اردو ادب کے کلاسیکی سرمائے کی بازیافت: ڈاکٹر جمیل جالبی کا کردار

کسی بھی زبان کے قدیم ادبی سرمایہ کی تلاش اور تحقیق اس زبان کی بنیادوں کو مضبوط اور اس کے دوام کا سبب بنتی ہے۔ یہ کام نہ صرف زبان کے آغاز و ارتقا کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ اس کی تاریخی گہرائیوں کو بھی آشکار کرتا ہے۔ اردو زبان و ادب کی گمشدہ کڑیوں کو تلاش کرنا، قدیم ادبا و شعرا کی زندگیوں اور تخلیقات پر تحقیق کرنااور شعری و نثری متون کی تصحیح و تدوین ایک اہم علمی ضرورت ہے۔ یہ عمل زبان کے علمی وقار کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ادبی روایت کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رکھنے کا ذریعہ بھی ہے۔

دکنی ادب کی بازیافت نے اردو ادب کی تاریخ میں کئی نئی جہتیں متعارف کروائیں۔ اس نے نہ صرف ادب میں پائی جانے والی کئی غلط فہمیوں کو دور کیا بلکہ اردو زبان کے آغاز و ارتقاسے متعلق درست اور مستند نتائج فراہم کیے۔ دکنی ادب کی تحقیق نے یہ واضح کیا کہ اردو کا ادبی سفر محض شعری اظہار تک محدود نہیں تھا بلکہ اس نے معاشرتی، ثقافتی اور فکری زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بھی اپنی آغوش میں سمویا تھا۔ یہ کام صرف علمی دلچسپی کا باعث نہیں بلکہ اردو ادب کی تاریخ کو درست تناظر میں پیش کرنے کے لیے بھی نہایت ضروری ہے۔

اردو کے قدیم سرمائے کو منظر عام پر لانے میں مدونین کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ہندوستان میں دکنی کار ناموں کی ترتیب و تہذیب زیادہ تر ریاست حیدرآباد اور جامعہ عثمانیہ کے متوسلین بابائے اردو مولوی عبدالحق، حکیم شمس اللہ قادری، عبدالجبار ملکاپوری،نصیر الدین ہاشمی، ڈاکٹر زور، پروفیسر سروری ،مولوی سید محمد وغیرہ کے ہاتھوں عمل میں آئی۔ ان کے علاوہ جن کا تعلق جامعہ سے نہیں تھا ان میں ڈاکٹر حفیظ سید نجیب اشرف ندوی، حامد حسن قادری، ڈاکٹر گیان چند، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ،پروفیسر سید ہ جعفر اور ڈاکٹر جمیل جالبی وغیرہ یہ ایسے ماہرین دکنیات ہیں جنھوں نے نہ صرف قدیم دکنی مخطوطات کی دریافت کی بلکہ علم و ادب کا ایک ایسا خزانہ محفوظ کر دیا جس نے نہ صرف اردو زبان و ادب کا دائرہ وسیع کیا بلکہ آنے والے محققین کے لیے تحقیق کی راہ ہموار کی اور بہت سی الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھانے میں مدد کی۔

 ڈاکٹر جمیل جالبی نے جب’’ تاریخ ادب اردو‘‘ پر کام کرنا شروع کیا تو انھیں قدم قدم پر مستند مواد کی تشنگی کا احساس ہوا جس کی وجہ سے انھوں نے سب سے پہلے متون کو مرتب کرنے کی ضرورت محسوس کی اور اسی مقصد کے تحت آپ نے دکنی ادب کی روایت کو اکٹھا کرکے انھیں ترتیب دیا۔اس سلسلے کا پہلا اہم تحقیقی کارنامہ ’’دیوان حسن شوقی ‘‘ کی ترتیب و تدوین ہے۔

دسویں صدی ہجری کے معروف شاعر حسن شوقی کے کلام کو پہلی بار مولوی عبدالحق نے (۱۹۲۹ء) میں رسالہ ’’اردو‘‘ میں شائع کیا، جس کے بعد سخاوت مرزا نے(۱۹۴۵ء ) اور حسینی شاہد (۱۹۶۵ء ) نے بھی ان کی مزید غزلیں دریافت کرکے پیش کیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اردو ادب کے اہم مخطوطات سے حسن شوقی کا منتشر کلام جمع کیا اور (۱۹۷۱ء) میں اسے ’’دیوان حسن شوقی‘‘کے عنوان سے انجمن ترقی اردو پاکستان سے شائع کیا، جس میں فتح نامہ نظام شاہ اور میزبانی نامہ سلطان محمد عادل شاہ سمیت دیگر نادر تخلیقات شامل ہیں۔

ڈاکٹر جمیل جالبی نے’’ دیوان حسن شوقی‘‘ پر ۶۸ صفحات کا محققانہ مقدمہ پیش کیا ہے جس میں سب سے پہلے مولوی عبدالحق، سخاوت مرزا اور حسینی شاہد کا ذکر ہے ساتھ ہی’’ فتح نامہ نظام شاہ‘‘ اور ’’ میزبانی نامہ‘‘ کی غزلوں کی تعداد کا بیان ملتا ہے۔اس کے علاوہ حسن شوقی کی پیدائش اور وفات کی تاریخ کا تعین،شو قی کے کلام کی فنی خصوصیات اور اس کی تاریخی حیثیت کا تفصیل سے بیان ہے۔ شوقی کے عہد کے سلاطین اور شوقی کا نظام شاہی سے وابستگی اور آخری عمر میں عادل شاہی سے منسلک ہونا، داخلی شواہد کی بنیاد پر ڈاکٹر جمیل جالبی کا نسخہ ثانی کے متن سے الحاقی اشعار سے متعلق مولوی عبدالحق کے خیالات سے اختلاف۔ مثنوی کا دسویں صدی ہجری میں لکھی جانے کی وضاحت وغیرہ سے متعلق بحث و مباحث شامل ہیں۔مثنوی کی ابتدا اور روایت جو حسن شوقی سے ہوتے ہوئے دلی دکنی تک کس طریقہ سے پہنچتی ہے ۔ ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:

’’قدیم ادب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ادب کی جدید روایت کے بیشتر سرے قدیم ادب کے ہاتھ میں ہیں، مثلاً ہم مثنوی کا ذکر کرتے ہیں تو ہماری نظر سحرالبیان اور گلزار نسیم پر جاتی ہے اور ہم بھول جاتے ہیں کہ مثنوی کا ارتقا دکن میں ہوا۔۔۔۔ مثنوی علی نامہ ،خاور نامہ، یوسف زلیخا اور غزل کے ابتدائی نقش و نگار دکن کے مختلف شعرا مثلاً لطفی، مشتاق، محمود، فیروز اور خیالی کے ہاں بنتے اور سنورتے اور پہلی بار حسن شوقی کے ہاں ایک جان ہو کر دکنی غزل ایک منفر د رنگ اختیار کر لیتی اور پھر یہ غزل شاہی، ہاشمی اور دوسرے چھوٹے بڑے شاعر تائب، سالک، یو سف، قریشی، رحیمی وغیرہ سے ہوتی نئے تہذیبی و سیاسی اثرات کے تحت ’’ریختہ ‘‘ بن کر ولیؔ دکنی کی غزل میں ابھرتی ہے۔ ‘‘( ۱)

ڈاکٹر جمیل جالبی نے ’’دیوان حسن شوقی‘‘ کی ترتیب و تدوین میں نسخہ اول کو بنیاد بنایا اور نسخہ اول و دوم کے اختلافات حاشیے میں درج کیے۔ سخاوت مرزا اور حسینی شاہد کی دریافت کردہ غزلوں کو بھی شامل کرکے ان کے اختلافات کو حاشیے میں دیا۔ نسخہ ثانی کے اشعار، جو نسخہ اول میں موجود نہیں تھے، موضوع کے مطابق شامل کیے گئے۔ اشعار جو دونوں نسخوں میں یکساں تھے، ان کے سامنے (ص) کی علامت لگائی گئی۔ بیاضوں کی ترقیموں کو مقدمے میں شامل کیا گیا، جن میں ’’فتح نامہ نظام شاہ‘‘ اور ’’میزبانی نامہ‘‘ نمایاں ہیں۔ وہ بیاضیں، جن سے صرف چند غزلیں حاصل ہوئیں، نظر انداز کر دی گئیں۔ ہر پانچ اشعار کے بعد شمار شامل کیا گیا، اور دونوں مثنویوں کے بعد غزلیات کو ردیف وار ترتیب دیا گیا۔ آخر میں ایک نظم شامل ہے، جس کا موضوع ہمہ اوست اور وحدت الوجود ہے۔ متن کو آسان بنانے کے لیے آخر میں مشکل الفاظ کی فرہنگ بھی شامل کی گئی۔ڈاکٹر افسرصدیقی امروہی ’’دیوان حسن شوقی ‘‘ کے مقدمے کے حوالے سے رقم طراز ہیں :

’’جالبی صاحب قابل ستائش ہیں انھوں نے حتی الامکان اس فرض کے ادا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور کسی قسم کا قدیم ذریعہ معلومات نہ ہونے کے باوجود اکثر و بیشتر الفاظ کی ردیف وفرہنگ مرتب کردی جہاں تک دیوان شوقی کے متن کا تعلق ہے وہ اپنی جگہ خوب ہے لیکن جالبی صاحب کا اصل کارنامہ وہ بسط و شرح اور فاضلانہ مقدمہ ہے جس میں شوقی کے زمانے کی لسانی خصوصیات کے ساتھ ساتھ اور دوسری ملکی زبانوں کے ساتھ تعلق پر، سیر حاصل تبصرہ کیا گیا ہے‘‘۔(۲)

ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنے تحقیقی سفر کا آغاز ،نئے مواد کی دریارفت ، متن کی تصحیح ، جانچ پرکھ اور مصنف کی شخصیت کا تعین یعنی سوانحی تفصیلات کی فراہمی انہی تین موضوعات سے کیا اور حافظ محمود شیرانی کے وضع کیے ہوئے چند اصولوں یعنی حزم و احتیاط ۔تفصح، عرق ریزی اور وابستگی کو شعار بنا کر اپنے کام میں منہمک ہو گئے ۔ (۳) جس طرح محمود شیرانی متن کے داخلی شواہد سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں،اسی طرح جمیل جالبی اندرونی شواہد اور متن میں موجود اشارات سے حقائق تلاش کرتے ہیں۔ حسن شوقی کا نام اور تخلص کی تحقیق اس طرح کی کہ انھوں نے شوقی کے غزل کا مطلع،ابن نشاطی کی ’’پھول بن‘‘ اور سید اعظم بیجاپوری کی ’’فتح جنگ ‘‘میں سے ایک ایک شعر سند کے طور پر پیش کیا جن میں شوقی حسن کے نام سے ذکر ہے ۔ اس کے علاوہ ’’فتح نامہ نظام شاہ ‘‘ کے آخری الفاظ ’’مرتب شد فتح نامہ نظام شاہ گفتار حسن شوقی ‘‘ اور’’ میز بانی نامہ ‘‘ کے ترقیمہ میں ’’ مرتب شد میزبانی نامہ سلطان محمد عادل شاہ گفتار حسن شوقی ‘‘کے الفاظ درج ہیں ۔ان تمام شواہد کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالا کہ شیخ حسن نام اور شوقی تخلص ہے۔(۴)

حسن شوقی کی پیدائش اور وفات کی تاریخ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ۹۷۲ھ میں حسن شوقی نظام شاہی دربار سے وابستہ تھا، اسی لیے اس نے حسین نظام شاہ کی مدح میں ’’فتح نامہ نظام شاہ‘‘ لکھا، کیوں کہ مدح زندہ شخص کی کی جاتی ہے۔ جنگ تالی کوٹ میں شریک چاروں بادشاہوں نے فتح کے بعد کچھ عرصہ میدان جنگ اور وجیا نگر میں گزارا اور پھر اپنے اپنے علاقوں کو لوٹے۔ حسین نظام شاہ احمد نگر واپس آکر ۷؍ ذیقعد ۹۷۲ھ کو وفات پا گیا اور اسی سال شوقی نے یہ فتح نامہ مکمل کر کے بادشاہ کے حضور پیش کیا۔ (۵)

ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی بات کو ’’تاریخ فرشتہ‘‘ سے بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ نظام شاہی سلطنت کے خاتمہ۱۶۳۳ء کے بعد حسن شوقی عادل شاہی دربار سے وابستہ ہوگیا تھا جس کی تصدیق حسن شوقی کی دوسری مثنوی’’ میزبانی نامہ‘‘ کے ترقیمے سے ہو جاتی ہے۔’’ مرتب شدہ میزبانی نامہ سلطان محمد عادل شاہ گفتار حسن شوقی‘‘۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق جنگ تالیکوٹ کے وقت حسن شوقی کی عمر پچیس برس ہو سکتی ہے۔ آگے لکھتے ہیں ’ ’ اس طرح حسن شوقی کا سنہ ولادت تقریبا۹۴۸ھ بنتا ہے، اور اس کی وفات کا سنہ۱۰۴۲ھ اور ۱۰۵۰ھ کے درمیان متعین کیا جا سکتا ہے۔‘‘ (۶)

 مثنوی’’ فتح نامہ نظام شاہ‘‘ کے دو نسخے موجود ہیں۔ مولوی عبدالحق نسخہ اول کو صحیح اور نسخہ ثانی کے آخر میں موجود اشعار کوالحاقی تصور کرتے ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے مثنوی کی داخلی شواہد کی روشنی میں مولوی عبدالحق سے نہ صرف اختلاف کیا بلکہ ان کے رد میں دلائل بھی پیش کیے ان کے مطابق:

  ’’نسخہ اول فتح نامہ کی دستور وہیئت کے خلاف میدان جنگ اور فتح کے فوراً بعد کے حالات اور بغیر دعائیہ کلمات کے، بے ربطی سے ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن نسخہ ثانی میں وہ مضمون جو نسخہ اول میں اٹھایا گیا ہے آگے بڑھتا ہوا نظر آتا ہے اور مثنوی باقاعدہ طور پر دعائیہ کلمات پر ختم ہوتی ہے۔ میدان جنگ میں کیا قیامت برپا ہوئی؟ اس کی تفصیل نسخہ اول میں نہیں ہے لیکن نسخہ ثانی میں موجود ہے۔۔۔ اگر ان دونوں نسخوں کو ملا دیا جائے تو مثنوی مکمل ہو جاتی ہے۔(۷)

مختصر یہ کہ ان شواہد کی روشنی میں نسخہ ثانی کے اشعار کو الحاقی قرار دینے کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے، جب کہ موضوع کا تسلسل بھی برقرار رہتا ہے۔ مثنوی دعائیہ اشعار کے ساتھ روایتی ہیئت کے مطابق مکمل ہوتی ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی رائے کو مضبوط دلائل سے ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ تاہم، تحقیق کا یہ اصول ہے کہ کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوتا؛ آنے والے محققین کی تلاش و جستجو سے نئے پہلو سامنے آسکتے ہیں، جو اس بات کا تعین کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے کہ حقیقت میں حسن شوقی کی عمر کیا تھی؟

تاریخی اعتبار سے، اس مثنوی کے واقعات ان مستند تاریخوں سے مطابقت رکھتے ہیں جو اس دور سے متعلق ہیں۔ لیکن مثنوی میں نظام شاہی کی جنگی تیاریوں اور حالات و عوامل کی وہ تفصیلات بھی ملتی ہیں جو دیگر تاریخی کتب میں موجود نہیں ہیں۔

دیوان حسن شوقی کی دوسری مثنوی’’ میزبانی نامہ‘‘ ہے۔ یہ مثنوی ۲۱۴ ؍اشعارپر مشتمل ہے اور اسے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ اس میں سلطان محمد عادل شاہ کی شادی کا احوال بڑی تفصیل کے ساتھ ملتا ہے۔ مولوی عبد الحق کے نزدیک یہ رشتہ مصطفی خان وزیر اعظم کی بیٹی سے ہوا ۔مولوی عبدالحق کے حوالے سے یہ غلطی اتنی عام ہوئی کہ پروفیسر محی الدین زورؔ،نصیر الدین ہاشمی ؔاور دوسرے ماہرین ادبیات نے بھی مولوی صاحب کے بیان کی بنیاد پر اس ’’میزبانی نامہ‘‘کو مصطفی خاں کی لڑکی کی شادی سے منسوب کر دیا ۔جب کہ جالبی صاحب یہ ثابت کرنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ رشتہ نواب مظفر خاں کی بیٹی سے ہوا تھا ۔اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے انھوں نے ’’ میزبانی نامہ‘‘کی ضمنی سرخی ’’دربیان مہمانی کردن سلطان محمد عادل شاہ راو دادن جہیز دختر نواب مظفر خان‘‘ پیش کر دی جس کے پیش نظر کسی بھی طرح کی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ (۸)

ڈاکٹر جمیل جالبی نے مقدمے کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصہ جہاں مولوی عبد الحق سے اختلاف کیا گیا ہے ۔ دوسرے حصے میں حسن شوقی کی شاعری کا لسانی مطالعہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔ سلطان محمد عادل شاہ کی مدح سے ’’میزبانی نامہ ‘‘کی ابتدا ہوتی ہے اس کے بعد سلطان کی شجاعت، سرفرازی ،اس دور کے رسم و رواج،طور طریقے ،کھانے پینے اور اوڑھنے پہننے کے ڈھنگ، اس عہد کی روایات، بادشاہ وقت کی سخاوت، ناچ گانے کی محفل، ظروف وآرائش کے سامان ، رقص و سرور اور شادی کی دھوم دھام، برات کی آؤ بھگت اور مہمان نوازی وغیرہ سے متعلق تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔

ڈاکٹر جمیل جالبی ’’مثنوی فتح نامہ نظام شاہ‘‘ اور’’ میزبانی نامہ‘‘ کا مقابلہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فتح نامہ کے مقابلے میں میزبانی نامہ میں اسلوب سخن زیادہ نکھرا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ فارسی اسلوب کا مزاج و آہنگ زیادہ گہرا ہوگیا ہے۔ فارسی عربی الفاظ کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے۔فتح نامہ پر ہندوی اسلوب اور میزبانی نامہ میں فارسی اسلوب و آہنگ کا اثر زیادہ نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے۔ مثنوی ’’میزبانی نامہ ‘‘ میں شوقی کا قلم زیادہ جمائو اور روانی کے ساتھ چلتا نظر آتا ہے۔ میز بانی نامہ میں قافیے بھی زیادہ صحت کے ساتھ باندھے گئے ہیں، تلفظ و املا بھی فتح نامہ کے مقابلے میں نکھر سنور گیا ہے فتح نامہ کا پہلا شعر دیکھیں ۔

الٰہی کرم کا کرن ہار توں

ہے اول و آخر رہن ہار توں

              میزبانی نامہ کا پہلا شعر اس طرح ہے ۔

اول یاد کر پاک پروردگار

پچھیں شاد کر شاہ عالی تبار

(۹)

ان دونوں اشعار سے فتح نامہ پر ہندوی اسلوب اور میزبانی نامہ پر فارسی اسلوب و آہنگ اور زبان و مزاج کا فرق نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔

ڈاکٹر جمیل جالبی کی خاصیت یہ ہے کہ وہ موجودہ عہد کے ساتھ مختلف ادوار کو بھی جوڑتے ہیں۔ حسن شوقی کی شاعری کا ذکر کرتے ہوئے انھوںنے اس عہد کے شعرا محمود، فیروز، اشرف، تائب، رحیمی، قریشی اور یوسف وغیرہ کا بھی تعارف کرایا ہے۔ شوقی نے قدیم اردو غزل کی روایت سے اثر لے کر اسے نیا اسلوب دیا اور آنے والے شعرا تک پہنچایا۔ فیروز، ملاخیلی اور محمود کی غزلوں میں زمین، ردیف اور قافیہ کی مماثلت واضح ہے، جسے شوقی نے آگے بڑھایا۔ یہ روایت شوقی سے شاہی، نصرتی، ہاشمی اور ولی تک پہنچی، جس نے اردو غزل کو ایک مستحکم روایت میں ڈھالا۔

 ڈاکٹر جمیل جالبی نے حسن شوقی کے بعد کے شعرا کا نہ صرف تعارف کرایا بلکہ یہ بھی دکھایا کہ ان شعرا نے شوقی کی روایت کو کیسے آگے بڑھایا۔ جالبی نے اردو غزل کی تاریخ کی گمشدہ کڑیوں کو تلاش کرکے ایک ایسی زنجیر تشکیل دی جو شوقی سے شروع ہو کر شاہی، نصرتی، ہاشمی اور دیگر شعرا سے گزرتی ہوئی ولی تک پہنچتی ہے۔ یہ کام اردو غزل کے ارتقا کو ایک تسلسل میں پیش کرنے کی ان کی گہری بصیرت کو ظاہر کرتا ہے۔

’ لسانی مطالعہ‘‘ کے تحت ڈاکٹر جمیل جالبی نے حسن شوقی اور اس کے دور کے لسانی پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالی، خاص طور پر اسما کی جمع سازی، افعال و ضمائر، اور دیگر زبانوں سے اشتراک کا جائزہ لیا۔ انھوں نے “میزبانی نامہ” کے ابتدائی اشعار سے ایسے الفاظ کی فہرست پیش کی جو آج بھی سندھی میں مستعمل ہیں، لیکن ڈاکٹر وحید قریشی نے ان پر اعتراض کیا کہ یہ اکثر الفاظ پنجابی اور سندھی دونوں میں مشترک ہیں، جنہیں صرف سندھی کہنا درست نہیں۔ مزید، ڈاکٹر قریشی نے جالبی کے دیے گئے الفاظ کے معانی اور املا پر بھی تنقید کی۔(۱۰)

تاہم، ڈاکٹر جمیل جالبی نے واضح کیا ہے کہ یہ فہرست صرف یہ دکھانے کے لیے ہے کہ اردو کا ذخیرہ الفاظ عربی، فارسی، ترکی کے ساتھ ساتھ برصغیر کی مقامی زبانوں جیسے پنجابی، ہریانوی، کھڑی بولی، برج بھاشا اور مرہٹی سے بھی مشترک ہے، جس کی وجہ سے اردو ایک ایسی زبان بن گئی ہے جو مختلف زبانیں بولنے والوں کے لیے مشترکہ رابطے کا ذریعہ بنتی ہے۔(۱۱)

آخر میں ڈاکٹر جمیل جالبی نے حسن شوقی کی زبان کی چند دوسری خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد ’’املا کے بارے میں‘‘ کے عنوان سے سرخی ہے جس میں حسن شوقی کے کلام کے املا اور رسم الخط کا جائزہ لیا گیا ہے۔ انھوں نے قدیم اردو اور جدید اردو کے املا کے فرق کو مثالوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔ دیوان حسن شوقی کی حوالے سے ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر لکھتے ہیں:

 ’’ ڈاکٹر جالبی نے دیوان حسن شوقی کی تدوین و تصحیح کے ساتھ شاعری کی زبان اور دوسری زبانوں کے ساتھ قدیم اردو کے تعلقات کا نہایت عمدہ مطالعہ پیش کیا۔ انھوں نے دسویں صدی ہجری کی زبان اور اس کی شعریات کا تجزیہ کر کے اردو کے لسانی سرمائے کو ماضی اور مستقبل کی قدروں کے ساتھ رکھ کر دیکھنے اور ان کی معنویت کا ادراک کرنے کی سعی کی۔ انھوں نے لفظ اور اس کے استعمالات کا بھی تجزیہ کیا اور لفظوں کی معنوی فضا بندی سے بھی غافل نہیں رہے۔ ہماری لغات دکنی عہد کی لفظیات اور ان کی معنوی جمالیات کی صورت پذیری سے اغماض برتتی رہیں، ڈاکٹر جالبی نے اس عہد کی زبان کو فکری، فنی اور جمالیاتی زاویہ ہائے نظر سے جانچنے اور اس کی معنوی فضا کی تشکیل اور اس کے تعین میں اپنی خوش ذوقی اور زبان فہمی کا ثبوت دیا۔اس حوالے سے بھی دیوان حسن شوقی اپنی طرز کا نمائندہ تدوینی کارنامہ ہے۔‘‘(۱۲)

’’دیوان حسن شوقی‘‘ کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ یہ اردو زبان کے ارتقائی دور کی لسانی اور شعری خصوصیات کو اجاگر کرتا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس دیوان کی تدوین کے ذریعے نہ صرف اس عہد کی زبان و بیان کی فکری اور جمالیاتی جہات کو نمایاں کیا بلکہ قدیم اردو کے دوسرے زبانوں کے ساتھ تعلقات کا عمدہ تجزیہ پیش کیا۔ ان کی تحقیق اردو لسانیات کے ماضی اور مستقبل کو سمجھنے کا ایک اہم ذریعہ بن گئی ہے۔

’’دیوان نصرتی ‘‘ ڈاکٹر جمیل جالبی کا دوسرا اہم تحقیقی و تدوینی کارنامہ ہے ۔ اس کی پہلی اشاعت مجلس ترقی ادب لاہور کے سہ ماہی ’’صحیفہ‘‘شمارہ ۶۱ ،اکتوبر ۱۹۷۲ء سے ہوئی اس کے بعد ۱۹۷۲ء ہی میں مطبع قوسین تھارنٹن روڈ ،لاہور سے کتابی صورت میں منظر عام پر آئی۔’’دیوان نصرتی‘‘ ۹۳صفحات پر مشتمل ہے ۔مشمولات کی فہرست کے بعد ایک طویل مقدمہ ہے ۔

ملک الشعرا نصرتی، گیارھویں صدی ہجری کے سلطنت بیجاپور کے نمایاں شاعر تھے، جنھوں نے محمد عادل شاہ، علی عادل شاہ ثانی، اور سکندر عادل شاہ کے ادوار دیکھے۔ ان کی مشہور عشقیہ مثنوی ’’گلشن عشق‘‘، مولوی عبدالحق اور سید محمد نے ترتیب دی، جو ۱۹۵۲ء میں انجمن ترقی اردو کراچی اور۱۹۵۷ء میں سالار جنگ پبلشنگ کمیٹی، حیدرآباد سے شائع ہوئی۔ مدحیہ مثنوی ’’علی نامہ‘‘، عبدالمجید صدیقی نے ترتیب دی اور مولوی عبدالحق نے ۱۹۴۴ء میں دہلی سے ان پر مبنی کتاب ’’نصرتی‘‘ شائع کی۔

 نصرتی کے اس دیوان میں ۵۵۰ ؍ ابیات کی ایک مثنوی ( تاریخ اسکندری ۱۰۸۳ھ)ہے ،ایک نعتیہ قصیدہ ’’ قصیدہ چرخیہ ‘‘۱۳۳؍ اشعار پر مشتمل ہے جس میں حضور سرور کائنات ﷺ کے واقعہ معراج کو بیان کیا گیا ہے اس کے علاوہ ایک اور ۱۸ ؍اشعار کا مختصرقصیدہ ہے اور ایک ’’گھوڑا مانگنے کی درخواست بادشاہ سے ‘‘ قصیدہ شامل ہے ۔اس کے علاوہ ۲؍ مخمس ، ۱۔ ہجو ، ۲۳؍ غزلیں، ۲۸؍ رباعیاں، ۳؍ قطعے، ۱؍ فارسی غزل اور آخر میں مشکل الفاظ کی فرہنگ شامل ہے۔

ڈاکٹر جمیل جالبی نے نصرتی کے کلام کی داخلی شہادتوں ،دیگر شعرا کے کلام اور دوسرے تذکروں کو بطور مآخذ استعمال کر کے نصرتی کی زندگی کے بہت سے ایسے نئے گوشے پیش کیے جو اس سے پہلے ظاہر نہیں تھے۔ مثلاً نصرتی کا نام محمد نصرت تھا ،اس کا خاندان دکن میں آکر آباد ہو گیا تھا اور وہاں کے لوگ اس خاندان کو اب بھی باہر کا خاندان سمجھتے تھے ۔اس کے آبا و اجداد پیشہ ور سپاہی تھے لیکن نصرتی پہلا شخص تھا جس نے پیشہ سپاہ گری کو چھوڑ کر شاعری کو اختیار کیا ،نصرتی نے علوم متداولہ و مروجہ حاصل کیے تھے ۔ وہ طبعی موت نہیں مرا تھا بلکہ حاسدین کے قتل کرنے کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوئی تھی۔ اس کے کلام سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ قاضی سید کریم اللہ ،شاہ ابو المعالی اور شاہ نور اللہ وغیرہ اس کے دوست تھے۔

 نصرتی کے سنہ وفات کے سلسلے میں مختلف خیالات سامنے آتے ہیں عبد الجبار ملکاپوری نے اپنی تصنیف’’ تذکرہ شعرائے دکن‘‘ میں نصرتی کی سال وفات ۱۰۹۵ھ لکھی ہے جب کہ پروفیسر محی الدین اپنی کتاب ’’اردو شہ پارے ‘‘ میں سال وفات ۱۰۸۱ھ بتاتے ہیں۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے ان دونوں تایخوں سے اختلاف کرتے ہوئے نصیر الدین ہاشمی کے متعین کردہ سنہ وفات ۱۰۸۵ھ کو قرین قیاس مانا ہے ۔

 ڈاکٹر جمیل جالبی نے نصرتی کی تین تصانیف کا ذکر کیا ہے ۔ ایک ’’گلشن عشق‘‘ (۱۰۶۸ھ) ،دوسری ’’ علی نامہ ‘‘ (۱۰۷۶ھ) اور تیسری ’’ دیوان نصرتی ‘‘ جس میں’’ تاریخ اسکندری‘‘ یعنی فتح نامہ بہلول خاں (۱۰۸۳ھ)شامل ہیں ۔ جمیل جالبی اس بات پر تعجب ظاہر کرتے ہیں کہ نصرتی نے نہ تو اپنے مآخذ اور نہ ہی بیجاپور میں لکھی جانے والی کسی مثنوی کا ذکر کیا ہے سوائے گولکنڈہ کے ملک الشعراء غواصی کی مثنوی ’’ صیف الملوک بدیع الجمال ‘‘ کے حالانکہ ’’ گلشن عشق‘‘ سے پہلے بہت سی مثنویا ں لکھی جا چکیں تھیں نصرتی نے ’’ گلشن عشق ‘‘ بنی عبد الصمد کی تحریک پر لکھی تھی اور’’ علی نامہ‘‘ قاضی کریم اللہ اور شاہ نور اللہ کی فرمائش پر ۔’’ علی نامہ‘‘ ایک طویل رزمیہ مثنوی ہے جس میں علی عادل شاہ کے ابتدائی دس برسوں کی منظوم تاریخ ہے ۔جس طرح فردوسی نے ’’ شاہ نامہ ‘‘ میں پورے ایران کی صدیوں پرانی تہذیب کو موضوع سخن بنایا ہے ۔اسی طرز پر نصرتی نے دکنی سلطنت کے دس سالہ دور کو اپنا موضوع منتخب کیا ۔مولوی عبد الحق نے اپنی تصنیف ’’ نصرتی ‘‘ میں ’’ تاریخ اسکندری ‘‘ کا گلشن عشق سے موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :

 ’’ نصرتی کی یہ مثنوی ( تاریخ اسکندری )’’گلشن عشق ‘‘ اور ’’ علی نامہ ‘‘ کے مقابلے میںبہت ہی مختصر ہے یعنی اس میں صرف ۵۵۴ ؍ اشعار ہیں کلام میں وہ زور اور شگفتگی بھی نہیں جو اس کی دوسری مثنویوں میں پائی جاتی ہے ۔‘‘(۱۳)

              اس کے جواب میں ڈکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں ۔

 ’’ وہ بات جو مولوی عبد الحق نے نظر انداز کر دی ،یہ ہے کہ ’’ تاریخ اسکندری‘‘ کا مقابلہ’’ علی نامہ ‘‘ سے اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ ’’علی نامہ ‘‘ عادل شاہ کے ہنگامے پرور دس سالہ دور کی بڑی مہمات کی تاریخ ہے اور ’’ تاریخ اسکندری‘‘صرف دو روزہ جنگ کی داستان ہے۔‘‘ (۱۴)

 دکنی غزل کی روایت کے مطابق نصرتی کی غزلوں کا بنیادی موضوع عورت ہے۔ اس کی غزلوں میں جسمانی لمس اور اس سے لطف اندوز ہونے کی خواہش نمایاں ہے، اور اس کا تصورِ عشق عورت کے جسمانی حسن تک محدود دکھائی دیتا ہے۔ نصرتی کی غزلوں میں وہ تخلیقی تخیل، جذبات کی گہرائی، اور معنی آفرینی موجود نہیں جو اس کی طویل نظموں کی پہچان ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ سمجھی جاتی ہے کہ شاہی دربار کی پسند نے اس کے فکری دائرے کو محدود کر دیا تھا۔

نصرتی نے بزمیہ اور رزمیہ دونوں طرز کی طویل مثنویاں لکھ کر اپنی عظمت کا لوہا منوایا اور قصیدہ گوئی میں اس کا شمار سودا اور ذوق جیسے بلند پایہ شاعروں کے ساتھ ہونا چاہیے۔ تاہم، ڈاکٹر جمیل جالبی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ نصرتی جیسا فنی اور شعری لحاظ سے عظیم شاعر اردو ادب کی تاریخ میں وہ مقام کیوں حاصل نہیں کر سکا جو ولی دکنی کو ملا؟ جالبی صاحب اس کا سبب نصرتی کی شاعری کو نہیں بلکہ اس اظہار و بیان کی روایت کو قرار دیتے ہیں، جس میں نصرتی نے اپنے شعری کمالات کو پیش کیا تھا۔ مغلوں کے دکن فتح کرنے کے بعد یہ ادبی اسلوب معیار کے طور پر متروک ہو گیا، جس کے نتیجے میں نصرتی کی شاعری کو وہ پذیرائی نہیں ملی جس کی وہ مستحق تھی۔ جمیل جالبی کے مطابق :

 ’’ اگر دکن کی یہ سلطنتیں باقی رہتی اور دکنی اردو کا یہ روپ قائم رہتا تو آج بھی نصرتی قدیم اردو کا سب سے بڑا شاعر قرار پاتا۔‘‘(۱۵)

نصرتی پر ڈاکٹر جمیل جالبی کی تحقیق نے اس کے زندگی کے پوشیدہ پہلوؤں کو روشنی میں لا کر اس کے ادبی، تاریخی اور ثقافتی مقام کو اجاگر کیا۔ ان کا کام نصرتی کی شخصیت، کلام اور عہد کی تفہیم کے لیے ایک اہم اور مستند حوالہ فراہم کرتا ہے۔

 ڈاکٹر جمیل جالبی کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے قدیم اردو کی پہلی معلوم تصنیف یعنی فخرالدین نظامی کی مثنوی’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ کی باقاعدہ قرات کی، اس کا تنقیدی محاکمہ پیش کیا اور تحقیق ،تلاش و جستجو سے اس کی حقیقت کا انکشاف کیا۔ اردو زبان و ادب کی یہ پہلی مثنوی احمد شاہ ولی البہمنی کے دور حکومت میں (۸۳۵ھ۔ ۸۳۹ھ/ ۱۴۳۱ء۔ ۱۴۳۵ء) کے درمیان تصنیف کی گئی اس مثنوی کا مخطوطہ سب سے پہلے نامور محقق مولانا نصیرالدین ہاشمی مرحوم کو حیدرآباد کے علم دوست مولانا لطیف الدین ادریسی سے حاصل ہوا،ہاشمی صاحب نے اسے رسالہ ’’معارف‘‘اعظم گڑھ،اکتوبر ۱۹۳۲ء کے شمارے میں ’’بہمنی عہد حکومت کا ایک دکنی شاعر‘‘کے عنوان سے شائع کیا۔(۱۶)

مولوی عبد الحق مرحوم کی یہ خواہش تھی کی یہ مثنوی کسی طرح پڑھ لی جائے اور اس کی اشاعت ہو سکے۔ کیوں کہ کدم رائو پدم رائو کا دنیا میں ایک ہی معلوم نسخہ ہے۔ رسم الخط نسخ ہونے کی وجہ سے اس کا پڑھنا کافی دشوار تھا۔ بیچ میںسے اکثر صفحات بھی غائب تھے اور آخر میں بھی مثنوی کے کم از کم دو تین صفحات کم معلوم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اس کے کاتب کا نام اور سنہ کتابت کا بھی پتہ نہیں چلتا۔ یہ مثنوی، جو تقریباً پونے چھ سو سال قبل لکھی گئی تھی ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس مہم کو سر کرنے کا بیڑا اٹھایا اور مسلسل پانچ سال سے زیادہ کا عرصہ کی عرق ریزی اور چھان بین کے بعد اس مثنوی کا متن مرتب کر کے ۱۹۷۳ ء میں انجمن ترقی اردو پاکستان کی جانب سے شائع کیا۔ ڈاکٹر محمد احسن فاروقی اس حوالے سے لکھتے ہیں۔

’’ وہ اردو کی اس پہلی تصنیف کو قبر سے کھود کر ہی نہیں نکال لائے بلکہ زندہ کر کے کھڑا کر دیا۔ اصل سائنٹفک تنقید اس قسم کی تحقیق ہے جو’’ کدم راؤ پدم راؤ‘‘ کے سلسلے میں جمیل جالبی نے پیش کی ہے‘‘۔(۱۷)

مثنوی ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘کو اردو کی سب سے قدیم معلوم مثنوی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس مثنوی کی دریافت اور ترتیب و تدوین نے اردو ادب کے خزانے میں ایک قیمتی اضافہ کیا ہے۔ دکنی مخطوطات کی دریافت کے بعد سب سے بڑا چیلنج ان کی قرات، تفہیم، تصحیح، ترتیب، مختلف زبانوں سے واقفیت، اور آخرکار ان مخطوطات کو ان کی اصل حالت میں اردو دان طبقے کے سامنے پیش کرنا ہے، جو یقیناً ایک نہایت محنت طلب عمل ہے۔

 مثنوی ’’ کدم راؤ پدم راؤ‘‘ ۲۹۸ /صفحات پر مشتمل ہے ابتدا میں جمیل الدین عالی کا ایک دیباچہ ’’حرفے چند‘‘ کے عنوان سے ہے اس کے بعد ڈاکٹر جمیل جالبی کا لکھا ہوا تفصیلی مقدمہ ہے بعد ازیں مثنوی کا متن وعکس اور فرہنگ شامل ہے۔ آخر میں دو ضمیمے اور فہرست مآخذ درج ہے۔کتاب کا انتساب ’’بابائے اردو کے نام‘‘ ہے۔

حقائق کی دریافت صرف چند اصولوں تک محدود نہیں کی جا سکتی۔ ادبی ماخذ کے ساتھ غیر ادبی اور ثانوی ماخذ کو بھی بنیادی حیثیت سے تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی تحقیق کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ بنیادی ماخذ کے ساتھ ثانوی ماخذ سے بھی استفادہ کرتے ہوئے تحقیق کے نتائج تک پہنچتے ہیں۔ وہ متن میں موجود داخلی شواہد اور مختلف واقعات کو منطقی ترتیب میں رکھ کر حقیقت کے قریب پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔مثنوی ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ کے زمانہ تصنیف کا کہیں ذکر نہیں ملتا، لیکن اس کے اشارے دو مقامات پر موجود ہیں۔ ایک جگہ سلطان علاء الدین بہمنی نور اللہ مرقدہ کی مدح کی سرخی ملتی ہے، جس کا پہلا شعر یوں ہے:

   بڑا شاہ وہ شاہ جس شاہ جگ

رہیں سیوتے جرم تس پائے لگ

 (شعر ۵۲)

ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس مثنوی کے زمانہ تصنیف کے سلسلے میں مختلف محقیقین مثلاً نصیر الدین ہاشمی مرحوم،مولوی عبد الحق،سخاوت مرزا،تاریخ فرشتہ کے مصنف اور افسر صدیقی امروہی کی بحث و مباحث اور داخلی شہادتوں سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ:

 ’’ان تمام شواہد کی روشنی میں اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسی احمد شاہ ولی البہمنی کے دور حکومت (۸۳۵ھ سے ۸۳۹ھ اور۱۴۳۱ء سے ۱۴۳۵ء) میں اردو زبان کی یہ پہلی معلوم مثنوی کدم راؤ پدم راؤ لکھی گئی۔

اس مثنوی کا اصل نام کیا تھا یہ بھی اسی وجہ سے معلوم نہیں ہے کہ مثنوی کے ابتدائی اور آخری صفحات غائب ہیں مثنوی کے دو کردار ہیں ایک کدم راؤ جو راجہ ہے دوسرا پدم راؤ جو وزیر ہے۔مولانا نصیرالدین ہاشمی نے انہی کرداروں کی منا سبت سے اس کا نام مثنوی ’’کدم راؤ پدم راؤ ‘‘رکھ دیا ہے اور یہ مثنوی اب اسی نام سے مشہور ہے۔‘‘ (۱۸)جب کہ مسعود حسین خاں کے مطابق مثنوی ’’کدم رائو پدم رائو‘‘ کا نام مولوی عبدالحق نے رکھا ہے ۔ (۱۹)      بقول ڈاکٹر جمیل جالبی مثنوی ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ کے مصنف کا نام فخردین اور تخلص نظامی تھا۔ سند کے طور پرمثنوی کے کئی اشعار پیش کیے مثلاً :

   کہے  فخر دیں  ایک  ساچا  بچن

 پہلے پرکھے جے کرے کوئی کن

  سنو فخر دیں اب کی سنو ر سے

الوالا مر اپنا   اسی  سنور  سے

 نظامی بس اوپر پھری ایک  چک

 رتن  لال  ہوتی  بھرے  تس مکھ

      مولوی عبدالحق نے مخطوطہ پر مصنف کا نا م فخرالدین لکھا ہے۔جب کہ نظامی نے مثنوی میں کئی جگہ اپنا نام فخر دیں استعمال کیا ہے۔جمیل جالبی مولوی عبدالحق سے اتفاق نہیں کرتے، لکھتے ہیں کہ آج بھی پنجاب میں یہ تخاطب رائج ہے اور اکثر قدیم شعرائے پنجاب اپنے کلام میں خود کو اسی طرح مخاطب کرتے ہیں پرت نامہ (قبل۹۷۳ھ) کے مصنف کا نام بھی قطب دین تھا اس کا یہ شعر دیکھئے۔

 مجھے ناوںہے قطب دیں قادری

  تخلص سو  فیروز  ہے  بیدری

 ان شواہد کی روشنی میں جب کہ مصنف خود اپنا نام بار بار فخر دیں لکھ رہا ہے اسے ’’فخر الدین ‘‘لکھنا صحیح نہیں ہے‘‘۔ (۲۰) وہ مزید بتاتے ہیں کہ مصنف کی زندگی سے متعلق کوئی تذکرہ یا تاریخی معلومات دستیاب نہیں ہیں، اور صرف مثنوی کی داخلی شہادتوں کی بنیاد پر یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وہ احمد شاہ ولی بہمنی کے دور میں بیدر میں موجود تھا۔ تاہم، ڈاکٹر جالبی کے مطابق، یہ بات بھی دعوے کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ وہ بادشاہ کے دربار سے وابستہ تھا یا نہیں۔ جمیل جالبی یہ بھی بتاتے ہیں کہ مصنف فارسی زبان کا ماہر تھا، اس بات کا ثبوت مثنوی میں تمام عنوانات کا فارسی میں ہونا ہے۔ انھوںنے مثنوی کے اشعار کی تعداد پر بھی روشنی ڈالی، جس میں ۱۰۳۲ اشعار ہیں، جبکہ ۱۰۳۳واں شعر نامکمل ہے اور اس کے بعد کے اشعار غائب ہیں۔ جمیل جالبی نے یہ وضاحت بھی دی کہ مثنوی اپنی ہیئت میں فارسی مثنوی کی مقررہ بحر “فعولن فعولن فعولن فعل” کے وزن پر لکھی گئی ہے، مگر بعض جگہ آخری رکن میں “فعل” کی جگہ “فعول” آ گیا ہے، جو اوزان و بحور کے اصولوں کے مطابق ایک معمولی تبدیلی ہے۔ (۲۱)

     مثنوی کدم راؤ پدم راؤ میں عربی،فارسی الفاظ کے ساتھ ساتھ راجستھانی،گجری،سندھی،سرائیکی،کھڑی بولی اور سنسکرت کے الفاظ ملتے ہیں۔جمیل جالبی نے نہ صرف ان زبانوں کے الفاظ کی نشاندہی کی بلکہ انھوں نے ان زبانوں کے بولنے والوں کو اس مثنوی کے اشعار پڑھ کر سنائے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ آج بھی اس کے بہت سے الفاظ ان کے گھروں میں بولے جاتے ہیں۔

  مثنوی ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ کے لسانی مطالعہ میں اس کی زبان کی پختگی اور اسلوب کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر جمیل جالبی نے یہ خیال ظاہر کیاکہ:’’اس مثنوی میں جو زبان استعمال ہوئی ہے اس میں روز مرہ اور محاورے کی ایسی رچاوٹ ہے کہ اسے دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ یہ مثنوی اس زبان کا پہلا نمونہ نہیں ہے بلکہ اس سے قدیم ترین نمونے بھی ہوں گے جو یا تو ضائع ہو گئے یا ابھی تک ہماری نظروں سے اوجھل ہیں‘‘ (۲۲)۔ مقدمہ کے آخر میں جمیل جالبی نے کچھ ایسے الفاظ کی فہرست شامل کی ہے جس سے یہ اندازہ ہو سکے کہ مخطوطے کا املا متن میں کس طرح پیش کیا گیا ہے۔

     ڈاکٹر جمیل جالبی کی مثنوی’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ نہ صرف فنی اعتبار سے معتبر ہے بلکہ اپنے وقت کا سب سے اہم تحقیقی کارنامہ ہے۔ان کی یہ محنت جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی کی تحقیقی و تدوینی کاوشیں اردو ادب کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ دیوان حسن شوقی، دیوان نصرتی، اور مثنوی کدم راو پدم راو کی تدوین کے ذریعے انھوں نے ان متون کے تاریخی، لسانی اور ادبی پہلوؤں کو نہ صرف محفوظ کیا بلکہ ان کی تہہ در تہہ معنویت کو بھی اجاگر کیا۔ ان کا یہ کام اردو ادب کے قدیم سرمائے کو جدید علمی اصولوں کے تحت پیش کرنے کی کامیاب کوشش ہے، جو تحقیق کے میدان میں نئی راہیں کھولتا ہے اور آئندہ محققین کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔

     ڈاکٹر جمیل جالبی نے اردو ادب کے کلاسیکی متون کی بازیافت اور تدوین میں وہ تمام فرائض بخوبی ادا کیے ہیں جو ایک مدون سے توقع کی جاتی ہیں۔ انھوں نے متون کی صحت بندی، لسانی تجزیہ، تاریخی پس منظر کا بیان اور ثقافتی معنویت کو اجاگر کرتے ہوئے اردو ادب کے دکن کے ادبی سرمایے کو محفوظ کیا۔ ان کی تحقیقی کاوشوں نے نہ صرف اردو زبان کے ارتقا کو واضح کیا، بلکہ ان متون کو جدید تناظر میں پیش کرنے کا ایک اہم سنگ میل ثابت کیا۔ ڈاکٹر جالبی کی یہ محنت نہ صرف اردو ادب کی تاریخ کو نئی روشنی میں پیش کرتی ہے، بلکہ یہ محققین کے لیے بھی ایک رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ ان کی تدوینی کاوشوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کلاسیکی متون میں موجود گہرائی اور جمالیاتی عناصر کو کیسے نئے قارئین تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اس مضمون سے قارئین یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ڈاکٹر جمیل جالبی کی تحقیق اور تدوین اردو ادب میں ایک معیار کی حیثیت رکھتی ہے اور ان کے کام نے اردو ادب کے کلاسیکی ذخیرے کو ایک نئی زندگی دی ہے۔

              حواشی

۱۔           دیوان حسن شوقی،مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی ،انجمن ترقی اردو ،پاکستان،اشاعت اول ۔۱۹۷۱ء ص ۲

۲۔          افسر صدیقی امروہی ،دیوان حسن شوقی ،مشمولہ جمیل جالبی یا اردو ادب کی تاریخ ،مرتبہ ڈاکٹر محمد خاور جمیل اور مصطفی کمال پاشا،

      ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی۔۲۰۱۵ء ،ص۴۱۶

۳۔          ڈاکٹر گوہر نوشاہی ،ڈاکٹر جمیل جالبی کا انداز تحقیق،مشمولہ جمیل جالبی یا اردو ادب کی تاریخ ،ص۵۰۴

۴۔          دیوان حسن شوی ،مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی،ص ۴

۵۔          ایضاً،ص۱۲                                                         ۶۔          ایضاً،ص۱۴

۷۔         ایضاً،ص۷                                            ۸۔          ایضاً،ص۲۴

۹۔          ایضاً،ص۲۸

۱۰۔         ڈاکٹر وحید قریشی ،دیوان حسن شوقی ،مشمولہ ڈاکٹر جمیل جالبی ایک مطالعہ ،مرتبہ ڈاکٹر گوہر نوشاہی ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی۔۱۹۹۳ء،ص۲۶۴

۱۱۔         دیوان حسن شوقی ،مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی،ص۶۱

۱۲۔         ڈاکٹر عبد العزیز ساحر ،ڈاکٹر جمیل جالبی شخصیت اور فن ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ،دہلی ۔۲۰۰۸ء ،ص ۸۲۔۸۱

۱۳۔        مولوی عبد الحق ’’نصرتی‘‘،انجمن ترقی اردو کراچی۔۱۹۴۴ء ،ص

۱۴۔        دیوان نصرتی ،مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی ،ص ۱۱                 ۱۵           ایضاً،ص ۱۵

۱۶۔         کدم رائو پدم رائو مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ،دہلی۔۱۹۷۹ء ،ص ۸

۱۷۔        جمیل جالبی کی تنقید نگاری از محمد احسن فاروقی،مشمولہ ڈاکٹر جمیل جالبی ایک مطالعہ،مرتبہ ڈاکٹر گوہر نوشاہی ،ایجوکیشنل پبلشنگ

               ہائوس،دہلی۔۱۹۹۳ء،۱۶۵                                     ۱۸۔        ایضاً،ص۱۶

۱۹۔         جمیل جالبی پر ایک نظر ،اس مسعود حسین خان ،مشمولہ اردو کے نامور محققین ،مرتبہ تبسم کاشمیری اور محمد ذیشان وکیل ،پاکستان رائٹرکواپریٹو سوسائٹی۔۲۰۱۸ء ،ص ۸۸۸

۲۰۔        ایضاً،ص۱۷                            ۲۱۔         ایضاً،ص۱۵              ۲۲ ۔              ایضاً،ص۳۶

              RASHID KADAREE

4/145 Shibli Bagh,Dhorra Mafi,Aligarh

 Research Scholar,Department Of Urdu,

Aligarh Muslim University,Aligarh U.P. 202002

Email.rashidqadri786@gmail.com

Mobile No. 7376925305

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.