اردو کے فروغ میں سید سلیمان ندوی کا حصہ
اردو کے فروغ میں سید سلیمان ندوی کا حصہ
بر صغیر خصوصاہند و پاک میں سید سلیمان ندوی کا شمار ان عظیم علمی شخصیتوںمیںہوتاہے جنھوں نے آزادیٔ ہند سے قبل حصول آزادی کے لئے کی جانے والی کوششوں میںبڑی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور اپنی علمی و ادبی کاوشوں سے عوام کو حب الوطنی ، صداقت واستقامت کی طرف گامزن کیا۔آپ جتنا مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا محمد علی جوہر سے وابستہ رہے اتنا ہی موتی لال اور جواہر لال نہرو سے بھی قریب رہے۔علامہ سلیمان ندوی کا دور اس ملک کا بہت اہم دور تھا۔ اس وقت ملک میںتحریک آزادی اپنے شباب پر تھی۔ اس کی قیادت ہندو اور مسلم دونوں فرقوں کی رہنما کر رہے تھے۔ اس تحریک آزادی کو قوت دینے کے لئے اگر ا یک طرف خطابت کی ضرورت تھی تو دوسری طرف صحافت کی ۔ چنانچہ اس وقت کے ماہرین ادب و زبان نے اس ضرورت کو محسوس کر تے ہوئے اپنے فریضہ کو بحسن وخوبی انجام دیا۔
سید سلیمان ندوی کی ولادت صوبہ بہار کے ایک گاؤںدسنہ میں22نومبر 1988کو ہوئی۔آپ کے مورث اعلي شہاب الدین غوری کے ہمراہ مشہد مقدس سے ہندوستان تشریف لائے۔ ان کا خاندان زندگی کے مختلف نشیب وفراز سے ہمکنار رہا۔تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ ان کے خاندان نے کئی پشتوں کے بعدطبابت کے پیشہ کو اختیار کیا اور بعد میںجب مغل بادشاہ سے اس خاندان کو جاگیر مل گئی تو وہی جاگیر ان کے خاندان کا ذریعہ معاش بنی۔اور آہستہ آہستہ اس خاندان نےعلم کی ایسی جوت جلائی کہ اس سرزمین سے مشہورماہرین علوم پیدا ہوئے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے کہ آپ کا خانوادہ تعلیم وتعلم سے مزین تھا۔ اعلی تعلیم کےحصول کے لیے ندوۃ العلما لکھنؤ گئے جہاں شبلی نعمانی اور ديکر لائق وفائق اساتذہ کی صحبت نے ان کی شخصیت میں نکھار پیدا کیا۔ سید صاحب کو لکھنے لکھانے کا شوق اوائل عمر سے ہی تھا۔بعض روایتوں میں آتاہے کہ انھوں نے ندوہ آنے سے قبل ہی وہ مضمون نگاری شروع کردی تھی۔ اپریل ۱۹۰۶ء میں رسالہ ’’الندوۃ‘‘ کے نائب مدیر ہوئے اور مضمون نگاری کے ساتھ ساتھ رسالہ کی کتابت و طباعت کی نگرانی بھی کرنے لگے۔ ہر ماہ علمی خبریں دینا سید صاحب کا ایک کالم بن گیا۔ الندوہ کی ادارت کی تحریروں میں علامہ شبلی کا رنگ و آہنگ نظر آتاہے۔اس لیے یہ کہان بجا ہےکہ ان کی فکر وتحریر میں بالیدگی شبلی نعمانی کے زیر تربیت ہی پروان چڑھی۔ انھوں نے اساتذہ کی رہمنائی میں سیاسی، تہذیبی اور ادبی مسائل کو دیکھا اور سمجھا تھا اس لیے ان کی تحریروں میں انجماد کے بجائے حرکت، تجسس اور فکروآگہی نظر آتی ہے۔ یہی وجہ کہ دار المصنفین سے براہ راست وابستگی کے بعد آپ نے شبلی نعمانی کے افکارکو تابندگی عطاکرتے ہوئےتاریخ و ادب کے موضوعات پر اچھے لٹریچرکا ذخیرہ تیار کیاکردیا۔شمیم احمد لکھتے ہیں:
” ان کے موضوعات بیسویںصدی کے ان ہی ابتدائی قومی، ملی، سیاسی، تہذیبی، ادبی اور معاشرتی تقاضوں سے پیدا ہوئے تھے جو اقبال ، حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر، ظفر علی خان اور ابوالکلام آزاد کے تشخص کا باعث تھے۔ مگر مولانا کے یہاں وہ علمی اور ادبی اعتبارات حاصل کرلیتے ہیں۔1
سید سلیمان ندویؒ کی تحریر وتصنیف کا اصل موضوع تاریخ و ادب اور اسلامیات ہے۔ ان موضوعات پر ان کے قلم سےجو تحریریں وجود میں میں آئیں ان میں ’’سیرت النبیؐ‘‘، ’’تاریخ ارض القرآن‘‘، ’’سیرت عائشہؓ‘‘، ’’حیات امام مالکؒ‘‘ اور ’’عرب و ہند کے تعلقات‘‘ وغیرہ اہم ہیں۔ سید صباح الدین عبد الرحمٰن لکھتے ہیں:
’’یہ موقع تو نہیں کہ اس دعویٰ کو ثابت کیا جائے کہ وہ علامہ شبلی کے بعد کس طرح سب سے اچھے ماہر قرآنیات، ماہر علم کلام، سیرت نگار اور مؤرخ تھے؛ مگر یہاں پر ان کی انشاء پردازی سے متعلق کچھ باتیں عرض کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ اس سلسلے میں ان کا یہ جوہر ان کی مشہور تصنیف ’’سیرۃ النبی ﷺ‘‘ میں کیسے چمکتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی طرف خاص توجہ دلانی ہے۔ جس کسی کو ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا اس نے ان کو طہارت، شرافت، تمکنت، عظمت، سنجیدگی، ادب، وقار کا پیکر پایا۔ ان ہی اوصاف کی بوقلمونی ان کی تحریروں اور کتابوں میں نظر آئے گی۔ ان کی تصنیف ’’ارض القرآن‘‘ میں سنجیدگی ان کے قلم کو چومتی نظر آئے گی۔ ان کی کتاب ’’سیرت عائشہؓ‘‘ میں ادب واحترام نچھاور ہوتا دکھائی دے گا۔ ان کی ’’عرب وہند کے تعلقات ‘‘ اور ’’خیام‘‘ میں تمکنت ان کے قلم سے ہم آغوش دکھائی دے گی اور پھر ان کی شہرہ آفاق تصنیف ’’سیرۃ النبیﷺ‘‘ میں عظمت اور وقار ہر سطر میں سرتسلیم کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ وہ اپنی ان ہی خصوصیات کی بنا پر کبھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پاک کا جلال، کبھی اس کی صفات کاملہ کا جمال، کبھی اس کے مرغ وماہی اور کبھی ان کی مجبور ومحکم دنیا میں اس کی بادشاہی دکھاتے رہے۔ کبھی رسول اللہ ﷺ کی سیرت مقدسہ کے گلشن میں نسیم نو بہار بن کر گل وسرد وصنوبر سمٹتے رہے، کبھی تفسیر کے دریا میں مثل موج ابھر کر، کبھی حدیث کے دریا کے ساحل سے گذرکر، کبھی تاریخ کے دریا کے سینے میں اترکر، کبھی ملی سیاست کے جذبات کا تلاطم ابھار کر، کبھی اپنے محبوب کی موت پر آنسوؤں کا سیلاب بہاکر اور کبھی انداز بیان کے کوثر وتسنیم کو رواں کرکے اپنے علم وقلم کے مقام کو خود فاش کرتے رہے۔2
مذکورہ اقتباس پر غور کریں تو اندازہ ہوتاہے کہ مولانا سید سلیمان ندوی آج کے دور کے نرے مولوی نہیں تھے بلکہ ان کی تربیت ایسے اساتذہ کے زیر سایہ ہوئی تھی جو ملک اور قوم کو کے زوال و انحطاط سے بخوبی واقف تھے اور ہمیشہ اس بات کے کوشاں رہتے تھے کہ قوم میں وہ اسلامی روح کس طرح بیدار کیا جائے جس کا خواب سرسید، شبلی اور حالی نے دیکھی تھی۔اس لیے مولانا نے اسلامی ادب کا وہ ذخیرہ تیار کیا جس سے عوام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت، صحابیات کے اخلاق حسنہ اور صحابیوں کی عظیمت کی روح پھر سے مسلمانوں میں بیدار ہوسکے۔اس لیے یہ کہناکہ سید سلیمان ندویؒ کی شخصیت ایسی تھی جو صدیوں میں جنم لیتی ہے۔خصوصاً سیرت نگاری کےفن میں آپ ایک نئے انداز اور نئےاسلوب کے موجد ہیں۔ آپ کی مشہور زمانہ تصنیف ’’سیرۃ النبیﷺ‘‘ کی تحریر سے قبل سیرت کے موضوع پر جتنی بھی کتابیں قلم بند کی گئیں، ان میں صرف آں حضرت ﷺ کے حالات زندگی سے بحث کی گئی ہے۔ صرف وہی چیزیں ان میں درج ہیں جن کا تعلق آپ ﷺ کے افعال واعمال سے ہیں، لیکن ’’سیرۃ النبیﷺ‘‘ کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں صرف آپ ﷺ کی سیرت ہی نہیں بیان کی گئی ہے، بلکہ آپ کے اقوال وتعلیمات، عقائد وعبادات اور اخلاق ومعاملات کو بہترین اسلوب میں بیان کیا ہے۔ گویا کہ وہ کتاب صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہی نہیں بلکہ شریعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آئینہ ہے۔
یہاں ایک بات اور قابل ذکر ہے کہ سید سلیمان ندویؒ کے علم وفن کا مطالعہ کرتے ہوئے رنگا رنگی کا مظاہر ہوتاہے اس کی مثال کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہ صرف ایک عالم دین نہیں تھے، بلکہ سیرت نگار، مفسر ، محدث ، ادیب ، شاعر، نقاد اور مؤرخ بھی تھے۔وہ جب کسی موضوع پر قلم اٹھاتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ وہ اس عالم رنگ وبو سے ہٹ کر کسی اور عالم میں پہنچ گئے ہیں۔ جہاں ہر طرف صرف تلاش وتجسس، تحقیق وتدقیق اور محنت وریاضت ہی کی نیرنگیاں کار فرماہیں اور ان ہی کی بہار آفریں قوس وقزح میںگم ہوکر اپنی تحریر کو قلم بند فرمارہے ہیں۔ ان کی ہر تصنیف اور ان کا ہر مقالہ اس کی کھلی شہادت ہے۔ ان کا سنجیدہ اور تحقیقاتی رنگ ان کا اصلی اسلوب بیان ہے، جس سے اردو زبان کو بڑا وزن اور وقار حاصل ہوا۔ ان کے ادبی مضامین کا مجموعہ ’’نقوش سلیمانی‘‘ ہے جو بہت مقبول ہوا۔ ان کی کتاب ’’خیام‘‘ ان کی ادبی تحقیقات کا ایک شاہکار ہے۔ اسی طرح ’’عرب وہند کے تعلقات‘‘ ان کی تاریخی تحقیقات کا ایک ایسا مایہ ناز سرمایہ ہے جس پر خود فن تحقیق کو ناز ہوسکتا ہے۔
ان کی تحریر اور طرزبیان سے معلوم ہوتاہے کہ ان کو جو مؤرخانہ فکر ونظر کا عطیہ قدرتی طورپر ملاتھا اس کی بدولت وہ جو بھی لکھتے اس میں مؤرخانہ تجسس کے ساتھ مؤرخانہ تجزیہ کا رنگ خود بخود پیدا ہوجاتاہے۔ یہی ان کی کتابوں اور تحریروں کی ایک امتیازی شان ہے۔ جوہر طبقے میں غور اور شوق سے پڑھی جانے کا باعث بنتی ہے۔ ان کے تاریخی مقالات میں بھی تنوع اور رنگا رنگی ہے۔ یہاں چند ان مقالات کا ذکر مناسب ہےجنھیں ہندوستان کی تاریخ کے کسی پہلو پر لکھا گیاہے۔
’ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے عہد میں ہندؤں کی تعلیمی اور علمی ترقی‘‘ان کا ایک اہم مضمون ہے۔ یہ مضمون ۱۹۱۸ء کے معارف میں ایک سال تک مسلسل شائع ہوتا رہا اور بہت شوق سے پڑھا گیا۔ان کے دیگر مشہور مقالات حسب ذیل ہیں:
(۱) خلافت اور ہندوستان (۲) ہندوستان میں اشاعت کیوں کر ہوئی
(۳) لاہور کا ایک فلکی آلات ساز (۴) تاج محل اور لال قلعہ کے معمار
(۵) قنوج (۶) ہندی الاصل اور ہندو النسل مسلمان سلاطین
(۷) سلطان ٹیپو کی چند باتیں
ان تمام مقالات میںمولانا نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ ان معاملات و واقعات کو عوام کے سامنے پیش کیا کہ عوام میں پھیلی بدگمانیاں اور اسباب وعلل واضح ہوگئے۔ان کے یہ مقالے جہاں تاریخی اور تحقیقی لحاظ سے بلند پایہ ہیں وہیں ادبی اور حقیقی حالات کے ترجمان بھی ہیں۔ادبی اور لسانی بلندی کے علاوہ اسلامی اقدار کی ترجمانی کا اندازہ علامہ اقبال کے اس قول سے لگایا جاسکتاہے۔ وہ لکھتے ہیں’’علوم اسلام کی جوئے شیر کا فرہاد آج ہندوستان میں سوائے سید سلیمان ندوی کے اور کون ہے‘‘۔ 3
یقیناتاریخ ایک ایسا موضوع ہے جس کی ادائیگی کے لئے ایسے اسلوب کو اختیار کرنا چاہئےجو سہل الفہم بھی ہو اور دل پسند بھی ہو اور اس کے ساتھ اگر ادب کا ذوق بھی شامل ہو جائے تو اس کی حیثیت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور وہ ایک خاص انداز کا صحافی اسلوب بن جاتا ہے۔مولانا سید سلیمان ندوی نے مختلف صلاحیتوں کے اظہار کے ساتھ بحیثیت صحافی بھی ایک اچھا ریکارڈ قائم کیا اور ان کی اس گراں قدر صلاحیت سے ملک کے باشندوں کو رہنمائی ملی اور ان کے جذبہ حریت کو مہمیز بھی ہوئی اور ایسی صحافت جو صرف جوش ہی پیدا نہ کرے اور صرف حوصلہ ہی نہ بڑھائے بلکہ ذہنوں کی صحیح آبیاری بھی کرے۔
ایسی قوم کے لئے جو غلامی کی صعوبتیں اور نقصانات جھیل کر آزادی کی نعمت کی دہلیز تک پہنچ چکی ہو، اس کو ایسی صحافت کی اشد ضرورت تھی۔ اس میں مسلمانوں کے حلقہ سے مولانا ابو ا لکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خاں خاص طور پر اور مولانا سید سلیمان ندوی اور ان کے فیض یافتہ رفقاء بھی بخوبی پیش کئے جا سکتے ہیں۔انھوں نے ایسی صحافت اختیار کی جو تعمیری تھی اور یہ عہد تعمیری صحافت اور تعمیر ی قیادت کا سب سے زیادہ ضرورت مند تھا۔ غالباً اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے آپ نے اس طرز صحافت کو اختیار کیا۔
صحافتی میدان میں آپ کے کارہائے نمایاںکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہےکہ آپ ایک عرصہ تک مولانا ابو ا لکلام آزاد کے ساتھ ان کے مشہور صحافتی خدمات ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ میں شریک ادارت بھی رہے۔بعض اہم اور اثر انگیز مضامین آپ کے قلم سے ایسے بھی نکلے جن کا اچھا شہرہ ہوا ، اس ضمن میں ’’مشہد اکبر‘‘ کا نام خاص طور پر لیا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ دار المصنفین[ شبلی اکیڈمی] کے رسالہ ’’معارف‘‘ کے چیف ایڈیٹر رہے اور ندوۃ العلما سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’’الندوۃ‘‘ کے ادارت تحریر کے سر پرست کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے۔ ان دونوں رسائل میں لکھےجانے والے اداریوںکے ذریعہ وقت اور ملک کی ضرورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے تعمیری مقاصد کی اچھی ترجمانی کی گئی۔
اداریوں کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتاہےکہ آپ کا اسلوب متوازن ا ور دلکش ہے؛جس میں علم و ادب کی باہم آمیزش بہت ہنر مندی سے کی گئی ہے۔ وہ علمی سطح پر ٹھوس، سنجیدہ اور علمی مواد کا سہارا لیتے اوربیان کی سطح پر سہل اور دل پسند انداز اپناتے ہیں۔ اسی دلکش اسلوب نے عہد کےنامور اہل علم کے دلوں میں ایک جگہ بنائی جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتاہے کہ وہ لہجہ اور طرز ادا ایک نمونہ بن گیا جسے متعدد شائقین نےاپنانے کی کوشش کی۔ گویا کہ ان کا طرز ادا اور طرز تحریر ایسا تھا کہ اس کا اسلوب ایک طرح سے اسکول بن گیا جس کو علم و ادب کی آمیزش کے ساتھ ساتھ مؤثر انداز میں حالات وضروریات کی ترجمانی کاایک انداز کہا جا سکتا ہے۔
مختصر طور پر اگر یہ کہا جائے تو مناسب ہے کہ سید سلیمان ندوی نرے مولوی نہیں ہیں بلکہ وہ ایک اچھے محقق، ایک ماہر صحافی اور دنیاوی سیاست سے واقف عالم ہیں۔انھیں ہربات کو سلیقے سے پیش کرنے کا وہ ہنر ملاہے جس کی بدولت اسلامی افکار کو ادبی انداز میں بیان کرنے پر قادر نظر آتے ہیں۔مولانا سید سلیمان ندویؒ کو بحیثیت صحافی خاص طور پر اس لئے بھی پیش کیا جا نا چاہئے کہ انھوں نے ایک صحافتی اسکول کی بنیاد ڈالی جس کی پیروی ان کے شاگردوں نے اور ان کے علمی خوشہ چینوں نے مدت تک کی ۔ مولانا سید سلیمان ندوی اس لحاظ سے بحیثیت صحافی ایک نمایاں مقام پر فائز نظر آتے ہیں۔انھوں نے جو اسکول قائم کیا اس کے خوشہ چینوں کی تحریروں اور صحافتی اداریوں میں اس کے نمونے دیکھے جا سکتے ہیں۔
حوالاجات:
1۔ اورنگ سلیماں، مرتبہ آفاق صدیقی،مجلس علوم اسلامیہ، بہار کالونی، کراچی، صفحہ 175 ، 1985
2۔ سید سلیمان ندوی، مرتبہ خلقی انجم، مطبوعہ انجمن ترقی اردو (ہند) 1986، صفحہ31-39،
3۔ اقبال نامہ، مکتوب مورخہ ۵ جولائی ۱۹۲۲) مطبوعہ مرکنٹائل پریش لاہور، سن اشاعات ندارد صفحہ 166
Dr. Latifur Rahman
Shaikh toli Chapra
Mob: 6299294792
Leave a Reply
Be the First to Comment!