مشرق و مغرب کا سماجی پس منظر اور فہیم اختر کے افسانے
ڈاکٹر محمد کاظم
ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ اردو،
دہلی یونیورسٹی ، دہلی، انڈیا
’’میاں غفور۔
جی مرزا جی۔
آج آپ نے ہماری قمیص پر استری کیوں نہیں فرمائی؟
غفور دھوبی نے گھبراتے ہوئے کہا: مرزا جی آج گھاٹ سے کپڑے دھُل کر آنے میں دیر ہو گئی تھی۔ معافی چاہتا ہوں ۔
اماں ! معافی۔ مرزا جی ہکلاتے ہوئے بولے ۔ آپ حضرات کے ساتھ یہی تو مجبوری ہے ، ایک تو آپ نے کام مکمل نہیں کیا پھر اس پر معافی۔ لاحول ولا قوۃ۔
پھر کیا تھا مرزا جی شروع ہو گئے : میاں جب میں لکھنئو میں رہتا تھا تو ابا حضور آپ جیسوں کی دکان پر جانا بھی گوارا نہیں کرتے تھے ۔
اس پر غفور دھوبی نے پوچھ ڈالا: مرزا جی تو کیا آپ کے ابا حضور کے گھر دھوبی بھی ہوا کرتا تھا۔
اماں ! اب آپ کو ہم یہ بھی بتاتے ہیں کہ کیا نہیں ہوا کرتا تھا۔ وہ تو کم بخت فرنگیوں کو آپ بُرا کہیے ، جو ابا حضور سے وعدہ کرکے اور پھر ہمیں دھوکہ دے کر رختِ سفر باندھ گئے ۔‘‘ (بیوٹی پارلر)
یہ اقتباس ایک ایسے افسانہ نگار کے افسانے سے ماخوذ ہے جو ہندوستان کے شہر کلکتہ میں اپنا بچپن اور نوجوانی کے دن گزار تے ہوئے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد برطانیہ کے شہر لندن کا باشندہ ہو گیا۔اکبر نے کہا تھا:
عشرتی گھر کی محبت کا مزہ بھول گئے
کھاکے لندن کی ہوا عہدِ وفا بھول گئے
پہنچے ہوٹل تو پھر عید کی پروا نہ رہی
کیک کو چکھ کے سوئیوں کا مزہ بھول گئے
بھولے ماں باپ کو اغیار کے چرچوں میں وہاں
سایئہ کفر پڑا نورِ خدا بھول گئے
موم کی پتلیوں پر ایسی طبیعت پگھلی
چمن ہند کی پریوں کی ادا بھول گئے
نقلِ مغرب کی ترنگ آئی تمہارے دل میں
اور یہ نکتہ کہ مری اصل ہے کیا بھول گئے
لیکن یہ افسانہ نگار نہ تو گھر کی محبت کا مزہ بھولا، نہ ہی لندن کی ہوا کھانے کے بعد عہدِ وفا بھولا، نہ تو ہوٹل پہنچنے کے بعد عید کو بھولا اور نہ ہی کیک کو چکھنے کے بعد سوئیوں کا مزہ بھولا، نہ تو اغیار کے چرچے میں ماں باپ کو بھولا اور نہ ہی سایئہ کفر پڑنے پر نورِ خدا کو بھولا، نہ تو موم کی پتلیوں پر طبیعت پگھلی اور نہ ہی ہند کی پریوں کی ادا کو بھولا،نہ تو نقل مغرب کی ترنگ آئی اور نہ ہی اپنی اصل کو بھولا، بلکہ ایک ایسی شخصیت کی شکل میں اپنے آپ کو ڈھالا جس کی مثال دی جانی چاہیے ۔ میری مراد افسانہ نگار ، کالم نویس اور شاعر فہیم اختر سے ہے ۔ فہیم اختر نے اپنی تخلیقات میں مشرق و مغرب کا ایسا امتزاج پیش کیا ہے جس کی مثال کم کم ہی ملتی ہے ۔ فہیم ایک کھلے ذہن کے مالک ہیں اس لیے ان کے یہاں نہ تو مشرق کی اندھی تقلید ہے اور نہ ہی مغرب کی آنکھ بند کرکے تردید۔ انھیں انسان اور انسانیت کے فروغ کے لیے جو بہتر لگتا ہے اس کا کھل کر اظہار کرتے ہیں ۔مغرب میں رہتے ہیں لیکن۔۔۔۔’’جسم ہو کہیں اپنا دل تو ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘ کے مصداق وہ رہتے توہیں لندن میں اور دنیا کی سیر کرتے رہتے ہیں لیکن ان کا جذبات و احساساتن سے پردل ہمیشہ ہندوستان میں ہی رہا۔
شروع میں جو اقتباس پیش کیا گیا ہے اس سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ وہ کس طرح کے خیالات کے مالک ہیں ۔ یہاں ایک جانب خاص تہذیب کے پاسداری دکھائی دیتی ہے تو زوال آمادہ تہذیب کی عکاسی کر نے کے ساتھ ساتھ نئی تہذیب اور ذہنیت کی بہترین عکاسی کرتا ہے یہ افسانہ۔اس افسانے کے مطالعے کے بعد آپ کو پرانی قدروں کا ٹوٹنا اور نئے اقدار کا مروج ہونا جس کی خوبی اور خامی دونوں کا احساس ہوگا۔اس افسانے میں مرزا جی، غفور دھوبی، شنکر حجام اور روپا مختلف ذہنیت اور مختلف تہذیب کے پاسدار دکھائی دیتے ہیں ۔ لیکن فہیم اختر کی خوبی یہ ہے کہ منفی رویوں کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن انسان اور انسان کا وجود اور مثبت تہذیب کی عکاسی ان کی ترجیہات میں شامل ہے ۔
فہیم اختر نے اپنی ایم اے تک کی تعلیم کلکتہ میں مکمل کی۔ چوں کہ وہ ایک فعال اور نٹ کھٹ بچہ اور سرگرم طالب علم رہے اس لیے انھوں نے اس دوران کلکتہ اور قرب و جوار کی ریاستوں کا سفر کیا اور وہاں کی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ وہاں موجود سہولتیں اور مشکلات سے بھی بخوبی واقف رہے ۔ میں نے انھیں سفر کے دوران پایا کہ وہ جہاں کا بھی سفر کرتے ہیں وہاں کے بارے میں نہ صرف معلومات حاصل کرتے ہیں بلکہ کوشش ہوتی ہے کہ بہ نفسِ نفیس مشاہدہ کیا جائے ۔ جب سفر کے دوران یہ رویہ ہوتا ہے تو اندازہ لگائیے کے جہاں مقیم ہیں اور رہے ہیں وہاں کا کیا عالم ہوگا۔ اس لیے CITY OF JOY (کلکتہ) اور CAPITAL OF RULING COUNTRY (لندن)جیسے مقام میں بودو باش رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے پاس معلومات اور مشاہدات کے ساتھ ساتھ حادثات و واقعات کے ذخائر موجود ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ’’واقعہ ہر شخص بیان کر سکتا ہے ہر شخص کہانی نہیں سنا سکتا۔ سانس ہر شخص لیتا ہے ہر شخص زندگی نہیں جیتا‘‘۔ لیکن فہیم اختر کی خوبی یہ ہے کہ وہ سانس لینے کے ساتھ ساتھ ایک بھر پور زندگی بھی جی رہے ہیں اور واقعہ کو خوبصورت کہانی کی شکل میں نہایت فنکاری سے سنا بھی رہے ہیں ۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ فہیم اختر اب برطانیہ کے شہری ہیں لیکن ان کے دل میں آج بھی مشرقی تہذیب اور کلکتہ مکمل صورت میں موجود ہے ۔ ان کی زیادہ تر کہانیوں میں مشرقی اور مغربی تہذیب کا تقابل نظر آتا ہے ۔ وہ بے باکی سے مغربی اور مشرقی تہذیب کی اچھائی اور برائی دونوں کو بیان کرتے ہیں ۔ جہاں جس تہذیب و ثقافت میں کمی دکھائی دیتی ہے اس پر بھر پور روشنی ڈالتے ہیں ۔ در اصل وہ ایک بالیدہ اور کھلے ذہن کے فنکار ہیں ۔ اپنی مشرقی تہذیب کے سانچے میں ہوئی پرورش اور مغربی تہذیب میں شعور کی بالیدگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افسانے کا تانا بانا تیار کرتے ہیں ۔ مثلاً افسانہ ’’کتے کی موت‘‘ میں یوں تو مغربی تہذیب اور ذہن کی عکاسی کی گئی ہے کہ ایک 65 برس کا شخص اپنے کتے کی موت کا تو بے حد افسوس کرتا ہے لیکن اس کے بعد جب اس کی ماں کا انتقال ہو جاتا ہے تو اسے بالکل دکھ نہیں ہوتا ۔افسانے کے راوی کی تو آواز میں تاسف کے ناقابل اظہار جذبات کا درد ابھر آتا ہے اور اس کے اظہار افسوس کرنے پر کہ ’’ڈیوڈ پلیز ، آئی ایم سوری، مجھے کل ہی تمہاری ماں کی موت کی خبر معلوم ہوئی۔‘‘ ڈیوڈ اپنے روز کے معمول میں مشغول رہتے ہوئے صرف اتنا کہتا ہے : ’’اوہ یس، مائی مدر ، وہ بوڑھی تھی یار، Don’t worry ‘‘ اور پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ یعنی اسے اپنے کتے کی موت کا صدمہ تو ہوا لیکن ماں جیسی عظیم شخصیت کی موت کا افسوس تک نہیں ہوا۔اسی افسانے میں برطانیہ اور ہندوستان میں جانور کے تئین رویہ کا مقابلہ کرتے ہوئے فہیم اختر لکھتے ہیں :
’’اس وقت مجھے کلکتہ کی سڑکوں پر شب و روز گھومتے بھونکتے کتوں کی بے کراں یاد بے پناہ ستانے لگی جو جنم جنم سے ڈیوڈ جیسے جانور شناس دوست کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں ۔ ذہن کے گوشے میں ماضی ایک فلیش بیک کی صورت میں اجاگر ہو گیا۔ بانکی ٹوپی سر پر دھرے ، لمبی لمبی لٹکتی ہوئی مونچھوں والے چنّو میاں کی شبیہ آنکھوں میں گھومنے لگی کہ وہ گوشت کی دُکان پر براجمان حلال جانوروں کے کاٹے ہوئے اَعضا ء کو کھونٹیوں پر لٹکا رہے ہیں ۔ نیچے بیچارے مریل فاقہ زدہ کتوں کا جم غفیر ہے ۔ جو چنّو میاں کے غیظ و غضب سے لرزہ براندام دور سے ٹُک ٹُک دیکھ رہا ہے کہ اتنے میں چنّو میاں کا گز بھر لمبا ڈنڈا دندناتا ہوا حملہ کرتا ہے اور کتے خوف سے کوسوں دور بھاگ کر منتشر ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (کتے کی موت)
گویا برطانیہ میں جانور کو پیار کرتے ہیں اور عمر ڈھلنے کے بعد انسان کیا ماں جیسی عظیم شخصیت کے جانے کا افسوس تک نہیں ہوتا۔ افسانہ نگار نے کتے کی عمر نہیں بتائی ہے لیکن 65 برس کا ڈیوڈ کتے سے جس قدر محبت کا اظہار کرتا ہے یقیناً وہ ایک لمبے عرصے کے بعد پیدا ہوئی ہوگی۔ا س سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کتے کی عمر بھی کم نہیں رہی ہوگی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماں اور کتے میں ترجیہات کس کو دی جاتی ہے ۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ ہندوستان میں کتے کی اہمیت کیا ہے اور ماں کو کیا درجہ حاصل ہے اور برطانیہ میں کیا رویہ اختیار کیا جاتا ہے ۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ برطانیہ کے تمام لوگ ایسے ہی ہیں ۔ فہیم اختر نے برطانوی فوجی کو مرکزی کردار بناکر اسی ملک کے پس منظر میں ایک افسانہ ’’سرکل لائن‘‘ لکھا ہے ۔اس افسانے کا مائیکل ایک برطانوی فوجی ہے جس نے جرمنی کے خلاف دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا تھا۔ وہ جنگ میں بہادری سے لڑتا رہا اور دوسری جانب اس کی خوبصورت بیوی جرمنی کے بم کا شکار ہو گئی۔ وہ اس سے اس قدر محبت کرتا تھا کہ اس کی موت کے غم میں شراب پینے لگا اور اس قدر دیوانہ ہو گیا کہ اس کی تمام پونجی جاتی رہی اور اب وہ کھلی فضا میں سردی کے دن گزارنے پر مجبور ہے ۔افسانہ نگار نے اس کردار کی زبانی ہی اس کے حال ان الفاظ میں بیان کیے ہیں :
’’دوسری جنگ عظیم کے بعد جب میں برطانیہ واپس آیا تو جینی جرمنی کے بم دھماکے سے مرچکی تھی۔ میں اس غم کو برداشت نہ کرسکا اور حد سے زیادہ شراب پینے کی لت لگا بیٹھا۔ آخر کار رفتہ رفتہ میں اپنے گھر، کام کاج اور زندگی کی تمام راحتوں سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ پچھلے بیس برسوں سے میں لندن کی سڑکوں پر مارا مارا پھرتا ہوں اور فٹ پاتھ پر رات بسر کرلیتا ہوں ۔ بس کمبخت یہ سردی اب اس عمر میں برداشت نہیں ہوتی چنانچہ ان دنوں میں سرکل لائن ٹرین میں اپنا سارا دن گزار لیا کرتا ہوں تاکہ ان کمزور ہڈیوں کو سردی سے کسی طور محفوظ رکھ سکوں ۔ اس کے سوا میرے پاس کوئی سہارا بھی کہاں ؟‘‘ (سرکل لائن)
آپ نے دیکھا کہ ملک سے محبت کرنے والے بلکہ اپنی جان نثار کرنے والوں کی کیا حالت بیان کی گئی ہے ۔ افسانہ نگار کا تعلق چوں کہ ہندوستان سے بھی ہے اس لیے اس افسانے میں ایسا رویہ اختیار کیا گیا ہے جس سے نہ صرف برطانوی فوج بلکہ ہندوستانی فوج کے سپاہیوں یا ان کی بیوہ اور بچوں کی کم و بیش یہی صورتِ حال دکھائی دیتاہے ۔ایک جانب فوج پر ہم فخر کرتے ہیں تو دوسری جانب اس کے گزر جانے یہاں تک کہ جنگ میں شہید ہو جانے کے بعد اس کے بیوی بچوں کی نہ تو حکومت فکر کرتی ہے اور نہ ہی سماج۔ اس کی بے حرمتی کرتے ہوئے بھی کوئی جھجھک محسوس نہیں کی جاتی۔ یہاں تک کہ انھیں بھیک مانگنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔
فہیم اختر کے افسانوی جہان پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے مغرب اور مشرق دونوں تہذیبوں کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے ۔ مشرق میں ہندوستان مرکز میں ہے تو مغرب میں لندن۔ ہم سب واقف ہیں کہ دونوں کی تہذیب میں بہت فرق ہے ۔ لیکن فہیم اختر کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے جس تہذیب کو اپنا موضوع بنایا ہے اس کے ساتھ پورا انصاف کیا ہے ۔ جہاں جس چیز کے لیے جیسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے اس کی نہ صرف تصویر کشی کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے بلکہ اس کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ان کا افسانہ بولڈ محسوس ہوتا ہے لیکن کہیں سے بھی اس میں فحاشی یا عریانیت کا شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ اس کے برعکس اکثر مرد کی عورتوں کے تئیں ذہنیت اوراس کے رویے کو نہایت فنکاری سے پیش کیا ہے ۔ ان افسانوں کی تخلیق کا مقصد اسے بڑھاوا دینے کے بجائے اس سے نفرت کا جذبہ محسوس ہوتا ہے ۔افسانہ ’’خواب کا ایک انجانا رشتہ‘‘ ایک شادی شدہ خوبصورت نسوانی کردار ’نادیہ‘ کے گرد گھومتا ہے ۔نادیہ ایک کلب میں ملازمت کرتی ہے ۔ کلب میں موجود ہر شخص نادیہ پر بری نظر رکھتا ہے لیکن اس کے درمیان اس کا شادی شدہ ہونا آڑے آتا ہے ۔ کلب کا ایک ملازم ’کرن‘ نادیہ کا خاموش عاشق ہے ۔ وہ واقعی نادیہ کو چاہتا ہے ۔ نادیہ کے شوہر سے طلاق ہوجاتا ہے ۔اس موقعے پر کرن کو تو افسوس ہوتا ہے لیکن لندن کے اس کلب کے تمام ملازم کیا سوچتے ہیں آپ بھی دیکھیں :
’’دوسرے دن کام پر یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ نادیہ کا طلاق ہو گیا ہے ۔ افسوس تو ہوا۔ سب اپنی اپنی جگہ چہ می گوئیوں میں مشغول ہو گئے ۔ بے چاری نادیہ پر کیا بیتی ہوگی اس کا قطعاً کسی کو فکر نہیں تھی۔ فکر تھی تو ایک ہی فکر تھی کہ کسی طریقے سے نادیہ جیسی سنہری مچھلی کو اپنے جال میں پھانس لیا جائے ۔‘‘
(خواب کا ایک انجانا رشتہ)
آپ نے محسوس کیا کہ ہم کس طرح کے سماج میں جی رہے ہیں ۔ اور افسانہ نگار کا کرن کے کردار کو تخلیق کرنا اور یہ بیان کرنا کہ ’بے چاری نادیہ پر کیا بیتی ہوگی اس کی قطعاً کسی کو فکر نہیں تھی‘ افسانہ نگار کے مقصد اور اس کے فکر کی عکاسی کرتا ہے ۔ہم جانتے ہیں کہ ہمارا سماج کس قدر ہوس پرست ہو چکا ہے ۔خواہ وہ دولت اور عیش و آرام کی ہوس ہو یا جسم کی۔ برطانوی پس منظر میں لکھی گئی کہانیوں میں مرد اور عورت دونوں کی ذہنیت کو پیش کیا گیا ہے ۔ یہ ہوس صرف مردوں میں نہیں بلکہ عورتوں میں بھی موجود ہوتی ہے ۔ ہاں اس کا اظہار کرنے والا قصور وار ہوتا ہے ۔ان نکات کو سامنے رکھتے ہوئے فہیم اختر نے کئی کہانیاں لکھی ہیں جن میں ملازم کا اپنے افسر کے ساتھ رشتہ قائم ہونا۔ کبھی کسی مجبوری کے تحت خود کو دوسرے کے سپرد کردینا تو کبھی اپنی خواہشات پوری کرنے کے مقصد سے ایک دوسرے میں کھو جانا۔ لندن کے پس منظر میں ان موضوعات پر لکھے گئے افسانوں میں ’’دیوداسی، ڈور بیل، ٹوٹے بندھن ‘‘ وغیرہ کو پیش کیا جاسکتا ہے ۔ ان افسانوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ افسانہ ’’دیوداسی‘‘ کی ’کاما‘ کو دیوداسی بننے پر کس نے مجبور کیا۔ کیا’ کرم‘ اور ’سمیر ‘ جیسے کردار ہمارے سماج میں نہیں ہیں ؟ افسانہ ڈور بیل کی کٹھمنڈو میں پیدا ہوئی شادی شدہ ’امرتا‘کا جرمنی سے لندن منتقل ہونا اور پھر اس کے شوہر کے انتقال کے بعد ’امرتا‘ کا اپنے افسر ’آکاش‘ کے ساتھ رشتہ قائم کرنا کیا کوئی سوال قائم نہیں کرتا؟ افسانہ ’ٹوٹے بندھن ‘ میں مارٹن روز کے باپ کے اپاہج ہو جانے کے بعد اس کی ماں کا اپنے افسر کے ساتھ رشتہ قائم کرنا اور اس کی وجہ سے مارٹن روز اپنی ماں کی بیماری کی حالت میں اس کے ساتھ جو رویہ اختیار کرتا ہے اور مدھو اس سے جو کہتا ہے وہ ہمیں سوچنے پر مجبور نہیں کرتا؟ کرتا ہے اور بار بار کرتا ہے ۔کیوں کہ مغرب میں ہونے کے باوجود ’کاما ‘ کو دیوداسی سماج نے بنایا، امرتا کو کسی کا سہارا لینے کے لیے سماج نے مجبور کیا اور’ مارٹن روز‘ کی ماں کی مجبوری بھی سماج کی پیدا کی ہوئی ہے ۔افسانہ نگار کی خوبی یہ ہے کہ ان افسانوں میں ایک جانب’ کاما‘ ہے تو اس کے ساتھ ’سمیر‘ بھی ہے ، ایک جانب’ امرتا ‘ہے تو دوسری جانب اس کا شوہر اور ایک جانب مارٹن روز کی ماں ہے تو دوسری جانب اس کا مجبور باپ اور’ مدھو ‘جیسا کردار ان افسانوں میں موجود ہے ۔ یعنی نیکی اور بدی دونوں ساتھ ساتھ افسانے میں موجود ہے اب یہ قاری پر منحصر ہے کہ وہ کس کی جانب کیا رویہ اختیار کرتا ہے ۔ہاں مشرق میں ان افسانوں کے مطالعے سے قاری کا ذہن بار محسوس کرتا ہے کیوں کہ ہمارا سماج ان رویوں کو معیوب سمجھتا ہے ۔ مغرب اپنی ترقی کے نام پر سماجی اقدار کے ساتھ جو رویہ اختیار کرے لیکن مشرق ابھی بھی اپنی مثبت قدروں کو سینے سے لگائے ہوئے ہے ۔ مغرب میں موجودہ دور میں یہ عام بات ہوگی لیکن مشرق میں یہ عیب ہی نہیں بلکہ ناقابل قبول ہے ۔ اس کا اظہار فہیم اختر نے ان کہانی میں نہایت فنکاری سے کیا ہے ۔وہ مشرقی تہذیب و اقدار کی نہ صرف قدر کرتے ہیں بلکہ اس کا اظہار بھی اپنے افسانوں میں کرتے ہیں ۔ لندن کے پس منظر میں ہی لکھا گیا ایک اہم افسانہ ’’ایک گریزاں لمحہ‘‘ اس کی بہترین مثال ہے ۔ اس افسانے کے کردار ’’راج اور عظمیٰ‘‘ اپنے اپنے آفس کو جاتے ہوئے لندن کے ایک اسٹیشن پر روز ملتے ہیں اور ٹرین میں تھوڑی دور ساتھ سفر کرتے ہیں ۔ دونوں ایک دوسرے کو مہینوں دیکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے دل میں جگہ بھی رکھتے ہیں لیکن دونوں کے درمیان گفتگو نہیں ہوتی۔ ایک دن گفتگو ہوتی بھی ہے تو بس ایک دوسرے کا نام جان پاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ موبائل نمبر یا ای میل کا تبادلہ ہونے سے پہلے ٹرین آجاتی ہے اور عظمیٰ اپنی ٹرین میں سوار ہوکر ہمیشہ کے لیے چلی جاتی ہے کیوں کہ یہ عظمیٰ کی نوکری کا آخری دن ہوتا ہے ۔ صرف دو کرداروں کے گرد بنا گیا یہ افسانہ کئی سطحوں پر افسانہ نگار کی فنکاری کا غماز ہے ۔ ایک جانب لندن میں رہنے والے دو مشرقی ممالک کے کردار کے اقدار کی عکاسی ہوتی ہے تو دووسری جانب مہینوں ملتے رہنے کے باوجود ایک دوسرے کے بارے میں معلومات حاصل نہ کرنا۔گویا افسانہ’’ ایک گریزاں لمحہ‘‘ محبت کے ان نازک جذبات کی عکاسی کرتا ہے جو نوجوانی کے دنوں میں مخصوص حالات کے تحت ،مخالف جنس سے تعلق رکھنے والے افراد کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔اس کے باوجود کہیں سے بھی مغربی ذہنیت کی عکاسی نہیں ہوتی بلکہ مشرقی قدروں کا نمونہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فہیم اختر کی کہانیوں میں پس منظر واقعات یا حادثات کے ساتھ ساتھ کردار کی مناسبت سے واقعات بیان کیے گئے ہیں ۔فہیم اختر نے مغرب کو دیکھتے ہوئے مغرب کا چشمہ لگایا ہے وہیں مشرقی آنکھیں کھلی رکھی ہیں ۔
اب اگر ہندوستانی پس منظر میں لکھ گئے افسانوں پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فہیم اختر نے ہندوستان کے گائوں ، قصبات، چھوٹے شہر اور بڑے شہروں میں بسنے والے لوگوں کے مسائل پر مختلف زاویے سے روشنی ڈالی ہے ۔ ان افسانوں کے عنوان سے جو مسئلہ جھلکتا ہے افسانے کے مطالعے کے بعد مسئلہ کچھ اور ہوتا ہے مثلاً ان کا ایک افسانہ ہے ’’گئو ماتا‘‘۔موجودہ دور میں اس عنوان سے ذہن جس طرف جاتا ہے مسئلہ اس سے مختلف ہے ۔ اس افسانے میں جانور اور انسان کا تقابل کیا گیا ہے ۔ انسان جانور کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے اس کی بات تو سمجھتا ہے اور اس کی ضرورت بھی پوری کرتا ہے لیکن انسان کی ضرورت کو نہیں سمجھتا۔ انجو جو اپنے ساتھ اپنی پیاری گئو ماتا کو جوان ہوتے دیکھتی ہے ۔ وہ جوان ہونے کے بعد اپنے دوست اشوک کے ساتھ قریب ہوتی ہے تو اس کے پتا بہت ناراض ہوتے ہیں اور اسے ایک کمرے میں بند کردیتے ہیں لیکن جب ایک رات گئو ماتا بہت شور مچاتی ہے تو اس کی جسمانی ضرورت کو سمجھ کر اسے بیل کے پاس کھٹال لے جاتے ہیں اور اس کی ضرورت پوری کرتے ہیں ۔ یہ بات انجو کو اس کے نوکر رامو بھیا سے معلوم ہوتی ہے ۔ انسان پر جانور کو فوقیت دینے کے معاملے میں ہم نے دیکھا کہ انسان کو اپنا کتا تو عزیز ہے لیکن ماں کی موت پر افسوس بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح انجو کے باپ کو گئو ماتا کی جسمانی ضرورت کا خیال تو ہے لیکن اپنی بیٹی کا نہیں ۔ افسانہ نگار نے گئو ماتا کے ذریعے انسان کی سمجھ اور اس کے سماجی اقدار اور اس میں تبدیلی کی جانب نہایت خوش اسلوبی سے اشارہ کیا ہے ۔ انسان کی جسمانی بھوک کی بات اس سلیقے سے کی گئی ہے کہ کہیں بھی فحاشی یا عریانیت کا احساس نہیں ہوتا۔فہیم اختر نے نہایت فنکاری اور خوش اسلوبی سے نہایت نازک موضوع پر ایک اچھا افسانہ اپنے قارئین کے سپرد کیا ہے ۔اس افسانے کے مطالعے سے موجودہ سماج کی ذہنیت پر بھی روشنی پڑتی ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ موجودہ دور میں انسان کے بجائے جانوروں کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے ۔انسان جانور کی خواہشات اور اس کی ضرورت کا تو خیال رکھتا ہے لیکن انسان کی نہ تو خواہشات کا خیال رکھا جاتا ہے اور ضرورت تو دور کی بات۔ یہاں تک کہ انسانوں کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کیا جاتا ہے بلکہ جانور کے نام پر انسان کی جان لینے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے ۔ گویا انسان جانور بلکہ خونخوار جانور میں تبدیل ہوتا جارہا ہے ۔ اور جس طرح جانوروں کا ریوڑ دوسرے کمزور جانور کو اپنا شکار بناتے ہیں ویسے ہی انسانوں کی بھیڑ انسان کو شکار بناکر اس کی جان لے رہی ہے ۔ اس جانب فہیم اختر کے کئی افسانوں میں روشنی پڑتی ہے جن میں ’’گئو ماتا اور کتے کی موت‘‘ اہمیت کے حامل ہیں ۔
انسانی جسم کی ضرورت پر مبنی افسانہ ’’تشنگی‘‘ مختلف زاویے سے پیش کیا گیا ہے ۔ یہاں ’رشیدہ‘ اور’ شہلا ‘ دو سہیلیاں ہیں ۔ دونوں ایک دوسرے کے گھر آتی جاتی ہیں ۔شہلاکے بھائی ’فراز‘ کو رشیدہ اچھی لگتی ہے لیکن رشیدہ اس سے انجان ہے ۔ رشیدہ کی شادی دائود سے ہو جاتی ہے اور دائود عمر میں رشیدہ سے 22برس بڑا ہے اس لیے اولاد سے محروم رہتاہے اورجلدہی اس کا انتقال ہوجاتا ہے ۔ رشیدہ بہت رنجیدہ ہوتی ہے ۔کچھ دنوں کے بعد رشیدہ کی سہیلی شہلا جب اس سے ملنے اس کے گھر آتی ہے تو رشیدہ کی حالت کو دیکھتے ہوئے اسے اپنے گھر لے جانے کا فیصلہ کرتی ہے ۔شہلا کے گھررشیدہ کی ملاقات فراز سے ہوتی ہے جو پہلے بھی اسے چاہتا تھا۔ اور پھر رات کے اندھیرے میں دونوں ہم آغوش ہوتے ہیں اور پھر ایک بیوہ سماج کے سارے بندھن کو توڑ دیتی ہے ۔اس افسانے میں فہیم اختر نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ اکثر مشرقی ممالک میں شادی بیاہ میں عمر کے فرق کو نہیں دیکھا جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے ازدواجی زندگی میں اکثر ناہمواری دیکھنے کو ملتی ہے اور گھریلو زندگی بہت اچھی نہیں گزرتی بس لوگ نباہتے رہتے ہیں اور جیسے ہی موقع ملتا ہے اپنی ضرورت اور خواہشات کو پوراکرنے کے لیے بندھن توڑنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے ۔فہیم اختر نے اپنے مشاہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت اہم موضوع پر بے باکی سے افسانہ تحریر کیاہے ۔ اسی طرح کے ایک اور موضوع کو ذرا مختلف زاویے سے افسانہ ’’پیاسی ندی ‘‘ میں پیش کیا گیا ہے ۔
چار کرداروں پر مبنی افسانہ ’’پیاسی ندی‘‘ کا مرکزی کردار ’امن کرائے کے ‘ مکان کی تلاش میں ہے ۔ ایک چائے کی دکان پر کام کرنے والے ’رامو‘ کی مدد سے ایک عمر رسیدہ تاجر ’موہن بابو‘ کے مکان کا ایک کمرہ امن کو کرائے پر مل جاتا ہے ۔ اس مکان میں موہن بابو اپنی نوجوان بیوی ’’ارچنا‘‘ کے ساتھ رہتے ہیں ۔ امن جلد ہی ان لوگوں سے اتنا گھل مل جاتا ہے کہ اس کے کھانے پینے کا خیال بھی ارچنا رکھنے لگتی ہے ۔گویا وہ اس کے گھر کا فرد بن جاتا ہے ۔ موہن بابو کو اپنی عمر اور اپنی جنسی کمی کا شدید احساس ہے کہ وہ باپ نہیں بن سکتا، وہ اپنی بیوی کی ضرورت پوری نہیں کرپاتا۔ ایک دن وہ امن سے گزارش کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اس کی مدد کرے اور وہ اسے زبردستی ارچنا کے کمرے میں بھیج دیتا ہے ۔ ارچنا دوسری طرف منھ کیے لیٹی ہے ۔اسے لگتا ہے کہ موہن بابو کمرے میں داخل ہوئے ہیں اور وہ بول پڑتی ہے :
’’اس نے سمجھا اس کا شوہر اس کے پا س آکر بیٹھ گیا ہے ۔ قدر ے اضطراب سے اس نے پوچھا:
’آپ آگئے ، کتنی دیر سے انتظار کر رہی ہوں ۔ ایک بات کہنے کو کئی دنوں سے سوچ رہی ہوں لیکن ہمت ہی نہیں پڑرہی ہے کہ کہوں تو کیسے کہوں ۔‘
امن کا ذہن اس وقت انتہا ئی اذیت ناک کشمکش سے دو چار تھا۔ اس کے حلق سے آواز ہی نہیں نکل پارہی تھی اسی لمحے ارچنا بغیر دیکھے مخاطب ہوئی۔
’آپ خاموش کیوں ہیں !خیر اگر آپ خاموش رہیں گے تو آج میں کسی طرح وہ بات کہہ سکوں گی جس کو کہنے کے لیے میں کئی دنوں سے سوچ رہی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ میں آپ سے آج اَمن کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں ۔‘
اَمن، یہ جملے سن کر اور بھی سہم گیا۔اب اس کے اندر جان بھی باقی نہیں رہی اس کے اوسان خطا ہو چکے تھے وہ سہما ڈرا خاموش بیٹھا رہا۔اس پر اس وقت ایک عجیب سی کیفیت طاری تھی۔
پھر ارچنا نے اپنے دل کی اس بات کا اظہار کیا جس کو وہ کب سے سینے میں چھپا ئے ہوئے تھی۔
’دیکھیے ! کیوں نہ ہم لوگ اَمن کو گود لے لیں وہ آپ کو بھی پسند ہے اور مجھے بھی ، ہما ری زندگی کا ایک خلابھی یوں پورا ہوجائے گااور اس طرح ہماری فیملی بھی مکمل ہوجائے گی۔‘‘
اس افسانے کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ افسانہ یہ رخ اختیار کرے گا۔ اکثر ہم جنس کو صرف ایک پہلو سے دیکھتے ہیں ۔ اور دو نوجوانوں کے ملنے اور قریب ہونے کا مقصد جسمانی کشش تصور کرتے ہیں لیکن آپ نے اس افسانے میں دیکھا کہ موہن بابو کیا سوچتا ہے اور کیوں ایسا سوچتا ہے ۔ امن جو ایک مادہ پرست انسان ہونے کے باوجود ارچنا کے قریب جانے میں نہ صرف جھجھک محسوس کرتا ہے بلکہ پسینے میں شرابور ہوجاتا ہے ۔ اور ارچنا امن کے بارے میں کیا سوچتی ہے ۔ اس افسانے کا تانا بانا فہیم اختر نے نہایت فنکاری سے تیار کیا ہے ۔ افسانہ نگار کی خوبی یہ ہے کہ وہ افسانے کو بیان کرتے ہوئے آخر میں ایسا موڑ دیتا ہے کہ قاری سکتے میں آجاتا ہے اور پھر جہاں افسانہ ختم ہوتا ہے قاری وہاں سے واپس پیچھے کی جانب لوٹتا ہے اور پہلے بیان کیے ہوئے واقعے اور حادثے پر ازسرِ نو غور کرتا ہے تو اس کا مفہوم اور احساس مختلف معلوم ہوتا ہے ۔ اور اصل افسانہ تب جا کر کھلتا ہے ۔
فہیم اختر کے افسانوں میں ہندوستان کی موجودہ صورت حال کی عکاسی بھی ہوتی ہے ۔ وہ لندن میں رہنے کے باوجود ہندوستان کی روز مرہ کی سرگرمیوں سے خوب واقف ہیں ۔ اس کی عکاسی ان کے ہفتہ وار کالم سے تو ہوتی ہی ہے ، ساتھ ہی انھوں نے کئی اہم افسانے بھی سپرد قلم کیے ہیں ۔ ان میں سے ایک افسانہ ’’وندے ماترم‘‘ نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔موجودہ ہندوستان میں ان الفاظ نے مختلف معنی اختیار کر لیے ہیں ۔ ان الفاظ کو ادا کرنے والے اور سننے والے پر مختلف کیفیت طاری ہوتی ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ کبھی یہ نعرہ وطن کی آزادی کے لیے دیا گیا تھا۔ ایک وطن پرست نعرے کو کیسے فسادی کی شناخت بن جانا پڑتا ہے اس کی بہترین مثال ہے ۔ جس نعرے کے ساتھ ملک آزاد ہوا وہی نعرہ آزادی کے بعد آزاد ملک کے شہری کے لیے کیسے خوف و حراس پیدا کرنے کے کام آتا ہے اس کی مثال یہاں ملتی ہے ۔ آزادی دلانے والا نعرہ کیسے اپنے ہی شہری اور بھائی کو قتل کرنے کے لیے کام آتا ہے اس کا ثبوت یہاں دیکھنے کو ملتا ہے ۔اس پس منظر میں آزاد ہندوستان کی دل کو دہلا دینے والی کہانی ہے ۔
ہندوستان کے پس منظر میں لکھی ہوئی فہیم اختر کی تین کہانیاں پسماندہ طبقے کے کرب کو نہایت فنکاری سے پیش کرتی ہیں ۔افسانہ ’’آخری سفر‘‘ حاجی پور کے ’مہوا‘ گائوں کے ایک نہایت غریب کے حال کو پیش کرتا ہے ۔ ہم واقف ہیں کہ بہار سے منتقل ہونے کا مطلب ایک زمانے تک کلکتہ جانا رہا ہے ۔ اور تمام طبی سہولیات بھی وہیں میسر رہی ہیں ۔’ بھولا‘ ایک نہایت غریب شخص ہے ۔ اس نے کبھی ریل گاڑی کا سفر نہیں کیا ۔ وہ اپنے گائوں سے گزرنے والی ریل کو روزانہ دیکھتا اور خواب سجاتا کہ وہ اس پر بیٹھ کر کلکتہ جائے گا۔جب وہ بہت بیمار ہوتا ہے اور حاجی پور کے ڈاکٹر اسے کلکتہ کے ڈاکٹر کو دکھانے کی صلاح دیتا ہے تو لگتا ہے کہ اب اس کا خواب پورا ہوگا۔ لیکن وہ خواب کیسے ٹوٹتا ہے آپ بھی دیکھیں :
’’شام کے سات بج چکے تھے ۔بھولا کا باپو پریشانی کے عالم میں پلیٹ فارم پر بے صبری سے ٹرین کی آمد کا انتظار کررہا تھا اسی اثنا میں اچانک پلیٹ فارم پر ایک شور برپا ہو گیا۔ لوگ ادھر اُدھر سامان اُٹھا کر بھاگنے لگے ۔ بھولا کا باپو چارپائی کے پاس کھڑا بار بار سر اُٹھا کر ٹرین کے پلیٹ فارم پر آنے کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک انجن کی سیٹی نے اضطرابی کیفیت کو اور بڑھا دیا۔ اس کے بعد ٹرین شور کرتی ہوئی پلیٹ فارم پر پہنچ گئی۔ قلی اور چائے والے لپک لپک کر ڈبے کے اندر داخل ہورہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ مسافر بھی ایک دوسرے کو دھکا دیتے ہوئے اندر داخل ہونے کی تگ و دو میں مصروف تھے ۔ بھولا کا باپو اور رحیم چاچا اپنے ساتھیوں سمیت بھولا کی چارپائی اٹھائے پلیٹ فارم پر بھاگنے لگے ۔ہر ڈبے پر کبھی ٹی ٹی تو کبھی پولیس تو کبھی مسافروں نے بھولا کی چارپائی کو داخل ہونے سے روک رکھا تھا۔ بھولا کا باپو ہاتھ جوڑ جوڑ کر بھولا کی حالت کو بیان کرتا ۔مگر بھولا کی فریاد کو کوئی سننے کو تیار نہیں تھا کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ بھولا کا باپ اسی کشمکش میں ٹرین کے فرسٹ کلاس ڈ بے تک جا پہنچا ۔ڈبہ تقریباً خالی تھاجس میں کلکتہ شہر کے مشہور ڈاکٹر پارتھو بوس سفر کر رہے تھے ۔اچانک بھولاکے باپو کے کان میں ڈاکٹر پارتھو بوس کے نام کی آواز سنائی دی۔وہ فوراً اس کھڑکی کی طرف لپکا اور اس نے ہاتھ جوڑ کر ڈاکٹرپارتھو بابو سے فریاد کی مگر ڈاکٹر پارتھو بوس نے شیشے کی کھڑکی کو کھولنے کی زحمت تک نہیں کی۔
تھوڑی دیر میں ٹرین آہستہ آہستہ پلیٹ فارم سے روانہ ہونے لگی۔ بھولا کے باپو نے نراش ہو کر بڑے دکھ سے بھولا کی چارپائی کو پلیٹ فارم پر رکھ دیا۔رحیم چاچا اور اُن کے کچھ ساتھی جو بھولا کے باپو کا ہاتھ بٹانے آئے تھے رفتہ رفتہ ایک ایک کر کے واپس چلے گئے ۔رات کی تاریکی سے حاجی پوراسٹیشن اندھیرے میں ڈوب گیا تھا۔حاجی پور اسٹیشن جوٹرین کے آنے سے با رونق ہو گیا تھا اب بالکل سناٹے میں ڈوب چکا تھا۔ پلیٹ فارم پر اب صرف بھولا اور اس کے با پو رہ گئے تھے ۔ پلیٹ فارم کی دوسری جانب سے آوارہ کتّوں کے بھونکنے کی آواز یں آرہی تھیں جو شایدبھولا کی لاش پر اس کے باپ کی بے بسی اور کسمپرسی پر رنج و فغاں کا اظہار کر رہی تھیں ۔ بھولا کا باپو چارپائی سے لگا زمین پر بیٹھا اپنی قسمت پر آنسو بہا رہا تھا۔ اس نے بھولا کا ماتھا چھوا جو بالکل برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔ بھولا کی روح بھی جانے والی ٹرین کے ساتھ ایک انجانے سفر پر روانہ ہو چکی تھی۔لیکن اس کا مردہ شریر چارپائی سے چپکا پڑا تھا۔ بھولا جس نے ساری عمر بڑے اضطراب اور بے چینی سے ہر گزرنے والی ٹرین کا انتظار کیا آج اسی ٹرین کے پلیٹ فارم پر بے حس وحرکت پڑا انتظار کی کشمکش سے آزاد ہوچکاتھا۔ٹرین پلیٹ فارم سے جاچکی تھی۔ ‘‘ (آخری سفر)
آپ نے محسوس کیا کہ ایک جانب بھولا کے خوابوں کا جنازہ نکلتا ہے تو دوسری جانب انسان سہولت کے قریب ہونے کے باوجود اس سے مستفیض نہیں ہو پاتا۔فہیم اختر نے گائوں میں علاج کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے انسان کی موت کو نہایت پر اثر طریقے سے بیان کیا ہے ۔ انسان کی بے حسی، گائوں اور چھوٹے شہروں میں اچھے ڈاکٹر کی عدم موجودگی کی عکاسی نہایت فنکاری سے کی گئی ہے ۔اور یہ حقیقت ہے کہ آج بھی گائوں تو دور شہروں میں بھی طبی سہولتوں کا فقدان ہے ۔ سب سے کم توجہ اگر ہے تو وہ تعلیم اور صحت پر۔ ہم بڑی بڑی باتیں تو کرتے ہیں لیکن انسان کی بنیادی سہولتوں اور ضرورتوں کواکثر نظر انداز کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہم ترقی یافتہ ملکوں کی صرف بات کر سکتے ہیں ۔ اس جانب قدم نہیں بڑھا سکتے ۔ چوں کہ فہیم اختر خود لندن میں طبی شعبے سے وابسطہ ہیں اور ہندوستان کی عوام کا درد اپنے سینے میں رکھتے ہیں اس لیے انھوں نے نہایت فنکاری سے اس جانب ہماری توجہ دلائی ہے ۔
ہندوستان میں سماجی نابرابری ایک اہم مسئلہ ہے ۔ اس مسئلے کی بات تو ہر شخص کرتا ہے لیکن عملی طور پر اسے دور کرنے کوشش صرف دکھاوا ثابت ہوتی رہی ہے ۔ اس مسئلے کو موضوع بناکر فہیم اختر نے ایک اہم افسانہ لکھا ہے ۔ افسانہ ’’درگا مہتر‘‘ کا مرکزی کردار’درگا ‘کا بیٹا ’چھنگلی‘ ہے ۔ درگا اپنا کام ایمانداری سے کرتے ہوئے اپنی بیوی اور بیٹا کو روتا بلکتا چھوڑ کر پرلوک سدھار لیتا ہے ۔ چھنگلی یہ سوچتا ہے کہ اس کا باپ جو کام کرتا تھا وہ نہیں کرے گا بلکہ کوئی اور کام کرے گا۔ لیکن اسے کوئی کام نہیں ملتا۔نتیجے میں چھنگلی اور اس کی ماں کو بھوکوں مرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔ ایک دن اس کے من میں یہ خیال آتا ہے کہ کیوں نہ مندر کے سامنے جاکر بھیک ہی مانگ لے ۔ وہ وہاں جاتا ہے اور قطار میں کھڑا ہوجاتا ہے ۔ منتری بھگا پرساد تمام لوگوں کو دان دیتے ہیں لیکن چھنگلی کے ذات کی شناخت ہوتے ہیں وہ اسے کچھ نہیں دیتا۔ اسی طرح چھنگلی باری باری سے سبھی مذاہب کے لوگوں کے پاس جاتا ہے لیکن اسے مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگتا۔ اور آخر میں اس کی ماں یہ کہنے پر مجبور ہوتی ہے کہ لگتا ہے بیٹا لگتا تجھے بھی اپنے باپ کا کام ہی کرنا پڑے گا۔
اس افسانے میں فہیم اختر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ سماج کسی کو ترقی نہیں کرنے دیتا۔ جس کی جو ذات ہے اسی مناسبت سے اس کے ساتھ پیش آتے ہیں ۔ سیٹھ مندر میں چھنگلی کو بھیک نہیں دیتا تو سلیم صاحب چھنگلی کی مددنہیں کرتے ۔ ہندوستانی سماج میں پیوست ذات پات اس قدر مضبوط ہے کہ چھوٹے لوگوں کی ترقی ناممکنات میں شامل ہو گئی ہے ۔اسی طرح گائوں میں رہنے والے سیدھے اور سچے لوگوں کا شہر میں گزارا مشکل ہی نہیں ناممکنات میں شامل نظر آتا ہے ۔ اور اگر وہ مزدور یا کسان ہو تو پھر اس کا سہارا تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ اسی موضوع پر فہیم اختر نے افسانہ ’’گواہی ‘‘ لکھا ہے ۔ گائوں کا ایک سیدھا سادہ ’مہیش‘ روزی روٹی کمانے کے مقصد سے کلکتہ آتا ہے ۔ یہاں کوئی ڈھنگ کی نوکری نہ ملنے کی صورت میں ہوڑہ اسٹیشن پر قلی کا کام کرنے لگتا ہے ۔ ہم سب واقف ہیں کہ ہر کام کا مختلف صورت میں ٹیکس وصول کیا جاتا ہے کہیں دلالی کے نام پر تو کہیں ہفتہ وصولی کے نام پر۔ ہوڑہ اسٹیشن پر بھی قلی سے ہفتہ وصول کیا جاتا ہے ۔ مہیش اور اس کے ساتھی ہفتہ دینے سے منع کرتے ہیں اور تمام قلیوں کے ساتھ دینے کی وجہ سے اس مصیبت سے انھیں فوری نجات تو مل جاتی ہے لیکن مہیش کی جان کے لالے پڑجاتے ہیں ۔ وہ گائوں جاتا ہے اور اس کی شادی کردی جاتی ہے ۔ چوتھے ہی دن اپنے ساتھیوں کے اصرار پر وہ پھر ہوڑہ اسٹیشن آجاتا ہے اور پھر ایک لمبے عرصے تک نہ لوٹ پانے کی صورت میں اس کی بیوی’گومتی‘ اس کی تلاش میں شہر آتی ہے اور پھر اس کے ساتھ سپاہی کا سلوک اور اپنی عزت بچانے کے لیے بھاگتے ہوئے اس کی موت ۔اس کی موت کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو قلیوں کے نیتامہیش کی بیوی ہے ۔اور پھر دونوں کی موت کا کوئی گواہ نہ ہونے کی صورت میں پولس ان کی فائل بند کردیتی ہے ۔
ہم سب واقف ہیں کہ موجودہ دور میں ظلم کے خلاف کیا اپنے حق کی آواز اٹھانے والوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے ۔ اور شہروں میں عورتوں کی عصمت کس کس طرح پامال کی جاتی ہے ۔ اور یہ تمام فائلیں اکثر تیار ہونے سے پہلے ہی بند کردی جاتی ہیں ۔ اگر کوئی فائل کھلتی بھی ہے تو گواہی یا ثبوت نہ ملنے کے بہانے بند کردی جاتی ہے ۔ اور اگر اس سے بھی آگے نکل معاملہ کورٹ تک پہنچتا ہے تو انصاف ملنے کے وقت تک مظلوم کی موت واقع ہو چکی ہوتی ہے ۔فہیم اختر نے ان تمام نکات کی جانب بہت خوش اسلوبی سے توجہ دلائی ہے ۔ انھوں نے گائوں سے شہر کا قصہ، ہوڑہ اسٹیشن پر کام کرنے والے قلی’ مہیش‘ اور اس کی بیوی ’گومتی ‘کی موت اور اس کی گواہی کا نہ ملنے کے بہانے لاکھوں دلوں کی داستان بیان کردی ہے ۔اس موضوع پر یہ ایک درد ناک کہانی ہے جو غریبی اور غریبوں پر ہو رہے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتی ہے ۔
اس مجموعے کا آخری افسانہ اردو سے محبت کرنے والوں کی داستان ہے ۔ اردو سے محبت اور اردو کی روٹی کھانے والوں کے فرق کا احساس ہوتا ہے ۔ افسانہ کرب ناک ہے لیکن ہو سکتا ہے ایسا ہوتا بھی ہو۔ اردو سے محبت کرنے والی ’صنم‘ اور’ پروفیسر اعجاز شیخ‘ کے درمیان نہایت فنکاری سے افسانے کا تانا بانا تیار کیا گیا ہے ۔ فہیم اختر نے اس افسانے کا اختتام کرتے ہوئے علامت کا سہارا لیا ہے ۔ صنم کے ذہن کی کشمکش اور ہوائی جہاز کی لینڈنگ کا منظر بیان کرنا افسانہ نگار کے فن کی پختگی کا ثبوت ہے ۔
اسی طرح فہیم اختر نے اپنے افسانے ’’لال کرسی، رکشہ والا، سروپ سنگھ اور کالی پتلون ‘‘ میں مختلف مسائل کو نہایت فنکاری سے بیان کیا ہے ۔ انھوں نے مغرب و مشرق کی تفریق کو مٹاتے ہوئے جب جو محسوس کیا اسے فن کے پیرائے میں پیش کردیا ہے ۔فہیم اختر کے افسانوں پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انھیں نہ صرف فن افسانہ نگاری کا علم ہے بلکہ وہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ باتیں کہنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں ۔ قاضی عبدالستار نے کہا تھا کہ افسانہ چاول پر قل ھواللہ لکھنے کے مترادف ہے ۔ اور فہیم اختر کے یہاں بھی اس کی بہترین مثال دیکھنے کو ملتی ہے ۔ آپ بھی دیکھیں کہ کیسے طویل ترین بات مختصر ترین طریقے سے بیان کی جاسکتی ہے ۔افسانہ ’پیاسی ندی ‘ میں موہن بابو اور امن کے درمیان کی گفتگو دیکھیں :
’’آپ رہنے والے دراصل کہاں کے ہیں ؟ میرا مطلب ماتا پتا آپ کے ۔۔۔۔۔۔
مجھے نہیں معلوم ، پر ویسے تو میں نے مشنری کی چار دیواری میں آنکھ کھولی ہے اور وہیں سے تعلیم بھی حاصل کی۔ ماں باپ کے بارے میں اتنا معلوم ہے کہ اگر وہ ہوتے تو ان ہی کے ساتھ رہتا ہوتا۔ بس لوگ کہتے ہیں کہ کسی نے مجھے گرجا گھر کے باہر چھوڑ دیا تھا۔ میری صرف یہی ایک چھوٹی سی کہانی ہے ۔‘‘ (پیاسی ندی)
اس طرح کے بہت سے اقتباسات پیش کیے جاسکتے ہیں جن میں فہیم اختر نے اپنی مختصر نویسی کے فن کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ان کے افسانوں کے مطالعے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ مشرقی سماج و تہذیب کے ساتھ ساتھ مغربی سماج پربھی ان کی نظر گہری ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ موجودہ دور تذبذب کا دور ہے ، نئی پرانی قدروں کے تصادم کا زمانہ ہے ۔نئی تہذیب و قدروں کو قبول کرنا چاہتے ہیں لیکن قدیم اور مثبت اقدار کو چھوڑ بھی نہیں سکتے ۔ایسے میں ایک بالیدہ ذہن اور شعور کی سخت ضرورت ہے ۔ بہت سے ہندوستانی شہری مغربی ممالک میں منتقل ہو چکے ہیں ۔مغربی ممالک میں رہنے کی وجہ سے ان کا ذہن تو بالیدہ ہو چکا ہے لیکن زیادہ تر لوگ اب بھی اسی پس و پیش کے عالم میں ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ لیکن اس معاملے میں فہیم اختر نہ تو کسی طرح کے تذبذب کا شکار ہیں اور نہ ہی انھیں مثبت اور منفی کے اظار میں کسی طرح کا خوف محسوس ہوتا ہے ۔ انھیں معلوم ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ ذہنی آزادی کا مطلب کیا ہے ۔جنس کے معاملے میں اب بھی ہم مشرقی تہذیب کے پاسدار لوگ صحیح اور غلط کا فیصلہ نہیں کر سکے ہیں ۔لیکن فہیم اختر کا ذہن صاف ہے ۔ ان تمام نکات کی عکاسی ان کے مختلف افسانوں میں ہوتی ہیں ۔ عورتوں اور مردوں کی ذہنی اور جسمانی ضرورتوں کا علم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے حدود کی بھی جانکاری ہے انھیں ۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے عورتوں کے جسمانی تعلقات سے متعلق بہت سی کہانیاں لکھی ہیں تو مردوں کی ذہنیت پر بھی کہانیاں موجود ہیں ۔ مثلاً افسانہ ’’رشتوں کا درد‘‘ میں ’منوج‘ روپے کے لیے ’ایکتا‘ اوراس کی بیٹی ’سپنا‘ دونوں سے رشتے قائم کرتا ہے ۔لیکن اسے ہمارا مشرقی سماج قبول نہیں کرسکتا ۔کیوں کہ اکیسویں صدی میں بھی ہم انیسویں صدی میں جی رہے ہیں ۔اس سے فہیم اختر بھی واقف ہیں اور اس کی عکاسی ان کے افسانوں میں بھی ہوتی ہے ۔ان کے افسانوں میں ان کے گہرے مشاہدات، روز مرہ کی زندگی اور مختلف ممالک کے سفر کا تجربہ صاف دکھائی دیتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ مشرق و مغرب کے درمیان تہذیبی و ثقافتی فاصلے اور اس کی تفریق کا بیان ان کے افسانوں میں موجود ہے ۔انھوں نے جب بھی ان تہذیبوں کو موضوع بنایا ہے تواکثر مغرب کو طنز کا نشانہ بنایاہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے اکثر افسانے کا انداز بیان طنزیہ و مزاحیہ ہے ۔اس پیرائے میں وہ بڑی سے بڑی ، تلخ سے تلخ اور نہایت سنجیدہ باتیں آسانی سے کہہ جاتے ہیں اور قاری کے ذہن و دل پر ضرب لگانے کے ساتھ ساتھ انھیں غور و فکر پر بھی مجبور کرتے ہیں ۔کئی بار ان کی زبان شاعری کا لمس لیے معلوم ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی ہیں ۔ قاری ایک بار افسانہ پڑھنا شروع کرتا ہے تو ختم کر نے کے بعد ہی دوسری جانب توجہ کرتا ہے ۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!