اردو میں ادبی تحقیق کی روایت۔نمائندہ محقیقین کے  حوالے  سے

زاہد ظفر

ریسرچ اسکالر، کشمیر یونی ورسٹی۔

لفظ “تحقیق” عربی زبان کا  مصدر ہے  جس کا مادہ ‘حقّق، یُحَقّقُ،  تَحقیقاً سے  ماخوذ ہے  جو باطل کی ضد ہے۔حق کا مطلب ْثابت کرنا،  ثبوت فراہم کرناہے۔

تحقیق کا کام حال کو بہتر بنانا،  مستقبل کو سنوارنا،  اور ماضی کی تاریکیوں کو روشنی عطا کرنا ہے۔تحقیق کا ایک اہم کام گمشدہ دفینوں کو دریافت کرنا اور ماضی  کی تاریکیوں کو دور کرکے  اسے  روشنی عطا کرنا ہے۔بقول ِ سید عبداللہ:

“تحقیق کے  لغوی معنی کسی شے  کی حقیقت کا اثبات ہے۔اصطلاحاً یہ ایک ایسے  طرز مطالعہ کا نام ہے  جس میں موجود مواد کے  صحیح یا غلط کو بعض مسلمات کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے۔تاریخی تحقیق میں کسی امر واقعہ کے  وقوع کے  امکان و انکار کی چھان بین مد نظر ہوتی ہے۔”)1(

تحقیق ماضی کی گمشدہ کڑیاں دریافت کرتی ہے  اور تاریخی تسلسل کا فریضہ انجام دیتی ہے  اور ادب کو اس کے  ارتقا کی صورت میں مربوط کرتی ہے۔تحقیق موجود مواد کو مرتب  کرتی ہے، اس کا تجزیہ کرتی ہے،  اس پر تنقید کرتی ہے  اور پھر اس سے  ہونے  والے  نتائج سے  آگاہ کرتی ہے۔مالک رام ادبی تحقیق کے  حوالے  سے  رقمطراز ہیں  :

“تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے۔اس کا مادہ  ‘ح’۔ق۔ق’ جس کے  معنی ہیں کھرے  اور کھوٹے  کی چھان بین یا بات کی تصدیق کرنا۔دوسرے  الفاظ میں تحقیق کا مقصد یہ ہونا چاہیے  کہ ہم اپنے  علم و ادب میں کھرے  کو کھوٹے  سے،  مغز کو چھلکے  سے،  حق کو باطل سے  الگ کریں۔ انگریزی لفظ” ریسرچ “کے  بھی یہی معنی اور مقاصد ہیں۔ “(2)

اردو میں خالص ادبی تحقیق کا آغازبیسوی صدی کے  اوائل میں ہوتا ہے۔اس سلسلے  میں مولوی عبدالحق،  حافظ محمود شیروانی،  قاضی عبدالودود،  امتیاز علی عرشی،  وغیرہ بزرگوں نے  اپنی زندگی کا بڑا حصہ اردو زبان و ادب میں صرف کیا اور اردو تحقیق کا معیار بلند کیا۔

بیسویں صدی میں تحقیقی روایت میں توسیع کرنے  والے  ایک اہم بزرگ مولوی عبدالحق ہیں۔ مولوی عبدالحق کو یہ اہمیت حاصل ہے  کہ انہوں نے  تحقیق ِ ادب کو ایک قومی نصب العین کی طرح قبول کیا اور اسے  عمر بھر جاری رکھا۔قدیم دکنی مخطوطوں کی تلاش وصحت ان کے  بنیادی کاموں میں سے  ہیں۔ دکن کے  غیر دریافت ادب کو منظر عام پر لاکر انہوں نے  معلوم ادبی تاریخ کی دنیا کی کایا پلٹ دی۔(3) نو دریافت کتابوں میں ان کے  مبسوط مقدمے ،  حاشیے  اور صحتِ متن سے  مستقبل کی تنقید کی راہ ہموار ہوئی۔”معراج العاشقین”،  “سب رس”،  “قطب مشتری”اور “علی نامہ” وغیرہ اسی سلسلے  کی کتابیں ہیں۔ ان کا مختصر وقیع مقالہ ” اردو کی نشونما میں علمائے  کرام کا کام” بنیادی  مأٔخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔

اردو میں تحقیق کی باضابطہ ابتدا ء حافظ محمود شیرانی سے  ہوتی ہے۔ وہ پہلے  محقق ہیں جنہوں نے  تحقیق کے  اصول پائیدار بنیادوں پر قائم کیے  اور جدید مغربی اصولوں کو رواج دیا۔انہوں نے  حوالے  درج کرنے  میں ذمہ داری سے  کام لیا اور مختلف مأٔخذ اور ذرائع سے  اخذ ہونے  والی معلومات پر جرح و تعدیل اور احتساب کی صحت مند روایت قائم کی۔ساتھ ہی منطقی اصولوں پر مبنی استدلال اور مغالطوں سے  گریز تحقیق کار کے  لیے ضروری ٹھہرایا۔

“پنجاب میں اردو”،  “تنقید آب حیات”، “تنقید شعرالعجم”  اور ” پرتھوی راج رسوا” جیسی کتابوں کے  علاوہ بیشمار مقالات میں ان کی تحقیقی ژرف نگاہی اور بصیرت کی اعلیٰ ترین مثالیں موجود ہیں۔ داخلی اور خارجی شہادتوں کی یکساں اہمیت دینے  والے  اس اہم محقق کو بجاطور پر تحقیق و تدوین کو معلم اول شمار کرکے  شائع کئے۔

آزادی سے  پہلے  اردو کی اس تحقیقی روایت کو درجہ بالا بزرگوں کے  علاوہ  بعض دیگر علمائے  ادب و تحقیق نے  بھی تقویت پہنچائی اور اپنے  تحقیقی کا رناموں سے  اس کی روایت کو مستحکم کیا۔محی الدین قادری زور، مولوی محمد شفیع،  برج موہن دتاتر کیفی،  شیخ چاند حسن،  حامد حسن قادری،  مولانا امتیاز علی عرشی،  شیخ محمد اکرام،  نصیرالدین ہاشمی،  مالک رام اور مسعود حسین خان رضوی ادیب وغیرہ چند ایسے  ہی نام ہیں جنہوں نے  اپنے  اپنے  دائرہ کار میں تحقیق کی ذمہ داری نبھاتے  ہوئے  زبان  وادب کے  بے  شمار مخفی گوشوں کے  بے  نقاب کیا اور اردو تحقیق کی  ترقی میں اپنا کردار ادا کیا۔ان علمائے  ادب  کی تحقیقات کا اندازہ اس بات سے  لگایا جاسکتا ہے  ہے  کہ آزادی سے  قبل کی ربع صدی کو ادبی تحقیق کے  ارتقاء میں زرین دور شمار کیا گیا۔اس عہد میں اردو ادب کی تاریخ میں بعض بنیادی اضافے  ہوئے  اورہمارے  چوٹی کے  محققین نے  اردو تحقیق کو اعتبار بخشا۔ ان میں سے  اکثر محققین کی تحقیق کا دائرہ کار آزادی  کے  بعد تک جاری رہا۔

ڈاکٹر محی الدین قادری زور| نے  ترتیب متن اور مخطوطات شناسی کے  فن کو خاص رواج دیا اور قلمی کتابوں کی فہرست سازی سے  زیادہ مخطوطات کی توضیحات پر توجہ دی۔مخطوطات شناسی ایک مشکل اور دقت طلب فن ہے۔ترقیمے  پڑھنا،  داخلی اور خارجی شواہد سے  نتائج اخذ کرنا اور حوالوں سے  تصنیف اور صاحب تصنیف کے  نام اور عہد کی باذیافت ایسا عمل ہے  جس میں محققانہ ذہن کی کارفرمائی ہوتی ہے۔بقول ِ آفتاب احمد آفاقی :

“زور ؔنے  مغربی ادب و تنقید اور اصول تحقیق سے  استفادہ کیا ہے  اور اردو میں قدیم مخطوطات کی ترتیب و تدوین اور ادباء و شعراء کے  حالات کی بازیافت میں ان اصولوں کو برتا ہے۔”(4)

ڈاکٹر زور کی کتابوں میں  ” اردو شہ پارے ” اور “کلیات قلی کتب شاہ “کی ترتیب بڑی اہم ہیں۔

اردو تحقیق کی دنیا میں قاضی عبدالودود  سب سے  زیادہ محتاط محقق تسلیم کئے  جاتے  ہیں اور ان کے  کاموں کو ‘خالص تحقیق’ کے  زمرے  میں رکھا جاتا ہے بقولِ آفتاب احمد آفاقی :

“واقعہ یہ ہے  کہ اردو تحقیق میں احتیاط پسندی اور مضبوط دلیلوں اور دعوؤں کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کرنے  کی روش قاضی صاحب کی تحقیق کا وصفِ خاص ہے۔ان اوصاف کی بناپر گیان چند جین انہیں بت شکن محقق اور رشید حسن خان’معلم ثانی’ کہتے  ہیں۔ “(5)

ہر چند کہ قاضی عبدالودو کا بیشتر تحقیقی کام آزادی کے  بعد وجود میں  آیا۔لیکن اپنے  ابتدائی کاموں سے  ہی وہ اردو تحقیق میں اعتبار حاصل کرچکے  تھے۔رسالہ معاصر،  نوائے  ادب اور معیار وغیرہ میں ان کے  متعدد تحقیقی مضامین شائع ہوئے۔یہ درست ہے  کہ تحقیقی مبادیات پر کوئی مستقل کتاب انہوں نے نہیں  لکھی۔لیکن ان کے  مضامین تحقیق کے  رہنما اصول کا درجہ رکھتے  ہیں۔ ان کا ” مثنوی مہاراجہ کلیان سنگھ عاشق” کے  عنوان سے  لکھا ہوا مضمون بلا مبالغہ تحقیق کے  بنیادی اصولوں پر مبنی ہے۔بعد ازاں ایک طویل اور قسط وار تحقیقی مقالہ بہ عنوان”شاہ کمال دیوروی عظیم آبادی” شائع ہوا  جوکئی شماروں پر محیط ہے  اور اپنی تاریخی اور تحقیقی حیثیت کے  اعتبار  سے  بڑا اہم ہے۔

قاضی عبدالودود نے  چار کتابیں ترتیب دیں ان میں تذکرۂ شعرا مصنفہ ابن طوفان،  دیوان جوشش،  قاطع برہان و رسائل متعلقہ اور شہر آشوب قلق شامل ہیں۔ ان  کے مضامین پر مشتمل دو مجموعے  عیارستان اور اشتروسوزن بھی ان کے  تحقیقی کا رنامے  ہیں۔

امتیاز علی عرشی ماہر غالبیات کی حیثیت سے  اردو تحقیق کی دنیا میں معروف ہیں۔ ان کے  کاموں میں  “مکاتیب غالب” ترتیب متن کی عمدہ مثال ہے۔جس میں غالب کے  خطوط کو سائینٹفک انداز میں پوری احتیاط کے  ساتھ مرتب کیا گیا۔امتیاز عرشی نے  واحد یکتا کی دستورالفصاحت” اور شاہ عالم آفتاب کا کلام نادراتِ شاہی” کی ترتیب و تدوین بھی کی ہیں۔ تحقیق متن ایک محقق کی حیثیت سے  ان کا نمایاں مقام ہے۔

تقسیم ہند کے  بعد سے اب تک کے  عرصے  میں اردو تحقیق کی روایت کو ثروت مند بنانے  میں جن محققین نے  اہم کردار ادا کیا ہے  ان میں ڈاکٹر سید عبداللہ،  داکٹر غلام مصطفیٰ خان،  ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر سہیل بخاری،  ڈاکٹر جمیل جالبی،  رشید حسن خان،  مشفق خواجہ،  ڈاکٹر گیان چند جین،  ڈاکٹر تنویر احمد علوی، ڈاکٹر یوسف حسین خان،  ڈاکٹر مسعود حسین خان،  ڈاکٹر خلیق انجم وغیرہ چند  ایسے  نام ہیں جو اردو تحقیق کی عمارت میں اہم ستونوں کا درجہ رکھتے  ہیں۔  ان کے  تحقیقی کارناموں کا احاطہ اس مختصر تذکرے  میں کسی طرح ممکن نہیں۔

حوالہ جات:

1۔       “تحقیق و تنقید” مشمولہ” اردو میں ادبی تحقیق “جلد اول،  مرتبہ ڈاکٹر سلطانہ بخش، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، 1986ء، ص:29

2۔       “اردو میں تحقیق “مشمولہ “رہبرِ تحقیق” اردو سوسائٹی، لکھنو،  1976ء، ص :55

3۔       انور سدید، ڈاکٹر “اردو ادب کی مختصر تاریخ ” عزیز بک ڈپو، لاہور، (طبع سوم)1998ء، ص:385

4۔       “آزادی سے  قبل اردو تحقیق”، مشمولہ”تحقیق و تدوین”، مرتبہ پرفیسر ابن کنول، کتابی دنیا، ترکمان گیٹ، دہلی، 1955ءص:277

5۔       “آزادی سے  قبل اردو تحقیق”، مشمولہ”تحقیق و تدوین”، مرتبہ پرفیسر ابن کنول، کتابی دنیا، ترکمان گ        یٹ، دہلی، 1955ءص:280

Zahid zaffar

Research Scholar, University of Kashmir, Srinagar

Email.  zahiddkkhan@gmail.com

9906505004,    8825068817٭٭٭

Leave a Reply

3 Comments on "اردو میں ادبی تحقیق کی روایت۔نمائندہ محقیقین کے  حوالے  سے"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] 57.    اردو میں ادبی تحقیق کی روایت۔نمائندہ محقیقین کے  حوا… […]

Sajid Eqbal
Guest
تذکروں میں تحقیقی عناصر کے متعلق کچھ نوٹس جاری کر دیں
Syed mastura bibi
Guest
ماشاء اللہ مختصر ومفید بہترین معلوماتی مضمون ہے بارک اللہ
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.