غالب کا تصورِ شہر اور دلی (اردو شاعری کی روشنی میں

تخلیقی ادب میں عموماً اور غزلیہ شاعری میں خصوصاً یہ ضروری نہیں ہے کہ شاعر غزل میں جس امر کا اظہار کرے وہ اس کی اپنی فکر کا نتیجہ ہوں، یا وہ اس کے ذاتی تجربات اور احساسات کا اظہار ہوں۔ کئی بار شاعر دوسروں کے تجربات و احساسات کو بھی بیان کرتا ہے اور کبھی کبھی وہ روایتی مضامین کو رسماً بیان کرتا ہے اور اپنے تخیل سے اس میں نیا مضمون پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ غزل کا شاعر جن خیالات یا احساسات کا بیان کرتا ہے، اس کا اس کی زندگی یا حقیقت سے بالکل ہی کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ در اصل شاعر سامنے کی حقیقت کو اپنے تخیل کی آمیزش سے ایک نئی حقیقت کی تخلیق کرتا ہے۔
اس موضوع پر غور کرتے وقت جو سوال سب سے پہلے ذہن میں ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا غالب کے ذہن میں شہر کا کوئی منظم تصور تھا؟ اور اگرمنظم نہ سہی تو غیر منظم ہی سہی کیا ان کے ذہن میں شہرسے وابستہ کوئی تصور تھا؟ یا شہر کے تئیں ان کی شاعری بالکل خاموش ہے؟ ان سوالوں کے جواب کے لیے جب ہم غالب کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو کئی ایسے اشعار نظر آتے ہیں جن میں شہر اور بستی جیسے الفاظ کا براہِ راست استعمال ہوا ہے۔ جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ غالب کی اردو شاعری شہر کے تئیں بالکل خاموش نہیں ہے اور ان کے ذہن میں شہر کا کوئی تصور ضرور رہا ہوگا اب یہ منظم تھا یا غیر منظم اس کا اندازہ مزید مطالعہ سے ہی ہوگا۔ مندرجہ ذیل اشعار میں براہ راست شہر یا بستی کا لفظ آیا ہے۔ ؂
قیس بھاگا شہر سے شرمندہ ہو کر سوئے دشت
بن گیا تقلید سے میری یہ سودائی عبث
آتشِ افروزیِ یک شعلۂ ایماں مجھ سے
چشمک آرائیِ صد شہرِ چراغاں مجھ سے
عالم طلسمِ شہرِخموشاں ہے سر بسر
یا میں غریبِ کشورِ گفت و شنود تھا
اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِ آرزو
توڑا جو تونے آئینہ تمثال دار تھا
ہوا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنا شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم، جب اٹھیں گے
لے آئیں گے بازار سے جاکر دل و جاں اور
یوں ہی گر روتا رہا غالب، تو اے اہلِ جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ وایراں ہو گئیں
الجھتے ہو تم، اگر دیکھتے ہو آئینہ
جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیونکر ہو
روز اس شہر میں اک حکم نیا ہوتا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہوتا ہے
ان اشعار میں کہیں شہر کے کسی واقعہ کا ذکر ہے، کہیں کسی شہرِ چراغاں، شہرِ خموشاں، شہرِ آرزو وغیرہ کا ذکر ہے، کہیں شہر میں اپنی آبرو کا ذکر ہے لیکن کہیں بھی شہر کیا ہوتا ہے؟ شہر کا ان کے ذہن میں کیا تصور ہے؟ اور شہر سے ان کی کیا توقعات ہیں اس بات کا براہِ راست اظہار کہیں نہیں کیا گیا ہے۔ اس طرح یہ ثابت ہوتا ہے کہ غالب کے ذہن میں شہر کا کوئی منظم تصور نہیں تھا یا اگر ہوگا بھی تو کم از کم انھوں نے اردو شاعری میں اس کا اظہار نہیں کیا ہے۔ لیکن مندرجہ بالا اشعار کی روشنی میں یہ بات بھی کہی جا شکتی ہے کہ غالب کی شاعری میں منظم نہ سہی لیکن شہر کا کوئی تصور ضرور تھا اور اس کا انھوں نے اپنی شاعری میں اظہار بھی کیا ہے اگر ان جستہ جستہ خیالات کو جوڑا جائے تو ممکن ہے ایک صورت بھی بن جائے۔ پہلا شعر ہے۔ ؂
قیس بھاگا شہر سے شرمندہ ہو کر سوئے دشت
بن گیا تقلید سے میری یہ سودائی عبث
اس شعر میں ’تقلید سے میری‘ میں جو بلیغ اشاریت ہے اور جو دوسری شعری خصوصیات ہیں میں ان سب کو نظر انداز کرکے صرف اپنے موضوع تک محدود رہوں گا۔ قیس کا شرمندہ ہو کر شہر سے بھاگنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شہر میں شرمندہ ہوکر نہیں رہا جا سکتا یعنی شہر ایک ایسی جگہ ہے جس میں با شرم یا باحیا لوگ ہی رہا کرتے ہیں اور دوسرے مصرعے سے پتہ چلتا ہے کہ شہر دیوانوں کے رہنے کی جگہ نہیں ہے یعنی وہاں ذی ہوش لوگ ہی رہتے ہیں۔ اس طرح اس شعر سے غالب کا شہر کے تئیں یہ تصور ابھرتا ہے کہ شہر ایک ایسی جگہ ہے جہاں با حیا اور ذی شعور لوگ ہی رہا کرتے ہیں۔ غالب کا ایک دوسرا شعر اس مضمون کو آگے بڑھاتا ہے اور میرے اخذ کیے نتیجے کی تائید بھی کرتا ہے۔ ؂
ہر یک مکان کو ہے مکیں سے شرف، اسد
مجنوں جو مر گیا تو جنگل اداس ہے
اس شعر میں مکان سے مراد اینٹ گارے سے بنا مکان نہیں بلکہ رہنے کی جگہ ہے۔ وہ مکان، شہر اور ملک کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی رہنے کی جگہ کو فخر اس کے رہنے والوں سے حاصل ہوتا ہے اور جنگل کو مجنوں پے فخر تھا اسی لیے وہ مجنوں کی موت پر اداس ہے۔ یہاں قابل ِ غور بات یہ ہے کہ دوسرے شعر میں مجنوں ہے جب کہ پہلے شعر میں قیس آیا ہے جب کہ دونوں لفظ ایک ہی شخص کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ اور صحیح بھی ہے کہ قیس کے مرنے پر جنگل کو اداسی نہیں ہو سکتی ہے اسے تو مجنوں کے مرنے پر ہی اداسی ہو سکتی ہے۔ اس طرح جنگل مجنوں کے رہنے کی جگہ ٹھہری اور شہر ذی شعور لوگوں کے رہنے کی۔ شعر نمبر دوم، سوم و چہارم اس طرح ہیں۔ ؂
آتشِ افروزیِ یک شعلۂ ایماں مجھ سے
چشمک آرائیِ صد شہرِ چراغاں مجھ سے
عالم طلسمِ شہرِخموشاں ہے سر بسر
یا میں غریبِ کشورِ گفت و شنود تھا
اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِ آرزو
توڑا جو تونے آئینہ تمثال دار تھا
ان ا شعار سے غالب کا کوئی تصورِ شہر تو واضح نہیں ہوتا البتہ دوسرے شعر میں کسی چراغاں شہر کا ذکر ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چراغاں ہونا شہر کی ایک صفت ہے۔ اور چراغاں یعنی روشنی سے بھر پور ہونا زندگی کی مثبت قدروں کا استعارہ ہے۔ اس طرح یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ زندگی کی مثبت قدریں شہر کی صفت ہوتی ہے۔ تیسرے شعر میں شہرِ خموشاں آیا ہے یہ لفظ دراصل قبرستان کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح یہ ثابت ہوتا ہے کہ شہر کے لیے گفت و شنود ضروری ہے اور اس کی غیر موجودگی میں شہر قبرستان ہو جاتا ہے۔ چوتھے شعر میں شہرِ آرزو ہے۔ یہ شعر ایک مثالی یا آرزوؤں کے شہر کی طرف اشارہ کرتا ہے دوسرے مصرعے میں تمثال دار آئینہ در اصل شہرِ آرزو ہی ہے۔ اس شعر میں مثالی یا آرزوؤں کے شہر کی بات تو ہے لیکن وہ کیسا ہوگا؟ اس کی کوئی تفصیل نہیں ہے۔ پانچوا شعر ہے۔
ہوا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنا شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
اس شعر میں غالب اپنے آپ کو بادشاہ کا مصاحب بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اسی لیے شہر میں اتراتا پھر رہا ہوں اور باآبرو ہوں کیوں کہ میں بادشاہ کا مصاحب ہوں۔ اور شہر میں با آبرو ہونا بڑے فخر کی بات ہے۔ یہ اس شعر کے روایتی معنی ہیں اور ایک طرح سے قصیدہ کا شعر محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اس شعر میں ایک شدید قسم کا طنز بھی پوشیدہ ہے اگر اس لحاظ سے دیکھیں تو اس شعر میں پورے نظام پر سوال اٹھایا گیا ہے کہ اس شہر میں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے مصاحب اور چاپلوس شہر میں اتراتے پھرتے ہیں اور جو مصاحب یا چاپلوس نہیں ہیں جن کا ضمیر ابھی زندہ ہے وہ اس شہر میں سر اٹھا کر نہیں جی سکتا ہے۔ اس شعر سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ شہر میں ایک بادشاہ ہوتا ہے اور کسی کا باآبرو رہنا اور کسی کا اتراتا پھرنا سب کچھ اسی کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے۔ اس شعر کے بارے میں ایک واقعہ مشہور ہے کہ استاد ذوق راہ سے گذر رہے تھے غالب اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے تو انھوں نے ذوق کی طرف اشارہ کر کے یہ فی البدیہہ شعر پڑھا تھا، اور فی البدیہہ شعر میں غالب کی جگہ ’سالے‘ لفظ کا استعمال کیا تھا۔ اگر اس لحاظ سے بھی اس شعر کو پڑھا جائے تو بھی ایک ظالم بادشاہ کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار اس شعر میں واضح ہے۔ اور شہر پر اسی کا سایہ پڑ رہا ہے۔ چھٹا شعر ہے۔ ؂
تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم، جب اٹھیں گے
لے آئیں گے بازار سے جاکر دل و جاں اور
غالب کے اس شعر میں بہت ابہام ہے اور اسی لیے اس میں معنوی امکانات بہت زیادہ ہیں۔ ساتھ ہی ہمارے موضوع کے لحاظ سے بھی یہ شعر بہت اہم ہے۔ اس شعر میں وہ جدید حسیت ہے جس نے ہماری زندگی کی تمام قدروں کو نظر انداز کر کے صرف بازاری نقطۂ نظر سے دیکھنا سکھایا ہے۔ پہلے مصرعے میں ’تم‘ سے ساری خوشیاں وابستہ کر دی گئی ہیں اور اس کے رہتے کوئی غم نہیں ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ چاہے گا تو دل اور جان تک بازار سے لے آئے گا۔ اس میں ایسی بازار کا ذکر ہے جس میں دل اور جان جیسی چیزیں بھی بکتی ہیں۔ آج کے سرمایہ داری نظام نے جنگل، دریا، ماحول، ہوا سب چیزوں کو بازار بنا دیا ہے۔ اس شعر میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ راوی مخاطب کے سامنے ہے اور اس سے یہ سارے دعوے محض چاپلوسی میں کر رہا ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس شعر میں شہر میں بازار کی طاقت کو بڑے زوردار طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔ اور شہر کا سارا تصور ہی بازار پر قائم نظر آتا ہے۔ ساتواں شعر ہے۔ ؂
یوں ہی گر روتا رہا غالب، تو اے اہلِ جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ وایراں ہو گئیں
اس شعر میں شہر لفظ نہیں آیا ہے اس کا ایک متبادل بستیوں آیا ہے۔ جو ویسے تو ایک مختلف معنی بھی رکھتا ہے لیکن اس شعر میں دونوں لفظ تقریباًـ ہم معنی ہیں۔ اس شعر میں رونے سے بستیوں کے ویران ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ ہنسنا اور آباد ہونا شہر کی صفت ہوتی ہیں۔ آٹھواں شعر ہے۔ ؂
الجھتے ہو تم، اگر دیکھتے ہو آئینہ
جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیونکر ہو
شعر بہت خوب ہے اور بے شمار معنوی امکانات سے پُر ہے لیکن میرے موضوع کے لحاظ سے اس شعر کی بس اتنی اہمیت ہے کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ شہر میں یوں تو بہت سی حسینائیں ہیں لیکن اگر اس کے محبوب جیسی کچھ اور حسینائیں پیدا ہو جائیں تو شہرمیں فساد برپا ہو جائے۔ نواں شعر ہے۔ ؂
روز اس شہر میں اک حکم نیا ہوتا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہوتا ہے
یہ شعر کالی داس گپتا رضا نے دیوانِ غالب (کامل) کے اصل متن میں شامل نہیں کیا ہے۔ بلکہ اسے ’غالب کے کچھ ہنگامی مصرعے اور شعر‘ کے تحت رکھا ہے۔ اور اس نوعیت کے مصرعوں اور اشعار کے بارے میں وہ لکھتے ہیں۔
’’مندرجۂ بالا اشعار کی کوئی ادبی حیثیت نہیں۔ یہ غالب کی شوخیِ طبع اور حاضر دماغی کا آئینہ ہیں۔ ان کی قدر و قیمت اس پر منحصر ہے کہ یہ غالب کے کہے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے، انھیں دیوانِ غالب میں شامل کرنا محض دیوان کا حجم بڑھانا ہوگا۔‘‘ ص ۵۸
جب کہ یہ شعر غالب کی ایک اچھی غزل ’’ شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے‘‘ کی زمین میں ہے۔ کالی داس گپتا رضا کی اس بات سے میں بالکل متفق نہیں ہوں، انھیں اس شعر کو دیوان میں شامل کرنا چاہیے تھا۔ یہ شعر نا مسائد حالات کی اچھی عکاسی کرتا ہے۔ شعر میں ابہام ہے کہ وہ کون سے حکم ہیں جو روز حاکمِ وقت کی طرف سے ہوتے ہیں اور ان کا کیا اثر ہوتا ہے؟ اس شعر سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہر میں ایک ایسا ظالم اور دیوانہ حاکم ہے جو عوام کی کوئی پرواہ کیے بغیر روز ایک فرمان بھیج دیتا ہے۔ چاہے وہ عوام کے حق میں ہو یا نہ ہو، یہاں تک کہ عوام اس حکم کو سمجھے یا نہ سمجھے۔شعر کی پوری فضا میں ایک بے یقینی اور خوف سمایا ہوا ہے۔ یہ شعر ہماری آج کی جدید شہری زندگی کی اچھی عکاسی کرتا ہے کہ بے یقینی آج کی زندگی کا بہت اہم مسئلہ ہے۔
مندرجہ بالا اشعار کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے غالب کے ذہن میں شہر کا تصور تھا کہ شہر با حیا اور ذی شعور لوگوں کے رہنے کی جگہ ہے، شہر روشن جگہ ہوتی ہے یعنی زندگی کی مثبت قدریں شہر کی صفت ہوتی ہیں، شہر کے لیے گفت و شنود ضروری ہے وگرنا اس کی غیر موجودگی میں شہر قبرستان بن جاتا ہے۔ ان شہروں کے درمیان ایک مثالی یا آرزوؤں کا شہر بھی ہوتا ہے۔شہر میں با آبرو ہونا ضروری ہے، شہر میں ایک بادشاہ ہوتا ہے اور کسی کا باآبرو رہنا اور کسی کا اتراتا پھرنا سب کچھ اسی کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے۔ شہر میں ایک بازار ہوتا ہے جہاں سے ہر چیز خریدی جا سکتی ہے دل اور جان بھی۔ اور شہر کا سارا تصور ہی بازار پر قائم ہوتا ہے۔ ہنسنا اور آباد ہونا شہر کی صفت ہوتی ہیں، شہر کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ حسینوں سے بھی آباد ہوتا ہے۔ اورشہر میں بادشاہ یا حاکم ہوتا ہے جو عوام کی پرواہ نہیں کرتا اور شہری زندگی شدید بے یقینی اور خوف میں مبتلا ہوتی ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ بادشاہ یا حکومت کے کردار کے علاوہ تقریباً سارے تصورات زندگی کی مثبت علامتیں ہیں۔ جن میں ایک بہتر زندگی اور صورت حال کا تصور نظر آتا ہے۔
غالب نے اپنی اردو شاعری میں کچھ شہروں پر قطعات بھی لکھے ہیں ان سے بھی غالب کے تصور شہر کے بارے میں کچھ اشارے ملتے ہیں اور ہمارے موضوع میں معاون ہو سکتے ہیں۔ ان شہروں میں لکھنؤ، کلکتہ، رامپور اور حیدرآباد شامل ہیں۔ وہ قطعات مندرجہ ذیل ہیں۔ ؂
ُؑؑٓٓٓلکھنؤ
لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی
ہوسِ سیر و تماشا، سو وہ کم ہے ہم کو
مقطعِ سلسلہ و شوق نہیں ہے، یہ شہر
عزمِ سیرِ نجف و طوفِ حرم ہے ہم کو
لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالب
جادۂ رہ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو
ابر روتا ہے کہ بزمِ طرب آمادہ کرو
برق ہنستی ہے کہ فرصت کوئی دم ہے ہم کو
طاقتِ رنجِ سفر بھی نہیں پاتے اتنی
ہجرِ یارانِ وطن کا بھی الم ہے ہم کو
لائی ہے معتمدالدولہ بہادر کی امید
جادۂ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو
کلکتہ
کلکتے کا جو ذکر کیا تونے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے میں مارا ہاے ہاے
وہ سبزہ زار ہاے مطراّ کہ ہے غضب!
وہ نازنیں بتانِ خود آرا کہ ہاے ہاے
صبر آزما وہ ان کی نگاہیں کہ حف نظر!
طاقت رُبا وہ ان کا اشارا کہ ہاے ہاے
وہ میوہ ہاے تازۂ شیریں کہ واہ! واہ!
وہ بادہ ہاے نابِ گوارا کہ ہاے ہاے
رام پور
ہند میں اہلِ تسنن کی ہیں دو سلطنتیں
حیدرآباد دکن رشکِ گلستانِ اِرم
رامپور اہلِ نظر کی ہے نظر میں وہ شہر
کہ جہاں ہشت بہشت آ کے ہوئے ہیں باہم
حیدرآباد بہت دور ہے اس ملک کے لوگ
اس طرف کو نہیں جاتے ہیں، جو جاتے ہیں تو کم
رام پور آج ہے وہ بقعہ معمور کہ ہے
مرجع و مجمعِ اشرافِ نژاد آدم
رام پور ایک بڑا باغ ہے از روئے مثال
دل کش و تازہ شاداب و وسیع و خرّم
جس طرح باغ میں ساون کی گھٹائیں برسیں
ہے اسی طور پہ یاں دجلہ فشاں، دستِ کرم
ابرِ دستِ کرمِ کلبِ علی خاں سے مدام
درِّ شہوار ہیں، جو گرتے ہیں قطرے پیہم
صبح دم باغ میں آ جاے جسے ہو نہ یقیں
سبزہ و برگِ گل و لالہ پہ دیکھے شبنم
حبّذا! باغِ ہمایونِ تقدس آثار
کہ جہاں چرنے کو آتے ہیں غزلانِ حرم
مسلک شرع کے، ہیں راہ رو و راہِ شناس
خضر بھی یاں اگر آ جائے، تو ان کے قدم
مدح کے بعد دعا چاہیے، اور اہلِ سخن
اس کو کرتے ہیں بہت بڑھ کے بہ اغراق، رقم
حق سے کیا مانگیے؟ ان کے لیے جب ہو موجود
ملک و گنجینۂ وخیل و سپہ و کوس و علم
ہم نہ تبلیغ کے مائل، نہ غلو کے قائل
دو دعائیں ہیں کہ وہ دیتے ہیں نواب کو ہم
یا خدا، غالبِ عاصی کے خداوند کو دے
دو وہ چیزیں کہ طلبگار ہے جن کا، عالم
اولاً، عمرِ طبیعی بہ دوامِ اقبال
ثانیاً، دولتِ دیدارِ شہنشاہِ امُم
لکھنؤ کے قطع سے غالب کے تصور شہر پر کچھ خاص روشنی نہیں پڑتی ہے بس اتنا معلوم ہوتا ہے کہ شہر سیر و تماشا کے لیے جانا جاتا ہے اور انھیں معتمدالدولہ سے کرم کی امیدیں ہیں جو لکھنؤ کے نواب تھے۔ غالب کی کلکتہ کی یادیں بڑی پر لطف ہیں ان کے لیے اس شہر کا ذکر معشوقہ کے ذکر کی طرح ہے اور ان معشوقاؤں کے علاوہ وہاں کی میوہ اور شراب کو بھی بڑے پر تپاک انداز میں یاد کرتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ چیزیں بھی وہ شہر سے تصور کرتے ہیں۔ رام پور کے قطعہ میں حیدرآباد اور رامپور دونوں کو بہشت بتایا ہے اور بہشت کے بارے میں وہ کہتے ہیں۔ ؂
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
یا
وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادۂ گلفامِ مشک بو کیا ہے
یا
ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغِ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بیخودوں کے طاق نسیاں کا
اس طرح بہشت غالب کی نظر ایک ایسی مادّی جگہ نظر آتی ہیں جہاں دل کی مرادیں بر آتی ہیں اور یہ مرادیں اکـثران کی دلی خواہشیں ہوتی ہیں، یا ان کے تصور میں بہترین سے بہترین جو چیز ہو سکتی ہے۔ اور جنھیں وہ اپنے شہر میں رہ کر پوری کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ کوئی بہت پاکیزہ تصور نہیں نظر آتا ہے۔ اور یہ امر ایک طرح سے اردو شاعری کی روایت کا حصہ ہے۔ رام پور کے قطعے میں اسے بہشت بتانے کے بعد وہ اسے باغات، موسم اور تمام خوبیوں کا مجموعہ بنا دیتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں رامپور کی حقیقی کم ہیں بلکہ غالب شہر میں جن چیزوں کی توقع کرتے ہیں وہ زیادہ محسوس ہوتی ہیں۔
وہ اشعار جن میں شہر کے بارے میں براہِ راست اظہار خیال ہے اور لکھنؤ، کلکتہ وغیرہ پر لکھے گئے قطعات غالب کا تصور ِ شہر سمجھنے کے لیے بنیادی ماخذ ہیں۔ لیکن گھر، دل، ملک، آئینہ، گلستان، وطن وغیرہ الفاظ بہت بار شہر کی مختلف جہتوں کا تصور پیدا کرتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اردو شاعری میں عموماً اور غزل میں خصوصاً لفظ اپنے اصل معنی میں نہیں ہوتے ہیں وہ اکثر استعارہ یا علامت ہوتے ہیں اور استعاروں یا علامتوں میں یہ الفاظ اک دوسرے کے ہم معنی ہو جاتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اردو شاعری میں جز کہہ کر کل مراد لینا یا کل کہہ کر جز مراد لینا ایک اہم روایت رہی ہے۔ اس طرح بھی یہ الفاظ اکثر شہر کے ہم معنی ہو گئے ہیں۔ اس مقالے میں اس بات کی تائید کے لیے اشعار کی مثال دینا اور ان کا تجزیہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن یہ سامنے کی بات ہے۔ اور بیشتر اشعار میں ان دونوں اصولوں کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔
غالب کا تصورِ شہر سمجھنے کے بعد اب ہم دیکھیں گے کہ غالب نے دلی کے بارے میں اپنی اردو شاعری میں کیا اظہارِ خیال کیا ہے۔ دیوانِ غالب کامل میں مندرجہ ذیل اشعار میں دہلی کا براہ راست ذکر آیا ہے۔
کی جَے جوں اشک اور قطرہ زنی
اے اسد، ہے ہنوز دلی دور
بادشاہی کا جہاں یہ حال ہو غالب! تو پھر
کیوں نہ دلی میں ہر اک ناچیز نوابی کرے
ہے اب اس معمورہ میں قحطِ غمِ الفت اسد!
ہم نے یہ مانا کہ دلیّ میں رہیں، کھاویں گے کیا
دلی کے رہنے والو اسد کو ستاؤ مت
بیچارہ چند روز کا یاں میہمان ہے
گر مصیبت تھی، تو غربت میں اٹھا لیتا، اسدؔ
میری دلی ہی میں ہونی تھی یہ خواری، ہائے ہائے
ہاں یہی شاہراہ دہلی ہے
مطبعِ بادشاہِ دہلی ہے
شہرِ دہلی کا ذرہ ذرۂ خاک
تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا
اب ہے دلی کی طرف کوچ ہمارا غالب
آج ہم حضرتِ نواب سے بھی مل آئے
سرِ آغازِ موسم میں اندھے ہیں ہم
کہ دلی کو چھوڑیں لوہارو کو جائیں
مندرجہ بالا ۹ اشعار میں سے ۶ اشعار غزل کے ہیں اور ۳ اشعار مختلف قطعات کے ہیں۔ آئیے اب ان اشعار پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اور جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ غالب کا تصور شہر جو تھا اس پر دہلی کس طرح پوری اترتی ہے یا نہیں اترتی ہے۔ پہلا شعرہے۔ ؂
کیجیے جوں اشک اور قطرہ زنی
اے اسد، ہے ہنوز دلی دور
ہنوز دلی دور کا مطلب دلی شہر کا دور ہونا نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ابھی منزل یا مقصد دور ہے، یہ شعر ۱۸۱۶ء کا ہے اور وہ ۱۲؍۱۸۱۳ء سے مستقل طور پر دہلی میں ہی تھے۔ اپنے والد عبداﷲ بیگ خان (۱۸۰۲ء) اور چچا نصرالہہ بیگ خان (۱۸۰۶ء) کے انتقال کے بعد جب غالب جیسا ذہین اور خلاق انسان دہلی حیسے شہر میں آیا ہوگا تو اس کے دل میں کیا کیا خواب ہوں گے؟ اس کا تصور آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ لیکن وہ خواب جب پورے ہوتے نظر نہیں آئے تو ایسے میں یہ شعر ایک گہرے درد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ دوسرا شعر ہے۔ ؂
بادشاہی کا جہاں یہ حال ہو غالب! تو پھر
کیوں نہ دلی میں ہر اک ناچیز نوابی کرے
اس شعر کے دو پہلو ہیں۔ اس شعر کا کلیدی لفظ ’ناچیز‘ ہے اگر یہ لفظ اپنے لیے ہے تو یہ شعر اپنی انکساری اور بادشاہ کی مدح میں ہے۔ لیکن اگر یہ ’ناچیز‘ کسی دوسرے شخص کو مان لیا جائے تو یہ شعر ایسا شدید اور براہِ راست احتجاج کا شعر ہے کہ اتنی بات پر اس شاہی دور میں شاعر کی جان بھی لی جا سکتی تھی۔ ویسے اگر یہ ’ناچیز‘ اپنے لیے بھی مان لیا جائے تو بھی اس میں ایک قسم کا دبیز طنز تو ہے ہی۔ اس طرح یہ شعر بھی غالب کو دلی نے کس طرح مایوس کیا ہے اس بات کا مظہر ہے۔ تیسرا شعر ہے۔ ؂
ہے اب اس معمورہ میں قحطِ غمِ الفت اسد!
ہم نے یہ مانا کہ دلیّ میں رہیں، کھاویں گے کیا
اس شعر میں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ قحط صرف الفت کا نہیں ہے بلکہ حالت یہ ہے کہ غمِ الفت بھی نصیب نہیں۔ اس کی دلیل دوسرے مصرعے میں ہے کہ حالت اب بھک مری تک پہنچ چکی ہے اور غمِ الفت تبھی با معنی ہوتا ہے جب کہ پیٹ بھرا ہو۔ اس طرح اس شعر میں راوی کہتا ہے کہ دہلی میں اب الفت نہیں ملتی، غمِ الفت بھی نہیں اور اب تو کھانے کا بھی کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔ پھر ایسی دلی میں کیسے رہا جائے؟ اس طرح یہ شعر بھی غالب کی دہلی میں نا امیدی اور مایوسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جب کہ غالب کے تصور شہر میں امیدوں اور توقعات کا مرکز ہوتا ہے۔ چوتھا شعر ہے۔ ؂
دلی کے رہنے والو اسد کو ستاؤ مت
بیچارہ چند روز کا یاں میہمان ہے
یہ شعر تو براہ راست دلی والوں کی شکایت میں ہے۔ اور پچھلے شعر میں دلی چھوڑ کر جانے کی جو سوچا جا رہا تھا اس شعر میں اسی بات کا اعلان ہے اور جانے کی وجہ ظاہر ہے دہلی والوں کا سلوک ہے۔ اور یہ دونوں شعر ایک ہی سال ۱۸۲۱ء کے ہیں۔ پانچوا شعر ہے۔ ؂
گر مصیبت تھی، تو غربت میں اٹھا لیتا، اسدؔ
میری دلی ہی میں ہونی تھی یہ خواری، ہائے ہائے
اس شعر میں بھی دلی میں اپنی خواری یعنی ذلت اور رسوائی کا ہی رونا ہے لیکن اس میں اس بات کا شکوہ ہے کہ دلی میں میری موت کی وجہ سے میری رسوائی اور ذلت کے افسانے میری موت کے بعد بھی چرچہ میں ہیں۔ اگر باہر کہیں موت ہوئی ہوتی تو لوگ شاید مجھے بھول جاتے۔ دلی جو امیدوں، خوابوں اور حسرتوں کی مرکز تھی۔ اس شہر میں ایسی خواری اور بھی تکلیفدہ ہے۔ اب تک کے دہلی سے متعلق ہم نے غالب کی جس شاعری کا ذکر کیا ہے وہ سب ۱۸۲۶ء سے قبل کی ہے۔ ہمیں جانتے ہیں کہ دلی میں غالب کا یہ دور واقعی بڑی مشکلوں بھرا تھا۔ غالب شدید طور پر قرض میں ڈوبے ہوئے تھے۔ انھوں نے ۱۸۲۶ء میں بھرت پور کا سفر کیا وہاں سے واپسی پر فیروز پور جھرکا میں رکے رہے۔ قرض خواہوں کے خوف سے دلی نہ آئے۔ پھر وہیں سے لکھنؤ، الہ آباد، بنارس اور مرشدآباد وغیرہ ہوتے ہوئے کلکتہ پہنچے۔ یہ سفر بنیادی طور پر پنشن کے لیے تھا۔ ۱۸۲۹ء میں کلکتہ سے واپس آئے۔ایک لمبے سفر کی ناکامی سے ابھی وہ ابر بھی نہ پائے تھے کہ ۱۸۳۱ء میں پنشن کا مقدمہ خارج ہو گیا۔ اس طرح ایک اور صدمے سے انھیں گزرنا پڑا۔ ان شدید مشکل بھرے دنوں میں ہی انھوں نے مندرجہ ذیل غزل کہی تھی۔ جس میں ایک ٹوٹے ہوئے انسان کا درد پوری شدت کے ساتھ محسوس کیا جا سکتا ہے۔
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو، اور ہم زباں کوئی نہ ہو
بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہم سایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مر جائیے، تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
اپنے قطعات میں غالب نے دلی کا جو ذکر کیا ہے ان میں سب سے پہلا شعر ہے۔ ؂
ہاں یہی شاہراہ دہلی ہے
مطبعِ بادشاہِ دہلی ہے
یہ شعر’ پنچ آہنگ‘ کے منظوم اشتہار کا ہے جو غالب نے لکھا تھا اور ظاہر ہے اس شعر کی ادبی یا میرے موضوع کے لحاظ سے کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ دوسرے شعر کو پورے قطع کے پس منظر کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ ؂
بس کہ فعاّلِ ما یُرید ہے آج
ہر سلح شور انگلستاں کا
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آبِ انساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونا زنداں کا
شہرِ دہلی کا ذرہ ذرہ خاک
تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا
کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک
آدمی، واں نہ جا سکے یاں کا
یہ قطع اگر چہ ۹ اشعار کا ہے لیکن میرے موضوع کے لحاظ سے مندرجہ بالا ۵ اشعار ہی اہم ہیں۔ یہ قطع ہماری تاریخ کے ایک نہایت المناک حالات کا بیان ہے۔ دہلی میں انقلاب ۱۸۵۷ء میں ہندستانیوں کی ہار کے بعد انگریزوں نے ہندستانیوں پر اور خصوصاً مسلمانوں پرجو ظلم ڈھائے تھے۔ یہ قطع اسی کا بیان ہے۔ غالب نے اس سے قبل کی شاعری میں جہاں جہاں دلیّ کا ذکر کیا تھا اس میں ذاتی غموں اور دکھوں کا ذکر تھا اگرچہ ان میں بھی انسانی کرب تھا جسے ہر شخص محسوس کر سکتا ہے لیکن اس قطع میں غالب نے براہِ راست تمام دہلی کے کرب کو بیان کیا ہے۔ دلی کے گلی کوچوں، چوک اور بازاروں کی جو حالت ہے۔ وہاں جو خوف طاری ہے اور انگریزوں کا جو جنگل راج قائم ہے، یہ قطع اس کا بہت ہی دل دوز بیان ہے۔ یہاں یہ بات دھیان رکھنے کی ہے کہ غالب کا یہ قطع بہت بعد میں منظر عام پر آیا تھا اگر اس وقت انگریزوں کو یہ قطع ہاتھ لگ جاتا تو شاید یہ قطع ہی غالب کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانے کے لیے کافی ہوتا۔ ان کی موت کے بعد جب یہ قطع منظرِعام پر آیا تھا تو بھی انگریزوں نے اسے ضبط کر لیا تھا۔ دلی پر غالب کا اگلا شعر ہے۔ ؂
اب ہے دلی کی طرف کوچ ہمارا غالب
آج ہم حضرتِ نواب سے بھی مل آئے
یہ شعر غالب نے دوسری بار رام پور کے سفر سے واپسی کے وقت کہا تھا۔ اس میں اور تو کوئی خاص بات نہیں ہے بس ایک نکتہ یہ ہے کہ کوچ کرنا محاورہ اکثر کسے بڑے مقصد خصوصاً جب فتح کے مقصد سے سفر کرتے ہیں اس وقت کہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں رام پور میں غالب نے اپنی زندگی کے تقریباً سب سے آسودہ دن گزارے تھے۔ اور شاید ان کے ذہن میں ہو کہ رام پور میں جو عزت و آرام انھیں حاصل ہے شاید اس بار دلی میں بھی وہ زندگی میسر آ جائے جس کے وہ ہمیشہ سے توقع کرتے تھے اور انھیں کبھی حاصل نہ ہو سکی تھی۔ دلی پر ان کا اگلا شعر ہے۔ ؂
سرِ آغازِ موسم میں اندھے ہیں ہم
کہ دلی کو چھوڑیں لوہارو کو جائیں
یہ شعر قطع کا ہے جس میں ۶ اشعار ہیں۔ یہ قطع دہلی میں برسات کی آمد کے موقع پر کہا گیا ہے جس میں دہلی میں شراب پینے اور آم کھانے کو ملتے ہیں جب کہ لوہارو جہاں پہلے غالب کی بیوی امراؤ بیگم کے بڑے اباّ نواب احمد بخش حاکم تھے لیکن وہ ۱۸۲۶ء میں دست بردار کیے جا چکے تھے اور یہ قطع ۶۵؍۱۸۶۷ء کے درمیان کا ہے۔ لوہارو کے بارے میں غالب نے اس قطعے میں کہا ہے کہ وہاں نہ آم ملتے ہیں نہ انگور، اور کھانے میں نہ املی کے کھٹے پھول ملتے ہیں نہ کڑوے کریلے، محض گوشت ملتا ہے وہ بھی بھیڑ کا اور ریشے دار۔ ظاہر ہے اس قطع میں غالب نے دلی کی تعریف کی ہے۔
اس مطالعہ سے ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ غالب نے دلی میں شدید پریشانیاں اٹھائیں، بار بار انھوں نے اپنی نا قدری کا شکوہ کیا، لیکن ایسا کیا تھا؟ کہ وہ دلی کو نہیں چھوڑ سکے۔ جب کہ باہر ان کے قدر دانوں کی کمی نہ تھی۔ نواب رام پور نے ان کی اتنی قدر کی اور وہ ہمیشہ چاہتے رہے کہ غالب رام پور میں ہی رہیں۔ غالب دو بار رام پور گئے ضرور لیکن ان حالات میں جب کہ دلی میں کسی بھی طرح گذر بسر کے حالات نہ رہے تب مجبوری میں گئے۔ اور جیسے ہی حالات تھوڑے سازگار ہوئے وہ فوراً دلی واپس آ گئے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مغلیہ سلطنت کے زوال کے باوجود دلی کو ابھی بھی شاعری، علم، دا نش اور فن کا مرکز ہونے کا شرف حاصل تھا۔ غالب تعلق شاعری، علم، دانش اور فن کے شعبے سے تھا، وہ مال و دولت کے متمنی تو تھے لیکن ان کے لیے یہ چیزیں ضمنی تھیں اور وہ اپنے لہو سے شعر، علم و دانش کا چراغ روشن کرتے رہے۔ دلی ان سے وفا کرے یا نہ کرے لیکن غالب ایک سچے عاشق کی طرح دلی سے وفا کرتے رہے۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم ’مرزا غالب‘ میں بالکل صحیح فرمایا تھا۔ ؂
اے جہان آباد! اے گہوارۂ علم و ہنر
ہیں سراپا نالۂ خاموش تیرے بام و در
ذرہ ذرہ میں ترے خوابیدہ ہیں شمس و قمر
یوں تو پوشیدہ ہیں تیری خاک میں لاکھوں گہر
دفن تجھ میں کوئی فخرِ روزگار ایسا بھی ہے
تجھ میں پنہاں کوئی موتی آبدار ایسا بھی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Dr. Rizvanul Haque,
Assistant Professor, Urdu,
Regional Institute of Education,
Shyamla Hills, Bhopal-462013.
Mob No.-09977006995,E-mail rizvanul@yahoo.com

اس مضمون کو پی ڈی ایف میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
اردو ریسرچ جرنل (اگست۔اکتوبر 2014)کو مکمل پی ڈی ایف میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

Leave a Reply

1 Comment on "غالب کا تصورِ شہر اور دلی (اردو شاعری کی روشنی میں"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] غالب کا تصورِ شہر اور دلی (اردو شاعری کی روشنی میں […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.