ممتاز مفتی کا جہانِ ادب

ممتازمفتی(۱۹۰۵۔۱۹۹۵)اردوادب کاایک معتبرنام ہے۔ انھیںاردوادب کی تاریخ میںمتعددوجوہ کی بنا پرایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔انھوں نے اردو ادب کو نہ صرف موضوعات کی سطح پر نئے امکانات سے روشناس کیا بلکہ اپنی فکرو نظرکی گہرائی اور تخیّل کی بلند پروازی سے اردوادب کی مختلف اصناف کو بھی ایک نئی معنویت سے آ شنا کیا۔ممتاز مفتی اردو ادب کی تاریخ میں افسانہ نگار اور ناول نگار کی حیثیت سے زیادہ متعارف ہوئے لیکن وہ افسانہ نگار اور ناول نگار کے ساتھ ساتھ سفر نامہ نگار ، خاکہ نگار ،ڈراما نگار ، مضمون نگار اور رپورتاژ نگار کی حیثیت سے بھی اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ان کی تخلیقات خواہ وہ افسانوی ادب سے تعلق رکھتی ہوں یا غیر افسانوی ادب سے ، اردو ادب کے نثری سرمائے میں بیش قیمت اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں۔

ممتاز مفتی کا نمایاں ترین امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے اپنے تخلیقی سفر کے دوران تقلیدی روش کو اپنا شعارنہیں بنایا۔انھوں نے انسانی زندگی اور اس کے گردو پیش کے معا ملات ومسائل کا مشاہدہ کسی مخصوص تحریک یا رجحان کی عینک سے نہیں بلکہ آزادنہ طور پر خود اپنے نقطئہ نگاہ سے کیا ۔ان کے پاس انسانی زندگی اور اس کے نشیب و فراز کو سمجھنے اورمحسوس کرنے کا اپنا ایک الگ اورمنفرد نظام ہے۔ان کا طرزِفکر اور طرزِ احساس عمومی نہیں انفرادی ہے۔انھوں نے ہمیشہ اپنے گہرے اور سنجیدہ تجربات و مشاہدات کی روشنی میں ہر چیز کو معمول سے ہٹ کر دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کی ہے۔انہیں انسانی نفسیات اور اس کی فطرت کے ان سربستہ اسرار ورموز کی تلاش نے ہمیشہ محو سفر رکھاجو زمانۂ ازل سے ایک عام انسان کی فکر و نظر سے پوشیدہ ہیں ۔وہ ظاہر کی دنیا کے بجائے باطن کی دنیا کو دیکھنے کے تمنائی تھے اور اس کی وسعتوں کا اندازہ لگانے کا گہرا اشتیاق رکھتے تھے ۔چناچہ اسی جذبے اور اسی فکر کے زیرا ثر انہوں نے اپنے ادب پاروں میں فرد کی خارجی دیواروں کی اوٹ سے اس کے باطن میں جھانکنے کی کوشش کی ہے ۔

ممتاز مفتی کے فکروفن میں داخلیت کو خارجیت پر فوقیت حاصل ہے۔انہوں نے سماج اور معاشرے کا جائزہ خارجی عوامل کی بنیادوں پر نہیں بلکہ ان کے داخلی عناصر کی بنیادوں پر لیا ہے۔انہوںنے انسانی زندگی کا مشاہدہ اس کی گہرائی میں اتر کر کیا ہے اور زندگی کے نشیب و فراز کو سمجھنے کے لیے فرد کی ان داخلی کیفیات کی طرف رجوع کیا ہے جو خارجی عوامل کے دبائو کے تحت اظہار سے قاصر رہتی ہیںیا دب جاتی ہیں ۔

ممتاز مفتی کے موضوعات کا کینوس بہت وسیع ہے لیکن جنس ، عورت اور انسانی نفسیات کو ان کے یہاں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔انسانی نفسیات کے مطالعے سے ان کو ہمیشہ گہرا شغف رہا۔ان کی بیشتر تخلیقات انسانی نفسیات کی بہترین عکاس ہیں ۔انھوں نے اپنی تحریروں میں انسانی نفسیات کے مختلف پہلوئوں کو جس سادگی اور بے تکلفی سے واضح کیا ہے اس کی مثال اردو کے دوسرے نثر نگاروں کے یہاں بہت کم ملتی ہیں۔انھوں نے سیاسی ،سماجی ، تہذیبی ،معاشرتی ،مذہبی اورقومی مسائل پر بھی قلم اٹھایا ہے لیکن جنس، عورت اور انسانی نفسیات ان کے پسندیدہ اور بنیادی موضوعات ہیں۔

ممتاز مفتی کی ادبی خدمات ایک طویل عرصے پر محیط ہے۔انھوں نے اپنی ادبی زندگی کے سفر کا آغاز ۱۹۳۶سے کیا جو ان کی وفات یعنی۱۹۹۵تک تواتر کے ساتھ جاری رہا۔اس دوران ان کے قلم سے آٹھ افسانوی مجموعے، دو حصوں پر مشتمل ایک سوانح ناول،دو سفرنامے،خاکوں کے چار مجموعے،دو ڈرامے اور ایک رپورتاژ کے ساتھ ساتھ مضامین کے دو مجموعے بھی شائع ہوئے۔ ممتاز مفتی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں اپنے وقت کے کئی بڑے اعزازات و انعامات سے بھی نوازا گیا ہے۔ان کو سب سے بڑاادبی ایوارڈ’’ستارئہ امتیاز‘‘ ۱۹۸۷میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے ملا۔اس کے بعد ان کو۱۹۸۷میں’’نقوش ادبی ایوارڈ‘‘ ،۱۹۸۸میں ’’پریم چندایوارڈ‘‘اور۱۹۸۹میں ’’طفیل ادبی ایوارڈ‘‘جیسے اعزازی انعامات سے بھی نوازا گیا۔

ممتازمفتی نے اپنی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغازافسانہ نگاری سے کیا۔ان کا پہلا افسانہ ۱۹۳۶ء میں ’’ادبی دنیا ‘‘ کے سالنامے میں ’’جھکی جھکی آنکھیں ‘‘کے عنوان سے منصور احمد کے تعریفی نوٹ کے ساتھ شائع ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سیاسی کش مکش اور انتشار نے پوری دنیاکو اپنے حصار  میں لے رکھا تھا۔ایک طرف روس کے انقلاب نے پوری دنیا پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیے تھے وہیں دوسری طرف اشتراکیت کا فلسفہ اپنی پوری شدت کے ساتھ پروان چڑھ رہا تھا۔ترقی پسند تحریک کا بھی آغاز ہو چکا تھا۔ادب میں زندگی اور سماج دونوں کی ترجمانی بڑے پیمانے پر ہو رہی تھی۔ہندستان میں آزادی کی تحریک بھی شدت اختیار کر چکی تھی۔بعض ادیب اور شاعراپنے قلم سے آزادی کی جنگ لڑنے میں مصروفِ کار تھے۔وہ اپنی تحریروں سے قوم میں ایک نیا ولولہ اور جوش پیداکرنے میںمنہمک تھے۔اردو افسانے میںپریم چند اور سماجی حقیقت نگاری کی روایت بھی تیزی سے پنپ رہی تھی اور سعادت حسن منٹو، غلام عباس،کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی جیسے عظیم افسانہ نگاراردو افسانے کی دنیا پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے۔ممتاز مفتی نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز اگرچہ اسی زمانے میںکیالیکن انھوںنے اپنے لیے ایک الگ اور منفرد راستے کا انتخاب کیا۔انھوںنے اپنے عہد کے رسمی،روایتی اور مروجہ ادبی رویوںکو کلی طور پر اپنانے کے بجائے ان کے جزوی اثرات قبول کرتے ہوئے انسانی نفسیات کو اپنا موضوع بنایا جو اس دور میں ایک نیا موضوع تھا۔

ممتاز مفتی نے فرد اور سماج کے خارجی حالات کے بجائے ان کے باطن کی دنیا کو اپنے فکر و فن کا مرکز نگاہ بنا یا۔کیوں کہ ان کاماننا تھا کہ فرد کے ظاہرکی بے اطمینانی اس کے باطن کی ان دبی کچلی جنسی و نفسانی خواہشوں کا نتیجہ ہے جو سماجی و معاشرتی زندگی کی سخت گرفت کے ہاتھوںاپنے اظہار سے قاصر ہیں۔ ان کے ابتدائی پانچ افسانوی مجموعے زیادہ تر اسی موضوع کے گرد پھیلے ہوئے ہیں اور انسان کے لاشعور کا مطالعہ اس میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔لیکن ان کے ابتدائی دور کے افسانوں کا موضوع جہاںانسانی نفسیات کے مختلف پہلوؤں کا اظہار اور جنسی جذبوں کا انسان کے رویوں کو متاثر کرنا ہے وہاںان میں محبت کی ناکامی ،معاشرتی زندگی کے چند اہم مسائل اورلوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے مذہب و اخلاق کا جھوٹا لباس پہننے والوں کی ذہنی کیفیت نیز تقسیم ہند کے وقت ہونے والے فسادات اور سماجی ومعاشرتی زندگی کے مسائل کو بھی چند افسانوں کا موضوع بنایا گیا ہے ۔

ممتاز مفتی کے فکر و فن میں۱۹۵۸ء کے بعد ایک نمایاں تبدیلی آئی ۔ اس تغیرکا ہلکا سا احساس ہمیںان کے پانچویں افسانوی مجموعے ’’گڑیا گھر ‘‘میں ہوتاہے جس کے افسانو ں کے موضوعات اگر چہ وہی ہیں جو ان کے پچھلے افسانوں کے ہیں یعنی نفسیات اور جنس کی انسانی زندگی میں کار فرمائی، مگر ان میںممتاز مفتی کے فکر و فن کے تغیر کی ایک ہلکی سی جنبش بھی محسوس کی جاسکتی ہے جو ان کے آنے والے ادبی سفر کے نئے راستوں کا پتہ دیتی ہے۔ اس سے پہلے وہ باطن کی روشنی میں خارج کا جائزہ لیتے تھے اب خارج بھی ان کے ہاں اہمیت اختیار کرلیتا ہے نیز فنی سطح پر بھی ان کے ہاںایک ارتقائی عمل نظر آتاہے۔ان کے آخری تین افسانوی مجموعے ’’روغنی پتلے‘‘،’’سمے کا بندھن‘‘اور ’’کہی نہ جائے ‘‘ اس کا بین ثبوت ہیں جن کے افسانوں میں  موضوعات کی سطح پر اگر چہ زیادہ تنوع دیکھنے کو نہیں ملتاہے لیکن فکری وفنی سطح پر ان میں ایک واضح تغیر محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ان میںعلامتی نوعیت کے افسانے بھی ہیںاور جنس کے موضوع پرتخلیق کیے گئے ایسے نئے افسانے بھی شامل ہیںجن میں ہمیں جنس سے متعلق اس نقطۂ نظر کی ابتدائی کارفرمائی نظر آتی ہے جو ان کی آخری کتاب ’’تلاش ‘‘ میں پوری طرح جھلکتا ہے ۔ان تین افسانوی مجموعوں کے کم و بیش سبھی افسانوں کے موضوعات ان کے پہلے دور کے افسانوں کی طرح فرد کی نفسی الجھنوں،جنسی جذبوں اور اس کے اندر کے جذباتی طوفانوں کے گرد نہیں گھومتے ہیں بلکہ ان میںاس کا وہ معاشرہ مرکز نگا ہ ہے جو مسلسل تغیر پذیر ہے ۔بقول ڈاکٹر نجیبہ عارف:

’’ان کہانیوں کا مرکزی کردار فرد نہیں معاشرہ ہے ۔رخ بدلتا ہوا معاشرہ ،موڑ مڑتا ہوا معاشرہ ،تبدیل ہوتا ہو امعاشرہ ۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی توجہ فرد کے باطن کی گہرائیوں ،نفس لاشعور کی تاریکیوں اور نفسیات کی پیچیدگیوں سے نکل کر ،اجتماع کے تہذیبی رویوں اور قدروں پر مرکوز ہوچکی ہے ۔‘‘  ۱؎

اردو ادب میں ممتاز مفتی کی بنیادی حیثیت اگرچہ ایک افسانہ نگار کی ہے لیکن ان کا نام ناول نگاری کے ذیل میں بھی اہمیت رکھتا ہے ۔انہوں نے دو ناول یادگار چھوڑے ہیں ۔’’علی پور کا ایلی ‘‘اور ’’الکھ نگری ‘‘۔’’علی پور کا ایلی ‘‘ ایک مشہورسوانح ناول ہے جو پہلی بار ۱۹۶۱ ء میں شائع ہوا ۔’’ ایلی ‘‘ اس ناول کا سب سے اہم کردار ہے جس کے گرد پورا ناول پھیلا ہوا ہے لیکن اس کی سرگزشت کے پردے میں ممتاز مفتی نے اپنی سرگزشت بیان کی ہے ۔ممتاز مفتی نے خود بھی بہت سی جگہوں پر اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ’’علی پور کا ایلی ‘‘ ان کی آپ بیتی کا پہلا حصہ ہے جس میں ’’ایلی‘‘ ان کی ذات کا ترجمان ہے ۔اس کے علاوہ ناول کے دوسرے ایڈیشن کے آخر میں ایک فہرست بھی شامل کی ہے جس میں تما م کرداروں کے اصل نام اور ان کے مقامات کی پہچان بھی ظاہر کی گئی ہے۔

’’علی پور کا ایلی ‘‘ اردو کا ایک اہم ناول ہے ۔اس میں ایک اچھے ناول کے سبھی عناصر موجود ہیں ۔موضوع کے پھیلاؤ ،کردار نگاری اور زبان و بیان کے حوالے سے اس ناول کا شمار بیسویں کے نمائندہ ناولوں میں ہوتا ہے ۔ اشاعت کے پہلے دن سے ہی اس ناول کوادبی اور غیر ادبی دونوں حلقوں میں پذیرائی حاصل ہوئی ۔ناقدین نے اس ناول کوبہت سراہا اور اسے ایک مکمل اور کامیاب ناول قرار دیا ۔ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’میں نے ایک کتاب ’’ناول کیا ہے ؟‘‘پچیس برس پہلے لکھی تھی ۔اس وقت تک ’’علی پور کا ایلی ‘‘وجود میں نہیں آئی تھی۔اب ا گر کوئی شخص مجھ سے یہ سوال کرے تو اس کا جواب میں یہ دوں گا ’’علی پور کا ایلی پڑھ ڈالو معلوم ہوجائے گا کہ ناول کیا ہے ؟کیا ہونا چاہیے ؟‘‘۲؎

 ممتاز مفتی نے ’’علی پو رکا ایلی ‘‘ میں اپنی زندگی کے ابتدائی حصے کا ایک مکمل نقشہ کھینچا ہے اور اس عرصے کے باہر سے زیادہ اپنے اندر کے انسان کو تمام تر جزئیات کے ساتھ متعارف کیا ہے لیکن اس سلسلے میںکہیں بھی انہوں نے اپنی ذات پر عزت و وقار کے پردے ڈال کر خود کو ایک عظیم انسان کے روپ میں پیش نہیں کیا ہے اور نہ ہی اپنی شخصیت کی دیواروں پر ایسی تصویریں نقش کی ہیں جو اس کے منافی تھیں ۔انہوں نے ان راستوں جہاں سے ہر ایک کا گزر توہوتا ہے لیکن کوئی وہاںسے گزرنے کی کسی کو بھنک تک نہیں ہونے دیتا ،کے سبھی ذروں کو اپنی تحریر کی روشنی میں صاف دکھاکر ببانگِ دہل بتایا ہے کہ میرا گزر اِن ریگ زاروں کے ساتھ ساتھ حسن و عشق کے اُن بازاروں سے بھی ہواہے جہاں ہر قدم پر عشق کے سادہ لوح متوالوںنے بڑی آسانی سے ’’فریب نرم نگاہی کے کھائے ہیں کیا کیا ‘‘۔

ممتاز مفتی کا دوسرا ناول ’’الکھ نگری ‘‘ ہے جو پہلی بار سنگ میل پبلی کیشنز ،لاہور سے ۱۹۹۲ ء میں شائع ہوا ۔’’الکھ نگری ‘‘ دراصل ’’علی پور کا ایلی‘‘ کا دوسرا حصہ ہے ۔ممتاز مفتی نے اس کو ۱۹۶۵ ء میں ’’ایلی اور الکھ نگری ‘‘ کے عنوان سے لکھنا شروع کیا تھا ۔ابتدا میں اس کے چند ابواب سیارہ ڈائجسٹ ،لاہور میں شائع ہوئے ۔اس ناول کی تخلیق کے دوران ممتاز مفتی بہت بے چین رہا کرتے تھے اور اپنے دوست و احباب ،اپنے مداحین نیز بزرگوںسے بھی دعا کی درخواست کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ’’ورکنگ صحت ‘‘ عطا کرے تا کہ وہ یہ کا م جلد از جلد پایۂ تکمیل تک پہنچا سکے ۔اس دوران انہیں اس بات کا بھی خدشہ لگا رہتا تھا کہ کہیں قدرت اللہ شہاب ان کے اس کام سے ناراض نہ ہوں کیوں اس ناول کے چودہ حصوں میں سے پانچ حصے ان سے متعلق تھے جن میں انہوں نے قدرت اللہ شہاب کو ایک بڑے روحانی بزرگ کے روپ میں پیش کیا ہے اور ان کے بارے میں ایسے حیرت انگیز حالات و واقعات بیان کیے ہیں جس نے بعد میں ایک نا ختم ہونے والی دل چسپ بحث کو جنم دیا ۔

’’الکھ نگری ‘‘ میں ممتاز مفتی کے نجی حالات کے ساتھ ساتھ ان کے عہد کی ایسی سیاسی و سماجی ،تہذیبی و معاشرتی ،ذہنی و نفسیاتی اورتصوف و روحانی جھلکیاں بھی موجود ہیں جو اس کتاب کو ایک دستاویز کی حیثیت عطا کرتی ہیں۔اس میں خاکہ نگاری ،منظر نگاری ،جزئیات نگاری ،سوانح نگاری، مکالمہ نگاری ، کردار نگاری اور واقعات نگاری کے بھی عمدہ نمونے موجود ہیں، لیکن ان عناصر کا مرکز و محور ممتاز مفتی کی ذات ہے جس کے گرد اس ناول کے سبھی واقعات طواف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ مجموعی طور پر ’’الکھ نگری ‘‘ ممتاز مفتی کی زندگی ، شخصیت اور ان کے گرد پھیلے ہوئے سماج کا ایسا مکمل احاطہ ہے جس میں ۱۹۶۵ ء سے لے کر ۱۹۹۲ء تک کاان کا پورا عہد سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔

ممتاز مفتی نے سفرنامے بھی لکھے ہیں ۔ان کا شمار اردو کے بہترین سفرنامہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔انہوں نے دو سفرنامے یاد گار چھوڑے ہیں ۔’’لبیک ‘‘اور ’’ہند یاترا ‘‘۔یہ دونوں سفر نامے اردو کے بہترین سفرنامے تصور کیے جاتے ہیں۔ممتاز مفتی نے ۱۹۶۸ ء میں قدرت اللہ شہاب کے ہمراہ حج کیا ۔اس کے سات سال بعدانہوں نے اپنے سفرِ حج کی روداد کو ’ ’لبیک‘‘ کے عنوان سے ۱۹۷۵ء میں التحریر ،لاہور سے شائع کیا۔اشاعت سے پہلے یہ سفرنامہ سیارہ ڈائجسٹ،لاہور میں قسط وارشائع ہواتھا۔

اردو میں حج کے سفرناموں میں ’’لبیک ‘‘ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔اس نے حج کے سفر پر لکھے گئے سفرناموں میں جو شہر ت و مقبولیت حاصل کی وہ اس موضوع سے متعلق کسی سفرنامے کو نصیب نہیں ہوسکی ۔اس کی مقبولیت کا عالم دیکھ کر ممتاز مفتی نے اسے کاپی رائٹ کی پابندیوں سے یہ کہہ کر آزاد کردیا کہ انہیں اس کی رائلٹی کھانے کا کوئی حق نہیں ہے اس لیے جس کا جی چاہے ،جب چاہے،جیسے چاہے ،جہاں سے چاہے اور جتنی بار چاہے اسے چھاپ سکتا ہے ۔

’’لبیک ‘‘ حج پر لکھے ہوئے سفرناموںمیں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ نہ عام سفرناموں کی مروجہ ہیئت میں لکھا گیا ہے اور نہ ہی اس میںعقیدت و احترام کا اظہار اس طرح سے ہوتا ہے جواس موضوع سے متعلق سفرناموں میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اس کا طرز ِ تحریر اپنے اندر ایک ایسی جاذبیت رکھتا ہے جوقاری کے قلب و جگر پر محبت و عقیدت کی گہری چادر ڈال کر اس کے خیال کو دیار حبیب کی چوکھٹ پر لا کھڑا کرتا ہے ۔ اس سفر نامے کے بارے میں مسعود قریشی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ لبیک ‘‘ سفرناموں کا نقطۂ عروج ہے ۔جیسے کوئی مسلمان حج پر ازخود نہیں جاسکتا جب تک بلاوا نہ ہو اسی طرح لبیک جیسا سفرنامہ نہیں لکھا جاسکتا جب تک تائید ایزدی اور رسالت کی نگاہ ِ کرم شامل ِ حال نہ ہو ‘‘  ۳؎

 ممتاز مفتی کا دوسرا سفرنامہ ’’ہند یاترا ‘‘ کے عنوان سے ۱۹۸۷ ء میں اظہار سنز ،لاہور سے شائع ہوا۔یہ ان کے اس سفرِ ہندستان کی روداد ہے جو انہوں نے ۱۹۸۲ ء میں امیر خسرو کے عرس میں شرکت کرنے کی غرض سے کیا تھا ۔اس سفر میں ڈاکٹر اشفاق حسین بھی ان کے ساتھ تھے ۔یہ سفر نامہ بظاہر ممتاز مفتی کے سفر کی ایک دلچسپ خارجی روداد ہے لیکن اس کے مطالعے سے ان کے نظام فکر کی بہت سی تہوں کا بھی پتہ چلتا ہے اور ان کے نظریات ومشاہدات پر بھی روشنی پڑتی ہے نیز تصوف سے ان کی وابستگی کا بھی اظہار ہوتا ہے ۔ اس سفر کے دوران انہوں نے دہلی کے نامور صوفی بزرگوں کے مزاروں پر بھی حاضری دی ،ہومیوپیتھی پر ہندوستانی حکماء کی کتابیں خریدیں، دہلی کے گلی کوچوں کو بھی قریب سے دیکھا اور اس کی تہذیب کامشاہدہ بھی کیا ،ارض ِ ہند سے جڑے اپنے ماضی کی یادوں کی خوبصورت تازہ کاری بھی کی ہے اور حال کے نقش بھی ابھارے ہیں ۔بقول ڈاکٹر نجیبہ عارف :

’’سواتین سو صفحات پر مبنی یہ کتاب کہیں ایک سفرنامے کی اچٹتی ہو ئی نگاہ لیے ہوئے ہے،کہیں انشائیے کا سا خیال کی بہتی ہوئی رو کا تسلسل ہے،کہیں رپورتاژ کی طرح خارجی واقعات میں ایک بصیرت افروز معنویت کی فضا آفرینی ہے ،کہیں روزنامچے کا سا داخلی اور موضوعی لہجہ ہے اور کہیں خود ممتاز مفتی کے بقول یادوں کی برات کا اداسی آمیز تجربہ ہے۔اس میں ممتاز مفتی کی سوانح بھی ہے اور ان کے نظام فکر کی کئی پوری ادھوری کڑیاں بھی ۔نظریات بھی ہیں اور معتقدات بھی ،مشاہدات بھی ہیں اور تجربات بھی ۔ماضی بھی ہے ،حال بھی اور مستقبل کی امیدیں ،خواب اور خواہشات بھی ۔‘‘۴؎

 ممتاز مفتی بحیثیت خاکہ نگار بھی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں ۔ان کے خاکوں کے چار  مجموعے شائع ہوئے ہیں ۔ ’’پیاز کے چھلکے( ۱۹۶۸ئ) ‘‘، ’’اوکھے لوگ( ۱۹۸۶ئ) ‘‘ ، ’’اور اوکھے لوگ( ۱۹۹۱ء )‘‘ اور ’’اوکھے اولڑے( ۱۹۹۵ئ)‘‘ان کے خاکوں کے مجموعے ہیں۔ممتاز مفتی نے زیادہ تر ادیبوں اور شاعروں کو اپنے خاکوں کا موضوع بنایا ہے ۔ انہوں نے جن لوگوں کے خاکے لکھے ہیں ان میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو نہ صرف ادب سے وابستگی کی بنا پر ان کے حلقۂ احباب میں شمار ہوتے ہیں بلکہ ان میںسے اکثر ان کے رفیق کار بھی ہیںجو نجی زندگی کے معاملات کے ساتھ ساتھ ان کی جذباتی دنیا میں آنے والے طوفانی سیلابوں کے وقت بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ۔ان میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے ان کی دستگیری بھی کی ہے اور ان کے فکر و فن کی پروازوں کو نئی فضاؤں میں اڑان بھرنے پر آمادہ بھی کیا ۔انہوں نے ان سب کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے خاکوں میں جہاں زیر مطالعہ شخص کا خارجی عکس واضح طور پر نمایاں ہوتا ہے وہاں اس کی شخصیت کے باطنی پہلوؤں کا ایک ایسانقش بھی ابھر کر سامنے آتا ہے جس کی مدد سے اس شخص کے مزاج اور اس کی نفسیات کا اندازہ لگانے میں آسانی ہوتی ہے۔

ممتا ز مفتی نے اگرچہ انہی لوگوں کو اپنے خاکوں کا موضوع بنایا ہے جن سے انہیں ایک خاص قسم کی ذہنی ،ادبی یا روحانی وابستگی رہی ہے لیکن انہوں نے اس وابستگی کے باوجود کسی کو ممدوح بنا کر پیش نہیں کیا ہے اور نہ ہی جھوٹے بت تراشے ہیں ۔ انہوں نے کسی کا تمسخر بھی نہیں اڑایا ہے اور نہ ہی کسی پر تحقیر کی نگاہ ڈالی ہے ۔انہوں نے زیر مطالعہ مطالعہ شخص کی خامیوں اور کوتاہیوں پر سے بھی پردہ اٹھایا ہے لیکن ا س عمل میں ان کے ہاں احترام کا ایک ایسا جذبہ کارفرما رہتا ہے کہ اس شخص، جس کا وہ خاکہ لکھ رہے ہیں کی خامی بھی خوبی معلوم ہوتی ہے ۔ممتاز مفتی کی خاکہ نگاری کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ان میں ہمیں فرد کی داخلی شخصیت کے مطالعے پر زیادہ زور ملتا ہے ۔ بقول نذیر احمد :

’’ممتاز مفتی کی شخصیت نگاری کی سب سے نمایاں خوبی زیر مطالعہ شخصیتوں کی موضوعاتی اور باطنی دنیا کا تجزیہ ہے باہر سے جو شخص جیسا نظر آتا ہے وہ اس پر نگاہ ضرور ڈالتے ہیں مگر فوراً ہی اس کے باطن میں اتر جاتے ہیں ان کی نظر اس نقطے پر جاکر ٹھہر تی ہے جسے شخصیت کا مرکز کہنا چاہیے ۔جس طرح کی چہرہ نویسی شاہد احمد دہلوی کے خاکوں میں نظر آتی ہے یا جس طرح کا مزاح رشید احمد صدیقی کے ہاں موجود ہے ممتاز مفتی کی لکھی ہوئی شخصیتوں میں ناپید ہے ‘‘۵؎

ممتاز مفتی نے ڈرامہ نگاری میںبھی اپنے فن کے جوہر دکھائے ہیں۔ انہوں نے ریڈیو سے وابستگی کے دوران کئی ڈرامے لکھے۔ پروفیسر نذیر احمد نے ان کے ریڈیائی ڈراموں کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب بتائی ہے۔ممتاز مفتی ریڈیائی ڈرامہ کے برعکس اسٹیج ڈرامہ کی ادبی اہمیت کے قائل تھے۔ان کا یہ ماننا تھا کہ ریڈیائی ڈراموں کے مقابلے میں اسٹیج ڈرامہ زیادہ ادبی اہمیت رکھتا ہے۔اسی خیال کے پیش نظر انہوں نے اپنے ریڈیائی ڈراموں کو کبھی شائع نہیں کیا ۔ان کے کل دو ڈرامے کتابی شکل میں شائع ہوئے ہیں۔’’نظام سقہ ‘‘ اور ’’لو ک ریت‘‘۔یہ دونو ں اسٹیج ڈرامہ سے متعلق ہیں۔ان میں سے ’’نظام سقہ ‘‘ جو ایک کرداری ڈرامہ ہے ،کو بہت مقبولیت ملی ۔یہ ڈرامہ اپنے زمانے میں پاکستان کے مختلف شہروں میں اسٹیج پر بھی کھیلا گیا اور ٹیلی ویژن پر بھی نشرکیا گیا ۔اس میں تین ایکٹ اور دو مناظر ہیں ۔اس میں واقعات کی بھر مار کے بجائے ایک ہی واقعہ کو مرکز بنا کر ڈرامہ کو آگے بڑھایا گیا ہے ۔اس سے قاری کا ذہن ایک ہی واقعے کی گرفت میں رہ کر بھٹکنے سے بچ جاتا ہے او را یک تجسس بھی قائم ہوجاتا ہے ۔ڈرامے کے بیچ میں بہت سے چھوٹے واقعات بھی آتے ہیں لیکن سبھی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں اور ڈرامے کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔’’نظام ‘‘ اور ’’ہمایوں ‘‘ ڈرامے کے مرکزی کردار ہیں ۔’’نظام ‘‘ ایک ہمدرد اور نرم دل انسان ہے ۔’’ہمایوں ‘‘ کی شخصیت شاہانہ وقار کی حامل ہے ۔یہ دونوں کردار ڈرامے کی مجموعی فضا پر پوری طرح چھائے رہتے ہیںاور ڈرامے کے دوسرے کردار ان کی زندگیوں کے گرد پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں ۔یہ ڈرامہ مکالمہ نگاری کے لحاظ سے بھی اہم ہے ۔اس کے مکالمے کرداروں کی نفسیات کے آئینہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے عہد کے حالات کو بھی اجاگر کرتے ہیں ۔ممتاز مفتی کی ڈرامے متعلقہ صنف کے ذیل میں اگرچہ زیادہ اہم نہیں سمجھے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں فکری و فنی معاملات کے ساتھ ساتھ دلچسپی کے وہ سبھی عناصر بھی موجود ہیں جنہوں نے اس صنف کو عوام میں مقبولیت کا شرف بخشنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ممتاز مفتی نے مضامین کے تین مجموعے بھی یاد گار چھوڑے ہیں ۔’’غبارے ‘‘(فروری ۱۹۵۴ئ)، ’’رام دین ‘‘ (۱۹۸۶ء )اور ’’تلاش ‘‘ (۱۹۹۵ء وفات کے بعد )۔ان میں سے پہلے دو مجموعوںکے بیشتر مضامین روزمرہ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے متعلق ہیںلیکن ان میں  نفسیاتی نوعیت کے مضامین بھی شامل ہیںجن میں انسانی فطرت کی گہرائی کا مشاہدہ اور اس کے تضادات کو مختلف صورتوں میں ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے علا وہ ان مضامین میںجنس اور عورت کو بھی  موضوع بنایا گیا ہے ،سماجی و معاشرتی زندگی کے کھوکھلے پن پر بھی ایک نئے انداز میں تجزیہ کیا گیا ہے، مذہب کو ایک آلۂ کار کے طور پر اپنانے والوں کو بھی طنزکا نشانہ بنایاگیا ہے ، حب الوطنی کے جام بھی چھلکائے گئے ہیں اور نظریہ ٔ پاکستان کی وضاحت، اس کے قیام کے ناگزیر ہونے کے دل چسپ اور منفرد حوالے بھی دئیے گئے ہیں اور اس نئی مملکت کی اہمیت کو بھی ایک مخصوص نقطہ ٔ نظر کے تحت اجاگر کیا گیا ہے ۔ادب اور ادیب پر بھی تبصرے کیے گئے ہیں اور ان طوفانوں کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جنہوںنے ان کی اپنی فکر کے دریاؤں کا راستہ جنس اور نفسیات کی زمینوں سے تصوف کی پر سکون وادیوں کی طرف موڑا ۔ ’’تلاش‘‘ ان کے ادبی کارناموں میں اس فکری تغیر کا سب سے بڑا ترجمان ہے جس میںانہوں نے  اپنی نوے سالہ زندگی کے تجربات و مشاہدات کاایک دلچسپ نچو ڑ پیش کیا ہے ۔

اس جائزے کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ ممتاز مفتی کا جہانِ ادب اپنے اندر کئی جہانوں کو سمیٹے ہوئے ہے ۔اس میںجنس اور نفسیات کے رنگ بھی ہیں اور تصوف کی پر سکون وادیاں بھی آباد ہیں۔شکست و ریخت کے بازار بھی ہیں اور تجربات و مشاہدات کے انبار بھی ۔محبت و عقیدت کے گلشن بھی ہیں اور فکر و فن کے دریا بھی ۔ یہ بیسویں صدی کے ایک بڑے حصے پر مشتمل ہے لیکن اس میںآنے والے کل میں بھی زندہ رہنے کے امکانات موجود ہیں۔

    حواشی

  ۱۔   ممتاز مفتی :شخصیت اور فن:  ڈاکٹر نجیبہ عارف ،اکادمی ادبیات پاکستان،اسلام آباد ،۲۰۰۷ ،ص ۶۸

 ۲۔   ایضاً:  ص۹۹

۳۔  مہا اوکھا مفتی :  مرتبہ عکسی مفتی ،الفیصل ،اردو بازار،لا ہور ،پاکستان ،۲۰۱۳،ص۲۱

۴۔  ممتاز مفتی :شخصیت اور فن:  ڈاکٹر نجیبہ عارف ،اکادمی ادبیات پاکستان،اسلام آباد ،ص ۱۱۶

۵۔  مہا اوکھا مفتی :  مرتبہ عکسی مفتی ،الفیصل ،اردو بازار،لا ہور ،پاکستان ،۲۰۱۳،ص ۲۹)

بلال احمد تانترے

شعبۂ اردو

جامعہ ملیہ اسلامیہ ،دہلی

رابط: Bilalahmed8130@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.