خطہ چناب میں افسانہ نگاری کی موثر ترین نسائی آواز:نیلوفر
افسانہ نگاری کی دنیا بہت وسیع اور کشادہ ہے۔عہد حاضرمیں موازنہ کیا جائے تو علمی ذوق رکھنے والوں میں شعراء کی کثیر تعداد دیکھنے کو ملتی ہے جبکہ افسانہ نگار نایاب ہو تے جارہے ہیں ۔ ایک دور ایسا تھا جب داستانوںکا رواج عام تھا۔ اور یہ سلسلہ مدت تک چلتا رہا۔ مگر انسانی زندگی کا یہ خاصہ ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ اپنے راستے کو تبدیل کر کے دوسرے راستے پر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ ابتدا میں تو خطرات محسوس ہوتے ہیں مگر وہی وادیٔ پر خار ایک دن اس کی معترف بھی ہو جاتی ہے اور اس کے لئے راستے آسان تر ہو جاتے ہیں۔
داستان جو ہندوستان کی بہت معروف اور مقبول صنف تھی جو راجاؤں کے درباروں میں بڑے انہماک سے بیان کی جاتی تھی ۔ جب اس کے دن تمام ہوئے تو ناول نے اپنی بساط پھیلائی جس پر لکھنے والوں نے بڑی طویل ناولیں تصنیف کیں۔ ناول کے بعد جب مزید وقت کی قلت کا احساس ہوا تو ناولٹ اور افسانے وجود پذیر ہوئے جو آج کے دور میں شاعری کے بعد ایک کامیاب اصناف مانے جاتے ہیں۔ اس میدان میں ہزاروں کی تعداد میں ہماریادیبوں نے اپنے قلم کے جوہر دکھائے اور صنف ناول و افسانہ نگاری کو تقویت بخشی۔افسانہ نگاری کا یہ سلسلہ آج بھی ادبی میدان کو گل گلزار بنائے ہوئے ہے۔ جب ہم افسانہ نگاری کی دنیا کا سفر کرتے ہیں تو افسانہ نگاری جہاں میں مردوں کی کثیر تعداد ہے تو وہیں خواتین نے بھی اس میدان کو مزید وسعت عطا کی ہے۔ کوئی بھی میدان ہو طبقہ نسواں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور اپنی انفرادیت بھی منوائی ہے ۔ افسانہ نگاری کے میدان میں، الطاف فاطمہ، بانو قدسیہ، رشید جہاں، رضیہ بٹ ، قرۃ العین حیدر ، عصمت چغتائی، خدیجہ مستور، جمیلہ ہاشمی ، ہاجرہ مسرور، ممتاز شیریں، واجدہ تبسم وغیرہ جیسی با صلاحیت خواتین نے افسانے میں مختلف نوعیت کے موضوعات کو جگہ دے کر اردو ادب کی روایت کو ترویج و ترقی دی ہے۔
افسانہ نگاری ایک مشکل صنف ہے جس میں خواتین کی تعداد قلیل ہے۔اس کے باوجود ہردورمیں خواتین اپنے جذبات واحساسات کے ذریعے موجودہ مسائل کو افسانوی شکل میں پیش کرتی رہی ہیں۔اسی افسانہ نگاری کی بہت سی کڑیاں ہندوستان کی عارضی جنت کہے جانے والے خطہ جموں وکشمیر سے متصل ہیں ۔ جموں وکشمیر جو کہ عرصہ دراز سے علم و ادب اور فکروفن کا منبع ومرکز رہا ہے۔ جہاں سے ہمیشہ علم دوست حضرات نے اپنی علمی صلاحیتوں کے ذریعے خزانہ ادب میں بیش بہا اضافے کئے ہیں۔ وہ چاہے افسانوں اور ناولوں کے تعلق سے ہوں یا خاکہ نگاری اور سفرنامہ نگاری کے حوالے سے ہو۔ اس خطے نے ابتدا سے آج تک ادبی میدان میں کسی نہ کسی اصناف کے ذریعے اپنی دراز انفرادیت منوائی ہے۔ اس سلسلے کا ایک نمایاں نام محترمہ نیلوفر کا ہے جن کا تعلق خطہ چناب کے ضلع ڈوڈہ سے ہے ان کی پیدائش حاجی غلام حسن ملک اور حاجن حلیمہ بیگم ملک کے گھر 7 مئی 1973میں ہوئی۔ نیلوفر نے اپنی حیات کا بیشتر حصہ علم وادب کی خدمات کے لئے وقف کر رکھا ہے۔جموں وکشمیر میں جہاں ہر سمت سبز و شاداب ماحول ہے، موسم بہار اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ سانسوں میں تحلیل ہوکر زندگی کو شادابی عطا کرتی ہے۔جہاں چاروں طرف طول و عرض کوہسار اپنے جھرنوں سے تازہ راگ چھیڑے ہوئے ہیں، جہاں گلستاں میں بلبل صدائے خوش نوا سے نغمہ زن ہے، جہاں خنک ہوائیں دلوں کو مسرور کر رہی ہوں، جہاں کی میزبانی انسانی اخلاقیات کی غماز ہو، ایسے پر رونق خطہ میں محترمہ نیلوفر نے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ ایسا نہیں ہے کہ جہاں حالات،موسم اور آب و ہوا صحت مندہو وہاں سب بہتر ہی ہوتا ہے ۔ اتنے خوبصورت ماحول میں عوامی مسائل،بھی اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں اور یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہاں کی زندگی کے نشیب و فراز کیا ہیں۔ چہروں کی عارضی مسکراہٹ اور مصنوعی خوشیاں دلوں کے زخم کو مرہم نہیں دے سکتی ۔اس حقیقت سے نیلوفر نے نقاب کشائی کی ہے اور اس خطہ کی باغ وبہار میں جولوگوں کے اپنے جذبات ہیں اس کی عکاسی بھی کی ہے تا کہ حقیقت عیاں ہو جائے ۔
نیلوفر ابتدائی تعلیم کے بعد دانشگاہ علمی میں قدم رنجاں ہوئیں تو، بی ۔اے، ایم ۔اے، اور ایم فل کی ڈگری سے اپنی علمی لیاقت اور شعور و آگہی میں اضافہ کیا۔ ابتدا سے انھوں نے قلم کو ایسی بسیار نویسی کی رفتار دی کہ شروع سے آج تک ان کے درجنوں مضامین اور افسانے ان کی عظمت کے معترف بنے۔ دیکھا جائے خطہ چناب میں نیلوفر سے پہلے گرچہ مردوں میں افسانہ نگاروں کی بہتر تعداد ہے ان میں پروفیسر عبدالرحیم مغل، ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی ، جسونت منہاس، ڈاکٹر مشتاق احمد وانی ، طالب حسین رند اور پروفیسر محمد اسد اللہ وانی وغیرہ کے افسانوی مجموعے شائع ہو چکے تھے اور خواتین میں اس خطہ سے تمنامنشی واحد افسانہ نگار ہیں۔ پتہ نہیں کیوں تمنامنشی نے کچھ ہی افسانے تحریر کرنے کے بعد افسانوی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔اس کے بعد نیلوفر نے افسانہ نگاری کی دنیا میں قدم رکھا اور تمنا منشی نے جہاں سے افسانوی سفر چھوڑا تھا وہیں سے انھوں نے افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔رفتہ رفتہ نیلوفر کی مقبولیت بڑھتی گئی اور افسانے بھی ادبی سفر کی منزلیں طے کرنے لگے۔ انھوں نے اس صنف میں طبع آزمائی کی اور مذکورہ خواتین کے بنائے ہوئے راستے سے متاثر ہو کر افسانہ نگاری کی مشکل وادی میں قدم رکھا۔ دور حاضر میں انھوں نے جس طرح کا مشاہدہ کیا اس کو اپنی تحریرات میں جگہ دی۔ ابتدا میں انھوں نے متعددموضوعات پر مضامین لکھے جو وقتاً فوقتاً صدائے کو ہسار ” میں شائع ہوتے رہے ۔ ان میں زیادہ تر مضامین سماجی اور اصلاحی نوعیت کے ہوتے تھے جس کے سبب ان کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہوتاگیا۔ لوگوں سے حوصلہ پاکر ان کا قلم کہاں خاموش رہنے والا تھا۔ بلکہ ان حوصلوں سے ان کے قلم اور ذہنی پرواز کو رفتارمل رہی تھی۔جن میں نئے نئے خیالات اپنی تمام تر کاوشوں سے ان کی تحریری زینت بننے کے لئے بے تاب نظر آتے تھے۔
نیلوفر کی کامیابی کی ضمانت ان کا زبان و بیان ہے،شائستگی ہے، متانت ہے،خود رائی ہے اور فنی پختگی کے ساتھ ان کی یہاں وہ تاثیر بھی موجود ہے جو قاری کی دلچپسی بنائے رکھتی ہے۔ رفتہ رفتہ جب یہ مضامین سے افسانوں کی طرف مائل ہوئیں تو جو پذیرائی ان کے مضامین کی ہوئی وہی سلسلہ افسانوں تک بھی جاری رہا۔ دیکھا جائے تو ان کے جو افسانے فنی اعتبار سے اپنی شناخت قائم کئے ہوئے ہیں ان میں ’’رنجش ہی سہی‘‘، ’’دستک‘‘، ’’کتنے اچھے لوگ پرانے ‘‘ وغیرہ افسانوی دنیا میں خوب پذیرائی حاصل کر چکے ہیں۔ ان کے تمام افسانے منفرد نوعیت کی نمائندگی کرتے ہوے نظر آتے ہیں جیسے افسانہ’’حُسن کی سحر انگیزیاں‘‘جس میں عورت کے مادیت پرستی کی ایسی تصویر کشی کی گئی ہے کہ کہانی کے پڑھنے سے قاری کو آج کے سماج میں رونما ہونے والے واقعات آنکھوں کے سامنے گزرنے لگتے ہیں،اس افسانے میں ہیرو کو سادہ لوح تخلیق کرکے عورت کی فریب و مکاری کی داستان بیان کی گئی ہے، ’’حُسن کی سحرانگیزیاں‘‘ کا اقتباس ملاحظہ کریں :
” رضوان ۔۔۔۔۔ سکون سے سویا۔ ہوا تھا صبح کے سورج کی کرنیں اپنے وجود کا احساس دلانے میں کامیاب ہوئیں تو رضوان نے اس خوبصورت بیوی کی بو تک نہ پائی ، پہلے تو لگا کہ رسوئی میں اماں کا ہاتھ بٹانے گئی ہوگی مگر کافی دیر تک جب نہ آئی تو بے چین ہو کر اسے دیکھنے کے لیے رسوئی میں چلا آیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے گھر کا کونا کونا ماں بیٹے نے چھان مارا مگر سب بے سود،کچھ ہی لمحوں میں گھر میں موجود قریبی مہمان بھی تلاش میں شامل ہو گئے رضوان کے ماتھے پر اس وقت سوچوں کی لکیریں اور بھی گہری ہوگئیں جب اس نے۔اپنے بنک اکاؤنٹ کو خالی پایا جس میں چار لاکھ کی رقم تھی اور جو موبائل کے ذریعے،خوبصورت دلہن اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر چکی تھی، اس کا سر چکرانے لگا اور ماں اس بات سے بے خبر اسے دلاسا دے رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسپکٹر دیا بول رہا ہوں،سنو مسٹر رضوان تمہاری ایکس دلہن اس وقت دوبئی شہر پہنچ چکی ہے اپنے عاشق کے ساتھ وہ بھی دوبئی شہر میں دس سال سے سٹل ہوئے اپنے سگے بھائی کے تعاون سے،افسوس ہوا مگر یہی حقیقت ہے انسپکٹر نے دو دن بعد مطلع کیا ۔””
(حوالہ: افسانوی مجموعہ “دستک”، مصنفہ، نیلوفر ،ص 102))
افسانہ “امیدوں کے چراغ ” میں موجودہ سماج کی عکاسی کی گی ہے جہاں لڑکے والوں کو بھی شادی بیاہ کے دوران لڑکی والوں کی ناجایز مانگیں پوری کرنے کے لیے لاچار کیا جاتا ہے لیکن کچھ غیور لڑکے اپنی تزلیل برداشت نہ کرتے ہوے کبھی کبھار خالی ہاتھ ہی واپس آنے میں اپنی بھلائی سمجھتے ہیں جیسا کہ” امیدوں کے چراغ “افسانہ میں اس طرح عکاسی کی ہے۔ اقتباس ملاحظہ کریں:
” روشن آراء سات برس پہلے ڈھیر سارے ارمانوں کے ساتھ دلہن بنی تھی لیکن بارات خالی ہاتھ لوٹ گئی تھی، مہر کی رقم پر من مانی کی وجہ سے رشتہ ٹوٹا تھا ۔دولہے نے مہر کی رقم مقرر کرنے کرانے کے سلسلے میں کافی مصلحتیں بیان کیں اور اپنی مجبوری بھی سامنے رکھی لیکن نہ وہ مصلحتیں ہی کسی کے سمجھ میں آئی اور نہ دولہے کی مجبوری ہی کوئی سمجھ سکا۔ اس کے اعلیٰ حیالات کو بس دولت کے ترازو میں تولا گیا،عام دیکھا جاتا ہے کہ دولہے کی جانب سے نت نئی فرمائشیں ہوتی ہیں،مگر روشن آراء کے مائکے والوں نے ایک نئی اور انوکھی مثال قائم کردی تھی۔بہر حال نتیجہ یہ نکلا کہ اپنی انا کو کسی کے پیروں تلے کچلتے دیکھنا باشعور دولہے کو گوارہ نہ ہوا اور خالی ہاتھ اپنی چاہت روشن آراء کو چھوڑ کر واپس لوٹ گیا ۔”
ٍ (حوالہ: افسانوی مجموعہ “دستک”،مصنفہ نیلوفر ،ص 114))
افسانہ ’’رنجش ہی سہی‘‘میں مصنفہ نے اپنی فنی لیاقتوں سے شہری اور دیہی زندگی کی خوبصورت عکاسی کی ہے اس کے علاوہ تعلیم و تربیت کے حوالے سے کافی متاثر کن نظریات کی طرف بھی اشارے کیے ہیں۔افسانہ “اپنوں کے زخم “حب الوطنی کا دلکش جامہ زیب تن کیے آپسی بھائی چارے کی مثالیں پیش کرتا ہے اختتام پرمصنفہ نے نہایت خوبصورتی سے ایک متاثر کن نکتے کی جانب قاری کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی ہے اور وہ نکتہ اللہ کی انمول نعمت نیند ہے جس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے مصنفہ نے عمر رسیدہ خاتون کی زبانی اس طرح واضح کیا ہے کہ نیند کا غلبہ چھا جانے پر ہر انسان چاہے وہ کسی بھی غم، پریشانی یا کسی بھی طرح کی مجبوری سے جھوج رہا ہو لیکن نیند اپنی آغوش میں لے کر انسان کو ہر طرح کے غم و پریشانی سے کچھ لمحات کے لیے آزاد کرا دیتی ہے۔ افسانہ ’’اپنوں کے زخم‘‘کا اقتباس ملاحظہ کریں:
” عرشی کو سب دلاسا دیتے ہوئے دیوان خانے سے چلے گئے اور بزرگ خاتون اسے کھانا کھلانے کی غرض سے دوسرے کمرے میں لے گئی جہاں عرشی کے لیے بستر بھی لگایا گیا تھا ۔ اپنے شوہر کے خیال سے اس کے حلق سے نوالہ بھی نہیں اترتا تھا،مگر ننھے اسد کی خاطر اس نے خوب کھانا کھایا ۔ نیند اس کی آنکھوں سے روٹھ چکی تھی،بزرگ خاتون عرشی کے کمرے میں تین بار اسے تارے گنتے دیکھ کر بہت دلاسہ دینے لگی مگر سب بے سود آخر کار نیند نے عرشی کو غم کی وادیوں سے نکال کر اپنی آغوش میں لے لیا۔ اب کی بار جو بزرگ خاتون نے عرشی کو گہری نیند میں پایا تو اللہ کی اس انمول نعمت” نیند ” کا شکر ادا کیا جو انسان کو ہر فکر سے آزاد کر دیتی ہے ۔سبحان اللہ کا زیر لب ورد کرتے ہوئے وہ دبے پاؤں دروازے سے ہٹ گئی ۔”
(حوالہ :افسانوی مجموعہ “دستک” ، مصنفہ نیلوفر ، ص 61))
ان کے علاوہ ’’دستک ‘‘میں چاہتوں کی پیاسی ، چاہت، ایسے افسانے ہیں جن میں عشق و محبت اور رومانی موضوع کو جگہ دی گئی ہے۔ نیلو فر نہایت ہی حساس ذہن کی مالک ہیں جو اپنے گردو پیش میں دیکھتیں اسی کو اپنے افسانوں کا موضوع بناتی ہیں ۔ انکے اسلوب نگارش اور موضوعات انتخاب کے حوالے سے شاد فرید آبادی نے بہت اہم بات لکھی ہے:
” نیلوفر کا پیرانہ بیان وقت کے مزاج کے مطابق عام فہم،سلیس و سادہ ہے۔ان کی تحریروں کا موضوع سماج میں موجود ناہمواریوں اور معاشرتی مسائل ہیں’’اجنبی عورت ‘‘، “سبق جو پڑھا گیا” اور دوسری تحریروں میں معاشرتی زندگی کے رویوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے “
(بحوالہ: افسانوی مجموعہ “دستک ” ص 12-13)
مذکورہ اقتباس کی سطور سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نیلوفر نے اپنے مضامین اور افسانوں میں بالخصوص معاشرتی مسائل کے حل اور اس کی تشکیل کو خاص موضوع بنایا ہے بحثیت خاتون ان کے افسانوں میں طبقہ نسواں کے مسائل بھی موجود ہیں۔ ان مسائل کو پیش کرنا اور سیاسی و سماجی سطح پر اس طبقے کے حقوق کی پامالیوں اور آئے دن ان پر ڈائے جانے والے گھریلومظالم سے پردہ اٹھانا ایک بیباک ادیب کی پہچان ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک عورت کا درد عورت ہی سمجھ سکتی ہے۔ اس لئے انھوں نے عورتوں کے تئیں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ اگر یہ چاہتی بھی تو آج کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں درجنوں موضوعات اور مسائل میں کسی کو بھی زبان کے چٹخارے کے لئے استعمال کر سکتی تھیں۔مگر یہ ایک مصلح قوم کی حیثیت سے سامنے آئیں۔خاص کر آج کے دور میں افسانے یا ناول لکھنا مشکل کام ہے ۔ کیونکہ آج کی مشینی اور سرعت رفتاری کی زندگی میں خود کو کتابوں سے مانوس کرنا اور مطالعہ شوق کو جلا بخشنا ایک کارہائے مشکل ہے۔
جس دور میں دنیا سمیٹ کر انسانوں کی مٹھی میں دے دی جائے اور اس میں تمام ایسے وسائل موجود ہوں جو انسان کو کھانے اور دوسروں سے بات کرنے تک کو فرصت نہ دیں تو ایسے وقت میں قلم وقرطاس سے اپنا تعلق قائم کرنا خلاف عقل معلوم ہوتا ہے۔ اسی خلاف عقل روایت کو اپنی زندگی بنانا اور روز بروز نئے افسانے اور کہانیوں کی جستجو میں رہنا نیلوفر کی انفرادیت ہے۔ یہ اپنے افسانوں اور مضامین سے وادیٔ چناب کی تیرگی کو ختم کر کے افسانوں کے ذریعے ادبی دنیا کو روشن کرنا چاہتی ہیں تا کہ انھوں نے جو بیڑا اٹھایا ہے اس میں ان کو کوئی سہارا اور ہمعصر مل جائے تاکہ مدتوں سے جو وادی چناب خواتین لکھاریوں سے محروم ہے اس کی تلافی بھی ہو جائے۔ ان کی افسانہ نگاری اور حقیقت بیانی پر تبصرہ کرتے ہوئے وادی کشمیر مشہور افسانہ نگار نورشاہ لکھتے ہیں:
’’ ڈوڈہ کی افسانہ نگار نیلوفر کے کچھ افسانے ندائے کشمیر میں شائع ہوئے ہیں جن کو پڑھ کر مسرت ہوئی کہ وہ نسوانی مسائل کی طرف توجہ دلا رہی ہیں اور عشقیہ کہانیوں کو بخوبی قارئین تک پہنچارہی ہیں ۔ داستان عشق کا موضوع کبھی پرانا نہیں ہوا اور آج بھی عشقیہ کہانی کو پڑھ کر مزہ آتا ہے۔ اگر صحیح ڈھنگ اورطرز میں بیان ہوئی ہوں ۔ نیلوفر کے یہاں چاہتوں کی پیاسی ، چاہت، امیدوں کے چراغ، ایسے افسانے ہیں جن میں رومان اور عشق و محبت کے قصے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ بیٹیاں میں البتہ بیٹی کی پیدائش پر خاندان میں ہونے والی بدمزگی کو موضوع بنایا گیا ہے۔
(مقدمہ، نورشاہ، دستک ،ص10)
نیلوفر کے افسانوں اور اسلوب نگارش کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالمجید بھدر و اہی نے بہت اہم باتیں لکھیں ہیں:
” ان کی سادہ لوح طبیعت کی طرح ان کی تحریروں میں بھی سادہ پن جھلکتا ہے جو میں ان کے افسانوں کی خوبصورتی تصور کرتا ہوں۔نیلوفرزبان و بیان پربھی اچھی گرفت رکھتی ہیں اور اپنے آس پاس کے ماحول پر کڑی نظر رکھنے کے علاوہ رونما ہونے والے واقعات کو اپنے مخصوص انداز میں بیان کرتی ہیں۔ان کے افسانے بیٹیاں ، گل،اجنبی عورت، سبق جو وقت پڑھا گیا وغیرہ اس سلسلہ میں قابل توجہ ہیں۔ اپنے افسانوں میں وہ جیتے جاگتے لوگوں کے واقعات و حادثات اور سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کو نہ صرف منظر عام پر لاتی ہیں بلکہ ان کے لئے فکرمند ہو کر ان کو دور کرنے کی راہیں بھی نکال لیتی ہیں۔
(بحوالہ:افسانوی مجموعہ ،دستک،ص 16))
ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی کے مذکورہ اقتباس کی سطور کو مدنظر رکھتے ہوئے نیلوفر کی تحریروں پر یہ شعر بالکل صادق آتا ہے :
وفا کا حسن ذہانت کا نور ہو جس میں
وہ اک دلہن کئی نسلیں سنوار سکتی ہے
خطہ چناب کے ’’تیز گام‘‘محقق ولی محمد اسیر کشتواڑی نیلوفر کے افسانوی سفر کے تعلق سے لکھتے ہیں:
” افسانہ لکھنے کا شوق بھی انھیں کافی دیر سے تھا۔ اس لئے اس شوق نے انھیں افسانہ نویسی کی جانب کھینچ لایا۔ نیلوفر کے افسانے اخبارات اور سوشل میڈیا کے توسط سے سامنے آ ئے اور لوگوں نے ان کی خاطر خواہ حوصلہ افزائی کی۔ یہی حوصلہ افزائی انہیں مزید افسانے لکھنے کی ہمت دینے لگی اور وقت کی رفتار کے ساتھ نیلوفر بطور افسانہ نگار اپنی پہچان بنانے میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہورہی ہیں۔۔۔۔۔ آل انڈیا ریڈیو بھدرواہ سے بھی ان کے چند افسانے ان کی زبانی نشر ہو گئے ہیں۔ ابھی تک ضلع ڈوڈہ میں ان کی ہم پلہ کوئی بھی دوسری خاتون اردو افسانہ نگاری میں دور دور تک نہیں دکھائی دیتی ۔ ( حوالہ: پیش کلام ،دستک ،ص 8)
نیلوفر کے افسانوی سفر کے حوالے سے طالب حسین رندؔ نے رقم طراز ہیں :
” خطہ چناب میں ماضی میں چند خواتین نے افسانہ نگاری کے میدان میں قدم تو رکھ لیا تھا مگر بہت جلد کسی نہ کسی وجہ سے پیچھے ہٹ گئیں اور پھر نیلوفر اس میدان میں ثابت قدمی سے ابھر آئیں اور پے در پے مختلف سماجی امور پر اپنی تحریروں سے عوام و خواص کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے میں کامیاب ہو گئیں۔۔۔۔۔ نیلوفرایک ایسے ضدی بچے کی طرح ہے جو اپنے من پسند کھلونے سے دوسرے کو کھیلنے نہیں دینا چاہتی اور ان کا من پسند کھلونا افسانہ نگاری ہے نیلوفر کی کوشش رہتی ہے کہ ان کی تحاریر میں تنوع برقرار رہے ایک ہی جیسے موضوعات نہ ہوں اس میں کافی حد تک کامیابی حاصل ہو چکی ہے۔ ( بحوالہ: افسانوی مجموعہ،دستک ص18 )
ان کی سادگی ان کے ہر افسانے میں نظر آتی ہے۔ ایک اقتباس ان کے افسانہ “گل” سے ملاحظہ کریں جس سے سادگی وسلاست کی بہترین مثال ملتی ہے:
” گل افشاں کی اماں دل ہی دل میں گل کی آخری گھڑیوں کویاد کر کے تاسف سے ہاتھ ملتی رہ جاتی ۔ ہائے کاش وہ سب نہ ہوا ہوتا!! ہائے افسوس میری بچی کی زندگی بھی خوشیوں سے بھری ہوتی!! کاش جہان زیب اور گل ایک ہوئے ہوتے ۔۔۔۔۔گل اور جہان زیب دونوں ایک ہی کالج میں پڑھتے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔ جہان زیب مالدار گھرانے سے تھا اور گل غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔وہ اپنی پڑھائی کا بوجھ خود محلے کے چھوٹے بچوں کو پڑھا کر اٹھاتی تھی ۔ جہان زیب کچھ حد تک اس کی مالی پوزیشن کو جان کر نہایت مخلصانہ انداز میں مدد کیاکرتا تھا۔وہ اسکی ذہانت اور اس کی مشقت کاقائل تھا۔”
( حوالہ : افسانوی مجموعہ دستک ، افسانہ ،گل مصنفہ ، نیلوفر،ص28)
اس طرح ان کے افسانوں پر متعدد ادبی اشخاص نے روشنی ڈالتے ہوئے خوب سراہا ہے۔ کیونکہ یہ خاتون خطہ چناب میں منفر د افسانہ نگاری کے عمل کو انجام دے رہی ہیں۔ انھوں نے اپنے افسانے یوں ہی تحریر کرنے شروع نہیں کئے بلکہ اس کے لئے پہلے ایک پلیٹ فارم تیار کیا ہے اس کے بعد افسانوی دنیا میں قدم رکھا ہے۔ اسی لئے ان کے افسانوں کے پلاٹ نہایت عمدہ ہوتے ہیں۔ ان کے کردار اسی زمین اور اسی سماج سے تعلق رکھتے ہیں۔ نہ کہ کسی دوسری دنیا سے متصل ہیں۔ کسی افسانے کے کردار جب زماں و مکاں سے متصل یا منسوب ہوتے ہیں تو افسانے کی اہمیت اور اس کا معیار کافی بلند ہو جاتا ہے ۔ نیلوفر نے اپنے افسانوں میں جو زبان استعمال کی ہے وہ نہایت سادہ اور سلیس ہے جیسا کہ کچھ تبصرہ نگاروں نے اس پر روشنی ڈالی ہے۔ یہی ان کی علمی ،ادبی اور سماجی خدمات پر ان کو مختلف انعامات سے بھی نوازا گیا ہے۔ جس سے ان کے حوصلے اور عزم کو ایک نئی رفتار ملی ہے ۔ ان کے حصول کردہ انعامات میں ڈاکٹر اے۔ پی ۔جے۔ عبدالکلام رتن ایوارڈ 2023، راشٹریہ پیتا مہاتما گاندھی گلوبل پیس ایوارڈ 2023،بھارت امرت رتن سمان، راشٹریہ گوروسمان ایوارڈ ،سوامی ویویکا نند سیواارتن ایوارڈ مزید ان کے افسانوں کے ہندی، گوجری اور پنجابی زبان میں ترجمے ریاستی سطح کے رسائل و جرائد کے ساتھ ساتھ قومی و بین الاقوامی رسائل و جرائد میں بھی شائع ہو کر ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کر چکے ہیں ۔ آل انڈیا ریڈیو ریڈیو بھدروہ اور جموں سے بھی ان کے افسانے وقتاً فوقتاً نشر ہوتے رہتے ہیں ،نیلوفر نے اپنے افسانوی مجموعہ دستک کے ذریعے جب اردو دنیا میں دستک دی تو اردو دنیا میں ان کی بہت پذیرائی ہوئی۔ بہت سے لوگوں نے ان کو نیک مشورے بھی دئیے اور بہتوں نے ان کی نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔ اہلِ دانش اور علم حلقے میں ان کے ادبی کارناموں کو بہت عزت و عظمت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کسی بھی میدان کو فتح کرنے میں جب ایک کو دوسرے کا سہارا مل جاتا ہے تو مشکلات آسان ہو جاتی ہیں۔ ابھی اس خطہ میں خواتین افسانہ نگاروں میں نیلوفراکیلی افسانہ نگار ہیں مگر جب ان کا کوئی ہمعصرپیدا ہوجائے گا تو افسانے کی دنیا اور وسیع ہو جائے گی اور اس میں مختلف موضوعات کو جگہ مل جائے گی اور ان کی بنائی ہوئی راہ کسی مشعل سے کم نہیں ہوگی اور آئندہ نسلیں ان کے ادبی کارناموں سے استفادہ کریں گی۔
Leave a Reply
Be the First to Comment!