نونہالوں کا ادب عالیہ

بچوں کے لیے لکھنا ایک اہم فریضہ ہے لیکن افسوس ناک بات ہے کہ ہمارے ہاں اسے بے حد معمولی سمجھ لیا گیا ہے یا یوں کہ لیجیے کہ گزشتہ کئی برسوں سے اِس کے ساتھ یہی سلوک روارکھا جا رہا ہے۔ اِس کی بہت سی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے آج صورت حال گھمبیر ہو چکی ہے۔

راقم السطور کو گزشتہ چند برسوں میں کچھ ایسی کہانیاں پڑھنے کو ملیں ہیں جنھیں ادب اطفال رسائل میں جگہ نہیں ملنی چاہیے تھی لیکن معروف رسائل کے مدیران نے انھیں بہ خوشی شائع کیا ۔ان کہانیوں کے موضوعات ایسے تھے جو میری نظرمیں نونہالوں کے لیے نا مناسب تھے ،یہی عنصر اِس مقالے کی بنیاد بھی بنا ہے۔افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ اگر محض گزشتہ چند برسوں کے رسائل میں اِس طرح کا مواد ہے تو کیا اس پر یقین کرسکتے ہیں کہ اس سے قبل ایسا کچھ نہیں لکھا گیا ہوگا ،جو کہ بچوں کے لیے نامناسب تھا۔اگر گزشتہ چند برسوں میں نامور اور نئے لکھنے والوں کی ایسی کہانیاں معروف رسائل میں دکھائی دے سکتی ہیں جب پڑھنے والے کم ہیں اورلکھنے والے قدرے زیادہ ہو چکے ہیں تو ایسے دور میں جب پڑھنے والے زیادہ تھے اورلکھنے والے کم تھے تو تب کیا کچھ ایسی کہانیاں شائع ہوئیں جو کسی لحاظ سے ان کے لیے نا مناسب تھیں۔اِس حوالے سے تحقیق پہلے اگر ہوئی تو کس حد تک ہوئی؟ کیا اُس تحقیق کی روشنی میں کوئی ایسا لائحہ عمل تیار کیا گیا کہ ویسامواد پھر سے نونہالوں کے لیے پیش نہ ہو سکے؟

یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر بات کرتے ہوئے کئی ادیب /مدیران کتراتے ہیں کہ ایسا کرنے سے کئی ادیبوں /مدیران کے ادبی قد کاٹھ میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ میرے خیال میں کسی کی قدرو منزلت میں کمی اُس نقصان سے کئی گنا کم ہے جس کی وجہ سے ادب اطفال کو زک پہنچ رہی ہے۔مغرب میں کتب کی فروخت آج بھی ماضی کی مانند برقرار ہے جب کہ ہمارے ہاں کتب اوررسائل کی فروخت بے حد کم ہو رہی ہے ۔اِس کی وجوہات پر غور کیا جائے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اِس میں غیرمعیاری ادب کی فراہمی بھی اہم عنصرہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر عادل حیات اپنے مضمون’’بچوں کا ادب: کل، آج اورکل‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’واضح رہے کہ اردو کے تقریباً تمام ادیبوں نے بچوں کے لیے لکھا ہے، لیکن ایسی چیزیں مقدار میں بہت کم ہیں جن پر صحیح معنوں میں بچوں کے ادب کا اطلاق ہوسکے۔ ایک سوال ذہن میں کلبلاتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا سیدھا سا جواب دینا چاہیں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ بچوں کے ادب کی کبھی تعریف متعین نہیں کی گئی۔ زبان وبیان اور موضوع و مواد پھر اس کی ضخامت کے حوالے سے گفتگو کے دروازے نہیں کھلے اور نہ ہی بچوں کے ادب کو قابلِ اعتنا سمجھا گیا کہ شاعر و ادیب پوری طرح توجہ کرتے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اردو ادب کی تاریخ میں امیر خسرو سے لے کر آج تک ایک دو کو چھوڑ کر جن میں شفیع الدین نیّر کا نام پیش پیش ہے، کوئی ایسا چہرہ نظر نہیں آتا، جسے خالص بچوں کا شاعر یا ادیب کہا جاسکے۔دوسری چیز یہ کہ ماضی میں ایسا کوئی پیمانہ نہیں تھا ، جس کی روشنی میں حتمی طور پر فیصلہ کیا جاسکے کہ کس عْمر کے بچوں کے لیے کیسا ادب قابلِ فہم ہوسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ماضی میں لکھے گئے بچوں کے ادب کو نئے تعلیمی اصول و نظریات کی چھلنی میں رکھ کر دیکھنا چاہئے کہ اس میں سے کنکر، پتھر اور ایسی تمام چیزیں الگ ہوجائیں جو بچوں کی پسند و ناپسند، فطری و نفسیاتی تقاضوں اور ان کی تہذیب و تربیت میں کسی طرح معاون نہ ہوسکیں۔ یقین جانیے چھلنی میں جو کچھ بھی بچے گا چاہے مقدارمیں مٹھی بھر سے بھی کم ہوں، یقینا وہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی ذہنی و فکری ارتقا کے لحاظ سے جواہر پارہ کہلانے کا مستحق ہوگا۔‘‘

بہرحال، ہم اِس موضوع پر بات کرنے سے پہلے چند اہم نکات کو زیر بحث لاتے ہیںتاکہ ادب اطفال کی حقیقی شکل کا کچھ اندازہ کیا جا سکے۔

بچوں کے لیے کہانی اورنظم کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟

کہانی اورنظم کا مقصد مثبت سوچ بیدار کرنے، تفریح فراہم کرنے اوربہترین اخلاقیات اپنانے کا ہو تو بچوںکی زندگیوں کو بہتر بنانے میں بڑی مدد مل سکتی ہے ۔ آپ اِس بات کو یاد رکھیں کہ آپ بے سروپا کہانی یا عامیانہ جملوں سے کسی کو بہترین انسان بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں، البتہ کسی کے اخلاق کو ضرور تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔جو ادیب اپنے ناولز یا کہانیوں میں عامیانہ مزاح رکھتے ہیں اورخود کو بہترین مزاح نگار قرار دیتے ہیں۔ انھیں اِس حوالے سے مجرم ٹھہرایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے نونہالوں کو سستی تفریح فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔کہانیوں اورنظموں کا مقصد کسی بھی نونہال کو بہترین انسان بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی ذات میں بہتری لانے پر مائل کرنا بھی ہوتا ہے۔اگر کہانیاں/نظمیں ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو ادب میں بلند مقام پانے کا استحقاق نہیں رکھتی ہیں۔

کیاکہانی اورذہانت کا کوئی تعلق ہے؟

کہانیوں میں مختلف واقعات ایسے دل چسپ انداز میں پیش ہوتے ہیں جو کئی سالوں تک ذہن پر نقش رہتے ہیں ۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ اچھی کہانی یاداشت بڑھانے میں اہم ترین کردار ادا کر سکتی ہے۔ کہانی میں پیش ہونے والے مکالمات سے نونہالوں کو دوسرے بچوں سے بات چیت کرنے کے لیے الفاظ ملتے ہیں اور یوں وہ بات چیت میں مہارت حاصل کرلیتے ہیں جو کہ علمی زندگی میں بھی بہت مدد دیتی ہے۔کہانیوں میں پیش ہونے والے واقعات بچے کو سوچنے سمجھنے پر بھی مائل کر تے ہیںجسے وہ بروئے کار لائے تو اپنی ذہانت کو بہتر بنا سکتا ہے یعنی کہا جاسکتا ہے کہ اچھی کہانی ذہانت بڑھانے میں اہم کردار ادا کر تی ہے۔

کہانی اورارتکاز:

کہانی پڑھتے وقت چوں کہ بچوں کی توجہ کہانی کی ابتدا سے انجام کی طرف مبذول رہتی ہے ۔اس طرح سے انھیں کسی چیز پر دھیان دینے اورسمجھنے کا موقع ملتا ہے جو کہ انھیں زندگی میں بے شمار مواقع پر کام دیتا ہے۔ اکثر بچے کہانی سننا پسند کرتے ہیں ۔اِس سے اُن کی سننے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے اورانھیں بہت کچھ تصور کرکے ایک نئی دنیا بسانے کی تحریک ملتی ہے۔

اخلاق، شاعری اورکہانی نویسی:

اخلاقیات کادرس کہانیوں اورشاعری کی بدولت خوب ملتا ہے اوریہی وہ چیز ہے جو بچوں کو بُرے سے اچھا انسان بننے کی جانب راغب کرتی ہے اورانھیں اچھی اوربُری عادات کے حوالے سے بھی تمیز کرنا سکھاتا ہے۔کہانیوں کے علاوہ بچوں کے لیے لکھی گئی شاعری بھی مثبت سوچ کے تابع ہو تو وہ بھی خاصی اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے کہ اکثر نونہال انھیں عمر بھر یاد رکھتے ہیں۔

بے سروپاکہانیاں:

فضول کہانیاں کبھی بھی نونہالوں کو اچھا انسان نہیں بنا سکتی ہیں۔ آپ یہ کیسے کہ سکتے ہیں کہ ایک ایسی کہانی جوبچے کی نظر میں جھوٹی ہو اوراس کی سچائی اُسے فوراََ علم ہو جائے وہ کیسے اُسے متاثرکن محسوس ہو گی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ لکھنے والے کی نظرمیں وہ ’’شاہ کار‘‘ ہوگی۔ لیکن قاری کی نظرمیں اُس کی وقعت کچھ نہیں ہوگی۔ ہر وہ کہانی جس سے بچے کی زندگی پر کوئی فرق نہ پڑے ،وہ ایسی کہانی ہوگی جسے بلا مقصد تحریر کیا گیا ہو۔راقم السطور نے ایک ایسی کہانی پڑھی جس میں ایک جادوگر اپنے جادو کے زور کی بجائے اپنے دشمن کو چھت سے گرا کر مار دیتا ہے۔اگر دورحاضرکے نونہال کو مذکورہ کہانی سنائی جائے تو اُس کے ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوگا کہ وہ کیساجادو گر تھا جس نے جادو کے استعمال کی ضرورت محسوس نہیں کی حالاں کہ وہ ازخود جادو گر تھا۔تفریح کے مقصدکے تحت لکھی گئی کہانیاں وقتی نفع دیتی ہیں جب کہ ایسی کہانیاں جو تفریح، تعلیم اور کچھ سوچنے پر مائل کرتی ہیں وہ تا دیر نونہالوں کے ذہنوں میں ہلچل مچائے رکھتی ہیں۔نونہالوں کو وہی کہانیاں تا دیر یاد رہتی ہیں جو متاثرکن خصوصیات کی حامل ہوتی ہیں ۔کچھ ایسی خصوصیات کی حامل نظمیں بھی مقبولیت حاصل کرتی ہیں ۔علامہ محمد اقبالؒ کی شاعری کئی برس گزر گئے لیکن اُن کے اثرات ہر دور میں یکساں ہیں یہی وجہ ہے کہ ہرنئی نسل اقبالؒ کی شاعری کی دلدادہ ہے ۔

والدین کا ذو ق مطالعہ:

والدین کا ذوق مطالعہ اچھا ہو تو بچوں کو بھی بہترین مواد پڑھنے کو ملتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج والدین بچوں کو اول تو رسائل و جرائد خرید کر نہیں دیتے ہیں، پھر اگر وہ انھیں پڑھنے کو کچھ دیں تو وہ اُس پائے کا نہیں ہوتا ہے جو کہ نونہالوں کو فوری طور پر متاثر کر سکے جس کی وجہ سے اُن کا رجحان مطالعے سے کم تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ایک اہم ترین سوال یہ ہے کہ:

’’ بچوں کے لیے کس نوعیت کا مواد اورموضوع قابل قبول ہو سکتا ہے؟‘‘

بچوں کے لیے وہی مواد اورموضوع قابل قبول ہوسکتا ہے جو واقعی بچوں کے لیے ہو۔جسے نونہال خود سمجھ سکیں یا اُس سے لطف اندوز ہو سکیں اورمسلسل مطالعے سے جڑے رہنے میںعافیت محسوس کریں۔کسی ایسے موضوع پر جو خاص عمر کے بعد علم ہونا چاہیے وہ انھیں وقت سے پہلے بتانا ’’ ناقابل معافی‘‘ جرم کہلایاجاسکتا ہے کہ یوں نونہال قبل ازوقت ایسی معلومات جان لیں گے جو فوری طور پرنفع نہیں دیں گی لیکن وہ اُس کے بارے میں مسلسل کھوج لگاتے رہیں گے۔اگرچہ جدید دورمیں معلومات کا حصول ناممکن نہیں ہے ۔لیکن یہ کیا ضروری ہے کہ شادی، دوستی، محبت، زچگی، دہشت گردی، فرقہ پرستی کو کھلے عام بیان کرکے انھیں نوعمری میں ہی ایک مخصوص روپ میں ڈھالنے کا آغاز کر دیا جائے؟

بچوں کے لیے کئی موضوعات ایسے ہیں جو انھیں بہت کچھ سوچنے سمجھنے پر مائل کر سکتے ہیں۔ اُن پر لکھا جانا بے حد ضروری ہے ۔ اگر بحیثیت مسلمان بات کی جائے تو انھیںاسلامی تاریخ کی معلومات دینا بھی ضروری ہے ۔اس طرح سے وہ اپنے دین کے حوالے سے بہت کچھ جان سکتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نونہالوں کا زیادہ تر وقت تعلیمی ادارے میں گزرتا ہے جہاں وہ نصابی معلومات کو ازبر کرتے ہیں اور کہیں کہیں انھیں زندگی کے دوسرے معاملات کو بھی سکھانے پر توجہ دی جاتی ہے لیکن جہاں نصاب سے ہٹ کر کچھ کہنے یا کرنے کی ممانعت ہوتی ہے ۔وہاں پر یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ انھیں تفریح سے ہٹ کر کچھ ایسی معلومات دی جائیں جو انھیں دین سے جوڑنے کا سبب بنیں۔

 اگرچہ اس حوالے سے کئی احباب رائے رکھتے ہیں کہ اگر انھیں مخصوص نوعیت کی معلومات مسلسل پڑھنے کو ملیں تو وہ مخصوص سوچ کے تابع آسکتے ہیں۔یہ معلومات چند ایسے اختلافی موضوعات کے حوالے سے ہیں جنھیں عمومی طور پر مسلکی بنیادوں پر کچھ اورتناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے بچوں کے ادب میں ’’ اسلامی ادب‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اورانھیں بچوں کے ادب سے الگ کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ حالاں کہ ایسا تمام ادب جو کہ بچوں کے لیے لکھا گیا ہے اوروہ بچوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کارآمد ہو تو اُسے ’’ ادب اطفال‘‘ کے زمرے میں لایا جانا چاہیے لیکن کچھ اعلیٰ پائے کے ادیب اس نظریے کی مخالفت کرتے ہیں ۔اس حوالے سے یہ احتیاط لازمی اختیار کرنی ہوگی کہ کچھ ایسے موضوعات جو ایک خاص عمر کے بعد نونہالوں کے علم لانا چاہیے وہ انھیں وقت سے پہلے آگاہ کرنے سے گریز کرنا ضروری ہے۔بہرحال،’’ ادب اطفال‘‘ کو اس لحاظ سے تقسیم نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اگرمخصوص نوعیت کا مواد نونہالوں کو پڑھنے کو دیا جائے گا تو وہ ’’ اسلامی ادب‘‘ تصور ہو گا۔

 بچوں کے لیے اگر مسلکی بنیاد پر کچھ ایسا مواد لکھا جاتا ہے اورانھیں پیش کیا جاتا ہے جنھیں پڑھ کر وہ اپنے عقائد کے مطابق علم حاصل کر سکتے ہیں تو انھیں اُس کی آزادی حاصل ہونی چاہیے تاہم ایسے مواد کی مسلسل فراہمی انھیں شدت پسندی کی جانب مائل کر سکتی ہے ،جہاں انھیں کسی مخصوص فرقے کے خلاف اکسایا جائے گا۔اس حوالے سے قلم کاروں اور بالخصوص مدیران کو توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ایسا مواد شائع نہ ہو جو ادب اطفال کے دائرے سے ہی خارج ہو رہا ہو۔

 اِس اہم نقطے کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایک کہانی جس بھی رسالے میں شائع ہوگی ،یہ ضروری نہیں کہ وہ مخصوص احباب میں ہی پڑھا جائے گا اس لیے کوشش کی جانی چاہیے کہ ایسا مواد جسے دوسرے بچے پڑھ کر ذہنی طورپرمنتشرہوں ،اُس کی اشاعت سے گریز کیا جائے۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اگرمخصوص نوعیت کا مواد خاص سوچ کے حامل بچوں کے لیے اُن کی تفریح اورتعلیم کے لیے پیش کیا جا رہا ہے تو اُس پر انگلی نہیں اُٹھائی جا سکتی ہے کہ آزادی رائے کے حق کے تحت ایسا کرنا ضروری ہے تاکہ اُن نونہالوں کو اپنے عقائد کے مطابق علم اور تفریح حاصل کرنے کا بھرپورموقع ملے ،تاہم ایسے رسائل جہاں تمام مکاتیب فکر کاخیال کرکے کچھ شائع کیا جاتا ہے ،انھیں اس حوالے سے مزید احتیاط برتنی چاہیے کہ کسی خاص سوچ کے تابع نونہالوں کے ذہنی کو منتشر کرنے کی ازخود کوئی ’’ شرارت‘‘ نہ کی جائے۔لیکن یہاں یہ سوال ضرور کرنا چاہوں گا کہ کیا یہ لازمی ہے کہ مخصوص سوچ کے تابع بچوں کے ادب کی تعریف کے برعکس بچوں کو ایسے موضوعات جنھیں بڑے ہونے کے بعد وہ بہتر انداز میں پڑھ اورسمجھ سکتے ہیں انھیں کیوں وقت سے پہلے پڑھنے کو ملنا چاہیے؟

کہانی’’اندھیرے کا مسافر‘‘ میں نامناسب جملوں کی اشاعت اپنی جگہ ایک خاتون کے ماں بننے اوردوسری شادی کے تذکرے نے راقم السطور کو چونکا دیا ہے کہ کیا بچوں کو ایسی کہانیاں پڑھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔کہانی میں ایک جگہ کچھ یوں بھی لکھا ہے:

’’گولی مرد کے سینے میں لگی اوربیوی چیخ مار کر بے ہوش ہوگئی۔‘‘

ایک اور جملہ ملاحظہ کیجیے:

’’پھر اس کے والدین نے اس کی شادی امیر علی سے کردی۔۔۔۔۔۔‘‘

ایک اہم ترین قابل گرفت جملہ کچھ یوں ہے:

’’اب بیگم امیر علی اپنے بچے ظفرکی ماں بن چکی تھی۔‘‘

 گزشتہ کئی برسوں سے مغرب میں جو بچوں کے لیے ادب لکھا جا رہا ہے۔ اُس میں محبت کی داستانیں اورشادی کا تذکرہ ہوتا چلا آرہا ہے اور ہمارے ہاں انھی کی پیروی کی جا رہی ہے اور یہ نہیں سوچا گیا ہے کہ اسلامی معاشرے میں اِس طرح کی داستان نونہالوں کو پیش کرنا درست ہے؟ہم بچوںکو وہ مواد کیوں پڑھا رہے ہیں جو کہ بڑوں کے لیے مفید ہے۔ اِس حوالے سے حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ نونہالوں کو وہ مواد پڑھنے کو ملے جو ادب اطفال کی تعریف پر پورااترتا ہے افسوس کہ کئی برسوں سے احتیاط نہیں برتی جا رہی ہے۔

ماہ نامہ کھلونا، دہلی کے اپریل 1951کے شمارے میں ایک تحریر شائع ہوئی جس کا عنوان کچھ یوں تھا:

’’ سکول میں لڑکیوں کی لڑائی‘‘

’’ کپڑے پھاڑ دئیے‘ بال نوچ ڈالے‘ ایک عجیب و غریب جھگڑا‘‘

مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ یہ سچا واقعہ تھا یا نہیں، میں اس بات پر حیران ہوں کہ کیا یہ ایسی چیز ہے جسے نونہالوں کی معلومات کے لیے پیش کیا جائے، چاہے یہ کسی اچھی چیز کی اطلاع شائع کی گئی ہو لیکن اس کا عنوان ہرگز نونہالوں کے لیے مناسب نہیں تھا ۔یہ تعلیمی ادارے کی ساکھ مجروح کرنے والی خبر ہے جسے سنسنی خیزی کے طور پر شائع کر دیا گیا۔

سعادت حسن منٹو نے جب معاشرے کے تلخ حقائق کو بیان کیا تھا تو ایک زمانہ اُن کے خلاف ہو گیا تھا لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ نونہالوں کے لیے پیش کی جانی والی کہانیوں پر کسی نے کھلے عام اعتراضات کرنے کی کوشش نہیں کی ہے اورجب بھی ایسا کسی نے کرنے کی جسارت کی ہے توانھیں کہانیوں کے مجموعے تاثر کے حوالے سے گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اس اہم عنصر کی نشاندہی نہ ہو سکے کہ بچوں کے لیے لکھتے ہوئے بے احتیاطی کی جا رہی ہے، یعنی کہانی کے ’’مجموعے تاثر‘‘پر دھیان دیا جاتا ہے کہ اس سے بہت اچھا سبق مل رہا ہے لیکن درحقیقت جو لکھا گیا ،وہ ادب عالیہ کے زمرے میں آتا ہے۔اگر نوعمری میں ہی محبت کی داستان یا شادی کے تذکرے کہانیوں میں ملیں گے تو مجھے یہ بتائیں کہ پھر بچوں نے بڑے ہو کر کیا اپنی مرضی کی شادی کی جرات نہیں کرنی ہے کہ ہم جو اُن کے ذہنوں میں انڈیل رہے ہیں ،وہی جب باہر نکلے گا تو معاشرے کا ماحول خراب تر ہو جائے گا۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ جن بھوت ہوں یا پھر انسان انھیںمحبت اور شادی میں ملوث کرنا ایک محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔کیا یہ بات عقل تسلیم کرتی ہے کہ شہزادے اورشہزادیاں صرف شادی اورمحبت کے لیے تاریخ میں شہرت رکھتے ہیں۔

’’کیا یہ میری غلطی تھی؟‘‘ایک اور ایسی کہانی ہے جس میں نہ صرف بیٹیوں کی شادی کا تذکرہ ہے بلکہ کم جہیز کا شکوہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے ۔

’’عبداللہ میرا اکلوتا بیٹا تھا دو بیٹیاں تھیں جو بیاہ کر دوسرے شہرجا چکی تھیں جو کبھی کبھار ہی آتیں اور دو چاردن رہ کر واپس چلی جاتیں۔مگر دبے دبے لفظوں میں کم چہیزکا گِلہ ضرورکرتیں،مجھے لگتا کہ بیٹے کے ساتھ ساتھ میری بیٹیاں بھی مجھ سے خوش نہ تھیں۔میں جتنا اپنے ماضی کی طرف دیکھتا مجھے لگتا قصورشاید میرا ہی تھا۔‘‘

کہانی میں ایک جگہ کچھ یوں بیان ہوا ہے:

’’پنشن سے ملنے والی رقم سے میں نے دونوں بیٹیوں کی شادی کردی۔اتنے پیسوں میں اچھا جہیز دینا مشکل تھا ۔میں نے ضروریات زندگی کی چیزیں دے کر اُنہیں رخصت کر دیا۔‘‘

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچوں کے لیے لکھنے والوں کو کیا یہ علم ہے کہ وہ جو لکھ رہے ہیں اُس کے اثرات نونہالوں پر کس قدر ہو رہے ہیں۔کیا بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے کے لیے شادی، جہیزاورمیکے کا تذکرہ ادب اطفال کے لیے لازم و ملزوم ہے جو اِس کے بغیر کہانی نہیں لکھی جا سکتی ہے۔ کیا ایسی کہانیاں نہیں لکھی جا سکتی ہیں جن کے مرکزی کردار بچے ہی ہوں اورموضوع اُن کی ذہنی استطاعت کے مطابق ہو۔

شاہ تاج خان اپنے مضمون ’’ اردو ادب اطفال کا بدلتا منظر نامہ‘‘ میں لکھتی ہیں:

’’ادبِ اطفال کو معمولی اور آسان سمجھ کر کچھ بھی لکھنے کا خیال لے کر اِس میدان میں آئے ادباء کو  دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ادبِ اطفال کو اچانک ملنے والے فوکس نے اردو ادبی دنیا کے برگدوں کو بھی متحرک کر دیا ہے۔وہ بھی اپنے تیر تلوار لے کر غیر متعلقہ میدان ِ ادب کی جانب دوڑ پڑے ہیں۔عالم یہ ہے کہ اب کسی ادیب کو ادیب الاطفال کہلانے میں شرم نہیں بلکہ فخر محسوس ہونے لگا ہے۔ بچوں کے نام پراعزازت اور انعامات بٹورنے کی دوڑ میں ،ادیب الاطفال کی اِس بھیڑ میں معصوم قاری (بچہ)کہیں نظر آتا ہے!کیا بچوں کے ادب کے متعلق بچوں کی رائے معلوم کرنے کی کوئی کوشش کی گئی ہے؟

دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

اگر ایک ادیب نے کہہ دیا کہ یہ تحریر میں نے بچوں کے لیے لکھی ہے تو وہ تحریر کس بنیاد،کس معیار اور کس کسوٹی پر پرکھی جائے گی ؟یا پھر ادیب کے کہنے کے مطابق ادبِ اطفال میں شمار کر لی جائے گی؟ ریٹائرڈ ٹیچر عبدل ملک نظامی صاحب کا یہ کہنا کہ‘‘ہر لکھنے والا یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ کس کے لیے لکھ رہا ہے۔اگر کوئی ادیب کہتا ہے کہ وہ ادبِ اطفال لکھ رہا ہے تووہ تحریر ادبِ اطفال ہی ہے۔’’اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو کیاوہ تحریر جس میں عام فہم زبان نہ ہو، تلمیحات کا سہارا لیا گیا ہو، تشبیہہ و استعارات کی بھرمار ہو! اِس کے علاوہ تحریر میں ایسے موضوعات کا انتخاب کیا گیا ہو جن سے بچے کا کبھی سابقہ بھی نہ پڑا ہو۔تو بھی کیا وہ تحریر ادبِ اطفال کے زمرے میں شامل کی جائے گی؟پرتھم ایجوکیشن سے منسلک فائونڈیشن فیاض احمد صاحب کو شکایت ہے کہ‘‘پریشانی یہی ہے کہ بچوں کی رائے کی عموماً کوئی اہمیت نہیں ہے۔اکثریہی ہوتا ہے کہ ہم بچوں کے ادیب ہیں اور ہم جو لکھتے ہیں وہ ادبِ اطفال ہو جاتا ہے۔بہت کم ادیب ہیں جوواقعی بچوں کے پاس جاتے ہیں اور اْن کی رائے لیتے ہیں۔‘‘

 ایک تحریر’’ میں حیران ہوں ‘‘ میں نونہالوں کو کیا سمجھایا گیا ہے ،اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔

’’ تم نے اخباروں ، رسالوں وغیرہ میں نسلی امتیاز کی پالیسی کے متعلق بہت کچھ پڑھا ہوگا ۔یہ نسلی امتیاز کی پالیسی یہی ہے، یعنی امریکا کے سفید فام لوگ سیاہ فام نیگرووُں سے نفرت کرتے ہیں۔بہت بُری بات ہے، لیکن یہ ساری سفید فام امریکی قوم ساری کی ساری ایسی نہیں ہے کچھ لوگ اس نفرت کے خلاف بھی ہیں، ہرقوم میں اچھے بُرے لوگ ہوتے ہی ہیں ۔‘‘

راقم السطور کے نزدیک کم عمری میں نونہالوں کو نسلی امتیاز کے حوالے سے چاہے وہ مثبت سوچ کے تابع ہی کیوں نہ ہو انھیں آگاہ کرنا درست طرز عمل نہیں ہے ۔حیران کن طور پر یہ تحریر اُس وقت شائع کی گئی تھی جب نونہالوں کے لیے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں تھا کہ وہ پڑھی جانے والی معلومات کی تصدیق کر سکتے۔راقم السطور کے مشاہدے کے مطابق مذکورہ بالا تحریر اُس وقت کے نونہالوں کو کیا آج کے بچوں کو بھی پڑھنے پر زیادہ متاثرنہیں کر سکے گی۔یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بہترین نثرنگاری کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ لفظوں کے بہترین استعمال سے ننھے قارئین کو متاثرکیا جا سکتا ہے ۔جنھیں کسی بات کا مطلب سمجھنے میں تاخیر ہونے لگے تو وہ اکتا کر کچھ اور پڑھنا شروع کر دیتے ہیں ۔اکثریہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جو بیک وقت ادب اطفال اور ادب عالیہ کے لیے لکھ رہے ہیں ۔انھیں اِس بات کی خبر نہیں ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو کچھ ایسا پیش کر رہے ہیں جو ان کے لیے غیرضروری ہے۔

 ایک کہانی جس کا نام ’’ باہمت بچہ ‘‘ہے۔ اِس کی اختتامی سطورمیں کہانی نویس نے کیا لکھا ،اُسے ملاحظہ کیجیے:

’’حسن نے اپنی بہن کی شادی اچھے گھرانے میں کردی اورخود غریب گھرانے کی ایک لڑکی سے شادی کرلی اوراپنے گھر والوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگا۔‘‘

شادی بیاہ کے موضوع کو ادب اطفال میں جس انداز سے شامل کرلیا گیا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے اورحیران کن طور پر مدیران اِس حوالے سے ادیبوں کی رہنمائی نہیں کرتے ہیں ۔اگر ایسا کیا جاتا تو کم سے کم ہمیں نئے اور نامور لکھنے والوں کی کہانیوں میں شادی کے تذکرے نہ پڑھنے کو ملتے۔

شادی کا تذکرہ ہوا ہے تو جہیز کے حوالے سے بھی ایک نظم ’’دلہن کا اصلی جہیز‘‘ کے چند اشعار دیکھ لیجیے۔

ابا نے ہم کو کیا دیا؟

کپڑے دیے گہنا دیا                   جھُومر دیا، جھمکا دیا

برتن دیے، بھانڈا دیا                 بہتر دیا، اچھا دیا

گھر بھر گیا، اتنا دیا

ساماں نیا اُن کو دیا                      گھر کا ’’ دیا‘‘ اُن کو دیا

جو ہو سکا ، ان کو دیا                     جو کچھ دیا اُن کو دیا

ابا نے ہم کیا دیا؟

اس نظم کو پڑھ کریہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ نونہالوں کا ادب عالیہ ہے۔ جسے ادب اطفال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔کیا اس نظم کو پڑھ کر کم عمربچیاں یہ نہیں سوچ سکتی ہیں کہ شادی کے بعد جہیز زیادہ ملنا چاہیے ، اُن کے والد کو وہ سب کرنا چاہیے جو اُن کی استطاعت میں ہے۔ ہمارے ہاں تصویر کا ایک رخ دکھایا جاتا ہے تاکہ کسی کی یا اپنی اصلاح کی نوبت نہ آسکے،لیکن آخر کب تک یہ سب ہوگا؟

کیا ہم اِس حقیقت کو تسلیم کریں گے کہ نا مناسب مواد کی مسلسل اشاعت کے بعد ہی نونہالوں کو رسائل و کتب پڑھنے سے والدین نے روک دیا ہے۔ گھر کی باتیں چوں کہ مدیران تک نہیں پہنچ پاتی ہیں ۔اِس لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ رسائل میں جو بھی شائع ہو رہا ہے وہ سب کے لیے قابل قبول ہوگا۔اخبارات اور رسائل کے مالکان اگرازخود مدیران نہیں ہے تو کیا یہ اُن کا بنیادی فرض نہیں ہے کہ ادب اطفال کے چند بہترین لکھنے والوں کو جو مثبت سوچ کے تابع نونہالوں کی تربیت کرسکیں انھیں بطور مدیر گوشہ اطفال مقرر کریں۔

راقم السطور کو ایک نوجوان ادیب کا غیر مطبوعہ ناولٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔کیا آپ یقین کریں گے کہ اُس نے ایک جسم فروش عورت کا نہ صرف تذکرہ کیا ہوا تھا بلکہ اُن کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے حوالے سے بھی لکھا تھا۔اِس سنگینی کو دیکھتے ہوئے اُسے ادب اطفال کے حوالے سے آگاہ کیا گیا کہ کس نوعیت کے موضوعات پر بچوں کے لیے لکھنا چاہیے۔ اگر راقم السطور کو مذکورہ ناولٹ پڑھنے کو نہ ملتا اوروہ کہیں شائع ہو جاتا تو ذرا سوچیں کہ اشاعت کے بعد اُس نوجوان ادیب کے ساتھ کس نوعیت کا سلوک ہونا تھا۔ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ نوجوان لکھنے والوں کو اِس بارے میں کوئی بہتر رہنمائی دینے کو تیار نہیں ہے کہ بچوں کے لیے کس طرح کا اورکیسا مواد لکھنا چاہیے۔ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ جنھیں ازخود علم نہیں ہے کہ ادب اطفال کے حقیقی معنی اوراُس کا مقصد کیا ہے ، وہ کیسے کسی اور کو سمجھا سکتا ہے کہ بچوں کا ادب درحقیقت کیا ہے۔

ماہ نامہ آنکھ مچولی کے خاص شمارے’’ مظلوم بچے نمبر ‘‘ میں شامل ’’ زاہد ہ بتول کی کہانی‘‘ کی درج ذیل سطور کو کیا کہاجا سکتا ہے کہ یہ واقعی بچوں کے لیے مناسب ہیں۔

’’ زاہدہ بتول سفید مسہری پر خون میں لت پت پڑی تھی۔۔۔۔‘‘

’’ زاہدہ بتو ل مرگئی ہے۔۔۔۔اسکول سے نکل رہی تھی کہ سامنے سے آتی ہوئی گاڑی کی فائرنگ سے۔۔۔نامعلوم دہشت گردوں کے ہاتھوں۔۔۔۔۔‘‘

’’ میں نے دیکھا موت زندگی کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔‘‘

’’ ہر چلنے والی گولی پر زاہدہ بتول مرجاتی ہے اس سے تو اچھا ہے کہ گولی کوئی مجھے ایک بار ہی پورا پورا ماردے۔۔۔۔۔۔‘‘

اگر بچوں کو شہر کے حالات سے آگاہ کرنا ہو تو کچھ ایسے انداز میں کیا جانا چاہیے کہ وہ نفسیاتی طور پر مجروح نہ ہوں ۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ بچوں کو ٹارزن یا ہرکولیس سمجھ کر سب کچھ اُن کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے تاکہ وہ ذہنی طور پر بالغ ہوجائیں اور سب کچھ سمجھنے لگ جائیں ۔مغرب میں بچوں کے لیے لکھی جانی والی کہانیوں میں’’ بوسہ دینا‘‘ بے حد معمولی تصور ہوتا ہے لیکن مشرق میں ایسا لکھنے والے کو سنگین نتائج بھگتنے پڑسکتے ہیں۔انھیںبچوں کے ادب کے حوالے سے سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اخلاقیات کا جنازہ کیوں نکال رہے ہیں اسی بناپرمعاشرے میں بھی بے راہ روی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔جب بچوں کو کہانیوں اور ناولز میں قتل وغارت دکھائی دی جائے گی تو پھر وہ یہی کچھ تعلیمی اداروں میں کرتے دکھائی دیں گے اورایسا ہو بھی رہا ہے۔

 راقم السطور اپنے بچپن کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات حتمی طور پر کہ سکتا ہے کہ خوف پیدا کرنے والا کوئی مواد کسی بھی نونہال کو بہادر نہیں بنا سکتا ہے اوراگر کسی کے ذہن میں ڈر بیٹھ گیا تو پھر عمر بھر وہ تنہائی پسند رہے گا کہ گھر سے باہرنکلنے پر اندھی گولی کے شکار ہونے کا وہم اُسے آزادی سے نہیں جینے دے گا۔اگر بہترین نثرنگاری کے حامل کے ادب کو جو بڑوں کے لیے لکھا گیا ہو اوربدقسمتی سے بچوں کے رسائل میں شائع ہو گیا ہو تو اُسے اس لیے بچوں کا تسلیم کرلیا جائے کہ وہ خوب صور ت لکھا گیا ہے تو یہ ادب اطفال کی بدترین توہین تصور ہوگی۔اس نوعیت کی کہانیوں کو کتنے بچے آسانی سے سمجھ سکتے ہیںیہ ایک اہم سوال ہے۔ اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نونہالوںوہی ادب مل سکے جو اُن کے لیے مناسب ہے بصورت دیگر ادب اطفال کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اور یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ادب اطفال اردو زبان کی بقا ء کی ضمانت ہے ۔اگر اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا تو پھر اِس کے نام و نشان ختم ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی ۔

حوالہ جات:

۱۔           بچوں کا ادب: کل، آج اورکل، ڈاکٹر عادل حیات،              پانچ دسمبر2020      www.adbimiras.com

۲۔          اندھیرے کا مسافر،محمد عادل منہاج، ماہ نامہ پھول، لاہور  جنوری2024

۳۔          کیا یہ میری غلطی تھی؟، خالدہ قمر، ماہ نامہ پھول، لاہور     فروری2016

۴۔          اردو ادب اطفال کا بدلتا منظر نامہ، شاہ تاج خان،              17دسمبر2023      www.dailychattan.com

۵۔          میں حیران ہوں، رشید احمد بٹ،       ماہ نامہ ہمدرد نونہال، کراچی جنوری1971

۶۔          باہمت بچہ، ملک محمد احسن, ماہ نامہ پھول، لاہور مارچ2023

۷۔         دلہن کا اصلی جہیز،منظر صدیقی اکبر آبادی،       ماہ نامہ ہمدرد نونہال ،کراچی          جون1956

۸۔          زاہدہ بتول کی کہانی، فصیح باری خان، ماہ نامہ آنکھ مچولی، کراچی             جون1996

مدیراعلیٰ ( سہ ماہی باغیچہ اطفال، سہ ماہی سرائے اردو، سیالکوٹ۔پاکستان)

برقی پتا:zulfiqarali.bukhari@gmail.com

190-B، سٹلائٹ ٹائون۔راولپنڈی (پاکستان) 46000

واٹس ایپ نمبر0308-0061428

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.