محمد حسن بحیثیت ڈراما نگار

گذشتہ نصف صدی سے اردو دنیا کی افق پر چھائی رہنے والی شخصیتوں میں سے ایک نام پروفیسر محمد حسن کا بھی ہے۔ پروفیسر محمد حسن ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں، آپ اردومحمد حسن کے معتبر نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب ڈرامہ نگار بھی ہیں، صحافی بھی ہیں اور شاعر بھی، افسانہ نگار بھی ہیں اور ناول نگار بھی، مبصر بھی ہیں اور شخصیت نگار بھی۔ ڈاکٹر محمد حسن کی علمی وادبی کارگزاریاں کم وبیش نصف صدی پر محیط ہیں، لیکن ادب میں جس شعبے سے ان کی شناخت قائم ہوتی ہے اور جس نے ان کی شخصیت کو بھی ایک اہم معنی سے سرفراز کیا ہے وہ تنقید ہے۔
ڈاکٹر محمد حسن ایک ممتاز اور معتبر نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تخلیقی ذہن کے بھی مالک ہیں اور اردو ادب کے کئی اصناف میں انھوں نے اپنے ذوق جنوں کو ثابت کیا ہے۔ تخلیقی ادب میں ڈرامہ، شاعری، افسانہ اور ناول کی طرف انھوں نے توجہ کی لیکن ان کی دلچسپی بطور خاص ڈرامہ سے رہی اور تخلیقی ادب میں جو کامیابی ان کو ڈرامہ سے ملی وہ کسی اور صنف میں نہ مل سکی۔
اسٹیج ڈرامہ کے احیاء میں پروفیسر محمد حسن نے نمایاں خدمات انجام دیں، انھوں نے ایک ایسے وقت میں ڈرامہ کی طرف توجہ کی جب ڈرامہ کتابوں کی زینت بن چکا تھا اور اس کا دائرہ کلاس روم اور شوکیس والماریوں تک محدود ہوگیا تھا، ایسے وقت میں پروفیسر محمد حسن نے اردو ڈرامے کو عوام سے قریب لانے اور اسٹیج کی اہمیت وافادیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی اور اس سلسلہ میں وہ خاطر خواہ کامیاب بھی ہوئے۔
پروفیسر محمد حسن نے باضابطہ طور پر 1950 ء میں ڈرامہ نگاری کی طرف توجہ کی اور سب سے پہلے آل انڈیا ریڈیو کے لئے فیچر اور ریڈیو ڈرامے لکھنے شروع کیے۔ اس وقت وہ لکھنؤ سے شائع ہونے والے اخبار ’’پائنیر‘‘ میں ملازم تھے، اور لکھنؤ اور وہاں کے مخصوص معاشرہ سے مانوس تھے، چنانچہ انھوں نے اپنا پہلا فیچر آل انڈیا ریڈیو کے لیے ’’یہ لکھنؤ ہے‘‘ کے نام سے لکھا، جسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کی دس بارہ قسطیں نشر کی گئیں۔
’’یہ لکھنؤ ہے‘‘ کی مقبولیت کے سبب پروفیسر محمد حسن کا رجحان ڈرامہ نگاری کی طرف بڑھا اور انھوں نے یکے بعد دیگرے کئی ایک ڈرامے تخلیق کیے جو وقتاً فوقتاً آل انڈیا ریڈیو اور دوسرے ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر ہوتے رہے۔ علی گڑھ کے قیام کے وقت تک انھوں نے بے شمار ریڈیو ڈرامے لکھے جن میں سے منتخب ڈراموں کا مجموعہ ’’پیسہ اور پرچھائیں‘‘ کے نام سے پہلی بار کتابی شکل میں 1955 ء میں منظر عام پر آیا جسے ادارہ فروغ اردو لکھنؤ نے شائع کیا۔
پروفیسر محمد حسن نے جب ڈرامہ نگاری کی طرف توجہ کی تو ان کے پیش نظر اس وقت کا پُرآشوب ماحول، بنتے بگڑتے تہذیبی ڈھانچے، سماج میں پھیلی ہوئی برائیاں اور تاریخی حوالے تھے۔ انھوں نے اپنے ماخذ کی نشاندہی اس طرح کی ہے:
’’ڈرامے لکھنے شروع کیے تو مرادآباد کے اس ٹوٹتے بکھرتے، لڑکھڑاتے اور گرتے ہوئے تہذیبی ڈھانچے نے مدد کی، ان گرتی ہوئی چھتوں کے نیچے حسین، ذہین دوشیزائیں تھیں، مسکراتے ہوئے ہوش مند نوجوان تھے۔ مگر گرتے ہوئے تمدن کی چکی انہیں پیسے ڈال رہی تھی۔ کبھی کبھی وہ ایک باغی کی طرح اپنا سر اٹھاتے تھے مگر کوئی پاٹ انہیں پھر سے اپنی طرف گھسیٹ لیتا تھا۔ اپنے ڈراموں میں میں نے انہیں گھرانوں کی تصویریں کھینچیں، خود اپنی تصویر کھینچی‘‘۔ (محمد حسن: ’’آپ بیتی‘‘ مشمولہ محمد حسن افکار واسالیب، مرتبہ عبد الحق (اردو اکادمی، دہلی 2011 ء)، ص، 34 )
پروفیسر محمد حسن نے سماجی، سیاسی، تاریخی اور عصری مطالبات سے اپنے ڈراموں کا تانا بانا تیار کیا ہے نیز ریڈیو ڈرامے کی تکنیک کا لحاظ رکھتے ہوئے کامیاب ڈرامے تخلیق کیے ہیں، جو ان کے فکر وفن کا نمونہ ہیں۔
اردو کے ریڈیائی ڈراموں کے ساتھ ہی پروفیسر محمد حسن نے اسٹیج ڈراموں کی طرف بھی توجہ کی اور ڈراموں کو اسٹیج کے مطالبات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں ان کی پہلی باضابطہ کوشش علی گڑھ سے ہوتی ہے جب وہ وہاں درس وتدریس کے منصب پر فائز تھے، معلمی کے ساتھ ساتھ انھوں نے ’’اردو تھیٹر‘‘ کے نام سے ایک ڈراما گروپ بھی تیار کیا جس کے تحت کئی ایک ڈرامے خود علی گڑھ اور علی گڑھ سے باہر دوسرے شہروں نینی تال اور حیدرآباد وغیرہ میں اسٹیج کیے گئے۔
پروفیسر محمد حسن کے ’’اردو تھیٹر‘‘ کے بینر تلے ان کے طبع زاد ڈراموں کے علاوہ تراجم اور دوسروں کے ڈرامے بھی اسٹیج کیے گئے۔ پروفیسر محمد حسن کے ڈرامہ منڈلی میں پروفیسر قمر رئیس، حکیم محمود عالم، پروفیسر افتخار عالم، شہاب جعفری اور جاوید اختر وغیرہ کے نام اہم ہیں، جنھوں نے ان کے ساتھ مل کر ان کی ڈائرکٹری میں کئی ایک ڈرامے کامیابی کے ساتھ اسٹیج کیے۔
پروفیسر محمد حسن کے تھیٹر کے اغراض ومقاصد تجارتی نہیں تھے بلکہ صرف شوق وجذبہ کے تحت اس کو قائم کیا تھا لہٰذا وسائل محدود ہونے کے سبب یہ تھیٹر ختم ہوگیا اور ڈرامہ منڈلی منتشر ہوگئی۔ لیکن وہ برابر لکھتے رہے اور مختصر اسٹیج ڈراموں کے علاوہ فل لینتھ اسٹیج ڈرامے اور ریڈیائی ڈراموں کی شکل میں اس فن سے اپنی وابستگی قائم رکھی، اور اس کے ذریعہ عصری مسائل کو فنکارانہ ہنرمندی سے اجاگر کرتے رہے اور ساتھ ہی تاریخی وتہذیبی حوالوں سے بھی روشناس کراتے رہے۔
پروفیسر محمد حسن چونکہ فکری اعتبار سے مارکسی فلسفہ حیات کے علمبردار ہیں لہٰذا ان کے ڈراموں میں اس نظریے کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے۔ انھوں نے اپنے ڈراموں کے ذریعہ ملک کے سماجی، معاشرتی وسیاسی حالات کا اپنے مخصوص نظریے کے تحت جائزہ لیا ہے اور یہاں کے مسائل کواجاگر کرنے کی کوشش کی ہے، ساتھ ہی ان کی تاریخ سے بھی گہری وابستگی ہے لہٰذا انھوں نے کئی ایک تاریخی ونیم تاریخی ڈرامے بھی لکھے ہیں جن میں ملک کے نامور سیاسی ہستیوں کے علاوہ ادبی شخصیتوں کے حالات زندگی سامنے آتے ہیں اور اس دور کے معاشرتی وتہذیبی ڈھانچوں پر بھی روشنی پڑتی ہے۔
پروفیسر محمد حسن کے ڈراموں کی تفصیل حسب ذیل ہے،جو ان کے صنف ڈراما کے تئیں ان کے لگن اور اس صنف کی آبیاری میں ان کی جانفشانی کو واضح کرتے ہیں:
پیسہ اور پرچھائیں:
ڈاکٹر محمد حسن کے ریڈیائی ڈراموں کا پہلا مجموعہ ’’پیسہ اور پرچھائیں‘‘ (1955 ء) میں سماجی ومعاشرتی موضوعات کے ساتھ ساتھ تاریخی ونیم تاریخی موضوعات کے حامل ڈرامے بھی ہیں۔ اس مجموعہ میں نو ڈرامے شامل ہیں۔ جو مندرجہ ذیل عنوان سے ہیں:
پیسہ اور پرچھائیں، سرخ پردے، سونے کی زنجیریں، نظیر اکبرآبادی، نقش فریادی، اکبر اعظم، انسپکٹر جنرل، حکم کی بیگم معمار اعظم۔
میرے اسٹیج ڈرامے:
ڈاکٹر محمدحسن کے ڈراموں کا دوسرا مجموعہ ’’میرے اسٹیج ڈرامے‘‘ کے عنوان سے 1969 ء میں منظر عام پر آیا جس میں چھ ڈرامے ریہرسل، محل سرا، میر تقی میرؔ، موم کے بت، فٹ پاتھ کے شہزادے وغیرہ شامل ہیں۔ محمد حسن کا یہ مجموعہ ان کے اسٹیج ڈراموں سے متعلق ہے۔
کہرے کا چاند:
ڈاکٹر محمد حسن نے ایک اہم ڈرامہ ’’کہرے کا چاند‘‘ 1968 ء میں لکھا ہے۔ یہ ایک فل لینتھ ڈرامہ ہے جس میں غالب کی حیات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس ڈرامہ کو دہلی یونیورسٹی نے 1869 ء میں غالب ؔکے صد سالہ جشن کے موقع پر شائع کیا۔ اس سے پہلے بھی محمد حسن نے ’’نقش فریادی‘‘ کے نام سے ایک ڈرامہ لکھا تھا جس میں غالب کو موضوع بنایا گیا تھا۔ یہ ڈرامہ ان کے پہلے مجموعہ ’’پیسہ اور پرچھائیں‘‘ میں شامل ہے۔
تماشا اور تماشائی:
تماشا اور تماشائی ڈاکٹر محمد حسن کا تیسرا ڈرامہ ہے جس میں غالبؔ کی شخصیت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس ڈرامہ میں غالبؔ کی شخصیت کے دو پہلو سامنے آتے ہیں۔ ایک نواب زادہ کی حیثیت سے اور دوسرا شاعر کی حیثیت سے۔ یہ ڈرامہ 194 ء کی تصنیف ہے جو کہ ایک ریڈیائی ڈرامہ ہے۔
مور پنکھی:
ڈاکٹر محمد حسن کے ڈراموں کا تیسرا مجموعہ ’’مور پنکھی‘‘ کے عنوان سے 195 ء میں منظر عام پر آیا اس میں سات ڈرامے شامل ہیں: شکست،مور پنکھی، مولسری کے پھول، سچ کا زہر، دارا شکوہ، کچلا ہوا پھول، اور خوابوں کا سوداگر وغیرہ۔
ضحاک:
ڈاکٹر محمد حسن کا سب سے اہم اور کامیاب ڈرامہ ’’ضحاک‘‘ ہے جو 1980 ء میں شائع ہوا۔ یہ ڈرامہ اپنے احتجاجی تیور کی وجہ سے کافی مقبول معروف ہے۔ ایمرجنسی کے دور استبداد میں جبکہ ہندوستانی عوام سے ہر طرح کی آزادی چھین لی گئی تھی، ہر طرف خوف وہراس کا ماحول تھا، محمد حسن نے احتجاجی طور ڈرامہ ’’ضحاک‘‘ لکھا اور ظالم حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا۔ یہ ڈرامہ پہلی بار ’’عصری ادب‘‘ میں شائع ہوا اور شائع ہونے سے پہلے اسے اسٹیج بھی کیا گیا۔
انتخاب:
ڈاکٹر محمد حسن نے ڈرامے لکھنے کے علاوہ ڈراموں کا انتخاب بھی تیار کیا ہے جو ’’نئے ڈرامے‘‘ اور ’’اردو ڈراموں کا انتخاب‘‘ کے عنوان سے حسب ترتیب 195ء اور 1998 ء میں منظر عام پر آئے۔ نیز محمدحسن نے ڈراموں کے تراجم بھی کیے ہیں۔
ڈاکٹر محمد حسن ایک باشعور اور سنجیدہ ڈراما نگار ہیں، ملک کی سیاسی، سماجی اور تہذیبی وتاریخی پہلوؤں پر ان کی گہری نظر ہے، ساتھ ہی فن وتکنیک کے قدیم وجدید اصولوں پر بھی ان کی اچھی پکڑ ہے، لہٰذا فن اور فکر کے حسین امتزاج سے انھوں نے کئی ایک ڈرامے تخلیق کیے اور اردو ادب کی گرانقدر خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر رضی الرحمن گورکھپوری ان کی ڈرامہ نگاری کے متعلق لکھتے ہیں:
’’انھوں نے جو بھی ڈرامے لکھے جدید وقدیم فن واصول اور ہیئت وتکنیک کی آگہی اور اسٹیج وریڈیو ڈرامے کے لوازمات کو مد نظر رکھ کر لکھے اور یہی نہیں بلکہ اپنے یہاں کی روایت سے پوری واقفیت کا ثبوت بھی فراہم کیا۔ عصری حسیت اور سماجی وتہذیبی عناصر کی شکست وریخت کو ہر ممکن پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے سامعین وناظرین کو داستانیت کی خواب آور گولی دینے کے بجائے عصری تقاضوں اور حقائق حیات سے آنکھیں چار کرنا سیکھایا۔ محبت، اخوت، انسان دوستی اور انسانیت کے فروغ میں ممد ومعاون قدروں کو اپنے ڈراموں میں اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ معاشرے اور سماج کے مسائل کو پیش کیا ہے۔ لہٰذا ان کے سماجی ڈرامے ہوں یا تاریخی ڈرامے یا نیم تاریخی ڈرامے سب میں مذکورہ عناصر کو اولیت حاصل ہے‘‘۔ (رضی الرحمن: ’’محمد حسن کی تاریخی ڈرامہ نگاری‘‘ مشمولہ محمد حسن افکار واسالیب، مرتبہ عبد الحق (اردو اکادمی، دہلی 2011 ء)، ص، -8)

Leave a Reply

1 Comment on "محمد حسن بحیثیت ڈراما نگار"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] محمد حسن بحیثیت ڈراما نگار← […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.