’’اردو میں عملی تنقید کے مختلف پہلوئوں کاتنقیدی مطالعہ‘‘: ایک اجمالی جائزہ
’’اردو میں عملی تنقید کے مختلف پہلوئوں کاتنقیدی مطالعہ‘‘: ایک اجمالی جائزہ
ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ کانام بنگال ہی نہیں بلکہ پورے ہندستان اور برصغیر میں نمایاں ہے ۔ان کی فکری کاوشیں کسی سے پوشیدہ نہیں، ان کا نام نہایت ہی ادب کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ زرینہ زریں صاحبہ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اردو ادب کی خدمت میں صرف کررہی ہیں۔ پختہ گو، محقق و ناقد، شاعرہ و ادیبہ ہیں۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کوئی شاعر و ادیب کسی ایک قصبہ، شہر، صوبہ یا ملک کا نہیں ہوتا ہے یعنی اس کی تخلیق کسی فرد واحد کے لئے نہیں ہوا کرتی ہے بلکہ ہر عام و خواص کے لئے ہوتی ہے۔ اس کے دل میں جو دکھ درد ہوتا ہے وہ کل کائنات کے انسان کا دکھ درد ہوتا ہے ۔ شاعر و ادیب یا فن کار کسی مخصوص رنگ و نسل کا پرستار نہیں ہوتا چنانچہ زرینہ زریں صاحبہ کا بھی دل رنگ و نسل، ذات پات کی کدورتوں سے پاک ہے ۔ ان کا دل ایک آئینہ کی مانند ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ہمیشہ صدق گوئی سے کام لیتی ہیں۔ ان کے اشعارمیں تہ در تہ معنی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ان کے اشعار فطری ہوتے ہیں جو پڑھنے اور سننے والے کے ذہن میں آسانی سے نقش کر جاتے ہیں۔ غرض کہ نثر اور نظم دونوں اصناف پر ان کی گرفت ہے۔ یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ شاعر و ادیب وہی نہیں بیان کرتا ہے جو اس کے دل پر گزرتی ہے بلکہ وہ اس کو بھی بیان کرتا ہے جسے وہ محسوس کرتا ہے ۔ان کے اس احساسات کو ہم ان کی شعری مجموعہ ’’خیالوں کا سفر‘‘ اور ’’رقص مسلسل‘‘ میں دیکھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ کی شخصیت ایک ہمہ گیر شخصیت ہے جو بیک وقت ایک شفیق استاد، مستند شاعرہ اور عمدہ محقق و ناقد ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیت کی بنا پر ملک گیر پیمانے پر معروف و مقبول ہیںیہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ کے کاموں پر گفتگو کرنا آسان بھی ہے اور قدرے مشکل بھی، آسان ان معنوں میں کہ ان کی تحریروں کے طویل سفر کے کئی سنگ ہائے میل ہیں اور اسی قسم کے ایک سنگ میل کو منزل کانام دے کر ہم اپنی بات کی راہ کا تعین نہیں کرسکتے۔ مشکل ان معنوں میں کہ کسی موڑ پر بھی کسی ماندگی کے وقفے نہ طویل ہوئے اور نہ ہارج۔ میں نے یہ ہمیشہ محسوس کیا ہے کہ ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ کے یہاں جاننے کی جستجو کا جذبہ ہمیشہ تازہ دم اور سرگرم رہتا ہے۔ نفسیاتی سطح پر یہ چیزیں ان کے یہاں یوںہی زیب نہیں دیتی ہے ، ان کا ذہن لچک پذیر ہے ۔ ڈاکٹر زرینہ زریں کا طرز ادراک اپنے عہد کے مادی رجحانات سے بڑی حد تک مختلف اور بے پرواہ نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں میری دلچسپی اور توجہ کا باعث بنیں۔ ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ نے یوں تو مختلف اصناف پر طبع آزمائی کی ہیں اور ہر صنف پر اپنا کچھ نہ کچھ نقش ثبت کیا ہے۔
فرہنگ آصفیہ کے بموجب تحقیق کے معنی ہیں راست، درست، ٹھیک، سچ، حق ، تصدیق، ثبوت، مسلّم، تسلیم کردہ،شدہ، یقین ، اعتبار، چھان بین، تلاش ، تحقیق، تفتیش، کھوج، سراغ، پتہ، دریافت، پوچھ گچھ، جانچ، شناخت، معتبر، یقین واثق، قابل اعتبار جیسے تحقیق خبر، امتحان اور تجزیہ وغیرہ ہے۔
ان دو درجن سے زائدمعانی میں مشترک عنصر تفتیش اور دریافت ہے اور ان ہی پر تحقیق کی اساس استوار ہوتی ہے۔ تحقیق کا فن پوشیدہ حقیقتوں کو سامنے لانے اور نئے حقائق کی تلاش کرنے اور دلائل سے ان کی اصلیت ثابت کرنے کا فن ہے ۔ کبھی کبھی حقائق پرادبی مفروضات کے گردو غبار اس طرح حائل ہوجاتے ہیں کہ اصلی شکل منہا ہوجاتی ہے گویا اس کی اصل شکل کو پیش کرنا ادبی تحقیق کاکام ہے اوریہی تحقیق عمرانیات، نفسیات،مذہب، سائنس ، استباق غرض کہ ہر شعبۂ علم پر ثابت آتا ہے ۔ادبی تحقیق کا شعبہ بہت وسیع ہے ۔ اس کے لئے منطقی ذہن کا ہونا ضروری ہے ۔ کہنے کا مقصد یہ کہ ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ کا ذہن منطقی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ذہن تحقیق کی طرف بھی مائل ہے۔ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر زرینہ زریں کا ذہن منطقی نہ ہوتا تو وہ اس جانب متوجہ نہ ہوتیں۔ تحقیق ان کی اساس ہے اور یہ فطری بات ہے کہ جس میں جو صلاحیت موجود ہوتی ہے اس کا رجحان اسی جانب مرکوز ہوتا ہے۔ ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ کے ذہن کا منطقی پہلو قوی اور نمایاں ہے اس لئے یہ تحقیق جیسے فن کی طرف متوجہ ہوئی ہیں۔
جب ہم تنقید کی بات کرتے ہیں تو ہمارا ذہن اس شخص کی جانب متوجہ ہوتا ہے جو اس روئے زمین پر پہلے پہل قدم رکھا ہوگا اس کے اندر اسی روز سے بھلے برے کی تمیز رہی ہوگی جس بنا پر وہ اچھی چیزوں کوپسند اور بری چیزوں سے نفرت کیا ہوگا ۔یہ بات یہیں نہیں رکتی ہے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اچھی اور بری چیزوں سے متعارف کرایا ہوگا اور خوب سے خوب تر کی مشن لے کر اپنے قدم کو بڑھایا ہوگا اور اپنی ضروریات کے مطابق نئی نئی چیزوں کو اختراع کیا ہوگا اور ا س پر عمل پیرا رہا ہوگا اگر ایسا نہ ہوتا تو آج ہم جس جگہ کھڑے نظر آتے ہیں کھڑے نہ ہوتے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شروع شروع وہ شخص اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کے لئے پتوں کا استعمال کیا ہوگاتو جب وہ ان پتوں سے زیادہ پائیدار ان درختوں کی چھال لگی ہوگی تو ان چھالوں کو مصرف میں لایا ہوگا جب وہ چھال بھی اس کو ناقابل برداشت لگی ہوگی تو وہ چمڑے کی چیزوں کو استعمال کیا ہوگا اور اپنے ستر کو چھپایا ہوگا۔ جب یہ چمڑے بھی اس کے نزدیک پائیدار ثابت نہ ہوئے ہوں گے تو اپنا ایک قدم اور بڑھایا ہوگا اور کپڑے کا اختراع کیا ہوگا اور اس سے اپنے جسم کو چھپایا ہوگا اورپھر دن بدن اس میں آرائش و زیبائش کرتا رہا ہوگا اور اس سوچ و فکر اور عمل کی بنیاد پر کم خواب اور نایاب جیسے کپڑے کا وجود عمل میں آیا ہوگا جس سے اس کے ذہن کو تقویت اور اطمینان حاصل ہوا ہوگا اگر وہ پہلا انسان ایک جگہ ساکت ہوجاتا تو جن چیزوں کوکھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں گویا ان چیزوں سے آج ہم محروم ہوتے۔ خیر میں اپنی باتوں کو مختصر کرتے ہوئے تنقید کی جانب آتا ہوں جو آج کا میرا موضوع بحث ہے۔ چنانچہ جب ہم ادب بالخصوص اردو تنقید کی بات کرتے ہیں تو یہ تنقید ہمیں سب سے پہلے شعراء کے یہاں نظر آتا ہے کیوں کہ جب وہ کوئی کلام کہتا تھا تو اپنے استاد کو دکھایا کرتا تھا اور استاد اس کے خیالات کی نوک پلک درست کیا کرتا اور یہی شاعر جب کسی مشاعرے میں اپنے کلام کو پیش کیا کرتا تھا تو سننے والوں کو جو اشعار پسند آیا کرتے تھے تو اس پر داد دیا کرتا تھا تو بات واضح ہوتی ہے کہ تنقیدی شعور شاعر کے پاس بھی ہے اور سامع کے پاس بھی ہے بات یہیں ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ جب ہم اردو ادب بالخصوص تنقید کی بات کرتے ہیں تو ہمارا ذہن بیاض کی طرف جاتا ہے ۔بیاض نگار اپنی پسند کے اشعار کو نوٹ کرلیا کرتا تھا اور موقع محل کو دیکھتے ہوئے ان اشعار کولوگوں کے سامنے پیش کرتا تھا لہٰذا بیاض نگار کی پسند اور ذائقے کا پتہ لوگوں کو چلتا تھا یہاں بھی تنقید نظر آتی ہے تھوڑی سی اردو ادب کو تقویت ملی اور تنقیدی عمل کا بول بالا ہوا تو تذکرے ہمارے سامنے آئے، تذکرے کی خصوصیت یہ ہے کہ تذکرہ نگار شعراء کا تعارف کراتا ہے اور اس کے چند بالخصوص غزل کے اشعار کو اپنے تذکرے میں جگہ دیتا ہے اور پھر وہ ان اشعار پر تبصرہ کرتا ہے ۔ ان چیزوں کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ تنقیدی شعور ہر تخلیق کار کے اندر اس کی تخلیق سے پہلے موجود ہوا کرتا ہے جس کی بنا پر وہ کسی چیز کی تخلیق کرتا ہے تو وہ چیز لوگوں کے سامنے آتی ہے تو قاری اس فن سے ہی حظ اٹھاتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ الطاف حسین حالی نے اپنے شعری مجموعہ کے لئے جو مقدمہ لکھا تھا وہ اتنا جامع اور درست تھا کہ اس مقدمے کو اردو تنقید کی پہلی کتاب تسلیم کیا گیا اور یہیں سے اردو تنقید کا باضابطہ طورپر آغاز ہوتا ہے۔
مولانا شبلی نعمانی نے ’موازنہ انیس و دبیر ‘‘ لکھ کر عملی تنقید کی بنیاد ڈالی۔جب ہم اردو ادب میں عملی تنقید کی باتیں کرتے ہیں تو عملی تنقید کے بہترین نمونے ہمیں’’یادگار غالب‘‘،’’شعرالعجم‘‘ اور ’’موازنہ انیس و دبیر ‘‘ میں نظر آتے ہیں۔ حالی نے یادگار غالب میں غالب کے جن اشعار کے متعلق باتیں کی ہیں وہ صرف غالب کے اشعار کی شرح بیان نہیں کرتے بلکہ حسن وقبح کو بھی واضح کرتے ہیں۔ شعرالعجم فارسی شاعری سے متعلق ہے۔اس کی چوتھی جلد میں اصول شعر سے بحث کی گئی ہے۔ عملی تنقید کی تاریخ میں اس کا اہم مقام ہے۔ موازنہ انیس و دبیر‘‘ مولانا شبلی نعمانی کے شعری ذوق اور انیس شناسی کی عمدہ مثال ہے۔
آج ہم تنقید پر بات کرتے ہیں تو تنقید ایک صنف کی صورت میں ہمیں نظر آتی ہے بلکہ اس کی مختلف شاخیں بھی وجود میں آچکی ہیں۔ تنقید کی انہی شاخوں میں سے ایک شاخ کا نام عملی تنقید ہے ۔اس تنقید کے تحت جن کاموں کو کیا جاتا ہے وہ یہ کہ کسی فن پارے کا تنقید نگار جائزہ لیتا ہے اور اس فن کے ہر اس گوشے پر وہ اپنی نظر رکھتا ہے اور وہ اپنے علم کی بنیاد پر اس صنف سے بحث کرتا ہے اور اس بحث کے نتیجے میں جو چیزیں چھن کر ہمارے سامنے آتی ہیں ان ہی چیزوں کو عملی تنقید کہاجاتا ہے۔اس سلسلے میں ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔ اقتباس دیکھیں:
’’تنقید کے ابتدائی نقوش کی صورت میں جو چیزیں ہمارے سامنے آتی ہے وہ ہے ’’تذکرہ‘‘ یا ’’بیاض نویس‘ اردو شعرا کے تذکرے ہمارے ادب کا بہترین سرمایہ ہیں ان تذکروں میں تنقید کے جو نمونے ملتے ہیں،انہیں ہم تنقید کے ابتدائی نقش سے تعبیر کرسکتے ہیں۔تذکرہ نگارعام طورپر شعرا کا مختصر تعارف کراتے ہوئے چند الفاظ میں ان کے کلام پر رائے دیتے ہیں اور آخر میں چند اشعار نمونے کے طورپر پیش کردیتے ہیں۔ تذکروں میں ان تنقیدی اشاروں کی بڑی اہمیت ہے۔ بعض تذکرہ نگاروں نے شعرا کے کلام پررائے بھی دی ہے ، فارسی شعرا سے ان کا مقابلہ کیا ہے اور ان کے کلام پر اصلاح بھی دی ہے ۔ اس کے علاوہ اس دور کی ادبی تحریکوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ ان تمام باتوں پر طائرانہ نظر ڈالنے سے ہمیں یہ انداز ہ ہوتا ہے کہ ان تذکروں میں تنقیدی عناصر موجود ہیں۔‘‘
(اردو میں عملی تنقید کے مختلف پہلوئوں کا مطالعہ، ڈاکٹر زرینہ زریں، صفحہ:۱۴-۱۳)
سید احتشام حسین اس جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ اقتباس پیش خدمت ہے:
’’تنقید منطق کی طرح ہر علم و فن کی تشکیل و تعمیر میں شریک ہے بلکہ وجدان اور جمال کے جن گوشوں تک منطق کی رسائی نہیں ہے تنقید وہاں پہنچتی ہے ۔ رنگ و بو اور کیف و کم کے غیر متعین دائرہ میں صرف قدم ہی نہیں رکھتی بلکہ ابہام میں توضیح کا جلوہ اور بے تعینی میں تعین کی کیفیت پیدا کرتی ہے اس طرح تنقید کے سلسلے میں جب اصول کی گفتگو کی جائے تو طبعی اور اقتصابی علوم کے علاوہ ایک اور ایسے علم یا جس سے کام لینے کی ضرورت پڑے گی جو ان علوم کے منافی نہ ہوتے ہوئے بھی ان سب سے بڑھ کر کوئی ایسی بات بتا سکے جس سے فیصلے میں مدد ملے ممکن ہے کئی علوم کا امتزاج کا نتیجہ ہو بحرانی کیفیت اضطراب میں اچانک کسی نقاد کی انگلی پڑ گئی ہو۔ ایسی حالت میں نقاد کے الفاظ اور اس کا فیصلہ بالکل عجیب نظر آئیں گے۔
(تنقیدی نظریات، جلد اول، مرتبہ سید احتشام حسین، اتر پردیش اردو اکاڈمی ، سال اشاعت2009ء،ص:۱۶)
جب ہم اردو ادب میں عملی تنقید کی باتیں کرتے ہیں تو عملی تنقید کے بہترین نمونے ہمیں ’’یادگار غالب‘‘،’’شعر العجم‘‘ اور موازنہ انیس و دبیر میں ملتے ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی نے موازنہ انیس و دبیر لکھ کر عملی تنقید کی بنیاد ڈالی۔
’’موازنہ انیسؔ ودبیرؔ‘‘ تقابلی تنقید کا سب سے اہم نمونہ ہے۔ یہ کتاب اپنے طرز تنقید کی وجہ سے اہمیت رکھتی ہے ۔ اس میں شبلی نعمانی نے عام شعری محاسن و معائب پر بھی روشنی ڈالی ہے اور اپنے تقابلی تنقید میں ادبی اصولوں سے رو گردانی نہیں کی ہے اور علمی انداز میں ان شعراء کی مرثیہ نگاری کے بارے میں رائے ظاہر کی ہے ۔ اثر لکھنوی نے بھی تقابلی تنقید سے دلچسپی لی ہے لیکن ان کا انداز شبلی نعمانی سے مختلف ہے۔ اثر لکھنوی نے میر و غالب کے بعض اہم اشعار کا مقابلہ کیا ہے ۔ وہ تشریح و تجزیے کے سہارے آگے بڑھتے ہیں۔ اثر لکھنوی نے بعض جدید شعراء کا قدیم شاعروں سے مقابلہ کیا ہے ۔ وہ دو شاعروں کا باہم موازنہ کرکے اپنے مخصوص تاثراتی انداز میں رائے دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ لکھتی ہیں۔ اقتباس دیکھیں:
’’اردو میں عملی تنقید کے عمدہ نمونے حالی کی ’’یاد گار غالب، شبلی کی ’’شعر العجم‘‘ موازنہ انیس و دبیر‘‘ میںموجود ہیں۔ اس کے علاوہ شرحیں ہماری عملی تنقید کی ابتدائی شکل ہیں جن میں عملی تنقید تو کچھ حد تک موجود ہیں لیکن ان میں تنقید کاایک ہی رخ پیش کیاگیا ہے ۔ یعنی شرح نگاری کا مقصد شعر کے معنی سمجھنے تک محدود ہوتا ہے ۔اس لئے اس کا سارا زور’’خیال کی پرواز‘‘ الفاظ کی بندش، ضائع معنوی و لفظی، معنی آفرینی ، الفاظ کی کرشمہ سازیاں، ردیف و قافیہ کی بحث، معائب و محاسن پر بحثیں اور شاعری کی سخن فہمی یا کم فہمی کے اظہار پر صرف ہوتا ہے۔‘‘
( اردو میں عملی تنقید کے مختلف پہلوئوں کا تنقیدی مطالعہ، ڈاکٹر زرینہ زریں، ص:۲۵)
متذکرہ اقتباس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ تنقید کسی فن پارے کو واضح کرنے پر دلالت کرتی ہے اگر تخلیق کار کے ذہن میںاگر تنقیدی شعور نہ ہوتویہ ممکن نہ ہوگاکیونکہ ناقدانہ شعور ہی اس کی کج فہمیوں کو دور کراتا ہے اور اصل کو وجود میں لاتا ہے ۔یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی فن پارے کو اصل صورت میں منظر عام پر لا سکے۔ تخلیق کار کے ذہن میں تنقیدی شعور نہ ہوتو یہ ممکن ہے کہ وہ فن پارہ ایک بد نماعمارت کی طرح ہوگا۔ کیونکہ وہی عمارت دلکش اور دیدہ زیب ہوتی ہے جب عمارت کا معمار پوری توجہ اس پر صرف کرتا ہے تب جاکر دل پر اثر کرتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جب کوئی فن پارہ وجود میں آتا ہے تو اس کا خالق اپنے ذہن کے مطابق اپنے فکرو فن کی بساط پر اس فن پارے کو انفرادیت بخشنے کی جسارت کرتاہے جس طرح مالی اپنے چمن کی بکھری پتیوں اور ٹہنیوں کو کانٹ چھانٹ کر اس کو برابر کرتا ہے۔ مالی کی پتیوں کو کاٹنے کا مقصد یہ ہوتاہے کہ اسے ایک برابر میں لانا اور دیدہ زیب اور دلکش بنانا ہوتا ہے تاکہ جب کوئی غم کا مارا، دکھ کا جھیلا اور قسمت کا ہارا اس چمن میں پہنچے تو اس کی پژمردگی دور ہوجائے اور اس پر غم واندوہ کاکوئی شائبہ باقی نہ رہ جائے اسی لئے مالی اس چمن کے پودوں کے ساتھ تھوڑی سی زیادتیاں کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ ایک ناقد کا کام یہی ہوا کرتا ہے کہ ادب کے فن پارے کو ترتیب میں لاتا ہے اور نقاد کا مقصد بھی وہی ہوا کرتا ہے جو ایک مالی کا ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ نے عملی تنقید کے چند گوشوں پر ایک منفرد اور قابل اعتماد بڑی دیدہ ریزی، دیانت داری، ایمان داری اور غیر جانب داری سے کام لیا ہے۔ ان کے کاموں کو دیکھ کر ایک حوصلہ ملتا ہے اور جس طریقے سے انہوں نے عملی تنقید کی روایت کو آگے بڑھایا ہے وہ اردو ادب کے طالب علموں کے لئے بڑا سود مند ثابت ہواہے۔ کیوں کہ انہوں نے اردو ادب کے عملی تنقید نگاروں کے کاموں پر مبسوط طریقے سے کام کیا ہے ، جن کے کاموں کو اہل نظر نے خوب سراہا ہے اس کی وجہ کچھ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کام پر کسی چیز سے سمجھوتہ کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ہیں بلکہ وہ اپناکام کسی شئے کی پرواہ کئے بغیر کرتی ہیں ان کے کاموں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نقاد کے لئے جو اصول اور طرائق نافذ کئے گئے ہیں ڈاکٹرزرینہ زریں صاحبہ اپنے فرائض پر پوراکھڑی اترتی ہیں جس کے لئے میں دلیل پیش کرتا ہوں جو انہوں نے کلیم الدین احمد کی عملی تنقید کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ اس سلسلے کا ایک ٹکڑا دیکھیں۔
’’کلیم الدین احمد اردو تنقید کو ’’اقلیدس کا فرضی نقطہ یا معشوق کی موہوم کمر قرار دیتے ہیں۔ یہاں بھی انہوں نے شدت سے کام لیا ہے اور جارحانہ رویہ اپنایا ہے۔‘‘
عملی تنقید کے سلسلے میں ان کا رویہ یہ رہا ہے کہ انہوں نے جس بات کو جیسا چاہا، سمجھ لیا اور بغیر کسی خاص وجہ کے اپنے اخذ کئے ہوئے نتائج کو صحیح ٹھہرایا اور اسی کو بنیاد بنا کر بحث کی، یعنی جب ایک بار وہ اپنی رائے ظاہر کردیتے ہیںتو پھر جو کچھ اس رائے کے خلاف ہو ان کے مزاج سے مختلف ہو اس پر شدید اعتراض کرتے ہیں۔ ان کی اس من مانی نے بعض اوقات غزل کے اشعار کے معنی و مفہو م کا قتل کردیا ہے کیوں کہ تخیل کی چاشنی اور بلند پروازی خیالات کی پرورش و پرداخت کے بعد ہی شاعر کے ذہن کے دریچے سے رنگینی و رعنائی نکل کر صفحۂ قرطاس کی زینت بنتی ہے۔ شاعر کے احساسات کی نیرنگی ہی اس کی تخلیق کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے اورناقد پر اسی کے ذریعہ عملی تنقید کے دروازے کھلتے ہیں۔ کسی خاص نتیجے پر پہنچنے کے لئے راستہ تلاش کرتا ہے اور عملی تنقید میں انہی اوصاف کا سہارا لیتا ہے۔
’’کلیم الدین احمداپنی عملی تنقید میں زیادہ تر انگریزی شعرا سے اردو کی غزلیہ شاعری اور شاعر کا مقابلہ کرتے ہیں۔ یہاں تک تو درست معلوم ہوتا ہے کہ وہ انگریزی ادب و شعر اور انگریزی شعراوادبا کے نظریات و خیالات ، طریقۂ کار اور اصول تنقید سے بے حد متاثر ہیں۔ لیکن اس عقیدت کے سمندر میں ایسے ڈوب جاتے ہیں کہ تنقید کے منصب کو فراموش کرکے ایک خاص طرح کے تاثر اور تعصب کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ’’عملی تنقید‘‘ میں اردو شعرا اور ان کے کلام کے ساتھ انصاف نہیں کر پاتے۔‘‘
(اردو میں عملی تنقید کے مختلف پہلوئوں کا تنقیدی مطالعہ، ڈاکٹر زرینہ زریں ،ص:۳۳-۳۲، سال اشاعت،۲۰۱۷ء)
مذکورہ اقتباس سے ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ کی بے باکی اور ان کی غیر جانب داری کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ سچ بات کوکہنے میں تھوڑا بھی چوں چرا نہیں کرتی ہوئی نظر آتی ہیں جو ایک نقاد کا اہم فریضہ ہے۔ ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں یہ بات پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ کا ذہن بڑا پختہ، طریقۂ کار بہت عمدہ اور مطالعہ گہرا اور وسیع ہے۔ اپنے مطالعے کی بنا پر نقاد کسی فن پارے کا جائزہ لیتا ہے اور اس کے حسن و قبح پر بات کرتا ہے اس لئے کہ آئندہ تخلیق کار، تحقیق کار یا تنقید نگار سے ایسی غلطی نہ ہو جیسا کہ کلیم الدین احمد نے اردو شعرا کے ساتھ کیا ہے جس کی وضاحت ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ نے بڑی بے باکی کے ساتھ کی ہے۔جیسا کہ ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ رومانی تنقید نگاروں کے متعلق اشار ہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔ اس سلسلے کی تحریروں کا ایک ٹکڑا پیش خدمت ہے:
’’اردو تنقید کی دنیا میں ایسے نام بہت کم ہیں جنہیں رومانی نقاد کے زمرے میں شامل کیا جا سکے۔ لیکن دو اہم نام ایسے ہیں جن کے یہاں رومانی تنقید کے اثرات بخوبی موجود ہیں ۔ایک نام عبدالرحمن بجنوری کا ہے اور دوسرا مجنوں گورکھ پوری کا۔ عبدالرحمن بجنوری نے رومانی دبستان کے اصول کے مطابق جذبات تخیلات کے ساتھ ساتھ انداز بیان پر خاص توجہ صرف کی ہے۔ ان کے یہاں جذبات کی خود رفتگی اور سرمستی ہے۔ بجنوری نے ’’محاسن کلام غالب‘‘ میں جذبات کی سرمستی اور عقیدت کی خوشبو سے سرشار ہوکر دیوان غالب کو ’’الہامی کتاب‘‘ قرار دیا اور اس کتاب میں غالب کے کلام کی تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے ملا دئیے ہیں۔ ’’محاسن کلام غالب‘‘ کے مطالعے سے یہ احساس ابھر کر سامنے آتا ہے کہ غالب کو خدائے سخن مانتے ہیں۔ ان کے ہر جملے میں رومانیت تصوریت اور عقیدت مندی کی بہترین عکاسی موجود ہے۔‘‘
(اردو میں عملی تنقید کے مختلف پہلوئوں کا تنقیدی مطالعہ ،ڈاکٹر زرینہ زریں،صفحہ:۳۹، سال اشاعت۲۰۱۷ء)
جب ہم اردو میں رومانی تنقید کے متعلق باتیں کرتے ہیں تو یہ ہمیں منظم صورت میں نظر نہیں آتی ہے کیونکہ شروع شروع میں رومانیت عناصر کی شیرازہ بندی نہیں ہوئی تھی جس سبب سے یہ ہمیں انتشار کی صورت میں ہمارے سامنے موجود تھی جس کی ایک اہم وجہ غزل تھی ۔ یہ بات ہم پر منکشف ہوتی ہے کہ غزل میں کسی شئے کو دیکھنے کا انداز نظم کے انداز سے ذرا مختلف رہا ہے کیونکہ غزل نے نسبتاً اشیا اور ماحول کو فاصلے سے دیکھنے کا ایک طریقہ ایجاد کیا جس کے نتیجے میں گڈ مڈ فضا قائم ہوگئی تھی۔ چنانچہ زندگی کی وہ انفرادیت جو شخصی مزاج کے متعلق حدود فن میں آتی ہیں لیکن کھل کر سامنے نہ آسکیں ۔ان چیزو ں کو بیسویں صدی میں نظم نے بخوبی طورپر انجام دیا جب اردو کی شعری بوطیقا میں نظم کو فروغ حاصل ہوا تو غزل کی معنوی وسعت میں بھی اضافہ ہوا اور نئے میلانات اور رجحانات غزل میں رونما ہونے لگے مختصراً نظم نے غزل کو مجروح کئے بغیر اسے نئے آفاق سے روشناس کرایا۔ نظم نگاری کے ارتقاء میں احساس و جذبات جڑ پکڑنے لگا کہ شعرا ء کو عالم خارج کے اسرار و رموز کو سمجھنے اور افکار و خیالات کی مناسبت سے رشتہ قائم کرنے اور زندگی کے ان نقوش کو جو پردۂ خفا میں موجود ہے اسے طشت از بام کرنے پر زور دینا چاہیے بادی النظر میں یہ عمل موجود کو ناموجود کے ساتھ نامتعلق کرتا ہے۔اقبال ایک ایسا شاعر ہے جس نے انسانی احساسات و جذبات کو فطرت سے روشناس کرایا اور اس کی سحر میں گم ہوجانے کے بجائے فطرت سے ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس بات کو میں اقبال کے متعلق پوری ذمہ داری کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اقبال مزاجاً رومانی تھا۔ اقبال ایک ایسا شاعر ہے جس نے پہلی مرتبہ انسانی احساسات و جذبات کو فطری طورپر روشناس کرایا۔یوں تو اقبال کا پورا ایڈیلزم ایک رومانی خواب ہے۔ شروع میں جب ان کی شاعری کو فلسفے کی شاعری نہیں مانی جا رہی تھی اس وقت بھی زندگی کے مظاہرے میں ان کی دلچسپی رومانی نوعیت کی تھی اقبال کی رومانیت کا اولین زاویہ فطرت کی حسن کی جستجو میں ظاہر ہوا۔ا س کی مثال کے لئے مسجد قرطبہ، ذوق شوق کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان کے علاوہ حفیظ جالندھری، اختر شیرانی ، عظمت اللہ خان ، جوش ملیح آبادی وغیرہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ جہاں تک معاملہ ہے رومانی عملی تنقید کا تو اس میں ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ نے بہت اہتمام و توازن کے ساتھ رومانی تنقید نگاروں کا عملی تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے جس کی مثال خال خال ملتی ہے۔
مجنوں گورکھ پوری اردو ادب کاایک بڑا نام ہے جنہوں نے اردو ادب کی بے لوث خدمت کی اور اپنے فکرو فہم کے اعتبار سے اردو ادب کو جو کتابیں عطا کی ہیں وہ اردو ادب کے دامن کو وسیع سے وسیع تر کرتی ہوئی نظر آتی ہیکہ جب ہم ان کی تنقیدی کاموں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ اردو تنقید کو مستحکم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تنقید کے بالکل ابتدا میں تاثراتی تنقید سے وابستہ نظر آتے ہیں لیکن جیسے جیسے ان کا مطالعہ وسیع ہوتا گیا ویسے ہی ان کا تنقیدی شعور پختہ او ر مضبوط ہوتا گیا۔ ہم ان کی تنقیدی شعور کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ان کے مطالعے میں کتنی گیرائی و گہرائی ہے کہ انہوں نے میر کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اور میر کے کاموں کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اردو شاعری بھی اپنا خدا رکھتی ہے اور وہ میر کہلاتا ہے ۔‘‘ اس قول کی روشنی میں میر کی افادیت اور اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جو میر کے راستے پر نہ چلا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ میر کے طریقۂ کار کے سامنے ہر کوئی اپنا سرخم کئے ہوئے نظر آتا ہے۔ میر کے متعلق مجنوں گورکھ پوری لکھتے ہیں جن سے ان کی تنقیدی گوشوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ اقتباس دیکھیں:
’’اردو شاعری بھی اپنا خدا رکھتی ہے اور وہ میرؔ کہلاتا ہے۔ تذکرہ نویسوں نے اس کی درگا میں اپنی حمد و ثنا پیش کی ہے۔ شعرا نے اس کے آگے سرِبندگی جھکایا ہے ۔ کوئی تذکرہ نویس یا کوئی شاعر ایسا نہیں ملے گا جس نے میرؔ کے خدائے سخن ہونے سے انکار کیا ہو۔‘‘
اس سلسلے کا ایک اقتباس اور دیکھیں:
’’ایک ایک لفظ پر علیحدہ غور کیجیے تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ا س شعر کی تاثیر کا راز آخر کیا ہے۔ شاید ہی ایسا بدذوق اور بے حس ہو جس کی زبان سے اس شعر پر بے ساختہ واہ نہ نکل جائے لیکن پھر بھی ایسا کوئی نہیں جو یہ سمجھ اور سمجھا سکے کہ شعر کیوں تیر کی طرح دل میں اتر گیا۔‘‘
نیاز فتح پوری کی عملی تنقید کے متعلق اپنی رائے قائم کرتے ہوئے زرینہ زریں صاحبہ لکھتی ہیں:
’’نیاز اپنی تنقید میں حسن اور دل کشی پیدا کرنے والے عناصر کا محاکمہ اور تجزیہ کرتے ہیں۔ وہ ادب کو خالص ادبی اصولوں کی میزان پر رکھ کر تولتے ہیں جب وہ جرأت، انشاء اور مومن کے کلام کامطالعہ کرتے ہیں تو مومن کا کلام ان کے جمالیاتی معیار پر پورا اترتا ہے۔ ان کے خیال میں مومن کے یہاں اپنے مافی الضمیر کو بیان کرنے کا سلیقہ موجود ہے ۔ ان کا اسلوب ایسا شگفتہ ہے کہ نیاز کے دل میں اتر جاتا ہے ۔ جمالیاتی رجحان کے زیر اثر نیاز غزل میں حسن الفاظ پر خاص زور دیتے ہیں چونکہ الفاظ ہی جذبات و احساسات کے اظہار کا ذریعہ ہیں اس وجہ سے غزل جیسی رنگین اور شوخ صنفِ سخن میں قبیح او رمکروہ الفاظ کی کوئی جگہ نہیں۔ غیر شاعرانہ اور ناموزوں لفظیات غزل میں نقص پیدا کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار نیاز نے اپنی عملی تنقید میں کیا ہے۔‘‘
(اردو میں عملی تنقید کے مختلف پہلوئوں کا تنقیدی مطالعہ،ڈاکٹر زرینہ زریں ، صفحہ:۵۶، سال اشاعت ۲۰۱۷ء)
اس اقتباس کی روشنی میں اس بات کو بلا تامل کہہ سکتا ہوں کہ نیاز فتح پوری کا ادبی ذوق بہت نکھرا ہو ا ہے اردو زبان کے شعری سرمایے پر ان کی پکڑ زیادہ مضبوط ہے۔ نیاز ہمیشہ اساتذۂ فن کی زبان و بیان کی لغزشوں کی گرفت کرتے رہے ہیں۔ ان کا طریق کار یہ ہے کہ کسی استاد کا شعر نقل کرتے ہیں، ان کی خامیاں گناتے ہیں پھر اصلاح کرتے ہیں کہ اس شعر کو یوں نہ یوں ہونا چاہیے تھا۔ اردو میں جمالیاتی تنقید کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ روز اول سے ہماری تنقید جمالیاتی قدروں کو نظر انداز نہیں کیا ۔ جمالیاتی تنقید بھی تاثرات کو اہمیت دیتی ہے۔ جمالیاتی تنقید کا اصل مقصد اعلیٰ درجے کے شعرو ادب میں ضرور کوئی ایسی چیز ہوتی ہے جو قاری کو داد و تحسین پر مجبور کردیتی ہے۔ محمد حسین آزاد کی نثر اور غالب کے خطوط پڑھ کر ہم خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں۔ جمالیاتی نقاد کی ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے اور اسے بتانا پڑتا ہے کہ شعر میں حسن کس طرح پیدا ہوا، دلکشی کس راستے سے شعر میں داخل ہوئی ہے۔ شعرو ادب کو پرکھنے کے لئے اصول وضع کئے گئے ہیں۔ سرسید اور حالی اس کام میں پیش پیش تھے ۔ ان کا سارا زور ادب کی افادیت و مقصدیت پرتھا مگر اسی زمانے میںمولانا شبلی نعمانی اور محمد حسین آزاد بھی موجود تھے جو ادب میں حسن کا ری کے قدر شناس تھے۔ ان کے بعد مہدی افادی، نیاز فتح پوری ، عبدالرحمن بجنوری، محمد حسن عسکری، اثر لکھنوی، فراق گورکھ پوری جیسے اہل نظر نے شعر و ادب میں حسن کاری کی اہمیت کوواضح کیا ہے۔ اس طرح جمالیاتی تنقید کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ نیاز کے متعلق سید عبداللہ لکھتے ہیں۔ اقتباس دیکھیں:
’’نیاز اپنی تنقیدوں میں مختلف راستوں کی نشاندہی کے باوجود بالآخر اصل مرکز پر آکر دم لیتے ہیں یعنی لفظی صحت ، کلام کا ظاہری حسن اوربیان کی رِسائی، گویا حقائق و تجربات ان کی نظر میں ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘
شعر کی جمالیاتی قدروں کا اعتراف آج کی بات نہیں جب تنقید کا باضابطہ وجود نہیں ہوا تھا اس وقت بھی شعر پڑھنے یا سننے والے کو اس کا احساس ضرور تھا کہ شعر میں یقینا کوئی ایسی چیز ہوتی ہے جو دل پر جادو سا کردیتی ہے مگر اس جادو کا تجزیہ ممکن نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ اس لئے ناقدین بھی سرسری طور سے تعریفی کلمات اد ا کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ تنقید کا حق ادا ہوگیا۔ شعرو ادب میں دل کشی و رعنائی کا راز حسن ہے جو اس کے اندر موجود ہے ۔ یہ غور کرنا لازمی ہوجاتا ہے کہ حسن آخر ہے کیا۔ اس مسئلے پر صدیوں سے غور کیا جاتا رہا ہے یعنی حسن کی کوئی شکل نہیں اور اسے دیکھا نہیں جا سکتا، دیکھا نہیں جا سکتا تو اس کی تصویر کشی بھی ممکن نہیں ہے۔مرزا ہادی رسوا کی نفسیاتی تنقید کا جائزہ لیتے ہوئے زرینہ زرین صاحبہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔ اقتباس ملاحظہ کریں:
’’رسوا نے شاعرانہ صنعتوں کے اثرات کی توضیح علمِ نفسیات کی روشنی میں پیش کی ہے۔ ان کے نظریے کے مطابق صنائع کے استعمال میں جس قوت ذہنی کا استعمال ہوتا ہے وہ قوت سامعہ کے لیے باعثِ لذت ہوتی ہے ۔مثال کے طورپر نادر تشبیہیں ایک لطیف اور خوشگوار استعجاب عطا کرتی ہیں اور دل پذیری کے باعث ذہن کو خوابیدہ حالت سے نکال کر بیداری بخشتی ہیں۔ اس کے برعکس فرسودہ اور بے تاثیر تشبیہات انبساط عطا کرنے کے بجائے ذہن پر کوئی اثر نہیں چھوڑتیں۔
رسواؔ کے زمانے میں فرائڈ کے نظریات عام نہیں ہوئے تھے اور نہ اردو ادب اس سے واقف ہوپایا تھا چنانچہ ہندوستان میں فرائڈ کے نظریات و خیالات کی آمد سے قبل رسواؔ کو شعور کے ان غیر طبعی اجزا کی اہمیت کا پورا پورا احساس تھا۔ اس لئے وہ اپنے مراسلات میں ان حالات کا ذکر کرچکے تھے۔‘‘
(اردو میں عملی تنقید کے مختلف پہلوئوں کا تنقیدی مطالعہ، ڈاکٹر زرینہ زریں، ص:۷۷، سال اشاعت ۲۰۱۷ء)
نفسیاتی تنقید اردو میں زیادہ قابل قبول نہیں ہوسکی۔ نفسیاتی تنقید کے رو سے نقاد کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کون سے محرکات اور عوامل ہیں جن کی وجہ سے کوئی فنی تخلیق صورت پذیر ہوتی ہے۔ فن کار کے شخصی میلانات، نفسیاتی محرکات اور اس کے افتاد طبع، شخصیت کا تجزیہ آسان نہیں۔ نفسیاتی تجزیے کے لئے فن کار کے مفصل حالاتِ زندگی سے واقفیت ضروری ہوتی ہے جو علم ہمارے ذہن کے تہ خانوں میں گھس کر سراغ رسانی یا جاسوسی کاکام کرتا ہے اسے انسانی نفسیات کا علم کہتے ہیں۔ یہ علم ان باتو ں سے سروکار رکھتا ہے کہ انسان کس طرح سوچتا ہے کس طرح محسوس کرتا ہے اور کس موقعے پر اس کے کیا جذبات ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں۔ اس علم نے ہمیں بتایا کہ ہمارا ذہن ایک تہ خانے کے مانند ہے جس میں طرح طرح کا سامان محفوظ رہتا ہے ۔ فن کار کے نجی اور ذاتی حالات کی فراہمی کا مسئلہ مغرب میں اتنا دشوار نہیں جتنا کہ مشرق میں ہے۔ کیوں کہ مشرقی تہذیب کی رو سے کسی شخص کی خانگی زندگی کو منظر عام پر لانا ایک معیوب بات تصور کی جاتی ہے اور اس طرح فن کا ر کی زندگی کے بہت سے اہم گوشے ہماری نظروں سے پوشیدہ ہوجاتے ہیں اور اس صورت میں نفسیاتی تجزیے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
مرزا ہادی رسواؔ اردو ادب کا ایک ایسا درخشندہ ستارہ ہے، جنہوں نے اردو ادب کی بے لوث خدمت کی ہے۔ انہوں نے اردو ادب کوکئی کتابیں عطا کی ہیں۔ مرزا ہادی رسواؔ کا سب سے اہم کارنامہ اور اردو ادب کا اہم ناول جسے اردو ادب کا کوہ نور ہیرا کہاجاتا ہے وہ ناول ’’امرائو جان ‘‘ ہے ۔ مرزا ہادی رسواؔ دراصل میں وہ سائنس کے آدمی تھے اوران کا سبجیکٹ سائنس رہا ہے اور سائنسی علوم پر انہیں خوب مہارت حاصل تھی مگر زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو انہیں صرف ایک ادیب یا اردو کے بڑے ناول نگار کی حیثیت سے جانتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کسی بھی قلم کار کا جس ذریعہ سے بلندی اور سرفرازی حاصل ہوتی ہے اسی صنف کی وجہ سے وہ لازوال ہوتا ہے۔مرزا ہادی رسواؔ کے ساتھ بھی یہی معاملہ درپیش آیا ہے ۔انہوں نے کئی ناول لکھے مگر شہرت دوام انہیں ’’امرائو جان ‘‘ کی وجہ سے ہوئی۔ رسوا ؔنے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں اور جس ماحول میں زندگی بسر کی اس کا اثر پورے ناول کے پلاٹ پر چھایا ہوا ہے۔ مرزا رسواؔ نے اپنے اس ماحول کی عکاسی خوب صورت اور فنکارانہ چابکدستی سے پیش کیا ہے۔ ان کے تجربات و مشاہدات میں کافی وسعت پائی جاتی ہے ۔ مرزا ہادی رسواؔ معاشرتی، اقتصادی ، سماجی اور نفسیاتی ان تمام پہلوئوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ رسوا نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے ۔چونکہ مرزا رسواؔ سائنس سے جڑے ہوئے تھے اسی لئے وہ کسی بھی مسئلے کو سائنسی نقطہ نظر سے پرکھنے اور حل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔
’’میراجی کی عملی تنقید کا رجحان ہے کہ وہ الفاظ کی ترکیب و التزام اور احساسات و جذبات کے ذریعہ فن کار کے ذہن تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں ضرورت کے تحت وہ اپنی عملی تنقید میں تقابلی طریقۂ کار سے کام لیتے ہیں انہوں نے اپنی عملی تنقید میں موضوعات، مفہوم ، تشبیہات و استعارات، علامت، شاعر کے تصورات، احساسات اور اس کے ذہنی رویے کے ساتھ فن پارے کے محرکات اور اس کے پس منظر کو اجاگر کیا ہے۔‘‘
(اردو میں عملی تنقید کے مختلف پہلوئوں کا تنقیدی مطالعہ، ڈاکٹر زرینہ زریں، صفحہ:۱۷۲، سال اشاعت:۲۰۱۷ء)
مندرجہ بالا اقتباس کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ میرا جی کی عملی تنقید پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ نے بہت ہی اہم گوشوں کو اجاگر کیا ہے۔ میرا جی کی لطیف جمالیاتی تفہیم و لذت اندوزی کا ذکر کچھ اس طرح ہے کہ میرا جی اکثر اپنی تنقید میں یہی کرتے ہیں کہ فنی تخلیق سے محبت انہیں فن کا ر کا گرویدہ بنا دیتی ہے اور فن کارکی گرویدگی اس کی ہر تخلیق میں حسن تلاش کرلیتی ہے یہاں تک عیب حسن فن بن کر سامنے آتا ہے۔ اگر یہ بات کہی جائے تو عبث نہ ہوگی کہ میرا جی کی فطرت نے یہی نظرِ امتیاز بخشی اور یہی حسن شناس دل، یہ نظر اور لوگو ں کو بھی ملتا ہے لیکن میرا جی کی انفرادیت یہ ہے کہ جب وہ حسن کو بے نقاب کرتے ہیں اور وہ بے حجابی کی تڑپ دل میں محسوس کرتے ہیں تو ان کی یہ خواہش ہواکرتی ہے کہ یہی جلوہ دوسروں کو بھی اجاگر کریں اور یہی جلوہ دوسروں پر اجاگر کرنے کے تمنائی اور اس بے حجابی کی تڑپ دوسروں کے دل میں پیدا کرنے کے شیدائی ہیں اس لئے ان کی تنقید شاعروں کے دلوں میں یا ان کی پورے سرمایۂ شعرو سخن میں جو حسن کو دیکھا ہے اس حسن کے نور سے ہر دل کو معمور کرنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ میرا جی کی تنقید کا جائزہ لیتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تنقید میں جن جن چیزوں کو اپنا اصول بنایا ہے اس میں کسی منطق کو دخل نہیں۔
ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ کی دور بینی کی اچھی مثال ہے کہ انہوں نے میرا جی کی تنقیدی نظریات اور افعالیات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے میرا جی کی ذہنیت کو عمدہ طریقے سے اجاگر کیا ہے جو ہر کس و ناکس کی بات نہیں۔ ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ تشبیہ و استعارے کو شعر کے لئے ضروری خیال کرتی ہیں ان کی رائے ہے کہ تشبیہ و استعارے سے کلام میں جو وسعت اور زور پیدا ہوتا ہے وہ کسی اور طریقے سے پیدا نہیں ہو سکتا ۔
’’آل احمد سرور کی تنقیدیں قاری کو بظاہر بہت متاثر کرتی ہیں لیکن ایسے کسی فیصلے پر نہیں پہنچاتیں۔ چوں کہ آل احمد سرور تنقید میں قطعیت کو عیب سمجھتے ہیں اس لئے ان کے تمام تنقیدی فیصلے بڑے لچک دار اور متنوع ہیں۔ اقبال کی شاعری پر جب اعتراضات کا آغاز ہوا تو آل احمد سرور اقبال کے سب سے پر جوش مداح رہے لیکن جب ادب لطیف کی تحریک نے نوجوانوں کو متاثر کرنا شروع کیا تو آل احمد سرور کا قبلہ بھی بدل گیا۔‘‘
اردو میں عملی تنقید کے مختلف پہلوئوں کا تنقیدی مطالعہ، ڈاکٹر زرینہ زریں، صفحہ ۱۷۶-۱۷۵، سال اشاعت:۲۰۱۷ء)
محولہ اقتباس سے بات واضح ہوتی ہے کہ آل احمد سرور کے یہاں تنقید کے مختلف جہات ہیں جیسا کہ آل احمد سرور کے یہاں مختلف نظریات مختلف رجحانات اور مختلف تحریکات کے افراد ان کے تنقیدی و تخلیقی کارناموں سے واضح ہوتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ سرور کسی نظریہ کسی تحریک یا رجحان کے قائل نہیں رہے وقت کے ساتھ ساتھ ان کے خیالات ترمیم ہوتے رہے گویا آل احمد سرور کی تنقیدیں قاری کو بظاہر بہت متاثر کرتی ہیں لیکن ایسے کسی فیصلے پر نہیں پہنچاتیں، چوں کہ آل احمد سرور تنقید میں قطعیت کو عیب سمجھتے ہیں اس لئے ان کے تمام تنقیدی فیصلے بڑے لچکدار اور متنوع ہیں۔
اقبال کی شاعری پر جب اعتراضات کا آغاز ہو اتو آل احمد سرور اقبال کے سب سے پرجوش مداح رہے لیکن جب ادب لطیف کی تحریک نے نوجوانوں کو متاثر کرنا شروع کیا تو آل احمد سرور کا قبلہ بھی بدل گیا۔ آل احمد سرور کی تنقید کا ایک خاص وصف ان کا عمدہ اسلوب ہے جس میں سادگی بھی ہے اور رعنائی بھی۔ ان کی تنقید اپنی ذمہ داریوں کو فراموش کئے بغیر تخلیق کے دائرے میں داخل ہوجاتی ہے جس سے تنقیدی بصیرت بھی حاصل ہوتی ہے اور ایک طرح کا ذہنی انبساط بھی ۔ اردو تنقید میں آل احمد سرور کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ ان کے ہاں مختلف رجحانات مختلف نظریات اور مختلف موضوعات پر اچھا خاصا مواد مل جاتا ہے۔ آل احمد سرور نے اپنی تنقید نہ کسی ایک صنف سخن تک محدود رکھی ہے اور نہ کسی ایک شخصیت یا ایک عہد کی ترجمانی کی ہے بلکہ ہر صنف ادب پر، ہر اہم مصنف پر ہر اہم تحریک پر اور اہم تنقیدی نظریے پر بہت کچھ لکھا ہے اور یہ سب کچھ اہم ادبی کارنامے ہیں۔بہرکیف ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ نے آل احمد سرور کی تنقیدی گتھیوں کو کھولا ہے کہ ان کے تنقیدی کارنامے ہماری آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگتے ہیں اور سرور صاحب کے تمام رموز و افکار ہم پر مثل آئینہ کھولنے لگتے ہیں۔
’’ایک چادر میلی سی ‘‘ میں رانوں کے تصور میں مثبت اورمنفی دونوں پہلو ہیں۔ ناول کی ساری فضا خون سے لت پت اور تشدد کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے جس کا تعلق واضح طورپر شکتی پوجا، تانترک عقائد ، خون کی قربانی اور قتل کی روایت سے ناول کے آغاز ہی سے اس کا اشارہ مل جاتا ہے۔
’’آج سورج کی ٹکیا بہت لال تھی… آج آسمان کے کوٹلے میں کسی بے گناہ کا قتل ہوگیا تھا۔‘‘
(اردو میں عملی تنقید کے مختلف پہلوئوں کا تنقیدی مطالعہ، ڈاکٹر زرینہ زریں، صفحہ:۲۱۵، سال اشاعت:۲۰۱۷ء)
منقولہ اقتباس کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اکیسویں صدی کی زمین پر جب ہم کھڑے ہوکر جب ہم بیسویں صدی کے ادب کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم پر یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ اس عہد میں بہت کچھ ایسا ہو رہا تھا جو نازیبا تھا، عورت کے متعلق اس کے حالات اس کے مخالف تھے۔ دبے کچلے ایسے حالات جسے ہم پیچھے چھوڑ آئے ہیں، چھوڑ آنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ ہم سب کچھ فراموش کرچکے ہیں ادب فراموشی کا ملال اپنے اندر کبھی اترنے نہیں دیتا کیوں کہ قلم کار تو گزر جاتا ہے مگر اس کی تحریریں وقت کی کشکول میں پڑی رہتی ہیں اور اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہیں جیسا کہ راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں اور ان کے ناولٹ ’’ایک چادر میلی سی ‘‘ کا جب جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو نسائی ادب کے حوالے سے احتجاج ان کی تحریروں سے اجاگر ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ ۱۹۳۰ء کے بعد فکشن کی دنیا میں بالخصوص فکشن کی دنیا میں ہلچل سی مچی ہوئی تھی فکشن کے موضوعات ایک خاص رخ پر جا رہے تھے نسائی کرداروں پر توجہ دی جا رہی تھی۔ مختصر یہ کہ جب ہم راجندر سنگھ بیدی کے افسانے یا ناولٹ پر جب غوروفکر کرتے ہیں تو ہمیں ان میں انسان کی جیتی جاگتی زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔ جب ہم ’’ایک چادر میلی سی ‘‘ کے متعلق باتیں کرتے ہیں تو چنانچہ اس میں رانو کا جو کردار ہے وہ ایک روایتی ہندوستانی عورت کی تصویر ابھارتا ہے ایسی تصویر جس میں ممتا، شوہر پرستی، احساس شوہر پرستی اور قربانی کا جذبہ ہوتا ہے جو اپنے آدرشوں کے لئے پل پل جیتی اور پل پل مرتی ہے۔ ان باتوں سے بیدی کے نسائی کرداروں میں ایک دبی کچلی عورت کا بیدم احساس قاری کے ذہن کی جانب کھینچتا ہے ۔یہ احساس نہ تو آتش فشاں ہے جو زمین کا دامن چاک کرکے اس میں حرارت بھردے اور نہ ایسی برق ہے کہ سیاہ بادلوں میں برق بھر دے بلکہ ’’ایک چادر میلی سی ‘‘ میں جو عورت سراپا احتجاج ہے وہ اس گرم لاوے کی طرح ہے جو نہ پوری طرح سے پکا ہے اورنہ ہی پھٹا ہے چنانچہ یہ موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے، بلکہ اس گرم لاوے میں اٹھتے چھوٹتے اس بلبلے کی مانند ہے جو دیکھنے اور پڑھنے والے کو یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ دیکھو ہم میں بھی دم ہے ہم بھی احتجاج کرسکتے ہیں ہمیں بھی آواز اٹھانا آتا ہے مگر پھر بھی ہم خاموش رہتے ہیں۔
ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ نے راجندر سنگھ بیدی کی عملی تنقید کا جائزہ لیتے ہوئے بڑی خوش اسلوبی اور بے باکی اور ہونہاری کے ساتھ راجندر سنگھ بیدی کے متعلق ایسے نکتے کو اٹھایا ہے جو لوگوں کے سامنے رہتے ہوئے بھی لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہا ہے لیکن ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ کی دور اندیشی ہے کہ انہوں نے بڑے سیدھے سادے انداز میں راجندر سنگھ بیدی کی چیزوں کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی بہت سی پردۂ خفا میں پڑی چیزوں کو ہم سے روشنا س کرایا۔
’’یوسف خان کمبل پوش کے سفرنامے میں تاریخی حالات کا ذکر موجود ہے ۔ قدسیہؔ قریشی نے اپنے تنقیدی تجزیے میں سفر کے اغراض و مقاصد کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کا بھی جائزہ لیا ہے ۔ ان کے پیش نظر یہ بات بھی ہے کہ سفر نامہ معلوماتی ہے یا نہیں۔ انہوں نے اس سفر نامے کا لسانی مطالعہ بھی پیش کیا ہے۔‘‘
(اردو میں عملی تنقید کے مختلف پہلوئوں کا تنقیدی مطالعہ،ڈاکٹر زرینہ زریں، صفحہ:۲۵۲، سال اشاعت:۲۰۱۷ء)
درج بالا اقتباس سے یہ بات صاف ہوتی ہے کہ سفر نامے کا شمار ادب کی بیانیہ اصناف میں ہوتا ہے اس صنف میں مشاہدے کا عمل دخل زیادہ اور تخلیق کا عنصر بے حد کم ہوتا ہے۔ سفرنامہ چونکہ چشم دید واقعات و حالات کا بیانیہ ہوتا ہے اس لئے سفر اس کی اساس شرط ہے۔ بادی النظر میں سفر کے ساتھ انجان دیشوں کی سیر نئی فضائوں سے واقفیت اور انوکھے مناظر کے مشاہدے کا تصور وابستہ ہے اس لئے سفر میں تحیر کا عنصر فطری طورپر پر شامل نظر آتا ہے اور یہ انسان کو آمادۂ سفر ہونے پر اکساتا رہتا ہے۔
سفر نامہ تاریخ جغرافیہ کے علمی مقاصد کی تکمیل کے لئے میکانکی انداز میں کوائف جمع نہیں کرتا بلکہ ایک مربوط، دلچسپ اور خوش گوار بیانیہ مرتب کرنے کے لئے ان سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ سفر نامہ اپنے عہد کو زندہ حالت میں دیکھتا ہے اور زندگی کے اس مشاہدے کو سفر نامے میں یوں منتقل کردیتا ہے کہ آنے والا زمانہ اسی دور کی روح کا متحرک محسوس کرسکے اور اس میں پوری کامیابی اس وقت ہوتی ہے جب سفر نامہ نگار ادب کے تخلیقی اور فنی تقاضوں سے واقف ہو اور مشاہدے کو تخلیق میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
سفر نامے کے اس فنی جائزے کے بعد اس بات کاا ظہار ضروری ہے کہ اردو ادب میں اس صنف ادب کو تقریباً پونے دو سو سال گزر چکے ہیں لیکن تاحال اس کی فنی حدود متعین نہیں ہوئی ہیں۔ اردو کا پہلا سفر نامہ ’’یوسف خان کمبل پوش نے رقم کیا۔ یوسف خان فطرتاً سیاح تھا اس کا سفر انگلستان درحقیقت اس کے اپنے من کی ترنگ کا نتیجہ تھا اس نے ’’عجائبات فرنگ‘‘ میں وہ بہجت آفریں کیفیت پیدا کی ہے جو ماحول پر بحث نظر ڈالنے سے خود بخود تخلیق کی سرحد میں شامل ہوجاتی ہے۔ اس سفر نامے کی خاطر خواہ کامیابی کے باوجود حیرت کی بات یہ ہے کہ اس صنف ادب کو عرصے تک نظر انداز کیاجاتا رہا۔ گزشتہ چند سالوں میں اردو کے بعض زیرک ادیبوں نے بالخصوص چند سیاحوں نے بالعموم اس صنف میں کارہائے نمایاں سرا نجام دیے تو یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کی گئی کہ انشائیے کی طرح سفر نامہ کو بھی پہلی مرتبہ اردو ادب میں متعارِف کرایا گیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جب نظم، غزل، افسانہ، انشائیہ غرض کہ کچھ بھی نہیں تھا تو سفر نامہ ظہور میں آیا اور پہلا سیاح آدم تھا۔
’’صابرہ سعید نے خاکہ نگاری کے فن میں شخصیت کی شکل و شباہت، سیرت، اندازِ فکر اور ان کے کارناموں کی تلاش کی ہے ،خاکہ نگاری کے فن میں خاکہ نگار کی فکری اور فنی خوبیاں، زبان و بیان پر گرفت، شوخی اور ظرافت کی چاشنی کے ساتھ ساتھ مزاح کا عنصر بھی تلاش کیا ہے ،لہٰذا مصنفہ کے مطابق ایک خاکہ میںمذکورہ خوبیوں کا ہونا ضروری ہے جس کے باعث خاکہ میں مصوّری اور ڈراما نگاری پید ا ہوجاتی ہے۔‘‘
(اردو میں عملی تنقید کے مختلف پہلوئوں کا تنقیدی مطالعہ، ڈاکٹر زرینہ زریں، صفحہ:۲۵۶، سال اشاعت:۲۰۱۷ء)
منقولہ اقتباس سے یہ باتیں واضح ہوتی ہیں کہ خاکہ نگاری کا فن اردو ادب میں دورِجدید کی پیداوار ہے ۔ اس صنف کو سوانح نگاری سے قریب تر قرار دیا جا سکتا ہے اور سوانح نگار کے لئے بصارت ہی کافی ہے۔ خاکہ نگاری کے لئے بصیرت شرط اولین ہے۔ ایک باریک بین اور حسن شناس نظر اور سماجی زندگی کا گہرا مطالعہ خاکہ نگار کے لئے ضروری ہے ۔ سوانح نگار صرف حقائق جمع کرتا ہے وہ شاید محقق ہو، اس کے لئے انشاپرداز ہونا لازم نہیں ، لیکن خاکہ نگار بیک وقت عاشق بھی ہوتا ہے اور عارف بھی وہ ایک چھوٹے سے چھوٹے واقعہ کو اپنی نگاہ گوہرِ شناس کے ذریعہ کسی شخص کی سیرت کے بہت بڑے پہلو کی صورت میں پیش کرتا ہے اس کے لئے شاید محقق سے بھی زیادہ انشاء پرداز ہونا ضروری ہے ۔ خاکہ نہ کسی کو آزردہ کرنے کے لئے لکھے جاتے ہیں نہ خوش کرنے کے لئے، بلکہ خاکہ نگاری وہ صنف ادب ہے جس میں شخصیت کی جیتی جاگتی تصویریں ابھر کر سامنے آجائے اور ہر تصویر میں روشنی اور سایے کے دل نواز امتزاج برقرار رہے۔ خاکہ نگار کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنے کردار سے وابستگی اور بے تعلقی دونوں ضروری ہیں۔ خاکہ نگار کسی شخصیت کے روز و شب سے جتنا زیادہ وہ قریب ہوگا وہ اپنے خاکہ کو اتنا ہی بھرپور، منفرد اور مکمل بنا سکے گا۔
’’شمس الرحمن فاروقی کانام بھی نئی تنقید کی دنیا میں گوپی چند نارنگ کی طرح اولین صف میں ہے ۔ ان کا مطالعہ نہایت وسیع ہے اور مغربی ادب و تنقید پر ان کی نگاہ بڑی گہری ہے ان کی تنقید میں ایک طرح کا منطقی استدلال موجود ہے۔ ادب کی تفہیم، تفسیر،تعبیر و تشریح میں انہوں نے اسلوبیات ، لسانیات اور صوتیات کو خاص اہمیت دی ہے۔ فاروقی ، نئی تنقید کے معماروں یعنی کالرج، رچرڈز اور ایلیٹ سے بے حد متاثر ہیں۔ فاروقی کا نظریۂ انہیں ناقدین سے مستعار ہے مگر انہوں نے صحت مند طریقے سے ان نظریات کو اپنی عملی تنقید میں استعمال کیا ہے۔‘‘
( اردو میں عملی تنقید کے مختلف پہلوئوں کا تنقیدی مطالعہ، ڈاکٹر زرینہ زریں، صفحہ:۳۲۴، سال اشاعت:۲۰۱۷ء)
مذکورہ اقتباس کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ادبی تنقید سے قریب ہونے کے لیے جن بنیادی خصوصیات اور صفات کی ضرورت پڑتی ہے فاروقی کو گویا وراثت میں ملی تھی۔ ادبی نقاد کا علم دوست ہوئے بغیر تنقید کے میدان میں قدم رکھنا بہت دشوار کام ہے۔ انسانی ہمدردی وہ دوسرا وصف ہے جو کسی نقاد کو انسانی جذبات و احساسات، رنج و غم ، خوشی و راحت کے لمحات کو سمجھنے اور ان کا تجزیہ کرنے کی قوت بخشتا ہے۔ اچھا انسان کسی طرح کے تذبذب کا شکار نہیں ہوتا یعنی ہر طرح کی انتہا پسندی کا شکار ہونے سے یہ وصف انسان کو روکتا ہے ۔ ایسا شخص اپنا توازن نہیں کھوتا بلکہ اعتدال کا رویہ اپناتا چلاجاتا ہے۔
اچھے اور بڑے ناقد کے لئے ادبی دیانت داری بے حد ضروری ہے اس لئے کہ ایمان داری کے بغیر تنقید یا تو کسی کی بے جا تعریف بن جائے گی یا بے جا تنقیص۔ فاروقی کی شخصیت کا دوسرا امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ استدلال اور وضاحت کو قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
فاروقی بے شمار مغربی مفکرین جیسے افلاطون، کانٹ، رسل، ایڈیسن، کولرج اور مشرقی مفکرین وغیرہ کے حوالوں سے بلاغت ایجاز، لفظ کی جدلیات، ابہام وغیرہ سے بحث کرتے ہوئے فاروقی اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جس تحریر میںموزونیت اور اجمال کے ساتھ ساتھ جدلیاتی لفظ یا ابہام ہوگا وہی شاعری ہوگی ۔ فاروقی کا انداز استدلالی ہے۔ وہ اپنی دلیلوں سے مضبوط بناتے ہیں اور اس رائے کے خلاف جتنی باتیں کہی جا سکتی ہیں وہ خود ایک ایک کرکے پیش کرتے ہیں اور پھر انہی دلیلوں سے رد کرتے ہیں، گویا کہ قاری کو قائل ہونا پڑتا ہے۔
ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ ادباء و شعراء کی ادبی نگارشات پر تنقیدی و تحقیقی مضامین لکھنے کے علاوہ دیگر عنوانات پر بہت سے تنقیدی مضامین لکھی ہیں جس سے ان کے تنقیدی تصور، تنقیدی افکار، تنقیدی شعور اور تنقیدی بصیرت سے آگاہی ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے کاموں کو خوب سراہا جاتا رہا ہے۔ ان کی تنقیدی و تحقیقی کتابوں میں جن کانام نہایت ہی منفرد ہے۔ ان کتابوں میں ’’حلقۂ ارباب ذوق اور اردو نظم ‘‘ اور ’’اردو میں عملی تنقید کے مختلف پہلوئوں کا تنقیدی مطالعہ‘‘ نمایاں ہے جن کی ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی ہوئی ہے۔ اردو ادب میں تنقیدی جانب داری کی جو روایت رہی ہے ڈاکٹر زرینہ زریں صاحبہ نے اس پر کافی ضرب لگائی ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ جب تک ہم جانب داری سے باز نہیں آئیں گے اس وقت تک ہم فن پاروں کے ساتھ انصاف نہیں کرپائیں گے۔ اس ضمن میںاردو میں عملی تنقید کے مختلف پہلوئوں کا تنقیدی مطالعہ‘‘ اس کتاب میں شامل باب ایسے بہت سے گوشوں پر روشنی ڈالتے ہیں جو ادب میں سمِ قاتل کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اکثر اپنے مقالوں میں اس طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے کہ کون سا طریقۂ کار اپنایا جائے کہ زبان و بیان پر ہمیں قدرت حاصل ہوجائے اور شاعری زبان و بیان کی غلطیوں سے بچ جائے ۔ شاعری اور دوسرے تخلیقی مظاہرمیں فن کار یا ادیب اپنے احساس و ادراک کائنات کا مشاہدہ و مطالعہ کرتا ہے وہ کیا کرتا ہے اور کیا سوچتا ہے گرچہ یہ دو مختلف عمل ہے مگر ان میں توازن کی کارفرمائی نظر آتی ہے دوسرے یہ کہ تخلیقی عمل نقد و تخلیق دونوں الگ الگ چیز ہے یہاں بھی احساس اورذوق کی کارفرمائیوں کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے گویہ کہ تحقیق کے زیر اثر ان کی تنقید پروان چڑھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تنقیدی کارنامے انہیں بلند مرتبہ دلانے میں معاون ومددگار ہیں دراصل وہ کلاسیکی لسانیات بالخصوص لفظیات پر غیرمعمولی قدرت رکھتی ہیں جس کی بیشتر مثالیں ان کی تحقیقی و تنقیدی کتابوں میں واضح طورپر نمایاں ہیں ۔ مختصر یہ کہ میں اپنی فہم کی بنیاد پر بلا تامل کہہ سکتا ہوں کہ ان کے تنقیدی نظریات مشرقی شعریات سے اٹھتے ہیں اور شبلی اور نیاز فتح پوری کی روایت کو توسیع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ تنقیدی میدان میں شبلی اور نیاز فتح پوری سے متاثر ہیں جس کا اثر ان کی تنقیدی نگارشات میں واضح طورپر عیاں ہے۔
٭٭٭
Dr. Shafiur Rahman
Deptt. of Urdu,
Matiaburj College
R-55, Garden Reach Road, Kolkata – 700024
West Bengal
Mobile: 9831245920
Email: shafiurrahman04@gmail.com
Leave a Reply
Be the First to Comment!