ادرایہ

اداریہ

اردو ادب کی ترویج وترقی میں رسائل وجرائد کی اپنی تاریخ رہی ہے۔ رسائل میں مضامین کا انتخاب اور اس کے مقاصد کا تال میل بے حد اہم پہلو ہے۔ اس لحاظ سے اگر نمائندہ رسالوں کے اداریوں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ عصری مسائل کو ادبی چاشنی کے لیپ میں اس باریکی سے قارئین کے سامنے پیش کیاجاتا تھا کہ قاری اس کے رسیا نظر آتے تھے۔ بعض اداریوں کا تو یہ عالم تھا کہ رسالے میں شامل مضامین کے بجائے اداریوں نے لوگوں کو اس قدر مربوط کررکھا تھا کہ آنے والے شمارےاور اس کے ادراریے کا انتظار اس بے چینی سے کیا جاتا گویا کسی قاصد کے آنے کا انتظار ہے۔

 اداریہ کسی بھی رسالے یا جریدے کی اپنی فکر اور سوچ ہوتی ہے۔ جس مسئلہ کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کروانی ہواس کا بیان اداریہ میں اہم ہے۔مثال کے طور پر آج اردو زبان میںشائع ہونے والے نمائندہ رسائل وجرائد میں تخلیقات یا اردو اردو زبان وادب کے علاوہ موضوعات یا تو نظر نہیں آتے یا بہت کم ہیں۔ یہ اردو زبان کے سمٹنے اور مٹنے کا عندیہ ہے۔

حالیہ دنوں میںقومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے موجودہ ڈائریکٹر ڈاکٹر شمس اقبال صاحب نے اپنےبین الا قوامی رسالے “اردو دنیا” میںاردو زبان وادب کے علاوہ موضوعات کو بھی شائع کرنے کی کوشش کی ہے؛ یقینا بہت اچھی پہل ہے۔ وہ اس مقصد میںکس حد تک کامیاب ہوئے،اس کا اندازہ اردو دنیا میں شامل ديگر علوم سے متعلق موضوعات کو دیکھا جاسکتاہے۔یعنی اردو اسکالرز  [ سائنس ، سماجیات، معاشیات وغیرہ]  دنیا کے دوسرے علوم سے لابلد ہوتے جارہےہیں۔

بہی خواہان اردو کو اس سمت میں قدم بڑھانے کی ضرورت ہے اوررسائل وجرائد کو اس یک رخے روگ سےبچانے کی ضرورت ہے جو” تحقیق وتنقید “کے نام پر رائج ہے۔اس کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ اردو میں “تحقیق وتنقید” کی ضرورت نہیں ہےبلکہ اردو میں ان موضوعات کو شامل کرنے کی ضرورت ہے جس سے زندگی میں در پیش مسائل کی تفہیم ممکن ہو۔

اچھے اسکالر وں کی تاریخ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ایک اچھا محقق اصل مواد تک رسائی اور اس کی تفہیم کے لیےوہ زبان سیکھتاہے جس میں اصل موادموجودہو۔”مغل سلطنت “کا مطالعہ کرنے والے تاریخ کے کئی اسکالرز ایسے ہیں جنھوں نے فارسی کو صرف اصل موادتک رسائی حاصل کرنے کی غرض سے سیکھا ہے۔دہلی اردو اکیڈمی کے ذریعہ چلائے جارہے اردو سرٹیفکیٹ اور ڈپلوما کورسسزمیں ایسی کئی مثالیںمل جائیں گی۔اردو زبان میں رسائل میں تحقیقات کا یہ پہلو بے حد کمزور ہے۔اول تو اردو میں اردو ادب کے علاوہ دیگر موضوعات شجر ممنوعہ کی حیثیت اختیارکر گئے ہیں۔اور اگر کسی تحقیق میں سیاسی، معاشی یامعاشرتی مسائل کی بحث آہی جائے تو اس کی حالت ناگفتہ ہوتی ہے۔یعنی ایسی تحقیقات میں آپ کو ثانوی ماخذکے علاوہ بنیادی ماخذ خال خال ہی نظر آسکتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اردو اسکالروں کا دیگر موضوعات سے ناواقفیت ہے۔

اردو ریسرچ جرنل کا ہدف یقینا” تحقیق و تنقید “کی ترویج و اشاعت ہے لیکن ادارے کی کوشش ہوگی کہ آئندہ اشاعتوں میں تخلیقات اور دیگر علوم پر مبنی موضوعات کابھی ایک گوشہ شامل کیا جائے ۔امید کرتا ہوں کہ اردو ریسرچ جرنل کے قارئین کو یہ پہل پسند آئے گی۔

                                                                                      رہے نام اللہ کا۔

                                                                                                                                                                                               ڈاکٹرعبدالرحمن

                                                                                                                                                                                    معاون مدیر، اردو ریسرچ جرنل

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.