اپنی بات

اردو ریسرچ جرنل شمارہ 8 مکمل

اردو ریسرچ جرنل شمارہ 8 مکمل

ماضی قریب  میں ہم سے کئی اہم ہستیاں رخصت ہوگئیں۔  دیوتا کے خالق محی الدین نواب، اپنی شاعری کے ذریعہ لاکھوں دلوں پر راج کرنے والےندافاضلی، ڈرامہ اور صحافت کی دنیا کے ماہتاب زبیر رضوی، اردو افسانہ کی آبروجوگندر پال اور عابد سہیل، مشاعروں کی نظامت اور اپنے منفرد لب لہجہ کی شاعری کرنے والےملک زادہ منظور،اردو افسانوں میں داستانوں کی سی شان شوکت پیش کرنے والےانتظار حسین، اردو تنقید میں جمالیات کا علم بلند کرنے والے شکیل الرحمن یہ سب ایک ایک کرکے رخصت ہوتے چلے گئے۔ دنیا میں جو بھی آیا ہے اس کو ایک نہ ایک دن جانا ہی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ اردو ادب میں خلا چھوڑ کرجا رہے ہیں ان کو پر کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اردو ادب کے افق پر روشن ہونے والے سبھی ستارے پانچوی دہائی تک کی پیداوار ہیں۔ ان میں سے کچھ نے آزادی ہند کا سانحہ بھی دیکھا تھا اور ہجرت کے کربناک  دور سے بھی گزرے ہیں۔ ان کی پرورش اس زمانے میں ہوئی جب عوام کا ادبی ذوق بلند تھا۔ اردو بول چال کے ساتھ دفتروں کی بھی زبان تھی۔ شرفا اردو میں شاعری کرتے تھے۔ شاعری کی محفلیں جما کرتی تھیں۔ لیکن اس کے بعد وہ زمانہ نہیں رہا۔ اردو اپنی جڑیں کھوتی چلی گئی نتیجتا ادبی ذوق بھی کم ہوتا گیا۔ اب اردو کی کوئی ایسی بستی نہیں رہی جہاں جاکر طلبا اپنی زبان درست کرسکیں۔ نہ وہ زمانہ رہا جب اساتذہ طلبا کے تلفظ پر دھیان دیا کرتے تھے۔

اردو ادب کے افق پر آج جو لوگ نوجوان ادیب کے طور پر جانے جاتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آٹھویں یا نویں دہائی میں لکھنا شروع کیا۔ انہیں نوجوان اسی لیے کہا جا رہا ہے کہ ان کی جگہ لینے والے نئی نسل سامنے نہیں آئی ہے۔ کہنے کو موجودہ نسل کے پاس پہلے سے زیادہ مواقع ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ریسرچ اسکالر سمینار منعقد کیے جارہے ہیں۔ یونی ورسٹیوں کی سطح پر منعقد ہونے والے سمیناروں میں بھی ریسرچ اسکالرس کو مواقع مل رہے ہیں۔ادبی رسالے نئے لکھنے والوں کو بھی موقع دیے رہے ہیں۔  لیکن یہ ساری کوششیں ناکافی ہیں۔ اس لیے کہ انہیں وہ ادبی ماحول نہیں میسر ہے جو پہلے کے ادیبوں کو حاصل تھے۔ دانشگاہیں اب بھی امید کی کرن ہیں۔ یہاں پر طلبا کے شین قاف پر توجہ دی جاسکتی ہے۔ کتابی علم کے ساتھ انہیں تخلیقیت پر بھی ابھارا جا سکتا ہے۔ ادبی ذوق رکھنے والے اساتذہ کی طرف ہم پر امید  نظروں سے دیکھ رہے ہیں کیوں کہ انہیں طے کرنا ہے کہ مستقبل میں بھی اردو ادب اسی آب وتاب کے ساتھ زندہ رہے گا یا پھر فیض کو آخری شاعر اور منٹو کو آخری افسانہ نگار مان کر اردو ادب کے بانجھ پن کا اعلان کردیا جائے گا۔

اس شمارے میں دو خصوصی گوشے شائع کیے جارہے ہیں۔ ایک گوشہ کلیم عاجز پر ہے جس میں شاہ نواز فیاض، سلمان فیصل اور ساجد زکی کے مقالے شائع کیے جارہے۔ دوسرا گوشہ کبرداس پر شائع کیا جارہا ہے جس میں راقم کے علاوہ ڈاکٹر فخرعالم اور ڈاکٹراکمل شاداب کے مقالے شائع کئے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے تنقید وتحقیق اور اقبالیات کے علاوہ تبصرہ کتب کے کالم کو باقی رکھا گیا ہے۔ ایک مرتبہ پھر ایم فل اور پی ایچ ڈی کےموضوعات کی فہرست کو شامل کیا جارہا ہے۔ اس مرتبہ دہلی یونی ورسٹی کے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی فہرست پیش کی جارہی ہے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ یہ سلسلہ برقرار رہے تاکہ ریسرچ اسکالرس اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔

یہ شمارہ کیسا لگا ہمیں آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔

Leave a Reply

2 Comments on "اپنی بات"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
ڈاکٹر ذاہرہ نثار
Guest
شمارہ بہت عمدہ ہے اللہ کرے ذورِقلم اور زیادہ
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.