اردو شاعری میں آثار قدیمہ کی روایت

ارسہ کوکب
ریسرچ اسکالر، انٹر نیشنل اسلامک یونی ورسٹی، اسلام آباد

009232*****9
irsakokab@yahoo.com

Abstract
In this content, a concise review of past/archaeology has been mentioned. Our past is related to our present. The history of archaeology gives us the the consciousness about past and gives insight of present and future. The person studying the history of nations can exclude the degrading effects of this wave of life and can quicken a new blood in it and by the help of healthy key elements can set its strategy in the mirror of past. By the mentions of archaeology, we came to know that nations are in recession when they betray from their purpose of life. For the sake of national consciousness and to avoid the recession, the study of past is very important.

ہمارا ماضی ہمارے حال سے وابستہ ہے ۔ آثارِ قدیمہ کی تاریخ کا مطالعہ ہمیں ماضی کا شعور دیتا ہے اور حال و مستقبل کیلئے بصیرت عطا کرتا ہے ۔ قوموں کے ماضی کا مطالعہ کرنے والا شخص زندگی کی موج رواں سے زوال آمیز اثرات کو خارج کر کے اس میں نیا خون دوڑا سکتا ہے اور صحت مند عناصر کی مدد سے ماضی کے آئینے میں اپنا لائحہ عمل مرتب کر سکتا ہے ۔ آثارِ قدیمہ کے تذکروں سے پتہ چلتا ہے کہ قومیں اس وقت زوال پذیر ہو جاتی ہیں ۔جب وہ اپنے مقصود حیات سے کنارہ کش ہوتی ہیں ۔ ملی شعور کی پرداخت کی خاطر اور زوال سے بچنے کے لیے آثارِ قدیمہ کا مطالعہ بہت ضروری ہے ۔

آثار قدیمہ کے الفاظ بنیادی طور پر عربی زبان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ آثار کا مادہ اثر ہے جبکہ قدیمہ کا مادہ قدم ہے ۔ اثر کا مطلب ہے سنت نبوی ؐ، تاثیر، نشاں، زخم کا داغ، کھنڈر ، کھوج جمع اس کے آثار، اثرات جبکہ قِدم کا مطلب ہے ہمیشگی ، قدامت ، ویرینگی ، کہنگی، پُرانا پن، خدا تعالیٰ کی ایک صفت۔ اُردو زبان کی مختلف لغات میں آثار قدیمہ کے جو مفاہم بیان کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں ۔مولوی سید احمد دہلوی “فرہنگ آصفیہ” میں آثارِ قدیمہ کے بارے میں یوں ر قم طراز ہیں :۔
“پُرانی عمارتیں ، پراچین منڈل اور قلعے وغیرہ ۔ آثارِ صناؤدیداگلے زمانے کے نامیوں کے بنی ہوئے شاندار مکانات جو بطور یادگار قائم ہیں جنکے قیام اور مرمت کے واسطے لارڈ کرزن صاحب نے ایک محکمہ آثارِ قدیمہ کے نام سے قائم کر کے اُنہیں برقرار رکھا”۱؂
اگرہم ادب میں آثار قدیمہ کی روایت کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ سب سے قبل سومیریوں نے ایسے المیہ منظوم ادب پارے بھی تخلیق کئے، جو شہروں اور ملک کی تباہی کے نوحوں شہر آشوب کی ذیل میں آتے ہیں ۔ سومیر کا انتہائی مہذب ملک کہیں زیادہ وحشی اور لڑاکا قوموں سے گھرا ہوا تھا۔ چنانچہ ان لوگوں کی انہی تباہ کاریوں سے متاثر ہو کر انہوں نے نوحے کہے۔ سومیر جولاگاش کی بربادی پر کہا گیا تھا۔ شہر کی تباہی پر دنیا کا یہ قدیم ترین نوحہ مٹی کی ایک تختی پر لکھا ہوا دستیاب ہوا ہے اس میں سومیری شہر لاگاش کی اپنی دیرینہ شہری ریاست اُمہ کے ہاتھوں لرزہ خیز شکست و ریخت کا ذکر ہے اس نظم کو “لاگاش کا نوحہ” کا عنوان دیا جا سکتا ہے ۔سومیری روایت کی رو سے عراق (سومیر) میں سیلاب عظیم آیاتھا اور یہی سیلاب الہامی کتب کی رُو سے بعد کے زمانوں میں طوفان نوح علیہ السلام کہلایا :
کہ دن تہ و بالا کر دیا جائے ، کہ امن وامان ختم ہو جائے
طوفان سیلاب، کی مانند ہر چیز کو نگل جانے والا ہے
کہ سومیری کے ‘می’ منسوخ کر دیئے جائیں
کہ سازگار دور حکومت ختم کر دیا جائے
کہ شہر تباہ ہو جائیں ، کہ گھر تباہ ہو جائیں۲؂
شاعر شمال سے جنوب کو ایک کے بعد دوسرے شہر کی تباہی کا ذکر کرتا چلا جاتا ہے ۔ شہر کِش اور وہاں واقع اِننا دیوی کا یزسگ کلمانامی مندر دشمن نے تباہ کر دیا بقول شاعر:۔
اِسِن (شہر) اب گھاٹ کا شہر نہیں رہا، اسے پانی سے محروم کر دیا گیا،
‘مادر ملک’ نِن اِسِنا (دیوی) زارزار روئی
وہ بری طرح چلائی “ہائے اس (دیوی) کا تباہ شدہ شہر، تباہ شدہ گھر” ۳؂
سومیر اور اُر” کے نوحہ میں اِن شہروں کے علاوہ اور بھی کئی شہروں کی تباہی کا تذکرہ کیا گیا ہے جن میں کِن ارشاد، مَسکن سرارا، گائش، اکش شُو، اب رِگ، وحا، دُو مُوزی کِس اِگا وغیرہ شامل ہیں۔”اُر کا نوحہ” پوری دنیا کے لٹریچر کی تاریخ کے چند بہترین نوحوں میں تسلیم کیا گیا ہے اور اس کا خالق جو کوئی بھی سومیری شاعر تھا بلا شبہ عظیم شاعر تھا۔ اس عظیم شاعر کا نام معلوم نہیں ہو سکا ہے شاید اس نوحے پر مشتمل کبھی کوئی ایسی سومیری لوح مل جائے جس پر اس نامعلوم شاعر کا نام بھی درج ہو۔
سلطان محمد قلی قطب شاہ ہماری زبان کا سب سے پہلا شاعر ہے جس نے اپنے شاہانہ مرتبہ کے باوجود اپنے گردوپیش کی پوری جُزئیات کو بڑی لطافت، شگفتگی، برجستگی اور خوش آہنگی کے ساتھ اپنے ہلکے پھلکے رنگین و مترنم اشعار میں ایک عظیم فن کار کی طرح سمودیا ہے قلی قطب شاہ نے کہیں کہیں آثارِ قدیمہ کا بھی تذکرہ کیا ہے جیسا کہ سورج کو یوسف فلک سے تشبیہ دی ہے کہ مغرب کے کنویں میں اُس کے ڈوبتے ہی زمانے میں یعقوب کی آنکھوں کی طرح اندھیرا چھا گیا۔ روایت ہے کہ حضرت یوسف کے بھائی ان کو سیر کرانے کے بہانے جنگل میں لے گئے اور باہم مشورہ کر کے انہیں ایک ایسے کنویں میں ڈال دیا جو عرصے سے خشک پڑا تھا۔ حجازی اسماعیلوں کا ایک قافلہ سامان تجارت کے لیے شام سے مصر کی طرف جا رہا تھا ۔ کنواں دیکھ کر اہل قافلہ نے پانی کے لیے اس کنواں میں ڈول ڈالا جسے پکڑ کر حضرت یوسف کنویں سے باہر آگئے ۔ قافلے والوں نے انہیں غلام کے طور پر اپنے قافلے میں شامل کر لیا اور مصر لے گئے ۔ چاہ یوسف کو قلی قطب شاہنے اپنے شعر میں یوں استعمال کیا ہے: بقول قلی قطب شاہ
عزب کے چہ میں پڑیا یوسف ابز کا ہور
جگہ سبہیں یعقوب کے نین نمن اند کار ۴؂
محمد قلی قطب شاہ ایک اور جگہ ر قم طراز ہیں کہ
آگ براہیم کا بجک ہوا پھول بن
رہن سوتس آگ کا ہے دھنویکا دھندکار
(۵)
اس کے علاوہ مولانا ظفر علی خاں نے آثارِ قدیمہ کو اپنا موضوع سخن بنایا۔عزناطہ میں پہاڑی پر تعمیر کردہ ایک خوبصورت محل، مسلمانوں نے ہسپانیہ پر کوئی آٹھ سو سال تک حکومت کی جہاں انہوں نے علم و فضل کو ترقی دی وہاں شاندار مسجدیں اور محل بھی تعمیر کرائے جن میں عزناطہ کا قصرالحمرا خاص شہرت کا مالک ہے مسلمانوں کے زوال کے بعد ان کی حکومت کے بیشتر نشانات مٹا دیئے گئے صرف چند آثار باقی ہیں۔مولانا ظفر علی خاں نے “چمنستان” میں اپنی نظم “نویدہ تقفطوا” میں اس کو اپنا موضوعِ سخن بنایا ہے یہ نظم انہوں نے 13ستمبر کو رنگون میں لکھی، بقول ظفر علی خاں:۔
اندلس میں جاہی پہنچے پھر مراقش کے جواں
قصر الحمرا پہ نصب اپنا پھر ہرا کر دیا
(۶)
مولانا ظفر علی خاں نے “چمنستان” میں اپنی نظم مہمند میں سمر قند کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ :
جس گرز کی اک ضرب سے ابرز ہوا چور
وہ گرز بتائید خداوند پھر اُٹھے
عثمان کا لیتا ہوا نام انقرہ اُٹھا
تیمور کی خاطر بھی سمر قند پھر اُٹھے
(۷)
اُردو ادب میں عناصر خَمسہ جن میں حالیؔ کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔ حالی نے بھی پہلے شاعروں کی اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اُردو شاعری میں آثارِ قدیمہ کا تذکرہ کیا ہے ۔ عزناطہ میں پہاڑی پر تعمیر کردہ ایک خوبصورت محل ، مسلمانوں نے ہسپانیہ پر کوئی آٹھ سو سال تک حکومت کی یہاں انھوں نے علم و فضل کو ترقی دی وہاں شاندار مسجدیں اور محل بھی تعمیر کرائے جن میں عزناطہ کا قصر الحمرا خاص شہرت کا مالک ہے مسلمانوں کے زوال کے بعد ان کی حکومت کے بیشتر نشانات مٹا دیئے گئے صرف چند آثار ان کی عظمت کے شاہد ہیں۔ الحمرا کا محل سرخ پتھر سے بنایا گیا ہے اس لیے اس کا نام الحمرا ہے ۔۱۲۱۳ء میں محمد ثانی نے اس کی بنیاد رکھی اور یوسف اول نے ۱۳۲۵ء میں اس کو عربی طرز کے نقش و نگار سے مزین کیا۔بیت حمرا کا ذکر حالی نے “مسدسِ حالی” میں کچھ یوں کیا ہے :۔
ہوا اندس ان سے گلزار یکسر

جہاں ان کے آثار باقی ہیں اکثر
جو چاہے کوئی دیکھ لے آج جا کر
یہ ہے بیت حمرا کی گویازباں پر
(۸)
قرطبہ اندلس میں بہت بڑا نامی شہر تھا جس کی فصیل پتھر کی تھی جس میں سولہ سو مسجدیں نو سو حمام، پچاس شفا خانے اور اسی عام مدرسے خلفائے امویہ کے عہد میں تھے اب وہاں اکثر کھنڈرات مسلمانوں کی عظمت و جلال کی یادگار کے طور پر موجود ہیں حالی نے قرطبہ شہر کے کھنڈرات کو اپنا موضوع سخن بنایا ہے : بقول حالی :۔
کوئی قرطبہ کے کھنڈر جا کے دیکھے
مساجد کے محراب و در جا کے دیکھے
حجازی امیروں کے گھر جا کے دیکھے
خلافت کو زیر و زبر جا کے دیکھے
جلال ان کا کھنڈروں میں ہے یوں چمکتا
کہ ہو خاک میں جیسے کندن دمکتا ۹؂
مولانا شبلی نعمانی نے اپنی نظم “تماشائے عبرت” میں آثارِ قدیمہ کا تذکرہ کیا ہے ۔ جن میں بیت حمرا، عزناطہ میں پہاڑی پر تعمیر کردہ ایک خوبصورت محل ہے جو کہ مسلمانوں نے ہسپانیہ عزناطہ کے شہر میں تعمیر کروایا قصر الحمرا خاص شہرت کا مالک ہے مسلمانوں کے زوال کے بعد ان کی حکومت کے بیشتر نشانات مٹا دیئے گئے اس کے صرف چند آثار باقی ہیں اس کے علاوہ “تماشائے عبرت” میں شبلی نے مصر ، عزناطہ اور بغداد کے اُجڑجانے کا بھی ذکر کیا شبلی کو افسوس ہے کہ مسلمانوں نے ان علاقوں میں راج کیا تھا اور اب وہاں اُن کے چند آثار رہ گئے ہیں اس کے بعد شبلی نے دہلی کے بوسیدہ کھنڈرات کا ذکر کیا جو کہ مسلمانوں نے اپنے دور میں عالی شان طریقہ سے بنائے تھے ۔تبدیلی زندگی کا راستہ ہے اور عروج کے بعد زوال زمانے کا مقدر ہے جیسے جیسے مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہو کر کمزور ہوتی گئی ویسے ویسے اس کے مرکز سلطنت یعنی دلی کا سہاگ بھی اجڑتا گیا مرہٹوں کی پورش اور نادرشاہ کے قتل عام (۱۷۳۹ء) سے ترکِ دہلی کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ احمد شاہ ابدالی کے حملوں کے ساتھ بڑھتا چلا گیا۔ جس کو جہاں سہارا یا ٹھکانا ملتا وہ وہاں چلا جاتا۔ ادھر معاشی بدحالی نے دلی کی کمر توڑ دی اور دیکھتے دیکھتے دلی اہلِ فن اور اہل ہنر سے خالی ہوگئی : بقول شبلی نعمانی:
کبھی بھولے بھی سلف کو نہ کریں یاد اگر
یادگاروں کو زمانے سے مٹا دیں کیونکر
مردوؔ شیرآز و صفاؔ ہاں کے وہ زیبا منظر
بیت حمراؔ کے وہ ایوان وہ دیوار وہ در
مصرؔ و غزناطہؔ و مغدادؔ کا ایک ایک پتھر
اور وہ دہلی مرحوم کے بوسیدہ کھنڈر
(۱۰)
اُردو کے شاعروں نے دہلی کے اُجڑنے کو خاص کر اپنا موضوعِ سخن بنایا کیونکہ دہلی کی تباہی کا اثربہت زیادہ ہوا شبلی کے علاوہ مصحفیؔ اور جرأت نے بھی اپنی شاعری میں اس موضوع کو اپنایا : بقول مصحفیؔ :۔
دلی سے پختہ محلوں کے وارث کہاں گئے
اب تک ڈھکے پڑے ہیں جو دیوارِ سنگ وخشت

(۱۱)
دلی ہوئی ہے ویراں سونے کھنڈر پڑے ہیں
ویران ہیں محلے سنسان گھر پڑے ہیں

(۱۲)
جرأت رقم طرازہیں کہ:
جب لشکر کرماں کی چڑھائی ہو شب و روز
دہلی کے لگے کیوں نہ پھر اورنگ میں کیڑا
(۱۳)
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال سے قبل عالمی زبان وادب اور اُردو زبان وا دب میں آثارِ قدیمہ کی روایت کی پیشکش واضح رُخ اختیار کر چکی ہے۔اقبال جب آثارِ قدیمہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو قوموں کے عروج و زوال کو تلاش کرتے ہیں ۔ مزید برآں وہ مسلم تاریخ کے آثارِ قدیمہ کے ساتھ جب دیگر اقوام کے آثارِ قدیمہ کا تذکرہ کرتے ہیں تو وہ اقوام کی تاریخ اور اخلاقیات کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں ۔اقبال کی شہرہ آفاق نظم “مسجد قرطبہ ” میں انہوں نے اس مسجد کی جو تصویر کھینچی ہے وہ دل کو چھولینے و الی اور ساتھ ہی دل کو چیر دینے والی ہے اقبال وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے کئی صدیوں بعد ۱۹۳۱ء میں اس مسجد میں اذان دینے اور نماز ادا کرنے کا شرف حاصل کیا:۔
اے حرم قرطبہ! عشق سے تیرا وجود

عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل
ؤاقبال نے بھی تاج محل کو اپنا موضوعِ سخن بنایا اور نظم ” تاج محل ” لکھی جو کہ اُن کے اُردو مجموعوں میں شامل نہیں ہے اور باقیاتِ کلام میں شامل ہے یہ نظم اسعد الرحمن قدسی (بھوپال) کے ضمن میں لکھے گئے ، جن کا آستانہ بھوپال سے چار میل کے فاصلے پر دامنِ کہسار میں واقع ہے : بقول اقبال:۔
چشم بینا! روضۂ ممتاز کی تعمیر دیکھ
سنگِ مرمر میں کبھی تخیل کی تصویر دیکھ
دیکھ نور افشائی گنبد شبِ مہتاب میں
ہے لب جمنا پہ گویا مہر روشن خواب میں

اقبال نے آثارِ قدیمہ کو محض تفریح و طبع اور ذہنی تسکین کا ذریعہ نہیں بنایا، بلکہ اُن کی آثارِ قدیمہ پر مبنی شاعری بھی ایک اعلیٰ وارفع پیغام کی حیثیت رکھتی ہے ۔ انہوں نے اپنے مخصوص لہجے اور جدتِ فکر سے مملو کر کے آثارِ قدیمہ کو بہت زیادہ دل کش اور جاذب توجہ بنا دیا ۔ ان کی آثارِ قدیمہ پر شاعری اپنے انداز اور فکری جہیتوں کے باعث انتہا تک پہنچی کہ ناصرف دیگر اُردو شعرا کسی طرح بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے، بلکہ مغرب کا کوئی شاعر بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا شیکسپیرکا سارا ادبی سرمایہ اقبال کی نظم “مسجدِ قرطبہ” کے سامنے ہیچ نظر آتا ہے ، اقبال نے اپنے فلسفیانہ تصورات بھی اسلامی تہذیب سے اَخذ کیئے اور اس طرح اسلامی تہذیب سے عظیم کام لیا۔ ا نھوں نے اپنی فکری پیغام کی ترسیل کا ذریعہ مسلمانوں کے آثارِ قدیمہ کو بنایا۔ اُردو کلام میں آثارِ قدیمہ کے تذکرے کا اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ مجھے اُمید ہے کہ میری کاوش سے موضوع مذکور پر تحقیق کے مقاصد کسی حد تک پورے ہو جائیں گے تاہم اس ضمن میں اپنی کوتاہیوں پر معذرت خوا ہ ہوں۔
حوالہ جات
۱۔مولوی سید احمد دہلوی ، فرہنگِ آصفیہ (لاہور:اُردو سائنس بورڈ ، ۲۰۰۳ء) ، ۱۱۵
۲۔ابنِ حنیف، دنیا کا قدیم ترین ادب ، جلددوم( ملتان : ندیم شفیق پرنٹنگ پریس ، ۱۹۹۸ء) ، ۶۴
۳۔ایضاََ ۶۵
۴۔ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور ، کلیات محمد قلی قطب شاہ سلسلہ یوسفیہ ، شمارہ ۱ (حیدرآباد : مکتبہ ابراہمیہ ، ۱۹۴۰ء) ،۳۳۸
۵۔ایضاََ ۱۹۸
۶۔ظفر علی خاں ، چمنستان ( لاہور: پبلشرز یونائیٹڈ، ۱۹۴۴ء) ، ۴۵
۷۔ ایضاََ ۴۵
۸۔مولانا الطاف حسین حالی ، مرتب رانا خضر سلطان ، کلیاتِ حالی (لاہور: بک ٹاک ، ۲۰۰۵ء) ۵۹
۹۔ایضاََ ۶۰
www.urdupoint.com/urdu books/kuliyat-e-shibli:25page no. 84۱۰۔
page no. 9 www.urdupoint.com/urdu books/kuliyat-e-Musafi/۱۱۔
www.urdupoint.com/urdu books/kuliyat-e-Musafi/page no. 214 ۱۲۔
:www.urdupoint.com/urdu books/kuliyat-e-Jurat/page no. 43-۱۳
۱۴۔اقبال ، کلیاتِ اقبال اُردو ) لاہور:شیخ غلام علی اینڈ سنز لمیٹڈ ، ۱۹۷۳ء) ، ۳۸۵
۱۵۔ڈاکٹر صابر کلوروی (مرتب) ، کلیات باقیاتِ شعرِ اقبال (متروک اُردو کلام) ( لاہور:اقبال اکادمی پاکستان ، ۲۰۰۴ء) ،۵۴۴
کلیدی الفاظ
ماضی کا شعور ، آثار قدیمہ ، لاگاش کا نوحہ ، چاہ یوسف ، تاج محل ، الحمرا ، کھنڈر ، مسجد قرطبہ، ہسپانیہ، دہلی کی تباہی

…………..

ارسہ کوکب
پی۔ ایچ ۔ ڈی اسکالر
00923216667919
irsakokab@yahoo.com
انٹر نیشنل اسلامک یونی ورسٹی، اسلام آباد

نوٹ: اردو ریسرچ جرنل میں شائع کسی بھی تحریر کو بغیر اجازت شائع کرنا قانونا اور اخلاقا جرم ہے۔

Leave a Reply

1 Comment on "اردو شاعری میں آثار قدیمہ کی روایت"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] 41.    اردو شاعری میں آثار قدیمہ کی روایت […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.