جدید اردو افسانے میں وجودیت کے عناصر
اردومیں وجودیت اور وجودی مفکروں کامطالعہ بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں جس قدر عام تھا‘مابعد جدیدیت اور تھیوری کی بحث نے اسے اب اسی قدرمدھم کردیا ہے ۔ایسا نہیںکہ یہ موضوع اب اس قدر پارینہ ہوچکا ہے کہ اسے کسی طاق نسیاں کی چیز سمجھ کر فراموش کیا جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ جن حالات و واقعات میں اس فلسفے کی پرورش ہوئی تھی وہ ابھی اتنے تبدیل نہیں ہوئے۔ یوں بھی ادبی سطح پر ماضی کی چیزیں کبھی قابل فراموش نہیں ہوتیں کیوں کہ ان سے حال کی ادبی فضا کا وہ سیاق سامنے آتاہے جس کے بغیر رواں صورت حال کی تفہیم و تعبیر ناممکن یا کم ازکم نا مکمل ہوتی ہے۔وجود یت کامعاملہ بھی ایسا ہی ہے ۔ہر چند کہ دیگر بڑی زبانوں کی طرح اردو کامنظر نامہ بھی تیزی سے نئی صورت اختیار کررہا ہے لیکن اس نئی صورت حال میں بھی وجودی فکر کی طرف باربار رجوع کرناناگزیر ہے ۔چنانچہ وجودیت کے فلسفے کی بنیادی صداقتیں موجودہ دور کو سمجھنے کے لیے بھی اساسی اہمیت رکھتی ہیں۔
وجودیت سے مراد وہ فلسفہ ہے جس کی رو سے خیر وشر کے اصولوں کے تابع اخلاقی فکر اور حقیقت کے اصولوں کے تابع سائنسی فکر انسانی صورت حال کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں بلکہ اس سلسلے میں فلسفیانہ سوچ کانقطہ آغاز فرد اور فرد کے تجربات ہونے چاہیں۔کرکے گارڈ سے لے کر اب تک کے وجود ی فلسفے کااہم مسئلہ یہ ہے کہ جسے مرکزی حیثیت بھی حاصل ہے کہ انسانی وجود کی مخصوص صورت حال او ر تشکیل کا تجزیہ کیا جاسکے۔ پس وجود سے مراد میرا وجود ہے یعنی انسانی وجود اور وجودیت سے مراد انسانی وجود یت ہے۔
فلسفہ وجودیت کا باضابطہ آغاز انقلاب فرانس کے بعد ہوتاہے ۔لیکن یہ برگ وبار دو عظیم جنگوں کے بعد ہی لاتا ہے ۔سائنس کی ترقی اور اخلاقی انحطاط وجودیت کے پودے کی آبیاری کرتے ہیں۔چنانچہ وجود ی فلسفے کو سمجھنے کے لیے انقلاب فرانس ،دو عظیم جنگوں ‘ سائنسی اور تکنیکی ثقافت اور قدیم فلسفوں کاجائزہ ناگزیر شر ط ٹھہرتاہے ۔
انقلاب فرانس کے آغاز سے قبل فرانسیسی عوام کی حالت ناگفتہ اور معاشی نظام کھوکھلا تھا۔ کسان طبقہ استحصال زدہ تھا۔ ملک میں مالی ‘انتظامی اور اقتصادی انتشار تھا۔ ملک اُبل رہا تھا اور باہمی شکوک و شبہات او ر بدنظمی کی وجہ سے منقسم تھا۔اسی وقت فرانس کے سیاسی افق پر تین عظیم مفکر بھی نمودار ہوئے اور اپنے افکار و خیالات سے انقلاب کی جانب بڑھتے ہوئے قدم کو تیز تر کردیا۔ یہ مفکر والٹیئرؔ‘روسوؔاور مانٹسیکوؔ تھے ۔ان تینوں مفکروں کے افکار کاگہرا اثر عوام نے قبول کرلیا اور اس انقلاب کی وجہ سے لوگوں کو مذہبی اقدار‘ راسخ العقیدگی‘رسمیت اور روایتی جکڑ بندیوں سے نجات ملی اور ان کی جگہ روشن خیالی‘عقلیت ،آزادی اور مساوات کوفروغ ملا۔
وجودیت کی توسیع و ترویج دو عالمی جنگوں کے دوران ہوئی۔لہٰذا اس کا سراغ جنگ عظیم کے زیر اثر پیداہونے والے معاشی‘سیاسی‘معاشرتی اور تہذیبی بحران‘ ہلچل خوف اور انتشار کی ایک عام فضا‘مایوسی‘محرومی اور مظلومی کے احساسات میں لگایا جاسکتاہے۔پہلی جنگ عظیم کاخاتمہ اجتماعی موت اور خوف ناک تباہی پر ہوا جس نے مستقبل میں اور بھی جھگڑوں کی بنیاد ڈالی۔اس جنگ نے کسی بھی مسئلہ کا حل نہ نکالا۔ جنگ کے بعد بے روزگاری عام ہوئی۔ غریبی کاخوفناک دیو آکھڑا ہوا اورمعاشی نظام اپاہج بن کر رہ گیا۔
۱۹۳۱ء میں جاپان نے منچوریا پر حملہ کیا اور دنیا دوسری جنگ عظیم کی طرف بڑھتی گئی ۔ دوران جنگ لوگوں کو جنگ کے بارے میں سوچنے کے علاوہ اور کوئی موضوع نہ رہا۔ سنسان پڑی ہوئی دکانیں ،ویران گلیاں، جنگ سے پیدا شدہ خوف و دہشت ،سہمے ہوئے لوگ غرض یہ کہ ایک قیامت کامنظر تھا۔جنگ کی خوفناک تباہیوں نے انسانی زندگی کی حیوانیت‘وحشی پن‘ خود غرضی اور شیطنیت کا ایسا پردہ فاش کیا کہ انسان اور آدمیت پر سے لوگوں کااعتماد اٹھ گیا۔چاروں سمت نا امیدی‘مایوسی‘ محرومی‘ خوف اور دہشت کی فضا مسلط ہوگئی۔زندگی اور ادب کی قدریں غیر متعین نظر آنے لگیں۔ جس کے نتیجے میں فکر کی تمام روایتی اقدار لڑکھڑا گئیں۔ موت کے جس المناک پہلو کامشاہدہ لوگوں نے جنگ عظیم کے دوران کیا۔اس نے ایک ردعمل کی شکل اختیار کرلی اور زندگی کا ایک نیا نظریہ ناگزیر ہوگیا۔ ماضی او رمستقبل کے سلسلے میں انسانوں کے ذہن میں جو سنہرے تخیل موجود تھے جنگ نے انہیں ریزہ ریزہ کردیا۔ اس ضرب کو نہ تو مذہبی قدریں روک پائیں اور نہ ہی راسخ العقیدگی نے کچھ دفاع کیا۔ جنگ کے بعد انسانوں کے پاس صرف اس کاوجود رہ گیا۔ جو شک سے بالاتر تھا۔ چنانچہ وہ اپنے وجود کو بنیاد بناکر مسائل حیات کی گتھیوں کو سلجھانے میں مصروف ہو گیا۔ ایک نئے انسان نے جنم لیا اور یہ احساس عام ہوگیاکہ انسان خود میں معنی خیز اور قیمتی ہے ۔ اس کے پاس اپنی داخلی بصیرت اور قوت ہے جن کی مدد سے وہ اپنی راہ خود متعین کرسکتاہے۔انجام کار لوگوں کارجحان داخلیت کی طرف ہوتاگیا۔
اسی طرح یورپ میں سائنس نے بے پناہ ترقی توکی اور مشینی تہذیب کو جنم دیا جس نے ایک طرف سہولیات کاسامان تو فراہم کیا لیکن دوسری طرف انسانی تحفظ اور بقا کاسوال بھی کھڑا کردیا۔ اس تہذیب کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ انسان مشینوں کو بنا کے خود اس کا غلام بن گیا ہے۔آدمی ‘آدمی کے لیے اجنبی بن گیا ۔انسانی رشتے کی کڑیاں بکھر گئیں۔مشینی انسان احساس و جذبہ سے عاری جینے پر مجبور ہوا۔خوف ودہشت‘ بوریت ‘ لایعنیت‘کرب و اضطراب اور تنہائی کے احساس کی فضا عام ہوئی۔
مذہب اور عقیدے کازوال یورپ کی جدید تاریخ کاایک تلخ المیہ ہے ۔زوال مذہب کا آسان مفہو م تو یہی ہے کہ مذہب کو انسانی زندگی میں وہ مرکزیت حاصل نہیں رہی جو کسی زمانے میں تھی۔مذہبی پستی اور عقیدے کی سطحیت نے خدا کی ذات کو بھی ان کی نظر میں مشکوک بنادیا او رغالباً اسی صورت حال نے نطشے کو یہ اعلان کرنے پر مجبور کیا کہ ’’ خدا مرچکا ہے‘‘ ا س لیے وہ خدا جو ظالم و جابر او رفاسق و فاجر کو سزا نہیں دے سکتا او رجو پادریوں کے ہاتھوں میںمحض ایک کھلونا بن کر رہ گیا ہو وہ خدا زندہ کیسے ہوسکتاہے یاپھر وہ خدا مظلوموں کی مدد نہیں کرسکتا ۔نطشے کے اس باغیانہ خیال میں خیر خدا کے وجود کاایک پہلونکلتا بھی ہے لیکن بعض وجودی مفکروں نے تو سرے سے اس وجود ہی سے انکار کردیا۔مذہب کے خلاف یہ رد عمل صرف انٹلیکچول سطح پر ہی نہیں ہوا بلکہ اس کے اثرات دور رس رہے ۔مخصوص اقدار‘ روایات‘رسوم و قوانین او رعلامات و تمثیلات سے متشکل ہونے والی اجتماعی نفسیات بھی متاثر ہوئی۔اب نہ کوئی سمت تھی او رنہ کوئی منزل۔آدمی اپنی جڑ سے محروم ہوچکا تھا۔وہ طوفانوں کی موجوں سے نبرد آزما تھامگر اسے کوئی کشتی ایسی نظر نہیں آرہی تھی جو اسے صحیح و سالم تک پہنچا دے۔نتیجتاً اسے دست بازو پر بھروسہ کرنا پڑا‘اپنے وجود اوراپنی داخلی قوتوں کو راہ پر بٹھانا پڑا‘یہی وجودیت کی سوچ کانقطہ آغاز بھی قرار پایا۔
فلسفہ وجودیت نے عصر حاضر کے بطن سے جنم لیا ہے ۔ انیسویں صدی او ربیسویں صدی کے مخصوص سیاسی ‘سماجی‘معاشرتی‘مذہبی ‘ اخلاقی اور فکری صورت حال نے اس کی پرورش کی ۔ وجود یت نے اپنی اصلی صورت میں کرکے گارڈ کے فلسفہ میں جنم لیا او ریہ مارسل‘ہائیڈگر‘یاسپرس‘ سارتر‘کامیو کافکا وغیرہ کے ہاتھوں اپنے نقطہ عروج تک پہنچی۔غرض یہ کہ وجودیت پسندوں کامرکز انسانی وجود اور اس کے مسائل ہیں۔ یہ مسائل انسان کے کرب‘الجھن‘کشاکش‘ بیزاری‘ تنہائی‘ علیٰحدگی‘بے گانگی‘خوف‘ دہشت‘پشیمانی‘ پریشانی‘مایوسی‘محرومی‘بے کسی‘ بے چارگی‘ لایعنیت‘ بے مقصدیت سے تعلق رکھتے ہیں۔
نظریاتی سطح پر وجود ی مفکرین‘انفرادی نقطہ نظر کے حامل ہیں۔وہ اجتماعیت پر انفرادیت کو اور عمومیت و آفاقیت پر تخصیصیت کو فوقیت بخشتے ہیں تاہم وجود ی مفکر انسانی وجود کو موضوعی شخصی اور داخلی سطح پر سمجھنا چاہتے ہیں او رعقل پر بھروسہ نہیں کرتے کیوں کہ اس کا کام محو تماشائے لب بام رہنا ہے۔ان کاخیال ہے کہ وجود کو تجریدی‘معروضی یا عقلی سطح پر سمجھنا محال ہے ۔اسے داخلی بصیرت و بصارت ہی کے ذریعہ سمجھا جاسکتا ہے ۔ وجود ی مفکر اس بات پر بھی اقرار کرتے ہیں کہ وجود کو بہر طور تقدم حاصل ہے ۔وہ انسانی آزادی پر زور دیتے ہیں۔وجودی مفکر خارجی اقدار کو نہیں تسلیم کرتے۔ان کے نزدیک اقدار اضافی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان آزاد ہے اسے رد و انتخاب اور خود فیصلے کی آزادی حاصل ہے ۔اس طرح گویا وجودیت اپنا سفر زندگی کے تاریک پہلوؤں سے شروع کرتی ہے اور حیات کے روشن پہلو تک پہنچ کر سانس لیتی ہے ۔
گویا وجودیت ایک ایسا فلسفہ ہے جو عصر حاضر کی ہنگامیت کاجواب دینے کے لیے معرض وجود میں آگیا ۔بنیادی طور پر یہ عام انسانی رویوں میں ایک تغیر کی علامت بھی ہے ۔ جس سے ہماری تہذیب کی قلب ماہیت بھی ہوتی ہے ۔یہ موجودہ عہد کے فرد کی زندہ تجربے
کا آزادانہ او ر بے باکانہ اظہار بھی ہے ۔
مغرب میں وجودیت اور جدیدیت کافلسفہ دوسری جنگ عظیم تک کازمانہ ہے لیکن مشرق اور خاص طور پر ہندوستان اور پاکستان سے اردو ادب میں جدیدیت کارجحان آزادی کے بعد شروع ہوا اور جدیدیت کی بنیاد موضوع کے اعتبار سے وجودیت کے فلسفے پر رکھی گئی اوروجودیت کے موضوع پر جوادب لکھاگیا اس میں علامتی‘ تجریدی اور اساطیری اسالیب اپنائے گئے۔
جدیدیت اور فلسفہ وجودیت کے تعلق سے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ جدیدیت ہر چند کہ فلسفہ وجودیت سے کسب نور کرتی ہے۔پھربھی جدیدیت محض وجودیت کانام نہیں بلکہ اس سے وسیع تر رجحان ہے۔ چنانچہ وہ ادیب جو جدید ہیں‘ضروری نہیں کہ وجودی بھی ہوں‘ لیکن جو ادیب وجودی ہوں گے ‘ وہ جدیدبھی ہوں گے۔تاہم یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ ۱۹۴۷ء کے بعدتقریباً چار دہائیوں تک اردو ادب کاغالب میلان وجودیت کاہے ۔کرب و اضطراب تنہائی‘وسوسہ‘تشکیک کے مرحلے ہوں‘ یا اپنے باطن میں جھانکنے کی باتیں‘مشینی اورصنعتی ہنگاموں کے خلاف احتجاج ہو یا اجتماعیت سے بغاوت ‘لمحوں کو پکڑنے کی کوشش ہو یا قدروں کی شکست ور یخت کامسئلہ‘آزادانہ زندگی گزارنے کی آرزو ہو یا ذات سے غایت وابستگی‘ داخلیت سے استوار کرنے کی سعی ہو یا مذہبیت اور ماورائیت سے انحراف کی کوشش ان سب معاملات کو اردو شاعری کے ساتھ ساتھ اردو افسانے میں بیش از بیش جگہ ملی۔
اردو کا جدید افسانہ جب موضوع اور تکنیک کے اعتبار سے وجودی فکر کے تحت آیا تو اس کارنگ روپ تبدیل ہوا۔ایک طرف اس کی ساخت متاثر ہوئی اور دوسری طرف دروں بینی او رداخلی احوال کی تخلیقی باز آفرینی اس کاغالب رویہ بن گئی۔ تخلیقی فکر سے وجودیت کی ہم آہنگی نے اسے جدیدیت کے ذہنی اورفکری میلانات سے مربوط کردیا۔چنانچہ جدیدیت او ر وجودیت دونوں ایک ہی نوع کے حالات کے پروردہ تھے ‘ دونوں کی پرورش زندگی کی مہملیت‘ مشینی اور میکانکی زندگی اور تہذیبی بحران نے کی تھی ‘دونوں کی نمود کا زمانہ ہمارے یہاں تقریباً ایک تھا اس لیے جدیدیت کے رجحان میں غالب رویہ موضوعی سطح پر وجودیت کاہی رہا۔ اردو افسانہ اجتماعی رویے سے نکل کر انفرادی رویے کے تحت آگیا‘ جماعت کے بجائے فرد توجہ کامرکز بنا اور بے چہرگی‘ تنہائی‘ بے گانگی زندگی کی لایعنیت اور سب سے بڑھ کر وجود کی تلاش جیسے موضوعات عام ہونے لگے۔یہ نئے پیچیدہ موضوعات اپنے اظہار کے لیے پیچیدگی کو ہی راہ دینے لگے اس لیے تجرید‘علامت او رابہام ناگزیر ٹھہرا۔چنانچہ ساتویں او رآٹھویں دہائی کے افسانے میں جدیدیت کے رجحان کے تحت وجودی فکر کے اثرکے تحت ہی ترسیل کی ناکامی اس کی خصوصیت او رابہام اس کا مقدر ٹھہرا۔ بایں ہمہ اردو افسانے کے اس مخصوص دور میںوجودیت ایک فکری میلان کی حیثیت حاوی رہی اور جدیدیت کے بعد مابعد جدید دور میں بھی یہ فکری رویہ اردو افسانے میںنمایاں طور پر نظر آتاہے ۔ وجودی فکر کاحامل ادب اردو میں۱۹۶۰ء سے قبل بھی ملتا ہے لیکن وجودیت کے اثرات اردو نظم اور غزل نیز ناول اور افسانے پر آزادی کے بعد ہی پڑنے شروع ہوئے۔چنانچہ جو اردو تنقید جدید اردو ادب سے متعلق ہے اس میںبھی ا س فکر کا نمایاں اثرملتا ہے ۔مابعد جدیدیت کے دوران اس کے خدوخال الگ سے نمایاں ہونے لگے۔ تاہم مابعد جدید افسانہ جدیدافسانے سے بالکل مختلف نہیں بلکہ بعض معنوں میں اس کی توسیعی صورت ہے ۔اس افسانے میں بھی وجودی عناصر بدرجہ اتم ملتے ہیں۔
………….
نصرت نبی
اسسٹنٹ پروفیسر
گورنمٹ زنانہ کالج ایم اے روڑ سرینگرکشمیر
موبائل نمبر ۹۶۹۷۹۷۸۱۹۷
Leave a Reply
Be the First to Comment!