دکن کے جدید شعرا ء: ایک مختصرجائزہ

 عربی اور فارسی زبانوں نے مل کر اردو زبان کی ترقی و نشو نما میں اہم کردار ادا کیا ،عربی و فارسی زبان کے بغیر اردو نا مکمل ہے اور انھیں کے باہمی امتزاج سے اردو زبان کا دامن وسیع تر ہوا ۔اسی طرح اردو کے فروغ میں دکن نے بھی اپنی بے لوث خدمات انجام دی ہیں ،ان کی خدمات کا دائرہ صدیوں پر محیط ہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دکنی زبان نے اردو کا ڈھانچہ اور اردو کا لب و لہجہ متعین کیا ۔یہی نہیں دکن کی تہذیب و تمدن نے بھی اس زبان کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ولی ؔکو پل اسی لیے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے دو تہذیبوں ،دکن کو شمال سے ملا کر دونوں کے اٹوٹ سنگم سے ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھی تھی ۔ولی ؔ کا شمالی ہند کا سفراردو زبان میں ایک نئے باب کی ابتدا لے کر آیا ۔اردو زبان کا دامن اس باب سے وسیع ہوتا چلا گیا۔ دکن کے شعرا نے اپنی مادری زبان میں شاعری ترک کی اور عوام کے ذوق کے مطابق اشعار کہنے لگے ۔آگے چل کر تراجم اور فورٹ ولیم کالج کا قیام اردو میں ایک اور اہم تبدیلی لے کر رونما ہوا ۔دہلی میں مظہر جان جاناں اور لکھنؤ میں شیخ امام بخش ناسخ ؔ کی اصلاح زبان کی تحریکوں نے اردو کی قدیم روایت اور اس کی ساخت کو نقصان پہنچایا۔یہاں تک کہ دکنی زبان کو دیہاتی زبان کا نام دے کر اس زبان کی عظیم الشان روایت اور اس کی خدمات کے ساتھ بد دیانتی بھی کی گئی ۔لیکن اس کے باوجود بھی دکن کی شاعری کی عظمت کا اعتراف شمالی ہند کے شعراء نے کیا خصوصاً متوسط دور کے چند بلند پایہ شاعروں کی خدمات کا اعتراف کیاگیا جن میں ولی ؔاورنگ آبادی کی شاعری اوران کی خدمات کااعتراف شمالی ہند کے شعرا نے بھی کیا ہے ۔لیکن ستر ہویں صدی کے وسط سے دھیرے دھیرے دکنی ،زبان و ادب کے افق سے معدوم ہونے لگی۔ تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد دوبارہ اس کا احیا حیدر آباد اور تلنگانہ شہر کی صورت میں آیا ۔لیکن زبان کبھی ختم نہیں ہوتی اور یہ زبان تو وہاں کی عوام میں رچی بسی تھی ۔اگر ہم دورِ جدید کا معائنہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ دور جدید میں دکنی اور اردو  دونوں کی اپنی علیحدہ شناخت ہے اور یہی ان دونوں زبانوں کا خاصہ ہے ۔اگر ہم جغرافیائی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو آندھرا پردیش ،تلنگانہ ،کر ناٹک ،تمل ناڈو،مہاراشٹرااور کیرالہ کے بیش تر علاقوں میں بول چال اور خط و کتابت کا وسیلۂ اظہار دکنی زبان ہی ہے۔یہاں تک کہ دکن کے باشندے اپنے روز مرہ کے علاوہ تجارت ،کاروبار ،رسم و رواج، جلسوں ،محفلوں میں بھی بلا تکلف اسی زبان کا ہی استعمال کرتے ہیں ۔

دکنی شاعری کا ابتدا سے ہی ایک خاص انداز اور خاص پہچان رہی ہے جس کی جھلک ہمیں جدید دکنی شاعری میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے مثلاً قدیم دکنی شاعروں کے یہاں ہمیں اہم خصوصیات جو نظر آتی ہیں ان میں حقیقت ،سادگی ،برجستگی اور روانی شامل ہے۔ اس کے علا وہ ان قدیم شعراء کے یہاں ہمیں تصنع ،بناوٹ ،تکلف اور صنائع وبدائع کا بے جا استعمال بھی نہیں ملتا ۔جدید دور کی دکنی شاعری میں بھی ہمیں سیاسی ،سماجی ،معاشی، معاشرتی مسائل کے علاوہ عشق و محبت کے رنگ بھی دکھائی دیتے ہیں ۔اس کے علاوہ دور جدید کے شاعروں نے نہ صرف غم ذات بلکہ غم کائنات کو بھی اپنے اشعار میں بڑی ہنر مندی سے پیش کیا ہے ۔جب ہم بیسویں صدی کے جدید دکنی شعرا  اور ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتے ہیں کہ قدیم شاعری کی تمام اوصاف جدید دکنی شاعری میں لا محالہ موجود ہیں ۔مقامی رسم و رواج اور تہذیب و تمدن اور ثقافت کا اہتمام اور تال میل ہمیں ان کی شاعری میں بخوبی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔بیسویں صدی کے دکنی شعرا کی فہرست میں ہمیں پہلا نام ’رحیم صاحب میاں جی‘ کا ملتا ہے ان سے قبل ہمیں کسی اور شاعر کا کلام نہیں ملتا۔ رحیم صاحب میاں کی شخصیت ہمہ جہت تھی وہ اپنی بات چیت کے انداز، اپنے لطائف، انداز بیاں اور اپنے انوکھے پن سے محفلوں میں جان بھر دیتے تھے ۔ان کی شاعری بھی ان کی شخصیت ہی کی طرح تھی ،ان کی شاعری لطائف سے پُرہوتی جس کا کوئی سماجی یا اصلاحی مقصد نہیں تھا ۔ان کی شاعری کا اہم مقصد وقت گزاری اور لطف اندوزی تھا ۔

علی صاحب میاں کے علاوہ ایک اور اہم نام نذیر احمد دہقانی ؔ کا ملتا ہے جن کی شاعری کا دامن علی صاحب میاں کے نسبتاً زیادہ وسیع ہے۔ ان کے یہاں شاعری میں تخیل اور تفکر دونوں ہی عناصر بخوبی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔دکنی شاعری پر جو خاموشی برسوں سے چھائی ہوئی تھی، وہ نذیر احمد دہقانی کی شاعری توڑتی نظر آتی ہے ۔ان کے کلام کا مجموعہ بھی ’’نوائے دہقانی ‘‘ کے نام سے دیکھنے کو ملتا ہے۔دہقانی کے بعد جدید دکنی شعرامیں علی صائب میاں نے دکنی شاعری کا آغاز کیا ،وہ دہقانی کے دکنی کلام سے بہت متاثر تھے ۔علی صائب میاں دکنی کے ممتاز و معتبر شاعرمانے جاتے ہیں۔ 1948میں ان کا دکنی مجموعہ کلام ’’گھوکروکے کانٹے ‘‘ شائع ہوا ۔آپ کی شاعری لسانی نقطۂ نظر سے خاص اہمیت رکھتی ہیں ۔علی میاں صائب کی شاعری کو ہم قدیم دکنی زبان کا مسلسل اور جدید دکنی دور کا آغاز کہہ سکتے ہیں ۔ان کی زیادہ تر نظمیں سماج و معاشرے کی آئینہ دار ہیں ۔

جدید دکنی شعرا میں مخدوم محی الدین کا نام سر فہرست ہے ان کا شمار جدید شعرا میں بڑے شاعروں میں کیا جاتا ہے ۔جنہوں نے اپنی شاعری سے اردو کو نئے لب و لہجے سے آشنا کرایا ۔انھوں نے ایک تعزیتی جلسے میں اپنی ایک نظم ’’پیلا دوشالہ ‘‘ پڑھی ،جس سے مزاحیہ نظموں میں ان کی شہرت ہوگئی ،ان کی شہرت کا یہ عالم ہو گیا کہ آج تک اس پایہ کی شہرت دکن کے کسی اور شاعر کو نصیب نہ ہو سکیں۔

مخدوم محی الدین نے روایتی شاعری سے الگ اپنا راستہ بنایا۔ان کی شاعری میں ساغر و مئے کے تذکرے، روایتی محبت کی حکایتیں اور رقیبوں کی شکایتیں اور محبوب کی بے وفائیوں کا ذکر نہیں ملتا بلکہ محبت و محنت ان کا خاص موضوع ہے ۔

امجدؔ حیدر آبادی بھی دکن کے جدید شاعر ہیں جنھوں نے اپنی شاعری اور خاص طور سے رباعیوں سے دکنی اردو کی خدمات انجام دی ہے۔آپ حیدر آباد میں پیدا ہوئے ۔آپ اوائل عمر سے شعر کہنے لگے تھے ۔امجد ؔحیدرآبادی صوفی منش بزرگ تھے ان کی شاعری وجدانی کیفیات کی حامل ہے ۔

یوں تو امجد حیدرآبادی نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن آپ کو جو شہرت رباعیات لکھنے سے حاصل ہوئی وہ کسی اور صنف میں حاصل نہ ہو سکی اور حقیقت یہ ہے کہ رباعیات میں آج تک آپ کا کوئی ثانی نہیں ۔آپ اس فن میں ’’امام الفن ‘‘ کے درجہ پر فائز ہیں ۔آپ کی رباعیات کا اکثر و بیشتر محور قرآن و حدیث میں ہے۔ا مجدؔ حیدر آبادی کو ان کے عہد میں ہر لحاظ سے شہرت حاصل ہوئی ۔

 جدید دکنی شاعری کا ایک پر وقار نام ناسر سرور ڈنڈا ہے ۔آپ کی شاعری میں غیر معمولی طور پر دکنی کا رنگ شامل ہے ۔آپ کی شاعری میں سیاسی سماجی اور معاشرتی شعور کا عنصر شامل ہے ۔آپ کی شاعری کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ آپ نے طنز و ظرافت کے پیراے میں ہنستے ہنساتے انسانیت کی دکھتی رگوں کو چھیڑا ہے ۔شاہ پور واڑی ،سنجیواریڈی ماما اور ادے نامادیشم ان کے سیاسی و سماجی شعور کی عمدہ نظمیں ہیں ۔

 جدید دکنی شاعری میں سلیمان خطیب ؔکی خدمات کا انکار ممکن نہیں۔ ان کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے موجودہ اردو اور دکنی کے امتزاج سے بہت کام لیا ہے اور یہی خصوصیت ان کی شاعری کو دیگر شعرا سے بھی منفرد بناتی ہے ۔اس کے علاوہ ایک اور اہم وصف ان کی شاعری میں پوشیدہ ہے کہ ان کی شاعری کی زبان میں وہ تمام اوصاف پائے جاتے ہیں جو قدیم دکنی شعرا  کے یہاںدیکھنے کو ملتے ہیں ۔ان کا شعری مجموعہ ’’کیوڑے کا بن ‘‘ خاص اہمیت رکھتا ہیں ۔

 گلی نلگنڈوی کا نام بھی جدید دکنی شاعروں میں اہم نام ہیں۔ ان کی شاعری کے خاص موضوعات معاشرتی زندگی کے عام مسائل ہیں، ان کا خاص وصف یہ ہے کہ انھوں نے اپنی باتیں اپنی شاعری کے ذریعے دھیمے لب و لہجے کے پیراے میں کی ہے ۔دکنی شعرا میں بگٹر رائچوری کا دکنی کلام بہت مختصر ہے ۔لیکن ان کے کلام کو نظر انداز نہیں کیاجا سکتا ۔انھوں نے اپنی منظومات میں سماجی ،معاشی ،معاشرتی،اور تہذیبی زوال کی بہت عمدہ عکاسی کی ہیں ۔اس سلسلے میں ان کی نظم ’حیدر آباد نگینہ‘،’ اندر مٹی اوپر چونا‘خاص اہمیت کے حامل ہیں ۔دکن کے ایک اور اہم نام شمشیر ؔکوڈنگل کا ہے جن کاتعلق ضلع محبوب نگر سے تھا ۔انھوں نے بھی اپنی شاعری میں ٹھیٹ دکنی کا استعمال کیا ہے ۔وہ اپنی شاعری کا مواد اپنے گردو پیش کے ماحول میں اکٹھا کرتے ہیں ۔انھوں نے اپنے کلام میں سماجی زوال اور نظم و نسق کے انتشار کو پیش کیا ہے ۔

محبوب نگر کے ایک اور اہم و مقبول عام شاعر چچا ؔ پالوری ہیں ۔انہوں نے دیہی زندگی اور وہاں کے مسائل کو قریب سے دیکھا اور اس کا مشاہدہ کیا تھا جس کا ان کی شاعری پر بھی گہرا اثر ہوا ۔انھوں مجبور و محکوم ،بے بس و لاچار لوگوں کی حمایت اپنی شاعری میں کی ہیں ۔یہ دور حاضر کے صف اول کے شاعر ہیں ۔حفیظ خاں سپاٹ ؔ (مذاق ؔ) نے بھی دکنی کے وسیلہ سے طنز و مزاح پیدا کرنے کی سعی کی ۔ان کے یہاں سنجیدہ کلام بہت کم ملتا ہے۔ان کی مشہور نظم ’’فیشن کی گڑیاں ‘‘ ہے جس میں انھوں نے مغربی تہذیب کی بے جا تقلید پر طنز کیا ہے ۔

دکنی شاعری کی دنیا کا ایک اور چمکتا ستارہ شاذ ؔتمکنت تھے۔ ان کی شاعری کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری میں تخیل کی بلندی ،پر شکوہ الفاظ ،مخصوص نظامِ فکر  اور ان کا اپنا ایک مخصوص انداز بیاں بھی ملتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری کی دنیا میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔شاذ ؔتمکنت کے یہاں موضوعاتی نظموں کا ذخیرہ ملتا ہے ۔شاذ ؔتمکنت کے ہم عصر شعرا میں اریب ؔ،شاہد ؔ،مخدوم ؔ اور وجد ؔ سے عالمی شہرت یافتہ شاعر تھے لیکن شاذ ؔتمکنت نے ان ممتاز شاعروں کے درمیان اپنی منفرد شناخت قائم کی۔

 قاضی ؔسلیم بھی دکنی شاعری کے ایک اہم جدید شاعر ہیں ان کا تعلق اورنگ آباد سے ہے اب تک ان کے کئی مجموعہ کلام منظر عام پر آچکے ہیں ان میں سے ایک شعری مجموعہ کلام ’’نجات سے پہلے‘‘کو خاصی شہرت حاصل ہوئی ۔ قاضی سلیم ؔ کی شاعری میں ہمیں آزادی سے جینے ،گزرے ہوئے وقت کو پیچھے چھوڑ کر حال میں جینے اور غم ،فکر،پریشانی کے بجائے ہر مصیبت کا کھل کر سامنا کرنے کی ہمت افزائی اور امید ملتی ہے ۔

شاہد صدیقی نے اپنی غزلوں سے دکنی شاعری کو ایک نیا مقام عطا کیا ۔ان کی شاعری کی رونق نے دکنی شاعری کو ایک نئی جلا بخشی ۔ان کا شعری مجموعہ ’’چراغ منزل ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے ۔شاہد صدیقی ایک شاعر تھے کہ جن کے اشعار میں جدّت و ندرت، فصاحت و بلاغت، اشارہ و کنایہ کے ساتھ ساتھ وہ سب کچھ دیکھنے کو مِلتا ہے جو انہیں عام شاعروں سے جُدا گانہ پہچان عطا کرتا ہے۔دکن کے جدید شعرا میں ایک اور اہم نام بشر نواز کا بھی ہے ۔ان کا ایک شعری مجموعہ ’’رائیگاں ‘‘ بھی منظر عام پر آچکا ہے ۔بشر نواز غزل اور نظم دونوں کے شاعر تھے ۔بشر نواز چھوٹی چھوٹی بحروںمیں بڑی بڑی باتیں کہہ دینے کا ہنر بخوبی جانتے تھے ۔ ان کے کلام میںہجر وفراق اور جدائی کا درد جا بجا بکھرا نظر آتا ہے۔ بشر نواز کی نظم نگاری میں عصری مسائل و حالات مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کی نظمیں ان کے جذبے اور شعری استدلال کو جاننے اورسمجھنے میں معاون ہیں۔

 سلیمان اریب کی شاعری فطری ہے اور ان کی غزلوں میں موضوعات کی سطح پر ایک طرح کا تنوع ہے ،جس سے ا ن کے وژن کا اندازہ ہوتا ہے۔سلیمان اریب نے اپنے ذوقِ جمال کا ثبوت پیش کرتے ہوئے بہت سارے اشعار ایسے بھی کہے ہیں جن میں جمالیاتی کیف وکم کی چاشنی ایک انوکھے ذائقے سے روشناس کراتی ہے۔ان کی شاعری بلاشبہ اردو ادب کے سرمایے میں اہم اضافہ ہے ۔عزیز قیسی کی شعری جہات میں تنوع بھی ہے اور کشادگی بھی ۔ جس میں شعریات کے سبھی پہلو روشن نظر آتے ہیں ۔ ان کی شاعرانہ بصیرت اور ہنرمندی سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔اسلوب بے حد سلیس اور سادہ ہے۔پیچیدہ تراکیب،ثقیل الفاظ، نادر تشبیہات اور استعارات سے وہ اپنی غزلوں اور نظموں کو بوجھل نہیں کرتے۔سیدھے سادے لفظوں میں اپنی بات کہہ جاتے ہیں ۔عزیز قیسی کی نظموں میں حُسن بیان،ندرت خیال،وضع اسلوب،خوبیِ ادااور تشبیہات و استعارات کی بہترین مثالیں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔

مغنی تبسم کا تعلق حیدرآباد سے ہے ۔انھوں نے بھی اپنی رنگ برنگی شاعری سے دکنی شاعری کے سرماے میں اہم اضافہ کیا ۔ان کا شعری مجموعہ ’’مٹی مٹی میرا دل ‘‘ کے نام سے منظر عام پر بھی آچکا ہے ۔مغنی تبسم نے غزل اور نظم دونوں میں طبع آزمائی کی ہے ۔ان کی نظموں اور غزلوں دونوں ہی میں معنویت سے بھر پور اشارات اور کہیں کہیں اشاراتی فضا بھی ملتی ہے۔ان کی ایسی نظمیں جس میں انھوں نے اشاریتی پیرایہ میں اپنے ماضی کو روشن کیا ہے ،وہاں اشاریت کی بہتات بھی ہے۔اس اختصار نے ان کے کلام میںاشاریت کو نکھاردیا ہے ۔۔بلاشبہہ مغنی تبسم جدید دکنی شعرا میں ایک انفرادی حیثیت کے حامل شاعر تھے، جن کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

سلیمان اطہر جاوید اردو کے معتبر نقاد ،محقق،کالم نگار ،مرقع نگار ہونے کے ساتھ ممتاز شاعر بھی ہے۔ان کا شعری مجموعہ’ آنگن آنگن‘ ،’دکھ کے پیڑ‘ ہیں۔ ان مجموعوں میں غزلوں کی تعداد تو کم ہے لیکن ان کی غزلیں اعلیٰ معیار کی ہیں ۔سلیمان اطہر جاوید کی غزلوں میں فنی لوازمات ،وسعت مضامین،منفرد موضوعات ،منفرد انداز بیان اور زبان کی دلکشی و رعنائی ایسی ہے جو اُن کو ممتاز شاعروں کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے۔سلیمان اطہر جاوید کا ایک خاص رنگ یہ بھی ہے کہ انھوں نے روایتی تراکیب کو بحال رکھتے ہوئے بھی جدت طرازی سے کام لیا ہے آپ کے بیش تراشعار عوام میں مقبول ہونے کی سند رکھتے ہیں ۔قمر اقبال نے اپنے احساسات و جذبات کو اپنی غزلوں میں بڑے دلکش پیراے میں پیش کیا۔انھوں نے اپنے کلام میں شعری صنعتوں ،تشبیہات و استعارات کو انتہائی حسین اور دلکش انداز میں استعمال کر کے دلچسپ بنا دیا ۔

راہی فدائی کی شاعری میں فطرت کی بھی عکاسی ملتی ہیں ،انھیں چرندوں پرندوں سے بھی بہت لگاؤ تھا ان کی غزلوں میں جانوروں، پرندوں اورکیڑے مکوڑوں کا بھی ذکر ملتا ہے اور یہ ذکر بیانیہ نہیں بلکہ مسلسل استعاراتی انداز میں جلوہ گر ہیں اور یہ نئی جہت راہی فدائی کی غزلوں کی اہم خصوصیت ہے ۔راہی فدائی نے عربی و فارسی کے ساتھ ساتھ کلاسیکی شاعری کا بھی گہرا مطالعہ کیا تھا ۔ان کی غزلوں میں ہمیں کلاسیکی رنگ بھی نظر آتا ہے ۔ان کی غزلوں کا اپنا منفرد انداز ،اسلوب اور منفردلب و لہجہ تھا ۔بلاشبہ وہ دکن کے ممتاز غزل گو ہیں۔

وحید اختر بھی دکن کے بڑے قابل قدر جدید شعرا میں شمار ہوتے ہیں اور اپنی شاعری کے ذریعے انہوں نے جدید دکنی خزانے میں گراں قدر اضافے کئے ہیں ۔ نام وحید اختر اور تخلص ’’وحید ‘‘ ہے۔جدیدیت کے زیر اثر اردو شاعری کے موضوع ،اسلوب اور ہیئت تینوں سطحوں پر نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ترقی پسند شاعروں نے جہاں نظم پر اپنی توجہ خصوصا مرکوز کی وہیں دوسری طرف جدیدت پسند شاعروں نے نظم اور غزل دونوں صنفوں میں اپنے فکر وخیال کی ترجمانی کی اور نئے تجربے بھی کیے ۔ہیئت میں نیا پن لانے کے لئے آزاد نظم ،نثری نظم ،آزاد غزل اور نثری غزل کے امکانا ت پر بھی غور کیا گیا ۔

اس طرح بیسویں صدی کی ابتدا اور بالخصوص آزادی کے بعد دکنی زبان میں شاعری کرنے والوں کی لمبی فہرست سامنے آتی ہے جن میں سے اہم شعرا کی شاعری کا یہاں جائزہ پیش کیا گیا ۔ان کے علاوہ اور بھی دکن کے جدید شعراہیں جنھوں نے ترقی پسند تحریک کے زوال کے بعد دور جدیدیت کے زیر سایہ دکن کے اردو ادب کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اورمسلسل اپنی غیر معمولی خدمات انجام دے بھی رہے ہیںجس سے دکن کے ادبی سرماے میں اضافہ بھی ہو رہا ہے ۔جن میں سید حسینی نہری کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ان کا تعلق مراہٹ واڑہ سے ہے اور 1960 سے  شاعری کر رہے ہیں ۔ ان کا شعری مجموعہ’’شب آہنگ ‘‘ کے نام شائع ہوا اور بیس سال کے بعد ’’شب تاب ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ہے ۔اسی طرح دکن کے اور بھی جدید شعرا ہوئے ہیں جنھوں نے 1960 کے بعد سے دکن میں اردو ادب کو قوت بخشی ہے ۔قمر اقبال ،سلیمان خمار ،جاوید ناصر، رؤف خلش، مصحف اقبال توصیفی ،حسن فرخ وغیرہ کا شمار دکنی زبان کے جدید شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے دکنی ادب کو نئے رنگ و آہنگ دیے اور طرح طرح سے دکنی ادب کو زینت بخشی ۔اس کے علاوہ دکن میں بعض شعرا حضرات ایسے بھی ہیںجو شہرت کی غرض سے ’’بگڑی ہوئی اردو‘‘ کو دکنی کے نام سے موسوم کر کے اسٹیج پر واہ واہی بٹورتے ہیں جب کہ بعض واقعی سنجیدہ ہیں جن کو دکنی زبان سے بے پناہ محبت ہیں اور جو اس زبان کی ترقی اور اس کے دامن کو وسیع کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔ان شعرا کی شاعری میں ہمیں جدید دور کی خوبیوں کے ساتھ قدیم دور کی کلاسیکیت کا بھی احساس ہوتا ہے ،اس طرح ان کی شاعری میں نئے پرانے دونوں ہی اوصاف کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے ۔

٭٭٭

محمد عرفان

ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی ، دہلی

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.