حقیقت و رومان کا بادشاہ۔۔۔نورشاہ 

ریاست جموں و کشمیر ابتدائے اول سے ہی علوم و فنون،تہذیب و تمدن ،فکرو فلسفہ کا گہوارہ رہی ہے ۔علم ،ادب فن، موسیقی، کاریگری، فلسفہ کون سا شعبہ ہے جہاں کشمیریوں نے اپنے کارناموں کا جوہر نہ دکھایا ہو۔اردو زبان و ادب کے سرمایے حسن میں بھی جو تخلیقی کارنامے  یہاں کے ذہن رسا لوگوں نے انجام دئے ہیں وہ محتاج تعارف نہیں ۔دنیائے ادب میں یہاں کے قلمکاروں نے اپنی ذہنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے ۔اردو کی ترقی و ترویج میں جہاںدوسری ریاستیں اردو کے فروغ کے لئے کام کر رہی ہے وہیں کشمیری اپنے خونِ جگر سے گیسوئے ادب کو سنوارنے میں اپنے شانئہ فکرو خیال کے ساتھ مصروف عمل رہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔اقبالؔ،چکبستؔ،سرشارؔ،نسیمؔ،آغا حشرؔ،سادت حسن منٹو،قدرت اللہ شہاب،رام آنند ساگرکرشن چندر،اور بے شمار دوسری سدا بہار ادبی شخصیتیں ہیں جو اس کارواں کے روح رواں تھے جنہوں نے اپنے تخلیقی ذہن کی تمام توانائیوں کے ساتھ اردو ذبان و ادب  کی توسیع میں اہم رول ادا کیا۔

            ۱۹۵۰ سے لیکر تا ئیدم کے جن کشمیری ادیبوں نے تن من دھن کے ساتھ منٹو اور کرشن چندر کے لگائے ہوئے پودے کی آبیاری کی ہے ان میں نورشاہ کی اہمیت خاصی اہم ہے ۔کشمیر میں اردو افسانے کی تاریخ میں جہاں پریم ناتھ پردیسی کا نام سنہری حروف سے لکھا جاتا ہے وہیں نورشاہ کی ذات مستند اور قد آور ہے ۔وادی کشمیر کے اس معتبر  اور مستنند قلمکار نے ۹ جولائی ۱۹۳۶ ء کو جنت بے نظیر کے تاریخی شہرسرینگر میں آنکھ کھولی ۔موصوف نے اپنی تعلیم کا آغاز سرینگر میں ہی کیا۔سرینگر میں بعض حضرات کی سر پرستی میں چھوٹی موٹی ادبی محفلیں منعقد ہوتی تھی ان میں نئی نسل کے ادیب اور شاعر شریک ہوتے رہے ان ادبی محفلوں کا اثر موصوف کی شخصیت پر بھی پڑا ۔تعلیم حاصل کرنے کے بعدکے ۔اے ۔ایس کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس میں آگئے اور اعلیٰ سر کاری عہدوں پر فائز رہے ۔ کے ۔اے ۔ایس کی نوکری کچھ حد تک ان کے تخلیقی دنیا میں مانع رہی  ہوگی لیکن اس دوران جو زندگی کے نشیب وفراز دیکھے اس کا اظہار اپنی تخلیقات میں اب وہ ریٹائر ہو کے کر رہے ہیں ۔پچھلے کئی دہائیوں سے ان کا قلم کچھ اسطرح چل پڑا ہے کہ انہوں نے افسانہ ،ناول تحقیق و تنقید ،ڈرامہ ،خاکہ ،کالم نویسی وغیرہ میں اپنے قلم سے جواہر ریزے بکھیر دئے ہیں ۔انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ شعر وادب کی خدمت کے لئے صرف کیا نتیجتاََشعروادب میں تخلیقات کا انبار لگا بیٹھے اور تقریباََدو درجن سے زائد کتابیں مختلف اصناف ادب پر منظر عام کرکے اپنی شناخت  و پہچان بنانے میں دیر نہ لگائی۔

            نور شاہ نے اپنی ادبی زندگی  کا آغاز ۱۹۵۹ء میں ’’ گلاب کا پھول ‘‘ نام کی کہانی سے کیا جو ماہنامہ بیسویں صدی دہلی سے شائع ہوا بقول نورشاہ۔

’’آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہوگی کہ میرایہ افسانہ ’’ گلاب کا پھول‘‘ ترتیب میں تیسرے نمبر پر تھا ۔میرے نام سے پہلے کوثر چاند پوری’ چھوٹا نگ‘اور شکیل الرحمان’ سہا را‘ کے افسانے ترتیب میںپہلے اور دوسرے نمبر پر تھے ‘‘

             اس رسالے میں چھاپ اس بات کی ضمانت تھی کہ قلمکار واقعی کل ایک نامور تخلیق کار ہوگا ۔انجام کار اس کے بعد ان کے عزم و ہمت میں پختگی اور تبدیلی اگئی اور تسلسل کے ساتھ اردو شعر و ادب خصوصاََکہانی کے کینواس پر رنگ بھرتے رہے ۔کہانی گلاب کا پھول شائع ہونے سے ان کے مزاج نے ایسے کروٹ بدل لی کہ ہاتھ سے قلم جدا نہیں ہوا۔بعد  میں انہوں نے پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا اور شہرت کی منزلیں طے کرتے ہوئے اپنے لئے اپنا مقام طے کیا ۔انہوں نے اس وقت لکھنا شروع کیا جب ریاست کے کئی معتبر افسانہ نگاروں نے عالم ادب کے افسانوی منظرنامے پر اپنے نام کا پرچم گاڑھ لیا تھا جن میں برج پریمی،حامدی کاشمیری ،ٹھاکر پونچھی ،وریندر پٹواری،پشکرناتھ،علی محمد لون،اختر محیدین،غلام رسول سنتوش،وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ان ہی کنہ مشق ادیبوں کی تربیت میں نورشاہ نے محنت و ریاضت مشاہدہ اور مطالعے کے بل بوتے پر اپنے مخصوص اندازے اور رویے کی وجہ سے اپنی ادبی اہمیت وقت کے اکابریں و ناقدین سے تسلیم کرائی ۔اپنے زریں شعائوں سے نورشاہ افسانوی ادب میں ایک تابندہ و درخشندہ ستارے کی مانند چمکتے رہے ۔بقول چاندنی بیگم

’’ کہانیوں اور افسانوں کی دنیا میں لوگ اپنا مقام بناتے ہیں مگر نورشاہ نے اپنے طرز بیاں اور انداز تحریر سے ایک نئی دنیا بسائی ہے اور یہ دنیا بے شک جنت سے کچھ کم نہیں‘‘

انہوں نے آج تک جو کتابیں اردو ادب کی تجوری میں ڈال دی ہیں ان کی فہرست بذیل ہے۔

۱۔ بے گھاٹ کی ناو

۲۔ویرانے کے پھول

۳۔ایک رات کی ملکہ

۴۔من کا آنگن اداس اداس

۵۔گیلے پتھروں کی مہک

۶۔بے ثمرسچ

۷۔آسمان پھول اور لہو

۸۔کشمیر کہانی

۹۔کیسا ہے یہ جنوں

۱۰۔نیلی جھیل کالے سایے

۱۱۔پائل کے زخم

۱۲۔آئو سو جائیں

۱۳۔آدھی رات کا سورج

۱۴۔لمحے اور زنجیریں

۱۵۔انتخاب اردو ادب جموں و کشمیر ۱۹۴۷ سے ۱۹۷۱ تک

۱۶۔کہاں گئے یہ لوگ

۱۷۔بند کمرے کی کھڑکی

علاوہ ازین ان کی بیشتر کہانیاں،مضامین مختلف ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔

            یہ ایک نا قابل تر دید حقیقت ہے کہ دنیامیں کوئی ادب فطرتاََاپنے ماحول سے بے گانہ نہیں ہوسکتا۔ہر ادیب،ہر مصنف اور ہر شاعر بلواسطہ یا بلاواسطہ ،دانستہ اور غیر دانستہ اپنے گردو پیش کے ماحول سے متاثر ہوتا ہے ۔وہ سماج کے جس طبقے سے تعلق رکھتا ہے اس طبقے کی حمایت کرتا ہے ۔کوئی بھی قلمکار اپنے گردو نواح کے حالات واقعات ،حادثات سے لا تعلق نہیں رہ سکتا ۔جب بھی کوئی قلمکار کہانی ،ناول ، افسانہ یا کوئی دوسری تحریر تحریر کرتا ہے تو وہ کوئی نئی دنیا اپنی خواہش کے مطابق نہیں بناتا بلکہ وہ ہماری ہی دنیا سے بحث کرتا ہے اور وہی چیزیں پیش کرتا ہے جن کا ہماری زندگی ،تہذیب و تمد ن اور حالات سے تعلق ہوتا ہے ۔نورشاہ کے تخلیقات میں یہ باتیں بہ آسانی پائی جاتی ہیں ۔’’ بے گھاٹ کی ناو‘‘ میں شامل ۱۵ افسانے  جن میں گلاب کا پھول،زعفران کی لالی،گل خان ،گلاب،بے گھاٹ کی ناو ،قابل ذکر ہیں کے غور وفکر اور مطالعے کے بعد یہ حقیقت وا ہو جاتی ہے کہ نورشاہ شعوری طور ہی نہیں بلکہ لاشعوری طور پر بھی اپنے وطن کی مٹی کے گیتوں میں مگن نظر آتے ہیں نورشاہ اس سلسلے میں یوں فرماتے ہیں  ۔

’’دراصل وادی کے جس حصے میں میں نے اپنا بچپن اور لڑکپن گزارا ہے اور جوانی کے ایام جیے ہیں وہ ڈل جھیل کے آس پاس کے کچھ حصے ہیں ۔یہ وہ جگہ ہے جہاں پہاڑ،پانی،اور سبزہ بیک وقت نظر آتا ہے ۔کہنا یہ ہےوادی کے اس حصے میں میرے احساس ِجمال کی پرورش ہوئی ہے اور وہ حسن جو میری آنکھوں نے سمیٹ لیا ہے لاشعوری طور پر میری کہانیوں کامنعکس ہے ‘‘

            ان افسانوں میں جو کردار واقعات انہوں نے پیش کئے ہیں وہ کہیں تو ان کی ذات کا حصہ ہے اور کہیں ان کے حقیقی ماحول کا جز ۔افسانوں کے پلاٹ و کردار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ نورشاہ اپنی سر زمیں کے ساتھ بڑی مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔نورشاہ نے اپنی زندگی کے شب وروز کشمیر میں گذارے ہیں کشمیر کے لازوال حسن اور فطری مناظر نے انہیں بے حد متاثر کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی بیشتر کہانیوں میں وادی گلپوش کی گہری چھاپ ہے بقول  دیپک بدکی۔

’’کشمیر افسانہ نگاروں کا اوڑھنا بچھونا رہا ہے نورشاہ کے افسانوں میںبلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ملتا ہے ‘‘

             حسین پس منظر کا پرکشش بیاں نورشاہ نے جنت ارضی کے ماحول سے سیکھا ہے وادی کشمیر کے خوبصورت نظاروں ،آبشاروں نے نہ صرف ان کو افسانوی مواد عطا کیا بلکہ اس شخصیت اور فکر کو بھی نکھارا ۔اس سر زمیں نے انہیں boostکیا نورشاہ نے کشمیر پر متعدد کہانیاں تحریر کی ہیں۔اقتباس ملاحظہ کیجئے۔

’’کشمیر کی ہر چیز قابل تعریف ہے  ہری بھری شاداب وادی، سندر دھرتی،بھانت بھانت کے لوگ،پہاڑ جن کی گود میں ہرے بھرے جنگل،جو آگےپھیل کر سکھ مالائوں میں بدل جاتے ہیں جہاں بارہ مہینے برف کا رواج رہتاہے یہاں کے بہتے ہوئے پانی کا رنگ نیلا ہے یہاں پھولوں سے جڑی ہوئی مگیں ہیں ‘‘

 کشمیر کے کے حالات و واقعات کی بھی انہوں خوب ترجمانی کی ہے ان کی کہانیاں یہاں کے مفلوک الحال انسان ،مظلوم ،مجبو راورمحکوم عوام کے ارد گرد گھومتی ہیں ۔حساس فنکار نے حقیقت نگاری اور صداقت شعاری سے مظلوم کشمیریوں کی زبوں حالی کی عکاسی کی ہے ۔’’کہانی ایک علیا کی ‘‘ایک ایسا افسانہ ہے جس میں ایک مرقبان کی زندگی کا نقشہ کھینچا گیا ہے علیا کے آمدن کا ذریعہ ایک گھوڑی ہوتی ہے لیکن اس کی موت کے بعد علیا اور اس کے افراد خوانہ کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی یہاں تک کہ جب علیا کی بیوی بیمار ہوجاتی ہے تو اس کے علاج معالجے کے لئے بھی پیسے نہیں جڑ جاتے ۔افسانے کہانی ایک علیا کی کے مطالعے  کے بعد یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ نورشاہ کے لئے سماجی نا انصافی تکلیف دہ اور اسکی روح کراہتی ہوئی چیخنے پر مجبور ہوجاتی ہے کوئی بھی زیادتی وہ برداشت نہیں کر پاتے مساوات اور انصاف کی وکالت انہوں نے ہمیشہ اپنے افسانوں میں کی ہے اسطرح بے انصافی اور استحصال کے خلاف نفرت اور غم و غصے کے اظہار میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں رہے ۔

            نورشاہ نے جہاں ایک عظیم فنکار کی طرح حقیقت نگاری کو اپنا وسیلہ اظہار بنالیا ہے وہی نورشاہ نے رومانیاں کہانیاں لکھ کر ناقدین و محققین سے اپنی انفرادیت و شناخت تسلیم کرآئی ہے بقول پروفیسر قدوس جاوید ’’نورشاہ شہنشاہ رومان ہیں ‘‘نورشاہ افسانوی مجموعے ’’ بے ثمر سچ‘‘میں لکھتے ہیں

’’میرے افسانوں کے کردار رومانی ہیں میرا ماننا ہے کہ زندگی کے دھارے سے رومان کے چشمے ہی پھوٹتے ہیں زندگی حسن و عشق سے عبارت ہے ‘‘

            نورشاہ نے بیشتر کہانیاں حسن وعشق پرستی کے حوالے سے تحریر کی ہیں افسانہ ’’ بے بدن ‘‘ سے اقتباس ملا حظہ ہو ۔’’ایک بار پھر کھلی کھلی نظروں سے پھٹی ہوئی جالی کے اندر جھانکنے لگتا ہوں

مجھے لگتا ہے جیسے اس کے صحت مند جسم کی ساری گرمی میرے تشنہ اور دہکتے   ہوئے بدن میں اتر گئی اس کی بھری بھری لداخی خوبا نیاں ایسے رس دار    ہونٹ میرے خشک ہونٹوں کی تشنگی کو سیراب کر رہے ہوں ‘‘

            نورشاہ ایک رومانی افسانہ نگار ہے ان کے یہاں محض تصوراتی یا تخیلانہ رومان نہیں بلکہ ان کے افسانوں میں حقیقی رومان ملتا ہے ۔’’افسانہ میری آرزو میری تمنا‘‘سے اقتباس بطور نمونہ ۔

’’یہ تنہا گوشہ ہمارے ملاپ کا منہ ہے آو یہاں پھول چڑھائیں اور پھر آج   ہماری شادی کی پہلی سالگرہ بھی تو ہے ۔۔۔۔۔۔راجندر نے شانتا کےہاتھوں کو اپنی آنکھوں سے چوما‘‘

            کشمیر کی وادی کے بے مثال حسن اور انسانی محبت کے پر خلوص جذبے نے نورشاہ کو حقیقت اور رومان کا افسانہ نگار بنادیا یہی وجہ ہے کہ ان کی تخلیقات میں رومانی ،سماجی،اور انسانی قدروں سے متعلق کی کہانیاں پائی جاتی ہے بقول  مجید مضمر ۔

                                    رومان سے حقیقت تک کے سفر میں نورشاہ کا تخلیقی برتاوخاصی اہمیت رکھتا ہے ‘‘

            نورشاہ کے قلم نے کہیں پھول کھلائے تو کہیں شعلہ فشانی کی اور کہیں آئینہ خانے سجائے ۔بہر نوع ان کے  افسانوں کی فضا حقیقت پسندی اوررومانیت کے امتزاج سے تیار ہوتی ہے۔اور نورشاہ اس فضا کو زبان و بیاں کی خوشبو سے معطر کرتا ہے ۔خوبصورت زبان اور شگفتہ انداز سے کشت زعفران زار تیار کرنے کا ہنر انہیں بخوبی آتا ہے۔

توصیف احمد لون

 کشمیر

192125..Pincode

9596353673

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.