ترنم ریاض : اردو افسانے کا ایک معتبر نام
ترنم ریاض کا شمار جموں وکشمیر کے مشہور فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ بیک وقت شاعرہ،افسانہ نگار،ناول نویس، مترجم اور تنقید نگار تھیں۔ ان کا اصلی نام فریدہ ترنم تھا لیکن ادبی دنیا میں ترنم ریاض کے نام سے مشہور ہوئیں۔آپ کی پیدائش ۹اگست۱۹۶۳ءکو سرینگر کے علاقہ کرن نگر میں ہوئی۔ موصوفہ نے ابتدائی تعلیم سرینگر سے حاصل کی، بعد ازاں انہوں نے اُردو میں ایم۔اے کیا اور اس کے بعد ایجوکیشن میں بھی ایم۔اے کی سند حاصل کی اور کشمیر یونیورسٹی سے ہی ایجوکیشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی۔آپ کی زندگی کا زیادہ تر وقت درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں ہی گزرا۔ آپ نے ایسے دور میں لکھنا شروع کیا جب جدیدیت کا دور اپنے پورے شباب پر تھا۔ جدیدیت کارجحان ادیبوں کی تخلیقات میں ابھر کر سامنے آرہا تھا۔ لیکن آپ کی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز مابعد جدیدیت میں ہوا۔۱۹۸۰ کے بعد کے دور کو ہم مابعد جدیدیت کے نام سے جانتے ہیں۔ اس عہد کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ فن کاروں کو فنی اور موضوعاتی طور پر پوری آزادی میسر آئی۔ نوے کی دہائی کے افسانہ نگاروں میں ترنم ریاض کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ ترنم ریاض نے ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا لیکن جلد ہی وہ کہانی اور ناول کی طرف مائل ہو گئیں۔ موصوفہ نے دو بہترین ناول بھی تخلیق کیے ہیں” مورتی” اور “برف آشنا پرندے” جو اردو ناول نگاری کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان ناولوں کے ترجمے دیگر زبانوں میں بھی ہوچکے ہیں۔ ان کی تحقیق و تنقید پر بھی کتابیں موجود ہیں ان کی تحقیقی و تنقیدی کتابوں میں چشم نقش قدم ۲۰۰۵،اجنبی جزیروں میں ۲۰۱۵، اور بیسویںصدی میں خواتین کا ادب ۲۰۰۴وغیرہ شامل ہیں وہ ایک بہترین ترجمہ نگاری بھی ہیں ،ان کی تراجمہ ساز کتابوں میں گو سائیں باغ کا بھوت ،سنو کہانی ،ہاوٗس بوٹ پربلی ،قابل ذکر ہیں ۔بنیادی طور پر ترنم ریاض ایک کہانی کار ہیں۔ ان کی پہلی کہانی”مصور” ۱۹۷۵میں روز نامہ آفتاب” میں شائع ہوئی۔ انہوں نے بہت سی کہانیاں لکھیں ہیں ان کے چار شاہکار افسانوی مجموعے چھپ کر منظر عام پر آ چکے ہیں اور خوب داد و تحسین بھی حاصل کر چکے ہیں۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ”یہ تنگ زمین” ۱۹۹۸،”ابابیلیں لوٹ آئیں گی”۲۰۰۰،”یمبرزل۲۰۰۴ اور”میرے رخت سفر”۲۰۰۸ ہیں۔اس کے علاوہ ان کے شعری مجموعوں میں”بھادوں کے چاند تلے۲۰۰۵”پرانی کتابوں کی خوشبو”،۲۰۰۹”زیرہ سبزہ محوخواب ہے”،۲۰۱۵ کو بھی ادبی دنیا میں کافی سراہا گیا ہے۔ ترنم ریاض کے افسانوں کا کینوس کافی وسیع ہے انہوں نے اپنے افسانوں کے موضوعات اپنے اردگرد کے معاشرے سے لیے ہیں۔ ترنم ریاض کو بچپن سے ہی کہانی سننے اور پڑھنے کا شوق تھا وہ کہانی لکھنے کے متعلق اپنے افسانوی مجموعہ” یہ تنگ زمین”کے ابتدائیہ میں لکھتی ہیں کہ:
’’کہانی سے میرا باقاعدہ تعارف تب ہوا تھا جب میری آپا میڑک میں پڑھتی تھی۔ ان کی اردو کی نصابی کتاب میں،میں نے پریم چند کی دو کہانیاں پڑھی تھیں انہی دونوں میں نے اپنی کہانی مصور لکھی تھی۔اس وقت ریڈیو کشمیر سرینگر میں بچوں کے پروگرام کی باقاعدہ آرٹسٹ تھی۔لیکن یہ کہانی مجھ سے نوجوانوں کے پروگرام میں پڑھائی گئی تھی،جس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ کہانی کے ذریعہ بہت سی باتیں کی جاسکتی ہیں،یا سمجھائی جا سکتی ہیں۔‘‘ ۱؎
ترنم ریاض کاتعلق ایک ادبی گھرانے سے تھا گھر کے ماحول اور رجحان نے ان کے اندر کہانیاں لکھنے کا شوق پیدا کیا ان کی ادبی کہانیاں پھر تواتر کے ساتھ اخبارات کی زینت بننے لگیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں کشمیر کی خوبصورتی کو بڑے موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ ایک طرف جہاں انہوں نے کشمیر کی خوبصورتی،وہاں کے برف پوش پہاڑوں،آبشاروں، ندی نالوں،سرسبز شاداب میدانوں،گھنے جنگلوں جیسے موضوعات کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے وہیں دوسری طرف کشمیر کی مظلوم عوام کی آہ،ماؤں کی سسکیاں،عورتوں پرکی جانے والی زیادتیاں،افلاس،تشدد،عورت کی مجبوری اور بے بسی کو بھی بڑی بے باکی سے اپنے افسانوں میں سمویا ہے۔ ان کے کئی شاہکار افسانے ہیں،جن کو اُردو دنیا میں کافی سراہا گیا ہے،میرا پیا گھر آیا،یہ تنگ زمین،پورٹریٹ، باپ،یمبرزل،شہر،بلبل،کانچ کے پردے گونگی ناخدا وغیرہ ان کے شاہکار افسانے ہیں میرا پیا گھر آیا ان کا ایک بہترین افسانہ ہے جس میں ایک ایسی عورت کی کہانی پیش کی گئی ہے جو اپنے شوہر کی برائی اور بے توجہی کو خوشی سے برداشت کرلیتی ہے اور کبھی بھی ان پر اعتراض نہیں کرتی۔ وہ ایک صابر اور پاکیزہ عورت ہے اور اس کا شوہر شہیر شادی کے بعد دوسری عورتوں کی محبت کا مرکز بن جاتا ہے اور ان کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کر لیتا ہے۔ شوہر کی ان حرکتوں سے اس کی بیوی شمع ذہنی طور پر پریشان رہتی ہے اور ایک بابا کے دربار سے منسلک ہوجاتی ہے اور وہ اپنا تعلق خدا کے ساتھ جوڑ لیتی ہے اور ہمیشہ صبر و تحمل سے کام لیتی ہے اور یہی صبر بل آخر اس کے شوہر کو احساس دلاتا ہے کہ ایک عورت کا صبر وتحمل اور اس کی ذہنی کشمکش اور بے بسی کس حد تک ہلچل پیدا کر سکتی ہے۔ اس کے متعلق ترنم ریاض اپنے افسانہ میرا پیا گھر آیا میں یوں رقمطراز ہیں :۔
’’شمع کا رشتہ آنسوؤں سے جڑ گیا اور خدا کے حضور شکایتوں کا دفتر کھل گیا۔حالات کا یہ کڑوا زہر اکیلے کیسے پی جاتی اسے کسی کا سہارا تو چاہیے تھا۔وہ دن بھر شام کے انتظار میں بجھی بجھی رہتی۔شام سلگنے لگتی اور شب بھر قطرہ قطرہ آنسو بن کر بہتی رہتی۔اسے اس گھر سے،اس مکینوں سے،زندگی سے نفرت سی ہوگئی تھی۔اس پر اس کی منی سی بیٹی کی زندگی کا انحصار نہ ہوتا تو شاید کچھ کر بیٹھتی۔‘‘ ۲؎
اس افسانہ میں ترنم ریاض نے عورت کی بے بسی،صبر اور مجبوری کو بڑے موثر انداز میں پیش کیا ہے اور یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ایک عورت اپنے بچوں کے لئے زندگی کی تکلیفوں اور پریشانیوں کو تو برداشت کرسکتی ہے لیکن وہی عورت اس وقت زندہ لاش بن جاتی ہے جب اس کا شوہر اس کے ہوتے ہوئے دوسری عورت میں دلچسپی لینا شروع کردے، تووہ اذیت عورت کے لیے موت سے کم نہیں ہوتی۔ ایک شادی شدہ عورت کے لیے اپنا شوہر ہی سب کچھ ہوتا، جب وہ اپنے شوہر کی بے توجہی اور انا پرستی کا شکار بن جاتی ہے تو اس وقت اس کے لیے اپنی اولاد ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کے سہارے ہی زندگی جینا شروع کردیتی ہے۔ بچوں کی خاطر عورت سب اذیتیں برداشت کرلیتی ہے۔ افسانہ میں ترنم ریاض نے ایک عورت کی اذیت ناک روداد پیش کی ہے اور یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ مشکل وقت میں صبر سے کام لینا چاہیے اور صبر وتحمل سے مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہوجاتے ہیں۔ ترنم ریاض کا خاص موضوع عورت ہے انہوں نے اپنے افسانوں میں عورت پر کی جانے والی زیادتیاں،ظلم جبر،تشدد، نا انصافیاں،جنسی استحصال، وغیرہ کے خلاف آواز بلند کی ہے افسانہ باپ ،بلبل،تعبیر،کانچ کے پردے،جالے،دھندلے آئینے، وغیرہ اس کی زندہ مثالیں ہیں، باپ دنیا میںاپنی اولادکے لیے سب سے زیادہ قابل بھروسہ اور قابل احترام شخص ہوتا ہے ۔وہ اپنی بیٹیوںکامحافظ ہوتا ہے اگر وہی باپ محافظ کے بجائے حیوانیت پر اتر آئے تو پھر دنیا کے کسی بھی شحص پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ،موصوفہ نے افسانہ باپ میں ایک ایسے ہی باپ کی نقاب کشائی کی ہے جو اپنی بیٹیوں کو ہوس زاہ نگاہوں سے دیکھتا ہے اور وہ اپنی لخت جگر کے ساتھ جنسی استحصال کرتا رہاپھر وہی بیٹیاں باپ کے خلاف بغاوت کرتی ہیں۔ افسانہ یہ تنگ زمین میں بھی ترنم ریاض نے کشمیر کے حالات اور وہاں کے بچوں کی نفسیاتی کشمکش کو بڑی بے باکی سے پیش کیا ہے اس افسانے کا اہم کردار ایک معصوم بچہ ہے جو کبھی قدرت کے حسین مناظر میں کھیلنا پسند کرتا تھا، تتلیوں کے پیچھے بھاگنا،پرندوں کے بول بولنا،کھلونے کے ساتھ کھیلنا،رقص و موسیقی میں دلچسپی لینا اور قدرتی مناظر ، پیڑ پودے،اور مٹی کے ساتھ کھیلنے میں اسے خوشی محسو س ہوتی تھی لیکن اب وہی بچہ بدل چکا ہے۔ کشمیر کی ہنگامی صورتحال نے وہاں کے بچوں کے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی انسان گولیوں کا نشانہ بن رہاہے۔ وہاں کے بچے اپنے اردگرد جو دیکھ رہے ہیں انہی چیزوں میں ان کی دلچسپی بڑھتی جارہی ہے کشمیر کے معصوم بچوں کے ذہنوں میں بھی بندوقوں کا کھیل اور گولیوں کی آوازیں گونج رہی اور ان ذہنوں میں آوازیں پنپ رہی ہیں جس کا نقشہ مصنفہ نے اپنے افسانہ یہ تنگ زمین میں یوں کھینچا ہے۔
’’شی۔۔۔۔۔۔ادھرنہیں جانا۔۔۔۔۔۔۔فائرنگ ہورہی ہے،وہ مجھے خبردار کرتے ہوئے سر گوشی میں بولی۔اندر جھانکا تو عجیب منظر دیکھا۔ سار ے گھر کے تکیے اور سرہانے ایک کے اوپر ایک اس طرح سے رکھے ہوئے تھے جیسے ریت کی تھیلیاں رکھ کر مورچے بنائے جاتے ہیں۔وہ درمیان میں اوندھا لیٹاہواایک بڑی سی لکڑی کو بندوق کی طرح پکڑے منہ سے مختلف طرح کی گولیوں کی آوازیں نکال رہا ہے۔ اور اس کے دائیں بائیں میرے دونوں بیٹے اپنی پرانی چھوٹی چھوٹی بندوقیں لیے ہوئے اس کا ساتھ رہے ہیں۔وہ جیسے حکم کرتا وہ دونوں ویسا ہی کرتے کبھی ایک بھاگ کر ایک کونے میں گھستا،کبھی دوسرا دوسرے کونے میں یہ عمل دہراتا۔کبھی ایک بک ریک کی آڑ میں ہو کر کودتا۔ کبھی دوسرا الماری کے پیچھے چھپ کر، جست لگا کر دیوار کے ساتھ چپک جاتا۔اور وہ خود مورچہ سنبھالے،کبھی ان کو ہدایت کرتا کبھی ان پر بندوق تان دیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب یہ ہی اس کا پسندیدہ کھیل تھا۔وہ میٹھی بولیاں،وہ رقص، وہ موسیقی،بھول چکا ہے۔۔۔۔‘‘ ۳؎
ترنم ریاض کے افسانوں میں جموں و کشمیر کے ماحول اور حالات کا عکس صاف طور پر نمایاں ہے اور بطور خاص انہوں نے کشمیر کے سیاسی پس منظر کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ سیاست کے متعلق انہوں نے بڑی بے باکی سے بات کی ہے اور سیاست پر طنز کسا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ کشمیر کی ہنگامی صورتحال نے معصوم بچوں کے ذہنوں کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ان کا ایک شاہکار افسانہ شہر ہے اس افسانے میں انہوں نے شہری زندگی کے مسائل و معاملات اور وہاں کی پریشانیوں کو بڑے موثر انداز میں بیان کیا ہے۔ شہر میں بسنے والے لوگوں کی لا تعلقی اور بے رخی کو عیاں کیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ شہری لوگ اپنی غرض سے ہی ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور عام طور پر وہ ایک دوسرے سے بے خبر ہوتے ہیں۔ اس کہانی کا مفہوم یوں ہے کہ ایک عورت اپنے دو بچوں کے ساتھ شہر میں مقیم ہوجاتی ہے ان کا شوہر دوسرے شہر میں نوکری کرتا ہے۔ ان کے دو معصوم بچے ہیں اچانک بند فلیٹ میں ماں کا انتقال ہوجاتا ہے۔ دونوں بچے اتنے ناسمجھ ہیں کہ وہ دونوں موت کے مفہوم کو نہیں سمجھ سکے، وہ بچے ماں ماں پکارتے ہیں ماں کی موت ہوچکی ہوتی ہے۔ جب ماں کی لاش کی بو ادھر ادھر پھیلتی ہے تو آس پاس کے لوگوں کو ماں کی موت کا پتہ چلتا ہے۔ اس منظر کو ترنم ریاض اپنے افسانہ شہر میں یوں پیش کیا ہے:۔
’ممی،،اس نے ممی کو پوری طاقت سے جھنجھوڑا مگر ممی بے حسی وحرکت پڑی رہیں۔وہ کچھ دیر گم سم سا بیٹھا رہا۔پھر ثوبیہ کے قریب جا کراس نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے آنسو پونچھے ,, نہیں رونا ثوبی،،ممی سو رہی ہے،مگر ثوبی تھی کہ چپ ہی نہیں ہو رہی تھی ,,چپ ہوجا،،وہ چیخا اور ساتھ ہی دھاریں مار مار کر رونے لگا،،جانے کب تک دونوں بہنیں بھائی روتے رہے مگر امی نے چپ ہی کرایا نہ کچھ بولیں۔‘‘ ۴؎
ترنم ریاض نے اس کہانی میں نہ صرف معصوم بچوں کی سسکیوں اور شہری زندگی کا تجزیہ کیا ہے بلکہ شہر میں بسنے والے لوگوں کی بے توجہی، لاتعلقی اور بے رخی کو بھی طنز کا نشانہ بنایا ہے اور ساتھ میں یہ پیشن گوئی بھی کی ہے کہ آئندہ فلیٹوں میں کیا کیا مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
ان کا افسانہ یمبرزل کشمیر کے علاقے کی عکاسی کرتا ہے یاور،یوسف،نکی باجی اس افسانے کے مرکزی کردار ہیں جو ہمیشہ اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اس افسانے میں موصوفہ نے کشمیر کے سیاسی سماجی،معاشی اور اقتصادی حالات کو سامنے لاتے ہوئے یہ عیاں کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہاں کے لوگ کس طرح کے ماحول میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کے دلوں میں ہمیشہ خوف اور ڈر کا ماحول رہتا ہے۔ ہر دن کرفیو،دھماکہ اور ہڑتال کی آوازیں انہیں سننے کو ملتی ہیں۔ بے گناہ لوگوں کو شک کی بنیاد پر گولی مار دینا،اسکول اور کالجوں کو بند کر دینا،چھاپے پڑنا، مخبری اور بچوں کا ذہنی دباؤ کا شکار ہوجانا جیسے پیچیدہ مسائل کو انہوں نے اس افسانے میں بیان کیا ہے، اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہاں کے لوگوں کو کس طرح کی مصیبتوں اور پریشانیوں کا آئے دن سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس افسانے میں انہوں نے سیاسی نظام پر سخت طنز کیا ہے۔ترنم ریاض نے اپنے بیشتر افسانوں میں عورت اور عورت پر معاشرے میں کیا جانا والے ظلم وجبر،ناانصافیوں،اور عورت کے نسوانی احساسات و جذبات کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ ان کا محبوب موضوع عورت ہے۔ عورت کو انہوں نے کئی زاویوں سے دیکھا ہے،خود صنفِ نازک ہونے کے ناطے ہر مظلوم عورت کے درد کو خود پر محسوس کیا ہے اور پھر ان اندرونی کیفیات کو الفاظ کے مادے سے کاغذ پر تصویر بنا کر پیش کیا ہے۔ انہوں نے تانیثی ادب کو بھی پروان چڑھایا ہے۔ وہ تانیثی ادب کی ایک منفرد آواز ہیں انہوں نے ہمیشہ عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے اور عورت کو اس کا اصلی رتبہ دلانے کی بات کرتی رہی ہیں۔ عورتوں کی ازدواجی زندگی،مردوں کی طرف سے کی جانے والی زیادتیاں، عورتوں پر معاشرے کا دباؤ،گھریلو مجبوریاں،ذہنی دباؤ، حقوق کی حق تلفی جیسے موضوعات کو انہوں نے اپنے افسانوں میں اجاگر کیا ہے اردو کے مشہور نقاد پروفیسر وارث علوی ترنم ریاض کی تخلیقی وفنی بصیرت کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں:
’’ترنم ریاض کے افسانوں کو پڑھ کر پہلا احساس یہ ہوا کہ وہ ایک غیر معمولی صلاحیت کی افسانہ نگار ہیں لیکن کوئی ناقد یہ شناخت قائم کرتا نظر نہیں آتا یعنی ایسا لگتا ہے کہ نقاد کے دل میں ایک خوف سا ہے کہ اگر انہوں نے اس خاتون کو دوسرے سے الگ کیا یا بہتر بتایا تو دوسرے ناراض ہو جائیں گے اس لیے عافیت اسی میں ہے کہ انہیں ساتھ ساتھ ہی چلنے دو یعنی فہرستی ریوڑ سے الگ نہ کرو۔ اس رویے سے دوسرے افسانہ نگاروں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن ترنم ریاض کا نقصان ہوجاتا ہے۔ان کی انفرادیت قائم نہیں ہو پاتی۔۔۔۔۔‘‘ ۵؎
المختصر یہ کہ ترنم ریاض کے افسانوں کے مطالعہ سے یہ احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے ان کے افسانوں کے کردار معاشرے کے وہ افراد ہیں جو ظلم و جبر، افلاس،تشدد، حیوانیت اور ناانصافیوں کے شکار ہیںانہوں نے افسانے کو نئی جہتوں اور نئے تجربوں سے بھی روشناس کرایاہے۔ ان کی متعدد کہانیوں میں نسائی شعور اور نسائی تہذیب و ثقافت کی جھلک بھی دیکھائی دیتی ہے وہ ایک شریف النفس اور ذہین خاتون تھیں۔ وہ انسانیت اور ہمدردی کا پیکر تھیں ان کی تحریروں سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ان کے دل میں محبت، خلوص،رحم دلی،مامتا اور ایثار و قربانی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ ترنم ریاض کے افسانوں کی زبان صاف،سادہ سلیس اور شگفتہ ہے اور ان کی یہی سادگی قاری کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے ان کے افسانے پلاٹ،کردار،اسلوب ، منظرنگاری،جزئیات نگاری، زبان وبیان اور ہر لحاظ سے کامیاب اور مکمل ہیں وہ اپنی تخلیقات کی وجہ سے ہمیشہ اردو ادب میں زندہ رہیں گی ۔
حوالہ جات:۔
۱۔ ترنم ریاض،یہ تنگ زمین،ماڈرن پبلشنگ ہاوس،دریاگنج نئی دہلی ۹۹۸۱ء ص ۹
۲۔ ترنم ریاض،ابابیلیں لوٹ آئیں گی،نرالی دنیا پبلی کیشنز دریا گنج نئی دہلی،۲۰۰۰ء ص۱۹۶
۳۔ ترنم ریاض،یہ تنگ زمین،ماڈرن پبلشنگ ہاوس،دریاگنج نئی دہلی ۱۹۹۸ء ص۱۶
۴۔ ترنم ریاض،ابابیلیں لوٹ آئیں گی،نرالی دنیا پبلی کیشنز دریا گنج نئی دہلی،۲۰۰۰ء ص۱۰۸
۵۔ وارث علوی، گنجفہ بازِ خیال،ماڈرن پبلشنگ ہاوس،دریاگنج نئی دہلی ۲۰۰۷ء ص۱۲۱
Leave a Reply
Be the First to Comment!