تخم خوں:دلت ڈسکورس کا ایک نیا باب
تخم خوں:دلت ڈسکورس کا ایک نیا باب
محمد صغیر عالم جو ادبی اور علمی حلقوںمیں اپنے قلمی نام صغیر رحمانی کے نام سے اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں ۔فکشن ان کا خاص میدان ہے ۔انھوں نے اپنا تخلیقی سفر بیسویں صدی کے آخری عشرے کے آس پاس شروع کیا جس میں وہ زیادہ تر افسانے لکھتے رہے اور اس کے ذریعہ فکشن کے روایتی موضوعات سے پرے ،نئے اور اچھوتے موضوعات پر اپنے منفرد اسلوب اورزبان و بیان کی بنیاد پر اکیسویں صدی کے ایک ایسے فکشن نگار کے بطور سامنے آئے جس نے صدیوں سے دبے کچلے ان مظلوم دلتوں ، آدی واسیوں اور نکسلیوں کی زندگی اور انکے طرز بود و باش ،معاشی تنگ دستی،امرا،شرفاء،سیاست داں ،سرکاری حکام،اور سماجی و مذہبی کارکنان کی بالا دستی اور دلتوں ،آدی واسیوں اور نکسلیوں پر ان کے ظلم و جبر کی کہانی رقم کر کے اولیت کا تاج پہنا ۔یہ اور بات ہے کہ اس سے قبل غضنفر نے اپنے ایک ناول ’دویہ بانی‘ میں دلت مسائل کو نہ صرف اٹھایا بلکہ اس کو موثر ڈھنگ سے پیش بھی کیا اسے پڑھتے ہوئے قاری زبا ن و بیان اور اسلوب کے ایک نئے تجربے سے گزرتا ہے ۔غضنفر کے اس نئے تجربے کو بہت سے نقادوں نے سراہا اور بہتوں نے اسے اردو زبان کا ناول ماننے سے انکار بھی کیا اور یہ کہا کہ یہ اردو اسکرپٹ میں ہندی زبان کا ناول ہے ۔غضنفر کے اس ناول کے حوالے سے میرا بھی یہی ماننا ہے کہ اسلوب اور زبان و بیان کی بنیاد پر یہ اردو کا کم اور ہندی زبان کا ناول زیادہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس میں ہندیائی ہوئی اردو ہے۔ لیکن اس خامی کے باوجوداس کے موضوع کی بنیاد پر اسے جو فوقیت حاصل ہے وہ اپنی جگہ برقرار ہے۔ صغیر رحمانی کا ناول بھی کچھ اسی نوعیت کا ہے ،صغیر نے اردو اور بھوجپوری زبان ،لب و لہجہ اور اسلوب بیان کے امتزاج سے مذکورہ موضوعات و مسائل کو برتنے کی عمدہ کوشش کی ہے ۔اسی زبان اورلب و لہجہ میں دلتوں ،نکسلیوں اور آدی واسیوں کے داخلی اور خارجی مسائل اورجذبات و احساسات کی ایسی تصویر کشی کی ہے کہ قاری جذبات میں بہہ کر ان مظلوم اور استحصال شدہ دلتوں کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوتا ہے ،برہمنی سماج اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اکیسویں صدی میں جس دلت ڈسکورس کی بات کی جاتی ہے وہ تمام ڈسکورس اس ناول میں تلاش کئے جا سکتے ہیں۔صغیر رحمانی نے دلت مسائل کے جملہ جزئیات پر تفصیل سے اس طرح روشنی ڈالی ہے کہ اس کے تمام تر خد وخال وا ضح ہوگئے ہیں۔معصوم عزیز کاظمی کے لفظوں میں’اس ناول کے دیہی علاقہ کے نہ صرف کردار بولتے ہیںبلکہ چوک، چوراہے،نکڑ ،راستے،تالاب،چوپال،پنچائت،کھلیان اور چائے خانے تک چھوٹی بڑی داستان بیان کرتے ہیں۔یہ داستان ہے استحصال کی،یہ قصہ ہے بے بسی اور بے چارگی کا،یہ کہانی طبقاتی کشمکش اور رد عمل کی ہے‘ اس طرح اچھوت اور اچھوت قوموں کی زندگی ان کے طرز بود و باش ،استحصال،سماج اور معاشرے سے ان کا بائیکاٹ، ان پر ظلم و جبر، جنسی و معاشی استحصال، سیاست کے مکر جال میں پھنسا کر ان کو ان کے ہی حقوق سے محروم رکھنا،جنسی زیادتی ،مذہب ،عقیدہ، سیاسی جبر و تشدد وغیرہ سبھی پر صغیر کی گرفت مضبوط ہے ۔کوئی بھی چیز ان کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔انھوں نے ان تمام پہلوئوں کا بہت ہی باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے اور پھر اسے ناول کے سانچے میں ڈھال کر قاری کو ان تمام پہلوئوں سے روشناس کرایا ہے ۔ برہمنوں نے جس تخم خوں کوبویا تھا اب وہ تناور درخت ہوگیا ہے ، اس کی جڑوں کو کاٹنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ وہ جڑیں اب سرحدوں کو پار کر کے کہاں تک پھیل چکی ہیں یہ کسی کو پتہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک اہم Readableناول ہے ۔مستقبل قریب میں ہی یہ اپنی انفرادیت کا لوہا ادب کے پارکھوں سے منوالے گا۔ کیونکہ صغیر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے پرانے دائروں کو بالائے طاق رکھ کر ایک نیا دائرہ بنایا ہے اور اس نئے دائرے میں نئے نئے افکار و نظریات واضح طور پر سامنے آئے ہیں جو قاری کو ایک نئی فکری جہت عطا کرتے ہیں۔ اس بنیاد پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ صغیر نے جس فنکارانہ ہنرمندی اور خوش اسلوبی کے ساتھ دلت ڈسکورس کے نئے در وا کئے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ انھوں نے اس ڈسکورس کوبحسن و خوبی کے ساتھ ناول میں پیش کر کے اپنی انفرادیت کا نقش ثبت کر دیاہے۔ صغیر نے’تخم خوں‘میں جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے وہ موضوع کوئی نیا نہیں ہے بلکہ صدیوں پرانا موضوع ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس موضوع کی طرف ہمارے تخلیق کاروں نے اس طرح توجہ نہیں دی جس طرح دی جانی چاہیے تھی۔پریم چند،عصمت ،منٹو وغیرہ نے اس موضوع کے حوالے سے صرف ان کریہہ اور بد صورت مناظراور حقارت آمیز سلوک کی بات کی اور اس کے کسی ایک پہلو کو پیش کرکے اپنی فنکارانہ مہارت کا ثبوت پیش کیا ۔لیکن صغیر نے اپنے آپ کو ان کریہہ اور بد صورت مناظر اور حقارت آمیز سلوک کی بھٹی میں تپایا ہے تب جا کر اس ناول کی تخلیق ہوئی ہے۔یہ موضوع ایسا ہے جو خالص ہندوستان کی پیداوار ہے۔کیونکہ ذات پات کا نظام ہندوستان کے سوا کسی اور ملک اور معاشرے میں نہیں پایا جاتا ہے۔اگر کہیں اور تفریق کی جاتی ہے تو اس کی بنیادیں کچھ اور ہوا کرتی ہیں۔لیکن ہندوستان میں ذات پات کا نظام صدیوں قدیم ہے اور ہندو معاشرہ اس پر سختی سے عمل پیرا بھی ہے۔بدھ نے ذات پات کی تفریق کو مٹانے کے لیے بہت جد و جہد کی لیکن یہ نظام ایسا راسخ ہوگیا تھا کہ وہ مٹ نہ سکا۔حالانکہ جمہوری نظام حکومت میں اس بات کی صراحت کر دی گئی ہے کہ ذات پات،جنس،یا نسل کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا ،ہم سب ہندوستانی ہیں اور ہم سب برابر ہیں۔لیکن سماج اور معاشرے میں عملی طور پریہ تمام باتیں کاغذی اور صدا بصحرا ثابت ہو رہی ہیں ۔عملی طور پر آج بھی ہم اسی ذات پات اور بھید بھائو کے نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔آج بھی دلتوں کے ساتھ نازیبا حرکات اور وحشیانہ سلوک کیا جاتا ہے ۔ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کھیلا جا رہا ہے۔آئے دن اخبارات کی رپورٹ اس بات کی شاہد ہیں۔ایسے ملک میں جہاں مساوی حقوق کی بات کی گئی ہے اور کی جاتی ہے وہاں عدم مساوات کا کھلا اظہار ہوتا ہے ۔جنس اور ذات کی بنیاد پر ہر طرح کے ظلم و ستم اس کے ساتھ روا رکھے جاتے ہیں۔صغیر نے تخم خوں میں ٹینگر، بلایتی،مانجھی، اگھورن، بسگتیا،رم رجوا،بھیکنا،پرشو رام ، رام کشن ،جمنا رام، رجیسر،کامتاوغیرہ کے ذریعے اس استحصالی معاشرے کی روداد کو بہت ہی موثر پیرائے میں پیش کیا ہے۔اس ناول کے موضوع کے حوالے سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس کا موضوع بھی تقریباً وہی ہے جوالیاس احمد گدی کے ناول ’فائر ایریا‘ کاہے۔دونوں میں موضوعاتی مماثلت یہ ہے کہ فائر ایریا میں گدی نے صنعتی نظام کے اس مکروہ استحصالی نظام کا مرقع کھینچا ہے جو محنت کشوں اور مزدوروں کی زندگی کے المیاتی اوصاف کا ظاہر کرتا ہے اور اس بیان میں گدی کا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ شامل تھا ۔انھوں نے کول فیلڈ میں کام کرنے والے علاقے کے افراد کو جس طرح دیکھا اسی طرح من و عن بیان کر کے حقیقت کو فکشن اور فکشن کو حقیقت کے قالب میں ڈھا ل کر اپنی فنی اور فکری بالیدگی کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ٹھیک اسی طرح صغیر نے بھی سماج کے ناکارہ ،مظلوم اور دھتکارے ہوئے محنت کش دلتوں اور آدای واسیوں کی زندگی اور ان کے مسائل کو موضوع بنا کر فکشن میں اپنی انفرادیت قائم کی ۔ صغیر نے ان موضوعات کو برتنے میں جن کرداروں کا سہارا لیاان کا تعلق سماج کے دلت اور پچھڑے ہوئے طبقوںسے ہے جنھیں سماج اور معاشرے میں خس و خاشاک کی حیثیت حاصل ہے اور وہ دھن ،دولت،جائداد،کھیت ،کھلیان یہانتک کہ نان شبینہ تک کے محتاج نظر آتے ہیں۔اسی محتاجی اور مجبوری نے انھیں نکسل مومنٹ سے قریب کردیا ۔نکسل مومنٹ سے جڑنے کے بعد یہی لوگ امرا،روسا،جاگیر دار،زمیندار اور برہمنی نظام کے خلاف بغاوت کر کے اپنے حق کی لڑائی غیر قانونی طریقے سے لڑتے ہیں۔کیونکہ انھیں ان کا حق قانونی طریقے سے نہیں ملتا ہے ۔مانجھی جیسے کردار ناول میں اسی مومنٹ کی نمائندگی کرتے ہیں۔نکسل مومنٹ کب ،کیوں اور کیسے وجود میں آیا ؟ایک عام سیدھا سادہ آدمی اس مومنٹ سے کیسے جڑ تا ہے اور کیوں جڑتا ہے اس کے در پردہ کون سا جذبہ کارفرما نظر آتا ہے ۔یہ سب ناول کی مکمل قرأت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔دلت اور نکسل مومنٹ کے مسائل پر اب تک کسی نے کھل کر نہیں لکھا ہے۔اکیسویں صدی کا یہ پہلا ناول ہے جس میں اس موضوع پر کھل کر اظہار خیال کیا گیا ہے اور اس کے اسباب اور وجوہات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔جس طرح الیاس احمد گدی نے کول فیلڈ کو موضوع بنا کر اس کی معاشرتی زندگی کو زندہ و جاوید بنا دیا ۔اسی طرح صغیر نے بھی دلتوں اور نکسلیوں کے مسائل اور مباحث کو اٹھا کر ان کی المیاتی کیفیت کا منظر نامہ پیش کر کے ان کے سماجی ،تہذیبی اور ثقافتی صورتحال کو زندہ و جاوید بنا دیاہے۔ یہ ناول صرف دلت ڈسکورس کا ہی حصہ نہیں ہے اور نہ صرف دلتوں کے جذبات و احساسات کی عکاسی کرتا ہے بلکہ یہ ہر اس مظلوم انسان کی کہانی ہے جسے سماج اور معاشرے میں خس و خاشاک کی حیثیت حاصل ہے۔یہ ان تما م مفلوک الحال اور دھتکارے ہوئے لوگوں کی زندگی کے خوفناک المیے کو نہ صرف پیش کرتا ہے بلکہ سماجی اور ثقافتی طور پر ہم جس ذات پات کے نظام اور طبقوں میں بنٹے ہوئے ہیں یہ ان سب کا کھلا اظہاریہ ہے۔یہ ناول ایک طرح سے ہمارے سماج اور معاشرے کے دلت ،پسماندہ،اور استحصال شدہ عوام کی آواز ہے جسے صغیر نے اس ناول کے ذریعہ اٹھاکر حکومت وقت کے کان میں صور پھونکنے کا کام کیا ہے۔ اس ناول کو پڑھتے ہوئے اس بات کا بار بار احساس ہوا اور یہ سوال ذہن میں گردش کرنے لگا کہ لوگوں نے سماج اور معاشرے کو ذات پات میں کیوں تقسیم کر رکھا ہے؟یہ ادنی ٰ اور اعلیٰ طبقوں میں کیوں بٹے ہوئے ہیں ؟اس تقسیم اور بٹنے کے کیا فائدے ہیں؟ان سوالوں کے جوابات ہمیں اس ناول کو پڑھتے ہوئے ملتے چلے گئے ۔وہ اس طرح سے کہ جوسماج یا معاشرہ کسی ذات پات یا ادنیٰ و اعلیٰ میں بٹ جاتا ہے ایسے سماج اور معاشرے میں وہ لوگ جنھیں کچھ مراعات حاصل ہوتی ہیں وہ لوگ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ جو عدم مساوات کا فرق ہے وہ باقی رہے۔اس کے لئے ایسا سیاسی نظام تشکیل دیا جاتا ہے کہ جس میں دبے کچلے اور پسماندہ طبقے حکومت اور اقتدار سے ہمیشہ باہر رہیں اور مجبور ہوکر اہل حکومت اوراہل اقتدار کے ہاتھوں مسلسل استحصال کا شکار ہوتے رہیں ۔جیسا کہ اس ناول میں ٹینگر،بلایتی،اگھورن،اور دیگر کردار پنڈت کاناتیواری کے ہاتھوں مسلسل استحصال کا شکار ہوئے۔دوسری صورت یہ سمجھ میں آئی کہ ایسے کرداروں کو معاشی طور پر ہمیشہ پسماندہ ہی رکھا جائے تاکہ یہ لوگ پنڈت کانا تیواری جیسے افراد کے ہمیشہ محتاج رہیں اور معاشی مجبوری اور تنگ دستی کے نتیجے میں ہمیشہ برہمنوں،جاگیرداروں اور زمینداروں کے شکر گزار رہیں اور ان کے تئیں ان کی وفاداری بھی قائم رہے۔اس تقسیم اورفرق کو مزید گہرا کرنے کے لئے تیسری اور اہم چیز سماجی اور ثقافتی قدریں اور روایات ہوتی ہیں جو کہ روز مرہ کی زندگی میں نچلے طبقوں اور پسماندہ طبقوں کو یاد دلاتی رہتی ہیںکہ سماج نے ان کے لیے جو جگہ مقرر کر دی ہے وہ وہیں پر قائم رہیںاور خود کو ذہنی طور پر اس نچلی حیثیت کے لیے ہمیشہ تیار رکھیں۔چنانچہ ہندوستان میں شودروںاور اچھوتوں کے لیے یہ سماجی اور ثقافتی روایات کا حصہ بن گئیںجس کا ذکر صغیر نے ناول میں کیا ہے۔ صغیر نے ناول کا تانا بانا جن دلت اور برہمن کرداروں کے ذریعہ بُنا ہے انھیں کے ذریعہ سیاسی ریشہ دوانیوں،پنچایتی رسہ کشی،صاحب اقتدار کی ہوسناکیوں،ان کی بے ایمانی، رشوت ستانی، اور مکر و فریب کے ساتھ ان پر صاحب اقتدار اور اونچی ذات کے اثر و رسوخ اور ظلم و زیادتی کا بر ملا اظہار بھی کیا ہے۔اس ناول میں اگر مرکزی کردار کی بات کی جائے تو کسی ایک کردار کو مرکزی نہیں کہہ سکتے۔کئی کردار مرکزی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ابتدائی صفحات میں مرکزی کردار بلایتی اور ٹینگر کا نظر آتا ہے لیکن جیسے جیسے ناول آگے بڑھتا ہے ٹینگر مرکزی دھارے سے کٹ جاتا ہے اور اس کی جگہ پنڈت کانا تیواری مرکز میں آجاتا ہے۔پنڈت کانا تیواری کا کردار شروع سے آخر تک ناول پر چھایا رہتا ہے۔پنچایتی الیکشن سے قبل پنڈت کا کردار ایک برہمن دھرم گرو کے طور پر آتا ہے ۔الیکشن کے دوران وہ دھرم گرو اور پنڈت کے بجائے ایک چال باز سیاست داں کے طور پر سامنے آتا ہے اور اپنی چال بازیوں سے الیکشن جیتنے کے بعد ایک ظالم و جابر حکمراںکے طور پر سامنے آتا ہے۔اس طرح سے پنڈت کا کردار ایک طرح سے مرکزی کردار کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔پنڈت کے بالمقابل دوسرا مرکزی کردار بلایتی کا ہے جو دلت ہونے کے ساتھ ایک ماہر گائنولوجسٹ کے طور پر سامنے آتی ہے ۔گائنو لوجسٹ میں نے اس لیے کہا ہے کیونکہ پورے گائوں میں وہی ایک ایسی عورت ہے جو’کرنی‘یعنی زچہ بچہ پیدا کرانے میں ماہر ہے۔تیسرا اہم مرکزی کردار مانجھی کا ہے۔یہ شروع سے درمیانی حصے تک ایک پُر اسرا کردار کے طور پر سامنے آتا ہے ۔اس کی پُر اسراریت اس وقت سے ظاہر ہونی شروع ہوتی ہے جب بی ڈی او صاحب کے ذریعہ گائوں کی غیر مزروعہ سرکاری زمین دلتوں میں تقسیم کی جاتی ہے اور اس زمین کے کاغذات انھیں سونپ دیے جاتے ہیں لیکن ان لوگوں کو اپنی زمین پر قبضہ نہیں ملتاہے۔قبضہ نہ ملنے کی صورت میں وہ نکسل مومنٹ سے جڑکر اس پر قبضہ کرنے اور قبضہ دلوانے کے لیے ہر طرح کے غیر قانونی حربے استعمال کرتا ہے اوربرہمنی و حکومتی نظام کے خلاف اعلانیہ بغاوت کرکے مرکزی کردار میں شامل ہوجاتا ہے۔اس طرح اس ناول میں تین مرکزی کردار قرار دیے جا سکتے ہیں۔بقیہ تمام کردار انھیں کرداروں کے ارد گر د چکر لگاتے ہیں اور ناول کو آگے بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔صغیر رحمانی کا یہ ناول الیاس احمد گدی کے ناول ’فائر ایریا‘ کی طرح ایک علاقائی ناول ہے۔گدی نے اپنے ناول میں بہار کے ایک علاقے ’جھریا‘ کے کول فیلڈ میں کام کرنے والے مزدوروں کی زندگی کی عکاسی کی ہے تو صغیر نے اپنے ناول میں ’بھبن گاواں ‘ کے ’چمار ٹولی‘ اور’ دسادھ ٹولی‘ کے زمیندار ،براہمن اور دلت طبقوں کی زندگی کا کچا چٹھا پیش کیا ہے اور اس ناول کے ذریعہ یہ سوال قائم کیا ہے کہ آخر دلتوں کی زندگی کو ابتر درجہ تک پہنچانے میں کس نظام کا عمل دخل ہے؟برہمنی نظام کا؟یا زمیندارانہ اور جاگیردارانہ نظام کا؟یا مذہب کا عمل دخل زیادہ ہے؟ان سوالوں کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان تینوں نظام نے مل کر انسان کو مختلف طبقوں میں بانٹ دیا ہے جن کی زندگی اور اعمال دوسرے طبقوں کے اعمال سے مختلف ہیں۔اس نظام نے سب سے زیادہ نقصان یا استحصال پسماندہ طبقے یا دلت طبقے کا کیا۔ کیونکہ پنڈت کانا تیواری جو برہمنی نظام کا نمائندہ کردار ہے ۔اس نے دلت طبقے کا جس طرح استحصال کیا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔چونکہ پنڈت کانا تیواری ہر ہفتے مذہب ، سماج اور دیگر امور پر وعظ و نصیحت کیا کرتا تھا اور لوگوں کو ان کی حیثیت،ان کامقام، ان کی وقعت اور سماج میں ان کے کیا کیا امور ہیں سب پر تفصیل سے روشنی ڈالتا تھا اور خود مذہب کی آڑ میں ہر طرح کے اعمال کرتا تھا۔ پنڈت کانا تیواری کے مطابق سماج اور معاشرے میں جو اشانتی پھیلی ہوئی ہے اور دھرم پرجو سنکٹ منڈلا رہا ہے وہ سب اس وجہ سے ہے کہ دلت طبقہ یا شودر براہمن کی برابری کرنے لگا ہے اس ضمن میں ناول کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:’’برہما نے مکھ سے برہمن،بازو سے کشتریہ،نابھ(ناف)سے ویشے اور پیروں سے شودر پیدا کیے۔اسی طرح ان کے کاریے بھی طے کئے گئے ۔وید پڑھنا ،یگ کرانا اور دان لینا دینا براہمنوں کے لئے۔پرجا کی رکشا کرنا،دان دینا یگ کرنا اور وید پڑھنا کشتریوں کے لیے۔پشو پالنا،دان دینا ،وید پڑھنا اور ویا پار کرنا ویشیوں کے لیے۔اور ان تینوں ورنوں کی بنا حیل حجت سیوا(خدمت) کرنا شودروں کے پردھان کاریہ(اہم کام)ہیں۔جب یہ کام ان کی سیما میں رہ کر نہیں ہوتے تو دھرم پر سنکٹ آتا ہے اور جب دھرم پر سنکٹ آتا ہے تو اس سے سماج بھی اچھوتا نہیں رہتا۔آج سماج میں اتنی اشانتی کیوں ہے؟اس کی وجہ یہی ہے کہ ورنوں کے ذریعے ان کے نردھارت(طے شدہ)کاریہ ان کی نردھارت سیما کے اندر نہیں کیے جا رہے ہیں۔شودر ،براہمن کی برابری کرنے لگے ہیں اور ویشے کشتریوں کی ۔ایسی حالت میں اراجکتا (افرا تفری) پھیلے گی ہی۔دھرم کے مان ڈنڈ (پیمانا) ٹوٹیں گے ہی اور جب یہ مان ڈنڈ ٹوٹیں گے تو سماج کا استیتو (وجود) بکھر جائے گا۔سارا کچھ سماپت ہو جائے گا۔۔۔۔‘‘ (تخم خوں:ص:183) مذکورہ اقتباس کے مطالعے سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ سماج میں جتنے بھی مسائل جنم لے رہے ہیں ان کا واحد سبب مذہبی اصول و قوانین پر عمل نہ کرنا ہے۔اگر سب مذہب کے بتائے ہوئے اصولوں کی پیروی کرتے تو سماج میں اس طرح کے مسائل جنم نہیں لیتے۔اسلامی نقطہ نظر سے یہ بات بے بنیاد ہے کیونکہ اسلام میں سب برابر ہیں یہاں اونچ نیچ اور طبقوں میں بٹنے کا تصور نہیں ہے۔یہ سارے عقیدے ہندئوں کے نزدیک صحیح ہیں جن کا ذکر مذکورہ اقتباس میں ہوا ہے۔انھیں عقائد کی بحالی کے نتیجے میں آج سماج میں دلتوں اور تیسرے درجہ کے شہریوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا جاتا ہے اور اس کو صحیح ٹھہرایا جاتا ہے۔ذات پات کی تقسیم کے علاوہ ہندو مذہب میںایک اور پرتھا کا چلن ہے جسے ’نیوگ‘ کہتے ہیں۔اس پرتھا کا ذکر ناول نگار نے تفصیل سے کیا ہے ۔اس رسم کے مطابق وہ شادی شدہ عورت جسے بچے پیدا نہ ہو رہے ہوں تو وہ کسی بھی براہمن سے نیوگ رسم کے مطابق اس سے جسمانی تعلقات قائم کر سکتی ہے ۔لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ وہ اس کے شوہر کے گھر میں ہی اس رسم کو انجام دینا ہوگا ۔اس رسم کے تحت وہ کم ازکم دس بچے پیدا کر سکتی ہے۔اس رسم کے مطابق نیوگ کرانے والی عورت براہمن نہ ہو بلکہ نچلی اور دلت ذات سے ہو اور نیوگ کرنے والا صرف براہمن ہی ہو سکتا ہے۔زمانہ قدیم میں ہندومذہب میں مرد اور عورت کے جسمانی تعلقات کس حد تک بے روک ٹوک تھے خاص طور سے نچلی ذاتوں میں،اور نیوگ پرتھا کا پرچلن کس طرح تھا پنڈت کا نا تیواری کے لفظوں میں ملاحظہ کیجیے:’’پراچین کال(زمانہ قدیم)میںنراورناری(مردوزن)کے سمبندھ یعنی یون سمبندھ (جسمانی تعلقات) سو چھند(بے روک ٹوک )تھے۔سماج میں ان کا ویوہار(رواج) اور چرچا بھی عام تھا۔استری اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی پرش کے ساتھ سمبندھ بنا سکتی تھی۔ان پر کوئی دوش نہیں لگتا تھا اور نہ ہی ان کے ساتھ ویبھیچار کرنے والے(ناجائز تعلقات بنانے والے)مہاتما کو پاپی مانا جاتا تھا۔اس کال میں استری اور پرش کے بیچ یون سمبندھ استھاپت ہونے کے لیے یا سنتان پیدا کرنے کے لیے ’وواح سنستھا ‘ ضروری نہیں تھی۔کسی بھی طریقے سے سنتان پیدا کی جا سکتی تھی۔ویدک وواح کافی حد تک خود کی مرضی کے کھیل تھے۔‘‘’’اسی طرح اس کال میں ’نیوگ‘ پرتھا (اولاد پیدا کرنے کے لیے کسی دوسرے سے تخم پاشی کرانا )کا بھی پر چلن(رواج) ہوا کرتاتھا۔براہمنوں کے ذریعے راج ونشوں اور دوسرے سمردھ پریواروں (عالی خاندان) میں سنتان اتپتی کے لیے(اولاد پیدا کرنے کے لیے)جو ویریہ دان(تخم پاشی )کرایا جاتا تھا،اسے نیوگ کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔جہاں پرش ایوگیہ(نا اہل) ہوتا تھا ،ان ستھتیوں (حالات)کا سامنا کرنے کے لیے نیوگ پرتھا کاپرچلن ہوا۔شریسٹھتا کے آدھار پر(خصوصیت کی بنیاد پر) براہمن نیوگ کے لیے نردھارت(مقرر) ہوتا اور اسے بدلے میںدھن بھی دیا جاتا۔نیوگ چاہنے والا ویکتی اپنی استری کو نردھارت براہمن کے پاس بھیجتا جس سے سنتان پیدا ہوتی۔۔۔‘‘ (تخم خوں:ص:179.80.81)مذکورہ اقتباس تانیثی نقطہ نظر سے بے حد اہم ہے اور کئی سوالات قائم کر رہا ہے۔نیوگ پرتھا کو خواتین کس نظریے سے دیکھتی ہیں۔کیا یہ ان کے نزدیک درست ہے؟برہمن عورت نیوگ کیوں نہیں کرا سکتی؟یہ دلت خواتین کے لیے ہی کیوں مخصوص ہے؟صرف برہمن کو ہی یہ حق کیوں حاصل ہے کسی دلت کو کیوں نہیں؟کیا جسمانی تعلقات عورت بلا روک ٹوک کسی سے بھی قائم کر سکتی ہے جیسا کہ پراچین کال میں ہوتا تھا؟اگر ایسا ہے تو Live in Relationship کو ہمارا سماج اور معاشرہ کیوں بری نگاہ سے دیکھتا ہے اور اسے معیوب سمجھتا ہے؟کیا تانیثیت اس پرتھا کے چلن کو عام کرنا چاہتی ہے؟یا ایسے پرتھا کی پرزور مخالفت کرتی ہے؟ہندو مذہب میں ایسی کئی پرتھائیں ہیںجن میں عورتوں کے استحصال کو روا رکھا گیا ہے۔ تانیثیت کے علمبرداروں کوایسے سوالات بھی اٹھانا چاہیے جو ان کی ذات پر سوالیہ نشان قائم کرتے ہیں۔ اس ناول کو پڑھتے ہوئے در اصل اپنے بچپن کے وہ سارے واقعات یکے بعد دیگرے جو لاشعور کا حصہ بن چکے تھے اور جن سے اب بہت کم واسطہ پڑتا ہے سب آنکھوں کے سامنے پھرنے لگے اور پڑھتے ہوئے اپنے ماضی کے ان لمحوں کو یاد کرنے لگا جب ٹینگر اور بلایتی جیسے کردار ہمارے گھر،کھیت،کھلیان،باغات ، گائے بیل اور بھینسوں کے کھانے پینے ،کتائی ،گڑائی،سینچائی ،نکائی ،اور لیپا پوتی کا کام انجام دیا کرتے تھے۔صبح سے شام تک سارے کام بحسن و خوبی انجام دے کر شام کو جب گھر پر آتے تھے اور مالک کے سامنے یہ جملہ دہراتے تھے کہ ’مالک سب کام ہوگیا‘اس پر مالک کا اینٹھ کر کہنا کہ’ ارے ٹینگرا تم نے وہ کام کیوں نہیں کیا‘اس پر ٹینگر کا خاموش رہنا اور مالک کے سامنے سر جھکا لینا گویا اپنی غلطی کا اعتراف کرنا تھا۔حالانکہ کوئی کام باقی نہیں رہتا تھاسب کام وقت پر ہوجایاکرتا تھا۔ اس وقت لگتا تھا یہ سب کچھ درست ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے ،لیکن آج جب اس ناول کو پڑھ رہا ہوں تو لگتا ہے کہ لوگوں نے بہت ظلم کیا ہے۔ اب اس ظلم کے خلاف آواز اٹھنی چاہیے۔چنانچہ صغیر نے اس ظلم اور استحصال کے خلاف پہلی آواز بلند کی ہے جو لائق ستائش ہے۔ ہندو معاشرے میں ایک بری رسم یہ بھی تھی کہ برہمن پتر خواہ سارے عیبوں سے بھرا ہوا ہو مگر سماج میں اس کا مقام دیوتا کا ہی ہوتا ہے،اس میں بڑے اور چھوٹے کی کوئی تمیز نہیں تھی۔ مالک کا بیٹا یا برہمن کا بیٹا چاہے عمر میں بڑا ہو یا چھوٹا وہ نیچی ذات والوں کے لیے مالک ہی ہوتا تھا۔جیسا کہ صغیر نے پنڈت کانا تیواری کے بیٹے من جی باباکے حوالے سے اس پرَتھَاکو واضح کیا ہے اور یہ بھی بتایا کہ مالکوں کی زندگی کے بیشتر امور نچلی ذات کے کارندوں پر ہی منحصر ہوا کرتی تھی ،چھوٹے سے چھوٹا یا بڑے سے بڑا جو بھی کام ہو وہ سب یہی کیا کرتے تھے اور مالک انھیں اس کا اتناہی اجر دیتے تھے جس سے ان کے دو وقت کاچولہا جل سکے اور پیٹ کی آگ کو بجھا سکیں ،اسی لیے وہ اپنے مالکوں کے لیے جی جان کی بازی لگا دیا کرتے تھے کیونکہ یہ تصور عام تھا کہ یہی لوگ ہمرے مائی باپ اور پالنہارہیں ان کے کسی بھی حکم کو ٹھکرانا مذہبی اور سماجی دونوں نقطہ نظر سے اپنے آپ کو نَرک میں ڈالنا ہے کیونکہ دونوں اعتبار سے یہ ہمارے آقا ہیں ۔ جیسا کہ صغیر نے پنڈت کانا تیواری کے مختلف اشلوکوں سے اس بات کو واضح کیا ہے۔ پنڈت کے استحصالی اشلوک کا ارتھ ملاحظہ کیجیے:’’۔۔۔جنم لیتے ہی براہمن پرتھوی پر شریسٹھ ہے کیونکہ وہ دھرم کی رکچھا کر سکتا ہے۔پرتھوی پر جو کچھ بھی ہے وہ سب کچھ برہمن کا ہے۔برہما کے کوکھ سے اتپن تتھا کلین ہونے کی وجہ سے وہ پرتھوی پر کے سارے دھن کا ادھیکاری ہے اور دوسرے سارے لوگ براہمن کی دیا کی وجہ سے سبھی چیزوں کا بھوگ کرتے ہیں۔اگر براہمن نندت کرموں میں لگا ہوا ہو تو بھی ہر طرح سے پوجنے کے قابل ہے کیونکہ براہمن سب سے اتّم دیوتا ہے۔۔۔۔‘‘’’ویسر بدھ برہمخ شودرا ددیو یوپادانم چریتنہ ہی تسیاستی کنچت سوم مر تر ہار یہ دھنو ہی س۔۔۔اس کا ارتھ ہوا کہ براہمن کے لیے اچت ہے کہ وہ شودر کا دھن بنا کسی بھئے یا سنکوچ کے لے لے۔۔۔۔کیونکہ شودر کا اپنا کچھ بھی نہیں ہے۔اس کا دھن اس کے مالک کے دوارا حرن کرنے کے قابل ہے۔۔۔‘‘ (تخم خوں:ص:110-11)مذکورہ دونوں اقتباسات سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ برہمنی نظام میں دلتوں اور پچھڑے ہوئوں کا ہر طرح سے استحصال کرنا ان کامذہبی حق ہے۔اسی لیے آج بھی دلتوںکے ساتھ جو بھی ظلم و زیادتی کی جاتی ہے اس کے در پردہ یہی نظام کار فر ما نظر آتا ہے۔اس نظام نے کس کس ڈھنگ سے دلتوں کا استحصال کیا یہ سب صغیر کے ناول ’تخم خوں‘ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔کیونکہ صغیر نے اس میں جتنی پرتھائوں کا ذکر کیا ہے وہ سب مبنی بر حقیقت ہیں ،اس میں کسی طرح کی مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا گیا ہے اور نہ ہی کسی تخیلی حقیقت کی منظر کشی کی ہے ۔اس میں سارے کردار ،مناظر،مسائل حقیقی ہیں اور ہماری ذاتی زندگی سے جڑی ہوئی کریہہحقائق کی عکاس ہیں۔اس ضمن میں یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے جس میں مصنف نے دلت طبقے کی زندگی اورغربت و افلاس کا ایسا منظر پیش کیا ہے جسے پڑھ کر ان کی حالت زار کی تصویر ہوبہو آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگتی ہے:’’دروازے پر کھڑا ٹینگر اوپرتک بھیگی ہوئی اپنی دیواروں کو دیکھ رہا تھا۔دو دنوں سے وہ گھر میں مقید تھا،باہر نہیں نکلا تھا بلکہ لگاتار ہورہی بارش کے سبب نکل ہی نہ سکا تھا۔اس کے گھر سے دو گھر بعد رام کشن کا گھر تھا۔رام کشن کا گھر گر گیا تھا۔عجیب لگ رہا تھا،دیوار سمیت پورا چھپر بیٹھا ہوا۔بانس بلے ادھر ادھر لٹک رہے تھے۔چھپر کا موٹا،دھوئیں سے کالا پڑچکا’دھرن‘ چھپر کے درمیان سے باہر نکل کر اس طرح غصے میں کھڑا تھا گویا اپنے آپ کو آسمان میں پیل دینا چاہتا ہو۔دیوار کی مٹی گلاوا بن گئی تھی،چھپر کا کھپرا نریا چاروں جانب بکھر گئے تھے۔چھپر کے نیچے نریا،کھپڑوں،بانس بلوں کے نیچے سے رام کشن کے گھر کی اشیاء دکھائی دے رہی تھی۔کھٹیا،برتن،کپڑے،بکسا۔۔۔سب کیچڑ میں لت پت،پوری تھاتھی،تنکا تنکا کر جٹائی گئی پوری گرہستی ،بانس بلوں اور کیچڑ میں مدفن تھی۔‘‘ (تخم خوں:ص:129) مذکورہ اقتباس گائوں دیہات کے پسماندہ ،دلت اور مفلوک الحال انسانوں کے گھروں کی بے رحم حقیقت کا کھلا اظہار ہے۔اس طرح کا اظہار ناول میں جگہ جگہ ہوا ہے جس کو مصنف نے بے کم و کاست بیان کیا ہے۔مذکورہ اقتباس کی روشنی میں جب ہم مصنف کے اسلوب اور زبان و بیان پر نگاہ ڈالتے ہیں تو یہ اندازہ لگانے میں ذرا بھی دشواری نہیں ہوتی کہ اس ناول میں اسلوبیاتی سطح پر کسی طرح کا تخلیقی رچائو نہیں ہے۔زبان و بیان بالکل عام اورسادہ ہے۔ اس میںمقامی بولیوں کے رنگ و آہنگ کی کثرت ہے۔سارا واقعہ دیدنی و شنیدنی ہے اس لیے اس میں فکری عنصر کا فقدان ہے۔تشبیہات و استعارات کا استعمال کہیں ہوا بھی ہے تو بالکل بھونڈے انداز میں۔کہیں کہیں ہلکے پھلکے طنزیہ اسلوب سے بھی کام لیا گیا ہے۔ راوی کے زبان میںوبیان میں بھوجپوری کے مکمل اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔سبھی کرداروں کی زبان ،مکالمے بھوجپوری ہیں بطور نمونہ ایک مکالمہ ملاحظہ ہو:’’کا ہودھرچھن بھیا،کا حال چال ہے؟،’ٹھیکے ہے بھیا‘اپنا کہو،سب ٹھیک ٹھاک ہے نا؟‘’ہاں ٹھیکے ہے‘ ٹینگر جمائی لیتا ہوا بولا۔’چاہ پیو گے‘’ہاں پلائو‘۔آج تو سسرا چاہ پر ہی دن کٹے گا۔‘’کاہے،گھر والی روٹی سوٹی نہیں دی ہے کا؟‘ٹینگر سے کچھ کہتے نہیں بنا،چپ رہا۔’سانجھ کا بھابھرا بچا ہوا ہے،کہو تو ایک آدھ گو دیں؟‘ تخم خوں:ص:31اس طرح کے مکالماتی زبان سے وہی قاری لطف اندوز ہوسکتا ہے جو گائوں کی زندگی وہاں کے رہن سہن،طور طریقے،بولی ٹھولی،محاورات،ضرب الامثال اور مقامی اصطلاحات سے بخوبی واقف ہو ورنہ زبان و بیان اور فکر دونوں سطح پر بری طرح مجروح ہوگا،کیونکہ ان سب کی عدم واقفیت سے پوری طرح حظ نہیں اٹھا سکتا۔اس میں جس طرح کے ڈکشن کا استعمال ہوا ہے وہ سب خالص مقامی ہیں مثلاًپموریے، لٹی چوکھا، چانپا کل، چنوٹی، کھینی، اڑھکانا، لانگھ، نادوں،،سانی،بھوسی،کھوپ،ٹٹی، نیٹا، سکھوتھا، بھانٹری، کرنی، اوہار، چکے مکے، اوپلے، اوسارا، سوہنی، اوہرن، لیدرا، گانتی وغیرہ ایسی لفظیات ہیں جو شہری زندگی میں نا پید ہیں ۔ان کے لیے ان لفظیات کے معانی و مطالب سمجھنا قدرے دشوار ہے ۔اس طرح کی اور بھی بہت ساری لفظیات ہیںجس کو ناول نگار نے کرداروں کی مناسبت اور ان کے حسب حال پیش کیا ہے۔کرداروں کی زبان اور ان کے مکالمے سب اپنی جگہ بر محل اور چست ہیں۔ان کے زبان و بیان اور مکالمے سے ان کی مظلومیت کی کراہ سنائی دیتی ہے۔یہ ناول زبان و بیان اور اسلوب کے اعتبار سے اگرچہ مقامی رنگ و آہنگ لیے ہوئے ہے لیکن اپنے موضوع کے اعتبار سے آفاقی ناول کی حیثیت رکھتا ہے۔آفاقی ان معنوں میں کہ آج پوری دنیا دہشت گرد، اگرواد، آتنگ واد، نکسلائٹ کو لے کر جس طرح پریشان ہے اور ان کے خاتمے کے لیے مشنریاں ہر ممکن کوشش میں لگی ہوئی ہیںکہ آخر ان سے کیسے نمٹا جائے ۔اس فکر کے اعتبار سے یہ آفاقی حیثیت اختیار کرجاتا ہے۔مختصر یہ کہ صغیر رحمانی کے اس ناول کو نئے انداز، نئے اسلوب، نئے لہجے،نئے موضوع، اور نئی ڈکشن کے ساتھ وسیع کینوس کا ناول قرار دیا جاسکتا ہے۔
٭٭٭٭

Leave a Reply
Be the First to Comment!