’کھودو بابا کا مقبرہ ‘   تجزیاتی مطالعہ

آزادی کے بعد اردو افسانہ بہت سی تبدیلیوں سے آشنا ہوا لیکن تبدیلی کے اس سفر میں یہ کسی بھی انتہا پسند پڑائو پر زیادہ دیر نہیں ٹھہرا،جس طرح ترقی پسند انتہا پسندی سے اس نے اپنے آپ کو بہت جلدآزاد کر لیا تھا اسی طرح تجریدی اور علامتی حصار سے بھی بہت جلد باہر نکل آیا ۔علامت کسی بھی فن پارے میں وسعت ،تہہ داری اور حسن و دلکشی پیدا کرنے کا کام کرتی ہے ،لیکن تب تک، جب تک اس میں توازن برقرار رہے اور اس قدر ذاتی نہ ہو کہ اس کی تعبیر و تشریح مشکل ہو جائے۔نئے دور کے افسانہ نگاروں نے مروجہ روایت سے انحراف کرتے ہوئے نہ صرف اردو افسانے پر چھائی علامت و تجریدیت کی دھندکو کم کیابلکہ افسانے کو زیادہ دلکش ،زندگی سے قریب اور زیادہ با معنی بنایا۔ان میں انتظار حسین،سریندر پرکاش،بلراج کومل اورجوگندر پال کے نام اہمیت کے حامل ہے ۔

جوگندر پال کے افسانوں کی خاص بات ان میں زندگی کی عکاسی ہے ،وہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی صداقتوں اور مسائل کو اپنا موضوع بناتے ہیں ۔جوگندر پال کی انفرادیت کے متعلق پروفیسر قمر رئیس لکھتے ہیں:

’’افسانہ ہو یا ناول جوگندر پال کی ہر نئی تخلیق ایک نئی واردات ،نئے تجربے کا مظہر ہوتی ہے ۔ان کی تخلیقات میں جو چیز مشترک ہوتی ہے وہ ہے مصنف کی درد مندی ،عصری مسائل کا ادراک اور عام انسان کے دکھ درد سے وابستگی ۔وہ زندگی کے عام اور معمولی واقعات میں آسانی سے دور رس نفسیاتی اور تہذیبی حقائق کا مشاہدہ کر لیتے ہیں ۔ان کا وژن آفاقی ہے اور ان کے بیشتر افسانے ایک نئی جمالیاتی حسیت کا احساس دلاتے ہیں ،جس سے ان کے فن کی منفرد شناخت قائم ہوتی ہے۔‘‘۱؎

’کھودو بابا کا مقبرہ‘ایک دلچسپ اور جدید افسانہ ہے جس میں انہوں نے قصہ گوئی اور واقعے کے ربط کے ساتھ ساتھ جدید ٹکنیک کو بھی برتا ہے۔کہانی کا پلاٹ بہت مختصر ہے ۔افسانے کا آغاز’کھودو بابا ‘ کی بستی میں آمد کے بیان سے یوں ہوتا ہے :

’’کھودو بابا اور شام اس جھونپڑ پٹی میں آگے پیچھے داخل ہوئے ۔شام تو آپ ہی آپ سایہ سایہ آگے بڑھ گئی اور کھودو بابا کو دیکھ کر ایک پلا ہوا کتاگویا یہ کہنے کے لیے بھونکا کہ میرے پیچھے پیچھے آئو۔۔۔‘‘

اس کے بعد وہ کتا جس کا نام بندھو ہے ،بابا کو رکھا چو ہدری جو اس بستی کے قبرستان کا چوکیدار ہے ،کی جھونپڑی تک لے جا کر واہوں !واہو کی صدا بلند کرتا ہے اور جھونپڑی کا مالک رکھا چو ہدری اس کی آواز سن کر باہر نکلتا ہے ۔بابا اس کام سے خوش ہو کر پیار سے جھک کر بندھو کی پیٹھ تھپتھپاتا ہے اور اپنے سر پر مٹھی بھر خاک ڈال کر جھونپڑی میں داخل ہوتا ہے لیکن اس سے پہلے وہ بچھو سے چو ہدری کو بچاتا ہے جس سے چو دہدری متاثر ہو کر باباکا عقیدت مند ہو جاتا ہے اور اس کو کم پیسے میں جھونپڑی دینے کو تیار ہو جاتا ہے لیکن بابااس سے کہتا ہے :

’’نہیں ،مجھے سب سے اونچی چھت چاہیے آسمان کی چھت ،کھودو‘‘

 چوہدری بابا کی خاطر شراب اور جلیبیوں سے کرنا چاہتا ہے لیکن بابا اس سے ایک سوکھی روٹی کا سوال کرتا اور چوہدری اسے کتا بندھو کے حصے کی ایک روٹی نمک لگا کر دے دیتا ہے اور اپنی چالاکی اور عقیدت برقرار رکھتے ہوئے اسے قبرستان کے کنارے ایک چبوترہ الاٹ کر دیتا ہے ۔صبح چوہدری کی اطلاع پر لوگ اس چبوترے کے پاس بابا کے لئے کھانے کی چزیں اور دیگر سامان لے کر جمع ہوتے ہیں لیکن بابا صرف سوکھی روٹی کھاکے پانی پی لیتا اور باقی چیزیں لوگوں میں بانٹ دیتا ہے ۔اگلے دن پھر سے لوگ جمع ہوتے ہیںجس میں قبرستان کے مردے بھی شامل ہوتے اس دن ایک پنڈت مرلی دھر بھی آیا ہوتا ہے جو ایک عجیب وغریب شخص کو دیکھ کر اس سے سوال کرتا ہے کہ :

’’کیوں ،بڑے بھائی ،تم ادھر ہماری جھگیوں میں سے ہو ،یا ۔۔۔۔۔اس نے قبرستان کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔۔۔ادھر سے؟

بابا اس کے سوال کو سن کر پنڈت سے کہتا ہے :

’’پنڈت کھودو ،گیان مارگ ہمیں دوسروں سے دور کر دے تو ہمیں اندھ وشواسوں کے مارگ پر ہو لینا چاہیے ۔ہے نا؟

پنڈت باباکی بات سن جی خوش ہونے کی بات کہتا ہے لیکن بابااسے بتاتا ہے کہ وہ یہ باتیں اس کو خوش کرنے کے لیے نہیں کہہ رہا ہے بلکہ اس کا مقصد ہے کہ تم :

’’مجھے سمجھو اور محسوس کرو ‘‘

اس کے بعد بابا پنڈت سے سوال کرتا ہے کہ اس کی سیدھی سادی ماں بڑی ہے جس نے اسے جمن دیا ،یا اس کی اتنی بڑی چوٹی ۔پنڈت جواب میں ماں کہتا ہے ۔پھر بابا اس کو بتاتا ہے کہ اسی طرح اس کی پنڈتائی بھی سیدھی سادی بات سے ہے اوریہ ثابت کرنے کے لیے کہ سیدھی سادی بات بھی کتنی گہری ہوتی ہے ، ایک بازاری سگ زادے کی کہانی سناتا ہے جو ایک بڑے شہر میں رہتا تھا اور سڑکوں پر مارا مارا پھرتا تھا اسی اثنا میں اس کو ایک کپڑے کے بیاپاری کی کتیا سے عشق ہو جاتا ہے اور کچھ مہیوں بعد لوگوں کی بے اعتنائی کے باعث بھوک کے مارے اس کی موت ہو جاتی ہے ۔مرنے بعد وہ اچانک اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کچی زمین کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے کہانی سناتے سناتے بابا کی آواز مدھم ہونے لگتی ہے اتنے میں ایک آوارہ نوجوان بابا سے سوال کرتا ہے کہ کیا وہ سگ زادے تم ہی ہو اس پر بابا کہتا ہے کہ :

’’دکھوں کا پہاڑ سامنے ہو تو سگ زادہ بھی آدمی دکھنے لگتا ہے ‘‘

اگلے دن کوراں تائی کی جگہ بندھو کتا بابا کے لیے روٹیاں لاتا ہے اور بتاتا ہے کہ تائی کی طبیعت خراب ہے اسی لیے اس نے اس کو روٹی دینے بھیجا ہے ۔بندھو اور بابامیں مکالمے ہوتے ہیں جس میں بندھو بستی والوں کے حالات بابا کو بتاتا ہے اگلے دن روزی مدر ، جو جسم کا دھندا کرتی ہے بابا سے ملنے آتی ہے اور بابا اس سے پوچھتا ہے کہ اس کو کیا چاہیے تو وہ کہتی ہے کہ اس کو اس کے بیٹے سے ملا دے لیکن وہ تو شراب پینے کی وجہ سے مر چکا ہے اس سے کس طرح ملا جا سکتا ہے تو بابا کہتا ہے کہ :

’’تو کیا ہوا ،مدر ؟غریب آدمی کے مرنے سے اس کی جان تھوڑا ہی چھوٹ جاتی ہے ‘‘

 شام میںلوگ پھرسے جمع ہوتے ہیں بابا کو آرام کرتا دیکھ آپس میں گفتگو کرنے لگتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ بابا آسمانوںکی سیرکو گیا ہوا ہے لیکن بہت دیر تک بابا کو ساکت دیکھ کر سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ کہیں بابا چل تو نہیں بسا شیداں کہتی ہے :

’’بابا جب گھومتے پھرتے یہاں آن نکلا تھا ،اس وکھت کیا پتہ وہ اسی تراں کدھر پڑا ہوگا ۔؟‘‘

اورآخرمیں بندھو چبوترے پر چڑھ کر کہتا  ہے کہ :

’’پہلے تو بابا اپنے ٹھکانے کی کھوج میں گھومتا پھرتا تھا ۔واہوں!۔اب اسے کہاں جا نا ہے ۔وہوں!وہ اب سدا کے لیے یہیں بس گیا ہے ۔۔۔واہوں!واہوں!‘‘

افسانے کا انداز اور اسلوب عام تجریدی کہانیوں سے مختلف ہے اس میں قصہ ،پلاٹ اور کردار سبھی موجود ہیں ۔ اسلوب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو افسانے میں سادہ اور استعاراتی دونوں اسلوب اختیار کئے گئے ہیں۔افسانے کا پلاٹ بالکل گٹھا ہو اہے اس میں کوئی بھی حصہ یہاں تک کہ ایک جملہ یا فقرہ بھی ایسا نہیں ہے جو غیر ضروری ہو ۔نوعیت کے اعتبار سے افسانے کا پلاٹ مخلوط ہے کیونکہ اس میں صرف ایک قصہ یا واقعہ نہیں بیان کیا گیا ہے بلکہ مختلف چھوٹے چھوٹے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔پورے افسانے میں فلسفیانہ فضا غالب ہے اور کرداروں کی نفسیاتی کشمکش اس کو اور دلچسپ بنا دیتی ہے ۔جدید دور میں جب کہ تمام پرانی قدریں رو بہ زوال ہیں اور موجودہ دور کا انسان اپنی فردیت کھو چکا ہے ،کیا زندگی کی کہانی کوئی کردار دے سکتی ہے ۔جوگندر پال کی کہانی اس سوال کا جواب اثبات میں دیتی ہے ساتھ ہی یہ بات بھی واضح کرتی ہے کہ کردار کے لیے معینہ قدروں کی نمائندگی لازمی نہیں ہے لیکن قدروں کا احساس خواہ وہ ٹوٹ پھوٹ کا ہو یا پاسداری کا بہر حال ہوناضروری ہے ۔

’کھودو بابا کا مقبرہ ‘اپنے خالق کی تخلیقی قوتوں کا مظہر ہے اس کی ٹکنیک اور صناعیت قابل داد ہے ۔افسانے میں واقعات کی ترتیب اور مناظر خاص آہنگ پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً لوگوں کا یکے بعد دیگرے باباکے پاس آنا اور اپنی پریشانیاں بیان کرنا اور بابا کا فلسفیانہ لیکن حقیقت پسندانہ انداز میں ان کا حل بتانا یہ سب ڈرامے کے منظر کی طرح ہمارے سامنے آتا ہے ۔افسانے کے تمام مناظر مصنوعی نہیں بلکہ حقیقت سے قریب ہیں جس کے باعث فطری معلوم ہیںاورافسانے کے تاثر میں اضافے کا سبب بنتے ہیں ۔

جوگندر پال نے اس کہانی میں زبان سے وہی کام لیا ہے جو مصور رنگوں اور برش سے بناتا ہے لیکن جو تصویر یں بن کر سامنے آئی ہیں وہ متحرک اور رواں دواں ہیں ۔واقعات کا کے بیان کا پیرایا نہ تو جذباتی ہے اور نہ معروضی بلکہ میانہ روی سے کام لیا گیا ہے ۔کرداروں کی زبان سے وہی مکالمے ادا کرائے گئے ہیں جس کے وہ اہل ہیں ۔جملوں کی نشتریت مصنف کے گہرے تجربات و احساسات کی ترجمانی کرتی ہے ۔ہر بیان میں طنز زیریں لہر کی طرح موجزن ہے ،لفظوں کی نشست و برخاصت کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔ایجاز و ایمائیت کے ساتھ معنوی تہہ داری پیدا کرنا جوگندار پال کے اسلوب کا خاصہ ہے ۔افسانہ کسی قدر طویل ہے جو موضوع کا متقاضی ہے، پھر بھی کفایت لفظی کے ذریعے ایجاز و اختصار کے ساتھ ساتھ رمزیت و ایمائیت کے پیرائے میں تنوع سے بھی کام گیاہے ۔

جوگندر پال نے افسانے کے ذریعے مختلف سماجی و تہذیبی مسائل کو سامنے لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔افسانے میں دور رس نتائج اور گہری معنویت کے حامل بہت سے ایسے جملے ملتے ہیں جو ایک طرف بیان واقعہ کا کام کرتے ہیں اور دوسری طرف مصنف کے گہرے احساس اور تجربے کو طنز طنز کی صورت میں سامنے لاتے ہیں ۔

’’دکھوں کا پہاڑ سامنے ہو تو سگ زادہ بھی آدمی دکھنے لگتا ہے ‘‘

’’غریب آدمی کے مرنے سے اس کی جان تھوڑا ہی چھوٹ جاتی ہے ‘‘

’’خدا پر ایسی کون سی بپتا آن پڑی جو اس نے ساری زمین ان بے رحموں کو بیچ دی؟‘‘

افسانہ کھودو بابا کا مقبرہ قبرستان میں اور اس کے آس پاس رہنے والے لوگوں کی کہانی ہے جو بابا کی آمد کو اپنے لیے نجات اور پریشانیوں کاحل تصور کرتے ہیں اسی لیے صبح وشام بابا کے چبوترے کے پاس بیٹھے رہتے ہیں اور بابا بلا تفریق دونوں طرف کے لوگو ں پر یکساں عنایت کرتا ہے ساتھ ہی درس بھی دیتا ہے :

’’یہ لو لڈو تم سب بانٹ کر کھا لو ۔‘‘اس نے لفافہ بائیں طرف چبوترے سے گرا دیا ۔

’’ادھر توں کوئی نہیں باباں‘‘چوہدری نے اس طرف جھانک کر کہا ۔

’’تم تو عقل کے اندھے ہو ،کھودو ۔مٹی کوسرمیں اچھی طرح مل کے دیکھو ۔وہ ایک بوڑھیا ،دو جوان اور تین بچے کون بیٹھے ہیں ؟

’’کہاں ؟‘‘

’’اور ملو !جو قبروں سے نکل کر آتے ہیں وہ آنکھوں سے نہیں ،سر سے دکھتے ہیں ‘‘

شاید سبھوں کو اپنے سروں سے چھیوں مردے قبرستان کے کنارے بیٹھے دکھنے لگے تھے ۔چند تو ڈر گئے لیکن کھودو بابا کے ہوتے ڈر کیسا؟اس لیے وہ ڈرے ڈرے بھی بیٹھے رہے ۔

بابا نے انہیں بتایا ۔’’تم سب بھی تو اتنے ہی زندہ ہو جتنے اپنے گمان میں ۔بولو ،صحیح ہے یا غلط؟

’’پوراں صحیح ،باباں،پوراں صحیح!‘‘

’’مردوں سے پیار کریں، کھودو، تو ان میں جان پڑ جاتی ہے ‘‘

 افسانے کے درمیان میں ڈرامائی طورپر علامت کے پیرائے میں کھودو بابا کی حقیقت کا انکشاف تب ہو تا ہے جب وہ سگ زادے کی کہانی بیان کر چکا ہوتا ہے تو ایک آوارہ نوجوان کہتا ہے :

’’ارے بابا میں بتائوں؟ایک آوارہ نوجوان اپنا منہ نہ بند رکھ سکا ’’وہ سگ زادے تم ہی ہو ۔‘‘

بابا تیں کو سگ جادہ دکھتا ہے کا ؟‘‘

’’دکھو کا پہا ڑ سامنے ہو تو سگ زادہ بھہ آدمی دکھنے لگتا ہے ‘‘

 بابا کے نزدیک سبھی سگ زادے ہیںاسی لیے وہ سب کو کھودو کہہ کر پکارتا ہے اور سب اپنی ذات کے شہر میں مردہ ہو چکے ہیں اوراپنی قبر کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔کتے بندھو کی زبانی اچٹ سیٹھ کا یہ کہنا کہ:

’’ہم سبھی اپنے اپنے بھوت ہیں جو موت کے بعد اپنے بو کی تاب نہ لاکر چار ٹانگو پر کھڑے ہو جاتے ہیں ‘‘

 بابا بھی ایک سگ زادہ ہے جو اپنی قبر کی تلاش میں شہر سے دور اس بستی کے قبرستان تک آ پہنچا ہے تا کہ وہ ایک کھلی چھت کے نیچے کچی مٹی کی قبر اپنے آپ کھود سکے ۔

’’پہلے تو یہ ہوا کہ شہر سے باہر نکلنے کی کوشش میں وہ شہر کے اوراندر کھستا چلا گیا اور پھر ایک دن کہیں اندر ہی اندر سے برآمد ہوکر اس نے اپنے آپ کو اچانک شہر کے اندر پایا ۔مگر کیا فائدہ ؟وہ جہاں بھی نیچے رگڑ رگڑ کر زمین کی کھدائی شروع کرتا تھا۔وہیں زمین کا مالک اس پر لاٹھی لے کر چڑھ دوڑتا تھا ‘‘بابا نے ذرا ٹھہر کر اپنے بیان کو جاری رکھا ’’ساری زمین تو لوگوں نے اپنے نام بندھوالی ہے ،کوئی ایک فٹ ٹکڑا بھی تو نہیں،جو خدا کے نام پر بچا رہ گیا ہو ‘‘

’’خدا پر ایسی کون سی بپتا آن پڑی جو اس نے ساری زمین ان بے رحموں کو بیچ دی؟‘‘

یہ موجودہ نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے پر بہت بڑا طنز ہے اس کے علاوہ افسانے مختلف سماجی مسائل بیان کیے ہیں مثلاً مدر روزی کاگزر بسر کرنے کے لیے سن رسیدگی کے باوجود جسم فروشی کا دھندا کرنا، اچت سیٹھ کا پیسوں کی خاطر ٹورسٹ کو اپنی ہی بیوی سونپنا، ایسے مسائل ہیں جو صرف جھونپڑی میںرہنے والے لوگوں کے نہیں ہیںبلکہ ان سب کے ہیں جو اس سے دوچار ہیں۔

’کھودو بابا کا مقبرہ ‘کردار نگاری کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے ۔افسانے میں یوں تو کئی کرادار ہیں اور اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں لیکن نمایاں کرداروں میں کھودو بابا،رکھا چوہدری اور بندھو (کتا)۔کھودو بابا کا کردار کہانی کا اصل محرک ہے اسی کے نام سے یہ افسانہ موسوم ہے ۔اس کے نام کے آگے ’’بابا‘‘ کا لفظ اس کو ان بستی والوں سے منفرد بناتا ہے اور اسی نسبت سے وہ لوگوں کی امید کے مطابق ان کی مشکلات کے حل کی تدبیر بتاتا ہے ۔ایک بابا کا جو تصور ہمارے ذہن میں محفوظ ہے کھودو بابا کا کردار اس کے مطابق ہے ،وہ سوکھی روٹی اور پانی پر گزارا کرتا ہے ،اس کے علاوہ وہ بستی والوں سے کوئی اور شے قبول نہیں کرتا۔لوگوں کو نیکی کی رغبت دلاتا ہے اور اس کے ساتھ کوئی احسان کر دے تو اس کا بدل بھی دینے کی کوشش کرتا ہے ۔

دوسرا اہم کردار کھا چوہدری کا ہے جو چوکیداری کرتا ہے اور لوگوں کو جھگیاں کرائے پر دے کر پیسہ وحاصل کرتا ہے وہ ایک عام انسان ہے لیکن بالکل سیدھا نہیں اس کے اندر چالاکی ہے ۔ہر کام میں فائدے کی سوچتا ہے ۔بابا کی خاطر تواضح کرنے اور اس کو چبوترہ دیتے وقت بھی اپنا فائدہ سوچتا ہے ۔رکھا چوہدری یہ چلاکی صرف اس حد تک ہے کہ اس کو ایک بیوی مل جائے جس کے ساتھ وہ پیار سے ایک چھت کے نیچے رہ کر خوش گوار زندگی گزار سکے ۔

اس افسانے کا سب سے دلچسپ کردار بندھو کتے کا ہے جو رکھا چوہدری کا پالتو کتا ہے اور اس کے ساتھ مل کر چوکیداری کرتا ہے ۔افسانے کے زیادہ تر مکالمے بابا اور بندھو کے درمیان ہی ہوئے ہیں ۔اس واہوں ! واہوں!افسانے کی فضا سازی کا کا م کرتی ہے ۔وہ بستی والوں کی فکر بھی کرتا ہے اوران کا کام بھی کرتا ہے ساتھ ہی موقع پاکر ان کے گھروں سے روٹی بھی اچک لاتا ہے ۔بستی والوں کے متعلق بابا کو وہی بتاتا ہے ۔قاری کوافسانے کے دیگر کرداروں کی ذہنی کشمکش کا پتہ اسی کے ذریعے چلتا ہے ۔ایک جانور کو منتخب کرکے کردارنگاری کے اعلیٰ مقام تک پہنچانا آسان کام نہیں ہے لیکن جوگندر پال نے اس کو بخوبی نبھایا ہے ۔مختصر یہ کہ اس افسانے میں وہ تمام چیزیں بدرجہ اتم موجود ہیں جو کسی فن پارے کو شاہکار بناتی ہیں ۔ لہٰذابقول قمر رئیس

’’یہ ایسے معرکہ کی کہانی ہے جسے جو گندر پال ہی لکھ سکتے تھے‘‘۲؎

حواشی:۔

۱۔جوگندر پال کا فنی اسلوب از پروفیسر قمر رئیس بشمولہ چہار سوجوگندر پال نمبر،ص ۳۲،راولپنڈی ،جلد ۱۱ شمارہ مارچ ۔اپریل۲۰۰۲ئ؁

۲۔ایضاً،ص۳۴

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

          محمد افضل

          ریسرچ اسکالر

   شعبہ اردو ،الہ آباد یونیورسٹی ،الہ آباد

Email-urduomania@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.