رشید جہاں: ایک انقلابی خاتون افسانہ نگار

     ڈاکٹر رشید جہاں نے جس عہد میں اپنا ادبی سفر شروع کیا وہ عہد سیاسی، سماجی اور معاشی اعتبار سے نہایت ہنگامہ خیز تھا۔ اس وقت نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں سیاسی و سماجی ابتری پھیلی ہوئی تھی۔ پوری انسانیت غلامی کی زنجیروں سے آزادی کی خواہاں تھی اور اپنے سیاسی و سماجی مسائل کو سائنٹفک بنیاد پر حل کرنا چاہتی تھی۔

     برق رفتاری سے بدلتے ہوئے حالات کی عکاسی و ترجمانی کے لئے داستان اور ناول کی طوالت غیر موزوں قرار پائی۔ نتیجتاً افسانہ جیسی مختصر صنف کا وجود ہوا۔  سجاد حیدر یلدرم،سلطان حیدر جوش، نیازفتح پوری، علامہ راشد الخیری، اورمنشی پریم چند نے اس صنف کے نوک پلک کو درست کرکے اسے اردو ادب کی ایک مقبول عام صنف بنا دیا۔ ابھی افسانہ اپنی نوخیزی کے مراحل میں تھا کہ تاریخ کے سیاسی و سماجی منظر نامے پر ترقی پسند تحریک جیسی توانا تحریک ابھر کر سامنے آئی۔  اس عہد کے شاعروں اور ادیبوں نے اپنے ارد گرد کے حالات سے سبق لیتے ہوئے زندگی کی ٹھوس حقیقتوں کوبراہ راست اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا اورادب کو ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔  اس تحریک کی بدولت افسانہ نگاری کا چلن عام ہوا۔ اس وقت اردوادب میں اظہار بیان کے دو طریقے رائج تھے ایک رومانی طرز اظہار تھا جس کی نمائندگی سجاد حیدر یلدرم کررہے تھے اور دوسرا پریم چند کا تھا جس میں زندگی کی ٹھوس سچائیوں کو سیدھے سادے الفاظ میں بیان کیا جاتا تھا۔ڈاکڑ رشید جہاں نے پریم چند کے طریق اظہار کو اپنایا اور ترقی پسند ادبی روایت کو آگے بڑھانے میں خواتین کی نمائندگی کی۔

      ڈاکٹر رشید جہاں  کا شمار ترقی پسند تحریک کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ جب ۱۹۳۶ء میں لکھنؤ میں ترقی پسندمصنفین کی پہلی کانفرنس ہوئی تو انہوں نے نہ صرف اس میں شرکت کی بلکہ جلسہ کا انتظام تندہی سے کیا۔ کیوں کہ وہ اس کے موقف کی موافق اور ہم نوا تھیں۔وہ’’ انجمن ترقی پسند مصنفین‘‘ کے علاوہ’’انڈین پیپلزتھیڑ‘‘ (اپٹا )کی بھی ایک سرگرم رکن تھیں۔وہ ایک اصول پرست سیاست داں تھیں۔ ان کے قول وفعل میں دوسرے لیڈروں کے برعکس کوئی تضاد نہ تھا۔ وہ نوجوانوں کی دوست، فلسفی اور رہبر تھی اور اپنے معاصرین کی ایک ہمدرد اور مستقل مزاج ساتھی، نامساعد حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی ایک نڈر بے باک اور آئیڈیل لیڈی تھیں۔ ان کی شخصیت کے بارے میں پروفیسر ثریا حسین نے لکھا ہے کہ:

’’وہ بے لاگ اور کھری بات کرتی تھیں اور اہل ثروت سے قطعی مرعوب نہ ہوتی تھیں۔ میرے ذہن میں ان کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ مسکراتی ہوئی، منھ پھٹ، نرم دل اور محبت کرنے والی خاتون کی ہے۔ جس نے دوسروں کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا سکھایا۔ ان کا جینے کا اپنا ایک انوکھا ڈھنگ تھا اگر ان کی نڈر زندگی کو ہمارے بہت سے نیتا اپنا آدرش بنا لیتے تو ملک کے حالات اتنے نہ بگڑتے۔‘‘  ۱؎

      رشید جہاں سائنس کی طالبہ تھیں انہوں نے اپنی سائنسی بصیرت اور عملی واقعیت و تجربے سے کام لے کر سماج ومعاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کو دور کرنے کے لئے افسانہ جیسی صنف کو ذریعہ بنایا۔ وہ پہلی خاتون تھیں جو ترقی پسند تحریک کی نشوونما میں دیگر افسانہ نگاروں کے دوش بدوش آگے بڑھیں۔ ترقی پسند تحریک کے زیر سایہ متعدد خواتین نے شعر وادب کی آبیاری کی ہے لیکن اولیت کا شرف رشید جہاں کو حاصل ہے۔رشید جہاں کو نہ صرف اس لحاظ سے اولیت حاصل ہے کہ وہ اردو ادب کی پہلی خاتون افسانہ نگار تھیں بلکہ اس لیے بھی ہے کہ قدامت پرستی کے خلاف نڈر ہوکر صدائے احتجاج بلند کرنے، سماج کی فرسودہ روایات، ذات پات اور نئی و پرانی نسل کے درمیان حائل پرانی گتھیوں کو سلجھانے اور خاص طورسے متوسط اور نچلے طبقے کی مسلم خواتین کی نفسیاتی پیچیدگی اور ان کی زندگی سے وابستہ مسائل کو اپنے افسانوں میں پیش کیاہے۔ ان کے افسانوں سے اپنے جائز حقوق کو حاصل کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ عورتوں کو نڈر ہوکر سماج ومعاشرہ کے نامساعد حالات سے ٹکرانے کا درس ملتا ہے۔ یہ انقلابی قدم ایک خاتون نے عورتوں کی فلاح و برتری کے لیے اس وقت اٹھایا جب سماجی سطح پر ملک چھوت چھات، ذات پات جیسی مہلک بیماری کا شکار تھا۔ عورت کو سماج میں نہ صرف یہ کہ برابری کا حق حاصل نہیں تھا بلکہ وہ گھروں کی زینت اور صنف نازک سمجھی جانے کے علاوہ جنسی آسودگی مہیا کرنے کا ایک ذریعہ محض تھی یعنی وہ ایک ذمہ دار اور باوقار سماجی فرد نہیں بلکہ اس کی حیثیت ایک خریدو فروخت کی جانے والی شے ہوکر رہ گئی تھی۔ رشید جہاں کی کہانی’’سودا‘‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’بازار میں ایک کتیا کے پیچھے چار کتے پڑتے ہیں اور اسی طرح جوش اور بے تابی دکھاتے ہیں۔ تو کمبخت کتیا بھی اتنے خریداروں کا ہجوم دیکھ کر جان چھپا کر بھاگتی ہے۔ یہ انسانی عورت جس کو مالداروں اور نیک شریف لوگوں نے کتیا سے بھی نیچا کر دیا تھا ایک ہاتھ سے کار پکڑ کر جھولتی رہی ’’جانی تمہیں بتاؤ کہ تمہارے ساتھ پہلے کون چلے؟۔۔۔۔ وہ زور سے ہنسی ۔۔۔۔۔‘‘ ارے آجاؤ میرے لیے تم سب حرامی ایک ہی سے ہو۔‘‘   ۲؎

مذکورہ بالا اقتباس عورت کی لاچاری و مجبوری کی بہترین ترجمانی کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس سماج کی نقاب کشائی کرتا ہے جہاں عورتوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔گویا رشید جہاں نے  مرد کی حاکمانہ برتری کو بے نقاب کرتے ہوئے عورت کو سماج میں باعزت طریقہ سے جینے کا ہنر سکھایاہے۔ مرد سماج کی اجارہ داری کے خلاف عورت کی طرف سے یہ پہلا احتجاج تھا۔ بقول ڈاکڑ سیماصغیر:

’’ رشید جہاں کے اسی احتجاجی رویے کی بدولت انہیں انقلابی خاتون افسانہ نگار کہا گیا۔‘‘ ۳؎

     رشید جہاں کی انقلاب پسند طبیعت نے بعد کی افسانہ نگار خواتین کو ایک نئی راہ دکھایا۔ وہ نئی راہ یہ تھی کہ سماج میں پھیلی برائیوں کو مٹانے، عدم مساوات کے خلاف آواز احتجاج بلند کرنے، متوسط اور ادنیٰ طبقہ کی زبوں حالی کو دور کرنے کے لئے مردوں کے ساتھ ساتھ ایک عورت کس طرح شریک کار بنے؟ ان کے تمام افسانوں میں یہ احساس ایک احتجاج بن کر سامنے آتا ہے۔ خاص طور پر ان کے وہ افساے جن میں انہوں نے عورت کی جہالت، پس ماندگی اور اس کے لئے مرد کے سخت گیر رویے کو موضوع بنایا ہے اور مردوں کے حاکمانہ تسلط اور وحشیانہ ہوس پرستی کے خلاف ڈٹ کر آواز اٹھائی ہے۔ ان کایہ قدم بعد کی افسانہ نگار عصمت، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، صدیقہ بیگم، صالحہ عابد حسین وغیرہ کے لئے ایک مشعل راہ ثابت ہوا۔

     رشید جہاں کے افسانوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے پریم چند، راشد الخیری اور سدرشن وغیرہ کی طرح عورت کی ذات کو محض ایثار و قربانی کامجسمہ بناکر پیش نہیں کیا ہے بلکہ عورت کو ہوشیار ، عقل مند، دلیر، پر اعتماد اورحالات سے مقابلہ کرنے والی ہیروئن کی شکل میں اجاگر کیاہے۔ انہوں نے صنف نازک کو ان کے جائز حقوق و مطالبات سے آگاہ کرانے اور عورتوں کے وقار و معیار کو بلند کرنے کی خاطر اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بیشتر افسانے، ڈرامے میں مرکزی کردار عورت یا عورتوں کے مسائل رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے صرف عورتوں کے مسائل کو ہی اپنی تحریروں کی زینت بنایا ہے بلکہ وہ ایک ترقی پسند اور مارکس وادی تھیں۔ وہ اس نظریے پریقین رکھتی تھیں کہ ادب کو سماج کا آئینہ دار ہونا چاہیے اور ادب کی افادیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔چنانچہ ان کے ہر افسانہ اور ڈرامہ کا موضوع ہمارے معاشرے کے کسی نہ کسی چبھتے ہوئے پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ ان کے افسانوں میں چور، دلال، کلرک، کسان، ساہوکار، بھکاری، پنڈت، مولوی، سبھی کردار نظر آتے ہیں۔ مثلاً ان کے افسانوں میں غریبوں کا بھگوان، پن، سڑک، افطاری، چھدا کی ماں، استخارہ، فیصلہ اور سفر جیسے افسانے سماجی معاملات و مسائل کو اجاگر کرتے ہیں جس میں سماجی بیداری کا درس ملتا ہے۔ لیکن عورتوں کا ذکر جس جگہ ہوا ہے وہاں ان کی خلاقی اور شوخی کا جوہر بالکل نمایاں اور روشن ہے۔ اب تک جن باتوں کو بیان کرنا خلاف تہذیب تصور کیا جاتا تھا ان کو بے باکی اور بے ساختگی سے واضح کیاہے۔ افسانہ ’’ دلی کی سیر‘‘ جو کہ’’ انگارے‘‘ میں شامل ہے۔ زبان کی بے باکی اور جرأت مندی کابہترین اور اولین نمونہ ہے۔ جس میں عورت نے مرد کے نکمے پن کو کھل کر پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرد اساس معاشرے میں ایک عورت کی یہی پیش قدمی اس کے لیے تعن وتشنیع کا سبب بھی بنی۔ ورنہ اس کہانی میں کوئی بات خلاف شرع نہ تھی۔

     انہوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ نام نہاد شرافت اور وضع داری کے مفید ضابطے میں بندھی اور سمٹی سمٹائی عورت کو باہر نکالنے کی کوشش کی ہے۔ مرد عورت کے بعض خانگی و ذاتی نوعیت کے مسائل کو باہم گفتگو کے سہارے حل کرنے کی جدو جہد کی ہے۔ جس نے بعد کی خواتین کو خاصا متاثر کیا ہے۔ گویارشید جہاں نے بنے بنائے روایتی ادبی ڈھانچے کو توڑ کر منشی پریم چند کی حقیقت پسندی کی روایت کو اپنانے میں عورتوں کی نمائندگی کی ہے۔ اور ان کی یہی کوشش آنے والی عورتوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئی۔ بقول علی احمد فاطمی:

’’ رشید جہاں کی حقیقت پسندی، بے باک نگاری ان کے علمی اور عملی کارنامے تحریک نسواں اور ترقی پسند تحریک کے درمیان ایک کڑی کا رول ادا کرتے ہیں۔ رشید جہاں نہ ہوتیں تو روشن خیال، بیدار اور سماجی حصہ دار خواتین قلم کاروںکا قافلہ کسی اور سمت مڑ گیا ہوتا۔ عصمت چغتائی کی بے باکی اور روشن خیالی کو بھی وہ حوصلہ نہ ملا ہوتا۔‘‘ ۴؎؎

     ہمیں رشید جہاں کی کہانیوں میں عورت کے جذبات، احساسات و نفسیات کی ترجمانی بہتر انداز میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ انہوں نے محض مردوں کی بد مزاجی و بدکرداری کو ہی نمایاں نہیں کیا ہے بلکہ عورتوں پر ہورہے مظالم کے لئے عورتوں کی کم ہمتی اور بزدلی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ گویا عورتوں پر ہورہی زیادتی ،ظلم و جبر اور ناانصافی و محرومی کی اصل وجہ عورت خود ہے۔ افسانہ ’’ چھدا کی ماں‘‘میں ماں کاکردار افسانہ ’’ افطاری‘‘ میں بیگم صاحبہ کا کردار، افسانہ ’’ وہ ‘‘ میں پورااسٹاف اسی طرح افسانہ ’’ ساس بہو ‘‘ میں ساس کا کردار،اس کے علاوہ ’’ بے زبان ‘‘ میں ماں کا کردار اور ’’ اندھے کی لاٹھی‘‘ میں محمد اقبال خاں کی بیگم کا کردار ۔ ان تمام افسانوں میں عورت کے لیے دو زخ تیار کرنے میں عورت کے ہاتھ کو ہی دکھایا گیا ہے۔ کہیں عورت ماں کی شکل میں کہیں ساس کی شکل میں تو کہیں بیگم کی شکل میں اپنی بربادی کی سبب خود بنتی ہے۔

          رشید جہاں کی افسانہ نگاری کا دور ۱۹۲۲ء سے لے کر ۱۹۵۲ء تک کے عرصے تک پھیلا ہوا ہے اس عرصے میں انہوں نے کم وبیش تیس کہانیاں، پردے کے پیچھے، کانٹے والا، عورت، پڑوسی جیسے کل نو ڈرامے اور کچھ سیاسی اور سماجی مضامین لکھے ہیں۔ یہی ان کی تخلیقات کا مختصر سرمایہ ہیں جو اپنے عہد اور فکر و نظر کے اعتبار سے وقیع بھیہیں اور اہم بھی۔ان کے تین افسانوی مجموعے ’’عورت اور دیگر افسانے‘‘ ،’’ شعلۂ جوّالہ‘‘،’’وہ اور دیگر افسانے‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔  ’’ سلمیٰ ‘‘ ان کی پہلی کہانی ہے مگر شہرت کی وجہ ’’ انگارے‘‘ میں شامل ان کی دو تحریریں ’’ دلی کی سیر‘‘ اور ’’ پردے کے پیچھے‘‘ ہیں ۔ افسانوں میں افطاری ، آصف جہاں کی بہو، چور، سودا، چھدا کی ماں، وہ، ساس اور بہو، میرا ایک سفر، بے زبان، مجرم کون، وغرہ شامل ہیں۔ جو کہ افسانہ نگاری کی روایت کا ایک اہم حصہ ہیں۔

     رشید جہاں کے یہاں گرچہ فنی خوبیاں کم ہیں لیکن ان کے یہاں کردار نگاری کے اعلیٰ نمونے ملتے ہیں۔ ان کے افسانوں کی ایک اہم بات یہ ہے کہ وہ کردار وں کی مناسبت سے زبان کا استعمال کرتی ہیں۔ ان کی یہی خوبی افسانوں میں جان ڈال دیتی ہے اور فنی خامیوں کے باوجود ان کی تحریریں قاری کو اپنی طرف کھینچتی ہیں اور اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان کے افسانوں کی زبان افسانوی ادب کے حسب حال ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملے، محاورے اور روز مرہ کا استعمال خوب ملتا ہے ۔عورتوں کی زبان پر تو جیسے انہیں کمال حاصل ہو۔ دہلی کی صاف ستھری ٹکسالی زبان ان کے افسانوں کواور اہم بناتی ہے۔ مثال کے طور پر افسانہ ’’ چھدا کی ماں‘‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’ اے بی بی سانپ کے کانٹے کا منتر ہے پر ڈائن کو نائیں‘‘

کیسے ڈس لیا اس نے؟ میں نے دلچسپی سے پوچھا۔

اے بی بی تم کا جانو یہ باتیں! تم مدرسے میں پڑھو، وہ تو چڑیل ہی چڑیل ۔ واکے آنے کے تین ہی دن بعد چھدا کے باپ کو ایسو بکھار چڑھو کہ اپھر ا تروہی نا۔ تین اٹھواروں میں چل بسو‘‘ چھدا کی ماں نے بسورتے ہوئے اورآنسو پوچھتے ہوئے کہا۔

’’چل چڑیل کہیں کی: ‘‘ ممانی جان آدھی نیند میں بولیں۔‘‘

جووانے نائے ڈسو تو ایسے ای مر گیو؟ جائی وکھت و چوکھٹ چڑھی وائی وکھت ون کے موڑ میں دو ہئیوو، دو تین دناتو پڑے چٹپٹیات رہے۔ پھر بکھار چڑھ آئیو۔ کوئی جگت نائے اترو، سب جتن کیو، بیگم صاحب نے سپھا کھانے کے ڈاگدڑ صاحب کو دکھایو، سہر کا کوئی سیانوناہیں چھوڑو جو آیو یہی کہت آیو کوئی ڈائن چپٹ گئی ہے۔ ‘‘  (افسانہ چھدا کی ماں)

     رشید جہاں کے افسانوں کے مطالعے اور تجزیے کے بعد یہ کہنا آسان ہو جاتا ہے کہ انہوں نے ایسے عہد میں ان موضوعات اور کرداروں کو اپنے افسانوں میں پیش کرنے کی کوشش کی جب ان کا چلن عام نہیں تھا۔ بلکہ بعض صورتوں میں معیوب تصور کیا جا تا تھا۔ لیکن رشید جہاں جن کی زندگی ایک مقصد سے عبارت تھی۔ جن کا خیال تھا کہ انسان کو اس کائنات کی بہتر تعمیر کے لئے آخری دم تک کوشش کرنی چاہئے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے افسانوں میں کہیں طنزیہ اسلوب میں، کبھی مثالوں کی روشنی میں کبھی روز مرہ اور محاورے کی صورت میں عورتوں کے معاملات پر اظہار خیال کیا۔ یہ سچ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے ان کے افسانوں کا فن کہیں کہیں مجروح بھی ہوا ہے مگر انہیں یقین ہے کہ انہوں نے اس طرح لکھا جس طرح سماج ان کے سامنے کھڑا تھا۔ ان کو ایک نہایت غیر معمولی اور معرکۃ الآرا افسانہ نگار تو نہیں کہاجاسکتا لیکن ان کی ادبی تخلیقات نے ترقی پسند تحریک کے ابتدائی دور میں فکشن کا رخ بدلنے میںاہم رول ادا کیاہے۔

٭٭٭

حواشی:

  ۱؎  سہ ماہی رسالہ ’’ فکر و نظر‘‘علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ، مارچ ۱۹۹۱ء  ص: ۷۳

۲؎   افسانہ ’’سودا‘‘ رشید جہاں مشمولہ ’’وہ اور دوسرے افسانے اور ڈرامے‘‘، یادگار کمیٹی نئی دہلی ، ۱۹۷۵ء ، ص : ۶۰

۳؎  اردو – ہندی افسانہ تعمیر، تشکیل اور تنقید۔ ڈاکڑ سیما صغیر۔ اشاعت اول ۲۰۰۲،  ص: ۱۵۲

۴؎  بحوالہ اردو میں نسائی ادب کا منظر نامہ۔ مرتبہ قیصر جہاں۔ سن اشاعت جولائی ۲۰۰۴،  ص: ۱۹۲

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضمیراللہ

ریسرچ اسکالر، شعبۂ  اردو علی گڑھ مسلم یونیور سٹی، علی گڑھ

موبائل نمبر: 9897719427

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.