کشمیر میں اردو رباعی___ کیفیت و کمیت

Click Here for PDF File

Click Here for PDF File

ڈاکٹر مشتاق حیدرؔ

اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو

کشمیر یونیورسٹی حضرت بل سرینگر

mushtaqhaider@gmail.com

________________________________________________________________

رباعی مختصر ہونے کی وجہ سے کافی اہم صنف ہے اور اس میں فوری پن کی گنجائش ہونے کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ تخلیقی تجربے کو جذب کرنے کے امکانات موجود ہیں۔ سانٹ (Sonnet) اور دوہے کی طرح یہ اپنا ایک الگ عروضی ڈھانچہ رکھتی ہے جو اس کی صنفی شناخت میں بنیادی پتّھر کا درجہ رکھتا ہے ۔یہ عروضی نظام فنکار سے بڑی سنجیدگی کا تقاضا کرتا ہے اور یہ نظام کافی غور و فکر کے بعدذہن نشین ہوجاتا ہے۔کسی بھی ادبی تخلیق کے لئے بہر حال ایک مخصوص ہئیت اور تکنیک ضروری ہے۔ اگر تخلیق کو مناسب ہیت مل جائے تو اس کی ادبی حیثیت مسّلم ہو جاتی ہے۔ہاں یہ ضروری ہے کہ ادیب یا شاعر تکنیک پر پورے طور پر قادر ہو۔ اس لئے کہ یہ ادب کی ایک بنیادی شرط ہے اس کے بغیر کسی ادبی تخلیق کو ادبی درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ عظیم ادب کے لئے عظیم خیال کی بھی شرط ہے۔کیونکہ ادبی مواد ہی اس کی قدروں کا تعین کر تاہے۔رباعی کو اس زاویے سے دیکھیں تو یہ مواد و ہیت اور فنی انفرادی کے اعتبار نہایت ہی وقیع صنف سخن ہے۔ عصر حاضر میں کئی وجوہات کی بنا پر ہمارا فنکار آرام پسند ہوگیا ہے۔ جلدی جلدی نام ونمود اور شہرت حاصل کرنے کے شوق نے اسے قناعت پسند بننے پر بھی راضی کیاہے۔شاید اسی وجہ سے رباعی کو اپنے تخلیقی اظہار کے لئے بروئے کار نہیں لاتا ۔بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ فارم یا ہیت شاعر کو پابند بنا دیتی ہے اور اس کا خیال مجروح ہوتا ہے ۔ لیکن ہیت کی یہ پابندی غلامی کی پابندی نہیں بلکہ آزادی کے حدود مقرر کرتی ہے۔ یہ حدود وہ ہیں جن سے نہ صرف شاعر یا ادیب واقف ہوتے ہیں بلکہ عام پڑھنے والے بھی ان شے آشنا ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہیں بھی مرّوجہ ہیت کو سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔ یہ سچ ہے کہ ہر تخلیقی تجربہ لفظی دروبست کے ساتھ ساتھ اظہار کا سانچہ بھی اپنے ساتھ لاتا ہے مگر اس کے لئے پہلے ذہن کوآسودہ کرنا پڑتا ہے۔ایک ادبی تخلیق میں ہیت کا اثر موضوعات پر اگر چہ براہ راست پڑتاہے لیکن ایک چا بک دست فنکار ہیت کو اپنا مطیع کر کے اپنی فنکاری سے اسے ایک نیا رنگ، ڈھنگ ، آہنگ اور الفاظ کی ایک نئی کائنات بخشتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ فنکار اپنے فن پر ہمہ طرف قدرت رکھتاہو۔ حقیقی ادب نہ ہی بیان بازی کا مظہر ہو سکتاہے اورنہ ہی سطحی تجربات کا۔ وہی ادبی تخلیق اپنی اہمیت منوا سکتی ہے جسے فنکار نے اپنے خون ِ جگرسے سینچا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے چوٹی کے شعراء اور اساتذہ عموماً اخیر عمر میں جب وہ فنی طور پر پختہ کار ہوتے تھے رباعی گوئی کی طرف متوجہ ہوتے کیونکہ یہ ایک سنگ صفت صنف سخن ہے جس کے لئے فرہاد کا جگر در کار ہے۔ کشمیر کی سخت کوش مگر خوبصورت وادیوں اور شدید موسمی حالات نے یہاں کے عوام اور فنکار کو سخت کوشی کا سبق تو ضرور پڑھایا ہے لیکن ایک سخت کوش کو ہنر مند سخت کوش بنانے کے لئے کم سے کم دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اول ایک ماہر فن کے سامنے زانوے ادب تہہ کرنا اور دوئم اس ماحول سے وابستہ ہو جانا جہاں فنکاری کے مظہر ارد گرد پھیلے ہوں یعنی اس ماحول سے دو بدو ہو نا۔ امر واقعی یہ ہے کہ کشمیر میں تلامذہ کی روایت سرے سے موجود نہیں ہے اور رباعی کا فن سیکھنے کے لئے اس کے سوا چارہ نہیں ہے۔ کشمیر پہاڑوں سے گھرے ہوئے ایک تا لہ بند خطے کا نام ہے اور اردو کی دیگر بستیوں سے اٹھنے والی ہوائیں ذرا دیر سے یہاں پہنچتی ہیں۔ہاں اب مواسلاتی آسائشوں نے یہ فاصلے بہت حد تک کم کر دیے ہیں جس کے حسب اُمید نتائج سا منے آ رہے ہیں۔کشمیر میں اردو شاعری کے منظر نامے پر ایک طائرانہ نگاہ بھی اگر ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کشمیر کے اردو شعراء نے مذکورہ مشکلات کے باوجود رباعی کے میدان میں بھی اپنی حاضری کو یقینی بنایا ہے ۔

کشمیر میں اُردوشاعری کے آثار باضابطہ طور پر اُس وقت سے مل رہے ہیں جس وقت شمالی ہند میں اُردوشاعری کے آثار ملتے ہیں ۔ کشمیر کے ابتدائی اردو شعراء کے یہاں بجز رباعی تقریباً سبھی اصناف کے نمونے ملتے ہیں ۔ اگرچہ پروفیسر سروری نے ایک دوشعراء کے ضمن میں لکھاہے کہ انہوں نے رباعیاں لکھی ہیں مگر کوئی نمونہ پیش نہیں کیاہے ۔

یہاں پر بہت دیر تک لوگ میر غلام رسول نازکیؔ کے اُن چَو مصرعوں کو ہی رباعی سمجھتے تھے جو موضوع او رزبان میں رباعی کے قریب ضرورہے مگر رباعی کی مخصوص بحر میں نہیں ہیں ۔

دیکھا جائے تو رباعی کےGenuine نمونے ہمیں یہاں سب سے پہلے شہہ زور کاشمیریؔکے یہاں ملتے ہیں ۔ شہہ زور اُردو کا قادر الکلام شاعر تھا اور زبردست تخلیقی صلاحیتوں کا مالک بھی گرچہ اُن کے یہاں رباعیوں کی تعداد زیادہ نہیں مگر انہوں نے فنی لوازمات کا خاص طور پر خیال رکھاہے ۔ زبان وبیان ، اسلوب وآہنگ اور موضوعی اعتبار سے اُن کی رباعیاں نظر انداز نہیں کی جاسکتی ہیں ۔تصوف ، حسن وعشق اورآشوبِ آگہی اُن کی رباعیوں کے خاص موضوعات ہیں۔ روایتی موضوع کی اس رباعی کو دیکھیے کہ کس طرح شہ زور نے اسے تازگی کا جا مہ پہنایا ہے ۔ ؂

مذہب سے نہ فطرت کے آئین سے پوچھ

ہے بات عبث یہ نہ شیاطین سے پوچھ

بدامنیٔ دُنیا کا باعث اے دوست

اپنے ہی خرد ساز قوانین سے پوچھ

شوریدہ کاشمیری سیماب اکبر آبادی کے حلقہ شاگردی میں گردانے جاتے ہیں اس طرح ان کی شاعری کا سلسلہ فصیح الملک داغؔ دہلوی سے ملتا ہے۔ کیفیات عشق کے بیان کے لئے صحیح پیرائے اورلفظیات کا استعمال ہی تجربے کے موثرانتقال کو یقینی بناتے ہیں ۔ اس سلسلے میں شوریدہ کی صرف ایک رباعی پیش کر کے آگے بڑھو ں گا۔

جب یاد مجھے منزل کی آجاتی ہے

تو روحِ تمنا تک تھرّاتی ہے

بے ساختہ آتاہے زباں پر اک نام

اور میری جبین دل جھک جاتی ہے

تصوف اور جدید سائنس کے موضوعات کو مدغم کر کے عصری ذہن اور سوچ کے لئے خوبصورت ضیافتوں کا سامان بھی شہ زور کی رباعیوں میں ظر آتا ہے۔ مثال کے لئے پیش ہے ان کی یہ رباعی:

اے بے خبر از موجود و لاموجود

ہیں دہر میں لاکھوں دنیا نا مشہود

محددو جہاں ہو یہ نا ممکن ہے

اِ ک ذرّہ نہیں اس دُنیا میں محدود

شہہ زور ؔکاشمیری کے بعد شوریدہؔ کاشمیری کے یہاں رباعیوں کے نمونے ملتے ہیں ۔ شوریدہؔ کاشمیری کے دو شعری مجموعے ’’جوشِ جنوں‘‘ اور ’’جذبِ دروں‘‘ اُن کی زندگی میں ہی منصہ شہود پر آچکے تھے ۔شوریدہؔ کے دونوں مجموعوں میں غزل ، نظم اور قطعہ بند اشعار کے ساتھ ساتھ رباعیاں بھی وافر تعداد میں ملتی ہیں ۔

شوریدہؔکی شاعری کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انہیں روایت کا زبردست عرفان حاصل تھا اور روایت سے فنی اور لفظیاتی سطح پر استفادہ کرتے ہوئے انہوں نے اپنی شاعری میں رومان کی جدیدنہج کوزم کیا ہے۔ اسی وجہ سے شوریدہؔ کے یہاں ہر نو ع کی رباعیاں ملتی ہیں ۔ حمد،نعت ، تصوف ، حسن وعشق، اخلاقیات وغیرہ ان کی رباعیوں کے خاص موضوعات ہیں ۔ اگر چہ شوریدہ ؔ کی غزلوں میں صنف نازک کی کج ادائیوں اور نازو نعم کے ذکر سے ایک شعلہ و سیماب کا عالم نظر آتا ہے ان کی رباعیات میں اُن کی شخصیت کے اصلی جوہرکھل کر سامنے آتے ہیں۔ ؂

اے بولہوسو تمہاری اچھی قسمت

ہوتی ہے اہل دل کی دشمن فطرت

تم لوٹتے ہو وصالِ جاناں کے مزے

ہم ہیں کہ ہمیشہ ہیں قتیلِ فرقت

 شوریدہ کی ایک طنزیہ رباعی کو دیکھیے کہ کس طرح انہوں نے اپنے احساس کو ہلکے پھلکے مگرمتاثر کن طریقے سے الفاظ کے تانے بانے میں پرویا ہے ؂

آکاش سے چھٹ گئے ہیں سارے بادل

باراں کے بعد دھوپ آئی ہے نکل

عیدِ رمضاں کو عید گہ کی جانب

بے روزے ہیں سوار روزے پیدل

کشمیرکے ادبی حلقوں میں قاضی غلام محمد بحیثیت مزاحیہ شاعر کے اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں ۔قاضی نے مزاحیہ شاعری کے ساتھ ساتھ سنجیدہ اشعار بھی لکھے ہیں ۔ اُن کی تین رباعیوں کے نمونے سروری نے اپنی کتاب ’’کشمیر میں اُردو ‘‘ میں دیئے ہیں جو یونیورسٹی میں غالبؔ کی صدسالہ برسی کی تقریبات کے سلسلے میں ایک محفلِ شعر میں انہوں نے سنائی تھیں۔ یہ رباعی نمونے کے طور پیش کرتا ہوں جہاں قاضی صاحب نے اپنی ہنر مندی سے موضوع کی سطح پر رباعی کو قصیدے کے خصائص سے مملو کیا ہے۔ غالب کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں ؂

اشعارِ ترے نگارِ معنی کا جمال

افکار ترے جلالِ فردوسِ خیال

دیوان ترا وہ آئینہ ہے جس میں

انسان نے شہر دل کی دیکھی مثال

حاتم ہے اگر سخن، نگیں ہے غالبؔ

ہر عہد میں عہد آفریں ہے غالب

معنی نگروں کی چشمِ باطن میں

آشوبِ خیال بالیقیں ہے غالب

حکیم منظور اگرچہ غزل کے شاعر ہیں لیکن انہوں نے بھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے گاہے گاہے رباعیوں میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی رباعیوں میں اگرچہ موضوع کے اعتبار سے کوئی جدت نظر نہیں آتی لیکن ان کی لفظیات میں کشمیر اور اہل کشمیر پر گزرنے والے حالات کا واضح اثر نظر آتا ہے: مثلاً :

آزار ہمارے طرفِ جاں ہیں بہت

اے اہل قلم رنگِ ہراساں ہیں بہت

خاموشی کا یہ مرحلہ ہے بے کیف

کچھ بات کرو لفظ پریشاں ہیں بہت

ہر آنکھ یہ حیرت کا سماں کھولے گی

اک آن میں اسرارِ جہاں کھولے گی

سب لوگ تکلّم کی ادا بھولیں گے

جس دن یہ زمیں اپنی زباں کھولے گی

بقول ِ فریدپر بتی( مرحوم) کشمیر میں جس شاعر نے رباعی کی صنف کو سنجیدگی سے لیاہے اور جس کو ہم خالص رباعی گو شاعر کہہ سکتے ہیں وہ مسعود ؔسامون ہے۔ وہ خالصتاً رباعی گو شاعرہے اگرچہ انہوں نے منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے بیچ بیچ میں غزلیں اور نظمیں بھی کہی ہیں۔ سامون نے وافر تعداد میں رباعیاں کہی ہیں ۔ ان کی رباعیوں میں فنی اور موضوعی اعتبار سے زبردست انفرادیت ملتی ہے ۔ انہوں نے رباعی کو نظم کی وسعتوں سے ہمکنار کرنے کی کوشش کی ہے ۔فطرت کی آنکھ کو ذہن و دل کی آنکھ بنا کر جب کاروربار دنیا پر غور کرتے ہیں تو سامون ایک منفرد انداز بیان میں اپنے محسوسات کو لفظی جامہ پہناتے ہیں ۔ اس کے ثبوت کے طور پر ایک رباعی ملاحظہ کیجیے ؂

کہتا ہوں رباعیاں ہی کہتا جاؤں

بے سمت فلک کی آنکھ سیتا جاؤں

افکار کی کشتی کو نئے ساحل پر

لے جاؤں ہوا کے رخ پر بہتا جاؤں

شائستہ لب و لہجے میں واردات عشق کا بیان شاعر اور مضمونِ شعر کو ابتذال کی وادی میں گرنے سے بچاتاہے۔ سامون کے یہاں یہ شائستگی کے ساتھ شدت ِ جذبات کا بیان انہیں رباعی گو شاعروں میں ایک انفراد بخشتا ہے:

ہر سانس گھٹن زور ہمارے اندر

بادل ہے سو گھنگھور ہمارے اندر

اے دل ہو کبھی ان کے کرم کی برسات

ترسے ہیں کئی مور ہمارے اندر

سامون کے ہمعصر ڈاکٹر فرید پربتی نے دو سو سے زائدرباعیاں لکھی ہیں ۔ فراق نے جس طرح ہندوستانی جمالیاتی عناصر کو اردو رباعیات میں سمو کر اس مختصر اورکسی حد تک جامد یا rigid صنف سخن کو نئے موضوعات اور نئے اسلوب سے ہمکنار کر لیا اسی طرح کشمیر کے اس رباعی گو شاعر نے گونا گوں موضوعات پر قلم اٹھا کر رباعی کی موضوعاتی ابعات کو اور وسیع کر دیا ہے۔ ان کی رباعیوں کے پہلے مجموعے فرید نام کی رباعیات پر بات کرتے ہوئے مشہور نقاد شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں :۔

’’فرید نامہ کی رباعیوں میں گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی بلکہ انہوں نے رباعی کے تقریباً تمام اوزان میں رباعیاں کہی ہیں‘‘۔

فرید پربتی ایک خود بین و خود آگاہ شاعر ہیں جنہوں نے اپنی غزل کی طرح رباعیوں میں بھی اپنی ذات کے گونا گوں پہلوؤں کا تذکرہ خوش اسلوبی کے ساتھ کیاہے اور اُن قلبی واردات اور جذبات ، احساسات اور تجربات کو صوت و الفاظ کا پیکر عطا کیا ہے جن کا ادراک ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے اظہار تو دور کی بات ہے۔ مثلاً ؂

تکتاہوں ہر اک چیز کو ہٹ کر تب سے

آپ اپنے سے رہتا ہو ں کٹ کر تب سے

اندازہ ہوا جب سے کہ دنیا ہے وسیع

بیٹھا ہوں پروں میں سمٹ کر تب سے

فرید پربتی تصوف کے رموز کو ایک لطیف پیرائے میں مشاہدات کی روشنی میں بیان کرتے ہیں۔ وحدت الوجود کی ترنگ مدھم سروں میں سنائی دیتی ہے۔مثلاً ؂

عاشق ہوں نہ محبوب ہوں آخر یہ کیا

راغب ہوں نہ مرغوب ہوں آخر یہ کیا

طاری ہے عجب طرح کا اک مجھ پہ جمود

طالب ہوں نہ مطلوب ہوں آخر یہ کیا

اگر چہ فرید پربتی کی کئی رباعیاں اپنے روایتی موضوعات مثلاً اخلاقیات، تصوف، وعظ و پند سے مملو ہیں مگر موجودہ دور کے تقاضوں او ر تنازعوں کو بھی فرید پربتی نے شاعرانہ ہنر مندی سے برتا ہے۔ مثلاً ؂

گاؤں کی ہے اور نہ ہے شہری ہوا

آوارہ ہے من موجی ہے یہ لہری ہوا

رُک جا کہ شجر میرے گریں گے سارے

مت کہہ کہ سنے گی نہیں کچھ بہری ہوا

فرید پربتی پربتوں سے گھری ہوئی جنت نشاں وادیٔ کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس حسیں وادی کے خوبصورت نظاروں کو فرید پربتی نے رباعی کا آہنگ اور لفظوں کا خوشنما پیکر دیاہے۔وادی کشمیر کے طلسمی نظاروں کو کہیں سامنے اور کہیں بین السطور ان کی رباعیوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً ؂

چھٹنے کو ہے ابرِ کرم بسم اﷲ

مٹنے کو ہے ہر کہنہ الم بسم اﷲ

جذبات کی برف کو پگھلتے ہی بنی

پھر چلنے لگا میرا قلم بسم اﷲ

عشق خواہ حقیقی ہو یا مجازی، زندگی کے لئے ایک سوغات ہے۔عشق ہر جذبے اور جہد میں کارفرما رہتاہے۔جس شخص کا دل عشق سے خالی ہو وہ نہ ہست وبود کے منازل کو درک کر سکتاہے ا ورنہ ہی مقصدِ حیات تک رسائی حاصل کر سکتاہے۔ عشق کا جادو فرید پربتی کی رباعیوں میں مختلف صورتوں میں جلوہ گر نظر آتاہے۔مثلاً ؂

زندہ ہوں ابھی ذوقِ نظارہ لے کر

بیٹھا ہوں میں یادوں کا سہارا لے کر

دنیا پہ رکھا زخموں کا اپنے الزام

شکوہ نہ کیا نام تمہارا لے کر

تھی اُس کو شدید پیاس اُسے کیا دیتا

تھا مجھ کو بھی احساس اُسے کیا دیتا

پھل پھول تو ہیں بعد کی باتیں صاحب

سایہ بھی نہ تھا پاس اُسے کیا دیتا

میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ جدید مواسلاتی آسائشیں کشمیر کے آج کے تخلیق کار اور ادیب کو دنیا میں فن کے عصری دھارے سے جوڑنے میں معاون ثابت ہورہی ہیں۔ یہ وقت ہمارے یہاں کے اردو ادب کے لئے Transition Phase ہے جس میں نوجوان ادیب رہبر کا رول ادا کر رہے ہیں۔ کشمیر میں دو رِ حاضر کے نوجوان شاعروں میں ایک نام سلیم ساغر کا ہے۔ جن کی رباعیوں کو پڑھ کر اقبال کے اس مصرعے کی صداقت سامنے آتی ہے کہ ’’ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت ذر خیز ہے ساقی‘‘

زبان و بیان اور Craftsmanship کے اوصاف سے متصف ا ن کی رباعیاں پڑھ کر قاری کا جی خو ش ہو جاتا ہے

 ہمارے نوجوان شاعر سلم ساغر کی یہ رباعی ملاحظہ کیجیے

رخصت ہوا وہ دورِ جوانی آخر

وہ جوش ہوا ختم روانی آخر

اب تو خود زندگی ہوئی روبہ زوال

ہر شے کا قصہ ہے کہ فانی آخر

اتنی شستہ زبان اور ارفع موضوع کا سنگم کشمیر میں اردو رباعی کے لئے فال نیک ہے۔

یہ رباعی سننے کے بعد میرے ذہن میں ایک دم سے انیس کی ایک رباعی آئی کہ

اب زیرِ قدم لحد کا باب آپہنچا

ہشیار ہو جلد وقت ِ خواب آپہنچا

پیری کی بھی دوپہر ڈھلی آہ انیس

ہنگامِ غروبِ آفتاب آپہنچا

رباعی کے روایتی موضوعات اگر چہ فلسفۂ زندگی، پند و نصیحت، اخلاق و آداب اور مذہب و عشق رہے ہیں لیکن شاعر چونکہ ایک سماج کا حصہ ہوتا ہے اور سماج کے حساس ترین افراد میں شمار کیا جاتا ہے اس لئے موضوعات کی جکڑ بندیاں اس کے محسوسات کو قید نہیں کر پاتیں۔ اس سلسلے میں سلیم ساغر کی ایک رباعی ملاحظہ کیجیے:

افسانۂ رنج و الم کی تصویر ہوا

خونین سے اک خواب کی تعبیر ہوا

کہتے ہیں جسے روئے زمیں کی جنت

دوزخ کا نمونہ وہی کشمیر ہوا

 پھول ، خوشبو، مہک، دریا ، پہاڑ، جھرنے جسیے الفاظ سلیم ساغر کی رباعیات میں آکر انکے کشمیر ی ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہی ہیں ساتھ ہی یہ الفاظ ان کے شعور کے اظہار کے وسائل بن کربھی سامنے آتے ہیں۔ مثال کے لئے یہ دو رباعیاں ملاحظہ کیجیے:

احساس کی شدت بھی ہے خوشبو کی طرح

یہ درد کی لذت بھی ہے خوشبو کی طرح

موجود رہے اور کہیں ہاتھ نہ آئے

واﷲ محبت بھی ہے خوشبو کی طرح

تم کہتے ہو انفاس مہک جاتے ہیں

راہوں میں ستارے سے چمک جاتے ہیں

اے دوست اُسی راہ محبت میں مگر

آنکھوں کے بھی پیمانے چھلک جاتے ہیں

کشمیر میں رباعی کے ذکر کے سلسلے میں کچھ اور نام بھی شامل کرناضروری ہیں مثلاً، مظفر ایرج،قتیل مہدی ، راشد مقبول اورارشاد شمسی وغیر۔ان شعراء کی رباعیات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کشمیر میں صنف رباعی کامستقبل روشن ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: اردو ریسرچ جرنل میں شائع مضامین کی دوبارہ اشاعت پیشگی اجازت کے بغیر منع ہے۔ ایساکرنا قانوناً جرم ہے۔

Leave a Reply

1 Comment on "کشمیر میں اردو رباعی___ کیفیت و کمیت"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] 60. کشمیر میں اردو رباعی___ کیفیت و کمیت […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.