سنت کبیر داسِ

خالق کائنات نے اس دنیا کی تخلیق کی تو اس کے نظام کو بہتر طریقے سے چلانے کے لئے تقریباً سوا لاکھ پیغمبر مبعوث فرمائے۔ جب پیغمبروں کی بعثت کا سلسلہ ختم ہوا تو اس فریضے کی انجام دہی کے لئے حسب ضرورت مجددین و مصلحین بھی پیدا ہوئے جنھوں نے خالق کو مخلوق سے جوڑنے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ یہ سلسلہ مادی اور روحانی دونوں سطحوں پر جاری رہا۔ لیکن مادے کی ترقی نے بعض اوقات بڑے مسائل کھڑے کئے۔ اس کا تعلق چونکہ دنیاوی یا انسانی ضروریات سے تھا لہذا اس نے سائنس کی مدد سے ایجادات و اختراعات کے میدان میں بہت بڑی کامیابی حاصل کی۔ اس کے برخلاف چونکہ روح کی ترقی ایک اضافی یا ذیلی ضمنی چیز تصور کی گئی اس لئے اس کی طرف چشم التفات کم کی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مادی فوائد کے حصول کے لئے انسان تو انسان کا دشمن بنا ہی، یہ اپنی روز افزوں ترقیات کے زعم میں خدا سے بھی دور ہوگیا۔ یہ دوری یہاں تک بڑھی کہ وہ اپنے وجود کے لئے خدا کی تخلیق کا منکر ہوگیا۔ جب مادے اور روح کی ترقی کا توازن تشویشناک حد تک بگڑنے لگا تو روحانیت کی تعلیم کی ضرورت شدت سے محسوس کی جانے لگی۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اہل باطن ظاہر پرستوں کی اصلاح کے لئے میدان میں آئے اور انسان کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا۔ اس گروہ کو صوفی کہا گیا۔ ہندی میں اس کو رشی منی یا سنت جیسے ناموں سے یاد کیا گیا۔ ان صوفیوں اور سنتوں میں کبیر داس بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ کبیر کی تاریخ پیدائش اور مقام پیدائش کے بارے میں مختلف رائیں سامنے آئی ہیں لیکن ایک راجح قول کے مطابق کبیر کی پیدائش ۵۵۴۱ بکرمی سمبت بہ مطابق ۸۹۳۱ء میں ہوئی۔ ڈاکٹر شیام سندرداس کبیر داس کی پیدائش ۵۵۴۱ بکرمی سمیت بماہ جیٹھ اور بروز دو شنبہ مانتے ہیں۔۱؂اس سلسلے میں کبیر گرنتھ کے درج ذیل پد سے بھی مذکورہ تاریخ کی تصدیق ہوتی ہے۔
(۱؂ حاشیہ: ڈاکٹر شیام سندر داس بحوالہ کبیر پچنا میرت ،ص۴، مرتبہ وجیندر اسنانک رمیش چندر مشر۔)
pkSng lkS ipiu lky x;s] pUnzokj bd BkB B,A
tsB lnh ojlk; rdh iwjueklh frfFk izxV Hk,A
/ku xjts nkfeuh neds cwanS cj”ks Hkj ykx x,A
ygj rykc esa dey f[kys rga dchj Hkkuq izxj Hk,AA
اسی طرح کبیر کی جائے پیدائش کے تعلق سے علماء تحقیق متفق الخیال نہیں ہیں۔ زیادہ تر محققین ان کا مقام پیدائش کاشی مانتے ہیں۔ کچھ علماء مگہر ضلع بستی اور کچھ بلتھرا ضلع اعظم گڑھ بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن اس ضمن میں بہت واضح شہادتیں دستیاب نہیں۔ اس سلسلے میں کبیر بانی سے کچھ شہادتیں پیش کی جاتی ہیں جو دلچسپی سے خالی نہیں۔
igys njlu exgj ik;ks iqfu dk’kh ols vkbZ
tSlh exgj rSlh dklh ge ,sdS dfj tkuhA
cgqr cjl ri dh;k dklh] eju Hkb;k exgj dks cklhAA
اس ضمن میں یہ بھی عرض کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مگہر قصبے کے تعلق سے ایک کہاوت مشہور ہے کہ جو یہاں مرتا ہے وہ سیدھے جہنم میں جاتا ہے اور کبیر نے اس قصبے کو اپنی آخری قیام گاہ کے لئے پسند کیا تھا۔
اسی طرح کبیر کی ذات کے تعلق سے بھی مختلف آراء ہیں۔ ان کے مذہب کے تعلق سے بھی واضح ثبوت نہیں ملتے۔ کبیر اپنی شاعری میں کہیں مقامات پر خود کو جلاہا کہا ہے لیکن خود کو کہیں مسلمان نہیں کہا۔ یہی وجہ ہے کہ ریداس نے بھی کبیر کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کا جنم جس گھرانے میں وہاں عید اور بقر عید وغیرہ منائی جاتی تھی۔ اس سے ان کا مسلمان ہونا ثابت ہوتا ہے لیکن کبیر پنتھی انھیں مسلمان نہیں مانتے۔ کبیر کسوٹی گرنتھ کے مطابق ان کی ماں تر کافی اور باپ جلاہا قرار پاتے ہیں۔ ek; rqjdkuh cki tqykgk csVk HkDr Hk;s لیکن نیما نیرو جن کے زیر پروش کبیر پروان چڑھے ان کا مذہب اسلام اور ذات جلاہا تھی۔ کہا جاتا ہے کہ کبیر کی دو بیویاں تھیں۔ لوئی اور دھنیا۔ لوئی بدصورت تھی اس لئے کبیراس سے خوش نہیں تھے اس لئے دھنیا سے شادی کی جو خوبصورت تھی۔ لوئی کے تعلق سے کبیر کہتے ہیں۔
dgr dchj lqugqjs yksbZ vc rqejh ijrhfr u gksbZA
کبیر زیادہ تر گیان دھیان میں وقت گذارتے تھے اس لئے کپڑا بننے کے پیشے کے لئے کم وقت نکال پاتے تھے اور تنگدستی کی وجہ سے اکثر اوقات گھریلو انتشار کا شکار ہوجاتے تھے۔کبیر مکتبی تعلیم سے ناآشنا تھے۔ چنانچہ خود کہتے ہیں:
efl dkxn Nqok ugha] dye xgh ugha gkFkA
یوں بھی سینے کے علم کو فوقیت دیتے تھے۔ کتابوں کو اہمیت نہیں دیتے تھے کہتے تھے :
iksFkh if<+ if<+ tx eqok iafMr Hk;k u dks;A
BkbZ vk[kj izse dk] i<+S lks iafMr gks;AA
ایک دوسری جگہ کہتے ہیں ؂
esjk rsjk euqok dSls ,d gksb js
rw dgrk dkxn dh ys[kh] eSa dgrk vkaf[ku dh ns[kh
eSa dgrk lqj >kou gkjh] rw jk[kk ml >ksbZ js
یہ بات بہت مشہور ہے کہ کبیر نے سوامی راما نند سے اکتساب فیض کیا تھا۔ لیکن مسئلہ بھی خاصا پیچیدہ ہے ۔ مورخین کی تاریخ کی کسوٹی پر یہ حقیقت پوری نہیں اترتی۔ مورخین کے نزدیک دونوں کے زمانوں میں کافی فرق ہے۔ علاوہ ازیں کچھ مورخین نے کبیرکے دیگر اساتذہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ مثلاً ڈاکٹر پیتا مبردت بڑتھوال نے کسی پیتمبر پیر کو کبیر کا گرو بتایا ہے اور ثبوت کے طور پر کبیر گر نتھاولی سے درج ذیل مصرعے پیش کئے ہیں ؂
gTt gekjh xkserh rhjA gtka clfga ihrkEcj ihjAA
ڈاکٹر ویسٹ کٹ نے اپنی کتاب Kabir and the Kabir Panthمیں کسی شیخ تقی کو کبیر کا پیر کہا ہے جس کی رہائش گومتی کے کنارے کسی مقام پر تھی۔ لیکن ایسا خیال بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ کبیر شیخ تقی سے کسی وجہ سے بدظن ہوگئے تھے اور یہاں تک کہہ دیا تھا ؂
tkuk ukp upk ;dS] ukps uV ds HksjoA
?kj ?kj vkfouklh vgS] lqugq rdh rqe ls[kAA
لیکن کبیرپنتھیوں کے ساتھ ساتھ بہت سے مورخین ادب نے سوای راما نند ہی کو کبیر کا گرو مانا ہے ان میں آچاریہ رام چندر شکل، ڈاکٹر بھنڈارکر ، ڈاکٹر شیام سندر داس، ڈاکٹر بڑتھوال ، ڈاکٹر ہزاری پرساد دیویدی اور مسٹر میکالف وغیرہ اہم ہیں اور یہی زیادہ قرین قیاس ہے ۔ کیوں کہ خود کبیر نے کئی مواقع پر سوامی راما نند کو اپنا گرو کہا ہے۔ چند مثالیں دیکھیں ؂
dk’kh esa dhjfr lqfu vkbZ dchj eksfg dFk lqukbZA
xq: jkekuUn pj.k deyij /kksfcu nhuh ckjAA
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
dk’kh izdVs nkl dgk,] uh: ds x`g vk,A
jkekuUn ds f’k”; Hk;s] Hko lkxj iaFk pyk,AA
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
jkekuUn jke jl HkkrsA
dgfga dchj ge dfg&dfg FkkdsAA
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
dgS dchj nfo/kk feVh] tc xq: fefy;k jkekuUnA
dchj jkekuUn dk lrxq: feys lgk;AA
جیسا کہ اوپر کہیں مذکور ہوا کہ کبیر کے معاشی حالات اچھے نہیں تھے تاہم ان کے بارے میں یہ اطلاعات بھی ہیں کہ انھوں نے نہ صرف یہ کہ ہندوستان میں بلکہ بیرون ہند بھی بہت سے سفر اور زیارتیں کیں۔ کتاب منصور ؍منشور کے مطابق انھوں نے بلخ، بخارا، سمر قند اور بغداد وغیرہ تک سفر کیا۔ ان کا ذکر آئین اکبری میں بھی ملتا ہے۔ اس میں مذکور ہے کہ کبیر جگن ناتھ پوری میں بھی رہ چکے تھے۔ ۱؂ (۱؂ حاشیہ dchj dkO;k e`rw، ص۲۱، مصنفہ ڈاکٹر مکھن لال پاراشر۔) ان کے کلام کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے متعدد بار حج بھی کیا تھا۔ چنانچہ کہتے ہیں ؂
dchj gt dkcs gksbZ gksbZ xb vk ds rkS ckj
تصوف میں پیر یا شیخ طریقت کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کے بغیر سالک کو منزلِ کبریا تک رسائی ممکن نہیں۔ تمام اہل تصوف کا اس پر ایقان ہے کہ پیر کا وست مبارک ہاتھ میں آتے ہیں اندھیری راہوں میں چراغ جل جاتے ہیں۔ چنانچہ حافظ کہتے ہیں ؂
بہ مئے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نبود زراہ و رسمِ منزلہا
لیکن کبیر ؔ پیر کی اہمیت کے کچھ زیادہ ہی قائل ہیں۔ یہاں تک کہ وہ پیر کو خدا سے پہلے مستحق پرستش قرار دیتے ہیں۔ کہتے ہیں ؂
گرو گووند دوؤ کھڑے کاکے لاگوں پائے
بلہاری گرو آپنے گووند دیو بتائے
ایک جگہ اور کہتے ہیں ؂
سب دھرتی کا گذ کروں لیکھنی سب بن رائے
سات سمندر کی مس کروں گروگن لکھا نہ جائے
اقبال نے رومی اور رومی نے شمس تبریز کی شان میں جس عقیدت کا اظہار کیا ہے اس کو دیکھ کبیرؔ کی پیر سے یہ عقیدت کوئی بہت حیرت و استعجاب کی بات نہیں۔ یہ ایک حسن اتفاق ہے کہ جس طرح غالبؔ نے بے استادہ کہے جانے کو بہت معیوب سمجھا تھا اور عبدالصمد نامی فرضی استاذ گھڑ لیا تھا اسی طرح کبیر کو نِگُرا کہلایا جانا پسند نہ تھا اور انھوں نے سوامی راما نند کو اپنا گرو بنانا چاہا ہوگا۔ ۱؂
(۱؂ حاشیہ: کبیر پنچانن، ص ۲۱، از وجیندر اسناتک؍رمیش چندر مشر۔)
کبیر کے تصوف کی دو باتیں بہت اہم ہیں ایک پر اسراریت دوسری وحدۃ الوجود۔ پر اسراریت سے مراد وجود خداوندی سے متعلق اہل خرد کی وہ گتھیاں ہیں جنھیں ناخن عشق کے بغیر سلجھایا نہیں جاسکتا۔ خدا کیا ہے ۔ خدا ہے بھی یا نہیں۔ خدا پردے میں رہ کر اس کارخانۂ عالم کو کس طرح چلا رہا ہے۔ اگر خدا ہے تو یہ دنیا فتنہ و فساد کی آماجگاہ کیوں ہے۔ ظلم و جبر اگر قدر وقضا کی دسترس میں ہے تو اس پر قدغن کیوں نہیں لگائی جاتی۔ حیات بعد الموت کا کیا تصور ہے۔ جنت اور جہنم کی کیا حقیقت ہے ان سوالات کا جواب ایک صوفی کے پاس تو ہے لیکن سائنٹفک طریقے سے اسے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لئے وہ علم درکار ہے جو عرفان اور ادراک کا پروردہ ہے۔ بنا اس کے یہ چیز تو ہم پرستی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔
دراصل معاملہ یہ ہے کہ امور مابعدالطبیعات اور حقائق ماورائے ادراک سے متعلق چیزیں چشم باطن میں مشاہدہ کی جاسکتی ہیں۔ جن صاحبان ادراک نے اس راز سے پردہ ہٹانے کی کوشش کی وہ دار و رسن کے مستحق ٹھہرے۔ کبیر پڑھے لکھے نہیں تھے۔ معروف معنوں میں انھوں نے کتب بینی یا مطالعہ نہیں کیا تھا لیکن ان کا مشاہدہ نہایت قوی تھا۔ ریاضت و استغراق نے انھیں معرفت کا شناور بنا دیا تھا لہذا جب وہ ڈوب کر گوہر مراد لاتے تو یہ ساحل نشینوں کی فہم سے بالاتر ہوتا۔ یہیں پر اسراریت اپنے پر پھیلانے لگتی۔ لہذا اب یہ چیزیں محض عقیدے کی بنیاد پر باقی ہیں۔
مختصر یہ کہ جن صاحبان قلب و نظر نے دنیا کی حقیقت اور وجود خداوندی کی ماہیت پر غور کر کے انکشاف راز کیا ان میں کبیر قابل ذکر ہیں۔ کبیر کہتے ہیں ؂
ftu <w
eSa ciqjk cw<+u Mjk jgk fdukjs cSfBAA
علامہ اقبال نے اسی خیال کو اپنے مخصوص انداز میں اس طرح شعر کے سانچے میں ڈھالا ہے ؂
علم کے دریا سے نکلے غوطہ زن گوہر بدست
وائے ناکامی خرف چینِ لب ساحل ہوں میں
ایک غیر معروف شاعر نے ترک دنیا کی تعلیم اس طرح دی ہے ؂
رنگ رلیوں میں زمانے کی نہ آنا اے دل
یہ خزاں ہے جو بانداز بہار آئی ہے
کبیر مزید انکشاف حقیقت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
uk dksbZ cU/kq u HkkbZ lkFkh] cka/ks jgs rqjaxe gkFkhA
eSM+ks ckoM+h Nktk] ?kkaM+ x;s lc Hkwifr jktkAA
میر انیسؔ کہتے ہیں ؂
دنیا سے کیا کیا صاحب مال گئے
دوست نہ گئی ساتھ نہ اطفال گئے
پہنچانے لحد تک آکر آئے سب لوگ
ہمرا گر گئے تو اعمال گئے
تھامس گرے اس خیال کو بڑے عبرت انگیز انداز میں بیان کرتا ہے:The paths of glory reach but to the grave جیسا کہ اوپر کہیں مذکور ہوا کہ کبیر کے کلام کا ایک نمایاں پہلو وحدۃ الوجود بھی ہے۔ یہ مسئلہ دراصل ویدانت سے کافی مماثلت رکھتا ہے۔ اس کی اجمالی تعریف یہ ہے کہ دنیا میں صرف ایک ہی وجود ہے جو خدا کا ہے اگر اس کے علاوہ ہم کسی اور وجود کو تسلیم کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اس وجود کو خدائے وجود میں شریک کرتے ہیں اور اس طرح شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یعنی یہ دنیا وجود خود ا وندی کا صرف عکس ہے۔ یہ تمام مظاہر اسی ایک وجود مطلق کے انعکاس ہیں۔ لہذا کبیر کہتے ہیں:
tc eSa Fkk rc gfj ugha] vc gfj gS eSa ukfgA
lc vkaf/k;kjk feV x;k tc nhid ns”;k ekfgAA
غالب کہتے ہیں :
ہر چند سبک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگ گراں اور
ایک قصیدے میں کہتے ہیں:
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
اقبال نے اس مسئلے کو نہایت شرح وبسط کے ساتھ پیش کیا ہے۔انھوں نے درجنوں اشعار میں یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ خدا انسان میں سما کر اس میں اپنے وجود کو منواتا ہے۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ ازل میں صرف ایک وجود تھا جب اس میں تقسیم ہوئی تو ایک کل بن گیا اور دوسرا جزو ٹھہرا یعنی فی نفسہ دونوں ایک ہیں یعنی یہ وہی فلسفہ ہے جسے منصور نے انا الحق کہا تھا۔ یہ وہی فلسفہ ہے جو قدیم ہندو مذہب میں vgx~ czkgkfLeکی شکل میں مشہور ہے۔ کبیر نے علمائے ظاہر پر طنز کیا ہے کہ یہ لوگ خدا تک رسائی حاصل کرناچاہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ چونکہ ان کو معرفت حاصل نہیں ہے اس لئے ان کے گم کردہ راہ ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ کہتے ہیں:
pykS pykS lcdh dgSa eksafg vanslk vkSj
lkgc lks ipkZ ugh , tkfgaxs fdl vkSj
مضمون کے آخر میں کبیر کے نصب العین کو ایک دوہے کے ذریعے واضح کیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بقا حاصل کرنے کے لئے پہلے فنا کی منزل ہے گذرنا پڑتا ہے۔ جس طرح قطرہ سمندر میں مل کر اپنا وجود کھو بیٹھتا ہے لیکن سمندر کی شکل میں باقی رہتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں ؂
izse u ckM+h 197aitS] izse u gkj fodk;A
jktk ijtk ts :pS lhl nsbZ ybZ tk;sAA
یعنی سر کو گنوا کر عشق کی منزل آخر تک رسائی حاصل کرنا ایک عاشق صادق کا نصب العین ہے اور کبیر اس مرحلے سے سرخرو گذرے ہیں۔

Leave a Reply

1 Comment on "سنت کبیر داسِ
"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] 114.     سنت کبیر داسِ […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.