موریشس کے افسانہ نگار محمد حنیف کنہائی کے افسانوی مجموعہ ’اعتماد‘ کا تجزیہ

Analysis of the short story collection ‘Aetemaad’ of Mauritian short story writer Muhammad Hanif Caunhye

’اعتماد‘ سات افسانوں پر مشتمل مجموعہ ہے جو مئی ۲۰۱۴ء؁ میں انجمن فروغِ اردو کی پہل سے شائع ہوا۔ محمد حنیف کنہائی موریشس کے مشرقی علاقے فلاک ضلع گے گائوں بریزے ویرجیئر میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۴ء؁ میں وہ وزارتِ تعلیم میں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔ گزرتے وقت کے ساتھ وہ ٹیچر سے ڈپٹی ہیڈ ٹیچر، اسسٹینٹ سپروائیزر اور بالآخر سنیئر سپروائیزر کے عہدے تک پہنچے۔ وہ پرائمری اسکولوں کے لئے درسی کتابیں تیار کرنے کے پینل میں بھی سرگرم رہے۔ اس کے علاوہ ٹیلی ویژن پر طلباء کے لئے معیاری پروگرام تیار کرنے میں موریشس کالج او ڈی ایئر میں بھی شامل تھے۔

نیز جناب محمد حنیف کنہائی صاحب تقریباً پینریس سالوں تک جامعہ اردو کے امتحان میں طلباء کی نگرانی کرتے رہے۔ ۱۹۸۵ء؁ میں جامعہ اردو ماتحانات کمیٹی کے سیکریٹری کے فرائض انجام بھی دئے۔ ۱۹۷۰ء؁ میں نیشنل اردو انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے بعد محمد حنیف کنہائی بھی اس ادارے کے رکن بنے۔ تخلیقی کاموں کے لئے ’ انجمن ادب اردو‘ کا نعقاد ہوا۔ اسی تنظیم کے لئے محمد حنیف کنہائی کو لکھنے کے لئے حوصلہ افزائی ملی اور دوسروں کو بھی موریشس کے اردو ادب کی خدمت کے لئے تلقین کی۔

محمد حنیف کنہائی صاحب نے ۱۹۷۳ء؁ سے لکھنا شروع کیا۔ اس مجموعہ میں شامل دو افسانے ’پتھان‘ اور ’شمع محفل‘ رسالہ ’شمع وطن‘ میں شائع ہوئے اور افسانہ ’بڑکا دادا‘ رسالہ ’جستجو‘ میں شائع ہوا اور افسانہ ’تبادلہ‘ مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ کے اردو رسالے ’وسنت‘ میں شائع ہوا۔

اس مجموعہ میں شامل تمام افسانے موریشس کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں ۔

پہلا افسانہ بعنوان ’ بدنصیب باپ‘ عام آدمی کی زندگی کے روزمرہ مسائل اور معمول درج ہیں ۔ کہانی کا مرکزی کردار حیدر علی مسجد سے واپس آکر ٹیوی کے سامنے بیٹھتا ہے، کھانا کھاتے ہوئے ٹیوی پر خبریں سنتا ہے۔ وہ مقامی خبروں سے زیادہ بین الاقوامی خبروں سے دلچسپی رکھتا ہے۔

’ اس کا کہنا ہے مقامی چینل میں جو پروگرام پیش کئے جاتے ہیں انہیں دیکھنے سے سردرد ہونے لگتا ہے یا ٹینشن بڑھ جاتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ہندوستانی اور پاکستانی سیرئیل دیکھنے سے دماغ بوجھل ہو جاتا ہے اور رگیں تن جاتی ہیں ۔‘

                                                     ( صفحہ ۱)

افسانے میں رشتوں کی اہمیت کو اجاگر کیا گیاہے۔ سکھ دکھ میں اپنے گھر والو کے لئے تیاررہنا اور اپنوں کو کھونے کے ڈر کو نمایاں کیا گیا ہے۔ حیدر علی کی بیوی بچے کو پیدا کرتے وقت مر جاتی ہے۔

’ ڈاکٹر کا یہ جملہ حیدر علی کے لئے ایک بم سے کم نہ تھا۔ ایسا لگا جیسے اس پر پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ تھوڑی دیر کے لئے سکتہ طاری ہوگیا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیا کرے جیسے اس کا دماغ مفلوج ہو گیا ہے۔‘

                                                     (صفحہ ۶)

تشبیہات و استعارات ست سے لبزیز اس اقتباس سے جذباتی حقیقت نگاری سامنے آتی ہے۔ افسانہ نگار نے احساسات کو پوری طرح محسوس کرکے رقم کیا ہے۔

اس افسانے میں عورت کی خصلت کے روشن پہلوئوں کو اجاگر کای گیا ہے۔ بیوا سکینہ کی صورت بھولی بھالی ہے۔ وہ ’ حسین لڑکی، ینک سیرت اور خوش اخلاق‘ ہے جو تعلیمی میدان میں پیش پیش اور اس نے ایچ۔ ایس۔ سی پاس کر کے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔

افسانے کے مردانہ کردار سیرت اور نیکی کے اعتبار سے بے مثال اور لاثانی ہیں ۔ وہ تندرست و توانا اور ڈگڑی یافتہ نوجوان ہیں جو فٹ بال کے میدان میں بھی بہتریں کھلاڑی ہیں ۔

نیز کہانی میں ازدواجی زندگی کی اہمیت کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ایک دوسرے کی حقوق کو بخوبی سمجھنا، اپنے فرائض کو خوشی خوشی سرانجام دینا، خوشی یا غم اور دکھ سکھ میں شامل ہونا اوراس رشتے میں رنجیدگی کا بالکل دخل نہیں ۔ بیوی کے حامل ہونے کیخوشی میں میاں بیوی مستقبل کا منصوبہ بناتے ہیں ۔

حیدر علی بیوی کے داغِ مفارقت دینے پر بن ماں کے بچے شوکت کی پرورش کرتا ہے اور دوسری شادی سے انکار کرتا ہے کیونکہ سوتیلی ماں نہ جانے بچوں کے سایھ کیسا سلوک کرے گی۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بیوی سے بے انتہا پیار کرتے تھے۔ اس افسانے میں باپ کا کردار نہایت شفیق، فرض شناش، مہرنان اور مخلص ہے۔ وہ بچے کو بہتریں کھلونے فراہم کرتا ہے اور کسی بھی چیز کی کمی کا احساس ہونے نہیں دیتا ہے۔ بیٹے کو بہتریں تعلیم دلائی گئی اور وہ کامیابی سے امتحان پاس کر کے وظیفے پر انگلینڈ جاتا ہے۔

ٹکنیک کے لحاظ سے اس کہانی میں سسپنس سے قاری میں تجسس و اشتیاق کی لہر دوڑتی ہے۔ شروعات ایک خط کے ذکر سے ہوتی ہے اور آخر میں معلوم پڑتا ہے کہ شوکت نے انگلینڈ میں ایک انگریزی لڑکی سے شادی کر لی اور وہیں نوکری شروع کرنے والا ہے۔ وہ بس دو دن اپنی بیوی کے بغیر آئے گا۔

کہانی میں پلیزانس ایئر پورٹ کا ذکر مقامی رنگ کی دلیل ہے۔ ضرب الامثال، محاورات کی مدد سے افسانہ نگار نے الفاظ سے کھیلا ہے۔

’ عشق اور مشق چھپائے نہیں چھپتی۔‘                                                (صفحہ ۳)

الفاظ کے انتخاب سے مصوری کا گمان ہوتا ہے۔

’زندگی کی گاڑی اپنی پٹری پر آہستہ آہستہ جانبِ منزل پر گامزن تھی۔‘                         ( صٖفحہ ۴)

جگہ جگہ جزئیات نگاری سے کام لیا گیا ہے۔ سکینہ کراہ رہی تھی۔ ضعف اتنا بڑھ گیا تھا کہ وہ ٹھیک سے بات نہیں کر پا رہی تھی۔ سانس لینے میں دقت ہو رہی تھی۔                                       ( صفحہ ۵)

افسانہ نگاری قاری کے اشتیاق کو جذبات کی شدت کے نشیب و فراز سے برقرار رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ سکینہ کی حالت خراب ہوتی ہے۔ اس سے قاری گھبرا جاتا ہے۔ پھر حیدر علی کے ساتھ قاری بھی چین کی سانس لیتا ہے جب وہ وقت پر اسپتال پہنچ جاتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے آپریشن میں وقت گزرتا ہے قاری فکرمند ہونے لگتا ہے۔ آخر بچے کی خوشخبری سے مطمئن ہونے کے بعد سکینہ کی موت کا صدمہ قاری کو غم میں ڈبو دیتا ہے۔

میرے خیال سے افسانہ نگار وہ نفساتی مسائل اجاگر کرنے سے چوک گیا جن سے سمجھ میں آئے کہ آخر بیٹا گھر واپس نہیں آنا چاہتا۔ اس کی پرورش میں یقینا کھلونے اور اسبابِ طبل و علم فراہم کئے گئے لیکن باپ کی انتھک کوششوں کے باوجود بیٹے پر ماں کی غیر موجودگی نے کیا اثر کیا۔ اس پہلو کو افسانہ نگار نے نظر انداز کیا۔

افسانہ ’بڑکا دادا‘ میں حنیف کنہائی صاحب نے ایک بار پھر زبان پر اپنی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔ مڑیا پہاڑجو اپنی مقامی روایتی کہانیوں کی وجہ سے بہت ہی مشہور ہے، کا ذکر کرتے ہوئے رقم کرتے ہیں :

’ ایسا لگتا ہے کہ قدرت نے اسے اپنے ہاتھوں سے تراش کر موکا کے سلسلئہ کوہ پر بڑے احتیاط کے ساتھ رکھ دیا۔ اس کی چو؎تی کو دیکھ کر یہ خیال ہوتا ہے کہ کسی انسان کے بدن کو اوپری حصّہ ہے، گویا نصف دھر پر ایک گول سر رکھا ہوا ہے۔‘

                                         (صفحہ ۱۱)

کہانی میں مقامی رنگ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ افسانہ نگار نے قدرت کی دلکشی کو بخوبی ابھارا ہے۔ انہوں ے اپنے گرد و پیش کا بغور مطالعہ کیا اور اس خوش اسلوبی سے اپنی تحریر میں سجایا۔ مڑیا پہاڑ نے جہاں اپنے دلکش منظر کے ذریعے باشندگانِ موریشس کے دلوں کو محظوظ کرتے ہوئے روحانی تقویت بخشی ہے وہاں اس نے مظلوموں اور بے کسوں کو اپنے دامن میں پناہ بھی دی ہے۔‘

                                         (صفحہ ۱۲)

افسانے میں موریشس کی تاریخ کو اہمیت دی گئی ہے۔ ہمارے آبائو اجداد کی تکلیفوں کو اجاگر کیا گیا ہے جو روشن مستقبل کا خواب لئے موریشس لائے گئے۔ اپنے خواب کو پورا کرنے کے کئے انہیں اپنوں سے دور جانے کا غم برداشت کرنا پڑا۔ وہ ظلم  استحصال کے شکار بنے۔

’موریشس کی بندرگاہ پر اترتے ہی وہ لوگ مختلف گورے سرمایہ داروں کے ہاتھوں بیچ دئے گئے۔ بالکل جس طرح آج کل مرغیوں اور بکریوں کے دام لگائے جاتے ہیں ۔‘

                                         ( صفحہ۲۴)

دورِ جدید کی آرام و آسائشوں کے فرق کو ظاہر کرتے ہوئے افسانہ نگار نے اس دور کی سادہ اور مصیبت ذدہ زندگی کی نشاندہی کی۔ اس زمانے کی بود و باش اور اسلاف کے قیام و طعام کی تفصیلات خوش اسلوبی سے دکھائے گئے ہیں ۔

’جھونپڑی گنّے کے سوکھے پتوں سے چھائی ہوئی تھی اور نیچے کا فرش گائے کے گوبر سے لپا ہوا تھا۔‘

                                         (صفحہ ۲۵)

گھر میں نہ’ پلنگ نہ الماری، نہ نرم نستر نہ قیمتی قالین تھا۔‘ نچوں کو جننے کے لئے نہ زچگی خٓنہ بھی موجود نہیں تھا۔ وہ جزیرے میں موجود تازہ پھل ’آم، جامن اور امرود‘ سے لظف اندوز ہوتے اور ’مچھلی اور جھینگے‘ کا شکار کرتے۔ ’بڑے صاحب‘ کی زمین پر سبزیاں بوتے اور غربت کے مارے مہینے میں بھی گوشت نہیں کھا پاتے۔ طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک مسلسل کام کرتے انہیں مہینے میں سات روپے کی تنخواہ ملتی اور ’ کھانے کے لئے ڈیڑھ پاڈ دال، آدھ پونڈ نمکین مچھلی، آدھ پونڈ تیل اور سوگرام نمک ملتا تھا۔‘

گوبر سیلپے فرش کے سوکھے پتے چٹائی کے طور پر بچھی ہوتی اور سردی میں اس کو چٹائی بنائی جاتی۔ یہ افسانہ نئی نسل کے لئے ایک تاریخی دستاویزکی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمارے ابائو اجدادکی تکلیفوں کے بارے میں پڑھ کر آنکھیں یم ہوتی ہیں ۔

’ننگی پیٹھ چلچلاتی دھوپ میں جھلس جاتی تھی۔ اس پر گوروں کے کوڑے برسائے جاتے تھے۔ پیٹھ لہو لہان ہوجاتی تھی اور پسینے سے گھائو میں جو لہر اور درد ہوتا تھا اس سے وہ اور تیزی سے پھائورے چلانے کگتے تھے۔ جس طرح آج کل گھڑ فوڑ میں گھوڑوں کو تیز دوڑانے کے لئے کوڑے لگائے جاتے ہیں۔‘

(صفحہ ۲۷)

نیز موریشس میں رائج قومی تکجہتی کو بخوبی اجاگر کیا گیا۔

’ان بچوں میں کسی کا نام سریش تھا تو کسی کا نام یوسف۔ کسی کا نام رام ناتھ اور پول بھی تھا۔ نہ رنگ کا امتیاز اور نہ نسل کا فرق ہوتا۔ ان کا ایک ہی مذہب ہوتا جس کی بول محبت ہوتی ہے۔ تحریروں اور تقریروں میں کہا گیا کہ موریشس دنیا میں ایک چھوٹی اقوامِ متحدہ کی حیثیت رکھتا ہے۔‘

                                                     ( صفحہ ۱۸)

جب بڑکا دادا کے والد کی جھونپڑی میں آگ لگ جاتی ہے تو مشفق پڑوسی ان کو اپنی جھونپڑی مین جگہ دے کر وسیع القلب کا بین ثبوت فراہم کرتے ہیں ۔

لسانی اعتبار سے یہ کہانی بہت کامیاب ہے۔ تشبیہات و استعارت سے تحریر کے حسن کو دوبالا کیا گیا ہے۔ محاورات کا برجستہ استعمال ہوا ہے۔ جذبات و احساسات کو عیان کرنے کی غرض سے موزوں ومناسب صفتیں مستعمل ہوئی ہیں ۔

’ ان کے چہرے پر خوشیوں کے وہ آثاربھی مفقود تھے جو حسبِ معمول نظر آتے تھے۔ اس کت برعکس چہرہ بجھا سا تھا۔ غمگینی، مایوسی اور خاموشی تھی۔ میں سمجھا کہ بڑکا دادا بیمار ہیں ۔‘

                                                     (صفحہ ۱۹)

جزئیات نگاری نے کلام کو زیب دیا۔ حنیف کنہائی صاحب نے لفظوں سے مصّوری کی ہے جس سے نقش با اسانی قاری کے ذہن میں اتر جاتے ہیں ۔

’منی کو اپنی گود میں لئے اس کی نازک انگلیاں اپنی ڈاڑھی میں بار بار اس طرح پھرواتے جیسے کوئی نوجوان نئی وضع کی تراشی ہوئی ڈاڑھی میں بار بار کنگھا کر رہا ہو۔‘

                                                     (صفحہ ۱۹)

افسانے میں موریشس کی طرزِ زیست کا تذکرہ نہایت خوش اسلوبی سے ماضی اور موجودہ دور کے فرق، کو اجاگر کرتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں بیٹا اپنا الگ گھر لیتا ہے۔ ویک اینڈ کو بچے بڑکا دادا کے ساتھ خاشگواروقت گزارتے ہیں ۔ بڑکا دادا بچوں پر اپنا پیار نچاور کرتے ہیں ۔ دکان سے ان کے لئے مٹھائی خریدتے ہیں اور پہاڑ کے مطلق آم کے پیڑ کے نیچے بیٹھ کر شہزادے اورشہزای کی کہانیاں سناتے ہیں ۔ علاوہ ازیں عید کے دن بڑے بزرگوں کے یہاں جانا، قبروں کی زیارت کرنا اور ان پر پھول چڑھانا بھی یہاں کی تہذیب کا حصّہ ہے۔

سین پیئر، لانیکولیئر، لاوینیر اور لالورا جیسے مقامی نام افسانے میں جغرافیائی حقیقت نگاری کی دلیل ہیں ۔ یوکالپٹس اور دوفینے آم جیسے ناموں سے موریشس کا ہر باشندہ شناساں ہے۔ افسانے میں موریشس میں دستیاب خوراک درج ہیں ۔

’ کسی کے ہاتھ میں ابلا ہوا مانیوک ہے جس پر دھنئے کی چٹنی لگائی ہوئی ہے۔ کسی کے ہاتھ مین پراٹھے کا ٹکڑا ہے جس میں گوبھی کا اچار ملایا ہوا ہے۔‘                                                                           (صفحہ ۱۸)

مکئی کی کاشت کو ذکر کیا گیا ہے جو دوسری جنگِ عظیم میں کھانے کی قلت کو پورا کرتے ہوئے محلے والوں کے کام آئی۔

ان تمام محاسن کے باوجوں افسانہ نگار سے ایک شکایت ہے کہ انہوں نے نسوانی کرداروں کو مضمحل بتایا ہے جو ظالم زمین دار کی ہوس کا شکار بنتی ہے اور جو مصیبت میں اپنا تحفظ نہیں کرپاتی اور اس اثنا مین جان گنوادیتی ہے۔

بہر کیف افسانہ بڑکا دادا ایک نہایت کامیاب افسانہ ہے جو نوجوانوں کے لئے ماضی کے اوراق پر غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔

تیسرے افسانہ ’اعتماد‘ میں تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ بڑکا دادا مین یہ بات بتائی گئی تھی کہ ہمارے آبائو اجداد کو بتایا گیا تھا کہ موریشس میں پتھر کو الٹنے پر سونا ملے گا۔ میرے خیال سے ان تارکینِ وطن کا سب سے بڑا خزانہ ان کے بعد کی آنے والی نسلیں ہیں جنہوں نے تعلیم حاصل کر کے اس غیر آباد جزیرے میں اپنا مقام بنایا۔ تعلیم کی بدولت آج موریشس ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔ اس بات کا اعتراف موریشس کا ہر باشندہ کرتا ہے۔

’ اسے معلوم تھا کہ تعلیم کے بغیر زندگی ظلمت کدہ بن جاتی ہے۔ علم ہی جانبِ منزل بڑھنے کے لئے روشنی بن کر راہ سجھاتا ہے۔‘

                                                     (صفحہ ۳۹)

افسانے میں اچھائی اور برائی کا فرق نمایاں کیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پیسہ خون کے رشتے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا اور تعلیم یافتی ہونے کے ساتھ ساتھ انسان میں اچھے اخلاق ضروروی ہوتے ہیں ۔ناخواندہ ہونے کے باوجود پر تان اپنے پڑھے لکھے بھائی پردیپ کے دھوکے کو معاف کر دیتا ہے۔ پرتاب نے اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے اپنے بھائی پر بھروسہ کیا اور کبھی زمین کی کھیتی باری کے حساب کتاب کا مطالبہ نہیں کیا۔ بدلہ میں اس کا بھائی زمین کے کاغذات پر اس کا انگوٹھا لگا کر اس کی اس کی زمین کو اپنے بس میں کر لیتا ہے۔

افسانے میں سماجی مسائل پر انگشت نمائی کی گئی ہے۔ بری صحبت کا اثر، شراب نوشی، جوا، کیزینو، گھڑدوڑ، لاٹری، لوتو، میلیئونیر اورقرض جیسی لعنتوں کے مضر اثرات کا پردہ فاش کیا ہے۔ مصیبت کے وقت ’ دوستوں نے ایک ایک کر کے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔‘

                                                     (صفحہ ۴۱)

کہتے ہیں شراب امّ الخبائث ہے۔ تمام برائیوں کی جڑ، شراب گناہوں کو جنم دیتی ہے۔ پردیپ جوا بھی کھیلنے لگا۔ وہ اب ہرسنیچر کو کیزینو جانے لگا۔                                                                (صفحہ ۴۰)

اس فسانے میں موریشس کی معاشی، صنعتی اور سماجی ترقی کا ذکر ہے۔ لال مٹی جیسا زراعتی گائوں اب ایک تجارتی مرکر ہے۔ محمد حنیف کنہائی صاحب نے حقیقت نگاری سے کام لیا اور روزمرہ زندگی کت معمول کو افسانہ میں جگہ دے کر قاری کی دلچسپء بڑھائی۔ بڑکادادا کی کہانی کی طرح اس افسانے میں بھی ماضی کے جھڑوکے پیش کئے گئے ہیں ۔ کسانوں کی جفاکشی کو سراہا گیا ہے۔ نیز اتحٓد و اتفاق کو دوبارہ شامل کای گیا۔

’اتحادہی ان کی طاقت تھی اور اسی طاقت میں ان کی کامیابی کا راز تھا۔‘

                                                     (صفحہ ۳۶)

کہانی میں فلاش بیک کی ٹیکنیک استعمال ہوئی ہے۔ قدرت کی تعریف کی گئی ہے۔

’چڑیوں کی چہچہاہٹ کے ساتھ صبح کو جاتے تھے اور طلوعِ آفتاب کے ساتھ کھیت میں پہنچ جاتے تھے۔‘

                                                     (صفحہ ۳۷)

کہانی میں کوئی نسوانی کردار نہیں ۔ پردیپ کی بیوی کا محض ذکر ہوتا ہ جو داغِ مفارقت دے کر اپنے شوہر کی زندگی میں اندھیرا کر جاتی ہے۔ افسانہ نگار نے کردار نگاری کا بخوبی فرض ادا کیا۔ ہندی الفاظ استعمال کر کے کرداروں کو حقیقت سے ہمکنار کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔

’پتاجی مہان ہیں ۔‘                                                     (صفحہ۴۶)

اس کے علاوہ افسانے میں عبرتے اخذ کی جاسکتی ہے کہ کسی کو تکلیف دے کر کوئی زیادہ دنوں تک خوش نہیں رہ سکتا۔

’جب وہ یاد کرتا کہ کس طرح اپنے انگوٹھا چھاپ بھائی کی زمینیں دھوکے سے ہڑپ لی ہیں تو راتوں کی نیندحرام ہو جاتی تھی۔‘

                                                     (صفحہ ۴۵)

چوٹھے افسانے کا عنوان ’جال‘ ہے۔ اس میں اہم سماجی مسائل بالخصوص بے روزگاری اور ہیروئن کی اسمگلنگ کے ضرر رساں نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے۔ سندیافتہ ہونے کے باوجو عرفان کو نوکری نہیں ملتی۔ والد کے انتقال کے بعد گھر کی ذمے داری کو پورا کرنے کے لئے وہ غفار جیسے شاطر موقع پرستوں کا شکار بن جاتا ہے۔

افسانہ نگار انسانی نفسیات کو پہچانتے ہیں ۔

’بھوک پیاس کی شدت کو بے خود بنا دیتی ہے۔ او اس بلا کو دور کرنے کے لئے کہیں بھی جا سکتا ہے۔‘

                                                     (صفحہ ۵۳)

حنیف کنہائی صاحب نے افسانے کے مطالبات کا خیال رکھتے ہوئے مکالموں اور فلاش بیک کی ٹکنیک سے قاری میں تجسس و اشتیاق کی لہر دوڑادی۔ منظر کسی کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔

’سمندر کی طرف کھلی ہوئی کھڑکی پر غفار اپنی کہنیوں پر جھکا ہوا ساحل سے ٹکراتی ہوئی اونچی لہروں کو گھور رہا تھا۔‘

                                                     (صفحہ ۴۷)

محاورات بھی کلام کی زیبائش کو بڑھانے کا کام دیتے ہیں : ’سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔‘

                                                     (صفحہ ۴۹)

کہانی یہ سبق دیتی ہے کہ خراب راستوں کا انجام خراب ہی ہوتا ہے۔ عرفان نے نہیں سوچا کہ منشیات کا بیچ کر اس کو جیل ہو سکتی ہے۔ آخرکار اس کے ہی ساتھیوں نے گولی مار کر اس کی جان لے لی۔ وہ تو بس:

’یکبارگی اسے اچھا سا گھر، اچھے اور قیمتی کپڑے، اچھا کھانا، خوبصورت بیوی اور عیش و عشرت کا سامان، سب کچھ نظر آگیا۔‘

                                                     (صفحہ ۵۵)

غلط راستہ لے کر اس نوجوان کو تذلیل کے داغ کے ساتھ ہاتھ ہتھکڑی سے جکرے ہوئے اور اغزا و اقارب سے دور جان گنوائی۔اس افسانے میں بھی نائی کردار موجود نہیں ہیں ۔ افسانہ نگار فقظ عورت کو’ خوبصورت ہیوی‘ اور مرد کی ذمہ داری قرار دیتا ہے۔ عرفان کو اپنی بہن کی شادی کی فکر تھی۔ گویا عورت کی خارجی ضروریات کو پیش کیا گیا ہے اور اس کے داخلی جذبات و احساسات اور نفسیات کے ساتھ انصاف نہیں ہو پایا۔

دوسرے افسانوں کے برعکس افسانہ ’پتھان‘ میں شہر کی زندگی کا پس منظرہے۔ افسانہ نگار نے حسبِ معمول منظر کشی سے شروعات کی جو جزئیات نگاری اور مقامی رنگ سے لبریز ہے۔ افسانے میں کردار نگاری کا پورا حق ادا ہوا ہے۔ خان صاحب کو مرکزی کردار پوری جاذبیت اور تقویت سے سامنے آتا ہے۔

’خان صاحب صرف اپنی دولت اور مرتبہ کی بنا پر مشہور نہیں تھے بلکہ ان کی رحم دلی اور سخاوت کا بھی شہر میں چرچاتھا۔ لیکن اس کے باوجود فطری طور پر ان کے دل و دماغ پر ایک غرور چھایا ہوا تھا کیونکہ وہ ایک پتھان خاندان کے چم و چراغ تھے۔‘

                                                     (صفحہ ۵۸)

جگہ جگہ عمدہ صفتوں اور نرجستہ محاورات سے کلام میں لطف پیدا ہوا ہے۔ زبان میں سوخی و ظرافت کی چاشنی غالب ہے۔ جذبات کا نحسن و خوبی سے حق ادا کیا گیا ہے۔

اس فسانے کا مرکزی خیال تعصب پر مبنی ہے۔ خان صاحب چونکہ پٹھان تھے اس لئے انہیں ایک بیٹا کی تمناجو ان کے خاندان کا نام آگے بڑھا سکے۔ لیکن ان کی یہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے۔ وہ کسی طرح اس بات کو قبول کر لیتے ہیں ۔ لیکن اس بات پر تس سے مس نہیں ہوتے کہ بیتی کی شادی ایک پٹھان سے ہی ہوتی ہے۔ بیْتی زینت خان کے لئے لاتعداد رشتے آئے۔ لڑکے صاحبِ جاہ و ثروت تھے۔ پھر بھی پتھان نہیں تھے۔ دیکھتے دیکھتے زینت چھتیس سال کی ہو جاتی ہے اور اس کی شادی اپنے بات کی ضد کی وجہ سے نہیں ہو پاتی۔ بالآخر وہ پاگل خانے میں زیرِ علاج ہوتی ہے۔ یہ افسانہ انسانیت کا درس دیتا ہے۔ طبقے کی بنیاد پر انسانوں کی تفریق پر صدائے احتجاج بلند کرتی ہے۔

’ بیسویں صدی میں تم تعلیم یافتہ ہو کر صدیوں پرانی باتیں کرتے ہو؟ مسلمان میں پٹھان شیخ یا سید کا امتیاز برتنا صرف حماقت نہیں نلکہ بکواس ہے۔ تمہیں معلوم ہے کہ خٓندان کے باہر شادی کرنے سے جو بچت پیدا ہوتے ہیں وہ توانا، ذہین اور تندرست ہوتے ہیں ۔ آدمی کلمہ خواں ہو تو شادی کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہونی چاہئے۔‘

                                                     (صفحہ ۷۰)

کہانی میں والدیں کا اپنی اولاد کی فکر اور بہتریں پرورش اور تربیت پر زور دیا گیا ہے۔ موریشس میں چونکہ خاندانی زندگی کو ترجیع دی جاتی ہے اس لئے اس طرح کے خیالات کا یہاں کے ادب میں اپنا مقام بنانا حیرت کی بات نہیں ۔اس کے علاوہ افسانہ نگار نے خوبصورت پیکر تراشی کی ہے۔انہوں نے وسیع ذخیرئہ الفاظ کا سہارا لے کر کلام کو خوبصورتی کا جامہ پہنایا ہے۔

’گلاب کی کلی جیسے نازک ہونٹ اور ہرن کو شرمسار کر دینے والی آنکھیں ، چہرہ ہنستا ہوا کنول کے پھول اور رنگ گویا گلابی اور سفیدی کی آمیزش سے ایک رنگ پیدا ہو گیا ہو۔‘

                                                     (صفحہ ۶۳)

ایک بار پھر افسانہ نگار نے خواتین کی داخلی کیفیات کو اجاگر کیا ہے۔ لڑکی کی ’پیاری پیاری اور معصوم صورت‘ ہے۔ نئی نویلی دلہن ’صرف مسکرا کر ااپنی نظریں جھکا ‘ لیتی ہے۔ خان صاحب کی بیوی میں خود اعتمادی صرف اس وقت نظر آتی ہے جب بچے کے مستقبل کا تذکرہ ہوتا ہے۔ بیوی کی زندگی کا دار ومدار صرف شوہر کی خوشنودی حاصل کرنی ہے۔

’دور ہی سے خان صاحب کو آتے دیکھا تو آنکھوں میں آنسو آگئے اور نظریں نیچی کر لیں ۔ گویا وہ شرمسار تھیں کہ ایک بیٹے کو جنم نہ دے سکی۔‘

                                                     (صفحہ ۶۲)

وہ شوہر کی حقارت آمیز باتیں برداشت کرتی ہے۔

’تم عقل کی اندھی ہو۔‘                                                 (صفحہ ۶۲)

جب دونوں میں بحثیں ہوتی ہیں تو وہ چپکے سے دوسرے کمرے کی طرف چلی جاتی ہے کیونکہ اسے شوہر کا مستقل خوف ہے۔ غرض کہ وہ بس شوہر کے شرائط و ضوابط کے مطابق زندگی بسر کرتی ہے۔

اس کہانی کی ایک کوتاہی یہ بھی ہے کہ زینت خان کے پاگل خانے جانے کی مدلل وجوہات پیش نہیں کئے گئے ہیں ۔ ایک ذہین ، تعلیم یافتہ اور حسین لڑکی صرف اس لئے پاگل خٓنے میں زیرِ علاج ہوتی ہے کہ اس کی اب تک شادی نہیں ہوئی؟

اس افسانے کا چھٹا افسانہ’ شمعِ محفل‘ کے نام سے موسوم ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار کارولین کی ایک تعلیم یافتہ او رنہایت حسین لڑکی ہے،

’شمیم کی خونصورتی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہین کہ اگر کارولین کو ایک محف تصور کریں تو سمجھ لیجئے کہ اس محفل کی شمع شمیم ہی تھی اور گائوں کے سب نوجوان پروانوں کی ظرح اپنے کو فنا کرنے کے لئے اس شمع کے ارد گرد چکر کھاتے رہتے تھے۔

                                         (صفحہ ۷۳)

کہانی کا مرکزی خیال عنفوانِ شباب میں لیا گیا غلط فیصلہ ہے جو زندگی کو برباد کر دیتا ہے۔ شمیم دوسرے مزہب کے لڑکے رمیش کے ساتھ بھاگ جاتی ہے اور اس صدمے سے اس کی امی اور اس کے ابو رحلت کر جاتے ہیں ۔ اس رشتے سے ایک بیٹا پیدا ہوتا ہے۔ پھر دونوں کے رشتے میں تنائو شروع ہو جاتا ہے جس سے رمیش گھر چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ ڈیڑھ سال بعد اپنی شمیم کو ڈھونڈھنے جاتا ہے۔ معلوم پڑتا ہے کہ لڑکی پاگل خانے میں ہے اور بچہ بخار سے مر گیا ہے۔ لاکھ تلاش کرنے کے بعد رمیش کو شمیم ایک شادی مین ناچتے ہوئے ملتی ہے۔

افسانے میں اشارے کنایوں میں بہت باتیں کہی گئی ہیں ۔

’آہ! اہ جوانی جو ہمیشہ مستی میں ڈوبی ہوتی تھی، ایک سال بعد ہی وہ جوانی سورج مکھی کے پھول کی طرح زرد نظر آنے لگی۔‘

                                         (صفحہ ۷۸)

اس افسانے میں شمیم پر ایک ہندو لڑکے کو اس کی منگنی اور اس کے ساتھ فرار ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ نیز اس کی امی اور ابو کی موت بھی اسی کے سر ہے۔ عورت ایک بار پھر مضمحل دکھائی گئی ہے۔ ’ماں چالیس سے کم ہونے کے باوجود ہمیشہ بیمار رہتی تھی۔                     (صفحہ ۷۲)

’ماں کا دل تھوڑی دیر کے لئے تیزی کے ساتھ دھڑکا اور پھر۔۔۔پھر دل کی دھڑکن ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گئی۔‘

                                         (صفحہ ۷۶)

رمیش کے طلخ رویہ کے سامنے شمیم ڈر کے مارے زبان بھی ہلانے کی جرأت نہ کر سکتی تھی۔ ذرا ذرا سی بات پر اسے منْھوس، چڑیل اور نہ جانے کیا کیا کہا جاتا تھا۔ وہ بے زبان جانور کی ظرح سب کچھ برداشت کرتی جاتی تھی۔ اب وہ آنسو بہانے کے سوا کر بھی کیا سکتی تھی۔ـ‘

                                         (صفحہ ۷۸)

اس افسانے میں حنیف کنہائی صاحب نے کچھ نہ کہتے ہوئے بہت کچھ کہنے کا ہنر دکھایا ہے۔

’ وہ اپنے حال اور مستقبل کی ظرف سے آنکھیں بند کر کے ایک ایسی منزل کی جانب دوڑنے لگی جس کو وہ اندگی کی معراج سمجھتی تھی۔ اس نے مرد کے شباب اور جوانی کو قریب سے دیکھا، اسے چھو کر دیکھا، اسے چھیڑ کر بھی دیکھا۔ اس کے خوابوں اور خیالوں پر صرف مرد چھا گیا۔‘

                                         (صفحہ ۷۴)

اس افسانوی مجموعہ کا آخری افسانہ ’تبادلہ‘ ہے۔ یہ دوسرے افسانوں سے منفرد ہے۔ اس کا پس منظر اسکول کا پیشہ وارانہ ماحول ہے۔ اس کہانی میں ایک ہید ماستر کی جفاکشی اور فرض شناسی کو سراہا گیا ہے۔ حنیف کنہائی صاحب نے یقینا اپنے طویل پیشہ وارانہ تجربہ سے فیض اتھا کر اس کہانی کو سرانجام دیا ہے۔

’وقت مقررہ سے پہلے اسکول پہنچ جانا ان کا معمول تھا اور بلاوجہ چند منٹوں کے لئے بھی وقت سے پہلے اسکول کا احاطہ چھوڑنا وہ بے ایمانی سمجھتے تھے۔ کام میں محنت اور لگن کو بے حد ضروری سمجھتے تھے اور اپنے پورے عملے سے ان ہی خوبیوں کی توقع رکھتے تھے۔‘                    (صفحہ ۸۹)

اس کے ساتھ ساتھ استذہ کی کاہلی کو اجاگر کیا جو ہیڈ ماسٹر کی سختی کے باعث اس اسکول سے ان کا تبادلہ کرنا چاہتے تھے۔ آخر میں کہانی ایک حیرت انگیز موڑ لیتی ہے جب ہید ماسٹر کی الوداعی تقریب میں حاصرین کو بتایا جاتا ہے کہ ان کا تبادلہ مسترد کیا گیا ہے۔

اس افسانے میں اسکول کے سرکاری ماحول کو جب ایک لیڈی ٹیچڑ ہیڈ ماسٹر صاحب کو ایک نطرانئہ عقیدت پیش کرنے کے لئے اٹھتی ہے تو ہیڈ ماسٹر اسے بیٹھنے کا اشارہ کر کے ایک بار پھر خواتین کو شرمندہ کیا جاتا ہے۔ جبکہ اس سے پیش تر ڈپٹی ہیڈ ماسٹر کی تقریب کو وہ چپ چاپ سنتے رہے۔

محمد حنیف کنہائی کے ساتوں افسانے شاہد ہیں کہ انہوں نے افسانہ نگاری کے تمام مطالبات کو بخوبی سمجھا اور افسانہ نگاری کو حق ادا کیا۔ ان کی زبان پر مضبوط گرفت ہے جس سے پڑھنے میں لطف پیدا ہوتا ہے۔ ان کا مجموعہ’ اعتماد‘ موریشس کی اردو ادب کا نایاب سرمایہ ہے۔

Miss Bibi Abeenaaz Janally

Institution: Mahatma Gandhi Institute, Mauritius

Member of the Urdu Speaking Union and National Urdu Institute

Editor in Chief Sada -e – Urdu newspaper, Mauritius

Address: 6th Mile SSR Street

Pamplemousses

Mauritius

Mobile: 0023059038384

email: abeenaaz@yahoo.co.in

٭٭٭

آبیناز جان علی

موریشس

Leave a Reply

1 Comment on "موریشس کے افسانہ نگار محمد حنیف کنہائی کے افسانوی مجموعہ ’اعتماد‘ کا تجزیہ"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.