خواتین کے مسائل اور حیدرآباد کی اُردو صحافت

Click Here for PDF File

Click Here for PDF File

ظہور حسین بٹ

سب ایڈیٹر (ٹرینی)، یو این آئی اُردو سروس، سری نگر

 zahoorbhat786@yahoo.in

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تلخیص:۔

خواتین اور مسائل ، دو الگ الگ مسئلے ہیں اور دونوں کا کوئی ملاپ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ خاتون ہی ایک ماں کی حیثیت سے اپنی گود سے ہی اپنی اولاد خواہ وہ ایک بیٹی ہو یا بیٹا، کو زندگی کے ہر مرحلے اور موڑ پر مسائل سے نمٹنے کا درس دیتی ہے۔ مگر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ مسائل سے نمٹنے کا درس دینے والی یہ معلمہ خود مسائل کے بھنور میں پھنس جاتی ہے؟ خرابی کہاں ہے اور کیوں ہے؟ اگر خرابی کہیں ہے تو وہ اُس سماج کے سسٹم میں ہے جس کی خاتون ایک بنیادی جُز ہے، جس سماج کی وجود کا دارومدار خواتین طبقہ پر ہے، جس سماج کی ترقی اور مہذب ہونے کا خواب خواتین طبقہ سے ہی تعبیر ہونے کی گارنٹی عیاں ہے۔ کون نہیں جانتا کہ یہ خاتون ہی ہے جو سماج میں ایک ماں کا رول ادا کرتے ہوئے سماج کو ایک درخشاں نئی پود سے آراستہ کرتی ہے، ایثار ، محبت ، ہمدردی اور ایمانداری سے ایک بیوی کا روال ادا کرتی ہے اور اتنا ہی نہیں اپنی جان سے زیادہ اپنے بھائیوں کو عزیز رکھتی ہے اور بیٹی ، بہن ، ماں اور دوسرے رشتوں کو بڑے احسن طریقے سے نبھاتی ہے۔ اتنا سب جاننے کے باوجود سماج اِس کے ساتھ کیا برتاؤ کرتا ہے! کہیں اِس خاتون کو جہیز نہ لانے کی صورت میں یا تو گھر سے بے دخل کردیا جاتا ہے یا تیل چھڑک کر آگ کے شعلوں کی نذر کیا جاتا ہے، کہیں بے اولاد ہونے کی پاداش میں طعنے دے دے کر یا خلع دیکر اِس کی زندگی کو جہنم بنادیا جاتا ہے اور بات یہاں ہی نہیں رکھتی ہے بلکہ اب گھریلو تشدد ڈھاکر اِسی خاتون کو ذہنی بیماری کا مریض بنادیا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ دنیا کے جو سماج سب سے بہتر ہونے کے دعوے کرتے ہیں وہاں کے حالات مزید ہی ابتر ہے۔ وہاں گھریلو تشدد، جہیز کے ساتھ ساتھ عصمت دری، جنسی بلیک میلنگ جیسے دل آزار واقعات کا رونما ہونا معمول ہے۔ یہ سب ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے خواتین کی زندگیاں اجیرن بنتی جارہی ہیں۔

   عصر حاضر میں خواتین کو دنیا کے کسی مخصوص خطے میں مسائل کا سامنا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ۔ اپنے ملک ہندوستان کی بات کرینگے تو ماضی کے مقابلے میں موجود ددُور میں خواتین کو زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ ماضی کی بات اس لئے چھیڑی کہ تب خواتین کو اسلئے مسائل کا سامنا تھا کہ علم کا چراغ روشن نہیں ہوا تھا اور عورتوں کے تقدس کا لوگوں کو علم نہیں تھا۔ آج علم کا چراغ ہر سو روشن ہے مگر خواتین کے مسائل میں اضافہ بتدریج جاری ہے۔ جہیز یا دوسری وجوہات پر قتل، عصمت ریزی میں غیر معمولی اضافہ، گھریلو تشدد کی لعنت اور کام کی جگہ خواتین کے ساتھ زیادتی جیسے واقعات ہمارے ملک میں اب بہت عام ہوگئے ہیں۔ وہ بھی اِس کے وجود کہ ملک کی ہزاروں ماں بیٹیاں بڑے بڑے حکومتی عہدوں پر فائز ہیں۔ خواتین کے ساتھ زیادتی کو رُوکنے کیلئے اگر کئی ایک قوانین موجود ہیں مگر اثر نفی کے برابر ہے۔ غرض دنیا کے کونے کونے میں خواتین کو ایک یا دوسرے طریقے سے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

   شہر حیدرآباد کی بات کریں تو یہ شہر اپنی ایک مخصوص گنگا جمنی تہذیب کی بدولت پوری دنیا میں جاننا جاتا ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک بہترین تہذیب ورثے میں ملنے کے باوجود اِس شہر میں بھی خواتین کو گونا گون مشکلات و مسائل کا سامنا ہے۔ جہیز کی لعنت پر کنٹرول نہیں ہے اور گھریلو تشدد رشتوں کے مٹھاس کو کھایا جارہا ہے اور نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ شہر میں خلع کی اوسط میں ہر گذرے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اِن سب مسائل کے ساتھ ساتھ شادیوں میں فضول خرچی کا چلن اور شادیوں کے بعد شہر کا بیوی کو شہر میں چھوڑ کر خود روزگار کے سلسلے میں دوسرے ملک کا رُخ کرنے سے بھی خواتین کو بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر مسائل کی چکی میں پسنا پڑتا ہے۔ اِن دلیلوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سماج میں خرابیاں ہیں اور سدھار لازم وملزوم بن گیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حیدرآباد میں یہ مسائل اُس مخصوص طبقہ سے وابستہ خواتین کو درپیش ہیں جو طبقہ اُردو اخبارات کا مطالعہ کرتی ہے۔ حیدرآباد کے اُردو اخبارات میں مسلسل خواتین کو درپیش مسائل کے ازالے سے متعلق مواد شائع ہوتا رہتا ہے۔ خواتین سے متعلق تقریبات جن میں مسائل کی نشاندہی اور سدباب کی تجاویز پر بات ہوتی ہیں کو اچھی خاصی جگہ ملتی ہے۔ شہر کے کثیر الاشاعت اخبارات جیسے سیاست، منصف اور اعتماد میں ہفتہ میں ایک بار خواتین سے متعلق سپلیمنٹ شائع ہوتا ہے اور ایسے سپلیمنٹ میں خواتین قلم کار ہی اپنے جذبات، احساسات اور تخلیقات پیش کرکے خواتین کی زندگیاں بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ مسائل کا حل اور خواتین میں اعتماد پیدا کرنے کی سعی کرتی ہیں۔ قلم کاروں کے ساتھ ساتھ اُردو اخباروں کے ایڈیٹرحضرات کا بھی یہی منشا اور مقصد ہوتا ہے کہ سماج میں خواتین کو عزت کا مقام حاصل ہو اور خواتین بااختیار بن جائیں اور سماج میں پائے جارہے ناسور کا قلع قمع ہو۔ مگر یہ تب تک ممکن نہیں ہے جب تک نہ قارئین باذوق قارئیں بن جائیں۔ اب شہر کے اُردو اخبارات عام شہریوں سے روبرو ہونے کیلئے ایسے پروگراموں کا انعقادکررہے ہیں جن کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ ’خواتین موافق سماج‘ کو یقینی بنایا جائے اور خواتین کو درپیش مسائل کا موقع پر سدباب ہو۔ اِن اخبارات میں ’’روزنامہ سیاست‘‘ کے ’دوبدو‘ عنوان سے پروگراموں کا انعقاد کو قابل تحسین اقدام مانا جاتا ہے اور ضرورت یہی ہے کہ اُردو کے دوسرے روزنامے بھی اِس کوشش کا حصہ بنے تاکہ اُس مہذب سماج کو تشکیل ہو جس میں خواتین کے تقدس کو بالا تسلیم کیا جائے۔ اس مقالے میں ملک کو آزادی ملنے سے پہلے اور آزادی کے بعد خواتین کو درپیش مسائل کے ساتھ ساتھ اُردو صحافت کے رول کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسکے علاوہ حیدرآباد کی خواتین کے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے اِن مسائل کو حل کرنے میں اُردو صحافت کے رول پر بھی روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔

تعارف:۔

عصر حاضر میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ملک و قوم کی تعمیر وترقی کے لئے محنت کررہی ہیں اور ایک تابناک مستقبل کی بنیاد ڈالنے میں مساوِی طور پر عرق ریزی کررہی ہیں۔ مرد اور عورت دونوں ایک ہی گاڑی کے دو پہیوں کی مانند سمجھئے جاتے ہیں۔ وہ زمانہ اب تاریخ کے اوراق میں دفن ہوچکا ہے جب خواتین کو چار دیواری میں مقید رکھا جاتا تھا۔ اُس کی ذمہ داری بس گھریلو کاموں کی تکمیل اور بچوں کی پیدائش و پرورش اور نگہداشت تک محدود کردی گئی تھی۔ اُس کی عوامی مقامات پر موجودگی کو عیب تصور کیا جاتا تھا۔ ہندوستان میں خواتین کی حالت یہ تھی گویا معلوم ہوتا تھا کہ اُنہیں انسانی درجہ ہی حاصل نہیں ہے۔ وہ بھیڑ بکری کی طرح ہانکی جاتی تھیں۔ خاص طور پر ستی کی رسم نے ہندوستانی خواتین کو قربانی کا جانور بنا رکھا تھا۔انگریزوں کی آمد کے بعد اور اِس سے پہلے بھی ستی کے علاوہ دوسرے مسائل نے بھی ہندوستانی خواتین کی زندگیوں پر ڈاکہ ڈالا تھا۔ ستی اور بچپن کی شادیوں کے رسمی چلن نے عورتوں کیلئے خلا کا ماحول پیدا کردیا تھا ۔اِس کے علاوہ خواتین کے سماجی، سیاسی ، تعلیمی ، خاندانی ، معاشی اور دیگر حقوق مکمل طور سلب کئے جاچکے تھے۔ جہاں آزادی سے پہلے ستی کی رسم پر کامیابی سے قابو پالیا گیا تھا اور خواتین پر دیگر مظالم جاری رہے وہیں دوسری جانب آزادی کے بعد ہندوستانی خواتین کی سماجی، معاشی، سیاسی ، تعلیمی اور خاندانی زندگی میں مثبت تبدیلیوں کا دُور شروع ہوا۔

آزادی ہند کے بعد خواتین کی وقعت کو سماجی اور حکومتی سطح پر ضروری سمجھا جانے لگا۔ ساتھ ساتھ سماج میں خواتین کی عزت اور شمولیت مردوں کے برابر لانے کے طور پر پالیسیوں کو وضع کیا جانے لگا۔ سماج نے یہ محسوس کیا کہ خواتین کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا کس قدر ضروری ہے۔ یہ تسلیم کیا گیا کہ خواتین کی گود ہی بچوں کی پہلی تربیت گاہ ہوتی ہے۔ اور اگر اِس تربیت گاہ کی کمانڈر خود تعلیم سے آراستہ اور بہرہ مند نہ ہو تو نئی پود کی خواندگی کی کوئی گارنٹی نہیں رہے گی۔ مجموعی طور پر یہ تسلیم ہوا کہ خواتین کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے۔ اِس اہم رول کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے تعلیم سے آراستہ کیا جانے لگا چنانچہ لڑکیوں کیلئے علٰحدہ اسکول اور کالج قایم کئے جانے لگے اِس لئے کہ یہ واضح ہوگیا تھا کہ خواتین کی تعلیم مردوں سے زیادہ اہم ہے کیونکہ وہ نئی نسل کی تربیت کی آماجگاہ ہے۔ اِس مجموعی سوچ کو ہر ایک تک پہنچایا گیا کہ اگر ایک عورت تعلیم کے نور سے آراستہ نہیں ہوگی تو وہ اپنے بچوں کی صحیح ڈھنگ میں تربیت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ خواتین کو تعلیم سے آراستہ کرنے کا محض یہی ایک مقصد نہ تھا کہ وہ نئی پود کی صحیح سمت رہنمائی کریں بلکہ خود سیاسی اور اقتصادی میدان میں اتر کر ملک کی ترقی میں بھی مردوں کے برابر رول ادا کریں۔

   غرض یہ سب بتانے کا یہی مقصد تھا کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ خواتین کی تعلیم کو نہ صرف ضروری سمجھا گیا بلکہ اِس کو سیاسی، سماجی اور اقتصادی ترقی کی کنجی بھی قرار دیا گیا۔ کسی ملک میں خواتین کی تعلیم کا دُور پہلے شروع ہوا تو کسی ملک میں دیر سے۔ موجودہ دُور کی پوزیشن یہی ہے کہ دونوں مرد اور خواتین یکسان طور تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ دونوں ملک و قوم کی تعمیر وترقی میں یکسان رول ادا کررہے ہیں۔ ہر ایک شعبہ میں خواتین کی شمولیت ہے۔ مگر اِس سب کے باوجود خواتین طرح طرح کے مسائل کی شکار ہیں۔

خواتین کو کہاں کہاں مسائل درپیش ہیں؟

 مسائل دنیا میں رہنی والی کسی مخصوص خطے کی خواتین کو درپیش نہیں ہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ مسائل کی نوعتیں مختلف ہیں اور ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتیں۔ موجودہ وقت میں دنیا بھر میں خواتین کو جنسی تشدد کا مسئلہ درپیش ہے اور سنگین رُخ اختیار کرتا جارہا ہے۔ العربیہ ڈاٹ کام کی ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں مجموعی طور پر سالانہ 80لاکھ خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ صرف افریقہ میں ہی 3ملین سے زائد خواتین جنسی و جسمانی تشدد کا شکار بنتی ہیں۔ جنسی تشدد کے علاوہ جن بڑے بڑے مسائل سے خواتین دوچار ہیں اُن میں جہیز کی لعنت، گھریلو تشدد، شادی کا مسئلہ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ جہیز نہ لانے پر ایک خاتون کو روز روز کے طعنے سننے پڑتے ہیں۔ شوہر کی پٹائی سہنی پڑتی ہے اور یہ افسوس کا مقام ہے کہ کبھی کبھار ساس جن کو ایک ماں کا حقیقی رول ادا کرنا چاہئے تھا اور خود ایک عورت ہوتے ہوئے اپنی بہو پر تشدد ڈھاتی ہے۔ اُسے نذر آتش کردیتی ہے۔ گھریلو تشدد میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ شوہر اور بیوی کے درمیان غلط فہمی اور شوہر کا بیوی کو شک کی نگاہ سے دیکھنا اِس کا سبب بنتا ہے۔ اب سماج میں یہ چلن چل پڑا ہے کہ ہر ایک شخص اونچے گھرانے کی بیٹی کو اپنے گھر کی بہو بنانے کی راہ پر گامزن نظر آتا ہے تاکہ جہیز میں اچھا خاصا مال ومتاع مل جائے۔ اِس سے سماج میں غریب گھرانوں کی لڑکیوں کی شادی کے رشتے کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ اب یہ ہوتا ہے کہ اِن غریب گھرانوں کی چوکھٹ پر جو بھی رشتے کیلئے دستک دیتا ہے تو وہ لڑکے کے کردار،اُس کے ماضی اور حال کے بارے میں جاننے تک کی زحمت نہیں اٹھاتے اور جلد بازی میں رشتے کیلئے راضی ہوتے ہیں۔ اِن حالات میں خاندان والے ہر آنے والے رشتہ کو نعمت غیر متروکہ سمجھنے لگتے ہیں۔ ایسے رشتے کرنے سے تو کچھ وقت کیلئے والدین کے کندھوں پر سے بوجھ کم ہوجاتا ہے مگر بہت سارے واقعات میں اس طرح بیاہی گئی لڑکیوں کو بعد ازاں مصائب اپنی گرفت میں لیتے ہیں۔

ہندوستان میں خواتین کے مسائل:۔

اگر ہندوستان کی خصوصی طور پر بات کریں تو جہاں آزادی کے بعد خواتین کو مسائل سے نجات دلانے پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی اور بااختیار بنانے کا بہترین دُور چل پڑا تھا وہیں آج تک خواتین کے مسائل کا گراف نیچے گرنے کے بجائے مسلسل اوپر ہوتاجارہا ہے۔ ایک طرف ملک میں خواتین اونچے اونچے عہدوں پر فائز ہیں اور وہ بحیثیت صدر جمہوریہ، وزیر اعظم کے عہدے کی بڑی ذمہ داریاں سنبھال چکی ہیں اور آئی اے ایس، آئی پی ایس جیسے بڑے بڑے حکومتی عہدوں پر فائز ہورہی ہیں مگر دوسری جانب ایسا کوئی دن نہیں گذرتا جس دن ملک کی ماں، بیٹی، بہو اور بہن مسائل کا شکار نہ بنے اور اُن پر تشدد نہ ہو۔ ملک کی آزادی سے پہلے اگر ستی کی رسم نے خواتین کی زندگی اجیرن بنادی تھی تو آج جہیز کا لین دین خواتین کے ساتھ ساتھ اُس کے گھر والوں کی زندگی کی خوشیوں پر شب خون مار رہا ہے۔ اگرچہ جہیز کی لعنت پر کنٹرول پانے کیلئے 1961 میں ’انسداد جہیز قانون‘ بنایا گیا مگر اُس کے باوجود یہ وباء موجودہ دُور میں بھی ہندوستانی سماج کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئی ہے اور رشتوں کو مسلسل کمزور کرتی جارہی ہے۔ جہیز کے علاوہ جو دو بڑے بڑے مسائل ہندوستانی خواتین کو درپیش ہیں وہ گھریلو تشدد اور عصمت ریزی ہیں۔ سماجی سسٹم میں خرابی کا موجود ہونا اِن دونوں مسائل کی وجہ ہے۔ سماج میں اخلاقی قدروں کی عدم موجودگی اور برائیوں کا ہونا سماج کے لئے باعث زحمت بن جاتے ہیں۔ قانون سازی سے جرم کے مرتکبین میں خوف تو پیدا کیا جاسکتا ہے لیکن اُن کی ذہن سازی نہیں کرسکتا۔ اِن ہی سماج برائیوں میں ایک برائی شراب نوشی ہے۔ پچھلے برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ عورتوں کے خلاف گھریلو تشدد اور عصمت ریزی کی وجوہات میں شراب نوشی کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ شراب اتنی بُری چیز ہے جس کا پینے والا ماں، بہن ، بہو اور بیٹی میں امتیاز کرنے کی قوت کھو بیٹھتا ہے۔ ایک شرابی جب شراب کے نشے میں چُور گھر آتا ہے تو وہاں اُس کی ماں، بیوی، بہن اور بچے اُس کے تشدد کا شکار بنتے ہیں اور سڑکوں پر ملک کی بیٹیاں۔ چنانچہ شراب کو اُم الخبائث کہا گیا ہے۔ دہلی کے انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسس نے اپنی ایک اسٹیڈی میں یہ پتہ لگایا ہے کہ کیرلا، جہاں ملک میں سب سے زیادہ شراب فروخت ہوتی ہے، وہاں خواتین پر ہونے والے مظالم و جرائم کی شرح 99.6فیصد شراب نوشی کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔ ؂۱۔ نیشنل کرایم ریکارڈس بیورو عورتوں کے خلاف تشدد پر رپورٹیں جاری کرتا ہے اور پچھلے چند ایک برسوں کی رپورٹوں کا مطالعہ کرنے پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کو مختلف طریقوں سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اِس تشدد کی وجہ سے اُنہیں گونا گون مسائل کا سامنا ہے۔ اِسی ادارہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر ایک گھنٹہ میں ملک کی دو خواتین کی عصمت ریزی ہوتی ہیں اور ہر چھ گھنٹے میں ایک شادی شدہ لڑکی کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جسمانی تشدد و آگ کی شعلوں یا دوسرے طریقوں سے موت کی گھاٹ اُتارا جاتا ہے۔ ؂۲ ۔ معروف مصنفہ پروفیسر رادھا کمار کے مطابق ملک میں عصمت ریزی خواتین کے ساتھ زیادتی کا عام نام ہے اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے اِس کو ملک کا قومی مسئلہ قرار دیا ہے۔ ؂ ۳ ۔ این سی آر بی کے اعداد وشمار کے مطابق سال 2011 میں عصمت ریزی کے واقعات میں 9فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ؂۴۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ آج کل ملک کی راجدھانی دہلی ہی عورتوں کیلئے غیر محفوظ بنی ہوئی ہے۔ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور اُن کا اغوا دہلی میں عام ہے۔ دہلی کی پوزیشن سے پورے ملک میں خواتین کی سیکورٹی کا بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دہلی میں روزانہ اوسطاً دو لڑکیوں کی عصمت ریزی ہوتی ہے۔ جہاں 2011 میں 482 عصمت ریزی کے واقعات ریکارڈ کئے گئے وہیں 2012 میں 635۔ عصمت ریزی کو رُوکنے کیلئے اگرچہ آئین میں قانون موجود ہے اور 2013 میں ہی 16 دسمبر 2012 کے دلی واقعہ کے بعد ایک مجموعی مانگ کے تحت نربھیا ایکٹ کو نافذ کیا گیا مگر اِس کے باوجود واقعات میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ قانون سے سماج کی سونچ نہیں بدلی جاسکتی ہے۔ اِس کے لئے زمینی سطح پر اِصلاح کا کام کیا جانا ضروری ہے۔ ہندوستانی خواتین کو درپیش ایک اور مسئلہ ’گھریلو تشدد‘ کا ہے، اگر اِس سنگین مسئلہ پر بات کریں تو نیشنل کرایم ریکارڈس بیور کے مطابق ملک میں ہر تین منٹ میں ایک عورت گھریلو تشدد کا شکار بنتی ہے۔ ؂ ۵۔ گھریلو تشدد ہر ایک ملک اور ہر ایک سماج میں پایا جاتا ہے مگر ہندوستان میں یہ سنگین صورت اختیار کرچکا ہے۔ اگرچہ خواتین کو گھریلو تشدد سے نجات دِلانے کیلئے بھی قانون کی دفعہ 498 (اے) اور پروٹکشن آف وومن فرام ڈومسٹک وولنس ایکٹ 2005 ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ملک کی اکثر خواتین قانون کا سہارا لینے کے بجائے تشدد کو چُپ چاپ برداشت کرلیتی ہیں کیونکہ اُن کی تربیت ہی کچھ ایسے انداز میں ہوتی ہے کہ وہ شوہر کو پرمیشور سمجھیں، اُف تک نہ کریں۔

یہ سب مسائل خواہ وہ جہیز ہو یا گھریلو تشدد یا ہو عصمت ریزی سے خواتین کو گونا گون مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جسمانی اذیتوں سے لیکر جانوں تک سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ جب ایک بیوی اپنے شوہر کی لالچ جہیز کی صورت میں پوری نہیں کرپاتی ہے، یا جب کوئی بیوی روز روز کے گھریلو تشدد سے عاجر آجاتی ہے یا جب کوئی خاتون جنسی تشدد کا شکار بنتی ہے تو بہت سارے واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ ایسی عورتیں مجبوراً خودکشی کرلیتی ہیں۔ جہیز اور گھریلو تشدد سماج کی پَراگندگی کی وجہ بن رہے ہیں۔ یہ خباثت جب سماج کے ہر گھر تک پہنچتی ہے تو گھروں کو جہنم بنادیتی ہے۔ ایسے گھرانوں کو بعد میں خوشی نصیب ہوتی ہے اور نہ ایسے گھرانے منفی سوچ کی وجہ سے آگے بڑھ پاتے ہیں۔ جہیز ، گھریلو تشدد اور عصمت ریزی کے علاوہ ملک کی خواتین کو کئی دیگر قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔ کام کرنے کی جگہ جنسی ہراسانی کا خطرہ ہمیشہ درپیش رہتا ہے، جنس کی بنیاد پر عورت کے ساتھ نابرابری روا رکھی جاتی ہے وہ یہ جانتے ہوئے کہ قانون کے سامنے دونوں برابر ہیں ۔ قانون کو خواتین کے حق میں موثر بنانے کے باوجود بھی خواتین کے حالات میں سدھار نہیں ہوپارہا ہے۔ شاید اِس کی بنیادی وجہ خواتین کے تئیں سماج کا عمومی رویہ ہو یا پھر ہماری اِنتظامی مشنری کا قانون کے نفاذ میں تَساہُل۔ سب سے بڑا دردانگیز پہلو تو یہ ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات، جنگ یا کسی دوسری سیاسی و سماجی اتھل پتھل کا خمیازہ بھی خواتین کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔

حیدرآباد میں خواتین کے مسائل:۔

شہر حیدرآباد کا ذکر کریں تو یہاں خواتین کے مسائل کا مسئلہ ہی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہاں شہریوں کو ورثے میں ایک عظیم گنگا جمنی تہذیب ملی ہے اور علم وادب کا چراغ بہت پہلے روشن ہوچکا ہے۔ مگر یہ بدقسمتی ہے کہ ایک بہترین تہذیب ورثے میں ملنے کے باوجود شہر کی خواتین کو گونا گون مشکلات کا سامنا ہے۔ جہیز ، گھریلو تشدد اور دوسری سماجی برائیاں یہاں کی خواتین کیلئے مسائل پر مسائل پیدا کرتی جارہی ہیں۔ این سی آر بی کی 2010 کی رپورٹ کے مطابق آندھرا پردیش جہیز ہراسانی واقعات میں سرفہرست ہے جبکہ 2010 میں منظر عام پر آئی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ ہر سال جہیز ہراسانی کے تقریباً دس ہزار مقدمے درج ہوتے ہیں۔ ؂ ۶۔ اِسی ادارہ کی 2012 کی رپورٹ کے مطابق آندھرا پردیش میں جہیز ہراسانی کے 2511واقعات درج ہوئے ؂ ۷۔ شہر حیدرآباد کی خصوصی طور پر بات کریں تو جہیز کی وباء رشتوں کی مٹھاس کو ختم کرتی جارہی ہے۔ سٹی کرایم ریکارڈ بیورو کے مطابق جنوری 2012 سے اگست 2012 تک شہر میں جہیز ہراسانی کے 678 مقدمات درج کئے گئے۔ اعداد وشمار کے مطابق 678 میں سے 350 واقعات سنٹرل زون جس میں ریڈ ہلز، مہدی پٹنم، آصف نگر، ملے پلی، لنگر حوض وغیر وغیرہ علاقوں سے درج ہوئے جبکہ 209 واقعات ساوتھ زون جس میں پرانا شہر اور گرد ونواح کے علاقے شامل ہیں سے درج ہوئے ہیں۔ ؂ ۸۔ شہر میں گھریلو تشدد واقعات کی بات کریں تو سٹی کرایم ریکارڈس بیورو کے مطابق جہاں 2009 میں گھریلو تشدد کے 897 واقعات درج ہوئے تھے وہیں 2012 میں اکتوبر تک ہی 1036 درج ہوئے۔ ؂ ۹۔ 2012 میں گھریلو تشدد پر ڈیپارٹمنٹ آف وومن ڈیولپمنٹ اینڈ چیلڈ ویلفیئر کی ایک رپورٹ کے مطابق گھریلو تشدد میں پچھلے پانچ سال کے اعداد وشمار کے مطابق ضلع کرشنا 2290 واقعات کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے جبکہ حیدرآباد 1775 واقعات کے ساتھ دوسرے نمبر پر۔ رپورٹ کے مطابق پچھلے پانچ سال کے دوران ریاست بھر میں مجموعی طور پر 16077واقعات پروٹکشن آف وومن فرام ڈومسٹک وولنس ایکٹ کے تحت درج کئے گئے۔ ؂ ۱۰۔ شہر میں مجموعی طور پر خواتین کے خلاف تشدد کا ذکر کریں تو کمشنر پولیس انوراگ شرما کے مطابق حیدرآباد پولیس کمشنریٹ حدود میں جہاں 2012 میں تشدد کے 1823 واقعات درج کئے گئے تھے وہیں 2013 میں 2124 واقعات درج ہوئے اور اعداد وشمار کے مطابق واقعات میں 16 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ؂ ۱۱۔ این سی آر بی کے مطابق ملک میں خواتین کے خلاف جرائم میں 2012 میں آندھرا پردیش میں 11.5 کا حصہ تھا اور سال بھر 28171 واقعات درج کئے گئے۔ ؂۱۲۔ حقیقی واقعات اِس سے بھی زیادہ ہوسکتے ہیں کیونکہ بہت سارے واقعات کو مختلف وجوہات کی بناء پر متاثرین خود منظر عام پر نہیں لاتے، وہ درج ہی نہیں کروائے جاتے۔

غرض شہر میں جہیز اور گھریلو تشدد خواتین کے لئے بڑے بڑے مسائل کو جنم دے رہے ہیں۔ دونوں (جہیز اور گھریلو تشدد) ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہیں۔ بہت سارے واقعات میں جہیز، گھریلو تشدد کا باعث بنتا ہے۔ اور اکثر واقعات میں نوبت طلاق تک آجاتی ہے۔ بدقسمتی سے جہیز، گھریلو تشدد اور طلاق کا تناسب شہر کے مسلمانوں میں بہت زیادہ ہے جو کہ مسلم خواتین کا بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ جہیز میں بڑی بڑی فرمائشیں ہوتی ہیں۔ صاحب ثروت لوگ تو جہیز کی مانگیں پوری کردیتے ہیں مگر غریب و نادار ماں باپ اور بیٹیوں کو طرح طرح کی سختیاں جھیلنی پڑتی ہیں۔ رہی سہی کسر شادیوں میں فضول خرچی سے پوری ہوجاتی ہے۔ شادیوں میں لین دین اور فضول خرچی کا اسلام میں کوئی جواز نہیں ہے لیکن باوجود اِس کے لوگ اِس بُری رسم کے مضر اثرات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اِسلام نے خواتین کو مکمل تحفظ عطا کیا ہے۔ لین دین اور گھوڑے جوڑے کا مطالبہ غیر اِسلامی ہے بلکہ مرد پر عورت کو عقد کے وقت مہر ادا کرنے کی لازمی شرط رکھی گئی ہے۔ مسلمانوں میں طلاق کی شرح کا زیادہ ہونا ایک افسوس ناک بات ہے۔ اِس پر تب ہی رُوک لگائی جاسکتی ہے جب جہیز ، گھریلو تشدد اور شادیوں میں فضول خرچی کے مشغلوں سے اجتناب کیا جائے ۔ اِن مسائل کے ساتھ ساتھ شہر کی مسلم خواتین کو بھی دیگر مسائل کا سامنا ہے اُن میں ایک یہ بھی ہے کہ اکثر مسلمان شوہر بیوی کو شہر میں چھوڑ کر خود روزگار کیلئے دوسری ممالک کا سفر اختیار کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک عیاں مسئلہ دکھائی نہیں دیتا ہے مگر اِس کے مضر اثرات ایک بیوی پر یقینی طور پڑتے ہیں۔

حیدرآباد کی اُردو صحافت، خواتین کے مسائل اور سدباب:۔

حیدرآباد کی اُردو صحافت خواتین کے مسائل کا سدباب کرنے میں بڑا مفید رول ادا کرسکتی ہے۔ حیدرآباد کی اُردو صحافت کی تاریخ بہت قدیم ہے اور ہندوستان کے اُردو اخبارات میں سے کثیر الاشاعت اخبار بھی حیدرآباد سے ہی شائع ہوتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انگریزی اخبارات کے مقابلے میں اُردو اخبارات میں خواتین کی عکاسی مثبت طریقے سے ہوتی ہے۔ جہاں انگریزی اخبارات خواتین کے خلاف جرائم کو اِس طرح پیش کرتے ہیں کہ قارئین ایسی خبروں کو پڑھنے کے عادی بن جاتے ہیں وہیں اُردو اخبارات میں اظہار افسوس کا پہلو ضرور موجود ہوتا ہے۔ انگریزی اخباروں میں خواتین کی غلط عکاسی نے انسانی دلوں کو پتھر بنادیا ہے۔ خواتین کے ساتھ مظالم کے بعد بے چینی اور پریشانی کا پیدا ہونا فطری ہے مگر انگریزی اخباروں نے قارئین کی ایسی ذہن سازی کی ہے کہ اِن پر کسی قسم کے اثرات ہی مرتب نہیں ہوتے۔ انگریزی اخبارات میں خواتین کی عُریان، نیم عُریان تصاویر کی اشاعت بھی ایک سنجیدہ اور اخلاقی اِعتبار سے بحث طلب مسئلہ ہے جبکہ اُردو اخبارات میں ایسی تصاویر کی اشاعت عمل میں نہیں لائی جاتی ہے کیونکہ خواتین کا احترام ملحوظ رہتا ہے۔ ہمیں اس بات سے قطعی منہ نہیں موڑنا چاہیے کہ جرائم کے خلاف ردعمل کی سطح جتنی کم ہوگی ایسے واقعات کو فروغ اور اِن میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ یہ ایک عام سچائی ہے کہ اُردو اخبارات کے قارئین کا بڑا حصہ مسلمان ہی ہیں اس لئے اِن اخبارات کیلئے لازمی ہے کہ اخلاقیات پر ایسا مواد پیش کیا جائے کہ ایک تو خواتین کا سماج میں تقدس بڑھ جائے اور دویم خواتین کے ساتھ مسائل کی گنجائش ہی نہ باقی رہے۔ اِس میں شک کی گنجائش نہیں کہ حیدرآباد کے اُردو اخبارات خواتین کی راہ میں حائل مسائل ، اِن کی ادبی خدمات، سماجی زندگی، سیاسی رول وغیرہ وغیرہ پر مواد شائع کرتے ہیں۔ اِس سلسلے میں خصوصی ضمیمے جیسے روزنامہ سیاست کا ’گوشہ خواتین‘، روزنامہ منصف کا ’گھر آنگھن‘، روزنامہ اعتماد کا ’آنچل‘ شائع کرتے ہیں علاوہ ازیں دوسرے اخبارات جیسے رہنمائے دکن، صدائے حسینی وغیرہ وغیرہ بھی عورتوں سے متعلق تحریریں شائع کرتے ہیں۔ ایسے ضمیموں اور تحریروں میں زیادہ تر خواتین قلمکار ہی خواتین کی ادبی خدمات، سماجی زندگی، سیاسی رول، تعلیمی ضرورت اور کبھی کبھار خواتین کے مسائل کے ازالے سے متعلق لکھتی ہیں۔ مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ حیدرآباد میں مستقل کالم نویس خواتین کی قلت کا بھی ایک اہم مسئلہ رہا ہے جو خواتین کے مسائل کو اُجاگر کرے۔ کسی بھی حیدرآبادی خاتون کا کسی بھی اُردو روزنامے میں ہفتہ واری کالم دیکھنے کو نہیں ملتا ہے جس میں خواتین کے مسائل کی بات ہو۔ اگرچہ کہ بعض خاتون صحافی موجود ہیں لیکن وہ دیگر مسائل پر لکھتی ہیں مگر خود اپنی صنف کے مسائل کو اُجاگر نہیں کرتیں۔ ابتداء میں اگرچہ روزنامہ سیاست اور روزنامہ منصف نے زیادہ سے زیادہ خواتین قلم کاروں کو لکھنے کی طرف قائل کرنے کی سعی کی تھی مگر وہ کار آمد اور نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکیں۔ اُردو اخبارات میں خواتین کی جانب سے منعقدہ پروگراموں کو بھی اگرچہ اچھی خاصی جگہ ملتی ہے۔ مگر اُردو اخبارات اِس سے بھی زیادہ موثر رول ادا کرسکتے ہیں۔ روزنامہ سیاست نے حال ہی میں شادیوں میں فضول خرچی کے چلن کو رُوکنے کی مہم شروع کی اور کچھ حد تک اثرات بھی دیکھنے کو ملے۔ غریب لڑکیوں کی آسان شادیوں کا پروگرام یہ ادارہ بہت پہلے شروع کرچکا ہے۔ علاوہ ازیں لڑکیوں کی شادی کیلئے سرپرستوں کی دوبدو ملاقات کا پروگرام، عقد ثانی کیلئے بھی سرپرستوں اور خواہشمندوں کی دوبدو ملاقات کا موقع فراہم کیا جانا بہت ہی مستحسن اقدامات ہیں۔ ہاں کچھ چیزیں ہیں جن کے معاملے میں اُردو اخبارات کو خود بھی پرہیز گار بننا ہوگا۔ اُردو اخبارات کے ایک صفحہ پر شادیوں کو فضول خرچی سے پاک بنانے کی بات ہو اور دوسرے صفحے پر ایک اشتہار میں عورت کو ہی شادی کی مہنگی ساڑی زیب تن کیا ہوا دکھایا جائے خود اُردو اخبارات کو زیب نہیں دیتا۔ ایک بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اُردو اخبارات خواتین کے مسائل خاص کر مسلم خواتین کے مسائل دُور کرنے کیلئے ایک مستحسن رول ادا کرسکتے ہیں۔ اِس کیلئے ضروری ہے کہ اول اخلاقی اعتبار سے عورتوں کے تقدس کو پامال ہونے سے بچایا جائے لیکن اِس کیلئے ضروری ہے کہ اخلاق و شریفانہ طرزِ زندگی پر مبنی تحریروں کو زیادہ سے زیادہ شائع کیا جائے، دویم یہ کہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر توجہ مرکوز کی جائے اور اِن میں زیر تعلیم طالبات کو خواتین کے مسائل پر لکھنے کی فکر کو اُجاگر کیا جائے اور اُن میں ایسی تصانیف کیلئے وصف بذریعہ تربیت پیدا کیا جائے اور سوم یہ کہ ایسے اشتہارات کی اشاعت سے اجتناب کیا جانا چاہیے جن میں مہنگے ملبوسات اور زیورات خریدنے کی طرف طبیعت مائل ہو اور چہارم یہ کہ ایسی تحریروں کو بھی شائع کیا جانا چاہیے جن کے ذریعے نئی پود کو اپنی تہذیب کے بارے میں واقف کرایا جائے۔

نوٹ:۔ یہ مقالہ، مقالہ نگار نے گورٹمنٹ ڈگری و پی جی کالج برائے نسواں، حسینی علم، حیدرآباد کے شعبہ اُردو کی جانب سے 19 اور 20 فروری 2014 کو منعقد ہونے والے دو روزہ قومی سمینار بعنوان ’’آزادی کے بعد ذرائع ابلاغ میں خواتین کا کردار‘‘میں پڑھا۔ تاہم غیر شائع شدہ ہے۔

حوالے و ذرائع:۔

؂۱۔ 2؍اگست2013(http://mattersindia.com/)

؂۲۔(http://asfi.in/)

؂۳۔ (http://wikipedia.org/)

؂۴۔ 11؍ مارچ 2013 (http://aljazeera.com/)

؂۵۔ (http://wikipedia.org/)

؂۶۔ 25؍ جولائی 2010، ٹائمز آف انڈیا۔

   ؂۷۔ 8؍ اگست 2013، انڈین ایکسپرس ۔

   ؂۸۔31؍ اگست 2012، دکن کرانیکل ۔

   ؂۹۔6؍دسمبر 2012، ٹائمز آف انڈیا۔

   ؂۱۰۔ 13؍مارچ 2012 (http://ibnlive.in/)

   ؂۱۱۔ 29؍دسمبر 2013 (http://thehansindia.com/)

؂۱۲۔(http://ncrb.gov.in/CD-CII2012/cii-2012/Chapter%205.pdf)

Leave a Reply

1 Comment on "خواتین کے مسائل اور حیدرآباد کی اُردو صحافت"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] خواتین کے مسائل اور حیدرآباد کی اُردو صحافت […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.