جمیلہ ہا شمی: حیا ت و ادبی خد ما ت

٭  محمد فر ید

٭ لیکچر ار شعبئہ اُردو ، اوپی ایف بو ائز کا لج ایچ ایٹ فو ر ، اسلام

آ باد،پا کستان۔E-Mail:mfaridislamabad@gmail.com

Abstract

Jamila Hashmi: Life And Literary Contributions

Jamila Hashmi made herself recognized in male dominant society where social injustice and inequalities prevailed. In her writings soil and soul got the same semantic value and worth. Her imagination is romantic. Her intellectual attempt on Indian culture and Arabic history was an incredible task to accomplish. She stands firm and sublime in historical and moral writings. This research article reflects the true stature of Jamila Hashmi as a Novelist.

      خالقِ کائنات نے انسان نامی مخلوق کے خمیر میں  عقل وشعور کامادہ رکھ کر اسے تخلیق کرنے کی قابلیت سے بہرہ مند فرمادیا۔ مختلف لوگوں نے اس تخلیقی صلاحیت کے اظہار کے مختلف ذرائع اختیار کیے۔ سائنس دانوں نے مختلف ایجادات سے بے جان دھاتوں کو انسانوں کے لیے کارآمد بنایا تومصوروں نے انسانی زندگی کو تصویروں کے قالب میں  ڈھال کر امر کر دیا اس طرح ادیبوں اور شاعروں نے لفظوں کے خو ب صورت پیکر تراش کر ان میں  روح اور جان ڈال دی۔روایت ہے کہ ادیب بنتانہیں بلکہ پیدائشی ہوتاہے ایسی ہی ایک ادیبہ جمیلہ ہاشمی ہے۔

      امرتسر کے محلہ اسلام آباد میں  جمیلہ ہاشمی ایک پڑھے لکھے گھرانے میں  برکت علی ہاشمی کے ہاں پیداہوئیں ۔وہ اپنی پیدائش کے بارے میں  حمیرااطہر کو ایک انٹرویو میں  بتاتی ہیں :

’’میری پیدائش ۱۷ نومبر۱۹۲۹ء گوجرہ کی ہے۔ ہم امرتسر کے رہنے والے ہیں ۔ سکھوں اور ہندوئوں کے ساتھ ہمارے گھریلومراسم تھے۔‘‘(۱)

      جمیلہ ہاشمی کے والد تاجرپیشہ شخص تھے جو کوئٹہ سے مختلف قسم کامال لاکر امرتسر کے تاجروں کو فراہم کرتے تھے۔ انھوں نے پوری زندگی ملازمت نہیں کی۔ تقسیم ہندسے پہلے وہ امرتسر میں  کپڑے کی کھڈیاں لگاکر اپنے کاروبار کومضبوط کر چکے تھے۔ تقسیم ہند نے ان کے کاروبار کو تباہ کر دیا۔ جمیلہ ہاشمی کی والدہ کانام فضل النساء تھا۔

      محمداسلم لکھتے ہیں :

’’والدہ فضل النساء گورنمنٹ ہائی سکول امرتسر میں  ہیڈمسٹریس تھیں ؛ فضل النساء پہلے بچے کی پیدائش کے لیے میکے گھر میں  (گوجرہ) گئی ہوئی تھیں ؛ بچی پیداہوئی تو اس کانام جمیلہ رکھاگیا۔یہ و ہی جمیلہ ہیں جو بعدازاں جمیلہ ہاشمی کے نام سے معروف ہوئیں ۔جمیلہ کی والدہ گوجرہ کی تھیں ،ان کی ایک اور بہن تھی، جمیلہ کے نانا ،نانی اور خالہ نے قادیانی مذہب اختیار کر لیاتھالیکن فضل النساء اپنے اصل مسلک پر قائم رہیں ۔ وہ صوم وصلوۃ کی پابندراسخ العقیدہ مسلمان تھیں ۔‘‘(۲(

      جمیلہ ہاشمی تین بہنوں اور دوبھائیوں میں  سب سے بڑی تھیں ۔ وہ پڑھی لکھی خاتون تھیں ۔

      بقول محمداسلم:

’’جمیلہ ہاشمی نے امرتسر کے ایک سکول سے میٹرک کیا؛ ایف اے اور بی اے امتحانات سٹینڈ فورڈ کالج (Stand Ford)امرتسر سے پاس کیے۔ بی اے میں  ڈبل میتھ پڑھتی رہیں ؛ اس وقت شاعری بھی کرتی تھیں ۔ ۱۹۵۳ء کو ایف سی کالج سے انگریزی ادبیات میں  ایم اے کیا۔‘‘(۳)

      تقسیم ہند کے بعد برکت علی ہاشمی کا گھر انہ منٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں  آبادہوگیا۔ جہاں جمیلہ کی والدہ نے اپناایک سکول ’’ممی کاسکول‘‘ کے نام سے بنایا۔ جمیلہ ہاشمی بھی ایم اے کرنے کے بعد درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئیں اور اسلامیہ ہائی سکول ساہیوال کی ہیڈمسٹریس ہوگئیں ۔

      جملیہ ہاشمی کی شادی ۱۸ اگست۱۹۵۹ء کو سمہ سٹہ سے تین کلومیٹر دور ،ضلع بہاولپور کے ایک گائوں خانقاہ شریف کے سجادہ نشین ۶۰ مربعوں کے مالک اور صوبائی اسمبلی کے رکن اور کھرل قبیلے کے فرد سردار اویس احمد اویسی سے ہوئی۔۱۹۶۰ء میں  ان کی پہلی اولاد ایک بیٹاہوا جوایک دن کے بعد ہی اللہ کوپیاراہوگیا جس کاافسوس جمیلہ ہاشمی کو پوری زندگی رہا۔۷ اپریل ۱۹۶۶ء کو لیڈی ایچی سن ہسپتال لاہور میں  ان کے ہاں ایک بچی نے جنم لیا جس کانا م عائشہ صدیقہ رکھا گیاجوان کی اکلوتی اولادثابت ہوئی۔

جمیلہ ہاشمی نے ادبی سطح پر زندہ رہنے کے لیے لاہور کو ا پنا مسکن بنالیااور ۳۱ سینٹ جان پارک لاہور کینٹ میں  مستقل رہائش اختیار کر لی۔

      ذوالقرنین عسکری ان کی پہلی تحریر کے بارے میں  لکھتے ہیں :

’’ میراپہلاافسانہ لیل ونہا رمیں  ۱۹۵۷ء میں  چھپاتھا۔ بقول سائرہ ہاشمی ان کا پہلاافسانہ ’’لال آندھی‘‘ تھا۔‘‘(۴)

      جمیلہ ہاشمی کے ادبی سفر کودیکھاجائے تو اس میں  بہت رنگارنگی اور وسعت نظر آتی ہے۔ ان کاناول’’ تلاش بہاراں ‘‘ (۱۹۶۱ئ)ہے۔ جس میں  ہندوستانی سماج میں  عورت پر صدیوں پر مبنی جبر واستحصال اور مظلومیت کوموضوع بنایاگیاہے۔ ناولٹ ’’آتش رفتہ‘‘‘(۱۹۶۴ئ) مشرقی پنجاب کی سکھ معاشرت کے پس منظرمیں  لکھاگیاہے۔ افسانوی مجموعہ ’’آپ بیتی جگ بیتی‘‘(۱۹۶۹ئ) چولستان کے پس منظر میں  لکھاگیا۔ ناولٹ روہی(یہ ۶۰ صفحات پر مشتمل ایک عشقیہ کہانی ہے جو صوبہ خیبر پختونخواہ کے پٹھانوں کے ایک گائوں کے فطری پس منظر کو بیان کرتی ہے)۔(۱۹۷۰ئ) قدیم ایرانی کی مستندادیبہ اور متنازعہ شخصیت پر ناول’’چہرہ بہ چہرہ روبہ رو‘‘(اس میں  مصنفہ نے ایران میں  شاہ قاچار کے زمانے میں  پیداہونے والے ایک مذہبی فرقے کی سرگرمیوں کے توسط سے ایک روحانی اورتاریخی کردار قرۃ العین طاہرہ کی زندگی کو موضوع بنایاہے)۔(۱۹۸۳ئ)،حسین بن منصور حلاج پر مشہو ر ِ ز ما نہ نا ول د شتِ سُو س (۱۹۸۳)،افسانوی مجموعہ رنگ بھوم(۱۹۸۷ئ) ،تین ناولٹوں پر مشتمل اپنااپناجہنم، افسانوی مجموعہ’’ نسبت رُت میں  رو‘‘،ناول’’ جوگ کی رات‘‘ اور دیگر کئی متفرقات شامل ہیں ۔

’’تلاش بہاراں ‘‘ کو سال کابہترین ناول قرار دیاگیا اور کرزن ہال ڈھاکامیں  صدر ایوب خان نے جمیلہ ہاشمی کو آدم جی ادبی انعام سے نوازا۔ اس مقابلے میں  کئی بڑے ادیبوں کے ناول بھی نامزدہوئے(ممتاز مفتی کا’’علی پور کاایلی ‘‘ بھی)۔پہلے ہی ناول پر اتنابڑاادبی اعزاز حاصل کر لینے کے بعد جمیلہ ہاشمی کاادبی قدکاٹھ بہت بڑھ گیا اور وہ ادبی حلقوں میں  سراہی جانے لگی۔

      جمیلہ ہاشمی بیک وقت کئی ادبی حلقوں کی رکن تھیں ۔ مثلاًجن میں  حلقہ ارباب ذوق لاہور ،مری لٹریری سرکل اور سہ ماہی جریدے ’’نیادور‘‘ کے ادارتی بورڈ کی ممبر وغیرہ شامل ہیں ۔ وہ ہر سال باقاعدگی سے ’’شب ِ افسانہ‘‘ کابھی اہتمام کرتی تھیں ۔

      جمیلہ ہاشمی کے بارے میں محمد خالداختر لکھتے ہیں :

’’وہ ان کمیاب لوگوں میں  سے تھیں جو کمرے میں  داخل ہوتے ہیں توگویا ایک اور شمع جل جاتی ہے ۔اپنی ذات میں ایک انجمن،ڈل نیس ،اکتاہٹ اور بیزاری ان کے آتے ہی اپنی راہ پکڑلیتی تھی ۔ان کی گفتگو میں ایک ایسی رونق اور ہنگامہ خیزی کی کیفیت ہوتی تھی جو میں  نے بہت کم لوگوں میں  دیکھی ہے۔‘‘(۵)

      جمیلہ ہاشمی کارنگ گورا ،نقش قدرے موٹے اور ماتھاکھلاتھا کہیں جاتیں تو زیورات کااستعمال زیادہ کرتیں ۔وہ چہرے مہرے ،لباس اور وضع قطع سے بارعب نظر آتی تھیں ۔ نماز کی پابندی کرتیں ، امور خانہ داری بالخصوص مختلف پکوانوں کی تیاری میں  خوب مہارت رکھتی تھیں ۔وہ مہمان نواز اور روایت پسند خاتون تھیں ۔ وہ غم خوار اور ایک سلجھی ہوئی ماں بھی تھیں ۔

      اُم عمارہ ان کے اندر چھپی مشرقی عورت کوسامنے لاتے ہوئے لکھتی ہیں :

’’ہم کبھی کبھی سوچتے ،انھوں نے ’بن باس‘ لکھاہے یہ’روہی‘ اور’آتش رفتہ‘ کی خالق ہیں اور کس آرام سے گجریلا پکارہی ہیں ۔’یہ کھالو ہم نے تمھارے لیے پکایاہے۔‘جنوری ۱۹۸۷ء کاآخری ہفتہ ہم نے ان کے ساتھ سمہ سٹہ میں  صاحب سیر کی خانقاہ شریف میں  گزاراتھا۔ سرسبزباغ، خوب صورت روشن،گلاب کی خوشبوئوں سے مہکی ہوئی فضا آم کے درختوں میں  چھپاہوا دیہاتی طرز کابنگلہ اور اس میں  رچی بسی جمیلہ ہاشمی اور عائشہ احمد۔ ایک نیاانداز ایک نیاروپ۔یہ صاحب سیر کی خانقاہ ہے۔ ہم نے سوچا یہ جمیلہ ہاشمی کاگھر ہے ان کی خوشحالی کامنبع اور عائشہ احمد کی جڑیں یہاں ہیں ۔’ہم یہاں چادر اوڑھتے ہیں ‘۔جمیلہ نے بڑی سی چادر سر سے اتارلی۔‘‘(۶)

      جمیلہ ہاشمی نے ہندوستانی معاشرہ میں  عورتوں کی بدحالی خوا تین کی حالت زار کی اصلاح کی ضرورت اور اصلاح کے طریقے،صنفِ نا زک کی فطرت اور اس کی نفسیات ،مردوں کاسماجی تسلط اور عورتوں کی آزادی جیسے موضوعات کواپنی تحریروں میں  جگہ دے کر صنفِ مخا لف کی حیثیت کوبڑھادیاہے۔

      بقول شبنم آرا:

’’ جمیلہ ہاشمی نے مردوں کے تسلط والے سماج (Male Dominated Society)میں  عورتوں کے ساتھ ہونیوالی ناانصافیوں اور امتیازات کوبھی موضوع بنایا ہے۔ہمارے معاشرے میں  مرد کو آزاد حیثیت حاصل ہے مگر عورت کونہیں ۔ مردوں نے عورتوں کوہمیشہ سے ماتحت بناکررکھاہے۔کبھی ماں ، بہن اور بیٹی کے روپ میں  توکبھی بیوی کے روپ میں  اور اس ماتحتی نے اس کی شخصیت کی فکری نشوونما کوبالکل ہی پژمردہ کردیا۔‘‘(۷)

      جمیلہ ہاشمی نے مختصر کہانیوں سے بھی اپنی علیحدہ شناخت قائم کی ۔بقول جمیل جالبی:

’’ ۱۹۵۷ء کی با ت ہے کہ ہفت روزہ ’لیل ونہار‘ لاہور میں  ایک مختصر سی کہانی چھپی۔ کہانی کانام تھا’دوخط‘ پڑھی تو اچھی لگی۔ اس کے بعد اور کئی کہانیاں اس افسانہ نگار کی پڑھیں اور وہ بھی اچھی لگیں ۔ معلوم ہوتاتھاکہ اردوافسانے میں  نیااور تازہ خون شامل ہو رہاہے۔ جب بھی جمیلہ ہاشمی کی کوئی کہانی چھپتی میں  شوق سے پڑھتا۔‘‘(۸)

      جمیلہ ہاشمی کی تحریروں میں  زمین اور روح ہم معنی اور ہم وزن نظر آتے ہیں ۔ اس نے کمال قدرت کے ساتھ وہ سب کچھ ہمارے تجربہ کاحصہ بنادیا ہے جس کاادراک ہمیں  نہیں ہوسکتاتھا یاوہ ہمارے تجربہ کاحصہ بن بھی جاتا تو شاید اس کی نوعیت اس طرح نہ ہوتی جس طرح جمیلہ ہاشمی کے قلم نے اسے ہماری یادوں کاحصہ بنادیا ہے۔شاید یہ وہ منزل ہے کہ جسے ادب کے Canvasپر یادوں ، الفاظ، ریاضت اور کامیاب صورت گری کے ذریعے ممکن بنایاجاسکتاہے۔ جمیلہ ہاشمی کے متخیلہ کی پرواز کافی اونچی ہے۔

      محمدعلی صدیقی لکھتے ہیں :

’’ جمیلہ ہاشمی کامتخیلہ رومانوی ہے ۔بعض اوقات رومانوی متخیلہ حقیقت کی اپنے طور پر تعبیر کرتی ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ جمیلہ ہاشمی نے ’فصل کے بجائے وصل‘ کے جذبات کو اہمیت دی اور ہر مصنف کو یہ حق حاصل ہوناچاہیے کہ وہ اپنے کرداروں کے لیے ایک ایسی’تاریخ‘ کوتخلیق کرے جو ان کرداروں کے لیے ضروری اور مفیدبھی ہو۔‘‘(۹)

جمیلہ ہاشمی کوانگریزی ادب سے بہت لگائوتھا ۔وہ اسے ادب کوسمجھنے اور اچھاادب تخلیق کرنے کے لیے خشت اوّل سمجھتی تھیں نیزانھیں اپنی ایم اے انگریزی کی سند پر بھی ناز تھا۔

      حمیرااطہر کو اپنے انٹرویو میں  بتاتی ہیں :

’’جوانگریزی کاایم اے نہیں ہے وہ اچھارائٹر نہیں ہوسکتا۔ یہاں بات محض ڈگری حاصل کرنے کی نہیں ۔ بلکہ انگریزی ادب کامطالعہ کرنے کی ہے۔ انگریزی پڑھ کر لکھنے کاشعور آتاہے۔ کیونکہ بھرپور اور جان دار ادب انگریزی ہی میں ملتاہے۔‘‘(۱۰)

      جمیلہ ہاشمی آخری عمر میں  اسپین کے عروج وزوال پر ناول لکھناچاہتی تھی انھوں نے اس سلسلے میں  اندلس کی تاریخ سے متعلق کئی کتب خرید کر ان کامطالعہ بھی شروع کر دیاتھا۔ ستار طاہر لکھتے ہیں :

’’جمیلہ ہاشمی کی عمر انسٹھ برس تھی اور دشتِ سُوس جیسے بڑے تخلیقی ناول کے بعدوہ اندلس پر ایک بڑے تخلیقی کام کاآغاز کر چکی تھیں کہ انھیں موت نے آلیا۔‘‘(۱۱)

      جمیلہ ہاشمی نے بنگال، انگلینڈ، اسپین، فرانس،ایران، عراق، سعودی عرب اور امریکہ جیسے ملکوں کے سفر بھی کیے اور دنیا کوانتہائی قریب سے دیکھا۔ وہ مشکلات کامقابلہ کرنے والی بہادر خاتون تھیں ۔آخری عمر میں  انھیں شوگر ،آنکھوں ،بلڈ پریشراور دل کے بڑھنے جیسے عوارض لاحق ہوگئے تھے جن کی وجہ سے ان کی طبیعت اکثر خراب رہنے لگی تھی۔ان کی زندگی کے آخری لمحات کے بارے میں  محمداسلم لکھتے ہیں :

          ’’۹ جنوری ۱۹۸۸ء کو رات ساڑھے دس بجے کے قریب اچانک جمیلہ ہاشمی کی طبیعت خراب ہوگئی۔ خون میں  شکر کی مقدار

           ۳۹۶ ہوگئی تھی جس کے باعث دل ودماغ اعتدال میں نہیں رہے تھے۔ گھریلوعلاج سے افاقہ نہ ہونے کے بعد محمد یعقوب

          خان،سائرہ ہاشمی ،ہمایوں یعقوب خان اور عائشہ صدیقہ انھیں میوہسپتال لاہور میں  لے گئے؛ تمام رات پریشانی میں  گزری۔

          ای ۔سی۔جی مشین کی رپورٹ مایوس کن تھی؛ صبح سائرہ ہاشمی نے سیاہ بکرے کاصدقہ اتارا؛ جمیلہ ہاشمی بدستور سکتے میں  تھیں ؛

          ڈاکٹروں کی سرتوڑ کوششیں مریضہ کوجانبرنہ کرسکیں :۱۰ جنوری ۱۹۸۸ء کودن کے ایک بج کر تین منٹ پر جمیلہ ہاشمی کی روح

          عنصر خاکی سے پرواز کر گئی۔ اناللہ واناالیہ راجعون ۔‘‘(۱۲)

جمیلہ ہا شمی کی و فا ت سے اردو ادب کے ایک عہد کا خا تمہ ہو گیا لیکنوہ آ ج بھی اپنی ُپر اثر تحر یر و ں کی بد ولت اردو ادب کے قا ر ئین کے دلو ں میں  زند ہ ہیں ۔

      حو ا شی

۱۔   حمیرااطہر:جمیلہ ہاشمی سے ملاقات؛ کراچی؛ اخبارخواتین( ہفت روزہ)؛۷ تا۱۳ اکتوبر۱۹۸۷ئ؛ ص۲۰

۲۔  محمداسلم:جمیلہ ہاشمی کاافسانوی ادب؛ اسلام آباد؛علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی؛مقالہ برائے ایم فل اردو؛ ۱۹۹۶ئ؛ ص۲۴۷

۳۔  ایضاً:ص۲۴۸

۴۔  ذوالقرنین عسکری،سید: جمیلہ ہاشمی بحیثیت ناول نگار؛ بہاول پور؛ اسلامیہ یونیورسٹی؛مقالہ برائے ایم اے اردو واقبالیات؛ ۱۹۸۸ئ؛ص۳۰

۵۔  محمدخالد اختر: آتش رفتہ؛ لاہور؛ماہ نو(مجلہ)؛اکتوبر۱۹۸۸ئ؛ص۱۸

۶۔  ام عمارہ: یادوں کاسفر؛ کراچی؛قومی زبان(مجلہ)؛فروری ۱۹۸۸ئ؛ص۳۲

۷۔  شبنم آرا: تانیثیت کے مباحث اور اردو ناول؛ دہلی؛ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس؛ ۲۰۰۸ئ؛ص۲۳۲۔۲۳۴

۸۔  جمیل جالبی،ڈاکٹر: یادرفتگاں : جمیلہ ہاشمی ؛کراچی؛ قومی زبان(مجلہ)؛مارچ ۱۹۸۸ئ؛ ص۷

۹۔   محمدعلی صدیقی: جمیلہ ہاشمی فن کے آئینے میں ؛ لاہور؛ نقوش (مجلہ)؛شمارہ ۱۴۰؛ص۶۰۵

۱۰۔ حمیرااطہر:جمیلہ ہاشمی سے ملاقات؛ ص۲۰

۱۱۔  ستار طاہر: جمیلہ ہاشمی چندیادیں ،چندتاثرات؛لاہور؛اردو ڈائجسٹ(مجلہ)؛فروری۱۹۸۸ئ؛ص۲۱۹

۱۲۔ محمداسلم:جمیلہ ہاشمی کاافسانوی ادب؛ ص۲۵۶۔۲۵۷

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.