تعلیمات اقبال کا عہدِ حاضر میں اطلاق

Click Here for PDF File

Click Here for PDF File

نوید حسن ملک

لیکچرار گورنمنٹ کالج جنڈانوالہ، ضلع بھکر۔پنجاب۔پاکستان

نام: نوید حسن

naveedhassanmalik@gmail.com

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علامہ اقبال کی تعلیمات کسی ایک خاص وقت، کسی خاص علاقے یا کسی خاص رنگ ونسل کے لیے مخصوص نہیں ہیں ۔ اقبال ہر دور کے شاعر ہیں۔ ان کے افکار اور ان کی تعلیمات کا ایک جاندار پہلو یہ بھی ہے کہ وہ فرد کی درست سمت میں رہنمائی اور اس کی اخلاقی و روحانی تشکیل کرنے کے خواہاں ہیں۔ یہی انفرادی تربیت ان کے نزدیک اجتماعی تربیت کا باعث بنتی ہے۔ قوم، ملک یا معاشرہ افراد سے مل کر تعمیر پاتا ہے اور اگر فرداً فرداً قوم کے ہر شخص کی باطنی و اخلاقی تربیت عمدہ طور پر ہوگی تو آخر کار اس انفرادی تربیت کے اثرات اجتماعی شکل میں ظاہر ہونگے اور اس سے ایک مثالی معاشرہ تشکیل پائے گا ۔یہی اقبال کے خودی اور بے خودی کے نظریات ہیں ۔ اقبال کی خودی کا نظریہ جب پنپتا ہے ، آگے بڑھتا ہے ایک فرد میں نمو پاتا ہے، اپنی اخلاقی و روحانی قدروں سے روشناس کراتا ہے تو آگے جا کر یہی فرد اپنے تمام تر روحانی اور اخلاقی اقدار کا اطلاق اجتماعی طور پر کرتا ہے ۔ اب یہاں سے بے خودی کی تعلیمات شروع ہوجاتی ہیں۔ باالفاظِ دیگر اقبال خودی پر اس لیے زور دیتے ہیں تاکہ اس کے نتائج بے خودی کی صورت میں بہتر طور پر حاصل ہو سکیں۔ گویا خودی تکمیل بے خودی کی پہلی کڑی ہے ۔اقبال کی تعلیمات کا دائرہ کار کسی خاص وقت تک محدود نہیں ہے۔ اقبال ہر دور کے شاعر و مفکر ہیں۔ ان کے نظریات حصولِ پاکستان کی ایک وجہ ضرور ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اقبال کے خوابوں کے مطابق ایک الگ مسلم خطے کے قیام سے ان کی تعلیمات کا سلسلہ ختم ہوگیا ۔ ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ تعلیماتِ اقبال کی کل بھی ضرورت تھی جب امتِ مسلمہ کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا اور آج بھی ضرورت ہے جب اس امتِ کو سازشوں کے عمیق ترین سائے گھیرے ہوئے ہیں ۔ آج بھی اقبال کی تعلیمات ، ان کے افکار، ان کی روحانی اور اخلاقی اقدار کی ترویج کی کوششوں کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو لامحالہ اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عہدِ حاضر میں افکارِ اقبال کی تشریح و توضیح کی ضرورت بالکل اسی طرح ہے جیسا کہ آج سے نوے یا سو سال قبل تھی۔گویا تعلیماتِ اقبال کا اطلاق محض اس خاص عہد کے لیے نہیں تھا جب مسلم معاشرہ اپنے تشخص کے حصول کے لیے سرگرداں تھابلکہ عہدِ حاضر میں اس تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے بھی ان کی سخت ضرورت ہے۔ اقبال کے تفکر کا بنیادی مرکز مردِ مومن ہے جو سراسر خودی سے روشناس ہو چکا ہے ، اسی مردمومن کے گرد ان کے اکثر دیگر نظریات گھومتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اقبال کی خودی کا نظریہ ، یہ نظریہ درحقیقت اقبال کے مردمومن کے لیے ہے اور مردِ مومن بھی اسی نظریہ کے ماتحت ہے گویا یہ دونوں ایک دوسرے میں باہم مربوط ہیں ۔ مردمومن کامل اوصاف کا حامل تب ہی ہو سکتا ہے جب اس میں خودی کا نظریہ اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ موجود ہوگا جبکہ دوسری طرف خودی کے نظریے کی ترویج اسی طرح ممکن ہے اگر اقبال کا مردمومن اپنے مقام سے آگاہ ہوگا اور جس مرتبہ پر اسے فائز کیا گیا ہے وہ تمام تر وصف اپنے اندر سمو لینے کا اہل ہوگا ۔ اقبال کے مردمومن کے نکتہ پر براجمان شخصیات کو بھی درجہ بدرجہ اہمیت حاصل ہے ۔ ان کے نزدیک آنحضرت محمدﷺ کی ذاتِ مبارکہ کے بعد خلفائے راشدین اعلٰی ترین درجہ پر فائز ہیں ان کے بعد صحابہ کرام، اولیائے کرام، آئمہ دین اور علمائے کرام کو اہمیت حاصل ہے۔ گویا اقبال کا مردمومن اپنے اپنے مرتبہ اور اہلیت کے مطابق اپنے اندر کی خصوصیات کو بروئے گار لاتا ہے اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے ۔ باالفاظِ دیگر ہر مرومومن کو اس کے اوصاف کے مطابق فرائض تفویض کیے گئے ہیں اور ان کی درجہ بندی بھی اسی لحاظ سے کی گئی ہے

اقبال کا نظریہ عشق بھی مردمومن سے منسلک ہے کیونکہ مردمومن ہی اس مقام کے حصول کے لیے کوشاں ہے اور اسی کو ہی یہ مقام و رتبہ حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ جذبہ اقبال کے مردمومن کے لیے اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہی ایک جذبہ محرک ہے اس کائنات اور روزوشب کے سلسلے کے قیام میں، یہی وہ جذبہ ہے جو ایک اعلیٰ ترین انسان کو زمین سے عرش تک لے جاتا ہے۔ واقعہ معراج جہاں اقبال کے افکار میں ان کے زمان و مکان کے نظریہ کی نشاندہی اور وضاحت کے لیے بار بار مذکور ہے وہاں اس میں تسخیر کائنات کے جذبے کا اظہار بھی موجود ہے ۔ واقعہ معراج تسخیرِ کائنات کا ثبوت ہے اور تسخیر کائنات مردمومن کی خاص صفت ہے جبکہ مردمومن اقبال کے نظریہ خودی سے مربوط ہے۔ گویا یہ تمام نظریات کڑیوں کی صورت میں ایک دوسرے سے منسلک یں۔ ان میں چند دیگر نظریات عشق، حسن، پیکار، علم ، فطرت نگاری وغیرہ مندرجہ بالا تمام تر نظریات کی کڑیوں کو ایک دوسرے میں باہم مربوط کرنے اور کے مابین تعلق استوار کرنے کا کام کرتے ہیں

بنظرِ غائز جائزہ لیا جائے تو اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ اقبال نے تمام تر نظریات کو ایک دوسرے میں شعوری یا لاشعوری طور پر اس طرح منسلک کیا ہوا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی کڑی ٹوٹ جائے تو نہ ہی مردمومن اپنے مرتبے پر فائز رہ سکتا ہے اور نہ ہی اس مثالی معاشرے کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے جس کے لیے اقبال تگ و دو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب اگرعہدِ حاضر میں اقبال کے افکار کا مطالعہ کیا جائے اور ان کے لاشعور میں نہاں اس امر کا ادراک کیا جائے کہ اقبال ایک مثالی معاشرہ اور ایک مثالی انسان کے لیے اپنی تمام تر تعلیمات و افکار کا اظہار کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ عہدِ حاضر میں تو شاید اقبال کا خواب ٹوٹ کر بکھرتا دکھائی دیتا ہے۔ اقبال کے انسان کامل تو شاید کہیں خال خال ڈھونڈنے سے نظر آ بھی جائیں مگر وہ مثالی معاشرہ تو محض اس لیے قائم نہیں ہو سکتا کہ ان کی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ آج کا معاشرہ تباہی کے جس دھانے پر پہنچ چکا ہے ۔ مغرب کی جس یلغار کے خلاف اقبال تمام عمر کمر بستہ رہے آج وہ یلغار ہمیں خس و خاک کی طرح بہائے لے جا رہی ہے۔ اقوام بنام اوطان کا زہر آج مسلم معاشرے کو ایک گھن کی طرح چاٹے جاتا ہے ۔ دین سے دوری، خالصتاًملایت کا فروغ،فرقہ پرستی سمیت مختلف عناصر نے شاید اقبال کے خواب کو چکنا چور کرنے کے قریب کر دیا ہے ۔ اقبال کے نظریات کا اطلاق راقم الحروف کے خیال میں عہدِ حاضر پر بھی اسی طرح ہوتا ہے جیسا کہ عہدِ گزشتہ ہوتا تھا کیونکہ ایک معاشرہ ، ایک قوم تو قائم ہوگئی لیکن اس کی تربیت کے لیے اہم ترین عناصر کو نظراندا ز کیا جا رہا ہے جو شاید تعلیمات اقبال جو کہ دراصل تعلیماتِ قرآنی کا ماخذ ہیں سے ہی جاصل کیا جا سکتا ہے، آگے چل کر اس پر سیر حاصل بحث کی جائے گی

عہدِ حاضراور عہدِ اقبال میں تفاوت

آج کا دور کمپیوٹر، ٹیکنالوجی اور سائنس کا دور ہے ، مادی طور پر انسان ترقی کی کئی منازل طے کر چکا ہے ،دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک رسائی حاصل کر چکا ہے ، اس کی قوت ِ تسخیر محض زمین تک محدود نہیں ہے بلکہ ستاروں اور سیاروں پر بھی اپنی کمندیں ڈال چکا ہے ، علم کے شعبہ جات اور برانچیں وسعتوں کے باعث تقسیم در تقسیم ہو چکی ہیں ، تحقیق کے شعبہ میں قابل قدر کارنامے انجام دیئے جا چکے ہیں ، ایجادات کے شعبہ میں دنیا نت نئے اقدامات اور منازل طے کر رہی ہے ۔ مادی طور پر انسان بہت مضبوط اور مستحکم ہو چکا ہے لیکن اخلاقی طور پر اسی قدر پست اور کمزور ہوتا جا رہا ہے ، مادی ترقی کے باوجود عقلی اور اخلاقی طور پر آج کے انسان میں نہ تو عصبیت اور تعصب کے جراثیم ختم ہوئے ہیں اور نہ ہی اس کی عقلی حدود نے دوسرے انسانوں کو کم تر کرنے ، کمزور کرنے اور شکست سے دوچار کرنے میں کوئی کمی کی ہے ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عہدِ حاضر میں جس قدر مادی استحکام حاصل ہوا ہے اس سے کئی گنا زیادہ اخلاقی پستی نے بھی انسان کو اندھیروں کی طرف دھکیل دیا ہے ، اقبال مغرب کی جس تقلید اور اندھی پیروی سے روک رہے تھے آج اسی نے اس خطہ کے مسلمانوں کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ، اقبال کے نزدیک روحانیت ہی بقائے انسانی کا واحد ذریعہ ہے ، تقلیدِ غیر سے جہاں اپنی اخلاقی اقدار کا بیڑا غرق ہوتا ہے وہیں ایک ایسی تہذیب کی ترویج ہوتی ہے جو نہ صرف دینِ اسلام کے سراسر منافی ہے بلکہ انسانی فطرت سے بھی کسی طرح ہم آہنگ نہیں ہے ۔ محض یہی وجہ ہے کہ اقبال یورپ کی اندھی تقلید کرنے والوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ۔ ایسے نوجوان جو یورپ کی تقلید میں مشغول ہیں ان کے بارے میں اقبال کہتے ہیں

ترا وجود سراپا تجلی افرنگ

کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر

مگر یہ پیکر خاکی خودی سے ہے خالی

فقط نیام ہے تو، زرنگار و بے شمشیر ؂۱

عہدِ حاضر میں امریکہ اور برطانیہ جیسی بڑی طاقتیں مسلم ممالک کو کہیں دہشت گردی کا نشانہ بنا کر تو کہیں حالات کی خرابی کا بہانہ بنا کر کچل رہی ہیں۔ عراق، فلسطین، لبیا، افغانستان، اور پاکستان سمت کئی ملکوں میں امریکہ اور اس کے حواری محض اس لیے ظلم و ستم ڈھا رہے ہیں کہ ایک تو یہ ممالک مسلمان ہیں دوسرا ان میں اکثریت ایسے ممالک کی ہے جو دفاعی طور پر مستحکم نہیں ہیں ، سوائے پاکستان کے کسی بھی دوسرے اسلامی ممالک کے ہاں نہ تو ایٹمی طاقت ہے اور نہ ہی اس قدر اہلیت ہے کہ وہ اپنے دفاع کا خاطر خواہ انتظام کر سکے ۔ آج کے عہد میں بھی مسلمان زبوں حالی کا شکار ہیں ، نہ تو ان کے حقوق کا خیال رکھنے کے لیے اتحاد ملت اسلامیہ کی کوئی سکیم یا پلان پیش نظر ہے اور نہ ہی کوئی اجتماعی دفاعی حکمت عملی ہے جس سے مسلم دنیا اپنا تحفظ حاصل کر سکے ۔ دہشت گردی اور دیگر متعدد بہانوں سے مسلم دنیا کی معیشت تباہ کی جا رہی ہے تاکہ یہ تمام ممالک امریکہ ، برطانیہ جیسے ممالک کے دست نگر بن کر رہ جائیں، ان قوتوں کے حواری بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جیسا کہ اسرائیل فلسطین ، شام، مصر اور دیگر عرب ممالک میں جبکہ امریکہ خود براہ راست عراق ، افغانستان اور لیبیا میں سرگرم ہے اور کشت و خون کا ایک بازار گرم کر رکھا ہے

دہشت گردی کے نام پر دوسرے ممالک میں پے درپے قتل عام، بم دھماکے،براہ راست حملے، سرحدوں کی خلاف ورزی ، یہ تمام ایسے عوامل ہیں جو ان ممالک کو جو دراصل ابلیس کی جماعت کے کارندے ہیں ، دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ محض عہد حاضرمیں غیر مسلم ممالک کی امت مسلہ کیخلاف کاروائیوں، ناروا سلوک اور بے دریغ حملوں کی چھوٹی سی نشاندہی ہے۔ حالات اس سے کہیں زیادہ دگرگوں ہیں۔

اب اگر اقبال کے عہد کا تھوڑا سامطالعہ کیا جائے توواضح دکھائی دیتا ہے کہ مندرجہ بالا حالات اس وقت بھی درپیش تھے۔ کہیں اگر فرق ہے تو محض جغرافیائی حدود بدل گئی ہیں ، سازشوں کے انداز بدل گئے ہیں اور حملوں کے طور طریقوں میں فرق آیا ہے ، اقبال کے دور میں بھی مسلمان کسمپرسی کا شکار تھے ۔ عرب ممالک میں ان دنوں بھی مختلف قوتیں برسر پیکار تھیں ، ہندوستان پر تب بھی برطانیہ قابض تھا ۔طرابلس،شام ، مصر اور دیگر مسلم ممالک کو تب بھی ظلم وستم اور دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا تھا، اس وقت بھی مسلمانوں کو مسلمانوں کیخلاف استعمال کیا جاتا تھا اور آج بھی اس میں تبدیلی نہیں آئی ۔ فقط مقامات، ممالک اور لوگ بدل گئے ہیں۔ نہ تو واقعات میں تبدیلی آئی ہے نہ ہی مسلم دنیا کی زبوں حالی اور کفار کی ستم ظریفی میں کوئی کمی آئی ہے۔اقبال کے عہد میں جمعیت اقوام کے نام سے ادارہ قائم کیا گیا تھا اور آج اقوام متحدہ کے نام سے قائم ہے جس کا مقصد تمام دنیا کو یکساں حقوق کی فراہمی یقینی بنانا ہے مگر اس وقت بھی یہ’’ یکساں حقوق‘‘محض طاقتور قوتوں کے اشارے پر دیئے جاتے تھے اور عہدِ حاضرمیں بھی صورتحال اس سے چنداں مختلف نہیں ہے

عہدِ حاضر میں مسلم قوم کا شیرازہ بکھرنے کے قریب ہے اور مختلف سازشوں سے اس میں پھوٹ ڈالی جا چکی ہے۔ میڈیا کا سہارا لے کر ، امرا کو سلطنتوں کا لالچ دے کراورمال ودولت کی چمک کے عوض مسلم دنیا میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا زہر ڈالا جا رہا ہے ۔ کہیں فرقہ واریت اور کہیں استبداد اور علاقائی تعصب کو ہوا دے کر جنگ و جدل کے سامان پیدا کیے جا رہے ہیں۔ یہی صورت حال اقبال کے عہد میں بھی تھی۔ اس وقت بھی امرا خریدے جاتے تھے ۔ فرقہ واریت پھیلائی جاتی تھی ۔ قادیانیت کو فروغ دیا گیا ۔ اسلام کا تشخص خراب کرنے کی مساعی ہوتی رہی۔ہندومسلم اتحاد کے نام پر اسلامی نظریہ حیات کو ہندوازم کے ساتھ گڈمڈ کرنے کی کوشش ہوتی رہی، قومیت کو اوطان کی بنیاد پر تشکیل دینے کے لیے بعض مسلمانوں کا استعمال بھی کیا جاتا رہا ہے۔

عہدِ حاضر کے تقاضے

عصرِ حاضر میں ملتِ اسلامیہ گوناگوں مسائل کا شکار ہے ، چند مسلم ممالک دہشت گردی اور جبرواستبداد کا شکار ہیں تو دوسری جانب چند اسلامی ممالک بے خبری سے اپنی تعیش پسند زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان حالات میں اسلام دشمن قوتیں آہستہ آہستہ اسلام پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے اپنے پر پھیلا رہی ہیں ۔ مسلم دنیامیں مختلف مقامات پر کئی اسلام دشمن قوتیں اپنی شر پسندیاں دکھا رہی ہیں اور امت مسلمہ میں پھوٹ پیدا کر رہی ہیں ۔ اتحادملت اسلامیہ کے خواب کو حقیقت سے کوسوں دور لیے جا رہے ہیں ۔ اس میں امت مسلمہ کوکئی قسم کے مسائل کا سامنا ہے ۔ اول غیر مسلم قوتیں تمام متحد ہوکر اسلام کیخلاف عمل پیرا ہیں ان حالات میں اگر کوئی غیر مسلم قوت اسلام کیساتھ ہے تو اس میں بھی اس کے جغرافیائی ، علاقائی اور معاشی مفادات شامل ہیں یا پھر ان کا ذاتی کینہ اور عداوتیں ہیں جو ان کو مسلمانوں کا ساتھ دینے پر مجبور کر رہی ہیں ۔ لہٰذا امت مسلمہ ایسی غیر مسلم قوتوں پر تکیہ نہیں کر سکتی اور نہ ہی ان پر بھروسہ کر کے اپنی کمزوریوں کو اقوامِ عالم پر عیاں کرنے کی متحمل ہو سکتی ہیں۔ دوسرا مسئلہ فرقہ واریت کا ہے جو اسلام کو اندر سے کمزور کرنے کی ایک بڑی سازش ہے ۔ فرقہ واریت کو ہوا دینے والے عناصر بھی وہی ہیں جو اسلام کو پنپتا اور محفوظ ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ اس لیے چند کم فہم مسلم آئمہ اور اسکالرز کو بھڑکا کر مسلم اتحاد کا خواب توڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔

دینِ اسلام کے استحکام کے لیے جہاں ایک طرف اتحاد عالم اسلام ضروری ہے وہاں فرقہ وایت کا خاتمہ سمیت تمام ایسے مسائل کا خاتمہ بھی ضروری ہے جو اتحاد عالم اسلام کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں ۔ فرقہ واریت کا خاتمہ کیے بغیر نہ تو اسلام مستحکم ہو سکتا ہے اور نہ ہی اقوام عالم کی سازشوں کا جواب دینے کا اہل ہو سکتا ہے ۔ دینِ اسلام کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ اقوام عالم پر اسلام کے تشخص کو بہتر طور پر سامنے لایا جائے اور ایک پرامن دین کے طور پر متعارف کرایا جائے جو کہ اسلام کی اصل ہے۔اسلام دشمن قوتیں گزشتہ دو دہائیوں سے مسلسل اسلام کو محض ایک دہشت گرد ، انتہا پسند اور تنگ نظر و قدامت پسند دین ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ اسلام ایک روشن خیال، وسعت پسند اور پرامن دین ہے ، محض سازشوں کا جال بچھا کر اسلام کا تشخص خراب کرنے کی مساعی کی جا رہی ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کے تشخص کو بہتر کیا جائے ۔ اقوام عالم کو باور کرایا جائے کہ اسلام ایک صلح پسند اور روشن خیال دین ہے جس میں عور ت کو اس کے مکمل حقوق حاصل ہیں ۔ غرباء اور یتیموں اور مساکین کا استحصال نہیں کیا جاتا اور اقلیتوں کو مکمل تحفظ دیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی مذہب میں نہیں دیا جاتا۔دنیا کے کسی بھی مذہب سے اسلامی اقدار کا موازنہ کیا جائے تو بہر صورت اسلام ایک مکمل اور بہترین دین کے طور پر سامنے آتا ہے

عہدِ حاضر کے تقاضوں میں سے ایک اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ اسلامی ممالک کی معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ غیر مسلم قوتیں عالمی منڈی پر اپنا تسلط قائم کرنے میں لگی ہوئی ہیں ۔ ایسے اسلامی ممالک جو معاشی طور پرمستحکم ہیں ان کو فنی طور پراس قدر کمزور اور تعیش پرست کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنی معیشت کی بقا کے لیے دوسروں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں مثال کے طور پر بعض عرب ممالک۔یہ ممالک عالمی منڈی میں ایک مضبوط ترین معیشت ہونے کے باوجود دوسروں کے دست نگر ہیں ۔اسلام نے سود کا خاتمہ کر دیالیکن عالمی بینک غریب ممالک کو قرض کے شکنجوں میں جکڑ کر سود در سود اپنے بینکاری کے نظام کے ذریعہ غریب سے غریب تر کرتے چلے جا رہے ہیں، اس سود سے ان غریب ممالک کے لیے چھٹکارا حاصل کرنا بھی امرِ محال بنتا جا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے سود سے پاک معاشی نظام کو ترجیح دی ہے لیکن اسلام دشمن قوتوں نے قرضوں اور سود کے شکنجوں میں جکڑ کر اسلامی ممالک کو کمزور کرنے کی سازشیں قائم کی ہوئی ہیں جس سے چھٹکارا پانا آسان نہیں ہے ۔ ان معاشی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام مسلم دنیا ایک دوسرے پر انحصار کرے نہ غیر مسلم دنیا پر۔ تمام مسلم ممالک ایک دوسرے کی فنی قوتوٓں سے استفادہ کرے تاکہ مستقبل میں معاشی طور پر غلبہ حاصل کر سکے اور اسلام دشمن قوتوں کے عزائم خاک میں ملا سکے

معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ دفاعی استحکام نہایت ضروری ہے ، دفاعی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو اقوامِ عالم میں فقط پاکستان وہ اسلامی ملک ہے جو ایٹمی طاقت کا حامل ہے ورنہ تمام تر اسلامی ممالک دفاعی استحکام کے لیے غیر مسلموں کے سامنے سرنگوں ہیں۔ اس کے برعکس کئی غیر مسلم قوتیں مثال کے طور پر امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس، اسرائیل، جرمنی وغیرہ سمیت کئی دیگر ممالک کو بھی ایٹمی قوت حاصل ہے اور دفاعی طور پر مضبوط ہورہے ہیں۔ عہدِ حاضر میں جہاں دینِ اسلام کی مضبوطی، اتحادِ عالم اسلام، بہتر تشخص اور معاشی استحکام کی ضرورت ہے وہاں دفاعی طور پر بھی عالم اسلام کو مضبوط کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔ اس کے بغیر عالم اسلام کی جڑیں کمزور ہوتی جائیں گی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کا انحصار غیر مسلم قوتوں پر بڑھتا جائے گا جو کہ اقبال کے تصورات کے بالکل مخالف ہے۔

گزشتہ چند دہائیوں میں مسلم ممالک نے فنی، سائنسی اور علمی نکتہ نگاہ سے قدرے ترقی ضرور کی ہے لیکن یہ ترقی غیر مسلم قوتوں کے مقابلے میں کئی درجہ کم ہے ۔ سائنسی و فنی علوم جو کہ خالصتاً مسلمان سائنسدانوں کے مرہونِ منت ہیں ، ریاضی، الجبرا،کیمیا، طبیعات،جغرافیہ،فنون لطیفہ اور دیگر اہم ترین مضامین جو آج وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں،حقیقت میں ان کی اساس، ان کی ابتدا اور ارتقا کا سہرا مسلمانوں کے سر ہے لیکن عہدِ حاضر میں ان تمام علوم سے غیر مسلم قوتیں استفادہ کر رہی ہیں۔ خطاب بہ نوجوانانِ اسلام میں اقبال اسی چیز کا رونا روتے ہیں

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا

وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا ۲

باالفاظِ دیگر مسلم مفکرین و سائنسدانوں نے جو کارہائے نمایاں نشاۃ اول میں انجام دیئے ، نشاۃ ثانیہ میں تحقیق کا دروازہ بند کر دیا گیا اور اخذ شدہ نتائج پر انحصار ہونے لگا جس سے جمود کی فضا طاری ہوگئی۔یہ جمود محض علمی نہیں تھا بلکہ اس کے اثرات روحانیت، معیشت، زراعت، فنون لطیفہ سمیت ہر شعبہ ہائے حیات پر پڑے۔ یوں مسلم زبوں حالی کا شکار ہوتے گئے ۔ اس کے برعکس غیر مسلم قوتوں نے تحقیق، فن، معیشت،فنونِ لطیفہ سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی کی اور مسلمانوں کے علمی اثاثے سے بطورِ خاص استفادہ کیا جس سے ہر شعبہ ہائے حیات میں وہ مسلمان قوم کو پیچھے چھوڑ گئے۔

تعلیماتِ اقبال

یہ موضوع خاصا وسعت کا حامل ہے کہ اقبال ایک مثالی معاشرے کے قیام اور بے مثل فرد کی تربیت کے لیے کن تعلیمات کو ضروری قرار دیتے ہیں۔اقبال کی تعلیمات پر بحث کے لیے بطور ایک الگ موضوع کام کی گنجائش ہے اور اس پرکافی تحقیقی کام ہو بھی چکا ہے ۔ یہاں محض ایک جھلک دکھائی جائے گی کہ اقبال کے نزدیک ایک مثالی معاشرے اور مثالی فرد کی تربیت کے لیے کن تعلیمات کا ہونا ضروری ہے اور ان تعلیمات پر کیا عوامل اثر انداز ہوتے ہیں

تعلیم فکرِ اقبال کی روشنی میں

فلرِ اقبال کی روشنی میں تعلیم کی ماہیت اور ارتقا پر بحث کرنے سے قبل ضروری ہے کہ تعلیم کے قدیم اور جدید تصورات کو واضح کر دیا جائے۔یہاں دونوں تصورات کا مختصر سا تعارف و جائزہ پیش کیا جائے گا

ابتدا میں انسان کی ضرورتیں محدود تھیں،روایات کا رنگ غالب تھا، سنی سنائی کہانیوں، داستانوں ، قصوں کا سلسلہ سینہ بہ سینہ چلنا، حساب کتاب کے نہایت اولین مدارج سے آشنائی ، بزرگوں کی روایات پر عمل کرنا ، دماغ کو معلومات سے بھر لینا ، قوت ِ حافظہ پر زور دینا ۔ یہی چند ایک چیزیں تھیں جنہیں ابتدا میں علم سمجھا جاتا تھا ،روزگار تعلیم کامقصد نہ تھا اور طلبا کی حیثیت محض اشیا کو دیکھ کر یا معلمین سے استفادہ کر کے محض نقل کرنا تھی۔ باقاعدہ درس گاہوں کا تصور نہ تھا اور اگر کہیں مدارس موجود تھے بھی تو علم کی نوعیت اسی مدرسہ کے اندر تک استفادہ کرنے پر محیط تھی۔اس کے مقابلے میں جدید تعلیم نے معلم اور متعلم کو سیکھنے اور سکھانے میں ایک دوسرے کی معاونت کا درجہ دیا ، مضامین کا احاطہ وسیع کیا گیا ۔ تعلیم محض عقلی تفکر تک محدود نہیں رہ گئی بلکہ عملی زندگی میں اس کا اطلاق پوری طرح ہونے لگاہے۔عہدحاضرکی ضرورتوں کے پیش نظر تعلیم اورنصاب تعلیم میں بھی نئی جہتیں پیداکی گئی ہیں۔ نفسیاتی ضرورتوں اورمعاشرتی رویے سکھانے کی ضرورتوں پر خاص کر زرو دیا جارہا ہے۔تعلیم شراکتی عمل بن چکا ہے جس میں استادکی اہمیت رہنما کی ہے اورطالبعلم سکالر بن چکا ہے۔ یادکرنے اوررٹے لگانے کی بجائے عمل سرگرمیوں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ تخلیقی فکروعمل کی افزائش کی جارہی ہے اور متوازن شخصیت کی نشوونما کیلئے عمل تعلیم میں خاص زوردیا جارہا ہے۔جدید اور قدیم تعلیم کے تصور کے سرسری مطالعہ کے بعد اقبال کے تعلیمی نظریات کا تھوڑا سا جائزہ لیا جائے گا۔اقبال درحقیقت کوئی ماہر تعلیم نہ تھے اور نہ ہی انہوں نے تعلیم کی پالیسیوں، نصابِ تعلیم یا عملِ تعلیم کے بارے میں عملی طور پر زیادہ خامہ فرسائی کی تاہم ان کے اشعار، بیانات اور چند مضامین سے ان کے نظریہ تعلیم کی بھر پور وضاحت ہوتی ہے۔ اقبال نے جنوری ۱۹۰۳ء کے ماہانہ مخزن میں ’’بچوں کی تعلیم وتربیت‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھا تھا ۔ اس مضمون میں طلبا کی بنیادی تعلیم ، ان کے طبعی میلان و استعداد، قوائے ذہنیہ کی بہتری،اضطراری حرکات کا میلان، قوائے عقلیہ کی عدم یکسوئی، قوتِ متخلیہ یا واہمہ کی کثرت، قوتِ ممیزہ کا کمزور ہونا اور حافظے میں تیزی جیسے عوامل پر زور دیا گیاہے، اگرچہ یہ اقبال کے فلسفہ تعلیم کا مکمل غماز نہیں ہے اوراس میں محض بچوں کی تربیت کے حوالے سے چند اصول متعین کیے گئے ہیں تاہم یہ مضمون اس امر کا ثبوت ضرور ہے کہ اقبال ابتدا ہی سے تعلیم و تربیت کے متعلق ایک خاص رائے رکھتے تھے، اگرچہ ان کی رائے میں بتدریج تبدیلی آئی اور بالآخر ان کے بکھرے ہوئے تعلیمی افکار کو سمیٹ کر ایک مدرسہ تعلیم کی بنیاد ضرور رکھی جا سکتی ہے ۔ اقبال کے نطریہ تعلیم کی مماثلت ان کے نظریہ حیات سے بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔جو اقبال کا نظریہ حیات ہے دراصل وہی ان کا نظریہ تعلیم ہے۔ اقبال زندگی کے ہر پہلو میں ارتقا کے قائل ہیں ۔ ان کے نزدیک یہی ارتقائی کیفیت زندگی کو رواں دواں رکھے ہوئے ہے اور کچھ ایسی ہی صورت حال ان کے نظریہ تعلیم میں پائی جاتی ہے۔ تعلیم بھی ارتقائی کیفیات میں رہتی ہے۔ معاشرتی، سیاسی، سماجی، زمانی و مکانی رویے اور عوامل اس پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں اور اس کے اندر ارتقا وقوع پذیر ہوتا رہتا ہے۔گویا اقبال کا نظریہ حیات اور ان کا نظریہ تعلیم دراصل ایک دوسرے کے بہت قریب قریب ہیں۔ اقبال محض حواس کی تربیت نہیں چاہتے بلکہ وہ باطنی تربیت پر زور دیتے ہیں۔ اقبال منطق اور ریاضی کے اثباتی پہلوؤں کے بھی حامی ہیں، سائنس اور ٹیکنالوجی کی وسعتوں اور ان سے متعلقہ دیگر علوم کی نفی نہیں کرتے ۔ ہاں اگر کہیں وہ مشینوں کی مخالفت کرتے ہیں تو محض اس لیے کہ وہ مادے کو روحانیت پر غالب آتا نہیں دیکھ سکتے۔ ان کے نزدیک مادی اور روحانی تعلیم و عولم کو پروان چرھانے کے لیے ایک یکساں پیمانے کی ضرورت ہے۔ نہ تو مغرب کی مادیت کی طرح اس میں اس قدر غوطہ زن ہوجائیں کہ وہ روحانیت سرے سے ہی غائب ہو جائے اور نہ ہی مشرق ی روحانیت میں ڈوب کر مادیت کو فراموش کر دیں، ان کے نزدیک مادیت و روحانیت کے باہمی اشتراک اور ان کے آپسی مناسب تناسب کے ساتھ ہی تعلیم اور تربیت دونوں ناممکن ہیں

ٍاقبال کے مقاصد تعلیم کی طرف نظر دوڑائی جائے تو واضح طور پر اقبال ایک مصلح کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔ اقبال کی خودی جو کہ ان کی فکر و استدلال کا بنیادی نکتہ ہے ، اسی کے گرد اقبال کے تمام نظریات گھومتے ہیں۔ دیگر تمام نظریات کی ماہیت اور ان کا خمیر اسی ایک نکتہ خودی سے بنایا گیا ہے۔ اقبال کے نظریہ تعلیم پر بھی خودی و بے خودی کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک تعلیم کا اہم ترین مقصد تربیت ِ خودی ہے اس کے بعد خودی اور بے خودی کا تحفظ اور ان کے درمیان تسلسل کا قائم کرنا ہے۔ ان کی افزائش کرنا اور ان میں توازن رکھنا بھی تعلیم ہی کا مقصد ہے ۔ محمد احمد خان نے اپنی تصنیف ’’اقبال اور مسئلہ تعلیم‘‘میں تعلیم کے تین بنیادی مقاصد بیان کیے ہیں

۱۔انسانی خودی کی بہتر نگہداشت و نشوونما

۲۔خودی اور بے خودی میں توازن اور تسلسل کا قیام

۳۔خودی اور بے خودی کے درمیان تحفظ اور ان کی افزائش

مندرجہ بالا تینوں مقاصد کا بغور جائزہ لیا جائے تو واضح دکھائی دیتا ہے کہ اقبال کے مقاصد تعلیم دراصل وہی ہیں جو خودی کے بنیادی نکات ہیں۔ اقبال انفرادیت سے اجتماعیت کی طرف بڑھنے کے قائل ہیں۔ اس لیے ایک فرد کی تربیت پر مکمل توجہ دے کر اسے تعلیم دے کر پورے معاشرے کی تعلیم و تربیت کرنے کے خواہاں ہیں۔ گویا خودی اور بے خودی کا جو تسلسل اور ارتقا ان کی فکر میں موجود ہے وہی ارتقا اور تفکر ان کے نظریہ تعلیم میں بھی کارفرما ہے اور اسی کی بنیاد پر وہ مقاصد تعلیم بھی متعین کرتے ہیں۔ اقبال نے ایک اور اعلیٰ کام یہ کیا ہے کہ انہوں نے مغرب و مشرق کے تعلیمی نظام کے مطالعہ کے بعد قرآن پاک کی روشنی میں ایک نظام متعین کرنے کی مساعی کی ہیں ، ان کے افکار اور نظریات پر قرآن حکیم کے واضح اثرات اس امر کی نشاندہی کے غماز ہیں۔

اقبال کے تعلیمی نظریات پر قرآن مجید کے اثرات

ابتدا سے ہی اقبال کے تصورات پر قرآن مجید کا عکس نظر آتا ہے تاہم یہ تقش اسرار و رموز کی اشاعت کے بعد اور بھی واضح ہوگئے۔اقبال کی شخصیت اور فن پر قرآن کی جو اثرات دکھائی دیتے ہیں ان کی طرف سب سے پہلے مولانا ابولاعلیٰ مودودی نے توجہ کی۔ انہوں نے ۱۹۳۸ء میں مجلہ جوہر (اقبال نمبر)میں ’’حیاتِ اقبال کا ایک سبق‘‘کے عنوان سے مضمون تحریر کیا۔اس مضمون میں پہلی بار اقبال کے نئے فکری گوشے کو سامنے لایا گیا۔اقبال کی شخصیت اور فن پر قرآن مجید کے اثرات کی نشاندہی کے لیے یہ مضمون پہلی کڑی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔اس مضمون کے دو سال بنعد ابو محمد مصلح کی تصنیف’’اقبال اور قرآن‘‘منظر عام پر آئی ۔ اسی موضوع پر ۱۹۵۰ء میں قاضی محمد ظریف کی کتاب’’اقبال قرآن حکیم کی روشنی میں‘‘منطر وجود پر آئی۔اس کتاب کی اشاعت کے پانچ سال بعد پرویز کی کتاب ’’اقبال اور قرآن‘‘سامنے آئی تاہم پانچویں ایڈیشن تک پہنچتے پہنچتے اس میں خاصی تبدیلی وقوع پذیر ہوگئی اور اس کے نام کو بھی بدل کر ’’اقبال اور قرآن، فکر و پیامِ اقبال۔قرآن پاک کی روشنی میں‘‘کر دیا گیا۔ اس میں اقبال کی اسلامی فکر پر تو بحث ضرور موجود ہے لیکن براہِ راست قرآن مجید کے اثرات سے متعلق نہیں ہے۔سہ ماہی اقبال اکتوبر ۱۹۷۲ء اور جنوری ۱۹۷۳ء کے شمارہ نمبر ۲ میں عباداﷲ فاروقی کا مضمون ’’کلامِ اقبال میں تلمیحاتِ قرآنی‘‘شامل ہے۔تاہم یہ مضمون بھی اقبال کے قرآنی نظریات کا مکمل ترجمان نہیں ہے بلکہ محض ایک پہلو کی تھوڑی سے نشاندہی ہے۔ڈاکٹر غلام مصطفی خاں کی تصنیف ’’اقبال اور قرآن‘‘۱۹۷۷ء میں پہلی بار منظر عام پر آئی۔یہ اس موضوع پر ایک جامع اور مدلل کتاب ہے۔ اس سے قبل اس موضوع پر اتنی ضخیم اور وسیع تصنیف نہیں ملتی۔اس کتاب میں اقبال کی فکر کو تفصیل کے ساتھ قرآن حکیم کی روشنی میں دیکھا گیا ہے

مندرجہ بالا مختصر بحث سے ایک بات سامنے آتی ہے کہ اقبال کی شخصیت ، فن اور ان کے کلام پر قرآن پاک کے اثرات واضح طور پر موجود ہیں، اور ان کے تمام تر نظریات ہا تو قرآن پاک سے اخذکردہ ہیں یا پھر ان پر قرآن مجید کا پرتو ضرور پایا جاتا ہے۔ذیل میں اقبال کے دیگر تمام نظریات سے قطع نظر اقبال کے نظریہ تعلیم پر قرآنی اثرات کا جائزہ لیا جائے گا

اقبال کا نظریہ تعلیم چونکہ ان کے نظریہ حیات سے بہت مماثلت رکھتا ہے اور یہ نظریہ بھی ان کے نظریہ خودی کے تابع ہے۔اس لیے اقبال کے نزدیک تعلیم کا مقصد تربیت خودی،روحانی صلاحیتوں کی بہتر طور پردیکھ بھال و نگہداشت، ان روحانی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ایک مثالی فرد کی تکمیل کرنا ہے جو بالآخر ایک مثالی معاشرے کے قیام میں بھرپور طور پر اپنا کردار ادا کر تا ہے۔دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ خودی کا نظریہ اساس ہے اور دیگر تمام تر نظریات عمارت(ہم فرد کو ایک عمارت کہہ سکتے ہیں)کی تعمیر میں اینٹوں، سیمنٹ،بجری اور گارے جیسا کام کرتے ہیں۔ان میں سے کوئی ایک چیز بھی موجود نہ ہو تو عمارت یا تو تعمیر نہ ہوسکے گی یا پھر اس قدر نحیف ہوگی کہ ذرا سی لرزش سے منہدم ہوجائے گی۔اقبال کا نظریہ تعلیم اس عمارت کا جزولانیفک ہے جس کے بغیر اس عمارت کو نہ تو استوار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی قائم رکھا جاسکتا ہے۔اقبال کے نزدیک علم و تعلم کے راستے کا درست ہونا ضروری امر ہے۔جن کا علم درست ہوتا ہے ان کی تکبیر میں بھی ایک انقلاب انگیز شان پائی جاتی ہے جس کسے باعث کسی بھی قوم میں انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے ۔ خدا تعالیٰ درست علم والوں کو اعلیٰ درجہ پر فائز کرتا ہے۔ بالِ جبریل میں ہے

ہے تری شان کے شایاں اسی مومن کی نماز

جس کی تکبیر میں ہو معرکہ ء بود و نبود ۳

اس معرکہء بود و نبود کا خمیر دراصل علم سے ہی اٹھتا ہے اور اس کی درست معلومات کے لیے نہ صرف علم کا درست ہونا ضروری ہے بلکہ تحقیقی لوازمات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے ورنہ ہلکی سے لرزش اس معرکہ بود و نبود میں اثبات سے نفی کی طرف لے جانے کے لیے کافی ہے۔اہلِ علم کے درجات کے بارے میں اﷲ تعالیٰ سورۃ المجادلہ کی آیت ۱۱ میں فرماتا ہے

یرفع اﷲ الذین اٰمنومنکم والذین و اتوالعلم درجٰتِِ

اﷲ تعالیٰ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا ہے، درجات بلند فرماتا ہے

یہ علم کی فضیلت ہی ہے کہ جاہل اور عالمی برابرنہیں ہوسکتے اور اہلِ علم کو دوسروں پر فوقیت حاصل ہے۔اقبال کے نزدیک علم روحانی تربیت کا ذریعہ ہے لیکن فکر معاش اس کے ساتھ منسلک کر کے علم کی اصلیت کو داغدار کر دیا گیا ہے۔ علم کو ڈگریوں کے حصول اور حصولِ معاش کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے ، اس سے مادی ترقی تو ممکن ہے لیکن اخلاقی ترقی ممکن نہیں ہے۔ اس لیے اقبال اس مادیت پرستی کی مخالفت کرتے ہیں ۔ وہ ایسے مدرسوں کے بھی مخالف ہیں جن میں تربیت خدی کی بجائے حصولِ معاش کے لیے تعلیم دی جاتی ہے ۔ ایسے اساتذہ سے بھی سخت نالاں ہیں جو بچے کی باطنی صلاحیتوں کی تربیت نہیں کرتے بلکہ انہیں رٹی رٹائی ہوئی چیزیں سکھا کر معاش کے حصول کے مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ بالِ جبریل میں ہے

شکایت ہے مجھے یارب خداوندانِ مکتب سے

سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا ۴

اقبال ایسے مدرسوں سے اس لیے بھی نالاں ہیں کیونکہ یہ پیٹ بھرنے کے طریقے بتاتے ہین جبکہ خداوند کریم نے حقائق کی جانچ کی تعلیم دی ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت ۳۱ میں ہے

 و علم اٰدم الاسماء

اور اﷲ نے آدم کو (چیزوں کے)نام سکھائے

گویا تعلیم کا آغاز تخلیق آدم کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ یہ وہ شے ہے جس کا انسان کی ہستی کے ساتھ براہ راست تعلق ہے۔ انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی علم معرض وجود میں آگیا لیکن اس علم کی اساس حقیقت پر ہے۔ علم کے مراتب کا لحاظ رکھنا بھی اہل علم کے کارِ ضروری ہے۔ ابلیس نے علم و مرتبہ کی بنیاد پر غرور کیا اور شر کا رہنما بن کر رہ گیا۔ اقبال کے نزدیک اسی لیے مغرور علما کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ وہ ایسے علما کو پسند نہیں کرتے جو اپنے علم کی نمائش کرتا ہے اس کے برعکس وہ علما پر قلندر کو ترجیح دیتے ہیں جس کی نظر علما سے زیادہ عمیق ہوتی ہے لیکن غرور و تکبر نام کونہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ علما تو غرور و رفکر اور ڈر و خوف جیسے عوامل سے خوف زدہو جاتا ہے، دب جاتا ہے لیکن قلندر صرف اﷲ تعالیٰ کی ذات پر تکیہ کرتا ہے اسی لیے کسی سے خوف نہیں کھاتا۔ اقبال کہتے ہیں

قلندر جز دو حرف لاالہ کچھ بھی نہیں رکھتا

فقیہہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا ۵

اسی قلندری کے بارے میں اﷲ تعالیٰ سورۃ الزمر کی آیت ۳۶ میں فرماتا ہے

الیس اﷲ بکافِِ عبدہ

کیا اﷲ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟

قلندرکا تکیہ محض ذاتِ خداوندی پر ہوتا ہے اس لیے اس کا ایمان کسی مشکل سے متزلزل نہیں ہوتا۔وہ اپنے آپ کو ذاتِ الہٰیہ میں اس قدر گم کر دیتا ہے کہ تمام تر پردے اس پر وا ہوجاتے ہیں۔اسے دنیا کی کوئی پروا نہیں رہتی، اس کا مقصد محض خشیتِ الہٰی اور رضائے خداوندی کا حصول بن جاتا ہے۔یہ اقبال کے نظریہ خودی کا انتہائی مقام ہے جہاں پر اﷲ کی رضا مومن کی رضا بن جاتی ہے اور مومن کی خواہش اﷲ کی مشیت بن جاتی ہے ۔ اس مقام کے حصول میں جو ریاضتیں ،مشکلات ، اصلاح نفس و تزکیہ نفس اور تربیتِ نفس کی منازل آتی ہیں ان تک محض چند لوگ ہی رسائی حاصل کرپاتے ہیں۔قلندر کا ہر لفظ مشیتِ ایزدی کے مطابق ہوتا ہے اور اس کا ہر عمل احکامِ الہی کے تابع ہوتا ہے ۔ اس مقام پر پہنچ کر وہ شعوری خودی کے اعلیٰ ترین درجہ پر فائز ہوجاتا ہے۔اس کی زندگی پر احکام ِ الہی اس طرح نافذ ہوجاتے ہیں کہ ان سے الگ نہ تو وہ رہ سکتا ہے اور نہ ہی اس کی سوچ کے زاویے اس کو سکون کی کیفیت پر منتج رہنے دیتے ہیں۔اس کی زندگی محض رضائے الہی کا حصول کا ذریعہ بن کر رہ جاتی ہے ۔قرآن حکیم ایسی ہی تعلیم دیتا ہے جس میں سخت کوشی، اصلاح نفس ، تزکیہ باطن اور استوارِ خودی جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ سورۃ البلد کی آیت ۴ میں ایسی ہی مشقت کا بیان ہے

لقد خلقنا الانسان فی کبدِِ

بے شک ہم نے انسان کو مشقت میں رہتا پیدا کیا

گویا قرآن پاک انسان کی مشقت اور سخت کوشی کا قائل ہے۔ اﷲ تعالیٰ سخت کوشی، پیکار اور سعی کو پسند فرماتا ہے۔ خدائے کریم عزم و استقلال اور باہمت لوگوں کے لیے منزل کی راہ آسان فرما دیتا ہے جبکہ راہِ منزل کی دشواریوں سے خوفزدہ لوگوں کی مدد نہیں فرماتا۔انسان کی پیدائش کا مقصد ہی سخت کوشی ہے اور اس جذبہ سے جی چرانے والا ذاتِ خداوند کے نزدیک بلند تر کبھی نہیں ہو سکتا۔اقبال کی سخت کوشی کا یہی نظریہ اس کے نظریہ تعلیم میں بھی کارفرما ہے۔ حصولِ علم کے لیے سخت کوشی اختیار کرنے سے نہ صرف اس علم کی افادیت و معرفت کا ادراک حاصل ہوتا ہے بلکہ اس کی قدروقیمت بھی بڑھ جاتی ہے اور مرحلہ شوق کے طے کرنے میں عجیب لذت آفرینی کا احساس ہوتا ہے

علم میں بھی سرور ہے لیکن

یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں ۶

اقبال مردوعورت دونوں کے لیے تعلیم کو لازم قرار دیتے ہیں۔لیکن وہ مروجہ تعلیمی نظام سے ہٹ کر تعلیم چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں معاشرے کے لیے مشینوں کی نہیں زندہ سوچ بچار رکھنے والے ، اپنے اندر اخلاقی قوتیں رکھنے والے انسانوں کی ضرورت ہے۔اقبال ایسے نوجوانوں کے مخالف ہیں جو اپنے معاشرتی طور طریقے بھول کر مغرب کی یلغار کا شکار ہوگئے اور جنہوں نے نہ صرف اپنی ہیئت بدل لی بلکہ اندر سے بھی تبدیل ہوگئے ہیں۔ انہوں نے یورپی طرزِ زندگی اختیار کر لیا ہے جو کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا ، ایسا طرزِ زندگی جس میں اسلام کی روح تار تار ہوجاتی ہے۔ تاہم اقبال ایسے نوجوانوں سے بھی مطمئن نہیں ہیں جنہوں نے خالصتاً مشرقی لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور مشرق کی ان روایات پر بھی سختی سے عمل پیرا ہیں جن میں تغیر کا عنصر مفقود ہے اور سکوت کی فضا طاری ہے، جو ملایت کو فروغ دے رہے ہیں،جنہوں نے تحقیق کے دروازے خود پر بند کر رکھے ہیں اور ایک متعین راستے پر چل رہے ہیں۔وہ اہلِ دانش سے زیادہ اہلِ نظر کے متلاشی ہیں جوانہیں کہیں نہیں دکھائی دے رہے

اہلِ دانش عام ہیں، کم یاب ہیں اہلِ نظر

کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایاغ ۷

فقط اتنا ہی نہیں بلکہ وہ شیخ مکتب کے طریقہ درس سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ ان کے خیال مں روایت پرستی نے مدرسوں میں ایک انحطاط کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے جس وجہ سے نظامِ تعلیم میں ایک قسم کا ٹھہراؤ پیدا ہوگیا ہے۔ان کے خیال میں شیخ مکتب بجلی کا چراغ کبریت سے روشن کرنے میں مگن ہے جو کہ علم کی اصلیت نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ وہ راستے سے بھٹکا ہوا ہے۔ صرف شیخ مکتب نہیں بلکہ اقبال طالب علم سے بھی نالاں ہیں ، ان کے خیال میں جب تک نوجوانوں میں خودی پیدا نہیں ہوگی اس کے اندر کی صلاحتیں بیدار نہیں ہوسکیں گی، صرف سبق یاد کر لینے سے خفتہ صلاحتیں بیدار نہیں ہوتیں بلکہ اس کے لیے محنت، ہمت، کاوش اور تحقیق کی ضرورت ہے جس سے آج کا نوجوان غافل ہے ،ضربِ کلیم میں شامل نظم’’طالب علم‘‘میں اقبال نے کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا ہے

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو

کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں ۸

اقبال چاہتے ہیں کہ نوجوان درست علم حاصل کریں اور اس کا اطلاق عملی زندگی پر کریں، علم برائے حصول روزگار نہ ہو بلکہ تحصیل علم کا مقصد تربیت خودی ہواور اس تربیت میں کامیابی ہی معاشرے کی اصلاح کا باعث بن سکتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہی تعلیم اس کے لیے روزگار کے حصول کا سبب بھی بنتی ہے اگرچہ کہ روزگار اس کی تعلیم کا مقصدِ اولیٰ نہ ہو بلکہ ثانوی مقصد ہو۔اقبال کے خیال میں مرد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ گھر کے لیے روزی کا بندوبست کرے ، دفاتر میں کام کرنا مردوں کو زیب دیتا ہے عورت کو نہیں اور اسلام کی تعلیمات بھی یہی ہیں ، قرآن مجید میں ارشاد ہے

الرجال قوامون علی النساء

مرد غالب ہیں عورتوں پر

اقبال ایسی عورت کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے جو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرے، ان کے خیال میں عورت کا کام تربیت قوم ہے اور قوم کی تربیت ایک فرد کی تربیت سے شروع ہوتی ہے۔ عورت اگر گھر میں اپنے بچوں کی درست طریقہ سے تربیت کرے تو یہی کافی ہے۔ گھر میں روزی روٹی کا کام مردوں کے ذمہ ہونا چاہیئے ۔ عورت کو گھر کی ذمہ داری سنبھالنی چاہیئے تاہم عصر حاضر کے نام نہاد روشن خیال طبقہ میں اس خیال کی سخت مخالفت پائی جاتی ہے۔ ان کے خیال میں عورت کو مکمل حقوق دینا ضروری ہیں، اقبال عورت کو حق دینے کے مخالف بالکل نہیں ہیں بلکہ وہ تو اس خیال کے مخالف ہیں کہ عورت کو مردوں کے برابر لا کھڑا کر دیں اور دفاتر میں ایک شو پیس کے طور پر سجا کر کھڑا کر دیں کیونکہ اگر عورت بھی مرد کے ساتھ دفتروں میں کام کرے گی تو نسلِ نو کی تربیت کا ذمہ کون اٹھائے گا اور ایک عمدہ اور بہترین قوم کی تشکیل کس طرح ممکن ہو گی۔اقبال ایسی تعلیم کے مخالف ہیں جس نے عورت کو ایک نمائشی چیز کے طور پر پیش کیا ہے اور اپنے حقیقی مقاصد سے روگرانی کی ہوئی ہے، ان کے خیال میں فرنگی قوم نے عورت کوشو پیس بنا کر دفتروں میں بٹھا دیا ہے جس کی نقالی میں ہمارے معاشرہ میں عورت کو دفتر میں بٹھا کر کام کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے ۔ اقبال نقالی کے بھی خلاف ہیں کیونکہ یہ ضعفِ خودی کا باعث بنتی ہے۔اقبال عوت کو فرنگی تہذیب کی پیروی میں دفتروں میں کام کرنے سے اس لیے بھی روکتے ہیں کہ اس طرح عورت اپنے فرائض منصبی سے غافل ہوجاتی ہے اور اس میں خداتعالیٰ نے جو خاصیت ِ نسوانیت رکھی ہوئی ہے وہ بھی معدوم ہو کر رہ جاتی ہے

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن

کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت ۹؂

اقبال کے ہاں عورت کی تعلیم کی یکسر مخالفت نہیں ہے بلکہ ایسی تعلیم کی مخالفت ہے جو آئندہ نسل کی تربیت میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے

عہدِ حاضر پر افکارِ اقبال کا اطلاق

جب کوئی تہذیب، معاشرہ یا قوم تشکیل پاتی ہے یا معرضِ وجود میں آتی ہے تو اس کی تشکیل وترتیب کے عناصر کو اس کے ساتھ باہم مربوط کیا جاتا ہے تاکہ مستقبل میں وہ تہذیب، معاشرہ یا قوم نہ صرف اپنے نصب العین کو ظاہر کر سکے بلکہ مکمل طور پر اس پر عمل پیرا ہو کر اس کی ترویج بھی کر سکے۔اقبال کا قومیت کا نطریہ اپنے اندر بہت ہی جداگانہ خصوصیات رکھتا ہے جو اسلامی معاشرے کی تہذیب و تمدن، اس کی جغرافیائی حدود سے ماورا تحفظ اور اتحاد عالم اسلام کا علمبردار ہے۔اسلامی تہذیب کا سب سے منفرد پہلو یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں بسنے والے مسلمان ایک قوم ہیں، اس میں لسانی، جغرافیائی، معاشرتی، تہذیبی، معاشی و سماجی عوامل کو پس پشت ڈال کر صرف اسلام کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔اقبال کا یہ نظریہ خاصا دلچسپ اور وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے تاہم عہدِ حاضر میں اگر قومیت کے نظریہ کا جائزہ لیا جائے تو کہیں حسین احمد مدنی کا وہ بیان جس میں انہوں نے کہا تھا کہ قومیں اوطان سے تشکیل پاتی ہیں، درست تو معلوم نہیں ہوتا۔اقبال کا نظریہ قومیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن عہدِ حاضر میں اگر بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو عرب عربی، پاکستان والے پاکستانی،ہندوستان والے ہندی، ایران کے باسی ایرانی، مصر کے رہائشی مصری، شام کے شامی اورافغانستان کے باشندے افغانی تو کہلانا شروع نہیں ہوگئے۔ یقیناً کچھ ایسا ہی ہے۔ اقبال کا نظریہ قومیت جس میں دنیا بھر کے مسلمان ایک جماعت بن کر ابھرتے ہیں،سب کے مفادات و نقصانات یکساں ہیں، کہیں وطنیت کے اس نظریہ کے زیر آکر اپنی حقیقت کھو تو نہیں رہا جس کا مطمح نظر مذہبی حدود نہیں بلکہ جغرافیائی حدود پر قائم رہ کر نہ صرف بے چینی و انتشار کا شکار ہونا ہے بلکہ اتحاد مسلم کے خواب کو بھی چکنا چور کر دینا ہے۔ عہدِ حاضر میں وطنیت کا نظریہ جس کی اساس جغرافیائی حدود پر ہے اقبال کے نظریہ قومیت کو خاصا نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے۔ اسلام ایک بہت بڑی طاقت ہے لیکن اس کو کمزور کرنے کے لیے جغرافیائی حدود متعین کر دی گئی ہیں ،یہی وہ چیز ہے جو اقبال کوپریشان کر رہی تھی اس لیے انہوں نے قومیت کو کسی مخصوص علاقے، فرقے، شہر یا ملک کی حدود سے ماورا کر کے اس کی بنیاد مذہب پر رکھ دی۔تاہم کفار کی سازشوں نے اس نظریہ قومیت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ہیں۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کے نطریہ قومیت کا اطلاق عہدِ حاضر پر کیسے ہو سکتا ہے جو کہ امتِ مسلمہ کے پریشان کن حالات میں وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے

اس امر کی ابتدا کے لیے ضروری ہے کہ اقبال کی تعلیمات اور ان کے افکار سے عام شخص تک کے مستفیض ہونے اور ان کے اذہان میں نشین کرانے کے اقدامات کیے جانے چاہیئں،اس سلسلہ میں اسکولز، کالجزاور جامعات مٰیں تصورات ِ اقبال سے متعلق ایک مضمون شاملِ نصاب ہونا ضروری ہے۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ایسا ہوبھی جائے تو اقبال کی آواز ، ان کی تعلیمات کا دائزہ کار تمام دنیا تک کیسے پہنچ پائے گا۔ اقبال کی تعلیمات چونکہ کسی خاص خظہ یا کسی خاص وقت کے لیے مخصوص نہیں ہیں لہٰذا دنیا بھر میں ان کی تعلیمات کی ترویج کوئی ناممکن عمل نہیں ہے۔اس کے لیے سفارتی سطح پر تعلقات استعمال کرکے مسلم ممالک کی بین الاقوامی جامعات میں اقبالیات کو بطور مضمون شامل کرایا جا سکتا ہے۔یہیں سے اس انقلاب کی ابتدا ہو سکتی ہے جو تمام عالمِ اسلام کو یکجا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔دنیا کے تمام مسلمانوں پر تعلیمات اقبال کے ذریعہ باور کرانا ضروری ہے دنیا کے کسی بھی خطہ کے مسلمان ایک ہیں ، اس لیے سب کے مفادات اور نقصانات بھی یکساں ہیں۔ جغرافیائی بنیادوں پرقائم ترجیحات کو ختم کرکے اسلام کو بنیاد بنا کر برابری کا یکساں پیمانہ بنانا ہوگا۔ایک دوسرے کے وسائل سے استفادہ کرکے مسائل حل کرنا ہونگے۔ نحیف و لاغر ممالک میں اور ان کے باسیوں میں آپسی اتحاد و یگانگت سے ایک نئی روح پھونکنا ہوگی۔اقبال نے جمعیت اقوام کی مخالفت محض اسی لیے کی تھی کیونکہ اس جماعت کو اپنے عزیز ترین ممالک کے مفادات عزیز تھے۔عہدِ حاضر میں کیا اقوامِ متحدہ جمعیت اقوام جیسا کردار ادا نہیں کر ہی جس کو افغانستان، ایران، عراق، فلسطین، پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک میں دہشتگرد نظر بھی آجاتے ہیں اور ان کیخلاف کاروائی بھی ہوجاتی ہے لیکن امریکہ ، روس، اسرائیل، برطانیہ، فرانس میں دہشت گردی کی جھلک تک دکھائی نہیں دیتی۔یہ ممالک جو دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں لیکن دہشت گرد نہیں ہیں ان کے برعکس اگر مسلمان اپنے دفاع کے لیے بھی کچھ کریں تو دہشت گرد کہلاتے ہیں۔ان تمام مسائل کا حل اسی میں ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں اور اپنے اپنے مفادات کی جنگ چھوڑ کر اسلام کی جنگ لڑیں تاکہ کفر اور ابلیس کی جماعت کے کارندوں کو ہر محاذ پرشکست دی جاسکے۔ مسلمانوں کو اپنی بقا کے لیے ایک ایسی تنظیم کی ضرورت ہے جو دنیا کے کسی بھی خطہ میں رہنے والے مسلمانوں کے جان و مال اور ان کے تشخص کی حفاظت کر سکے۔ افکارِ اقبال کے ذریعہ نوجوان نسل میں خودی پیدا کی جاسکتی ہے اور ان میں شعوری طور پر ایسی بیداری پیدا کی جاسکتی ہے جس کے نتیجہ میں ایک مثالی معاشرے کے قیام میں مددملے گی۔ یہی خودی جب اجتماعی خودی (بے خودی)کی صورت میں نمودار ہوگی تو دنیا بھر کے مسلمانوں کی حفاظت کر سکے گی۔ابلیس کی جماعت کی سازشیں عیاں کرے گی اور مکروہ چہروں سے نقاب الٹ دے گی اور جب اقبال کا مردمومن اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ جلوہ افروز ہوگا تو کفار کے قدم اس کی ہیبت سے خود بہ خود تھم جائیں گے۔ کائنات مسخر ہونے کے لیے بے تاب ہوجائے گی۔

مندرجہ بالا تمام عوامل اپنی جگہ درست ہیں لیکن سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ سے تبدیلی شروع کرنا ہوگی کیونکہ تبدیلی ایک فرد سے شروع ہوتی ہے اور پھر اس کا دائرہ کار لامحدود ہوتا جاتا ہے۔اقبال کی تعلیمات بھی یہی ہیں ۔ وہ ایک فرد سے تبدیلی شروع کر کے اس کا اطلاق تمام معاشرے پر کرنے کے خواہاں ہیں اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب اقبال کے افکار تک رسائی ہر خاص و عام کو ہوگی۔اقبالیات کے فروغ کے لیے اقدامات کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں کیونکہ معاشرہ جس تیزی سے مغرب کی یلغار کا شکار ہو رہا ہے اور روشن خیالی کے نام پر اسلامی افکار کی جس طرح دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں اس کی روک تھام اسی صورت میں ممکن ہے کہ یا دینِ فطرت یعنی اسلام کو نافذ کر دیا جائے یا پھر تعلیماتِ اسلامی سے استفادہ کیا جائے ، اقبال اس سلسلہ میں ایک اہم ترین کڑی ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کے افکار محض فلسفہ، مذہب ، دین یا تاریخ پر بحث نہیں ہیں بلکہ انسان کو حقیقت سے روشناس کرانے کا ایک ذریعہ بھی ہیں۔اقبال نے اپنے افکار میں دین اسلام کو اس طرح پیش کیا ہے کہ روحانیت کی روح بھی مسخ نہیں ہوئی اور اس ؒخطہ کے طبعی رجحانات و میلانات کا بھی خیال رکھا ہے تاکہ وہ درست طور پر بہرہ مند ہو سکیں۔یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنے ابلاغ کے لیے نثر کی بجائے نطم کو اپنا وسیلہ اظہار بنایا۔ برصغیر کے لوگوں کا طبعی میلان نظم کی طرف تھا اس لیے ایک ہلچل مچ گئی۔اب موجودہ دور میں اس خطہ کے لوگوں کے میلان کو پیش نظر رکھتے ہوئے افکارِ اقبال کی تبلیغ سے نہ صرف مسلم معاشرہ اپنا توازن قائم رکھ سکتا ہے بلکہ اقوامِ عالم پر بھی اپنا تشخص بہتر طور پر اجاگر کر نے کا اہل ہو سکتا ہے۔اقبال نے تمام عمر اسلامی شعار کی تبلیغ کو مقصدِ حیات بنا کر رکھا اور تصوف و فلسفہ کی پیچیدگیوں کے باوجود اسلام کا تشخص مجروح نہ ہونے دیا ۔ دورِ حاضر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اقبال کی فکر کو عام فرد تک رسائی دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں تاکہ ایک تشکیل شدہ معاشرہ درست طور پر اپنے تشخص کی حفاظت کرسکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حواشی

۱۔اقبال، کلیاتِ اقبال(اردو)، لاہور ، اقبال اکادمی پاکستان،طبع ہشتم،۲۰۰۷،ص۵۴۶

۲۔ کلیاتِ اقبال(اردو)،ص ۲۰۷

۳۔ کلیاتِ اقبال(اردو)،ص۶۱۷

۴۔کلیاتِ اقبال(اردو)،ص۳۶۸

۵۔کلیاتِ اقبال(اردو)،ص۳۶۸

۶۔کلیاتِ اقبال(اردو)،ص۳۷۵

۷۔کلیاتِ اقبال(اردو)،ص۵۹۲

۸۔کلیاتِ اقبال(اردو)،ص۵۹۵

۹۔کلیاتِ اقبال(اردو)،ص۶۰۸

Leave a Reply

1 Comment on "تعلیمات اقبال کا عہدِ حاضر میں اطلاق"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] تعلیمات اقبال کا عہدِ حاضر میں اطلاق […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.