زبانِ اردواور ہماری ذمہ داریاں

زبانِ اردواور ہماری ذمہ داریاں

   زبان کی اہمیت شریعت کی نظرمیں:۔

   ملک کے ہر شہر ی خصو صا مذہب اسلام کے ماننے ولے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر زبان کی عزت کرے کیوں کہ زبانوں کا اختلاف دراصل رب العالمین کی نشانیوں سے ایک ہے۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَمِنْ اٰیٰتِہٖ : خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَاَلْوَانِکُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ الِّلْعٰلِمِیْن (الروم/۲۲) َ ـــــاس کی قدرت کی نشانیوں میں سے آسمانوںاور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رگتوں کا اختلاف بھی ہے،دانش مندوں کے لئے اس میں یقینا بڑی نشانیا ہیں،،

لسانی عصبیت شریعت کی نظر میں:

  اردو یا تمل زبان کو یا پھر کسی اور زبان کو مخالفت تحقیر اور تنقیص جس طرح قانونی جرم ہے اسی طر ح شرعا ناجائز بھی ہے۔کیوں کہ خودآپﷺکے پاس صاحب وفود آتے تو آپﷺاس کی زبان اور معیار کے لحاظ سے بات کرتے تھے۔ حتیٰ کہ آپﷺ نے حبشی زبان کے بھی استعمال کو حقیر نہیں سمجھا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں روایت ہے ام خالدبن سعید سے یہ روات آئی ہے کہ:اتیت رسول اللہ ﷺ مع ابی وعلی قمیص اصغر۔قالﷺ سنۃ سنۃقال عبداللہ وہی بالحبشہ حسنۃ(فتح الباری۶/۸۳)میں میرے والد کے ساتھ آپﷺ کے پاس آیا اس حال میںکہ مجھ پر ایک قمیص تھی تو رسول اللہﷺ نے کہا’’سنہ سنہ ‘‘عبداللہ نے کہا کہ یہ حبشی زبان میں’’اچھا اچھاـ‘‘کے معنی میں ہے‘۔ نیزآپﷺنے حضرت زیدبن ثابت ؓ کو عبرانی زبان بھی سیکھنے کے لئے کہا تھا۔

اردوزبان کی تاریخ:

اردو کی ابتداء کے سلسلے میں ماہر لسانیات نے اختلاف کیا ہے۔عام طور پر بتایا جاتاہے کہ یہ مسلمانوں کی ہندوستان میں آمد کے بعد ہی ان کے زیر اقتدار پیدا ہوئی اور پلی ہے۔ لیکن ڈاکٹر مختاراحمد مکی اپنی کتاب تدریس اردوضوابط میں لکھتے ہیں کہ اردو کی پیدائش کو مسلمانوں سے وابستہ کرنا یا اس کے آغاز کو مسلمانوں کی ہندوستا ن میں آمد سے منسوب کرنا گمراہ کن نظریہ ہے۔ اردو کی ابتداء مسلمانوں کی دھلی میں آمد۱۱۹۳ء؁ سے تقریبا دوسوسال قبل یعنی1000ء؁لگ بھگ شروع ہوچکی تھی۔مرزاخلیل بیگ اردو کے لسانی ارتقاء روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ اردو ایک ہندآریائی زبا ہے۔ ہندآریائی زبان کی ابتدا 1500ء؁ق۔۔م۔ہندوستان میں آریوں کی آمد سے شروع ہوتی ہوئی۔ یہ ویدسنسکرت بھی جس کا قدیم نمونہ رگ وید میں ملتا ہے۔جو بعد میں کلاسیکی سنسکرت کلاسیکی سنسکرت کہلائی۔۔لیکن 600ء؁ق۔۔مکے آتے آتے یہ جمود کا شکارہوگئی۔ اور اس کے بدلے میں”پراکرت” کی ابتدا ہوئی بعد میں پراکرت نے جب ادبی شکل اختیار کرلی تو عوام پھرسادہ اور آسان زبان کی جانب متوجہ ہوئی۔ اس طرح پراکرت کی کوکھ سے پیدا ’’بھر ست،، زبان ا پ بر نش کہلائی اور اس کی نشوونما6ooء؁تا1000ء؁پورے شمالی ہندوستان میں ہوتی رہی ۔لیکن1000ء؁کے بعد اس کی ارتقائی رفتار رک گئی۔ نوجدید آریائی زبان یا شورسینی اپ بھرنش سے ہے۔چونکہ شورسینی پراکرت سے پیدا ہوئی، اس طرح گرچہ اس کی ابتدا1000ء؁سے شروع ہوچکی تھی۔ لیکن1193ء؁یعنی مسلمانوں کے فتح د ھلی کے بعد اس کی ترقی کی رفتار تیا ہوگئی اور بدتدریج اس پر نکھار آنے لگا۔ مشہور ماھر لسا’’سنیتی کمار چٹرجی کے خیال میں,,اگر مسلمان شمالی ہندوستان میں نہیں بھی آئے تب بھی جدید ہندآریائی زبانوں کی پیدائش ہوجاتی، رجہ اس کے ادبی آغازوارتقاء میں تاخیر ہوتی۔

              سترھویں صدی کے ختم ہوتے ہوتے اردونے اپنی لسانی ارتقاء کا پہلا دور پوراکیا۔ اٹھارویں صدی میں یہ اپنے ارتقاء کے دوسرے دور میں داخل ہوئی۔ اور انیسویں صدی کے آغاز سے اس کا معیاری ادب ابھرنے لگا۔،،(ص (41-4o/

اردوزبان کی خصوصیات:

(۱)         یہ کسی ملک کے ساتھ خاص نہیں ہے، کہ بقیہ ممالک کے باشندے اسے غیر سمجھے بلکہ یہ ایک بین الاقوامی زبان ہے۔ چنانچہ ہندوپاک کے علاوہ مغربی اور خلیجی ممالک مثلا،کینیڈا،انگلینڈ، امریکہ، جرمنی، آسٹرلیا، سوڈان، دوبئی،جدّہ، شارجہ، دوحہ قطر، ابوظہبی اور ریاض وغیرہ میں اردو کی محفلیں سجتی ہیں۔ اخبارات ورسائل اور جرائد نکلتے ہیں مشاعرے کا نفرسیں اور سیمینار بھی منعقد ہوتے ہیں۔ اور اہل سخن حضرات کی ہمت افزائی بھی کی جاتی ہے۔

 (ii)         یہ کسی قوم کی اپنی زبان نہیں کہ بقیہ اقوام اسے پرائی نظر سے دیکھیں اردوکے بیشتر غیر مسلم شعراء وادباء جیسے تلوک چندامھروم، پروفیسر جگن ناتھ آزاد، کرشن چندر،راجندرسنگھ بیدی، پریم چند، پنڈت رتن ناتھ سرشار،پنڈت آنند نرائن ملاّ چکبست، پنڈت دیا شنکر نسیم، پنڈت آند موہن،گلزار دلوی، پروفیسر گوپی چندنارنگ، رام لعل، پرکاشاپنڈت، چندربھان خیال، رام پرشاد بسمل،کرشن بہاری، نوروغیرو اس بات کی شہادت ہیںکہ اردونہ مسلم قوم کے ساتھ خاص ہے اور نہ ہی کسی اور قوم کے ساتھ۔

کون کہتاہے مسلمانوںکی میں ہوں دلدار

بیدی اور ملاّ اور چکبست سرور و سرشار

ہندو اور سکھ بھی ہیں میرے رخ زیبا پہ نثار

قصر اردوئے معلیٰ کے یہ سب ہیں معمار

(iii)         یہ کسی مذہب کے لئے بنیادی حیثیت کی حامل نہیں کہ بقیہ مذاہب کے معتقدین اس کو غیر مذہبی جانیں یہ الگ بات ہے کہ مذہب اسلام کے عقائد واحکام کی اشاعت کے لئے چند ہندوپاک جیسے ممالک میں اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا جارہاہے۔

(iv)         اردو زبان چند اہم زبانوں کا ایک ایسا حسین امتزاج ہے کہ جو خود لسانی عصبیتوں کے خلاف مساوات کا درس دیتا ہے۔

(v)          اردوزبان کے مواد کا مجموعی طور پر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ زبان صحیح طر زفکر، پاکیزہ نظریہ حیات، بے لوث جذبات، حق وانصاف، بلا مذھب وملت انسانیت کی فلاحوصلاح کے علاوہ محبت ہمدردی اور دلسوزی سے تعبیر ہے۔

اردوزبان ادباء کی نظرمیں:۔

(i)           بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اردو کو مسلمانوں سے وابستہ کرنا سراسر غلط اور لغواور جان بوجھ کر آنکھوں میں دھول ڈالنے کے مترادف کہا ہے۔ یہ خالص ہندوستان کی پیداوار ہے۔ اور دونوں قوموں ہندواور مسلمانوں کی لسانی، تہذیبی، اور معاشرتی اتحاد کا نتیجہ ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کے بنا نے والے زیادہ تر ہندو ہیں۔(تدریس اردو۔اصول وضوابط۳۹ـ(

(ii)          ملیح آبادی:؛۔’’محض اردو صوبہ کی دوسری زبان کے طور پر اعلان کردینا کوئی کار گراقدام نہیں ہے کیونکہ دہلی میں بھی اردودوسری سرکاری زبان ہے مگر اردوکا کوئی بھلا نہیں ہوپارہاہے۔،،

(iii)         فیروبخت احمد:۔’’افسوس کا مقام ہے کہ ہم نے خوداپنے ہاتھوں ہی اپنے اردو میڈیم اسلولوں کا گلا گونٹاہے۔ جس کا خمیازہ ہمیں آج بھگتانا پڑرہا ہے حکومت سے توشکایت اسی وقت کی جائے گی کہ جب ہم خودایمانداری سے اپنی کوشش کرلیں گے۔،،

زبان اردو۔چند شعراء کی نظر میں:

(i)           محمد عبدالرحیم اصغر کے ترانہء اردو’’اردو کا پیغام اہل ہند کے نام،،کے چند اشعار مندرجہ ذیل ہیں۔

میں وہ پودا ہوں کہ ہیں میرے ہزاروں مالی

حامیوں سے ہے نہیں کوئی زمانہ خالی

سینچ کر خون جگر مری کی رکھوالی

میرے دلبند ہیں، اقبال و انیس و حالی

دیکھی حالت نہ گئی ملک کی بربادی کی

روح پھونکی جسدِقوم میں آزادی کی

(ii)          اسعد اعجاز بنگلوری:۔

دیر میں انتخاب ہے اردو

 ہر زبان کا جواب ہے اردو

ساری دنیا پہ آج چھائی ہے

 کس قدر کامیاب ہے اردو

 (iii)        مولانا یعقوب اسلم عمری:۔

جاتی نہیں یہ دل سے جب دل میں بیٹھ جاتی

دوری نہیں بڑھاتی قربت نہیں مٹاتی

جھگڑا نہیں کراتی نفرت نہیں سکھاتی

اک طرزِانکساری ارو زبان ہماری

اردو زبان ہماری، اردو زباں ہماری

 (iv)اقبال کی شہر آفاق چند نظموں کے اشعار ملاحظ ہوں:۔

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستا ں ہمارا

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

چشتی نے جس زمیں میں پیغامِ حق سنایا ہے

نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا

تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا

جس نے حجازیوں سے دشتِ عرب چھڑایا

میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے

دستور ھند میں اردو زبان کی حیثیت:

اردو زبان کی موجودہ دستوری حیثیت جمہوریہ ہند کے دستور میں آٹھویںفہرست بند 8th Scheduleکی رو سے ایک ملکی زبان ہے جس کے معنی یہ ہیں:۔

(i)           دفعہ 120کے تحت پارلیمنٹ میں ہندوستانی زبان(اردو)میں تقریر کی اجازت ہے۔

(ii)          دفعہ 210کے تحت ریاستی قانون ساز اسمبلی میں تقریر کی اجازت ہے۔

(iii)         دفعہ 345 کے تحت ریاستی قانون ساز اسمبلی قانون بناکر اردو کوبھی ریاست میں سرکاری زبان کی حیثیت دے سکتی ہے۔

(iv)         دفعہ 347کے تحت عوام کے اس مطالبہ پر کہ کسی ریاست میں اردوکو بھی سرکاری زبان کا مرتبہ دیا جائے تو صدر جمہوریہ ہند کو یہ اختیارہے کہ پوری ریاست میںیا اس کے کسی حصہ میں اسے نافذ کردے۔ بشر طیکہ صدر جمہوریہ اس مطالبہ کو حق بجانب ہونے پر مطمئن ہوں۔

(v)          دفعہ 350کے تحت اپنی کسی شکایت کو رفع کرنے کیلئے متعلقہ افسران کے سامنے اردو میں درخوات پیش کرنے کی اجازت ہے۔

(vi)         دفعہ 350(الف) کے تحت اردو بولنے ولی لسانی اقلیت کو اردو میں درخواست پیش کرنے کی اجازت ہے۔

(vii)        دفعہ 350(الف) کے تحت لسانی اقلیتوں کے مسائل کو سلجھانے اور ان کے تحفظ کے لئے صدر جمہوریہ ہند ایک خاص عہدہ دار(Special Officer) تقرر کرتا ہے۔ اس کی ر پورٹ کو پارلیمنٹ یا متعلقہ ریاستوں کو بھیجتا ہے۔

اردو اور اس کے معلمین۔حالات حاضرہ کی نظر میں:

اردو میں اگرچہ ابتدائی تعلیم کا نصاب تیارہے اورا علیٰ سطح کا بھی لیکن اعلیٰ معیاری جدید علوم وفنون کا علمی مواد اردوزبان میں غیر تشفی بخش ہے۔ چند ملکی اخباروں کو چھوڑ کر اکثر مقامی اردو رسائل اور جرائد ایسی خستہ حالی کے حامل کہ گویا خود شا کی ہوں کہ اردو زبان بیچاری اور میڈیم اسکولوں میں نہ سبھی مضامین کے اساتذہ موجود ہیں اور ہر وقت کتا بیں دستیاب ہوتی ہیں۔شاعر، ادیبڈرامہ نویس،ناول نگار، افسانہ نگار حتی کہ پروفیسر حضرات اور ابتدائی وثانوی سطح پراردو پڑھانے والے اساتذہ بالفاظ دیگر اردو کی روٹی کھانے والے اردو کی دی ہوئی شہرت کا تاج اپنے سر پر سجائے گھومنے ولے شانِ اردو کے ترانے گانے والے اور عظمت اردو کے نعرے لگانے والے بھی اردوسے معاش کی حدتک متصل رہتے ہیں اور اپنے بچوں کو اردو پڑھانا تو بعید ازخیال اردو کہلوانہ بھی گوارا نہیں کرتے اور خود خاموش اردو مٹانے کی کوشش ہے۔ستم در ستم تو ہے کہ اردو کے پاسبانوں کو اردو کی پامالی کا اتنا بھی خیال نہیں ہے کہ بہت ساے ایسے کام اور اقدامات اردو کے خلاف ، خلافِ قانون اٹھائے جاتے ہیں کہ اگر انھیں روکا جائے تو یقینا رک جائیں لیکن کوئی حامئی اردو اس کو روکنے والا نہیں۔

              لیکن ہاں اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج بھی ہندوستان کے ہر اس چھوٹے بڑے شہر میں جہاں پاک نیت اور حوصلہ منداردوداں موجود ہیں۔ مشاعرے ہورہے ہیں ادبی نشستیں منعقد ہوتی ہیںاور اردو کے اخبارات بیشتر مقامات پر پہنچ رہے ہیں۔ بعض بڑے اخبار بیک وقت کئی جگہو سے نکل رہے ہیں اور اچھی تعداد میں پڑھے بھی جارے ہیں جواردو کے لئے ایک خوش آئندبات ہے۔

نوخیز اور نئی نسل کے لئے ایک پیغام:۔

(i)           تمام لوگوں کو خصوصا اردو کا دیا دکھانے والوں کے لئے ضروری ہے کہ اپنے خیالات اپنے خاندان،تجارت، اور اپنی سیاست، الغرض زندگی کے ہر معاملہ میں ارددو کا بول عام کریں، نیز اپنی تحریر وتقریر میں صرف اردو الفاظ ہی استعمال کریں کیوں کہ اس سے معاشرہ پر گہرا اثر پڑتاہے۔

(ii)          حکومت سے شکوہ کناں ہونے سے پہلے حکومت کی دی گئی مراعات کئے گئے وعدوں اور دی گئی زبان کے مطابق بھر پور فائدہ اٹھائیں اور اپنا حق مانگیں کیونکہ اس دور میں حق چھینا جاتا ہے دیا نہیں جاتا۔

( iii)        تمل زبان ہندؤں کی زبان ہے انگریزی زبان انگریزوں کی زبان ہے اور اردو مسلمانوں کی یہ تصور نہایت غلط ہے جو عام طور پر جاہل اور چھوٹے بچوں کی زبانوں سے سننے کو ملتا ہے۔لہذا والدین اساتذہ اور پاسبان اردو اس غلط فکر کی تصحیح کرکے صحیح فکر کو عام کریں۔

(iv)         اردو کے پاسباںاردو سے ایساگہرا لگاؤپیدا کریں کہ اگر اردو کے خلاف کوئی قانونا جرم ہوتا ہو تو جہاں اپنا ہاتھ حرکت کرسکتا ہے ہاتھ سے اسے روکیں جہاں زبان چل سکتی ہے زبان سے روکی اور جہاں نعرے کام کرتے ہوں نعرے لگائیں۔

(v)          اردو کے حاملین میں جوش وخروش اور جذبہ پیدا کرنے لئے جلسوں، کانفرنسوں اور سمیناروں کا انعقاد کیا جائے اور مختلف طریقوں سے ان کی ہمت افزائی کی جائے۔

(vi)         اگر مزید حقوق اردو کو نہیں ملے تو دستور ھند کے حوالہ سے حکومت سے حقوق کا مطالبہ کیا جائے۔

(vii)        چند ملکی اخباروں کے علاوہ اکثر مقامی اردو اخبارات ایسی حالت میں نکلتے ہیں کہ جو اردو کی شان میں عظیم گستاخی معلوم ہوتی ہے۔لہذایہ حالت درست کی جائے اور ان میں اخبارو احوال اور علوم وفنون کا ایسا ذخیرہ شائع کیا جائے کہ ہر کس و ناکس اسے پڑھنے میں فخر محسوس کرے۔

(viii)       اعتراف ہے کہ حاملین اردو ایک حدتک کھاتے پیتے اور اچھی حالت میں ہیں۔ لیکن زبان کی ترقی دراصل اس کے معاشی تعلق سے مربوط ہے لہذا اردو انجمن تعلق کو مزید بڑھاوادینے کی کوشش کریں

(ix)         شعر وادب کی ترقی بے شک زبان کے معیار کو اونچا کرتی ہے، لیکن زبان کی ترویج کے لئے ایک اہم کام اس زبان میںجدید علوم وفنون کی شمولیت بھی ضروری ہے۔ لہذا مشاعروں سیمیناروںکے علاوہ اردو کو بڑھاوادینے پرخصوصا ترجمہ کے ہر پہلوپر توجہ دی جائے چنانچہ اس پہلوسے ایک خوش آئندبات ہے کہ صوبئہ تمل ناڈو میں بھی پہلی تادسویںکلاس کا اردو نصاب موجود ہے، نیزPUCکی اردو کتابوں پر بھی توجہ مرکوز ہے۔

(x)          ادبی اور دینی علمی مواد کی کتابوں کا تعارف عام کر کے عوام کو اس ذخیرہ علمی سے مطلع کرایا جائے۔ تاکہ وہ اسے اپنے ذاتی پیسوں سے بھی خرید کرپڑھنے کی طرف راغب ہوجائیں۔

(xi)         اردو میں دینی اسلامی علوم کا ایک بڑا ذخیرہ ہے عام طور پر حکومت صرف ادبی کتابوں کی طرف ہی توجہ دے کر تعاون کرتی ہے۔ جبکہ اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں اسلامی علوم کا کردارناقابل انکار ہے۔ لہذا حکومت اور انجمنیں اس پلوپربھی توجہ دیکراپنا تعارف فرمائیں تاکہ اس سے بھی اردو کا رواج عام ہو۔

(xii)        اردوزبان کے جدید الفاظ کا مسئلہ ہو یا پھر کوئی اور مسائل ان کے حل کے لئے عالمی سطح سے قومی سطح تک تعلق ہونا چاہئیے ۔ کیونکہ ایسے مسائل کے حل کے لئے اتحادواتفاق اور منصوبہ بندی نہایت ہی ضروری ہے۔

وصلی اللہ علی نبینا محمد وبارک وسلم تسلیما کثیرا ،

        والحمد للہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات

                             والسلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ

ڈاکٹرحافظ کلیم اللہ یس

 استاذ ومفتی جامعہ دار السلام ،عمرآباد

بتاریخ:۲۰/۸/۲۰۲۳ء

hskpbt.2009@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.