واجد علی شاہ کے ڈرامے اور مشترکہ تہذیب
ہندستان ابتدا سے آپسی محبت ،اخوت،بھائی چارگی،رواداری اور تہذیبی ہم آہنگی کے لیے جانا جاتا ہے ۔پوری دنیا میں ہندستان اپنے یہاں مختلف مذاہب اور ان کی تہذیبوں کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کرنے کے لیے جانا جاتا ہے ۔ہندستان میں مہمانوں کا ادب و احترام ہمیشہ سے دیوتا کی مانند کیا جاتا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں پر مختلف قومیں آئیں اور بستی چلی گیئں۔جب یہ قومیں ملک میں داخل ہوئی ہوں گی تو اپنے ساتھ اپنی اپنی تہذیب اور کلچر بھی ساتھ لائی ہوں گی۔اس طرح دھیرے دھیرے اور محدود پیمانے پر ہی سہی الفاظ کا لین دین اورتہذیبوں کا ساجھا بھی ہواہو گا ۔بہت سے الفاظ ایسے رہے ہونگے جن کو وہ لوگ ادا نہیں کر پا رہے ہوں گے ۔ان الفاظ کا تلفظ تبدیل ہو ا ہوگا ۔یہ بدلا ہوا تلفظ دراصل لسانی سمجھوتا تھا اسی طرح بہت سے ایسے طور طریقے اور رسم و رواج بھی رہے ہوں گے جن کو ان لوگوں نے اپنایا ہوگا ۔اور بہت سے کلچر ایسے رہے ہوں گے جن کو ہم نے اپنایا ہو گا ۔ اس طرح سے معاشرتی ،تہذیبی اور لسانی روابط کا آغاز ہو اہوگا ۔جس کے بے شمار ثبوت تاریخ کے اوراق اور عوام کے سینوں میں آج بھی محفوظ ہیں ۔یہی سبب ہے کہ آج ہندستان میں نہ ایرانی تہذیب ہے اور نہ عبرانی اور نہ ہی کوئی دیگر تہذیب بلکہ خالص ہندستانی تہذیب ،جو ان تمام اقوام کی لسانی اور تہذیبی اشتراک سے پیدا ہوئی ۔اور اس طرح سے ایک نئے ہندستان اور ایک نئی تہذیب کا جنم ہو ا۔اس نئی تہذیب کو ہم مشترکہ تہذیب کہتے ہیں ۔جس کی بہترین نمایند گی ہماری اردو زبان کرتی ہے۔اردو کی تقریباً سبھی اصناف چاہے وہ شاعری کی ہو ں یا نثر کی مشترکہ تہذیب کی بہترین مثال پیش کرتی ہیں ۔اس مشترکہ تہذیب کوپروان چڑھانے میں سلاطین دہلی اور نوابین اودھ کے ساتھ ساتھ ہندستان میں رائج مختلف عوامی روایات ،مذہبی رسومات اور ان سے متعلق تیوہاروں پر پیش کیے جانے والے ناٹک اور لوک گیتوں کا بھی اہم کردار رہا ہے ۔گیارہویں صدی میں جب با ضابطہ طور پر مسلمان اور ہندوؤں کا سابقہ شروع ہوا تو اس باہمی اشتراک اور اختلاط سے ایک نئے سماج کا جنم ہوا اور سلطنت مغلیہ کے عہد میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ظاہری طور پر مذہبی اختلاف کے باوجود عوام میں داخلی سطح پر آپسی یک رنگی پیدا ہو چکی تھی اور ایک ملی جلی تہذیب وجود میں آرہی تھی ۔اردو زبان اس ملی جلی معا شرت اور تہذیب کی پروردہ ہے ۔اس مشترکہ تہذیب کے بہترین عناصر ہندوؤں اور مسلمانوں کے تیوہاروں میں دیکھا جا سکتا ہے ۔مسلمانوں میں رائج عرس کی رسم مذہبی ہم آہنگی کی لا جواب مثال ہے ۔جس میں ہندو ،مسلم اور دیگر قوموں کے لوگ بغیر کسی تفریق کے شریک ہوتے ہیں ۔اردو ادب کا نثری اور شعری سرمایہ ان تیوہاروں اور تقاریب کے ذکر سے بھرا پڑا ہے ۔محمد قلی قطب شاہ سے لے کر نظیر اکبرآبادی تک اوراس کے بعد کی نسل کے ادبا اور شعرا نے مختلف مذاہب سے متعلق تیوہاروں کے بارے میں جی بھر کر مدح سرائی کی ہے ۔نظیر کے یہاں ہولی دیوالی شبِ برات ،عید ،جنم اشٹمی،رام لیلا سے لے کر بسنت اور نہ جا نے کتنے تیو ہاروں اوران کی تقاریب کا ذکر ملتا ہے ۔اس کے علاوہ ہمارے بہت سے ادبا اور شعرا نے داستانوں ،ناولوں ،مثنویوں اور ڈراموں میں عوامی روایات ،میلے اور تیوہاروں کی جم کر شتائش کی ہے ۔لیکن یہاں پر میرا مقصداردو زبان و ادب کی مختلف اصناف میں پیش کیے گیے مشترکہ تہذیب سے نہیں بلکہ میری بحث کا موضوع واجد علی شاہ کے ڈرامے میں موجود مشترکہ تہذیب کے عناصر سے ہے ۔
واجد علی شاہ کے ڈرامے میں جس مشترکہ تہذیب کی بات ہم کر رہے ہیں اس کو فروغ دینے میں تمام نوابین اودھ کا اہم کردار رہا ہے ۔اس کی شروعات نواب سعادت خان برہان ا ملک کی صوبے داری سے شروع ہو کر نواب واجد علی شاہ کے عہد کے خاتمے پر مشتمل ہے ۔جس کی مدت تقرباً ایک سو چونتیس سال کی ہے ۔اگرچہ نوابین اودھ با الخصوص واجد علی شاہ کے عہد اور ڈرامے کی متعدد خوبیاں ہیں لیکن وہ خوبی سب سے زیادہ نمایا اور قابلِ شتائش ہے وہ مشترکہ تہذیب ہے ۔بغور مطالعہ کرنے کے بعدیہ معلوم ہوتا ہے کہ ڈراما نواب واجد علی شاہ سے قبل ایک صنف ادب کی حیثیت سے وجود میں نہیں آیا تھا ،لیکن بہت سی ایسی عوامی روایات تھیں جس میں ڈرامائی عناصر موجود تھے ۔واجد علی شاہ نے جس مشترکہ تہذیب کو پیش کیا وہ سب شواہد کے طور پر ان کے ڈراموں اور مثنویوں میں محفوظ ہیں۔واجد علی شاہ کی ڈرامے سے دلچسپی اور ان میں پیش کیے گیے مشترکہ تہذیب کے عناصر کا ذکر کرنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہو تا ہے کہ ا ن کی پیدائش اور زندگی کے مختصر حالات پر طائرانہ نظر ڈالی جائے جس سے کہ یہ معلوم ہو سکے کہ وہ کون سے عوا مل کار فرما تھے جس نے ان کی شخصیت اور ان کے ڈرامے میں مشترکہ تہذیب کے عناصر کو فروغ دیا ۔
واجد علی شاہ کا اصل نام مرزا محمدواجد علی تھا ۔تخت نشین ہونے کے ساتھ ہی ان کے نام کے ساتھ شاہ لفط منسوب ہو گیا ۔لیکن اکثر و بیشتر لوگ سہولت کے باعث صرف اجد علی شاہ کہتے ہیں ۔واجد علی شاہ صرف ایک نواب ہی نہیں بلکہ بہت بڑے شاعر،نثر نگار بھی تھے ۔ان کی پیدائش شاہی خاندان میں نواب غازی الدین حیدر کے عہد میں 10،ذی قعدہ1237ھ(30، جولائی،1822) کو لکھنؤ میں ہوئی ۔ان کے والدامجد علی شاہ اور دادا محمد علی شاہ نہایت شریف اور متقی پرہیزگار انسان تھے امجد علی شاہ نے اپنے خاندانی روایت کو قائم رکھتے ہوئے واجد علی شاہ کو دینی تعلیم و تدریس کے لیے امین ا لدولہ امداد حسین خاں کو مقرر کیا ۔یہ وہی امین ا لدولہ امداد حسین خاں ہیں جن کے نام سے آج بھی لکھنؤ میں امین آباد مشہور ہے ۔عہد ِ واجد علی شاہ میں فنون لطیفہ، شعر و شاعری اور رقص و سرودکو خاص مقام ومنزلت حاصل تھی۔ فنونِ لطیفہ کی ترویج و ترقی کو کسی بھی تہذیب کا امتیازی کارنامہ تصور کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ایک ایسا فن ہے جو مہذب اور غیر مہذب قوموں کے درمیان حدِفاصل کوبرقراررکھتا ہے ۔ دادا محمد علی شاہ اور والد امجد علی شاہ دونوں کے مذہبی امور میں بہت زیادہ دلچسپی لینے کی وجہ سے سلطان واجد علی شاہ کی تخت نشینی سے پہلے ہی فنونِ لطیفہ کی ترقی کی رفتار ماند پڑ گئی تھی ۔لیکن واجدعلی شاہ کو مختلف علوم و فنون میں دلچسپی ہونے کے ساتھ ہی ساتھ مختلف مذاہب کے رسم و رواج سے بھی بہت زیادہ انسیت تھی وہ اپنی رعا یا کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے ۔ثقافت کی ترویج وترقی میں رعایا اورحکمراں دونوں کا اشتراک ضروری نہ ہوتا تو جن فنون کی ترویج و ترقی کے لیے عہد ِ واجد علی شاہ جانا جاتا ہے وہ ان کے پہلے ہی انجا م پا گیے ہوتے کیونکہ ان کی داغ بیل آصف ا لدولہ کے عہد میں پڑ چکی تھی اور نصیر ا لدین حیدر کے عہد تک آتے آتے یہ تمام روایتیں بہت مستحکم ہو چکی تھیں۔ لیکن واجد علی شاہ کی جدّت پسندی نے ان فنون کی ترویج و ترقی کے سا تھ ساتھ ان میں نئے پہلوکی تلاش کی اورگانے میں ٹھمری،بجانے میں ستار اور رقص میں کتھک کو وہ مقبولیت اور بلندی عطا کی جو اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ واجد علی شاہ کے عہد میں شعرو شاعری اور رقص وموسیقی کا اس قدر چرچا تھا کہ تقریباً ہر پڑھنے لکھنے والا شخص شعر و شاعری توضرور کر لیتا تھا ۔اس ماحول کا اثر ان کی شخصیت پر اس قدر طاری ہوا کہ وہ بچپن سے ہی شعر و شاعری کے دلدادہ ہو گیے اور رقص و موسیقی کی طرف رجحان زیادہ ہونے لگا ۔یہی اسباب ہیں کہ ان میں دینی تعلیم و تدریس سے رغبت کم ہو تی گئی اور رنگین مزاجی اور عیش پرستی کی طرف رجحان بڑھنے لگا۔ اسی لیے وہ اپنے والدین کی خواہش کو شرمندۂ تعبیر کرنے سے قاصر رہے۔ اپنی طبیعت اور مزاج کے مطابق نصیر ا لدین حیدر کی قائم کی ہوئی روایت کو دوبارہ شروع کیا اور رقص و موسیقی میں خود کو اس قدر مصروف کرلیا کہ ہندستان میں اپنے عہد کے فن ِ ڈراما کے سب سے بڑے سرپرست کہلائے لیکن رقص و موسیقی کی بہ نسبت فن ِ ڈراما پر ان کا احسان زیادہ تھا ۔ انھوں نے ناٹک کو عوام کے ہاتھوں اور گلی کوچوں سے نکال کر شاہی محل میں جگہ دی اور عزت کے سنگھاسن پر بٹھایا۔
واجدعلی شاہ کے عہد سے بہت پہلے ہی اودھ میں بہت سی ایسی عوامی روایتیں موجود تھیں جن میں ڈرامائی عناصرتھے ۔مثلاً قصہ خوانی،داستان گوئی ،بھانڈوں کی نقلیں ،رام لیلا ، کرشن لیلا ، نوٹنکی ،سوانگ وغیرہ۔یہ تمام روایتیں فن ِ ڈراما کے لیے سر چشمہ ثابت ہوئیں اور اردو ڈراما کی ترویج و ترقی میں بڑی معاون و مدد گار بھی ثابت ہوئیں ۔ بغیر ان روایتوں کے ذکر کے نہ تو ڈراما کی تاریخ مکمل ہو سکتی ہیں اور نہ ہی واجد علی شاہ کی شخصیت اور ان کے ڈرامے میں پیش کردہ مشترکہ تہذیب کو سمجھا جا سکتا ہے ۔دونوں کی حیثیت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کی ہے یہ سبھی روایتیں ہماری تہذیبی وراثت ہیں جو واجد علی شاہ کے ڈرامے میں روز ِ روشن کی طرح عیاں ہیں ۔ چوں کہ اودھ کے ہندوؤں کو سری کرشن سے والہانہ محبت تھی۔ان کی بچپن کی شراتیں ،گوپیوں کے ساتھ کھیلنا اور بانسری بجا کر ان کو موہ لینا وغیرہ ۔کرشن جی کی یہ تمام چیزیںکرشن لیلائیں کہلاتی ہیں جو انھیں بہت عزیزتھیں ۔اودھ کے تمام گیت بالخصوص ہولیاں کرشن اور رادھا کی محبت کے تذکروں سے بھری پڑی ہیں ۔رقص کی تمام صورتیں بھی کرشن سے منسوب ہیں ۔اودھ کے وہ مسلمان بھی جوسری کرشن سے دلی لگاؤ رکھتے تھے اور رقص و موسیقی کے دلدادہ تھے ان کے بنائے ہوئے بیشتر گیتوں کا پشِ منطربھی کرشن اور رادھا کا عشق ہوتا تھا ۔واجد علی شاہ اپنی طبیعت اور مزاج کو کرشن جی کے حالاتِ زندگی کے موافق پاتے ہیں۔اس لیے کرشن لیلا سے متاثر ہو کر واجد علی شاہ نے اردو میں ’’رادھا کنھیا‘‘ کے نام سے ایک تمثیلی ناٹک لکھا اور اس کو رہس کے نام سے منسوب کیا ۔ رادھا کنھیا کے اس رہس میں شری کرشن کی ابتدائی زندگی کے بعض مشہور واقعات اور رادھا کی داستان ِ محبت کو بیان کیا ہے ۔واجد علی شاہ نے اس میں رقص و سرودکے ساتھ اپنا کلام ،دوہے ،ٹھمریاں اور دادرے بھی شامل کیے ہیں اس رہس میں ہدایت کاری سے لے کر کردار نگاری تک اور ساز وآہنگ لباس و پوشاک اور آرائش و زیبائش گویا ہر چیز کی تیاری واجد علی شاہ نے خوداپنی نگرانی میں کرائی ۔اور پوری تیاری کر لینے کے بعد 1843میں یہ رہس لکھنؤ کے شاہی اسٹیج پرپیش کیا جسے جلسہ کہتے ہیں ۔اس رہس کو ہی اردو کا پہلا ڈراما تسلیم کیا جاتا ہے جس میں خود واجد علی شاہ نے کرشن کا پاٹ ادا کیا ہے پورے ڈرامے میں واجد علی شاہ مشترکہ تہذیب کی بہترین علامت بنے ہوئے ہیں ۔وہ کبھی گوپیوں کے درمیان کرشن کنھیا بنے ہوئے رقص کررہے ہیں تو کبھی بانسری بجاتے ہوئے گوپیوں کو اپنی طرف متوجہ کر نے کی کوشش کرتے ہیں اس رہس میں ہندی زبان اور اصطلاحات کے ساتھ ہی ساتھ رقص و موسیقی کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے یہاں قابل ِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ واجد علی شاہ کے اس رہس کو صرف اردو کا ہی نہیں بلکہ ہندی کا بھی پہلا ناٹک تسلیم کیا جاتا ہے۔ واجد علی شاہ جیسے تغیّر اور تبدّل پسند جیسی شخصیت کاخصوصیت سے رادھا اور سری کرشن کی تمثیل کوترجیح دیناکسی مصلحت سے خالی نھیں ،اور یہ مصلحت اس کے سوا اور کیا ہو سکتی کہ وہ اس تمثیل سے انسیت رکھتے تھے اور اس کے ذریعے ہندستان میں مشترکہ تہذیب کی قدیم روایت کو قائم و دائم رکھنا چاہتے تھے۔ واجد علی شاہ نے سری کرشن اور رادھا کی داستان ِعشق اور ان کی زندگی کے واقعات کو رہس کی شکل میںشاہی اسٹیج پر پیش کر کے اسے لا زوال بنا دیا ہے ۔ اس سلسلے میں کوکب قدر سجاد علی مرزا لکھتے ہیں کہ:
’’قرون ِ وسطیٰ کا یہ مذہبی رقص تباہ ہو گیا ہوتا اگردو بادشاہ اس کی سر پرستی نہ کر تے اور اسے ایک سیکولر آرٹ کا درجہ نہ دیتے۔شہنشاہ اکبر نے اس کی فنی صلاحیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے پستی اور گم نامی سے نکال کراسلامی طرزاور مزاج سے ہم آہنگ کیا۔واجد علی شاہ نے اسے دوبارہ اس پستی سے نجات دی جس میں یہ شہنشاہ اکبر کے بعدعیش و عشرت کا ذریعہ بن گیا تھا۔‘‘ 1؎
واجد علی شاہ نے رہس رادھاکنھیا کے علاوہ دیگر مثنویاں بھی لکھی ہیں جن میں تین مثنویاں ایسی ہیں جنھیں اردو ڈراما کی ابتدائی تاریخ میں بنیادی مقام حاصل ہے مثلاً مثنوی ’’دریائے تعشق‘‘ ’’مثنوی افسا نہ ٔ عشق‘‘ اور مثنوی بحر ِ الفت ہے ان تینوں مثنویوں کو ڈرامے کی شکل میں منتقل کر کے شاہی اسٹیج پر پیش کیا ۔پہلی مثنوی ’’دریائے تعشق ‘‘ کا ڈراما (غزالہ ماہ رو کا قصہ ) اور دوسری مثنوی ’’افسانہ ٔ عشق‘‘ کا ڈراما (ڈراما سیم و تن اور ماہ و پیکر)1850میں پیش کیا گیا ۔ رہس کے ان دونوں جلسوں کو مکمل کرلینے کے کچھ ہی دن بعد انھو ں نے تیسری مثنوی ’’بحر ِ الفت ‘‘ کو بھی (ماہ پروین اور مہر پرور کا قصہ ) پیش کیا۔ واجد علی شاہ کی جدت پسندی نے ان رہسوں کے ذریعے خاصی شہرت حاصل کی ان تینوں مثنویوں میں پیش کیے گیے قصے سے کرشن اور رادھا کی حالاتِ زندگی سے کوئی رشتہ نہیں ہے پھر بھی انھیں رہس کہا جاتا ہے ۔ اس سے ایک بات صاف ہو جاتی ہے کہ رہس لفط کا استعمال اس وقت صرف ناٹک یعنی کہ ڈراما کے لیے استعما ل کیا گیا ہے۔ مسعود حسن رضوی ادیبؔ ان تینوں مثنویوں کے متعلق ایک مضمون میںاپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ:
’’واجد علی شاہ نے اپنی جن تین مثنویوں سے ڈرامے بنا کر ان کے کھیل تیار کیے،ان کے قصوں کو رادھا کنھیا کے حالات سے کوئی تعلق نہیں،مگر ان کے کھیل بھی رہس کہلاتے تھے ۔یعنی اس زمانے میں ’رہس‘ کا لفظ ’ڈراما‘ یا ’ناٹک‘کے معنوں میں بولا جاتا تھا۔‘‘ 2؎
چونکہ یہ تینوں رہس یعنی کہ ڈرامے مثنوی سے منتقل کر کے اسٹیج کیے گیے ہیں اس لیے اس میں مثنوی کے تمام لوازم اور اثرات در آئے ہیں ۔اس میں بھی پری ،پرستان ،دیو،اور تمام ایسے ممالک کا ذکر ہے جس کی تہذیب سے اس ڈرامے کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی واجد علی شاہ کو وہاں کی تہذیبی اور ثقافتی زندگی سے کوئی واقفیت ہے ۔ اگر ان ڈراموں میں تہذیب کی نمایندگی کی بات کی جائے تو نام ضرور ان ملکوں کا لیا گیا ہے لیکن تہذیب خالص ہندستانی پیش کی گئی ہے۔اس طرح کی باتیں نہ صرف واجد علی شاہ کے ان ڈراموں کے ساتھ ہیں بلکہ ان کے بعد کے ابتدائی ڈراما نگاروں کے یہاںبھی قدر مشترک ہیں۔یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ غیر ضروری طور پر مصر،روم،چین اور پری زاد،آدم زاد کی داستان عشق بیان کر کے اور دیو ،پرستان اور دیگر ملکوں کا نام شامل کر کے ہندستان کے کلچر کو بیان کرنایہ نقص صرف ڈرامے کے ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ داستانون اور مثنویوں سے بھی منسوب ہے۔واجد علی شاہ نے پر ی زاد اور انسانوں کی داستان عشق اور ان کی شادی و بیاہ کے رسم و رواج کے پردے میں ہندستان کی مشترکہ تہذیب کی بہترین عکاسی پیش کی ہے۔اس سلسلے میں جوگیا میلے کا ذکر نہ کرنا نا انصافی ہوگی کیوں یہ بھی مشترکہ تہذیب کی بہترین علامت ہے اور اردو ڈرامے کی ابتدائی ترقی میں اس کا بہت اہم کردار رہا ہے ۔واجد علی شاہ کی چھٹی کے موقع پر ان کی والدہ نے انھیں جو گی بنایا تھااور ان کی سال گرہ ہمیشہ اسی لباس میں منائی جاتی تھی لیکن اپنی تخت نشینی کے ساتویں سال شوال1269ھ(جولائی1853)میںانھوں نے اس رسم کے موقع پرقیصرباغ میںایک بہت بڑا میلا لگوا یا جس میں ہر خاص و عام کو شرکت کرنے کی اجازت دے دی گئی اورساتھ ہی ہر کسی کو گیروے لباس کو زیبِ تن کر نے کی قید ربھی کھی گئی۔میلے کے ان دنوں میں ہر کسی کو بغیر کسی روک ٹوک کے قیصر باغ میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔جوگیا میلے میں ہی شاہی رہس محل سے نکل کر عوام کے بیچ میں آیا۔یہ سلسلا تین سال تک مسلسل جاری رہا اور چوتھے سال ہی انگریزوں نے انھیںمعزولی کا حکم سنا دیا جس کے سبب لکھنؤ کی ساری رونق اب کلکتہ مٹیا برج میں منتقل ہو گئی۔کم اخراجات ہونے کے باوجود بھی واجد علی شاہ نے اپنے اس شوق کو کلکتے میں بھی جاری رکھا۔واجد علی شاہ کو اپنی ان سر گرمیوں کی بدولت ہر خاص و عام میں بڑی مقبولیت حاصل تھی ۔ان کا ہندستان کی تہذیبی روایت سے وابستگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایک با رعب اور فرض شناس شخصیت کے طور پر مشہور ہونے کے بجائے عوام میں ’’اختر پیا‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔
واجد علی شاہ نے تمام مذاہب کی یکساں سطح پر سر پرستی کی ۔وہ کسی بھی مذہب اور اس کے ماننے والواںسے کسی طرح کا امتیاز نہیں کرتے تھے ۔ان کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت انسانیت کی ہے جس کے بغیر نہ ہی آدمی کی اہمیت ہے اور نہ ہی کسی مذہب کی کوئی وقعت باقی بچے گی۔ڈراماکی تکنیک کے طور پر اگر دیکھا جائے تو ان کے ڈرامے میں فنی اعتبار سے بہت سی خامیاں نظر آتی ہیںلیکن چونکہ ان کے ڈرامے ابتدائی ہیں اس لیے ایسی کمی کا پایا جانا عام سی بات ہے ۔ واجد علی شاہ نے اپنے ڈرامے کو ہندستانی کلچر مذہبی اعتقادات اور قدیم ہندستانی عوامی روایات سی سجایا ہے ۔ایک ایسے عہد میں انھوں نے ڈرامے پر قلم اُٹھایا جب ان کے سامنے نہ ہی ڈرامے کا کوئی نمونہ تھا اور نہ ہی اس میدان میں کام کرنے کی کوئی جسارت کر سکتا تھا۔کیونکہ اسلام میں ناچ اور گانا ممانیت ہے اس لیے اس فن کو حقیر و ذلیل فن سمجھا گیا ۔ اور اس فن سے وابستگی رکھنے والوں کومعاشرے میں گری نگاہ سے دیکھا جا تا تھا جبکہ عوام کے مذاق کے مطابق اکثر و بیشتر اس دور کے کھیل تماشوں اور ناٹکو ں میں ناچ اور گانے کو غیر معمولی اہمیت دی جا تی تھی لیکن شرفا کے نزدیک ناچ گانے اور اس قسم کی عوامی مجلسوں میںشرکت کرناان کی وضع داری کے خلاف تھی اس کے باوجود واجد علی شاہ نے بے پناہ دشواریوں اور سنگین پابندیوں کے باوجود ہندستان کی مشترکہ تہذیبی میراث کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اسے اپنے ڈرامے میں خوبصورتی سے پیش بھی کیا۔
حواشی:۔
1 ۔واجد علی شا ہ کی ادبی و ثقافتی خدمات،کوکب قدر سجاد علی مرزا ،قومی قونسل برائے فروغ اردو زبان۔نئی دہلی،2010،ص۔474-475
2۔آج کل ڈراما نمبر،جنوری 1959،ص،37
Rafiuddin
Research Scholar
Department of Urdu
University of Delhi
Pincode-110007
Email- rafiuddin0312@gmail.com
Mob:-9953714065,
Leave a Reply
Be the First to Comment!