اردو اخبارات ایک قدم آگے ، دو قدم پیچھے

Click Here for PDF File

Click Here for PDF File

جدیدٹکنالوجی کا فائدہ جہاں دوسری زبانوں نے اٹھایا وہیں اردو زبان کو بھی اس کا فائدہ پہنچا۔ کمپیوٹر کی کتابت اور پریس کی سہولیات سے ملک کے بیشتر مقامات سے اردو کے اخبارات کی اشاعت ہونے لگی۔ جہاں دہلی جیسے اردو مرکز سے دو یا تین اخبارت شائع ہوتے تے وہیں اب درجنوں اخبارات شائع ہورہے ہیں۔ جس طرح ٹیلی ویزن کی دنیا میں صرف دوردرشن ہی کا درشن ہوتا تھا اسی طرح اردو میں قومی آواز کا نام تھا۔ اس کے بعد کئی چھوٹے بڑے اخبارات شائع ہوئے لیکن قومی آواز کا مقابلہ کوئی اخبار نہیں کرسکا۔ اردو صحافت حقیقی معنوں میں انقلاب اس وقت آیا جب سہارا نے اپنے بینر تلے اردو میں ایک روزنامہ راسٹریہ سہارا جاری کیا۔ اس اخبار نے دیکھتے دیکھتے پوری ملک سے اپنے ایڈیشن نکالنا شروع کردیا۔ اردو کے بارے میں کہاجانے لگا تھا کہ اس کی ریڈر شپ نہ کے برابر ہے اس اخبار کی بدولت لاکھوں میں پہنچ گئی۔ اس کے بعد دہلی سے ہی ہندوستان ایکسپریس اور ہمارا سماج کا اجرا عمل میں آیا۔ روزنامہ صحافت اگرچہ پہلے سے شائع ہورہا تھا لیکن اپنے معیار میں بہتری پیدا کرکے راسٹریہ سہارا کو ٹکر دینے لگا۔ اس بیچ روزنامہ سیاسی تقدیر بھی پورے آب وتاب کے ساتھ جاری ہوا اور بہت ہی کم وقت میں اس نے اپنی پہچان بنالی۔ دوسرے اخبارات جیسے جدید میل، جدید خبر وغیرہ بھی موقع موقع پر اپنی بہار دکھا کر مارکیٹ سے غائب ہوتے رہے۔ اردو صحافت کی دنیا میں دوسرا بڑا انقلاب اس وقت برپا ہوا جب جاگرن گروپ نے ممبئی سے شائع ہونے والے روزنامہ انقلاب کو خرید لیا۔ جاگرن گروپ نے اس اخبار کو ممبئی کے علاوہ دہلی سے بھی شائع کیا۔ اس اخبار کے آنے سے روزنامہ سہارا کی بادشاہت ختم ہوگئی۔ اب روزنامہ سہارا اور روزنامہ انقلاب کے علاوہ دوسرے اخبارات بھی اپنی موجود گی کا برابر احساس دلاتے رہتے ہیں۔
نئے زمانے اور نئی ٹکنالوجی کے آنے سے اخبارات کا معیار رنگ وروغن کے اعتبار سے اگرچہ بڑھا ہے لیکن مواد اور پیشکش کے اعتبار سے کئی معنوں میں گراوٹ آئی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں مثلاً آج کی بھاگ دوڑ کی زندگی میں ہر کام جلد سے جلد نپٹانے کی وجہ سے کسی کو زبان وبیان کی غلطیوں پر دھیان دینے کی فرصت کہاں ہے۔ اب مولانا آزاد جیسے لوگ رہے نہیں جو صحافت کو اپنا ایمان سمجھتے تھے۔ پہلے ہر اخبار میں کاتب اور سب ایڈیٹر الگ الگ ہوا کرتے تھے۔ کمپیوٹر آنے کے بعد بھی یہ روایت برقرار رہی۔ لیکن روزنامہ انقلاب نے اس روایت کو تبدیل کردیا۔ اس نے اپنے اخبار کے لیے جن لوگوں کا تقرر کیا ان کو کمپوزر کے ساتھ سب ایڈیٹنگ کی بھی ذمہ داری بھی دی۔ یہ لوگ کہیں آسمان سے تو نہیں آئے ۔ دوسرے اخبارات میں کمپیوٹر آپریٹر کی حیثیت سے کام کرنے والے یہاں پر آکر کمپیوٹرآپریٹر کے ساتھ سب ایڈیٹر بھی ہوگئے دو آدمیوں کا کام کرکے تھوڑی سی زیادہ تنخواہ پر تقرری پاکر کمپیوٹر آپریٹر خوش ہوگئے۔ بیچارے وہ لوگ جو ماہر سب ایڈیٹر تھے ان کا کوئی پرسان حال نہیں رہا کیوں کہ ان کو کمپیوٹر چلانا نہیں آتا تھا۔ دوسرے اخبار والوں نے دیکھا کہ دو آدمیوں کا کام ایک سے ہوسکتا ہے تو انہیں نے بھی اسی فارمولے پر عمل کرنا شروع کردیا۔ نتیجہ سامنے ہے۔ اب اخبارات میں زبان وبیان کی غلطی کو غلطی ماننے کا تصور ہی ختم ہوتا جارہا ہے۔
اخبارات کے معیار میں گراوٹ کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اردو اخبارات میں پیشہ وروں کی بے حد کمی ہے۔ کمی اس وجہ سے نہیں ہے کہ اردو میں پیشہ ور صحافی نہیں ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جب کم دام میں کام کرنے والے آسانی سے دستیاب ہوجائیں تو پھر کیا پڑی ہے کہ اس کے لیے زیادہ روپیے خرچ کیے جائیں۔ اخبارات کی آفسوں میں اس وقت زیادہ تر طلبہ کام کرتے ہیں۔ چونکہ اخبارات کی آفسوں میں شام کے وقت کام ہوتا ہے اس وجہ سے ان کی پڑھائی متاثر نہیں ہوتی ہے۔ ان میں سے اکثر وہ طلبہ ہوتے ہیں جو صحافت میں صرف جیب خرچ کے لیے جاتے ہی۔ یہی وجہ ہے کہ پڑھائی مکمل ہوتے ہی ان کی صحافت کی نوکری بھی مکمل ہوجاتی ہے۔ صحافت کو بطور پیشہ اپنانے والے اردو میں بہت کم ہیں۔ جب تک پیشہ ور صحافی اردو میں نہیں ہونگے اردو صحافت کا معیار نہیں بلند ہوگا۔
آج کل اردو اخبارات میں جس قسم کی لاپروہیاں زبان وبیان اور صحافتی اصولوں کے ساتھ کی جارہی ہے اس کے بارے میں بہت کم لوگ توجہ دیتے ہیں۔ عموماً لوگ ان غلطیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ لیکن اگر صحافت کا معیار بلند کرنا ہے تو ان غلطیوں کو سدھارنا ہوگا۔
زبان وبیان کی غلطی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے اردو اخبارات اردو مترجم نہیں رکھتے۔ ہندی زبان کی ویب سائٹوں پر موجود مواد کو کاپی کرکے گوگل یا کسی اور ذریعہ سے ترجمہ کرکے اس کو شائع کردیتے ہیں۔ انسانی ترجمہ کا بدل مشینی ترجمہ نہیں ہوسکتا۔ اگر مشینی ترجمہ اتنا ہی کامیاب ہوتا تو کمپنیاں لاکھوں روپیہ دے کر مترجم نہیں رکھ رہی ہوتیں۔
پروف کی غلطیاں:
انگریزی کا مؤقر روزنامہ ـ’ہندو‘ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے شماروں میں زبان وبیان کی غلطیوں کی قارئین نشادہی کرتے ہیں اور اخبار باقاعدہ ان کو شائع کرتا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں اس قسم کا کوئی تنقیدی شعور نہیں ہے جس کی وجہ سے اخبارات میں تقریبا ہر دوسری سطرمیں پروف کی غلطی ہوتی ہے۔بعض دفعہ یہ لاپراوہی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ شہ سرخی بھی اس کی نذر ہوجاتی ہے۔ پروف کی غلطیاں کس قدر خطرناک حد ہوتی ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ میں نے دہلی کے حضرت نظام الدین سے شائع ہونے والے ایک موقر روزنامہ میں دیکھا کہ اس نے آخری صفحہ پر دو تصویریں شائع کیا۔ ایک میں وزیر اعلی شیلا دکشت اپنے محافظوں کے ساتھ اسمبلی ہاؤس کی طرف جارہی رہی تھی دوسری تصویر میں ایک ملزم کو پولیس عدالت میں پیشی کے لیے لے جارہی تھی۔ اخبار کی لاپرواہی سے دونوں کا کیپشن تبدیل ہوگیا۔ قارئین سمجھ سکتے ہیں کہ مفہوم کس قدر بدل گیا۔ تعجب کی بات یہ کہ دوسرے دن اخبار میں اس کے لیے کوئی معذرت بھی نہیں شائع ہوئی کہ ’جانے دیں، پڑھتا ہی کون ہے؟‘ دہلی سے شائع ہونے والے بہت سارے اخبارات شاید اسی وجہ سے آنکھ بند کرکے اخبار شائع کرتے ہیں کہ ’پڑھتا ہی کون ہے‘۔
اگر آج ہی کے اخبارات کے صفحۂ اول سے پروف کی غلطیاں گنانا شروع کردوں تو ہوسکتا ہے کہ یہ مضمون کافی طویل ہوجائے اس وجہ سے دوسری لاپرواہیوں کی طرف رخ کرتے ہیں۔
صحافتی زبان سے لاعلمی:
اردو اخبارات میں عموماً صحافتی زبان کی ایسی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں کہ حساس قاری دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔نیوز کیا ہے؟ ویوز کیا ہے؟ اس میں کم ہی کوئی فرق کیا جاتا ہے۔ ایک ماہر اخبار نویس کا کمال یہ ہے کہ وہ سمجھے کہ کہاں خبر ختم ہورہی ہے اور کہاں سے تبصرہ شروع ہورہا ہے۔ اخبارات کے صفحات میں ادارتی صفحہ ہی تبصروں کے لیے ہوتا ہے۔ افسوس کی بات یہ کہ اس جگہ تبصرہ کے بجائے خبر ہوتی ہے فرق یہ ہوتا ہے کہ خبر کے ہاتھ پاؤں کو توڑ کر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ مضمون کا حق ادا کردیا گیا ہے۔ انگریزی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا نے کچھ سالوں پہلے یہ سلسلہ شروع کیا تھا کہ وہ اہم خبروں پر آخر میں دو یا تین جملوں میں اپنی رائے بھی دے گا۔ کچھ دنوں تک یہ سلسلہ رہا۔ لیکن قارئین کو یہ روش پسند نہیں آئی اور اخبار کو یہ سلسلہ بند کرنا پڑا۔ خبر معصوم ہوتی ہے۔ اس کی معصومیت کو تبصروں کے ذریعہ ختم نہ کریں۔
صحافیانہ دیانت داری کی کمی:
ہمارے یہاں صحافیانہ دیانت داری کی بھی بڑی کمی ہے۔ چونکہ اردو اخبارات عموماً افرادی قلت کا شکار ہوتے ہیں اس وجہ سے ہر جگہ ان کا نمائندہ نہیں پہنچ سکتا۔ اس وجہ سے خبریں عموماً مختلف ایجنسیوں سے لیتے ہیں یا انٹرنیٹ سے حاصل کرلیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم مآخذ ہوتا ہے پریس ریلیز کا۔ دیانت داری کا تقاضا ہے کہ جہاں سے خبر لی جائے وہاں کا حوالہ دے دیا جائے۔ پریس ریلیز کو پریس ریلیز کے نام سے ہی شائع کیا جائے ۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک ہی پریس ریلیز کو مختلف اخبارات اپنے اخبار کی نیوز سروس کی بازیافت قرار دینے کی ناروا کوشش کرتے ہیں۔ قاری سب دیکھتا ہے محسوس کرتا ہے لیکن خاموش رہتا ہے۔ حیرت کی بات یہ کہ مختلف اخبارات میں ایک ہی خبر انہیں الفاظ اور سرخیوں کے ساتھ شائع ہوتی ہے لیکن ہر ایک کا سورس الگ ہے۔ یہ معجزہ اردو ہی میں ہوسکتا ہے۔
ہمارے بہت سارے اخبارات اپنے ادارتی صفحہ کا پیٹ بھرنے کے لیے پاکستان کے اخبارات کی ویب سائٹوں سے کاپی پیسٹ کرلیتے ہیں۔ اس عمل میں انہیں یہ سہولت محسوس ہوتی ہے کہ انہیں ٹائپ کرنے کی زحمت نہیں کرنی پڑتی ہے۔ حقیقت میں یہ ایک خطرناک کام ہے۔ سرحد کے دونوں طرف علمی تبادلہ کوئی بری بات نہیں ہے۔ لیکن اخبار کا صفحہ بہت اہم ہوتا ہے۔ اس میں حالات حاضرہ پر تبصرہ ہوتا ہے۔ ہندوپاک کے تعلقات اکثر کشیدہ رہتے ہیں۔ ایک ہی چیز کو سرحد کے دونوں طرف الگ نقطۂ نظر سے پیش کیا جاتا ہے۔ پریس ایکٹ کے تحت اخبارات کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ خبریں لکھتے وقت ملکی حالات اور مفادات کا خیال رکھیں گے۔ بعض دفعہ پاکستان کے کالم نگار اپنی تحریروں میں ہندوستان کے موقف کے خلاف باتیں پیش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف اصطلاحات کی الٹ پھیر بھی جداگانہ معنی پیدا کردیتی ہے۔ مثلا پاکستان میں ہندستان کے زیر انتظام کشمیر کو مقبوضہ کشمیر کہا جاتا ہے اور پاکستان مقبوضہ کشمیر کو آزاد کشمیر کہا جاسکتا ہے۔ اگر ان اصطلاحوں کو ہندوستان میں کوئی اخبار استعمال کرتا ہے تو اس کا مواخذہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اردو والوں پر ہمیشہ پاکستان کے لیے سافٹ کارنر ہونے کا الزام لگتا رہا ہے۔ اگرکوئی اردو کا خیر خواہ پورے ایک ماہ میں اردو اخبارات میں پاکستانی اخبارات سے لیے گیے مضامین کی فہرست سیکورٹی ایجنسیوں کو فراہم کردے تو مسلمانوں کے ساتھ اردو اخبارات بھی مشکوک ہوجائیں گے۔
اردو اخبارات کے بارے میں ایک رائے یہ ہے کہ یہ ہائے توبہ زیادہ مچاتے ہیں۔ اردو اخبارات پڑھتے ہوئے بعض دفعہ واقعی اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ کسی بھی اخبار کی کامیابی یہ ہے کہ اس کو پڑھنے والا محسوس نہ کرسکے کہ اخبار کس کے ساتھ ہے۔ اس لیے کہ اخبار کا کام خبریں دینا ہے۔ اس پر رائے دینا یا کوئی مشورہ دینا اس کا کام نہیں۔ ہاں اس کے لیے بھی اخبار میں متعین جگہ ہوتی ہے۔ جس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اردو اخبارات کا عام قاری مسلمان ہوتا ہے۔اس وجہ سے اردو اخبارات عموماً مسلمانوں کی حمایت میں خبریں شائع کرتے ہیں۔ تعجب کی بات یہ اس روش پر وہی اخبارات نہیں عمل کرتے جن کے مالکان مسلمان ہیں۔ کارپوریٹ گھرانوں سے شائع ہونے والے اخبارات جن کے مالکان مسلمان نہیں ہیں وہ بھی مجبوری کی وجہ سے اس روش پر قائم ہیں۔ دینک جاگرن اور انقلاب، راسٹریہ سہارا اردو اور ہندی دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایک مودی کو ہیرو کے طور پر پیش کررہا ہے تو دوسرے کو وہی مودی ولن نظر آتا ہے۔ یہ انتہا پسندانہ رویہ ہے جو قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
ہم نے اس مضمون میں صرف دہلی سے شائع ہونے والے اخبارات کی بات کی ہے۔ ایسی بات نہیں ہے کہ دوسری جگہوں سے شائع ہونے والے اخبارات ان کوتاہیوں سے پاک ہیں۔ ان کو بھی اسی زمرہ میں رکھا جاسکتا ہے۔ اس جگہ پر مختلف اخبارات سے مثالیں بھی دی جاسکتی تھیں۔ لیکن ان سے در گزر کیا جارہا ہے صرف اس لیے کہ خداوندان صحافت کی شان میں مزید گستاخی سے معاملہ خراب ہوسکتا ہے۔

 

عزیر اسرائیل

شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی

اردو ریسرچ جرنل میں شائع شدہ مواد کی بغیر پیشگی اجازت کے دوبارہ اشاعت منع ہے۔ ایسا کرنا قانوناً جرم ہے۔

Leave a Reply

1 Comment on "اردو اخبارات ایک قدم آگے ، دو قدم پیچھے"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] 47. اردو اخبارات ایک قدم آگے ، دو قدم پیچھے […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.