ہندوستانی سنیما کے فروغ میں اردو زبان کا حصہ

ہندوستانی سنیما کے فروغ میں اردو زبان کا حصہ

ROLE OF URDU LANGUAGE IN PROMOTION OF INDIAN CINEMA

Introduction: The journey of interrelationship between Indian cinema and Urdu language started when the first talkie film in India hit the screen. Words of Urdu language have been used in movie, themes, dialogues and songs. Numerous poetry and ghazals written by Urdu poets have been used in films. Many films were also made on Urdu novels, stories, legends and plays. Urdu language has played an important role in the development of Indian cinema since its inception. Urdu poets have embellished the songs of the films with pearls of their precious words and these songs have been greatly appreciated and loved by every Indian irrespective of his religion. When the ghazals written by Urdu poets came to the fore through films, people loved them immensely. This topic has been chosen to review and study the unforgettable contribution of Urdu language literature, poets and writers to Indian films and to carry out further research. And this research will continue.

تعارف-

 ہندوستانی سنیما اور اردو زبان کے باہمی تعلق کا سفر اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب ہندوستان میں پہلی بولتی فلم عالم آرا پردہ پر رو نما ہوئی- اردو الفاظ کا استعمال فلموں کے موضوعات میں، مکالموں میں ، نغموں میں کیا جاتا رہا ہے۔اردو شعرا کی قلم سے لکھے ہوئے بے شمار نغمیں اور غزلیں فلموں میں استعمال کیے گئے ہیں۔اردو ادیبوں کی ناولوں، داستانوں ، افسانوں اور ڈراموں پر بھی بہت سی فلمیں بنائی گئیں۔ ہندوستانی سنیما کےدورِ آغاز سے  ہی اس کے فروغ میں اردو زبان کا اہم حصہ رہا ہے۔اردو شعرا نے فلموں کے نغموں کو اپنے قیمتی لفظوں کے موتیوں سے سجاکر فلموں میں چار چاند لگانے کا کام کیا ہے اور ان نغموں کو ہر ہندوستانی فرد چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو بہت سراہا اور پسند کیا ۔ اردو شعرا کی لکھی گئیں غزلیں جب فلموں کے ذریعےمنظرِ عام پر آئی تولوگوں نے اسے بے حد پسند کیا۔اردو زبان و ادب، شعرا اور ادیبوں کےہندوستانی فلموں کے لئے کبھی نہ بھولے جانے والے تعاون کا جائزہ لینے اور بغور مطالعہ کرکے مزید تحقیق کرنے کی غرض سے اس موضوع کا انتخاب کیا گیاہے۔اور یہ تحقیق آگے بھی جاری رہےگی۔

 14مارچ ، 1931 کو ہندوستان کی پہلی با قاعدہ بولتی فلم جسے ساؤنڈ فلم کہا جاتا ہے جس کا نام “آلم آرا ” تھا، ایمپیریل تھیٹر  سے ریلیز کی گئی تھی اور کہا جاتا ہے کہ 3 مئی 1931 اس کے لئے ایک یاد گار دن تھا کیونکہ اس دن ممبئی کے میجسٹک تھیٹر کے سامنے اس فلم کے دیکھنے والوں کا ہجوم کا ہجوم اکٹھا ہو گیا تھا۔ اس واقع سے یہ اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ سنیما شروع سے ہی لوگوں کے لئے تفریح کا پر اثر ذریعہ بن چکا تھا اور آج بھی سنیماکی دنیا کسی جادو نگری سے کم نہیں ہے جس نے سب کو مسحور کن کر رکھا ہے۔اوراس کی کامیابی میں لگاتار اضافہ ہی اضافہ ہوتا رہا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے۔نئی تکنیکیں اور نئی ایجادات کے ذریعے فلموں کو اور بھی زیادہ دلکش اور رنگین بنانے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہے جس میں عام فرد کی زندگی کی کشمکش ، جد و جہد،مسائل ،خوشیاں اور کامیابی کے علاوہ ملکی، معاشرتی، سیاسی اورمذہبی ہر موضوع کو اختیار کیا گیا ہے۔غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ہندوستانی سنیما نےآغاز سے اب تک کبھی اردو زبان کا دامن نہیں چھوڑا اور اردو زبان نے شروع سے اب تک فلموں میں اپنی اہمیت نہیں کھوئی اوراپنا تعاون برقرار رکھا۔جیسے یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔

” ہندوستانی فلم انڈسٹری کی پہلی بولتی ہوئی فلم “عالم آرا” 1931 میں بنی تھی۔

 عالم آ را کے ساتھ اردو جب ہندوستانی فلم انڈسٹری کے روپہلے پردے تک پہنچی ہے تو اس کے رنگ و روپ نے کیمرے کی آنکھوں کو اور بھی چکا چوند کر دیا۔ اس کی حسن پر فدا اور اس کے جادوئی اثر و کشش سے مدہوش ہوکر اندسٹری اس کے عشق میں پاگل ہوگئی۔

(ڈاکٹر امام اعظم۔ ہندوستانی فلمیں اور اردو، ص 43)

ہندوستانی سنیما میں اردو شعرا کا تعاون:

فلمی دنیا میں اردو شعرا جنھونے بطور نغمہ نگار اپنے نغمے کے ذریعےفلموں میں بے شمار تعاون کیا اور نا صرف ان کے نغموں کی وجہ سے فلموں نے بے حد کامیابی حاصل کی بلکہ ساتھ ہی اردو تہذیب کی نمائیندگی کا بھی کام کیا۔ ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی، جاں نثار اختر، مجروح سلطانپوری، شکیل بدایونی، آرزو لکھنوی۔فیض احمد فیض، جاوید اختر، ندا فاضلی اور کچھ ایسے بھی شاعر تھے جن کا تہذیبی پس منظر چاہے جو بھی رہا ہو لیکن انہوں نے فلمی دنیا مین نغمہ نگاری کے لیے اردو کی اہمیت کو واضح طور پر سمجھ لیا تھاجس کے لیے انھونے باقاعدہ اردو زبان کو سیکھ کر اس پہ عبور حاصل کیا اور اردو تہذیب سے واقفیت حاصل کرکے فلموں کے لیے نغمہ نگاری کی  جیسے آنند بخشی، شیلیندر، گلزار، یوگیش، راجندر کرشن، روپندر جین اورکیدار شرما ۔اردو شعرا نے اپنے بہترین نغموں اور غزلوں سے ہندوستانی سنیما کو افق کی اونچائیوں پرپہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایسے بے شمار نغمیں ہیں جو سالوں پہلے پردہ پر آئے لیکن آج بھی لوگ وہ نغمیں گنگناتے ہیں اور سننا پسند کرتے ہیں۔ بطور نمو نہ درجہ زیل غزلیں۔

1            حسرت موہانی:       چپکے چپکے رات دن— آ نسو بہانا یاد ہے۔۔۔۔     1

2            مرزا غالب:            دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے۔۔۔۔

3            شیلیندر:                  عجیب داستاں ہے یہ ۔۔۔          3

4        راجہ مہندی علی خان:           لگ جا گلے کہ پھر۔۔۔            4

5            ساحر لدھیانوی:      چھو لینے دو ناک ہو نٹوں کو۔۔۔۔

6            ساحر لدھیانوی :     ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی۔۔۔۔             6

7            کیفی اعظمی:                        تم اتنا جو مسکرا رہے ہو۔۔۔۔   7

8            جاں نثار اختر:        چوری چوری کوئی آ ئے۔۔۔۔۔  8

9            شکیل بدایونی:        بچپن کی محبت کو۔۔دل سے نہ جدا کرنا۔۔۔            9

10          مجروح سلطانپوری:              اے کاش کہ ہم ہوش میں اب آنے نہ پائیں              10

نغموں میں اردو زبان کا استعمال:

ہندوستانی سنیما کی کامیابی میں نغموں کا سب سے اہم حصہ ہے کیونکہ اکثرو بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ فلم کامیاب نہ ہوئی لیکن نغمیں بے حد مقبول ہوئے۔یہ بات قابل غور ہے کہ جن نغموں میں اردو الفاظوں کا استعمال ہواتاہے وہ عوام کو بہت پسند آ ئے حا لانکہ نغموں کی زبان نہ خالص اردو ہوتی ہے نہ ہندی ۔نمونے کے طور پر۔

1            1960      مغلِ اعظم:                            اے محبت زندہ باد۔۔۔                             1

2            1960      دل اپنی اور پریت پرائی:        اجیب داستاں ہے یہ۔۔۔                           2

3            1961      قابلی والا:                                           اے میرے پیارے وطن۔۔۔                      3

4            1964      حقیقت:                                 کر چلے ہم فدا۔۔جان و تن ساتھیوں۔۔۔      4

5            1969      جینے کی راہ:                                     آنے سے اس کے آئے بہار۔۔۔                5

6            1975      آندھی:                                  تیرے بنا زندگی سے کوئی۔۔شکوہ                        6

7            1980      قرض:                                  دردِ دل۔۔دردِ جگر                                 7

8            1988      تیزاب:                                  س گیا۔۔یہ جہاں۔۔سو گیا آسماں۔۔             8

9            1992      جو جیتا وہی سکندر:                            پہلا نشہ پہلا خُمار۔۔                             9

10          1999      ہم دل دے چُکے صنم:                          آنکھوں کی گستاخیاں۔۔معاف ہو                             10

11          2012      ایجینٹ وِنود:                         کچھ تو ہے تجھ سےرابطہ۔۔۔               11

12          2015      با جی راو مستانی:                 (آیت)تجھے یاد کر لیا ہے۔۔آیت کی طرح۔۔12

ان مثالوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ہر صدی میں فلمی نغموں میں اردو زبان اور لہجہ کےاستعمال نے ان نغموں کو جِلا بخش دی ہے اور انہیں صدا بہار بھی بنا دیا۔اگر موجودہ دور کی بات کریں تو حال میں بھی ایسے بہت سے نغمیں ہیں جن کی وجہ سے اردوزبان کا بھی فروغ ہورہاہے اور عام لوگ اردو الفاظ کو جان رہے ہیں۔جیسے۔

ہندوستانی سنیما کے موضوعات میں اردو زبان کا حصہ: ہندوستانی سنیما کے اکثر وہ بیشتر موضوع کا انتخاب اردو زبان کے الفاظ استعمال کرکے کیا جاتا رہا ہے جیسے 1950 سے 1960 کے درمیان کی فلمیں کوہینور، قانون،مغلِ اعظم جسکی مقبولیت کی کوئی انتہا نہیں رہی زنجیر ، عبد الله – عید مبارک ، معصوم ، میاں بیوی راضی ، محبت ، ظالم ان تمام فلموں کے نام میں اردو زبان کا استعمال ہوا ہے۔ اسکے علاوہ آگے کے دہائی میں۔ بازی ، افسانہ، ناگن دیدار ، ایک نظر خزانہ ، ، لچک ۔ نئی زندگی ، نازنین ، سود اگر ، شبستان، ترانہ۔ داغ ، سنگ دل ، الادین کا چراغ ،قاتل، تاج محل، آشیانہ ، بے تاب ،دیوانہ، خوبصورت،  زلزلہ ، فرمانش ، گل سنوبر، سہرا، را ہی، شہنشاه – شمشیر، علی بابا اور چالیس چور ،امانت، حکومت، الزام ، ان فلموں کے بعد ملکہ عالم نور جہاں، سلطنت ،شمع پروانه ،طوفان – وارث اور وطن – آب حیات – چراغ – حاتم تائی – شہزادہ . مست قلندر مسافرخانه، نقاب ، رفتار ریاست ، آبرو ،عرب کا سوداگر ،انقلاب، کاروان ، شیریں فرہاد ،سلطان عالم – چال ساز ، مہندی، سازش، شرارت ، گل بکاولی ،صحرا ، تاج محل – فریاد – رستم روم، خاندان، آرزو کے دن، سکندرِ اعظم – چھوٹی سی ملاقات، فرشته – قسمت – گستا خی معاف ،میرے ہمسفر، کرامت – محبوب کی مہندی ،زمیں – پاکیزہ، دل لگی ، شرمیلی ، امید، بنیاد ، صبح و شام ، آشیانہ – ہم شکل۔ مد حوش – امتحان، انسانیت، سازش – مزدور، مقدر کا سکندر ، پھول کھلے گلشن گلش – مقابلہ ، نوری – بے قصور – جزبات – خواب – ترانہ پیار کا، انصاف ، قربانی – شان – اوران کے علاوہ بے شمار وہ لا تعدادفلمیں ہیں جن کے موضوعات اردو زبان کے استعمال سے بنائے گئے ہیں یہی نہیں حالیہ فلموں میں بھی اور اس دور کی فلموں میں بھی بے شمار اردو موضوعات والی فلموں کو دیکھا جا سکتا ہے ۔ جیسے جلسہ ، گہرائیاں ،نکما، شیردل، خدا حافظ جادوگر، جُدا ہو کے بھی، دوبارہ ۔ اونچائی، کا غذ ، ایمان – عجیب داستان ، میل پتھر طوفان، شدت ،صنک، عافاتِ عشق بے خودی، حسین دلربا، لہذا یہ کہنا جائز ہے کہ شروع سے لے کر اب تک ہندوستانی سنیما کے موضوعات کا انتخاب اردو زبان کے ذریعے کیا گیا اور کامیاب بھی ہوا۔

فلمی مکالموں میں اردو زبان کا استعمال:

کسی بھی فلم کی کامیابی کا کچھ فی صد انحصار ا فلم کے مکالموں پر بھی ہوتا ہے۔ قلم کار اپنی قلم سے جب بہترین انداز میں مکالمے لکھتا ہے تو فلم کے کردار میں بھی جان پیدہ کر دیتا ہے۔ ہندوستانی سنیما کے بیشتر مکالموں میں اردو زبان کے استفاذہ کیا گیا ہے۔اکثر عدالتی کاروائوں کو جب فلموں میں دکھایا جاتا ہے تو ۔” مجرم، ملزم، قیدِبا مشقت، ان الفاظوں کا استعمال بکثرت کیا جاتا ہے۔جیسے

1            ” کون کمبخت  برداشت کرنے کے لیے پیتا ہے۔۔۔۔”(فلم ۔ دیوداس ۔2002)

2            ” آپکے پاؤں بہت خوبصورت ہے۔۔انہیں زمین پر مت رکھیے۔۔میلے ہوجائینگے۔۔(فلم ۔پاکیزہ۔1972)

3            “ڈان کو پکڑنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔۔۔(فلم۔ڈان۔1978)

4            عزت کی موت ، زلت کی زندگی سے کئیں اچھی ہے۔۔۔(فلم۔شولے۔1975)

اردو افسانوں، ڈراموں اور ناولوں پر مبنی فلمیں:

اردو ناولوں اور افسانوں پر کئیں فلمیں بنائ گئیں جو بے حد مشہور ہوئیں۔ مغلِ اعظم، امتیاز علی تاج کے ڈرامہ ” انار کلی: سے ماخوذ ہے۔ بہت سے اردو ادیبوں نے ہندوستانی سنیما میں اپنی ناولوں اور افسانوں کے ذریے تعاون کیاجن میں آغا حشر کا شمیری – پریم چند، راجندر سنگھ بیدی ۔ عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو ، خواجہ احمد عباس – اختر الایمان ، کرش چند و سریندر پر کاش شامل ہیں ۔ آغا حشر کاشمیری کی “یہودی کی لڑکی” ، عورت کا پیار ، را جندر سنگھ بیدی کی ناول ۔ ایک چادر میلی سی، گرم کوٹ، مٹھی بھر چاول اور گرہن اس کے علاوہ ۔کرشن چند کی دھرتی کے لال، ہمراہی، آندولن، منچلی، شرافت ، دو چور، ماں بھومی، دو پھول، ممتا اور رام بھروسے۔ پر یم چند کی ہیراموتی ، غبن اور گؤ دان، ہادی رسوا کی امراؤجان –یہ تمام اردو ادب کا حصہ رہی ہیں۔سعادت حسن منٹو کی کالی شلوار – منٹو، ٹو با ٹیک سنگھ اور ان سب کے علاوہ مرزا غالب ، نوکر ، کسن کنہیا ۔ چل چل رے نوجوان اپنی نگریا ،جھمکے وغیرہ ایسی بے شمار فلموں میں شامل ہیں۔پریم پال اشک اپنی کتاب “ہندوستانی سنیما کے پچاس سال” میں فرماتے ہیں۔

“ہمارے یہاں اردوکےمشہورناول نگار گلشن نندہ کے سب سے زیادہ ناولوں کو فلمایا گیا ہے۔ان میں ” کاجل”، “نیل کمل”، ” سہاگ رات”، “شہنائی”، واسنا،” کھلونا “وغیرہ ہیں۔” اس کے علاوہ کہتے ہیں۔

” گلشن نندہ کے بعد پریم چند کے ناول سب سے زیادہ فلمائے گئے۔ان میں “رنگ بھومی”، “گوشہ عافیت”، “سیواسدن”، بازارِ حسن”، گؤدان” اور “غبن کو روپہلی پردہ کی زینت بنایا گیا۔”

                  ( پریم پال اشک۔”ہندوستانی سنیما کے پچاس سال”۔صفحہ93)

اسکرپٹ نگاری میں اردو زبان:-

اردو شعرا اور ادیبوں نے نغموں اور غزلوں کے علاوہ فلموں کے لئے اسکرپٹس لکھنے کا بھی کام کیا ۔”سعادت حسن منٹو، خواجہ احمد عباس، اخترالایمان، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی ۔ کرشن چند، سریندر پرکاش – انور خاں ، گلزار، جاوید اختر جیسے اہم اردو شاعرو ادیب نے فلموں کی اسکرپٹس لکھیں اورا بہتریں نغمے لکھے ان کے علاوہ – جوش ملیح آبادی – مجاز، مجروح سلطانپوری ، ساحر لدھیانوی ، مخدوم محی الدین، جاں نثار اختر، کیفی اعظمی ، راجہ مہدی علی خاں،شہریار گلزار ،ندا فاضلی، آنند بخشی نے بہتریں نغمیں لکھیں۔ اسکرپٹ نگاری میں ابرار علوی، وجاہت مرزا، اور کمال امروہی ، جاوید صدیقی – ساگرسرحدی نے اپنی ساری خدمات فلموں تک محدود رکھیں۔ مجروح سلطا نوری کو ہندو ستان کے اعلی ترین فلمی اعزاز دادا صاحب پھالکے انعام سے سرفراز کیا جا چکا ہے۔ “

                                                ( ڈاکٹر رضوانالحق، اردو فکشن اور سنیما)

لہٰذہ  ہندوستانی سنیما کے ابتدائی دور سے اب تک کے سلسلہ کے بغور مطالعہ سے یہ اخذ ہوا کہ شروع سے اب تک فلموں میں موضوعات ، نغموں ،مکالمات،اردو ادب کا استعمال، شاعروں اور ادیبوں کا تعاون رہا ہے،لہٰذہ ہندوستانی سنیما کے فروغ میں اردو زبان کا ایک اہم حصہ ہے اور اس لحاظ سے اردو زبان بہت اہمیت کی حامل ہے۔

حوالہ جات:

انیس امروہی،2010، پس پردہ،جے ایکس پبلیکیشن، لکشمی نگر، دہلی

پریم پال اشک۔2000،ہندوستانی سنیما کے پچاس سال،مورڈن پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی۔

حمد خالد عابدی ،2009ہماری فلمیں اور اردو،ایچایس آفسیٹ پرنٹرس،چاندنی محل، نئی دہلی

ڈاکٹر امام اعظم ،2012،ہند و ستانی فلمیں اور اردو (ادبی جائزہ )، – نیو پرنٹرس ، دریا گنجی نئی دہلی

رضوان الحق -2008اردو فکشن اور سنیما، ، ، ایجیو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی

شازیہ رشید ،2011،انڈین سنیما تاریخ کے آئینے میں(سوسالہ تاریخ) ، ، پین اینڈپیپر پبلیکیشن، لاہور

Encyclopedia of Hindi Cinema

Wikipedia.org/wiki/2022_in_film

www.imdb.com

bollywoodproduct.in

Indianexpress.com

Prof. Zarina Abdul Salim

Assistant Professor

CHB), Department of Urdu)

Yashoda Girls’ Arts and Commerce College, Nagpur University, Nagpur.

Contact No.: 9322444311/8208251764

E-mail: salimzarina22@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.