امریکہ میں ایک بدیسی: کلیم احمد عاجز


کلیم احمدعاجز(1924-2015) کی عام شہرت و مقبولیت ایک شاعر کی حیثیت سے ہے۔لیکن اپنے احساس کی ترجمانی کے لئے انھوں نے صرف شاعری ہی کو نہیں اپنایا،بلکہ افسانوی ادب کا بھی سہارا لیا۔نثر میں انھوں نے بہت کچھ لکھاہے۔خود نوشت اور دو سفرناموں کے علاوہ خطوط کا مجموعہ بھی ان کی نثر ی یادگار ہیں۔انھوں نے کچھ فرمائشی نظموں کے علاوہ شخصی مرثیے بھی لکھے ۔کلیم عاجز نے جو بھی اپنی یادگار چھوڑی ہیں،ان میں ان کی سادگی بدرجۂ اتم موجود ہے۔وہ کتنے سادہ مزاج تھے ،اس کا اندازہ ان کی تحریروں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔نظم ہو یا غزل،افسانہ ہو یا خط،واقعہ سفر کا ہو یاپھر حضر کا،بڑی خوش اسلوبی سے اپنی بات لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔اس سلسلے کی ایک کڑی ان کا وہ سفر نامہ ہے،جو انھوں نے امریکہ کا کیا تھا۔اس سفرِ امریکہ کی روداد انھوں نے اپنے سفر نامہ’’ایک دیس اک بدیسی‘‘ میں بیان کیا ہے۔
کلیم عاجز نے یہ سفر نامہ کسی فنی نقطۂ نظر سے نہیں لکھا۔جیسا کہ انھوں نے خود لکھا ہے’’میں سفرنامے کے فن سے واقف نہیں۔‘‘انھوں نے اس سفرنامے میں اپنی یادوں کی بنیاد پر چیزوں کا ذکر کیا ہے۔/25ستمبر1979کو پٹنہ سے امریکہ کے لئے نکلے،اور اسی سال دسمبر میں امریکہ سے قاہرہ ہوتے ہوئے جدہ کے سفر کے لئے روانہ ہوئے۔لیکن ہندوستان واپسی کا ذکر نہیں ہے۔یہ سفر نامہ وہیں ختم ہو جاتا ہے جہاں جہاز امریکہ سے قاہرہ کے لئے روانہ ہوتا ہے۔اس سفر نامے میں بہت سی ایسی چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے جسے پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ،جس جہاں میں جانوروں کو، بطور خاص کتوں کے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیا جاتا ہے ،تو وہاں انسانوں کی قدر و منزلت کا کیا معیار ہوگا۔مگر افسوس کہ جانوروں کے ساتھ انسانوں کا سا برتاؤ،اور انسانوں کے ساتھ لوٹ مار،قتل وغارت گری۔کلیم عاجز نے تمام باتوں کو بہت موثر انداز میں پیش کیا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ برطانیہ کا بول بالا تھا۔اس کی اپنی طرز زندگی تھی۔دوسرے اس کی نقل کرتے تھے۔اس نے انسانوں کو بہت سی نئی چیزوں سے آشنا کرایا۔اور یہی وجہ تھی کہ بہت سے شاعروں نے ان کی مدح میں قصیدے بھی لکھے۔برطانیہ کو اپنی طاقت پر اس قدر ناز تھا کہ وہ جو چاہتا تھا کرتا تھا۔لیکن زمانے نے کروٹ لی اور اس کی طاقت کسی اور کے سپرد کر دی گئی، جسے ہم امریکہ کے نام سے جانتے ہیں۔کلیم عاجز نے اپنے سفر نامے میں اس تعلق سے لکھا ہے:
’’امریکہ ایک نیا ملک ہے۔اس کی تاریخ نئی ہے ۔اس کی جوانی نئی ہے…..امریکہ کو خود بھی اپنی جوانی کا نشہ ہے اپنے شباب کی مستی ہے اور امریکہ کی جوانی پر سب لوگ لوٹ پوٹ ہیں…..ایک زمانہ برطانیہ کی جوانی کا تھا۔جس نے کتنوں کو ہوٹلوں کا چکردلوایااور اسپتالوں میں مروایا…..لیکن اب لندن کے چہرے پر جھریاں آگئیں…..اس کے آنچل کے سائے میں امریکہ کی نئی جوانی انگڑائیاں لیکر اٹھتی ہے۔‘‘
)ایک دیس اک بدیسی۔کلیم عاجز۔فوٹو اافسیٹ پرنٹرز،تال بگان لین،کلکتہ۔1981 ص،3-4 (
یہ کلیم عاجز کا انداز ہے۔اپنی بات بھی کر جاتے ہیں،اور انھیں باتوں میں پوری تاریخ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔درج بالا جملوں کو بغور دیکھا جائے تو کہیں نہ کہیں ان کے ذہن میں غلام ہندوستان کا تصور بھی ابھرا ہوگا۔اور جنگ آزادی میں جو بر بادیاں ہوئی تھیں،وہ بھی ان کے پیش نظر رہی ہوں گی۔اس لئے اس طرح کے جملے پڑھ کراحساس ہوتا ہے کہ بڑی سادگی سے انھوں نے برطانیہ پر طنز کیا ہے ۔کلیم عاجز چونکہ ایک تخلیق کار تھے،تخلیق کار کی نگاہیں وہ سب دیکھ لیتی ہیں،جو عام طور پر لوگ نہیں دیکھ پاتے یا دیکھتے ہیں لیکن اظہار نہیں کر پاتے۔کلیم عاجز وہ ہر چیز کو دیکھ بھی لیتے ہیں اور اظہار بھی کرتے ہیں۔ان کی شاعری اور افسانے اس کی غماز ہیں۔ ان کے اس سفر نامے کو پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ ایسی کہانی پڑھی جا رہی ہے ،جو برسوں کے تجربے پر محیط ہے۔شگفتگی ان کے جملوں کی ،سلاست و روانی اس طرح سے جس طرح سے امریکہ کی سڑکوں پر گاڑی دوڑتی ہے۔کبھی ایسا لگتا ہے کہ کوئی نظم کا حصہ پڑھا جا رہا ہے۔ان کی تحریریں پڑھ کر محمد حسین آزاد کی تحریر یاد آ جاتی ہے۔جیسے انھوں نے نیویارک سے ہریسن برگ کا سفر کار سے طے کیا۔دونون کے بیچ کا فاصلہ تقریباً چار سو میل کا ہے۔سڑکوں پر کار کی رفتار ،اور سڑک کے کنارے نئی نئی عمارتیں اور اس کے نقش و نگار ،ان کی تزئین اور ترتیب کو دیکھ کر لکھتے ہیں:
’’نئی جوانی کی امنگ اٹھتی ہے تو یہی ڈھنگ ہمیشہ رہے گا…..چال میں لچک آ ہی جاتی ہے،آواز میں کھنک آ ہی جاتی ہے،آنکھوں میں چمک آہی جاتی ہے،گالوں میں ڈہک،زلفوں میں مہک ہونٹوں پہ لہک آہی جاتی ہے۔‘‘ (ایضاً۔ص،4 )
درج بالاجملے کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ایک شاعر نثر لکھتے لکھتے ،نظم میں کس طرح آجاتاہے۔کلیم عاجز کا تخلیقی وجدان اسی طرح سے بہت سی جگہوں پر جلوہ گر ہو جاتا ہے۔ان کی نثر میں بھی نظم کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔مختلف چیزوں سے تشبیہ دے کر انھوں نے چند جملوں میں اس پورے منظر کی کہانی بیان کردی،جو چار سو میل کے سفر میں نظر آیا۔انھوں نے اس سفر کی روداد لکھنے کا ارادہ شروع سے نہیں کیا تھا،ورنہ عام طور پر سفر نامے میں مسافر جس طرح سے منظم طریقے سے تاریخ ،دن،مہینہ اور سال کے ساتھ پوری تیاری سے اپنی بات کا ذکر کرتا ہے۔ایک ایک مقام کا ،خاص طور سے ان جگہوں کا جو مشہور ہیں،بہت دلکش انداز میں پیش کرتے ہیں۔لیکن کلیم عاجز نے ا س سفرمیں اسلام اور اپنی تہذیب(مشرقی تہذیب )کو جس روپ میں پایا بڑے سلیقے سے قلمبند کیاہے۔انھوں نے امریکہ میں بھی ہندوستان ڈھونڈا،اسلامی طور طریقے اور اپنی تہذیب کے قدر داں ڈھونڈے۔انسان کو اپنی شناخت کبھی نہیں کھونی چاہیے۔کلیم عاجزاپنی تہذیب اور اقدارکا دامن آخری عمر تک نہیں چھوڑا۔وہ جہاں بھی رہے،ہندوستانی ہی رہے۔کلیم عاجز کی سادگی کا عالم یہ تھا کہ چاہے وہ جہاں بھی رہیں،انھیں ہر صورت میں اپنا ملک دکھتا تھا۔کیونکہ وہ جس طرح سے اپنے ملک میں ،اپنی دھن میں مست،اپنے خیالات میں مگن اور اپنے رنگ میں غرق چلتے پھرتے تھے،اسی طرح وہ امریکہ میں بھی اپنے خیالات میں گم،اور کسی بھی جگہ اس طرح سے سیر کے لیے نہیں گئے۔انھیں گھومنے پھرنے کی جگہوں میں جانے کے لیے پیسوں اور وقت کا زیاں معلوم ہوتا ہے۔اپنے وضع قطع میں وہ کس طرح کے تھے،انھیں کی زبانی ملاحظہ ہو:
’’۔۔۔۔۔ویسے ہی(ویسہی)امریکہ کے ماحول میں ،سیاہ پمپ جوتا،سفید موزہ تنگ مہری کے پاجامے گھٹنوں تک شیروانی ،ترچھی ٹوپی،خالص مشرقی داڑھی،وضع قطع چال ڈھال طرز و انداز کے ساتھ ان کے درمیان جھومتا جھامتا گزرتا۔جو شکل و صورت ،لباس پوشاک،نشست و برخواست میں ہمیشہ دنیا سے ایک قدم آگے رہنے کے جنون میں پاگل ہو رہے ہیں۔‘‘ (ایضاً،ص،6)
یہ ہے کلیم عاجز کی شکل و شباہت۔جہاں بھی رہے اسی طرح رہے۔چونکہ امریکہ میں وہ جہاں ٹھہرے ہوئے تھے،وہاں مسلم آبادی نہ کے برابر تھی۔لیکن جو بھی مسلم وہاں تھے ان کے گھرہی کے کسی حصہ میں نماز کے لیے جگہ مختص تھی۔اس طرح سے کلیم عاجز کو نماز کے لئے گھر کے اندر کوئی دقت نہیں ہوتی تھی۔لیکن باہر ظاہر ہے کہ ہر جگہ نماز کی سہولت نہیں ہوگی، جب مسلم آبادی نہ کے برابر ہے ۔اس لیے وہ جہاں بھی جاتے تھے اپنا مصلی ساتھ لے کر جاتے تھے۔اور جیسے ہی نماز کا وقت ہوا ،جہاں بھی رہے،کسی معقول جگہ دیکھ کر مصلی بچھایا اور نماز پڑھ لی۔ان کے اس سفر نامے میں عام طور پر امریکہ اس طرح نظر نہیں آتا جس طرح سے اور لوگوں کے سفر نامے میں نظر آتا ہے ۔وہاں کی چکا چوند زندگی کلیم عاجز کو متاثر نہیں کر سکی۔تقریباً ڈھائی مہینے سے زائد عرصے تک وہ وہاں مقیم رہے۔اور اس درمیان مختلف پروگرام کے لیے دوسرے دوسرے شہروں کارخ بھی کیا۔لیکن انھوں نے ہر شہر میں اپنے ہی لوگوں کو ڈھونڈا۔یا ایسے لوگوں سے ملے جو صوم و صلوۃکے پابند تھے۔انھوں نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جو اپنے ملک میں اپنے ہی مذہب سے بیزار تھے۔لیکن یہاں کی چکا چوند زندگی نے ایمانی طاقت کو ابھارا۔جو اپنے ملک میں جمعہ بھی نہیں پڑھتے تھے ،وہ کس طرح سے نماز کے پابند ہوگئے۔ملاحظہ ہو کلیم عاجزکی زبانی:
’’یوروپ اور امریکہ میں بسنے والے مسلمان وہ ہیں جو دس پندرہ سال پہلے مال کمانے آئے تھے مال کماتے کماتے ایمان کمانے لگے لاکھوں روپئے کا مکان لاکھوں کے سامان میں رہکر اب یہ سوچنے لگے ہیں کی جس نے مال دیا ہے مکان دیا ہے سامان دیا ہے وہ کیا ہم سے کچھ چاہتا بھی ہے؟اور یہ جان کر کہ اس کے بڑے تقاضے اور بڑے مطالبے ہیں ان تقاضوں اور مطالبوں کے ادا کرنے کے لیے اب فکر مند ہیں۔شکاگو میں دیکھا،ٹورنٹو میں دیکھا ،ونڈسر میں اور ڈیٹورائٹ میں دیکھا کہ ہندوستان اور پاکستان میں اپنے ہاتھوں سے اسلام کو ذبح کرنے والے اب اسلام کے لیے ذبح ہو رہے ہیں۔(ایضاً۔ص،41-42)
کلیم عاجزکے ان جملوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان جب کبھی اپنی چیزوں سے محروم ہوتایا اپنی چیزوں کو نہیں دیکھتا ہے تو اسے اس کا احساس ہوتا ہے۔امریکہ کے مختلف شہروں میں جو ہندوستان اور پاکستان سے گئے تھے،جب انھیں اسلام کی کوئی چیز نظر نہیں آئی تو انھیں اس کا شدت سے احساس ہوا۔اور یہی احساس کی شدت انھیں اسلام سے قریب کر دیا۔جسے کل تک وہ اپنے لیے بوجھ سمجھتے تھے،اب وہی لوگ اس کی اہمیت سے آشنا ہو گئے۔اسی لیے اس کے آگے ساری چیزوں کو ہیچ جانا۔
کلیم عاجز چونکہ بہار کے رہنے والے تھے ،انھوں نے ہندوستان میں کھیتی کا طریقہ دیکھا تھا۔اور وہی کھیتی جب امریکی کرتے ہیں تو وہاں اور یہاں کے ما بین کتنا فرق ہے اس کا اندازہ بھی کرنا مشکل ہے۔سب سے بڑی بات یہ کہ وہاں کے کھیت کا رقبہ یہاں کی طرح چھوٹا نہیں ہوتا ہے،بلکہ سو سو دو دو سو ایکڑ میں پلاٹ ہوتا ہے ۔البتہ وہاں کے کھیت یہاں کی طرح ہموار نہیں ہوتے ہیں،بلکہ اتار چڑھاؤہو تا ہے۔وہاں ٹریکٹر سے جوت کر بیج ڈال دئے جاتے ہیں۔جیسا کی ہمارے یہاں ہوتا ہے۔ہمارے یہاں آبپاشی کا معقول انتظام ہوتا ہے ،اور وہاں اس طرح کا کوئی بھی نظم کلیم عاجز نے نہیں دیکھا۔جوتنے اور بونے کے بعد وہاں کسانوں کا کام ختم ہو جاتا ہے ،اور ہمارے یہاں اس کے بعد کسانوں کی محنت شروع ہوتی ہے۔وہ بیج اس کھیت میں سڑتا رہتا ہے۔اسی بیچ برف باری ہو جاتی ہے۔اور پورا کھیت سفید چادر میں ڈھک جاتا ہے۔یہی برف پگھل کر پانی کھیتوں میں جذب ہو جاتا ہے،اسی سے ان کھیتوں میں جو اناج بویا گیا تھا،اس کے پودے لہلہانے لگتے ہیں۔پھلتے پھولتے ہیں۔یہا ں تک کہ فصل تیار ہو جاتی ہے۔فصل تیار ہونے کے بعد جو کچھ ہوتا ہے اس کے متعلق کلیم عاجز لکھتے ہیں:
’’…..اس کے بعد کاشتکار آتے ہیں مشینوں سے انھیں کاٹ لیتے ہیں اور اناج سے گھروں اور کھلیانوں کو بھر دیتے ہیں۔جتنا کھا سکتے ہیں رکھ لیتے ہیں،بقیہ سرکاری محکمہ کے ذریعہ باہر بھیج دیتے ہیں،اور جو بچتے ہیں اندرون ملک میں تقسیم کر دیتے ہیں بانٹ دیتے ہیں اس کے بعد بھی بچ جاتے ہیں تو سمندروں میں بہا دیتے ہیں یا زمین کھود کر دفن کر کے آگ لگا دیتے ہیں۔‘‘(ایضاً۔ص،46)
درج بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکیوں کو اللہ نے کتنا نوازا ہے۔اور کب تک نوازتا رہے گایہ تو وہی جانتا ہے۔البتہ تاریخ کی ورق گردانی سے اندازہ ہوتا ہے کہ پہلے خدا اپنی نعمت کی بارش کرتا ہے ۔اگر اس کا شکریہ ادا کرتے رہے تو وہ دیتا رہے گا۔نا شکری کے بعد تو اللہ اپنی نعمتوں کی بارش کم کرنے لگتا ہے ۔اور ایسا زمانہ بھی آتا ہے کہ لوگ بھوک مری کے شکار ہونے لگتے ہیں۔
امریکہ کی سڑکوں پر کلیم عاجز کو سب سے زیادہ حیرانی جن چیزوں کو دیکھ کر تھی وہ یہ ہے کہ وہاں سڑکوں پر لوگ اس طرح نظر نہیں آتے تھے،جس طرح سے ہندوستان میں نظر آتے ہیں۔وہاں کلیم عاجز کو بینک کے نظام نے اپنی جانب مبذول کیا۔کیونکہ وہاں بینکوں کے اندر جانے کی ضرورت نہیں۔بلکہ ہر بینک کے کاؤنٹر کی کھڑکی سڑک سے لگی ہوئی ہوتی ہے۔انھیں کھڑکیوں سے متصل ایک ملازم رہتا ہے۔کھڑکی کے باہر مائکرو فون لگا ہے۔جو بھی پوچھنا ہے اپنی کار میں بیٹھے بیٹھے سارا کام چند منٹوں میں ختم کر کے آدمی وہاں سے روانہ ہو جاتا ہے ۔اس طرح کا نظام امریکہ میں پینتیس سال پہلے سے ہے،اور ہندوستان میں ابھی اس طرح کے نظام کا تصور بھی نہیں کیاجا سکتا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان اور امریکہ میں ترقی کے تعلق سے کتنا فرق ہے ۔اسی طرح سے وہاں ٹیکسی کا نظام بھی بہت عمدہ ہے۔ترقی کے معاملہ میں جب امریکہ اب سے پینتیس سال پہلے اتنے آگے تھا تو اب کی صورت حال کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔جو وہاں پینتیس سال پہلے تھا، کچھ چیزیں اب ہمارے ملک میںآئی ہیں۔وہاں عام طور پر نقد نہیں دیا جاتا۔پیسے کی آدائیگی کے تعلق سے کلیم عاجز لکھتے ہیں:
’’عموماً وہاں نقد کوئی سودا نہیں کرتا۔ہر شہری چاہے وہ امریکن ہو یا غیر امریکن،جسے وہاں کی قومیت مل گئی ہے یا اقامہ مل گیا ہے ،اس کے پاس ایک کارڈ ہے جو اس کی حیثیت اس کی ملازمت کی نشان دہی کرتا ہے،اسی پر اس کا اکاؤنٹ نمبر بھی ہے اس کارڈ پر امریکہ کے اندر جس شہر میں جس وقت جتنی مقدار یا تعدادمیں جو چیز خریدنی ہو فوراً مل جائے گی۔اگر بینک میں جمع شدہ رقم سے زیادہ بھی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں بینک آیندہ کی آمد پرآدائیگی کر دے گا۔‘‘(ایضاً۔ص،50 )
اس طرح کی سہولت ہندوستان میں کہاں میسر۔ایسی سہولتیں وہاں اتنے عرصے پہلے تھیں۔لیکن یہاں ایسا کوئی تصور بھی نہیں ہے۔وہاں کی پولیس اور ڈرائیور گھر کے فرد کی طرح ہیں۔یہاں ایک دشمن کی طرح۔یہاں کی تہذیب کے نام پر برا بھلا کہتے ہیں۔ممکن ہے کہ یہاں کے پولیس والوں کی یہ اپنی تہذیب ہو۔لیکن امریکہ میں پولیس والا ہر طرح سے عوام کے لئے معاون ہوتا ہے۔اگر وہاں کوئی راستے میں بیمار ہو گیا تو پولیس امبولینس کا بندوبست کرے گا۔یہ صرف راستے کی بات نہیں ہے،اگر گھر میں تنہا ہے کوئی تو بھی وہاں کی پولیس پوری مدد کرے گی ،مریض کے ساتھ جائے گی۔وہاں علاج کا پورا بندوبست کر کے، مریض کے رشتے داروں کو خبر کر کے پھر واپس ہوگی۔ اس کے برعکس ہندوستان کی پولیس کا تصور کیجئے، ایسا لگتا ہے کہ عوام کے لیے یہ عذاب ہیں ۔ تعاون کرنے کے بجائے دوسری طرح کا تعاون لیتے ہیں۔ یہ واقعہ اب سے پینتیس سال پہلے کا ہے۔ کیوں کہ یہ سارے واقعات کلیم عاجز نے اپنے دوران سفر کا بیان کیا ہے۔ ہندوستان میں ڈرائیور نئے لوگوں کو کس طرح سے پیسے کمانے کے چکر میں گھماتا ہے۔ وہاں نئے لوگوں کو پولیس ہر طرح کی سہولت دیتی ہے۔ ٹیکسی بھی کرائے گی، اور ڈرائیور کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے، جب تک وہ مسافروں کو اپنے منزل مقصود تک نہیں پہنچا دیتا وہ مطمئن نہیں ہوتا۔ کرائے کے نام پر پریشان بھی نہیں کیا جاتا۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہر چیز بڑے منظم طریقے سے ہے۔
ہندوستان میں جے پور کی خوبصورتی اس لیے بھی مشہور ہے کہ وہاں کی سڑکوں کے کنارے عمارت یکساں ہیں، تقریباً ہر لحاظ سے۔ اسی طرح سے ٹورینٹو جو کہ کناڈا کا بڑا شہر ہے اس کے تعلق سے بیان کیا ہے کہ کناڈا میں دنیا کے ہر حصے ، ہر نسل اور ہر مذہب کے لوگ ہیں۔ کلیم عاجز نے کناڈا کے شہر کو کلکتہ سے تعبیر کیا ہے۔ انھوں نے امریکہ اور کناڈا کے شہروں کی ساخت بالکل ایک بیان کی ہے۔لکھتے ہیں:
’’موسم عموماً معتدل یا سخت سردی کا ہے گرمی نہیں پڑتی۔ امریکہ اور کناڈا کے شہروں کی ساخت بالکل ایک ہے، ایک قسم کی سڑکیں، ایک انداز کے مکان، ایک انداز کی روشنی دونوں ملکوں میں سفر کی آزادی بھی ہے۔‘‘ (ایضاً، ص۔76)
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں سردی بہت سخت پڑتی ہے۔ برف باری بھی ہوتی ہے۔ جو یقیناًنظروں کو بہت خوش منظر لگتا ہے، اور سڑکوں کے کنارے جس طرح کے منظر کا ذکر کیا ہے اس سے وہاں کی خوبصورتی کا اندازہ ہوتا ہے۔ چونکہ وہاں بسنے والوں کی تعداد بہت کم ہے ۔ اس لیے بہت ساری سہولتوں کے مواقع بھی میسر ہوتے ہیں۔ کلیم عاجز نے وہاں کا ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے۔اوٹوا میں انھوں نے جمعہ کی نماز ادا کی ۔ اور انھوں نے اس کا منظر اس طرح بیا ن کیا ہے کہ مسلم ہونے پر رشک آتا ہے۔ انھوں نے جمعہ کی نماز کے بعد کا جو منظر بیان کیا ہے وہ وہاں کے لوگوں کو اپنے دین سے لگاؤکا اندازہ ہوتا ہے۔ وہاں جمعہ کی نماز کے بعد انتظامی امور کے بعد کچھ تقریریں ہوتی ہیں۔ وہاں مسجد کے عقب میں ایک بڑا ہال ہے۔ جو کہ بچوں اور کم عمروں کا مدرسہ ہے۔ یہاں سنیچر اور اتوار کو والدین اپنے بچوں کو لاتے ہیں اور کئی گھنٹے وہاں دینیات کی کلاس ہوتی ہے۔اور سب سے تعجب خیز بات یہ ہے کہ وہاں بچوں کے کلاس لینے والے الگ سے مدرس نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ ان ہی آنے والے لوگ اپنی صلاحیت اور ذوق کے اعتبار سے تعلیم و تدریس کی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ اور کلیم عاجز کو یہ چیز اور بھی پسند آئی کہ امریکہ اور کناڈا میں کوئی بھی ایسی مسجد نہیں ملی جہاں پانچ وقت کی نماز با جماعت نہ ہوتی ہو۔اور کوئی ایسا شہر نہیں ملا جہاں پانچ وقت کی نماز کے ساتھ ساتھ جمعہ کی نماز نہ ہوتی ہو۔ انھیں اس طرح کا اسلامی منظر جہاں بھی دکھا اس کا بیان بہت دل کھول کر کیا ہے۔ اور اس تعلق سے ان کی خوشی کا اندازہ کرنا بھی بسا اوقات مشکل نظر آتا ہے۔ امریکیوں کے دل میں نماز کے تئیں جو احترام ہے اس کا اندازہ کلیم عاجز کے اس واقعہ سے ہوتا ہے:
’’…..گاڑیوں کے درمیان کشادہ جگہ تھی ، اپنا مصلیٰ بچھایا اور نماز شروع کردی۔ شروع کرتے ہی ترشح شروع ہوگیا اور ایک جوڑا امیریکن عورت اور مرد کا مارکٹنگ سے فارغ ہوکر اسی کار کو نکالنے آیا جس کے آگے میں نے نماز شروع کردی تھی، عورت کار میں داخل ہوگئی اور مرد نے اپنی چھتری کھول کر مجھ پر سایہ کرلیا….. میں معذرت کرنے لگا کہ میری وجہ سے انھیں اپنی کار نکالنے میں تاخیر ہوئی، تکلیف ہوئی، مرد نے کہا آپ عبادت کر رہے تھے ؟ کیسی آسانی کیسی بے تکلفی اور کتنی سادگی ہے اس عبادت میں۔‘‘(ایضاً، ص۔164)
ظاہر ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس پر مکمل عمل کیا جائے تو ہر کس و ناکس اس سے متاثر ہوتا ہے۔ اور ایسا ہی کچھ وہاں ہوا۔ اس منظر کو جس انداز سے کلیم عاجز نے بیان کیا ہے واقعی اس میں ایمان کی تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ شکاگو میں کلیم عاجز کو ایک ایسا منظر دکھا جس پر وہ یقین نہیں کر پا رہے تھے۔ اور یقیناًافسوس ہوتا ہے کہ جس جگہ انسان انسان کو نہیں پہنچانتا وہاں کتوں کی کتنی قدرو منزلت ہے۔ کلیم عاجز ایک پر فضا مقام سے گزر رہے تھے، ان سے دائیں طرف دیکھنے کوکہا گیا کلیم عاجز نے جب دیکھا تو بڑی سادگی سے جواب دیا ہاں دیکھا، یہ توہندوستان میں بھی ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ یہا ں پیسوں کی فراوانی ہے اور ہندوستان میں پیسوں کی ایسی بہتا ت نہیں ہے۔چونکہ وہ منظر ایک قبرستان کا تھا جسے کلیم عاجز عیسائیوں کا سمجھ بیٹھے تھے۔ اس کا رقبہ بڑا حسین تھا ، شاندار کتبے تھے، باغ میں پھلواریاں تھیں، فوارے تھے۔ انھیں مال والوں کی قبریں تصور کر رہے تھے۔ جب انھیں پتہ چلا کہ یہ عیسائیوں کی قبریں نہیں ہیں بلکہ عیسائیوں کے کتوں کی قبریں ہیں، ایک عجیب سے دھچکا لگا۔ حیرانی سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ ان کتوں کے قبرستان کا منظر انھیں کی زبانی ملاحظہ ہو:
’’اور دیکھا کہ نئی تہذیب کی دیوتا کی قبریں بالکل انسانی قبروں کی طرح قطار سے دور دور پھیلی ہوئی ہیں۔ جن کے ارد گرد رنگ برنگ کے خوش نما پھول کھل رہے ہیں۔ جھاڑیاں جھوم رہی ہیں مرمریں تعویذیں اور کتبے چمک رہے ہیں اور چند قبروں پر مرد عورت، بچے اور لڑکیاں، ہاتھ باندھے سر جھکائے ایسی عقیدت اور محبت سے کھڑی ہوئی ہیں جیسے بزرگوں کے مزاروں پر مسلمان مراقبے میں کھڑے ہوتے ہیں۔‘‘(ایضاً، ص۔125)
درج بالا اقتباس سے اندازہ ہوتاہے کہ جس شہر میں انسان انسان کو نہیں پہچانتا ہے وہاں کتوں کا کیا مرتبہ ہے۔ ظاہر ہے کہ انسانوں میں پرستش کا جذبہ روز اول سے ہے ۔ جسے اس نے بڑا سمجھا ، جس سے پیارکیا اس کے آگے سر جھکا دیا۔ چونکہ اللہ سب سے بڑا ہے، اور سب سے زیادہ پیار کے قابل ہے ، اس لیے انسان اس کے سامنے سر جھکا تا ہے۔ سب کا اپنا اپنا عقیدہ ہے اور اپنے اپنے عقیدے کے حساب سے انسان پرستش کرتا ہے۔ لیکن کتوں میں پرستش کا کیا جواز ۔ یہ ایسا واقعہ ہے جو سماج پر سب سے زیادہ چوٹ کرتا ہے کہ جو قدرو منزلت انسان کی ہونی چاہیے وہ کتوں کی ہوتی ہے۔اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
کلیم عاجز نے اپنے سفر میں بہت سے مشاعروں اور شعری نشستو ں میں شرکت کی۔ اور ان کے اس سفر کا سبب بھی یہی تھا ۔ انھوں نے اپنے اس سفر نامے میں بہت سے مشاعروں اور شعری نشستوں کاذکرکیا ہے۔ نہ صرف ذکر کیا ہے بلکہ اپنی یاداشت کی بنیاد پر کچھ شاعروں کا نام اور ان کے نمونۂ کلام کو بھی درج کیا ہے۔ غرض یہ کہ کلیم عاجز نے اپنے سفر نامے میں بہت سے واقعات کو درج کیا ہے۔آج سے تقریباً پینتیس سال پہلے کا امریکہ اور کناڈا ان کے سفر نامے کو پڑھ کر سامنے آگیا۔ وہاں کا ماحول ، وہاں کا انتظام ، رہن سہن اور مختلف چیزوں کا ذکر انھوں نے بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ چونکہ ایک شاعر ہونے کی وجہ سے طبیعت میں احساس کا عنصر زیادہ غالب ہوتا ہے۔ اسی لیے انھوں نے اگر کسی خوش نما چیز کو دیکھا تو اس کا اظہار بہت دل کھول کر کیا ، اور اگر کسی ایسی چیز کو دیکھا جو دل کو نا موزوں لگی تو اس کا بھی برمحل اظہار کیا۔ ایک عام سفر نامے سے ہٹ کر اس سفر نامے میں وہاں کی سڑکیں، پہاڑ، خوبصورت عمارت اور دیگر چیزوں کا ذکر اس طرح سے نہیں ملے گا، البتہ انسانی اقدار کے بہت ایسے نمونے انھوں نے بیان کیے ہیں جو اپنے معاشرے میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ایک ایسے دیس میں بدیسی اپنے ملک کی عینک سے اس بدیسی ملک کا تجزیہ کرتا ہے، جو ہزاروں میل کے فاصلے پر ، اور ایسی صورت میں بھی اپنی خوشی کا ذریعہ ڈھونڈ لیتا ہے ؂
دل کہتا ہے فصل جنوں کے آنے میں کچھ دیر نہیں
اب یہ ہوا چلنے ہی کو ہے صبح چلے یا شام چلے
***

Shahnewaz Faiyaz
Research Scholar
Department Of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Dehli-110025
Mob: +91 9891438766
Email: sanjujmi@gmail.com

Leave a Reply

1 Comment on "امریکہ میں ایک بدیسی: کلیم احمد عاجز
"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] امریکہ میں ایک بدیسی: کلیم احمد عاجز […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.