مرزا دبیرؔکی مرثیہ نگاری کی انفرادیت
جب ہم اردو مرثیہ کی بات کرتے ہیں تو ہماری نظروں کے سامنے جو نام سب سے پہلے رقص کرتا ہے وہ انیسؔ اور دبیرؔ کا ہے۔ گرچہ دبیرؔ کی پیدائش دہلی میں ہوئی تھی لیکن وہ بچپن ہی سے لکھنؤ میںرہے اور وہیں کے ادبی روایات و علمی فضاء سے مستفیض ہوئے، شروع سے ہی لکھنؤکی خوش دلی، خوش باشی، خوش اسلوبی آرام و اطمینان اور دولت کی فراوانی عام تھی، فن و حرفت کی ترقی اور علم و ہنر کا عروج آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔ یہی علمی مذاق نے زندگی کی تکلف پسندی کو نمایاں کرنے کی کوشش کی اور ادب میں نئی راہ ہموار کی۔
دبیرؔ کی طبیعت جدت پسند تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں نئی بات کہنے اور نئے واقعات رقم کرنے کا جذبہ ان کے احساسِ تناسب اور فن پر غالب نظر آتا ہے کیوں کہ جب انہیں کوئی روایت، معجزہ، واقعہ، حادثہ یا تشبیہ ان کے دل کو متاثر کرتی ہے تو وہ اسے فوراً رقم کئے بغیر نہیں رہتے خواہ وہ ان کے لئے زیاں ہی ثابت کیوں نہ ہوتی ۔ گویہ کہ دبیرؔمذہبی جذبات، خیالات اور متعقدات کا آئینہ تھی، اسی لئے وہ مرثیہ کے کردار کو انسان کی طرح پیش کرنے کے بجائے مافوق ا لفطرت کی ہستیوں کی طرح پیش کرتے ہیں۔
دبیرؔ ایک عالم تھے مشرقی علوم پر انہیں دسترس حاصل تھی، لہٰذا علمیت کا اظہار، مشکل پسندی، مضمون آفرینی، صنعت پرستی، مظاہرۂ تخیل اور اصلیت پرستی ان کی شاعری کا ایک بڑا مقصد رہا ہے۔ غرض یہ کہ جب وہ کسی بات کو اپنے فن کے قالب میں ڈھالتے ہیں تو ان کے یہاں اصلیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے لیکن وہ اپنی علمی لیاقت و استعداد کی بنا پر یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ایک مضموں کو کس کس انداز سے پیش کیا جاسکتا ہے اور اس میں کتنی تشبیہیں اور صنعتیں کام میں لائی جاسکتی ہیں۔ دبیرؔ کے متعلق اس بات کو کہنا درست نہیں ہے کہ وہ مشکل پسند ہے انہیں عام بول چال، آسان اور عام فہم انداز بیان پر قدرت حاصل نہیں تھی کیوں کہ جب ہم ان کے مجموعہ کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہماری نظروں سے مرثیہ کے ہزاروں اشعار ایسے گذرتے ہیں جو عام فہم ہیں۔ بطور مثال بند پیش خدمت ہے۔
ٍبانو کے شیر خو ار کو ہفتم سے پیاس ہے
بچے کی نبض دیکھ کے ماں بے حواس ہے
نہ دودھ ہے نہ پانی کے ملنے کی آس ہے
پھرتی ہے آس پاس پہ جینے کی آس ہے
کہتی ہے کہ کیا کروںمیں دہائی حسین کی
پتلی پھری ہے آج مرے نور عین کی
زیر نظر بند میں شاعر نے حسین ؓ کی زوجہ شہر بانو کے احوال و کوائف و بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ان کا شیر خوار بچہ اصغر علی کئی روز سے بغیر کچھ کھائے پیئے اپنی زندگی کا دن جی رہا ہے جس کی فکر ماں کو ستا رہی ہے، کچھ نہ کھانے پینے سے علی اصغر کی حالت روز بروز بگڑتی جارہی ہے جسے دیکھ کر شہر بانو حیران و پریشان ہیں بچے کی بحالیٔ صحت کے لئے وہ حسینؓ کا واسطہ دے دے کر دودھ و پانی طلب کرتی ہیں لیکن انہیں کوئی امید نظر نہیں آتی ہے کہ علی اصغر کی خوراک کا صحیح انتظام ہوپائے گا اور وہ کچھ کھا پی لیں گے جس سے ان کی صحت بحال ہوجائے گی۔
شاعر نے ماں کی محبت، وارفتگی اور احساسات و جذبات کو موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ شہادت اور بین میں دبیرؔ عموماً سادگی و سلاست سے کام لیتے ہیں اس لئے ان کا بیان درد و اثر سے پر ہوتا ہے وہ اپنے بیان میں درد و غم، الم و رنج پیدا کرنے کے لئے نت نئے لہجے اختیار کرتے ہیں اور جذبات کو متحرک کرنے کے لئے نئے نئے طرائق ایجاد کرتے ہیں محاورے اور روز مرہ زندگی مین بولے جانے والے الفاظ کو استعمال میں لاکر اپنے کلام میں جان ڈال دیتے ہیں بند میں ایک شیر خوار بچے کی بھوک، پیاس اور اس کے نڈھال پن کو بیان کیا گیا ہے یعنی یہ بند علی اصغر کی شہادت کو نہیں بلکہ ایک بے بس، لاچار اور مجبور بچے کی نہ صرف ایک اچھوتی تصویر پیش کرتا ہے بلکہ بچے کے دکھ، درد اور کرب کا احساس دلاتا ہے۔
دبیرؔ کی مشکل پسندی کا جو لوگ رونا روتے ہیں اور یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ان کے تشبیہات، استعارات و محاورات ایسے ہوتے ہیں جو لوگوں کی سمجھ میں آسانی سے نہیں آتے اور تلمیحات بالعموم ایسی استعمال میں لاتے ہیں جس سے بیشتر لوگ ناواقف ہواکرتے ہیں ان کی صنعتوں کے متعلق بھی کچھ ایسے ہی خیالات رائج ہوگئے ہیں کہ ان کی صنعتیں بھرتی کی ہواکرتی ہیں، میرے نزدیک یہ باتیں عبث ہیں کیوں کہ دبیرؔ نے بھی اپنے خیالات، احساسات و جذبات کو سیدھے سادے اور موثر انداز میں پیش کیا ہے جس کی تازہ مثال مذکورہ بند خود ہے۔ اس پورے بند میں نہ کوئی الفاظ ایسا ہے جو ہماری فہم سے بعید ہے اور نہ ہی کوئی ترکیب، استعارہ، تشبیہ و محاورہ ایسا ہے جو ہمارے ذہن کو ادھر ادھر گھوماتا ہے جس سے دل و دماغ پریشان ہوتاہے بلکہ دبیر نے ان سب سے پرے سیدھے سادے اور دلکش انداز میں اپنے خیالات کو پیش کیا ہے جو ہمارے دل و دماغ کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتا ہے۔
فریا د یا علی میں کد ھر جاؤ ں یا علی
ان داغوں کو کہاں سے جگر لاؤں یا علی
کس طرح ان کی سانس کو ٹھراؤں یا علی
پانی کا قحط ہے میں کہاں پاؤں یا علی
پچھلے کو آنکھ کھولی تھی اب کھولتے نہیں
روتے نہیں ہمکتے نہیں بولتے نہیں
شہر بانو حضرت علی سے فریاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ یا علی مجھ پر اور میری آل پر ایسی ناگہانی آپڑی ہے کہ میں پریشان ہوں، ایسی گھڑی میں میںکہاں جاؤں جہاںسے مجھے اور میری آل کو راحت مل جائے۔ میرے دل و دماغ کو قرار آجائے، میرا حوصلہ و جذبہ قوی ہوجائے تاکہ میں علی اصغر کا دکھ برداشت کرلوں اور علی اصغر کی بھوک پیاس مٹاپاؤں، جس سے ان کی جسم میں طاقت و توانائی آجائے، زبان خشک سے تر ہوجائے، جو آنکھیں بند ہیں وہ کھل جائیں۔ یا علی پچھلے دن تو علی اصغرنے اپنی آنکھ کھولے تھے لیکن اب اپنی آنکھ نہیں کھول رہے ہیں پچھلے دن تو وہ رو رہے تھے چیخ رہے تھے چلا رہے تھے لیکن اب کچھ نہیں بول رہے ہیں یا علی اب میں کیا کروں ،کہاں جاؤں اور اپنے دل کو کتنا سمجھاؤں۔
بہر کیف موت ایسی چیز ہے جو اپنے اور غیر دونوں کو ملول کردیتی ہے موت سے عزیز و اقارب کے دلوں کو جو دھچکا لگتا ہے جس کرب سے دل تڑپتا ہے وہ فطری طور پر اشک و آہ کو متحرک کرتا ہے۔ چونکہ عورتوں کا دل بہ نسبت مرد کے زیادہ نرم و گداز ہوتا ہے وہ زیادہ جذباتی ہوتی ہیں اس لئے ان کے یہاں یہ تڑپ اور بھی شدید ہوتی ہے الفاظ کی مدد سے دل کے دکھ درد کو پیش کرنا ذرا مشکل کام ہے لیکن دبیرؔ نے کامیابی و مہارت کے ساتھ شہادت و بین کو پیش کیا ہے المختصر یہ کہ دبیرؔ نے مرثیہ کے لئے جو راستہ اختیار کیا تھا وہ ان کی صلاحیتوں، وسعت اور بلند پائی فکر کے نتائج ہیں۔
اکدم ابھی ہائے غم سے نہیں انفراغ ہے
تازہ ابھی جوا نی اکبر کا داغ ہے
لو پھر گئی ہے کان کی گل یہ چراغ ہے
کیا لوٹنے کو موت کے میرا ہی باغ ہے
اصغر کا یاتراب ہے اکبر سدھارے ہیں
کیا خاک میں ملانے کو میرے ہی پیارے ہیں
شہر بانو بین کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کا گھر ایک پل کے لئے بھی غم سے خالی نہیںہورہا ہے۔ اکبر کی شہادت کا زخم ابھی بھرا نہیں ہے کہ دوسرا غم سامنے آکھڑا ہوا ہے میرے گھر کا ایک ایک چراغ بجھتا جارہا ہے ایسا لگ رہا ہے کہ موت صرف میرے گھر کو ہی تیتر بیتر کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اکبر تو داغِ مفارقت دے گئے تھے اصغر بھی داغِ مفارقت دینے کو تیار بیٹھے ہیں۔ کیا صرف موت کو میرے ہی لعل نظر آرہے ہیں؟
دبیرؔ نے مکالموں کی ادائیگی میں لب و لہجہ کا خیال اور رو ز مرہ کی زندگی میں بولے جانے والے الفاظ و محاورے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں اور جذبات کی ترجمانی میں ان سے کام لیتے ہیں۔ دبیرؔ جذبات کی ترجمانی کے لئے چھوٹے چھوٹے واقعات کو اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ اس میں حقیقت کا رنگ بھی پیدا ہوجائے اور عام روایت سے علیحدہ بھی ہوجائے۔ دبیرؔ کے کلام میں ثقالت کے ساتھ ساتھ سادگی سلاست اور روانی پائی جاتی ہے۔ دبیرؔ رخصت، شہادت، بین اور واقعات نگاری میں سادگی سے کام لیتے ہیں۔ کیوں کہ مضمون آفرینی، واقعہ نگاری اور خیال آرائی میں بیانیہ انداز اور تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے سادہ زبان کی ضرورت پڑتی ہے گویہ کی دبیرؔ کے مرثیوں کا ایک بڑا حصہ سادگیِ بیان کا نمونہ ہے۔
شاعری میں صرف شاعر کے احساسات و جذبات کی ترجمانی نہیں ہوا کرتی ہے بلکہ یہ ایک ایسی صنعت ہے جس کے ذریعہ شاعر حسبِ دل خواہ نتائج نکالتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق ان چیزوں کو پیش کرتا ہے جسے وہ اپنی مرضی کے موافق پاتا ہے اور اپنے زور بیان کی بنا پر جس چیز کو جیسا چاہے ثابت کردے۔ کہنے کا مقصد یہ کہ عمدہ شاعر وہی کہلاتا ہے جو اپنے بیان کی تائید میں مبسوط دلیلیں پیش کرتا ہے۔ گویا یہ کہ دبیر ؔ نے بھی اپنی قابلیت و استعداد دکھانے کے لئے ایسے ہی راستے منتخب کئے ہیں جن میں شاعر کی توجہ نفس موضوع سے زیادہ اس قید، پابندی یا رعایت پر ہوتی ہے جسے وہ اپنے اوپر عاید کرکے شعر کہتا ہے۔
انیسؔ و دبیرؔ کے متعلق یہ بات اگر کہی اور سنی جاتی ہے کہ انیسؔ کے یہاں فصاحت زیادہ ہے اوردبیرؔ کے یہاں بلاغت، جو کسی طرح مناسب نہیں لگتی کیوں کہ جب تک کلام فصیح نہیں ہوگا تب تک بلیغ نہیں ہوگا اور جب فصیح ہوگا تب بلیغ بھی ہوگا خیر بات واضح ہوتی ہے کہ جب دبیرؔ کے بلاغت کی کثرت ہے تو فصاحت کی کمی کیسے ہوسکتی ہے۔
میں کہتی تھی نجف میں انہیں لے کے جاؤں گی
شاہ نجف کا ان کو مجا ور بنا ؤںگی
انگلی پکڑ کے گر دِ لحد کے پھرا ؤں گی
ہے ہے انہیں کو قبر میں اب میںسلاؤں گی
منت کے طوق بڑھ چکے پر واں چڑھ چکے
یٰسین کا و قت آگیا قرآن پڑھ چکے
مذکورہ بند سے جو باتیں ہم پر آشکار ہوتی ہیں وہ یہ ہیں کہ شہر بانو کی یہ دلی خواہش تھی کہ جب علی اصغر بڑے ہوں گے شعور کی آنکھیں کھولیں گے تو انہیں نجف لے کر جائیں گی جہاں ان کے دادا حضرت علیؓ کا روضہ ہے اور ان کو حضرت علی کے روضے کا مجاور بنائیں گی۔ علی اصغر کی انگلی پکڑ کر حضرت علیؓ کے روضہ کا چکر لگوائیں گی۔ لیکن ان کی تمنا ہی رہ گئی کیوں کہ علی اصغر بھوک و پیاس کے سبب ظالموں کے شکار ہوگئے۔ چنانچہ علی اصغر حضرت علی کے روضہ کا خادم بننے کے بجائے خود لحد میں آرام فرمائیں گے الغرض یہ کہ شہر بانو علی اصغر کے متعلق جو خواب سجائی تھیں وہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوا۔
استعارہ و تشبیہ کلام کا حسن ہے بہترین اشعار استعارے کی بلندیوں سے وجود میں آتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو عبث نہ ہوگا کہ نظم و نثر میں جو سحر کاریاں پائی جاتی ہیں وہ بڑی حد تک انہیں کی عطیہ ہوا کرتی ہیں۔ لیکن میں اس بات کو یہاں کہہ دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ جب تک جو چیز فطری حالت میں ہوا کرتی ہے تب تک اس کی اصل قائم رہتی ہے لیکن جیسے ہی وہ تصنع و تکلف کی طرف مائل ہوتی ہے اسکا اصلی حسن زائل ہونے لگتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح تشبیہ و استعارے کا بھی معاملہ ہے کہ جب اس میں قصداً تکلف، تصنع، غرابت اور غیر معمولی ندرت پیدا کی جاتی ہے تو اسکا اصلی اثر ختم ہونے لگتا ہے لیکن دبیرؔ نے جن استعارات و تشبیہات کو استعمال میں لیا ہے وہ فطرت سے بڑے قریب ترین نظر آتے ہیں جس بنا پر ان کے اشعار کا حسن بڑی دیر تک قائم رہتا ہے۔
اب کس کی بامراد بڑھاؤں گی ہنسلیاں
ہے ہے کرخت ہوگئیں یہ نرم انگلیاں
تیور بدل بدل کر پھراتے ہیں پتلیاں
اب میرے لال باندھ نہیں سکتے مٹھیاں
باقی حواس پیاس سے معصوم کے نہیں
منھ میں انگوٹھے لیتے ہیں اور چوستے نہیں
دبیرؔ شہر بانوں کے احساسات و جذبات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ شہر بانو کی آرزوئیں، خواہشات و تمنائیں سب کی سب پست ہوگئیں ہیں کیونکہ ان کے لخت جگر نورِ نظر کی جو انگلیاں نرم و گداز تھیں وہ سب کی سب سخت ہوگئیں ہیں، علی اصغر کی پیاس اتنی شدت اختیار کرگئی کہ ان کے جان پر بن آئی، آنکھوں کی پتلیاںٹھس گئیں اور ہاتھوں کی مٹھیاں ہمیشہ کے لئے کھل گئی ہیں، جیسا کہ ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ جب بچوں کو بھوک و پیاس لگتی ہے تو وہ چیختے، چلاتے، روتے، ہاتھوں کے انگوٹھوں کو منھ میں ڈال کر چوستے اور پیر کی ایڑیوں کو رگڑتے ہیں۔ دبیرؔ نے اس بند میں ایک نوزائد بچے کی بھوک و پیاد کی شدت اور ماں کے درد و الم، کرب و کراہ اور تڑپ کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ علی اصغر کی ساری کیفیت کو ہم اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھنے لگتے اور ہم خود کو اس دکھ، درد، رنج و الم میں برابر کا شریک پاتے ہیں۔
مجموعی طور پر دبیر کے مراثی کے متعلق یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے فصاحت، بلاغت، روز مرہ محاورہ، بحروں کا انتخاب، استعارات و تشبیہات کے ساتھ ہی ساتھ انسانی جذبات و احساسات واقعہ نگاری اور منظر نگاری کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ ہم اس کے قائل ہوجاتے ہیں۔
Dr. Zarina Zarreen
(Dr.Zarina Khatoon)
Associate Professor
University of Calcutta
(college street campus)
Kolkata- 700073.
Leave a Reply
Be the First to Comment!