہیں۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے تحریک آزادی کے وقت دلتوں کی آزادی کا سوال اٹھایا اور حکومت میں دلتوں کے حصہ داری کی مانگ کی ۔انہوں نے گول میز کانفرنس میں زور دار طریقے سے اپنی بات رکھی اور دلتوںکو ہندوئوں سے الگ سماج کے طور پر تسلیم کئے جانے کی بات کہی۔ بر طا نوی وزیر اعظم نے ان کی اس بات کو۲؍اکتوبر ۱۹۳۲ء؁ کو تسلیم کرلیالیکن گاندھی جی اور دیگر ہندوئوںکو اس بات کا خوف ستا رہا تھا کہ جسے وہ ہندو سماج کہتے ہیں اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے۔انہوں نے اس بات کی مخالفت میںیر ودا جیل میں ہی آمرن انشن شروع کردیا۔ پورے ملک میں دلتوں اور اشرافیہ طبقہ کے بیچ مار پیٹ کے واقعات رونما ہونے لگے اور گاندھی جی کی زندگی کو لے کر جگہ جگہ پرارتھنا سبھائیں کی جانے لگیں ۔ڈاکٹر امبیڈکرکو جان سے مارنے کی دھمکیاںتک دی جانے لگیں۔آخر میں مجبور ہوکرڈاکٹر امبیڈکرنے گاندھی جی کے ساتھ ایک سمجھوتہ کیا جو ’پونا پیکٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔اسی پونا پیکٹ کے تحت دلتوں کو ریزرویشن کی سہولیات مہیا کرائی گئیں ہیںتاکہ انہیں ہندو سماج سے الگ ہونے سے روکا جا سکے۔

                اس میں شک نہیں کہ ڈاکٹر امبیڈکر بہت بڑے سیاسی رہنما تھے اور ان کی سیاست تو ان کروڑوںلوگوں کے لئے تھی جو اپنے انسان ہونے کے معنی بھی نہیں جانتی تھی۔وہ ایسی دلت سیاست کے رہنما تھے جس نے دلتوں کو انسان ہونے کا مطلب سکھایا اور ان میں اپنے حقوق وآزادی کی تڑپ پیدا کی۔انہوں نے دلتوں کی سیاست میں حصہ داری کے لئے۱۹۳۶ء ؁ میں آزاد مزدور پارٹی بنائی اور ۱۹۵۶ء ؁ میں اس کا نام بدل کر شیڈول کاسٹ فیڈریشن کر دیا ،لیکن سیاست میں انہیں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ آخر میں ڈاکٹر امبیڈکر نے برہمنوادی نظام معاشرت کے ذریعہ دلتوں کے ساتھ ذات پات واونچ نیچ کے نام پر برتے جانے والے بھید بھائو اور غیر انسای سلوک سے تنگ آکر ۱۹۵۶ء ؁ میں بودھ دھرم قبول کرلیا ۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے صدیوں سے دلتوںکے اوپر پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم ،نا انصافی اور غیر انسانی سلوک کے خلاف تحریک چلائی ۔ انہوں نے دلت سماج کے لوگوں کے جذبات و احساسات کو زبان دی اور ان کے اندر بیداری کی لہر پیدا کی ۔ اس تحریک کا نتیجہ یہ ہوا کہ دلت مسئلہ ہندوستان کی قومی تحریک کا ایک اہم موضوع کی شکل میں ابھر کر سامنے آیااور ہندوستانی سماج،مذہب، سیاست ا ور ادب کے بحث کا موضوع بن گیا۔

                ڈاکٹر امبیڈکر نے دلت سماج کے لڑکو ں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے۱۹۴۶ء؁ میں بمبئی میںسدھارتھ ڈگری کالج اور ۱۹۴۷ء؁ میں اورنگ آباد میں ملند ڈگری کالج قائم کیا۔ان ڈگری کالجوں کے تعلیم یافتہ نوجوان امبیڈکر کے نظریات سے پوری طرح متاثر تھے۔ ان کالجوں کے نوجوان اپنے جذبات و احساسات کو لفظوں کے پیرائے میں بیان کرنے کے لئے اپنے پر تول رہے تھے۔ڈاکٹر امبیڈکر نے دلت سماج کے پڑھے لکھے لوگوں کو تخلیقی ادب کی طرف مائل کیا تاکہ تحریک کو تقویت مل سکے۔ اورنگ آباد میں سب سے پہلے ’دلت ساہتیہ پریشد‘ کا اجلاس سکھ رام ہیورالے کی صدارت میں ۱۹۵۳ء ؁ کو ہوا تھا۔اس کے بعددلت ساہتیہ پریشد کے متعدد اجلاس مختلف مقامات پر ہوئے اور دلت ادب کے اصول و نظریات کو لے کر ایک سلسلہ شروع ہوا جس نے ادیبوں شاعروں۔اور دانشوروں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

ڈاکٹر امبیڈکر کے نظریات سے متاثر ہو کر’دلت پینتھر ‘ کا قیام ۱۹۷۲ء؁ میں عمل میں آیا۔اس تنظیم سے بہت سے دلت ادیب ،شاعر اور دانشور جذباتی طور پر جڑے ہوئے تھے اور شدت پسند اور جذباتی ادب تخلیق کر رہے تھے۔انہیں اس بات سے کوئی مطلب نہیں کہ انہیں سماج میں اچھوت اور نیچ سمجھا جاتا ہے، بلکہ وہ تو دلت پینتھر ہیںاور اپنے اوپر ہونے والے کسی بھی ظلم وستم کو برداشت نہیں کریںگے۔دلت پینتھر نے اپنے حقوق کی حصولیابی کے تئیںجدو جہد کا جذبہ پیدا کیااور جبر واستبداد کے خلاف لڑنے اور اپنی خودداری و انا کے لئے جان کی بازی لگانے کے لئے خود کوتیار کیا۔ دلت پینتھر کے ذریعہ چلائی گئی تحریک نے سرکار،ادیبوں،شاعروں ، دانشوروںاور عام ہندوستانیوں کا دھیان اپنی طرف کھینچا۔ہر زبان کے ادیبوں نے اپنی تخلیقات میں دلتوں کے مسائل ومصائب کو پیش کیا اور عام ہندوستانیوں کو اس سے روشناس کرایا۔

                ڈاکٹر امبیڈکر کی سماجی بیداری تحریک سے پہلے اردو ادب میں دلتوں کے ساتھ برتے جانے والے غیر مساویانہ سلوک اور ان کے مسائل و مصائب کا ذکر کہیں کہیں دیکھنے کو ملتا ہے ۔اردو میں سب سے پہلے شہنشاہ فکشن پریم چند نے اپنی تخلیقات میں دلتوں کے مسائل و مصائب کو مختلف زاویوں سے پیش کیا ہے۔اگر ناولوں اور افسانوں کی بات کریں تو اردو کاپہلا ناول’ جلوہ ایثار‘اور افسانہ’ دونوں طرف سے‘ ہے جس میںدلت بستیوںاوران کی اجیرن بھری زندگی کا ذکر ملتا ہے ۔۱۹۲۳ء ؁ کی قرار دادکے پاس ہونے کے بعد ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر کے ذریعہ مہاڑ تالاب اور کالا رام مندر،پونا پیکٹ ،وغیرہ کو لے کر چلائی گئی تحریک نے سماج ،مذہب ،سیاست اور ادب میں ہلچل پیدا کردی ۔اسی تحریک سے متاثر ہو کر اردو کے قلمکاروں نے دلتوں کے مسائل و مصائب کو اپنی تخلیقات میں پیش کرنا شروع کردیا۔پریم چند نے مندر ،قوم کا خادم، ٹھاکر کا کنواں،خون سفید وغیرہ شاہکار افسانے اور گوشہ عافیت ،میدان عمل اور گئودان جیسے ناول تخلیق کئے۔ علاوہ ازیںپریم چند نے اپنے اخباروں اوررسالوں میں بھی دلتوں مسائل کو بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی تحریک سے متاثر ہو کر شاعرمشرق علامہ اقبال نے نظم ’نانک‘ میںدلتوں کی اجیرن بھری زندگی کو بہت ہی پر درد اور مغموم انداز میںبیان کیا ہے۔:

                آہ شودر کے لئے ہندوستان غم خانہ ہے ۔درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے

جوالا پرشاد برقؔ اور فراق گورکھپوری وغیرہ شاعروں نے دلتوں سے اپنی ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔جوالا پرساد برقؔ نے اپنی نظم’ اچھوتوں سے نفرت‘ میں دلتوں کے اوپر ہونے والے جبر واستبداد کے خلاف آواز بلند کی ہے۔اشعار ملاحظہ ہوں :

تہذیب ایک سی ہو یکسان چلن ہمارا

بیگانہ نہ ان کو سمجھیںدیوانہ پن ہمارا

اس خا ک کے ہیں پتلے بھارت سپوت ہیں سب

گریہ اچھوت ہیں توہم بھی اچھوت ہیں سب

جلوے ہیں سب اسی کے راز حیات کیا ہے

ہیں پھول اک چمن کے تخصیص ذات کیا ہے

                پریم چند کے بعد ترقی پسندوں نے دلتوں کے مسائل و مصائب کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا اور ان کو مختلف زاویوں سے پیش کیاہے۔کر شن چند کا افسانہ ’کالو بھنگی‘،’مہا لکشمی کا پل‘ اور دو ڈرامے ’سرائے کے باہر‘ اور ’دروازے کھول دو‘ اور ناول شکست خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔علی عباس حسینی کا افسانہ خاموش خاموش،عصمت چغتائی کا میلے کا ٹوکرا،اعظم کریوی کا اچھوت وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔عبداللہ حسین کاناول’ اداس نسلیں‘،’الیاس احمد گدی کا فائر ایریاوغیرہ قابل ذکر ہیں۔

چھٹی اور ساتویں دہائی میں دلت ساہتیہ پریشد اور دلت پینتھر نے اس بات کو اور اونچائی عطا کی اور دلتوں کے مساویانہ حقوق اور آزادی کو لے کر جگہ جگہ جلسوں اور سیمیناروں کے ذریعہ اپنی آواز کو بلند کرنا شروع کردیا ۔ہر زبان کے ادیبوں نے اپنی تخلیقات میں دلتوں کے مسائل سے عوام کو روشناس کرایا۔اردو کے ادیب نے بھی دلتوں کے مسائل و ناانصافی کو اپنی تخلیقات میںپیش کیا ہے۔سلام بن رزاق نے ایک لویہ کا انگوٹھا اور کلہاڑی،پروفیسر جابر علی نے چمر ٹولے کی پنکی ،اسرار گاندھی نے وہ جو راستے میں کھوئی گئی جیسے کامیاب افسانے لکھے۔ مسرور جہاں کا ناول ’نئی بستی‘،علی امام نقوی کا’ تین بتی کے راما‘ اور غضنفر کا ناول’ دویہ بانی‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ان میں دویہ بانی نئی طرز کا ناول ہے۔

                ملک کے آزاد ہونے اور آئین میں ڈاکٹر امبیڈکر کی کوششوں سے دلتوں کو ملے حقوق و آزادی سے ان کے اندر دھیرے دھیرے بیداری آنا شروع ہو گئی ہے۔اب وہ پہلے کی طرح ہر بات کو سر خم تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے،اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیتا ہے اور اپنی آن بان کے لئے ہتھیار اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتا ہے۔اس سلسلے میں سلام بن رزاق کا افسانہ’ کلہاڑی‘ خاصی اہمیت کا حامل ہے ۔اس افسانہ میں جب ایک دلت عورت کی عصمت طبقہ اشرافیہ کے ذریعہ ننگا کر کے گائوں میں گھمایا جا تا ہے تو وہ بغاوتی تیور اپناتے ہوئے ہتھیار اٹھا لیتی ہے۔ ڈاکٹر امبیڈ کے ذریعہ چلائی گئی تحریک اور دستور ہند میں دلتوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لئے دیئے گئے خاص مراعات سے طبقہ اشرافیہ کے لوگ نفرت کرتے ہیں ،انہیں حقار کی نظر سے دیکھتے ہیںاور ان کو کسی بھی طرح کے حقوق دئے جانے کے خلاف ہیں۔ برہمنوادی نظام کے پروردہ لوگ صدیوں پرانی اسی روایت کو آج بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ آخر ایک سوال یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ جس مندر،تالاب، کنوا ں وغیرہ کو دلت سماج کے لوگ اپنی محنت اور لگن کے ساتھ بناتے ہیں اور اپنی فنکاری ونقش ونگار کے ذریعہ اس میں چار چاند لگا دیتے ہیں ۔لیکن جب یہی بن کر تیار ہوجاتا ہے تو اس میں ان کا داخلہ ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔یہ کیسا مذہب ہے اور کیسا سماجی ڈھونگ جو صدیوں سے اس سماج میں چلا آرہا ہے؟اس سلسلے میں اسرار گاندھی اپنے افسانہ ’بے بسی ‘ میں لکھتے ہیں کہ بہت ہی محنت اور لگن کے ساتھ نتھو نے مندر میں استھاپت ہونے والی مورتی اس طرحرنگ و روغن سے سجایا تھا جیسے لگتا ابھی وہ بول پڑے گی۔جب وہ مندر میں آرتی اتارنے جا تا ہے تو اسی پنڈت کے ذریعہ اسے مندر میں جانے اور آرتی اتارنے سے روک دیا جاتا ہے اوروہ زبردستی مندر میں داخل ہونے کی کامیاب کوشش کرتا ہے ۔ اس کی منظر کشی اسرار گاندھی نے بہت ہی خوبصورت پیرائے میں کی ہے۔:

                 ’نتھو اپنے ساتھ لائے ہوئے پھولوں کو لئے ہوئے آہستہ آہستہ مندر کے دروازے کی جانب بڑھا۔لیکن اس سے پہلے کہ وہ مندر میں داخل ہو پنڈت جی کی نظریں اس پر پڑ گئیں ۔وہ بڑی تیزی کے ساتھ نتھو کی طرف بڑھے اور اسے دروازے کے باہر روکتے ہوئے بولے۔’’نتھو تم!تم ؟ مندر کے اندر کیسے آرہے ہو؟‘‘

کیا میں اپنی بنائی ہوئی مورتی پر پھول بھی نہیں چڑھا سکتا۔نتھو بولا:،،،،،ہاں بنایا تو تمہارے ہاتھوں نے ہی ہے۔پر اسے اب تو پوتر کر لیا گیا ہے۔تمہارے ہاتھوں سے پھول ڈلوا کر اسے اپوتر نہیں کیا جا سکتا۔تم گھر چلے جائو نتھو

نہیں میں تو بھگوان کی مورتی پر پھول چڑھائے بنا نہیں جا سکتا۔اب وہ سمے لد چکا ہے پنڈت جی۔نتھو کی بات سن کر سرخ ہوگئے۔

وہ زور سے چیختے ہوئے بولے۔میں جنتا ہوں کہ تم کہاں سے بول رہے ہو۔لیکن تم یہ سمجھ لو یہ مندر ہے سرکاری نوکری نہیں۔تم یہاں نہیں گھس سکتے۔نتھو تم یہاں سے چلے جائو۔‘‘

                اگر ہم شاعری کی بات کریں تو یعقوب راہی ؔنے زیادہ تر مراٹھی دلت شاعری کو اردو شاعری کے کالب میں ڈھالا ہے۔اب تک ان کے تین مجموعے منظر عام پرآکر عوام سے داد تحسین حاصل کر چکے ہیں ۔اس سلسلے میں ان کی تصنیف’ دلت آواز‘ خاص طور پر قابل ذکر ہے جس کی چرچا برابر ہوتی رہتی ہے۔چندر بھا ن خیالؔ نے دلتوں کی دکھ بھری زندگی کواپنی نظموں اور غزلوں میں بہت ہی پر درد انداز میں پیش کیا ہے۔ خیال نے ایک غزل ’دلت غزل ‘کے عنوان سے کہی ہے جو صبح مشرق کی اذاں میں شامل ہے۔غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

ایک دلت میں شاملِ محفل کروں تو کیا کروں

ہے محافظ ہی میرا قاتل کروں تو کیا کروں

حکم ہے آئین کا مجھ کو ملیں سارے حقوق

ایک بھی لیکن نہیں حاصل کروں تو کیا کروں

؎             جینت پرمار نے اپنے اور دلتوں کے اوپر ہونے والے ظلم وستم کو بہت ہی مغموم انداز میںاپنی نظموں میں پیش کیاہے،جس پر انہیں ساہتیہ اکادمی انعام سے سرفراز کیا گیا ہے۔ جینت پر مار نے صدیوں سے دلتوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کو اپنی ایک نظم ’ہزاروں ہاتھ‘ میں بڑے ہی فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔

اس سلسلے میں صادقہ نواب سحرؔکسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ان کے کلام میں دلت سماج کادود وکرب اور ان کے مسائل و مصائب کا جو بیان ملتا ہے وہ قاری کے دل پر نشتر کی اثر کرتا ہے اور دل کو بار با ر کچوٹتا ہے اور سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔یہاں پر ان کی نظم’ امبیڈکر وادی ادب‘ ملاحظہ ہو

انسان تھا؍پھر شودر ہوا؍اور اچھوت ما نا گیا؍پیٹھ پر جھاڑو باندھ کر؍اپنے پیروں کی دھول کو آپ جھاڑتے ہوئے؍شہر بھر کی گندگی صاف کرتا رہا؍سنا؍ابھنگوں کی شاعری میں؍میرے درد کے بادلو ں کی؍کچھ بوندیں ٹپکیں؍سنت چوکھا میلا،نام دیو،گیانیشورکا؍درد بھی تو وہی تھا نا؟صدیوں بعد گاندھی نے مجھے ہریجن کہا؍امبیڈکر نے بودھ بنایا؍اب پڑھنے پر؍میرے کانوں میں؍گرم سیسہ نہیں ڈالا جاتا؍لہٰذا میں نے اپنی زندگی نامے کو؍لکھنا سیکھا؍مگر اسے ساہتیہ نہیں؍دلت ساہتیہ کہا گیا؍اب اکیسویں صدی میںمیری زندگی کی داستان کو؍امبیڈکر وادی ساہتیہ کا نام دینے کی ؍کوشش ہو رہی ہے؍جانے میری داستان کب انسان کی داستان بنے گی؍جانے کب؟؟؟

ڈاکٹر امبیڈکر نے دلتوں کے اوپر ڈھائے جانے والے جبر واستبداد ،غیر مساویانہ حقوق اور آزادی کے لئے جو تحریک چلائی تھی اس میں اردو کے ادیبوں اور شاعروں نے ان کا ساتھ دیا لیکن جس طرح سے دوسری زبان کے قلمکاروں نے امبیڈکرکے نظریات کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی کوشش کی اس کے مد مقابل اردومیں کہیں نہ کہیں کمی کا احساس ہوتا ہے۔اردو میں امبیڈکر وادی نظریہ دوسری زبانوں کے مقابلہ میں ابھی کمزور دکھائی دیتا ہے اور اسے آگے بڑھانا وقت کی اسد ضرورت ہے۔ اب بدلتے وقت اورحالات کے پیش نظر دلت سماج کے مسائل کو اٹھانے ان کے حقوق وآزادی کے لئے جدو جہد کرنے اورعام ہندوستانیوں کو ان کے مسائل و مصائب سے آگاہ کرنے کی اردو کے قلمکاروں کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے تاکہ ہندوستانی سماج کا ناسور بن چکے اس ذات پات ،اونچ نیچ کے بھید بھائو کا خاتمہ کیا جا سکے اور ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر کے سماجی مشن کو آگے بڑھایا جا سکے۔ ٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.