ناول ’’ چاند ہم سے باتیں کرتا ہے‘‘ ایک ادھورا مطالعہ

      موجودہ دور میں جن فعال قلم کاروں کاشمار ہوتاہے اُن میں نورالحسنین کا نام بھی شامل ہے۔ ایک طرف وہ اپنے متنوع افسانوں کے باعث قاری کے دل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو دوسری طرف اُن کے ناولوں نے اُن کے نام کو خوب روشن کیا ہے۔اپنی ناول نگاری کا آغاز اُنھوں نے ایک چھوٹے سے ناول ’’ أہنکار ‘‘ سے کیا تھاجو بے حد مقبول ہوا۔ اس ناول میں اُنھوں نے مادّیت اور رشتوں کے تصادم سے ایک ایسی خوب صورت کہانی بُنی تھی جس نے نا قدو قاری کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ یہ ناول دیہی پس منظر میں پریم چند سے آگے کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس کے بعد اُنھوں نے ہندوستان کی پہلی جنگ ِ آزادی یعنی ۱۸۵۷ئ؁ کو اپنے دوسرے ناول کا موضوع بنایا اور نہایت کامیابی کے ساتھ ایک تاریخی ناول لکھ کر ثابت کر دیا کہ وہ اپنے معاصرین میں تاریخی فہم و ادراک کے ساتھ ناول کے فن کو مجروح کیے بغیرایک عمدہ تاریخی ناول لکھ سکتے ہیں ۔

      اور اب اُن کا ایک اور نیا ناول ’’چاند ہم سے باتیں کرتا ہے‘‘ شائع ہوا ہے۔ یہ ناول پانچ سو قبل ِ مسیح سے شروع ہوکر اکیسویں صدی کی پہلی دہائی پر ختم ہوتا ہے۔ اس ناول میں اُنھوں نے ناول کے اجزائے ترکیبی سے بغاوت کرتے ہوئے ناول کے فن کو ایک نئی سمت سے روشناس کرایا ہے۔ یہ ناول اپنے اندر طبع زاد اور حقیقی رومانی داستانیں لیا ہوا ہے۔ نورالحسنین کا کمال یہ ہے کہ اُنھوں نے جس مقام اور علاقے کی داستان کو بیان کرنے کی کوشش کی اُس علاقے کے ماحول اور معاشرت اور بڑی حد تک بولی اور زبان کا بھی خیال رکھا ہے۔ ناول کا منظرنامہ اور مکالمے قاری کے دل کو چھوتے ہیں ۔ ناول کی تمام داستانوں کو مربوط کرنے کے لیے اُنھوں نے جہاں تاریخی ادوار کا سہارا لیا ہے وہیں اس ناول میں مرکزی کرداروں کے روپ میں عشق اور چاند موجود ہیں جو قاری کو ایک داستان سے دوسری داستان میں پہنچاتے ہیں ۔ناول کے آغاز میں عشق اپنا تعارف ان الفاظ میں کرواتا ہے۔۔۔

’’میں عشق ہوں ، میں اپنے خالق کا کرشمہ ہوں ، جنون میرا مزاج،وفا اگر میری سلطنت ہے تو سر کشی اور بغاوت میری صفت، میں ازل سے ہوں اور ابد تک باقی رہوں گا، میرا پہلاجلوہ کائنات کی تخلیق کا بہانہ ہے۔اُس کی حمد و ثنا میں غرق مالائکہ میری ہی ڈوری میں بندھے ہوئے ہیں ۔ وہ آسمان سے زمین پر مجھے بھیجنا چاہتا تھا، اُسی نے مجھے آدم اور حوّا کی آنکھوں میں روشن کیا اور پھر اُن کے ساتھ ہی مجھے بھی زمین پر اُتار دیا۔۔۔تب سے آج تک میں اپنی موجودگی کا احساس دلارہا ہوں ۔

صدیوں نے میرے پیروں سے اُٹھنے والی آواز ِ سلاسل سنی، مذاہب نے میرے خلاف اونچی اونچی دیواریں بلند کیں ، مجھے مٹانے کے لیے کبھی لشکر میدان ِ جنگ میں اُترے،کبھی مجھے آگ کے دریا کو پار کرنا پڑا، کبھی مجھ سے قربانیاں طلب کی گئیں ، کبھی مجھے دیواروں میں چنوادیا گیا، لیکن میں نے کبھی شکست کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ کبھی تختہ دار پر، کبھی شہنائیوں کی گونج میں ، کبھی دن کے اُجالوں میں اور کبھی رات کے اندھیروں میں ، اپنی فتخ کا اعلان کیا۔ میں عشق ہوں ، میں جنون ہوں ، میں لازوال ہوں ، میں ہر پابندی کے خلاف ہوں ، میں ذات پات، جماعت سے بہت بلند ہوں ، میں ہر جگہ موجود ہوں ، زمانہ میری گزر گاہ ہے۔ میں ہر عہد میں سانسیں لیتا ہوں ، میرے بے شمار چہرے ہیں ، اور میرے ہر چہرے کا راز دار چاند ہے۔ ‘‘

      اس کے بعد عشق چاند کو مخاطب کرتا ہے۔

’’ اے چاند۔۔۔ کیا تو میرے ہر سفر کی گواہی دے سکتا ہے؟ ؟؟‘‘۔۔۔ چاند نے آنکھیں کھولیں ۔۔۔ اور زمین کی طرف دیکھنے لگا۔ ‘‘

اور یہیں سے ناول کا آغاز ہوتا ہے۔

’’وقت کا چاک اُلٹا گھومنے لگا۔رات دن میں اور دن رات میں تبدیل ہونے لگے۔

فضائیں معطر ہونے لگیں ۔

صدیاں ماضی کی طرف لوٹنے لگیں اور آخر دکن کی سہیادری کے کوہستان پر ۵۰۰ ق۔ م کی ایک صبح پر ٹھہر گئیں ۔

      اس ناول کو لکھنے کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ۔۔۔

’’ اپنے تیسرے ناول کے لیے میں ایک ایسے موضوع کی تلاش میں تھا جو قدرے مختلف ہو اور میں اپنے قارئین کو عصری ماحول کی جبریت، جس سے وہ خود دن رات جوجھ رہے ہیں کچھ دیر کے لیے فرحت و انبساط کی وادیوں میں لے جا سکوں ۔ اسی غور و فکر میں مبتلا تھا کہ ذہن میں تخلیق ِ کائنات اور آدم و حوّا کی داستان آگئی اور میں سوچنے لگا کہ قادر مطلق جو خود سراپائے محبت ہے اور جس نے اِسی محبت کی چاہ میں اس عظیم الشان کائنات کی تخلیق کی، اُسی نے آدم کو پیدا کیا، لیکن ستر ماؤوں کی محبت رکھنے والے خالق نے آخر آدم کے لیے ماں کو کیوں نہیں بنایا، اُسے بہن بھی نہیں بخشی، بلکہ اُس کے لیے حوّا کی تخلیق کی اور یقینا اُسی وقت عشق نے بھی آنکھیں کھولیں ، وہ چاہتا بھی یہی ہوگا کہ محبت کی وہ ادا سامنے آئے جو ایک طاقت بن کر یہ اعلان کرے کہ میں ، میں ہوں اور بس میں ، باقی کچھ نہیں ۔

۔۔۔۔۔۔مجھے ناول کے لیے موضوع مل گیا کہ عشق کی داستانوں کو ایک ہی ناول میں سمیٹا جاسکتا ہے۔ وہ محبت جس کی بنیاد آدم و حوا نے رکھی تھی، اُن کے بعد آنے والے ان گنت جوڑوں نے بھی اس وادی پُر خار میں قدم رکھا ہوگا، کچھ تو اپنی داستان ِ عشق یادگار بنانے میں کامیاب ہو گئے لیکن لا تعداد وہ جوڑے ہوں گے جو اس وادی میں تو اُترے ہونگے مگر آج اُن کا کوئی نام ونشان بھی نہیں جانتا، حالانکہ وہ بھی اس جذبے سے گزرے ہوں گے۔ اُن کا عشق بھی اپنے ماحول سے ٹکرایا ہوگا، اُنھوں نے بھی ایک دوسرے کے لیے اپنی جانیں قربان کی ہوں گی، کچھ کامیاب بھی ہوئے ہوں گے اور کسی نے ناکامی کی صورت بھی دیکھی ہوگی۔ چنانچہ میں نے کچھ تاریخی اور کچھ اپنی فکر سے تخلیق پانے والی داستانوں کو اپنا موضوع بنایا، بلا شبہ یہ موضوع نیا نہیں ہے لیکن یہ اطمینان ضرور ہے کہ یہ اپنے اندر بھر پور مطالعاتی وصف رکھتا ہے۔‘‘

      ۴۵۵ صفحات پر پھیلا ہوا یہ ناول ایک ایسے دلچسپ اور رواں بیانیے کی مثال ہے جس سے قاری سب کچھ بھول بھال کر پڑھتے چلا جاتا ہے۔ اسلوب ایسا کہ مناظر اور کردار کاغذ کی سطح سے بلند ہوکر آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے نظر آنے لگتے ہیں اور قاری بھی اُن کے سفر میں شامل ہوجاتا ہے۔ کبھی تجسس اُسے پلک مارنے کی مہولت نہیں دیتا اور کبھی مکالموں کی جادو گری اُسے مسرور کر دیتی ہے اور کبھی منظر کشی کے سحر میں وہ ڈوب جاتا ہے۔ نورالحسنین نے اس ناول میں بھی کہیں فلش بیک اور فلش فارورڈ کی تکنیک استعمال کی، کہیں منظری تکنیک کو برتا، کہیں کہیں شعور کی رو بھی نظر آتی ہے۔ کہیں فینٹاسی کا لطف بھی ہے، کہیں فلسفہ اور منطق، کہیں تصوف کے اسرار، پورا ناول رومانی جمالیات کا ایک ایسا مرقع بن گیا ہے جو اپنے قاری سے بار بار اپنی خوبیوں کی داد وصول کرتا ہے۔ناول کا موضوع عشق ِ مجازی ہے، اور اس عشق کی انتہا وصل میں پوشیدہ ہے۔ وصال کے ان لمحوں کو نورالحسنین نے نہایت خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ چند مناظر ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔

’’چاندنی دودھ کی طرح چٹکی ہوئی تھی، اور وہ پرورا ندی کی وادی سے دور بھنڈار درے کی ایک نہایت اونچی گھاٹی پر بیٹھے ہوئے تھے، اور اُس کے بہت نیچے مولا ندی شانت بہہ رہی تھی۔ اگاشم چمپا اور گیندے کے پھولوں سے اُس کا سنگھار کر رہا تھا۔ موگا کی آنکھیں بند تھیں ۔ پیشانی پر پھولوں کی لڑی باندھنے کے بعد اُس نے گیندے کے پھولوں کی مالا اُس کے گلے میں پہنایا، اور کمر میں پھولوں کی لڑی باندھنے کے لیے جیسے ہی وہ اُس کی طرف جھکا وہ اُس کے سینے سے لگ گئی۔ اُس کی آنکھیں اب بھی بند تھیں ، ’’ اگاشم وچن دو کہ سارا جیون مجھے اسی طرح پیار کرتے رہو گے۔ ‘‘

اگاشم کی بانہوں نے اُسے پوری شدت سے بھینچ لیا، اور پھر وہ اُس کے کانوں میں پھس پھسایا، ’’ تم ایک جنم کا وچن لے رہی ہو لیکن میں تمھیں جنم جنم اسی طرح پیار کرتا رہوں گا۔ ‘‘

موگا نے اُس کی چھاتی سے سر اُٹھایا اور اُس کی آنکھوں میں جھانکا، دونوں کی آنکھوں میں ایک دوسرے کا نشہ چھایا ہوا تھا۔ خمار میں ڈوبی ہوئی ادھ کھلی آنکھیں پیار کے ساغر لنڈھا رہی تھی اور موگا کے منہ سے بہت آہستہ سے نکلا، ’’اگاشم۔‘‘ اور اگاشم کے ہونٹ شہد جیسی مٹھاس سے بھر گئے۔ دونوں کے جسم میں خون کی روانی بڑھ گئی اور وہ دونوں ایک دوسرے میں سمانے لگے۔ اگاشم اُسے لیے زمین پر لیٹ گیا۔ آسمان سے چاند نے دونوں کی طرف دیکھا، ہواوں نے سیٹیاں بجائیں ، اور پیپل کے درختوں کے پتوں نے خوش ہوکر تالیاں بجانا شروع کیا، ساتھ ہی گھاٹی سے بہت نیچے بہنے والی ندی نے نہایت سریلا راگ چھیڑا۔ ‘‘

       نورالحسنین جنسی عمل کی تفصیل میں جانے کے بجائے پس منظر کو ایک ایسی زبان عطا کرتے ہیں جو اُن کی بات مکمل کر دیتا ہے۔ یہ پہلا منظر دراوڑقوم کے باسی اگاشم اورموگا کے ملن کا تھا اور اب یہ دوسرا منظر مگدھ نریش اجات شترو اور اُس کی رانی ونجیرہ کے ملن کا ہے۔

’’رانی اُس کے روبرو پہنچی اور نہایت ادب سے اپنے سر کو تھوڑا سا خم کیا، ’’ مہاراج کی جئے ہو۔ ! ‘‘

اجات شترو کے کانوں میں مدھر گھنٹیاں سی بجنے لگیں ۔

’’آپ نے ہمیں یاد کیا ؟ ‘‘

’’ہاں ۔ ‘‘ اجات شترو نے اُسے اپنی بانہوں میں بھرلیا، ’’ ہم آپ کی کب سے پرتکشا کر رہے تھے۔ ‘‘

’’ لیکن مہاراج ! ابھی تو سوریہ بھی است نہیں ہوا ہے۔ ‘‘ وہ اُس کی بانہوں میں سے نکل گئی اور اُس کی طرف شوخ نظروں سے دیکھنے لگی، ’’ آج یہ ویاکلتا کیسی ؟ ‘‘ وہ سوم رس کو پیالے میں اونڈھلنے لگی۔ راجہ اُس کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔

’’ مہاراج پریم رس کا پنچھی، ویشالی کی گلیوں سے نکل کر ونجیرہ کی اور کیسے آنے لگا ‘‘ اُس نے پیالہ اُس کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے سوال کیا۔

راجا نے ایک ہی سانس میں پیالہ ختم کر دیا اور اُسے رکھتے ہوئے جواب دیا، ’’ ونجیرے۔۔۔ ویشالی میرا پریم نہیں اِچھا ہے۔ ‘‘ اُس نے رانی کو اپنی گود میں بھر لیا اور اُس کے لبوں کو چومتا ہوا اُسے سیج پر لے آیا، ’’ پریم اور اِچھا میں بڑا انتر ہے، اور میرا پریم کیول تم ہو۔ ‘‘

’’اور ونجیرہ کا ابھیمان کیول اپنے راجن کی اِچھا ہے۔‘‘ اور اُس کی بانہوں نے راجن کو پوری طرح جکڑ لیا۔ سوم رس کا نشہ پریم رس کی وادیوں میں اُڑنے لگا، مگدھ سے کاشی، پھر بنارس، کوشلا، اونتی، ہوتا ہوا ویشالی پر آکر ٹھہر گیا اور پریم رس کے مسافروں نے آنکھیں کھولیں ۔ ایک دوسرے کی طرف دیکھا، بدن تھکن سے چور تھے لیکن اِچھاؤں  کا پجاری اُٹھ بیٹھا، اُس نے ونجیرہ کی طرف دیکھا۔ وہ ابھی تک اُسی طرح لیٹی ہوئی تھی۔‘‘

یہاں بھی نورالحسنین کے قلم نے وہی مہارت دکھائی ہے۔ایک اور ایسا ہی منظر ملاحظہ فرمائیں :

’’ سکندر فوج، سالاراور دوستوں کے تبصروں سے بے نیاز رخسانہ ہی کے شکستہ کھنڈر نما دیوڑھی میں اُسی کے پہلو میں محبت کی منزلیں طئے کر رہا تھا۔ رخسانہ نے سکندر کے سینے پر سے گردن اُٹھائی، دونوں کی آنکھیں خمار میں ڈوبی ہوئی تھیں ۔ اُس نے آہستہ سے کہا، ’’ میں بہت تھک گئی ہوں شہنشاہ۔ ‘‘ اور پھر دوبارہ اُس کے سینے پر اپنا سر رکھ دیا۔ سکندر اُس کی عریاں پیٹھ کو آہستہ آہستہ سہلانے لگا، ’’ جان ِ سکندر۔۔۔! تمھیں تو مابدولت کے ساتھ ایک طویل سفر طئے کرنا ہے۔ ابھی سے تھک جاؤ گی تو سکندر کی تلوار کو زنگ لگ جائے گا۔ ‘‘

جذبات سے سر شار رخسانہ نے اپنی بانہوں میں سکندر کو لے لیا اور اُس کی گردن پر اپنے لب رکھ دئیے۔ سکندر کی بھی آنکھیں بند ہو گئیں اور اُس کے ہاتھ اُس کی پیٹھ سے نیچے پھسلنے لگے۔

اور کارخانے میں ہتھوڑے کی ضربیں خام لوہے کو اپنے مقصد کے مطابق ڈھالنے میں لگ گئیں ۔ ‘‘

      بقول جاوید ناصر نورالحسنین مکالمے لکھنے کے فن سے بھی خوب واقف ہیں ۔ خواہ رومانی مکالمے ہوں یا اُن کا انداز فلسفیانہ ہو، وہ اپنے کرداروں کو ایسی زبان دیتے ہیں کہ قاری کے منہ سے بے ساختہ داد نکل آتی ہے۔ عشق میں گرفتار چندرم ( دیسو۔ غلام ) اور یشودھرا کا یہ مکالمہ ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔

’’ وہ پھر ایک بار اُس چھوٹی سی چٹان کے پاس پہنچے، اُسے دیکھتے ہی یشودھرا کو وہ لمحہ یاد آگیا، اور وہ اُس چٹان پر بیٹھ گئی۔ اُس کے پورے بدن میں عجیب سی سنسناہٹ ہونے لگی۔ دیسو اُس کے سامنے کھڑا تھا اور اُس کا جی چاہ رہا تھاکہ وہ پھر ایک بار اُس کی بانہوں میں چلی جائے، اُس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں تو بیتا ہوا سارا منظر اُس کی آنکھوں میں بھر آیا۔ اُسے اس طرح خاموش دیکھ کر دیسو نے پوچھا، ’’ کیا سوچ رہی ہو یشودھرا۔ ؟ ‘‘

اُس نے آنکھیں کھولیں ، ’’ چندرم اگر اُس دن مجھے کچھ ہوجاتا تو ؟ ‘‘

’’ تو چندرم بھی اپنے پران چھوڑ دیتا۔ ‘‘

’’ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مجھے تم سے کوئی محبت نہیں ہے۔ ‘‘

’’ نہیں ۔۔۔ میں یہ جان چکا تھا کہ آکاش میں بادل چھانے لگے ہیں اور دھرتی تڑخنے لگی ہے۔ ‘‘

 یشودھرا کا چہرا سرخ ہو گیا۔

’’ بادل برس گئے اور میری دھرتی ہریالی سے بھر گئی۔ ‘‘

 یشودھرا کی آنکھیں بند ہونے لگی۔

’’ مجھے پورا وشواس ہے، سوریہ چاہے کیسی ہی اگن اُگلے دھرتی سے ہریالی کا سمبندھ ٹوٹے گا نہیں ۔ ‘‘

 یشودھرا کے بدن کے سارے ہی تار جھنجھنا اُٹھے اور جیسے ہی چندرم نے اُس کے بدن کو چھوا،وہ اُس کے سینے سے لگ گئی، اور اُس نے پھول کی پنکھڑیوں سے شبنم کا ایک ایک قطرہ چوس لیا۔ ‘‘

      نورالحسنین نے کسی فوٹو گرافر کی طرح مختلف علاقوں کے معاشرتی کلچر کو اپنے ناول میں بیان کیا ہے۔ چاہے وہ دراوڑ قوم کا ہو یا آریاؤں  کا، یا پھر مقدونیہ اور عرب کا ہو، یا ترقی یافتہ ہندوستانی قدیم علاقوں کا۔ یہاں ہم اس ناول سے دراوڑیوں کے اُس کلچر کو پیش کرتے ہیں جب اُنھیں معقول شکار ہاتھ آجاتا تو کس طرح وہ رقص و سرور کی محفلیں سجاتے تھے۔۔

’’آج بھی عمدہ شکار کی دستیابی پر جشن منایا جا رہا تھا۔ عورتیں اور مرد حلقہ بنا کر تھرک رہے تھے۔ گیت اُن کے ہونٹوں پر مچل رہے تھے۔ سانولے نیم عریاں بدن ایک دوسرے کو دعوت ِ عیش دے رہے تھے۔ کنواری لڑکیاں اپنے من پسند لڑکوں کو چھیڑ رہی تھیں ۔ قہقہے گونج رہے تھے۔ جانوروں کی جھلی سے منڈھے ہوئے تاشوں پر ہاتھ پڑ رہے تھے۔ دھن دھن دھنا دھن کی پُر شور آوازوں میں اُن کے بدن تھرکنے لگے۔ اُن کا رقص بھی عجیب تھا۔ وہ سب ایک ساتھ ایک دوسرے کے ہاتھوں پر ہاتھ مارتے اور پھر فوراً اُچک کر اپنے دونوں ہاتھ اپنی اپنی کمروں پر مارتے اور ایک ایک قدم آگے پیچھے ہوتے لیکن اس بات کا خیال رکھتے کہ حلقہ ٹوٹنے نہ پائے۔ بہت دیر تک یہی رقص جاری رہا، تاشے بجتے رہے۔ پھر مرد پیچھے ہٹ گئے اور خالص عورتوں کا رقص شروع ہو گیا۔ تاشوں کا رِدم بھی بدل گیا، لیکن حلقہ اُسی طرح قائم رہا۔ عورتوں نے اپنے بال کھولنا شروع کیا اور اُن کی گردنیں جھٹکوں کے ساتھ اِدھر اُدھر ہونے لگیں ۔ کمر ٹھمکیں لگانے لگی، ہاتھ آگے پیچھے تالیاں بجانے لگے۔ مردوں نے آگ پر لٹکے ہوئے گوشت کے لوتھڑوں کو نیچے اوپر کرنا شروع کیا۔ عورتوں کے رقص میں تیزی آنے لگی اور مردوں اور نوجوانوں نے مدرا کے گھونٹ چڑھانا شروع کیا۔ رقص و سرور دو آتشہ ہونے لگا۔ عورتیں رقص بھی کر رہی تھیں اور اپنے اپنے شوہروں کو ہیجان انگیز اشارے بھی کر رہی تھیں ۔ مرد اُن کے ہر عمل کا لطف اُٹھا رہے تھے۔قہقہے لگا رہے تھے۔ ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار رہے تھے۔ رقص اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ عورتوں کے اوپری بدن تو پہلے ہی سے عریاں تھے۔ جوش اور مستی میں اُنھوں نے اپنے ستر بھی کھولنا شروع کر دیا۔ مردوں نے منہ میں اپنے ہاتھ کی پہلی اُبگلی ڈالی اور خوشی کے مارے عجیب سی آوازیں نکالیں اور عورتوں کے پیچھے اپنا حلقہ بنا لیا اور زور زور سے اپنا سیدھا پیر زمین پر پٹکنے لگے۔ ‘‘

      نورالحسنین کا یہ ناول بہت سارے حقائق کو بھی بیان کرتا ہے اور ہندوستان میں ہونے والی سماجی مذہبی تبدیلیوں کی طرف بھی اشارے کرتا ہے۔ جس زمانے میں ویشالی میں راج نرتکی امر پالی موجود تھی اُس زمانے میں بدھ مت تیزی سے پھیل رہا تھا اور بدھ بھکشو اپنے مذہب کے پرچار میں لگے ہوئے تھے۔ امر پالی اپنی داسی سبھدرا کی اطلاع پر بدھ بھکشو سے ملنے کے لیے آتی ہے۔ نورالحسنین کا تاریخی ادراک امر پالی اور بدھ بھکشوکے درمیان ہونے والے مکالموں کی مدد سے ایک نہایت عمدہ منظر اپنے ناول میں پیش کرتاہے :

’’ بدھ بھکشو گردن جھکائے ایک چوکی پر بیٹھے تھے، جونہی امر پالی ہال میں داخل ہوئی، اُنھوں نے نظریں اُٹھاکر اُس کی طرف دیکھا۔ جوانی کی مستیوں میں ڈوبی ہوئی ایک ابلہ کال کے چکر سے بے نیاز لڑکھڑا رہی تھی۔ اُس نے اپنے ہاتھ جوڑے اور کسی طرح مسکرانے کی کوشش کی۔ بھکشو نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور وہ مقابل کی چوکی پر ایسے بیٹھی کہ اُسے اپنے کپڑوں کا بھی ہوش نہیں تھا۔ اُس نے بڑی مشکل سے اپنی آنکھوں کو کھولا اور بھکشو کی طرف دیکھا جو شرم سے پانی پانی ہورہا تھا۔ اُس نے بے اختیار قہقہہ لگایا اور پھر نشے میں ڈوبی ہوئی لیکن کھنکتی ہوئی آواز میں کہنا شروع کیا، ’’ مہاراج چھما کریں ، کیا اشٹ مارگ کی گنگا جمنا میں اشنان کرتے کرتے آپ کو بھی ایک نرتکی کی اوشکتا پڑ گئی ؟ ‘‘

’’ بالیکے۔۔ ‘‘ آنند مہاراج کی نظریں اب بھی جھکی ہوئی تھیں ، ’’ میں تو کیول تم کو سمجھانے آیا ہوں ، یہ دنیا کبھی نے سماپت ہونے والی اِچھاؤں  کا گھڑا ہے۔ موہ مایا اور ولاستا کا جال ہے۔ جو بھی ان میں ایک بار پرویش کرتا ہے پھر اُسے کوئی مارگ نہیں ملتا۔ یہاں پگ پگ گھات ہی گھات ہیں ۔ یہ سندرتا، یہ راج پاٹ، یہ مان سمّان، ابھیمان اور یہ جیون سب کچھ نشٹ ہونے والا ہے۔ ان کا تیاگ ہی ستیہ کا مارگ ہے اور ستیہ ہی نروان ہے۔ دیوی میں تو کیول تم کو ستیہ کی اور آنے کا سندیش دینے آیا تھا۔ ‘‘

امر پالی نے تحقیر آمیز ہنسی کے ساتھ بھکشو کی طرف دیکھا، ’’ اور وہ آپ کا مارگ کیا ہے ؟ جنگلوں میں بھٹکنا؟‘‘ وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور لہراتے ہوئے کہنے لگی، ’’ بھوک پیاس سے تڑپنا اور مان سمّان کو ٹھکراکر نپوسک جیون جینا۔۔۔ ہے نا ؟ ‘‘

آنند مہاراج نے آنکھ اُٹھاکر اُسے غور سے دیکھا۔

امر پالی نے نظریں گھماکر اپنے شاندار سدن کی اندرونی سجاوٹوں کی طرف دیکھا، اپنے بدن پر چمکتے ہوئے گہنوں کا احساس کیا اور پھر لڑکھڑاتی ہوئی بھکشو کے پیچھے جا کر کھڑی ہو گئی، ’’ مہاراج جب تک میرے پیروں میں ان گھنگھروں کا بوجھ اُٹھانے کی شکتی ہے اور جب تک میرا بدن تھِرک سکتا ہے، نرتیہ ہی میرا نروان ہے، میرا آدرش ہے، میری بھگتی ہے، میری پوجا ہے۔ مجھے آپ کے کٹھور ستیہ کی اوشکتا نہیں ہے۔ ‘‘

      نورالحسنین کا تعلق دکن سے ہے اور دکن صوفیوں اور سنتوں کا مسکن رہا ہے۔ صوفی ازم عشق کی درسگاہ ہے۔ جو عشق حقیقی تک پہنچنے کے لیے عشق ِ مجازی کا سفر اختیار کرتا ہے۔یہ سفرآسان نہیں ہے اس کے لیے خود کی نفی ضروری ہے کیونکہ خود کی نفی کے بعد ہی وصل کی منزل آتی ہے۔ نورالحسنین اس رمز کو خوب سمجھتے ہیں ، اسی لیے اُنھوں نے اس ناول میں بھی اس کا خوب استعمال کیا ہے۔۔۔

’’ چاند نے قہقہہ لگایا، ’’ تم اُسے پکارتے تو ہو، مگر صوت کا سہارا لے کر، ایک بار اُسے زبان سے نہیں ، اپنی ساری باطنی قوتوں کو ایک جگہ سمیٹ کر خود لیلیٰ بن جاؤ، جونہی تم میں اور تو کے جنجال سے نکلوگے، تمہارے روم روم سے ایک ہی آواز بلند ہو گی، لیلیٰ۔ لیلیٰ۔۔ لیلیٰ۔۔۔ اور یہ آوازیں ایک گونج بن کر لیلیٰ کے دل پر اس طرح دستکیں دے گی کہ وہ تڑپ اُٹھے گی اور دیوانہ وار آواز کا تعاقب کرتے ہوئے تم تک پہنچ جائے گی۔ ‘‘

قیس نے حیرت سے چاند کی طرف دیکھا۔

’’وہ عشق ہی کیا جو سہاروں کی بنیاد پر پروان چڑھے، اپنے من میں ڈوب جاؤ، بھول جاؤ اپنی ہستی، جب تک وجود باقی رہے گا، سہاروں کی رسی تمہارے ہاتھوں میں تھمی رہے گی۔ دوئی کا در چھوڑو، اور ایک ہوجاؤ، پھر دیکھو وصل کی گھڑیاں کیسے تمہارا مقدر بنتی ہیں ۔ ‘‘

قیس نے آنکھیں بند کرلیں اور اپنے وجود کے ایک ایک حصے کو فراموش کرنے لگا۔ اُس کی آنکھوں سے منظر دھندلانے لگے، اب اُس کی آنکھوں میں طرح طرح کے رنگ گڈ مڈ ہونے لگے۔ اُسے لگا جیسے ساری کائنات ایک نقطہ پر جمع ہونے لگی ہے اور سارے رنگ ایک ہو گئے ہیں ۔ اب جو بھی ہے، وہ بس نور ہی نور ہے۔ وہ سمٹتا گیا، سمٹتاگیا یہاں تک کہ اُس کا سارا وجود سمٹ کر صرف دل بن گیا اور پھر اس دل سے آہیں اُٹھنے لگیں ۔ لیلیٰ۔ لیلیٰ۔۔ لیلیٰ۔۔۔۔۔

لیلیٰ نے آنکھیں کھولیں ۔ اِدھر اُدھر دیکھا، یہ مجھے کون آوازیں دے رہا ہے۔ ‘‘

      نورالحسنین کا یہ ناول جہاں عشق اور اُس کے فلسفے کو بیان کرتا ہے۔ عشق کی راہ میں دی جانے والی قربانیوں کا احوال سناتا ہے، عشق کی بے باکی، بغاوت، سرکشی، وفا داریوں کا اظہار کرتا ہے وہیں وہ فرض کے فلسفے سے بھی روشناس کرواتا ہے۔ تاریخِ ہند میں راج کماری سنجگتا اور پرتھوی راج چوہان کے داستان ِ عشق کے ساتھ ہی ساتھ میں محمد غوری کی ہندوستان پر حملے کی تیاریوں کی اطلاعیں بھی پہنچتی ہیں اور ایسے میں پرتھوی راج کا درباری شاعر چاند بردری نہ صرف قنوج کی راج کماری سنجگتا کی تصویراپنے ساتھ لاتا ہے بلکہ راج کماری کے اُس پر فدا ہونے کی بات بھی بتاتا ہے۔ ناول میں یہ منظر اور مکالمے ملاحظہ فرمائیں :

’’ یہی نہیں مہاراج۔۔۔ میں نے تو اُس کے رِدھئے میں آپ کے دل کی دھڑکنوں کو بھی سنا ہے۔ ‘‘

’’ ارتھات۔۔۔؟ ‘‘

’’ آپ اُس کے من مندر کے دیوتا ہیں ۔ وہ آپ کی ویرتا پر مر مٹی ہے۔ جب بھی منہ کھولتی ہے اُس کی زبان پر بس آپ ہی کا نام ہوتا ہے۔ ‘‘

پرتھوی راج نے شدّت ِ جذبات سے مغلوب ہوکر اپنے دوست کو لپٹالیا، ’’ چاند بردری۔۔۔! تم نے اس چتر ( تصویر ) کو دکھاکر ہمیں بھی پریم کے ساگر میں ڈبودیا ہے۔ اب اتہاس کے پنوں میں ہمارا نام ویروں کی سوچی میں نہیں ، کیول ایک پریمی کے روپ میں ہوگا۔ ‘’

’’ سمراٹ پریم کی یاترا آرمبھ کرنے سے پہلے یہ بھی سوچ لیں کہ آپ کا پریم کسی سادھارن ویکتی کا پریم نہیں ہے۔‘‘ چاند بردری سمجھانے لگا، ’’ آپ سمراٹ ہیں اور بھارت کی سیما پر ملیچھ غوری آکرمن کے سپنے دیکھ رہا ہے۔ ‘‘

’’ کوی راج ہمارا گدا ٹوٹ گیا ہے۔ تلوار ہاتھ سے چھوٹ گئی ہے اور بھالے کا پھل کند ہوگیا ہے۔ ایک ویر کے سارے شستر ہمارے بدن سے د ور ہو گئے ہیں ۔ اب ہم کیا کریں چاندبردری۔۔۔ ہمارے تو ہوش ہی اُڑ گئے ہیں ۔ ‘‘

’’ چاند بردری نے سمراٹ کے کندھے کو تھپتھپایا، ’’ مہاراج پریم اور کرتویہ کی بھاشا کے نی یم الگ الگ ہیں ۔ پریم ایک ویکتی کا اپنا سنسار ہے اور کرتویہ جیون کا شنگھار۔ پریم کی ہار ایک ویکتی کی ہار ہے کنتو کرتویہ کی ہار ایک سنسار کی ہار ہے۔ ‘‘

پرتھوی راج نے حیرت کے ساتھ اپنے دوست کی جانب دیکھا۔

’’ سمراٹ آپ پریم کے ساگر میں ڈبکی بھی لگائیں اور اپنے کرتویہ کا پالن بھی کریں ۔ یہی ایک سمراٹ کا دھرم ہے۔ میری آپ سے بنتی ہے کہ پہلے شستر اُٹھائیں اور سیما کی اور بڑھنے والے شترو کا سرو ناش کریں اور پھر کرشن کی بنسری سے پریم کے راگ چھیڑیں ۔ ‘‘

       نورالحسنین کا یہ ناول صرف سنجیدہ مکالموں ہی کی وجہ سے پسند نہیں کیا جائے گا بلکہ اُنھوں نے دلچسپ اور ہلکے پھلکے مکالمے بھی لکھے ہیں ۔مانڈو کے سلطان باز بہادر اور رانی روپ متی کے داستان ِ عشق کو بیان کرنے کے لیے اُنھوں نے یہ انداز اپنایا ہے۔ سلطان کو جب یہ اطلاع ملتی ہے کہ مالوہ کی چرواہن روپ متی گائیکی میں اپنا جواب نہیں رکھتی تو وہ ایک چرواہے کے بھیس میں مالوہ پہنچتا ہے۔ جہاں ایک خوب صورت وادی میں بیٹھی روپ متی گا رہی ہے۔ اب ذرا دونوں کے مکالموں کا یہ حصہ ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔

’’ تم نے ابھی ابھی اپنے سلطان کی بہت تعریف کی ہے۔ ‘‘

’’ تو۔۔۔ ؟ ‘‘

’’ تم اُن کے دربار میں کیوں نہیں جاتیں ، تمہاری آواز سن کر تو وہ بھی تمہارے دیوانے ہوجائیں گے۔ ‘‘

’’ بابو تم کا ہمرا ٹھٹھا اُڑائی رہے ہو ؟ ‘‘

’’ ارے نہیں نہیں ۔۔۔ سچ کہہ رہا ہوں ۔ ‘‘ باز بہادر نے فوراً جواب دیا۔

’’تم دیکھن رہے ہو ہمرے سلطان جی کو؟‘‘

’’ ہاں ہاں ۔۔۔ دیکھا ہے۔ ‘‘ باز بہادر کا لہجہ اب شوخ ہو گیا تھا، ’’ اُن سے ملا بھی ہوں ۔۔۔ اُنھوں نے ہی تو مجھے حکم دیا ہے کہ۔۔۔ اے نوجوان سیدھا مالوہ جا۔۔۔ وہاں ایک گائین پجارن۔۔۔۔ آں  کیا نام۔۔۔۔‘‘

’’ روپ متی۔۔۔ ‘‘

’’ ہاں ۔۔۔ روپ متی۔۔۔روپ متی رہتی ہے۔ اُس کے حضور ہمارا سلام پیش کر، اور اُسے ہمارے دربار میں آنے کی دعوت دے، اور اُسے یہ بھی بتا دے کہ ہم اُس کے لیے بہت ہی۔۔۔۔ بہت ہی۔۔۔ وہ کیا کہتے ہیں ۔۔۔؟ ‘‘

’’ ویاکُل ‘‘

’’ ہاں ہاں ۔۔۔ وہی۔۔۔ ویاکل ہیں ۔ ‘‘

روپ متی کھلکھلاکر ہنسنے لگی، ’’ بابو۔۔۔اب ہم تم کا اچھی طرح پہچان گئے ہیں ۔ ‘‘

باز بہادر نے اپنے چرواہے کے لباس کو دیکھا، ’’ کمال ہے۔۔۔ اس حالت میں بھی ؟ ‘‘

       عشق کی مختلف داستانوں اور تاریخ کے مختلف گلیاروں سے ہوتا ہوا یہ ناول بیسویں صدی میں قدم رکھتا ہے تو اب قدریں اس قدر بدل چکی ہیں کہ اب عشق کے وہ معیار باقی نہیں رہے۔ ضروریات اور نئے رجحانات نے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے مخلوط پلیٹ فارم مہیا کر دئیے، اکیسویں صدی نے دنیا کو سمیٹ کر ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کردیا۔ تکنالوجی نے بدن کے سارے اسرار ایک کلک میں محفوظ کردیا۔ اب کوئی امبا بائی کو محبت کے نام پر ہوس کا شکار بناتا ہے۔ کوئی انجنا محض انٹرنیٹ پارلر کی فری سروس کے لیے کسی کو بے وقوف بناتی ہے۔ کوئی سلمی ان دیکھے لڑکے سے فلرٹ کرتی ہے۔ کوئی مادی آسائش کی خاطر اپنے محبوب سے بے وفائی کرکے وطن سے دور عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتی ہے۔ ان سب کے باوجود ایسا بھی نہیں ہے کہ زندگی کے ساز پر محبت کے گیت نہیں گائے جاتے۔گائے جاتے ہیں لیکن نئے ماحول اور نئی رنگینیوں کے ساتھ۔

      نورالحسنین کا یہ ناول یقینا اُردو ادب کا ایک اہم ناول ہے۔ اس ناول میں بہت کچھ ہے جس کا ایک ہی مضمون میں احاطہ کرنا بہت مشکل ہے۔ ناول کی زبان اپنے کرداروں کے عین مطابق ہے۔ مکالمے نہایت برجستہ ہیں اور منظر کشی کا جواب نہیں ۔ اس ناول کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا مطا لعاتی وصف ہے جو اپنے پہلے صفحے سے آخری صفحے تک قاری کو باندھے رکھتا ہے۔ اس کامیاب ناول نگاری پر نورالحسنین کو مبارکباد ملنا ہی چاہیے۔

٭٭٭

از:سید امجدالدین قادری

ریسرچ اسکالر، شعبہ اُردو،

ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی،اورنگ آباد

Syed Amjaduddin Quadri

Research Scholar,

Dept. Of Urdu

Dr. Baba Saheb Ambedkar Marathwada University, Aurangabad – 431001

Mob:- 9028831692

E-mail:- saq_muneeb@rediffmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.