حاشیائی ادب کا علمبردارناول ’فائر ایریا‘ *سلمان فیصل

PDF File

ہندوستان میں ذات پات کا نظام صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ آج اکیسویں صدی کی جدید تیز رفتار ٹیکنالوجی کے دور میں بھی اس کے اثرات ہندوستان کے دیہی علاقوں اور خاص طور پر نچلے اور متوسط طبقوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس ذات پات کے نظام نے اشرف المخلوقات کی ایک کثیر تعداد کو زندگی کے تمام شعبوں میں حاشیے پر لاکھڑا کیا اور ان کا ہر طرح سے استحصال کیا جانے لگا۔ خصوصاً مزدوروں کی سماجی، معاشی، اقتصادی، اور تعلیمی حالت ناگفتہ بہ رہی ہے۔ ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا رہا ۔ اس غیر فطری نظام اور استحصال کے خلاف گاہے گاہے آوازیں بلند ہوتی رہیں۔ لیکن یہ صدائے احتجاج بھی زیادہ تر انھیں طبقوں میں سے کچھ لوگوں کی طرف سے آئیں، جس طبقے نے اِن کے استحصال میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اس ظلم و ستم کے خلاف احتجاج درج کرانے کے لیے فنون لطیفہ کا سہارا لیا گیا خصوصاً ادب کے ذریعہ اس ظلم کے خلاف صدائے حق بلند کرنے کی کوشش کی گئی۔ جو اپنی زبان اور اعضا وجوارح سے احتجاج یا مخالفت نہ کرسکے، انھوں نے قلم کے سہارے ہی یہ حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
اردو ادب میں بھی نچلے اور متوسط طبقوں کے ساتھ ناروا سلوک، ان پرکیے جارہے ظلم و ستم، ان کا استحصال اور خصوصاً مزدوروں کی کس مپرسی کی زندگی پر صدائے احتجاج بلند کی گئی ہے۔ ترقی پسند تحریک نے ’ادب برائے زندگی‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے اس احتجاج کی شروعات کی اور ترقی پسند تحریک کی پہل کل ہند کا نفرنس کے صدر پریم چند نے اس موضوع پر کئی افسانے تحریر کیے۔ اس طرح ادب میں حاشیے پر پڑے لوگوں کی ہمدردی میں اور ان پر کیے جارہے ظلم و ستم کے خلاف قلم کی طاقت کے سہارے ایک نئی تحریک کی شروعات ہوئی اور یہیں سے حاشیائی ادب کی بنیاد پڑی۔ حاشیائی ادب کا یہ کارواں رُکا نہیں بلکہ بڑھتا رہا۔ اور بیسویں صدی کے آخری ۶ دہائیوں میں بہت کچھ لکھا گیا۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی بیسویں صدی کے آخری دہائی میں ہمارے سامنے ناول کی صنف میں ’’فائر ایریا‘‘ کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ اس ناول کے خالق الیاس احمد گدی ہیں۔ ۱۹۹۴ء میں یہ ناول شائع ہوا۔ اس ناول کا موضوع کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کا استحصال، ان کی کس مپرسی، کول فیلڈ کی دنیا میں قتل و غارت گری، سودخوری، دھاندلی، نا انصافی اور عیاشی ہے۔
فائر ایریا کے موضوع کی بات کی جائے تو مرکزی طور پر کول فیلڈ کے مزدوروں کا استحصال ہے اور ان مزدوروں کے استحصال کے تعلق سے سماجی اور سیاسی سطح پر دو رجحان سامنے آتے ہیں۔ سماجی سطح پر مزدوروں کی زندگی ، رہائش، غریبی، کان کے اندر کی دنیا، کثیر محنت اور کم اجرت، تو ہم پرستی ، دولت پرستی، خود غرضی، چاپلوسی اور رشوت خوری ہے۔اس طرح سیاسی سطح پر لیڈروں کی بدکرداری، غنڈہ گردی کا فروغ، کمیشن خوری، سرکاری املاک کی لوٹ، مافیا کا عروج، پولس کی مجبوری وغیرہ ہے۔ انھیں سیاسی اور سماجی سطح پر پیش آنے والے واقعات کے سہارے اس ناول کے موضوع کو وسعت دی گئی ہے جس کا مرکز استحصال ہے۔ اور اس استحصال کے پیچھے طاقت اور پیسہ کار فرما ہے۔ مزدوروں کے اس استحصال کی مختلف نوعیتیں ہیں۔ مالک کے ذریعہ مزدوروں کا استحصال، افسروں کے ذریعہ مزدوروں کا استحصال، لیڈروں کے ذریعہ مالکوں، ٹھیکیداروں ، افسروں اور مزدوروں کا استحصال، مرد کے ذریعہ عورت کا جنسی استحصال غرض کہ ہر جگہ ہر سطح پر استحصال ہی استحصال نظر آتا ہے۔ اور یہ استحصال آج کا نہیں ہے، یہ ہزاروں سال سے ہورہا ہے۔ زمانہ قدیم سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ خواہ ذات پات کے نظام کا دور ہو یاسلطنت و بادشاہت کا، غلامی و جاگیرداری کا دور ہو یا سرمایہ داری کا ،ہر جگہ انسانوں کا استحصال موجود ہے۔بھوکا اور ننگا رکھ کر، غلام بناکر، بیگار لیکر، سود میں جکڑ کر، مارپیٹ کرکے مزدوروں کو اس حالت میں پہنچا دیا گیا ہے کہ ان کا سماجی شعور اور تہذیبی تصور ان کے اندر سے عنقا ہوگیا ہے۔ وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ انھیں زندہ رہنا ہے۔ اس کے لیے وہ کام کرتے ہیں۔ انھیں کام کی اجرت سے کوئی غرض نہیں، بس کام کرنا ہے اور اجرت لے کر پیٹ کی آگ پر پانی کا چھڑکاؤ کرنا ہے۔ یہ جاننے کی ضرورت انھیں محسوس نہیں ہوتی کہ اجرت کتنی مل رہی ہے اور کتنا حصہ ٹھکیداروں اور بابوؤں کی جیب میں جارہا ہے۔
اس ناول میں کول فیلڈ میں کام کرنے والے ان مزدور وں کی زندگی کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔ ان کی خوشی و غم ، شادی بیاہ، تہوار ، آدابِ قیام و طعام ، ان کی خوبیوں اور کمیوں اور ان کے مسائل کو خوش اسلوبی کے ساتھ اس ناول میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ بے چارے غریب مزدور اپنی آنکھوں میں کئی خواب لے کر اس آگ بھری کالی دنیا میں آتے ہیں۔ بہت ہی حسین خواب: ڈھیر سارا روپیہ کمانے ، گاؤں میں زمین خریدنے، والدین اور اھل وعیال کی خواہشوں و آرزؤں کو پوری کرنے، بچوں کو بہترین تعلیم دلانے اور پھر واپس گاؤں لوٹ جانے کا خواب۔ اپنے انھیں خوابوں کی تکمیل کے لیے یہ مزدور کڑی محنت کرتے ہیں اور سخت محنت کے بعد جو کم اجرت ملتی ہے، اس میں تھوڑا سا خرچ کرتے ہیں اور بقیہ بچا کر گاؤں بھیج دیتے ہیں، تاکہ گھروالوں کو دو وقت کی روٹی مل سکے۔یہ لوگ بھات اور آلوچوکھا اور کبھی صرف بھات کے ساتھ پیاز پر گزارا کرتے ہیں۔ لیکن یہ خواب اس کول فیلڈ کی دنیا میں آکر حسین نہیں رہ پاتے۔ ان پر سیاہ دھول کی دبیز پرت جم جاتی ہے اور یہ مزدوراس کے نیچے دب کر اپنے خوابوں کے ساتھ فنافی الکان ہوجاتے ہیں۔
یہ مزدور اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے سخت محنت کرنے اس قدر محو رہتے ہیں کہ ان کا احساس مر چکا ہوتا ہے۔ وہ اس طرف بالکل دھیان نہیں دیتے کہ ان کا کس طرح اور کہا ں کہاں استحصال کیا جارہا ہے۔ ان پر کیا ظلم و ستم ہورہے ہیں۔ ان کا روزانہ کا ایک ہی معمول ہے۔ صبح اٹھتے ہیں، گندے تالاب میں اجتماعی غسل کرتے ہیں، بھات اور آلو چوکھا کھاتے ہیں اور پھر انڈر گراؤنڈ کانوں کی سیاہ دنیا میں خون پسینہ ایک کرنے کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ روزانہ کے معمول میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، کوئی بغاوت نہیں، کوئی احساس نہیں، بس پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لیے کول فیلڈ کی آگ میں اتر جاتے ہیں اور شام کو دن بھر کی محنت کے بعد جب واپس اوپر آتے ہیں تو ان کے دانتوں کو چھوڑ کر سارا جسم گہری سیاہی کا لبادہ اوڑھے ہوتا ہے ۔وہ سیاہ بھوت کی مانند باہر آتے ہیں۔ انڈرگراؤنڈ ہمہ وقت موت کا سایہ ان کے سروں پر رقص کرتا ہے۔ موت کا خوف ہمیشہ ان کو جکڑے رہتا ہے لیکن بھوک انھیں موت کے منھ میں جانے سے نہیں روک پاتی ہے یہ بھوک جو پیٹ بھرنے کی اور خوابوں کو پورا کرنے کی ہوتی ہے۔
الیاس احمد گدی نے اپنے اس ناول میں بھوک کے موضوع کو بھی کئی جگہ پیش کیا ہے۔ دراصل تمام مسائل کی جڑ یہ بھوک ہی ہے۔ ان غریب مزدوروں کے سامنے مفید و مضر کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ وہ بس یہ جانتے ہیں کہ کچھ کھاکر پیٹ کی آگ بجھانی ہے۔ جو مل گیا اسی سے زہر مار کرلیا۔ چاہے ایک روپیہ سڑے ہوئے آم کی ٹوکری کیوں نہ ہو۔ آم کے سڑے ہوئے حصوں کو نوچ کر پھینک دیا اور بقیہ حصہ مست ہوکر کھا گئے۔ان مزدوروں کی بھوک ہی انھیں کان کے اندر سیکڑوں فٹ نیچے جانے پر مجبور کرتی ہے۔
اس ناول میں الیاس احمد گدی نے مزدوروں کے سروں پر مسلط اور ان کے دلوں میں مستحکم خوف کوبھی بہت ہی فنکارانہ طور پر پیش کیا ہے۔ ان مزدوروں کے اندر خوف کے کئی اسباب ہیں: کان کے اندر کی گرم دنیااور اس میں پیش آنے والے حادثات کا خوف ہمیشہ مزدوروں کے ذہنوں پر مسلط رہتا ہے۔اگر کوئی حادثہ پیش آگیا تو اس کی پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ لاش کو اندر ہی دفن کردیا جاتا ہے اور یونین، لیڈروں ، ٹھیکیداروں، بابوؤں کی جیب گرم کردی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ انھیں تو ہم پرستی میں بھی مبتلا کرکے ایک فرضی خوف ان پر مسلط کردیا جاتا ہے جیسے بھوت پریت کی گھڑی ہوئی داستانیں۔ یونین کے لوگ، سود خور اور لیڈر بھی اپنے غنڈوں اور لٹھیٹ کے ذریعہ ان مزدوروں پر خوف طاری کرتے ہیں ، ان مزدوروں کو زدوکوب کیا جاتا ہے، ان کی بہو، بیٹیوں ، اور بیویوں کی عصمت دری کی جاتی ہے اور اس طرح ان مزدوروں کی قوت مدافعت ختم کردی جاتی ہے۔ اگر کسی میں سر اٹھانے کی طاقت ہوتی ہے تو اپنی طاقت اپنے اندر دبا لیتا ہے۔سیکڑوں مزدوروں کو سامنے ایک مزدور پر ظلم ہوتا رہتا ہے اور لوگ تماش بیں بنے کھڑے رہتے ہیں یا اپنی اپنی راہ لیے ہیں اگر کوئی مخالفت کرتا ہے تو اس کو بھی پیس دیا جاتا ہے ۔ ’’اس کول فیلڈ میں رہنے کی یہ پہلی شرط ہے کہ دیکھو سب کچھ،سنو سب کچھ مگر بولو کچھ نہیں، ایک لفظ نہیں، یوں سمجھ لو یہاں کے لوگوں کے پاس آنکھ ہے کان ہے مگر منھ میں زبان نہیں۔۔۔۔‘‘اس خوف کے سایے میں یہ لوگ ڈرے سہمے رہتے ہیں اور کڑی محنت کرتے رہتے ہیں، اور زندہ صرف اس لیے ہیں کہ انھیں موت نہیں آتی۔
عورتوں کا جنسی استحصال بھی اس ناول کا ایک اہم موضوع ہے۔ کولیری میں کام کرنے والی عورتوں کی عصمت محفوظ نہیں۔ وہ مردوں کے ساتھ مل کر شانہ بہ شانہ کام کرتی ہیں اور کسی بھی وقت ان کو ہوس پرستی کے شکاری اپنی جال میں قید کرلیتے ہیں۔ یہ ہوس کے پجاری ، خود مزدوروں میں بھی پائے جاتے ہیں اور لیڈر، سردار ، ٹھیکیدار ، بابو اور مالک تو اسے اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ جنسی استحصال اس قدر عام ہے کہ جو طاقت نہیں رکھتا اس کا معاملہ خوشی کے دو بول میں دونوں کی باہمی رضا سے فٹ ہوجاتا ہے اور دو جسم کچھ دیر کے لیے ایک جاں ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ان عورتوں کو خصوصاً کامنوں کو یہ معلوم ہے کہ اس کول فیلڈ میں مرد ایک ایسا بھیڑیا ہے جس سے راہ فرار ممکن نہیں ۔ اگر خوشی سے راضی ہے تو پردے میں ورنہ سر عام بھرے بازار میں بندوق کی نوک پر ان کی عصمت تار تار کردی جاتی ہے اور لوگ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ جس نے بھی چوں چرا کی اسی کے سینے میں گولی اتار دی جاتی ہے۔
’’ایک اکیلی عورت چاروں طرف جوجھتی ہے لڑتی ہے، حالات سے ٹکراتی ہے۔۔۔۔لوگ کہتے ہیں کہ اسی نے کتنے کھیل کھیلے ہیں مگر دراصل اس نے صرف ایک کھیل کھیلا ہے ۔ زندہ رہنے کا کھیل، وہ ہر بار حالات کو اپنے رخ پر موڑتی رہتی ہے۔ اکیلی، اس کے پاس صرف ایک ہتھیار ہے اس کا جسم، اس نے اس ہتھیار کو آج تک کند نہیں ہونے دیا ہے۔‘‘
اس ناول میں الیاس احمد گدی نے لاقانونیت کے موضوع کو بھی اٹھایا ہے۔ اس کول فیلڈ کی نگری میں لاقانونیت ہے۔ صرف ایک قانون ہے وہ ہے طاقت کا قانون ۔ اس کے بل پر یہاں ہر طرح کا استحصال ہوتا ہے۔ یہاں اس آگ بھری دنیا میں آئین ہند کی جگہ جنگل راج کا بول بالا ہے۔
’’یہاں صرف ایک قانون چلتا ہے طاقت کا قانون یہ طاقت کتنی ہے اس کا آپ اندازہ بھی نہیں کرسکتے ۔ یہاں ایس پی اور ڈی ایس پی کا تبادلہ تین دن میں کروا دیا جاتا ہے۔ تھانہ یہاں صرف یہ معلوم کرتا ہے کہ کس کا آدمی ہے جواب میں اگر اس سے جڑا کوئی بڑا نام ہے تو بات وہیں ختم ہوجاتی ہے اور اگر کوئی بڑا نام اس کے پیچھے نہیں ہے تو کارروائی پوری کی جاتی ہے اور ایک کیس کورٹ بھیج دیا جاتا ہے۔‘‘
’’کول فیلڈ میں بس دو فیکٹرکام کرتا ہے ایک پیسہ دوسرا طاقت۔کچھ خاص لوگوں کو پیسہ سے خرید لیا جاتا ہے اور باقی کو طاقت سے دبا دیا جاتا ہے‘‘۔
سودی کاروبار اور لیڈروں کی گندی سیاست کو بھی الیاس احمد گدی نے اپنے اس ناول میں پیش کیا ہے۔ کول فیلڈ کی دنیا میں سودی کاروبار بہت ہی منافع کا سودا ہے۔ جب تک کول فیلڈ نیشنلائزڈ نہیں ہوئی ، ایک مزدور کو اجرت کم ملتی تھی اس لئے دس روپے سیکڑہ کی شرح پر سود دیا جاتا تھا اور کول فیلڈ کے قومیانے کے بعد مزدوروں کی اجرت میں اضافہ ہوا تو شرح سود بھی دوگنا ہوگئی۔ بے چارے استحصال شدہ مزدوروں کو اپنی ضروریا ت کی تکمیل کے لیے سود پر قرض لینا پڑتا ہے اور پھر کبھی بھی اس جنگل سے بچ کر نکل نہیں پاتے۔ ان کی ضروریات بھی پوری نہیں ہوتی اور وہ اپنا سودی قرض اپنی آنے والی نسل کے کندھوں پر ڈال کر فنافی الکان ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح لیڈروں کی گندی سیاست کی ناول نگار نے بہترین عکاسی کی ہے۔ لیڈروں کے پست ہوتے معیار اور ان کے یہاں اصول پرستی کے فقدان کی سچی تصویر کشی کی گئی ہے۔ مزدوروں کو منتشر رکھنا، ان کے درمیان ذات ، علاقہ اور مذہب کے نام پر سیاست کرنا، اپنے ہی لوگوں کا قتل کراکے دوسری پارٹی کے کارکنوں کو پھنسانے کی چالیں چلنا، ایماندار افسروں کا تبادلہ کرانا اِن لیڈروں کے نزدیک عام بات ہے۔ رشوت خوری اور غنڈہ گردی کے ذریعہ مختلف گھوٹالوں میں ملوث رہنا اور اپنی سیاسی دکان چلانا ان لیڈروں کی فطرت میں داخل ہو چکا ہے۔
ناول نگار نے اپنے اس ناول میں بدعنوان اوردہشت زدہ دنیا میں ظلم وستم سہنے والے ان مزدوروں کو اس تاریک دنیا سے نکلنے کے کچھ نسخے بھی بتائے ہیں۔ یہ مزدور بہتر زندگی گذار سکتے ہیں اگر ان کی تربیت کی جائے، ان کے اندر مرچکے احساس کو جگا یا جائے اور انھیں متحدد و منظم کیا جائے۔ ان کے استحصال کے خلاف انھیں بغاوت پر آمادہ کیا جائے۔ ان کے خوابیدہ خوابوں کو بیدار کرکے ان کے حقوق اور فرائض سے انھیں باخبر کیا جائے۔ اور ان مزدوروں کے منظم انقلاب کے راستے تیار کیے جائیں تاکہ اس استحصالی دنیا معاشرے سے لوگوں کو آزادی مل سکے اور ایک ایسے معاشرے کا جنم ہو جہاں سب برابر ہوں ، امن و سکون ہو اور یہ استحصال شدہ لوگ خوش گوار زندگی گذار سکیں۔ ان سب کے لیے پہلے انھیں ایجوکیٹ کیا جائے۔ مجمدار کی زبانی ناول نگار نے بتایا کہ:
’’ایجوکیٹ لفظ سے تم اتنا چونکنے کیوں ہو، جانتے ہو آج مزدوروں کی جو اتنی خراب حالت ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ انھیں پیسہ کم تو نہیں ملتا۔ اگر وہ پیسوں کا صحیح استعمال کر سکتے، ایک اچھی زندگی گذارنے کا طریقہ انھیں معلوم ہوتا تو شاید یہ صورت حال نہ ہوتی۔نیشنلائزیشن بڑا قدم تھا، بلکہ ایک بہت بڑا قدم تھا، لیکن اس سے پہلے ضروری تھا کہ انھیں ایجوکیٹ کیا جاتا کہ ان چار گنا بعض اوقات آٹھ گنا پیسوں کو کیسے خرچ کریں، وہ اپنا معیار زندگی کیسے اونچا کریں، وہ کیا ہیں، ان کی طاقت کیا ہے، ان کو ایکسپلائٹ کون کررہا ہے، کون کرسکتا ہے ․․․․․یہ سب نہیں ہوا۔‘‘
اس ناول کے فن پر بات کی جائے تو یہ ناول بیانیہ، ہیئت میں لکھا گیا ہے ۔ موضوع اور ہیئت ہم آہنگ ہیں ۔ اس میں فلیش بیک کی تکنیک کابھی بحسن و خوبی استعمال کیا گیا خصوصاً کرداروں کے ماضی کا تعارف پیش کرنے اور ان کی داخلی کشمکش کو ظاہر کرنے کے لیے شعور کی روکا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔ اس ناول کا پلاٹ بہت مربوط ہے اور تمام واقعات یکے بعد دیگر اس ترتیب سے پیش کئے گئے ہیں کہ وہ فطری معلوم ہوتے ہیں۔ جس طرح راجندر سنگھ بیدی نے ’’ایک چادر میلی سی‘‘ ناولٹ میں اصل ناولٹ سے پہلے ’’کبوتر اور کبوتری‘‘ کی کہانی پیش کرکے ناول پڑھنے کے لیے قاری کے ذہن کو تیار کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے بالکل اسی انداز میں الیاس احمد گدی نے بھی اس ناول کے آغاز میں ایک ابتدائیہ پیش کیا ہے اور کول فیلڈ کی دنیامیں لے جانے سے پہلے قاری کی ذہن سازی کی ہے۔ اس ناول کی کردار نگاری بھی لائق تحسین ہے۔ کچھ کردار جنھیں ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے ۔ مثلاً سہدیو، مجمدار، ختونیا اور بھرت سنگھ۔ اس ناول کے تمام کردار اپنے طبقے کی بہترین نمائندگی کرتے ہیں، ان کرداروں کے اندر حالات اور وقت کے مطابق اپنے آپ کو بدلنے کا ملکہ بھی موجود ہے۔ زبان و بیان کے لحاظ سے بھی یہ ناول اہم ہے۔ گرچہ یہ ناول بیانیہ ہیئت میں لیکن کرداروں کے ذریعہ ادا کئے گئے مکالمے او ر ان کی داخلی اور ذہنی کشمکش کے لیے زبان و بیان کے جس اسلوب کو اختیار کیا گیا ہے وہ پوری طرح اپنے اپنے طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ناول کی زبان کہیں ادبی، کہیں نیم ادبی اور کہیں علاقائی بولیوں میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس ناول کے فکراورفن میں سے کسی کو دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں ہے بلکہ دونوں کا حسین امتزاج ہے۔حاشیائی ادب میں اس ناول کی اہمیت لازوال ہے۔ یہ ناول اپنے موضوع کے ساتھ ساتھ اپنے فن، پلاٹ، کردار، زبان و بیان اور وحدت تاثر کے ذریعہ ادب کی دنیا میں اپنی منفرد اور علاحدہ شناخت کے ساتھ قائم و دائم رہے گا۔
(Hashiyayee Adab ka Alambardar Nov: Fire Area By Slaman Faisal, Urdu research jaournal, Ist. Issue page no. 71-79, ISSN 2348-3687)

٭٭٭٭٭٭٭٭

Leave a Reply

1 Comment on "حاشیائی ادب کا علمبردارناول ’فائر ایریا‘ *سلمان فیصل"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] حاشیائی ادب کا علمبردارناول ’فائر ایریا‘ […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.