روداد صحافت ،ماضی ،حال اور مستقبل

               کسی نے خوب کہا ہے کہ”ضرورت ایجاد کی ماں  ہے ”وقت اور حالات کے اعتبار سے نئی ایجاد ہماری ضروریات ِزندگی کی فہرست میں  بہت کچھ اضافہ کر دیا کر تی ہے ۔مطبع یا press کی آمد سے قدیم روایات ان معنوں  میں  منقطع ہو گئی ہیں  کہ پہلے زمانے میں  جہاں  خبریں  ایک جگہ سے دوسری جگہ پیغام رساں  کے ذریعے پہنچتی تھی یا کوئی اہم واقعہ مختلف خطوں  میں  پیامبروں  کے ذریعے بھیجی جاتی تھی یا نقّاروں  کی بلند آواز پر دیگر قسم کی اطلاعات فراہم کی جاتی تھیں وہ موجودہ دور میں  متروک ہو چکی ہیں  ۔صحافت کی اولین ابتداء قرون وسطی میں  ہوئی ، پہلا اخبار ایجاد کر نے والا شہر وینس (venis ) ہے ۔ا ُس دور میں  اسے گزٹ کہا جا تا تھا ۔ سولہویں  صدی میں  خبر نامہ کو نیوز شِیٹ کہتے تھے ۔ سترہویں  صدی میں  خبر رسانی کا کام بڑی تیزی سے شروع ہوا،جس نے اخبار کی شکل اختیار کی ۔اسی صدی کی پہلی دہائی میں  انگریزوں  کی آمد شروع ہوئی ،رفتہ رفتہ انگریزوں  کی جڑیں  مضبوط ہو تی چلی گئیں بالآخر 1757 ء میں  سراج الدولہ کو شکست دیتے ہوئے 1857 ء تک پورے ہندوستان پر قابض ہو گئے ۔اسی درمیان مسٹر ولیم بولٹس نے ہندوستان میں  اخبار کی اجراء کی پہلی کو شش کی لیکن نا کام رہے ۔اس کے بعد باقا عدہ طور پر جیمس اَگَسْٹَس نے 1780 ء میں  کلکتہ سے پہلا انگریزی اخبار ”بنگال ہکیز گَزَٹ ”یا ”Culcutta general Advertiser” کے نام سے نکا لا ۔اس کے بعد انڈیا گزٹ ،کلکتہ گزٹ اور مدراس کو ریر وغیرہ ملک کے دیگر حصوں  سے نکلنے شروع ہوئے

جہاں  تک اردو صحافت کا تعلق ہے تو اس کے آغاز کا سبب انیسویں  صدی کے دو د ہائی کے بعد ہری ہِر َدتْ نے راجہ رام موہن رائے کے توسط سے 1821 ء میں  بنگلہ اخبار ”سمواد کمودی ”کے نام سے جاری کیا ،جس میں  سیاسی خبروں  کے علاوہ ہندوسماج کی اصلا ح پر بھی زور دیا جا تا تھا جہاں  اُن دِنوں  سَتِیْ کا رواج عام تھا ۔اُسی درمیان ”سمواد کمودی ”کے معاون ایڈیٹر بھوانی چرن بندو پا دھیا نے ”سماچار چندریکا ” نامی اخبار جا ری کیا ۔ جسے ہری ہِردت نے مخالفانہ رویہ سمجھ کر اپنے لئے چیلینج سمجھا اور 27مارچ 1822 ء میں  اردو کا پہلا اخبار ”جام جہاں  نماں ”کے نام سے جاری کیا لیکن افسوس زمانے کی نظر بد سے یہ اخبار بچ نہ سکا،یہ وہ زمانہ تھا جب فارسی ملک گیر پیمانے پر بولی اور سمجھی جا تی تھی یعنی اسے سرکاری زبان ہونے کی حیثیت حاصل تھی اردو جو اُس زمانے میں  عوامی زبان کی حیثیت سے پھل پھول رہی تھی فارسی زبان کے مقابلے میں  نہایت کمزور تھی نتیجہ یہ ہوا کہ ارود میں  جب جام جہاں  نماں  کے شمارے شائع ہو ئے تو وہ مقبو ل نہ ہو سکا بلآخر وہ 23 / جنوری 1828 ء میں  بند کر دیا گیا لیکن یہ فارسی میں  اسی نام سے جاری رہا ۔ انیسویں  صدی کے اوائل میں  ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں  عملاًمر کزی حیثیت حاصل کرلی تھی اوراپنی امتیازی شان کو ظاہر کر نے کے لئے مغل سرکاری زبان فارسی کو ختم کر کے 1830 ء میں  اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا ۔جس سے اردو کی نشو ونما پر خوش گوار اثرات مر تب ہوئے۔عدالتوں  میں  فارسی کی جگہ اردو میں  کام کاج ہو نے لگے ساتھ ہی ساتھ اردو اخبارات کی تعدادمیں  دن بدن اضافہ ہو نے لگا ۔

1836 ء میں  محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر نے ”دہلی اردو اخبار ”جاری کیا ۔یہ اخبار شمالی ہند کا پہلا اورہندوستان کا دوسرا اخبار تھا ۔ اس اخبار نے جہاد آزادی میں  بھر پور حصہ لیا ۔انگریزوں  کی مخالفت اور آزادی کی حمایت کر نے کے پاداش میں  محمد باقر شہید کردیئے گئے۔یہ پہلے اخبار نَوِیس تھے جنہوں  نے ملک کی آزادی کے لئے قربانی دی ۔سرسید کے بھائی سید محمد خاں  نے 1837 ء میں ”سید الاخبار ” اور ایک عیسائی مشنری سوسائٹی کے تحت مرزا پورسے ”خیر خواہ ہند” جاری کیا  ۔ان تینوں  اخباروں  کے اجراکے بعد شمالی ہند سے ہی نہیں  بلکہ ملک کے دور دراز گوشوں  سے بھی اخبارات جاری ہوئے ان میں  سراج الاخبار (1841) ، صادق الاخبار (1844 )،عمد ة الاخبار (1847 )،اسعدالاخبار(1847 )،تعلیم الاخبار ،جام جمشید ،لکھنو اخبار ،تحفة الحدائق،کوہ نور ،باغ نور،ریاض نور ،سحر سامری ،طلسم لکھنو،وغیرہ اہم اخبارات ہیں ۔ اردو صحافت کایہ ابتدائی دور تھا ۔تمام اخبارات ہفتہ روزہ یا سہ روزہ ہو ا کر تے تھے ۔1857 ء میں  غد ر کا واقعہ رونما ں  ہوا ۔انگریزوں  نے ہر ممکن کو شش کی کہ ہندو مسلم کے درمیا ن نااتفاقی پید ا کی جائے ،ہندی اور اردو کے مابین ٹکراؤپیدا کر نے کی کوشش بھی کی لیکن دونوں  قوموں  نے یکجہتی کا ثبوت دیتے ہوئے اردو زبان کو ہرخاص وعام کا وسیلہء اظہار قرار دیا۔جس کے باعث اردو صحافت بتدریج ارتقائی مراحل کو طے کر تے ہوئے اردو اخبارات کی پیش رفت دن بدن ترقی کی جانب گامز ن ہوئی ۔اس میں  بلا تفریق ملت و مذ ہب کی شمولیت تھی ۔1857ء اور اس کے بعد جتنے بھی اخبارات نکلے ان میں  زیادہ تر اردو ہی کا سہارا لیا گیا ۔ہندو بھائیوں  نے بھی کثرت سے اسی زبان کو وسیلہ اظہار بنایا۔غدر کے بعد ہندوستانی اخباروں  میں  بالخصوص اردو کے اہم نام اردو گائد ،اودھ اخبار ،شمس الاخبار ،طلسم حیرت، مدراس پنچ، امین الاخبار ،وکٹوریہ گزٹ، ہندوستان ،اخبار عالم ،کانپور گزٹ،ریاض الاخبار،علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ ، مظہرالاخبار ،اردو اخبار ،آئینہ عالم ،دھوم پرکاش ،اعلامیہ ،تہذیب الاخلاق، گورنمنٹ گزٹ ،سعدالاخبار ،اودھ پنچ ،شگوفہ ،اتحاد ، زمیندار ، مخبر صادق ،پیشوا اور شمشیر قلم،وغیرہ تھے جو انیسویں  صدی کے صحافتی خدمات پر معمور تھے ۔

بیسویں  صدی کی ہندوستانی صحافت نے بتدریج ارتقائی منا زل کو طے کر تے ہوئے جنگ آزادی میں  اہم رول ادا کیا ۔اس دور کی صحافت کی خصوصیت یہ تھی کہ ملکی و غیرملکی صحافت کے درمیان خَطِ امتیاز قائم کیا اُس عہد کی ابتدائی اردو صحافت میں  ”مخزن ” (1901 )، ”زمانہ ”(1903 ) ، اور ”زمیندار ”(1903 )،کا فی اہم ہیں ، جس نے عوام میں  اخبار بینی کا ذوق و شوق پیدا کیا ۔ حسرت موہانی پہلے شخص ہیں  جس نے ”اردوئے معلی ” (1903)،کے ذریعے ہندوستان کی مکمل آزادی کا نعرہ بلندکیا اور اس کے ذریعے صحافت کی آبیاری کی ۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ”لسان الصدق ” کے ذریعے صحافت میں  قدم رکھا ،”الہلال ”(1912)،  ا ور”البلاغ ”(1927)،کے ذریعے بیداری مغز کا کام کیا۔مولانا ظفر نے ”ستارہ صبح ” اور زمیندار نکالا،محمد علی جوہر نے ”کامریڈ ”اور ”ہمدرد”(1912) ،عبدالمجید سالک نے ”انقلاب ”اور سید جالب دہلوی نے ”ہمدم”نکالا۔باقی دیگر اخباروں  میں  ”جنگ،قومی آواز ،انجام ،پیسہ اخبار ،دعوت ،وغیرہ اہم ہیں  جس نے اردو صحافت کو عروج بخشا ۔یہ وہ اخبارات و رسائل ہیں  جنہوں  نے برٹش حکومت کے خلاف قومی جذبات اور انقلاب کے ولولوں  سے ہندوستانی عوام کو بیدار کیا ۔آزادی کے بعد تقسیم ملک کے ساتھ ساتھ اردو صحافت بھی تقسیم ہو گئی ،جس سے اردو صحافت کا شیرازہ بکھر گیا ،لیکن اس کے باوجود ہندوستانی اردو صحافت اپنے نئے جوش وجذبے اور سیکولر کے راستے دِیگراخباروں  کے ہم رَکاب ہو نے میں  کوئی کمی نہ کی ۔پرتاب ،تیج ،اور ملاپ نے سکہ جمایا ،ہند سماچار نے اپنے وجود کو مستحکم کیا ۔قومی آواز نے اردو صحافت کو وقار بخشا ،اس کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں  سے نکلنے والے اخباروں  میں  حیدرآباد سے سیاست، رہنمائے دکن ،منصف،پٹنہ سے صدائے عام اور ساتھی ، لکھنو سے ہمدرد،بجنور سے نگینہ اور الامان،امرتسر سے وکیل ،بمبئی سے انقلاب ،اجمل ،خلافت اور اردو ٹائمز ،کلکتہ سے عصرجدید ،اخبار مشرق ،بنگلور سے سالار ،کشمیر سے آذان ،جمعیت علماء ہند سے الجمعیت ،مسلم لیگ کاترجمان وحدت ،کانگریس کا ترجمان وطن اور بعد میں  جواہر لا ل نہرو کی سرپرستی میں  قومی آواز جاری ہوا۔واقعہ یہ ہے کہ اسی دور میں  صحافت نے اپنا اصل مقام حاصل کیا ۔عمومی طور سے اس عہد کی صحافت نے زندگی کے مختلف شعبوں  میں  اپنے اثرات ثبت کئے ،اگر ہم بنظر ِغائر جائزہ لیں  تو اردو صحافت میں  جو چیز قدر مشترک نظر آتی ہے وہ جنگ آزادی کی جد وجہد ہے ۔اس میں  کوئی شبہ نہیں  کہ اردو صحافت نے ملک کو آزاد کرانے میں  نمایاں  حصہ لیا ،عوامی بیداری اور سیاسی شعور کے بیدار کر نے میں  اس نے جس قدر اپنا کردار ادا کیا وہ د وسرے تخلیقی عمل سے ناممکن تھا۔

عہد حاضر میں  اردو صحافت کی خدمات قابل ستائش ہے اِس کی زندہ مثال یہ ہے کہ روزانہ معمول کے مطابق کروڑوں  لو گوں  کے ہاتھوں  میں  اردو کا کوئی نہ کوئی خبر نامہ ضرور ہو تاہے ۔اردو روزناموں  کی تعداد نئی رپورٹ 2010-2011 کے مطابق 938 ہے ۔آج اردو صحافت مختلف زبانوں  کے روزناموں  کے مقابلے میں  ہندی ارو انگلش کے بعد تیسرے نمبر پر ہے ۔اگر اعداد وشمارکے لحاظ سے دیکھا جائے تو ہندی روزناموں  کی تعداد 7910 ہے اور انگلش اخباروں  کی تعداد 1406 ہے وہیں  اردو اخبار جس کی تعداد 938ہے ۔اردو کا مجموعی سرکولیشن دو کروڑ ،سولہ لاکھ،انچالیس ہزار ،دوسو تیس کاپی ہے ۔اس طرح اردو صحافت روزبروز ترقی کے منازل طے کر رہی ہے ۔خبروں  کی دوڑ میں  اخبارات پہلے ہی سے ٹیلی ویزن پر دن بدن بڑھنے والی نیوز چینلوں  کی رقابت کا سامنا کر رہی ہے ۔آج ایڈیٹر وں  کے لئے کئی مسائل درپیش ہیں  ،ان کے سامنے ملک کے سیاسی مسائل،سماجی خلفشار،اقتصادی بحران ،معاشی جہات کے علاوہ فروغ تعلیم وغیرہ اہم ایشوز ہیں  ۔

اکیسویں  صدی کی دوسری دہائی میں  ملک کے کئی بڑی ریاستوں  اور شہروں  سے اردو کے ممتاز اخبارات غیرمعمولی انداز میں  شائع ہو رہے ہیں ۔اس دور کے سارے اخبارات انٹرنیٹ سے جڑے ہوئے ہیں  ۔ذرائع ابلاغ کا بہترین ذریعہ ہے ۔ہندوستان کے مختلف جگہوں  سے شائع ہو نے والے اخباروں  میں  اہم نام جیسے دہلی سے راشٹریہ سہارااردو،انقلاب ،ہمارا سماج ،پرتاب ،صحافت ، ہندوستان ایکسپریس ، ان دنوں وغیرہ ہے ۔ممبئی سے انقلاب ،اردوٹائمز ،سہارااردو ۔حیدرآباد سے سیاست ،منصف ،رہنمائے دکن ، اعتماد ،وغیرہ۔لکھنو سے سہارا اردو ،آگ ۔پٹنہ سے قومی تنظیم ، سنگم ،ہمارا سماج ،سہار ا اردو ۔بھوپال سے ندیم ،بنگلورسے سالار ، جالندھر سے ہندسماچار ،اور ملاپ ، کلکتہ سے اخبارمشرق ،اور کشمیرسے آذان وغیرہ اخبارات نکلتے ہیں  ۔ملک میں  اردو اخباروں  کی عددی طاقت ہندی اور انگریزی کے بعد دیگر تمام زبانوں  کی صحافت پر غالب ہے ۔

عہد حاضر میں  اخبار ایک زبردست ضرورت ہے اور ضرورت ایجاد کی ماں  ہوا کر تی ہے ،اس لحاظ سے تقریباًہر خواندہ گھر اس ضرورت کو محسوس کرے تو اس دلکش زبان کی صحافت کے امکانات اور روشن ہو سکتے ہیں  ۔اس میں  روز گار کے مواقع بھی بہت ہیں  ۔ مو جودہ دور میں  اردو صحافت کے مسائل پر غور و فکر کر نے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ :

1 ۔اردو صحافت کی صحیح رہنمائی کر نے والا کوئی ادارہ نہیں  ہے ۔

2 ۔اردو صحافت کے عملہ میں  تربیت یافتہ عملے کا فقدان ہے،جس کے باعث مختلف مسائل در پیش ہیں  ۔ہندوستان کی دوسری زبانوں  کے اخبارات کے مقابلے میں  اردو اخبارات میں  معیاری کاتب،ترجمہ نگاریا مدیر کی کمی ہے ۔

3 ۔اردو اخبارات کی زیادہ تر خبریں  انگریزی یا ہندی سے ترجمہ ہو تی ہیں  یہ ترجمے بے حد ناقص ہو تے ہیں ۔

4۔صحافت میں  استعمال ہو نے والی زبان نہایت سلیس ،سادہ اور صاف ہو نی چاہئے۔اردو کے بڑے اخبارات کی زبان ، سرخیوں  کی بے ترتیبی جملوں  کی ہیراپھیری ،اور پروف ریڈنگ کی غلطیاں اردو صحافت کو کمزور بناتی ہیں  ۔سید اقبال قادری ادبی اور اخباری زبان کا موازنہ کر تے ہوئے لکھتے ہیں  کہ ”ادبی زبان ،فکر انگیز ،خوب صورت ،امتیازی اور جاذب نظر ہو تی ہے ۔جب کہ اخباری زبان پُر لطف ، معلوماتی ،جامع ،سلیس اور عام فہم ہو تی ہے ”(رہبر اخبار نویسی ص270 )،اگر صحافت میں  برتری حاصل کرنی ہے یا مقابلے کی بوباس پیدا کرنی ہے تو یقینا ان کی تربیت ضروری ہے ۔ انہیں  کسی بڑے ادارے سے صحافتی کورس کراکر اخبار کے معیار کو باوقار کیا جاسکتاہے ۔

5۔موجودہ دور میں  اردو اخبارات کی کمی نہیں  ہے لیکن ان میں  سے بیشتر صرف اشتہار ات کے لئے شائع ہو تے ہیں  ۔چند ہی ایسے ہیں  جو قارئین تک پہنچتے ہیں  ۔اردو صحافت میں  اس قسم کی چور بازاری کبھی اردو صحافت کو پنپنے نہیں  دے گا ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ یاتو ان اخبارات کوبند کروادیے جائیں  جو محض اشتہارات کے پیسوں  کے لئے شائع ہو تے ہیں  یا پھر انہیں  ایمان داری سے اپنا فرض ادا کر نے پر مجبور کر نا چاہیے۔

6۔اردو دنیا میں  قاری کا مسئلہ بہت ہی سنگین ہے ۔آج ملک میں اردو خواں کی تعداد کروڑوں  میں  ہے لیکن یہ تعداد اردو کو اس لائق نہیں  سمجھتی کہ اس کو خرید کر پڑھیں  بلکہ اس کی جگہ انگریزی کو پڑھنے اور پڑھانے پر توجہ دیتے ہیں  ۔اردو ایک سیکو لر زبان ہے لیکن حالات نے اسے مسلمانو ں  کی زبان قرار دے کر مختص کر دیا ہے ایسی صورت میں  مسلمانوں  کو چاہیے کہ وہ اردو صحافت کو مزید تقویت پہنچائے ۔آج کل یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ خود شاعر و ادیب بھی اس جانب پیش رفت نہیں  کرتے بلکہ ان کی کو شش ہو تی ہے کہ مفت ہاتھ آجا ئے توبرا کیا ہے ۔

7 ۔عہد حاضر میں دیگراخباروں  کے بڑے سرمایہ دار، اردو اخباروں  کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں گرچہ ان کا مقصد تجارت ہے لیکن اردو کے فروغ میں  اہم حصہ ہے ۔یہ ایک نیک فال ہے ۔

اسی طرح آج کل کے اردو اخباروں  میں  کچھ چیزوں  کی کمی محسوس ہو تی ہے اگر انہیں  ڈال دیاجائے تو شاید اردو اخبار کے وقار میں  اور بھی اضافہ ہو جا ئے گا جیسے :

1 ۔عہدحاضر کے اخباروں  میں  موسم کا حال نا پید ہے ۔قارئین میں  یہ جا ننے کی دلچسپی ہو تی ہے کہ مقامی اور دور درازکے علاقوں  میں  موسم کا کیا حال ہے ،مستقبل میں  موسم خوشگوار ہو گا یا تکلیف دہ ،موسم کے درجہ حرارت اور محکمہ مو سمیات کی رائے وغیرہ کو حسب معمول چھا پنے کی ضرورت ہے ۔

2 ۔تجارتی خبروں  کی اہمیت جس میں  اشیاء کے نرخ اور اس کا انتخاب ،مقامی ضروریات کی روشنی میں  ہوں  ۔

3 ۔اردو اخباروں  میں  ریڈیو ،ٹی وی پروگرام کا مستقل ایک کالم ہو ،جس میں  روزانہ کا پروگرام ہو ،کیونکہ آج کل یہ چیزیں  ضروریات ِزندگی میں  داخل ہیں ۔

4 ۔اخبارات میں تفریحی مقاصد کے تحت فلموں  سے متعلق بھی خصوصی کا لم ہو ۔جن میں  مقامی سنیما گھروں  میں  چل رہی فلموں  اور آنے والے فلموں  کی تفصیلا ت بھی ہو ں ۔

5 ۔روزناموں  میں  بچوں  کے لئے ایک گوشہ ضروری ہے تا کہ ان کے نفسیات کا احاطہ ہو سکے اور آگے چلکر اخبارات کو ترجیح دے سکے ۔ اِسی طرح صحت ،نِت نئے فیشن ،اچھے پکوان ،کشیدہ کاری وغیرہ جیسے مو ضوعات کو ہر روز اپنے اخباروں  کی زینت بنائے ۔

اس طرح اور بھی بہت سار ے مسائل ہیں  جو اردو صحافت کے لئے دشوار کن ہیں  اس سے نَبَرَدْ آزما ہو نے کی ضرورت ہے ۔ آزادی کے بعد ملک ترقی کی جانب گامزن ہے ،صحافت کا مقصد یہ ہو نا چا ہیے کہ ملک تعمیر نو کے جن مراحل سے گزر رہا ہے ان سے عوام الناس کو روشناس کرائے اور جس طرح ترقی ہو تی جا ئے ان کو پیش کرتا جائے کیونکہ اخبارسماج کا آئینہ ہو تا ہے، اسی وجہ سے ماہرین صحافت خبر میں  معروضیت کو لازمی قرار دیتے ہیں  ۔ جس میں  ایک صحافی کو بے باک ،غیر جانبدار ،ذاتی احساسات و تاثرات سے پاک ہو نا چاہیے لیکن آج کل صحافیوں  کی دو قسمیں  نظر آتی ہیں ۔ایک وہ جو جانبدار ،سیاسی پارٹیوں  کے چٹّے بٹّے ،عوامی مسائل سے حکمرانوں  کو بے خبر رکھنا اور سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کر کے اقتدار ِاعلیٰ پرفائض لوگوں  کو خوش کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے انعام و اکرام بھی حاصل کر تے ہیں ۔وہیں  دوسری جانب ملک میں  ایسے صحافی بھی ہیں  جو سچائی کے دامن کو کبھی نہیں  چھوڑتے ، ہمیشہ غیر جانبداری سے کام لیتے ہیں ایساہی کچھ آج کل اردو اخبارات کے چند صحافیوں  کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے ۔اِس وقت اردو میڈیا کا بیباکانہ انداز اور بے خوف وخطرصحافت سے سیاسی و ملی جماعتوں  کے علاوہ اعلی حکمراں  وغیرہ بھی بوکھلائی ہوئی ہے اسی لئے آئے دن صحافیوں  پرظلم کے پہاڑ اور دہشت گردی کے الزام میں  پھنسائے جا تے ہیں  کیونکہ ان کی تحریر ہمیشہ حقائق پر مبنی ہو اکرتی ہیں ۔اللہ ہمارے صحافیوں  کو نظربد سے بچائے۔

٭٭٭

Leave a Reply

1 Comment on "روداد صحافت ،ماضی ،حال اور مستقبل
"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] 122.     روداد صحافت ،ماضی ،حال اور مستقبل […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.