منٹو کے ابتدائی دور کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ

منٹو کا نام اردو افسانوی ادب میں محتاج تعارف نہیں ہے بلکہ ان کو نقادوں نے اردو افسانہ نگاری کے صف اول کے افسانہ نگاروں میں شمار کیا ہے۔ منٹو نے محض ۴۳ سال کی عمر میں وفات پائی تاہم کم مدت میں انھوں نے بے شمار افسانے لکھے۔

کوئی بھی ادیب یا فن کار اس وقت مقبول و مشہور اور زندہ و جاوید ہوتا ہے جب وہ اپنے معاصرین سے الگ ہٹ کر کچھ نئی تخلیق پیش کرتا ہے۔ شاید اس بات کو منٹو نے بہت پہلے محسوس کرلیا تھا کہ راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی اور کرشن چندر سے الگ اردو فکشن کی دنیا میں منفرد مقام حاصل کرنا ہے تو کچھ نیا کرنا ہوگا یہی وجہ ہے کہ منٹو نے اپنے لیے الگ موضوع کا انتخاب کیا۔ اس وقت عصمت چغتائی کے علاوہ کسی نے کھل کر جنسی مسائل پر افسانے نہیں لکھے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عزیز احمد نے منٹو کی فحش نگاری پر سخت تنقید کی لیکن اس کا کیا کیجئے کہ وہ خود اپنے ناولوں میں فحش نگاری کے جرم کے مرتکب نظر آتے ہیں۔

ہمارے ادب میں فحش نگاری سے متعلق نقادوں اور ادباء کے درمیان اکثر یہ بحث سامنے آئی کہ فحش ادیب کیونکر مخرب اخلاق ہے اور کیونکر جنسی مسائل کی پیش کش کو ادب سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ان مباحث سے کسی نتیجہ تک پہنچنا محال ہے کیونکہ فحش نگاری یا عریاں نگاری کی کوئی متعینہ تعریف نہیں کی جاسکی ہے۔ جو بات ایک معاشرے کے لیے فحش ہوسکتی ہے وہی بات دوسرے معاشرے اور ماحول میں قابل قبول ہوسکتی ہے۔ یہی بات منٹو کے نام نہاد فحش نگاری کے سلسلے میں کہی جاسکتی ہے کیونکہ منٹو نے سماج کی ایک ایسی حقیقت کی نقاب کشائی کی ہے جو معاشرے کے اصول و ضوابط کے پردے میں چھپائی جاتی رہی ہے۔منٹو کی شناخت ایک ایسے افسانہ نگار کے طور پر کی گئی ہے جس سے جنس کو اپنا موضوع خاص بنایا اور اس طرح سے لکھا کہ کئی افسانوں پرمقدمے بھی چلے اورمیںسمجھتا ہوں کہ یہ مقدمہ جائز بھی تھا اس وقت کا سماج شاید اس طرح کے افسانے پڑھنے کے متحمل نہ تھا۔

وقار عظیم کہتے ہیں کہ منٹو کو فرائڈ کے قرب نے بدنام کیا ہے۔ اس بات میں کچھ حد تک صداقت ہے کیونکہ منٹو کم عمری میں ہی میکسم گورکی اور چیخوف کا مطالعہ کرنے لگے تھے۔ زیادہ تر ادیبوں کا خیال ہے کہ منٹو نے مغربی ادب کا مطالعہ زیادہ کیا تھا اور فرائڈ کا بھی، اسی لیے انھوںنے جنس کو اپنے متن کا موضوع بنایا۔ مگر میرا سوال ان تمام ادباء سے ہے کہ کیا کوئی کسی کا مطالعہ کرکے اس جیسا ہوجاتا ہے جس طرح کہانی ہوتی ہے؟ شاید ایک دو کو چھوڑ کر اس طرح کی مثالیں کم ہیں۔ منٹو نے مغربی ادب کا مطالعہ ضرور کیا تھا لیکن میرا ماننا ہے کہ منٹو شروع سے ہی غلط لوگوں کی صحبت میں پڑگئے تھے ان میں شراب نوشی کے ساتھ ساتھ خود پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ڈاکٹر خالد اشرف نے اپنی کتاب ’فسانے منٹو کے‘ میں منٹو کا ایک بیان لکھا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’مجھ سے کوئی پوچھے منٹو تم کس جماعت میں سے ہو تومیں عرض کروں گا میں اکیلا ہوں جس دن میرا کوئی ثانی ہوگا میں لکھنا چھوڑ دوں گا۔‘‘(ص:۲۰)

مذکورہ بالا اقتباس پر غور کریں تومعلوم ہوگا کہ منٹو نے پہلے یہ طے کرلیا تھا کہ مجھے کچھ ایسا کرنا ہے کہ میرا کوئی ثانی نہ ہو۔منٹو لفظوں کا جادوگر ہے انھوںنے اپنے افسانے میں مکالموں سے بہت کام لیا ہے۔منٹو کی زبان میں اس وقت تابناکی تیز ہوجاتی ہے جب وہ جنس جیسے موضوع پر قلم اٹھاتا ہے۔ منٹو کے ابتدائی دور کے افسانوں میں پلاٹ ڈھیلا ڈھالا معلوم ہوتا ہے کوئی بھی عام واقعہ یا عام خیال کو کہانی کی شکل میں پیش کردیتے تھے۔منٹو کے زیادہ تر افسانے مختصر ہیںحالانکہ ان میں سے کچھ افسانے اچھے ہوسکتے تھے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ لکھتے لکھتے جھنجھلاہٹ کا شکار ہوکر جلد افسانے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ جس کی مثال افسانہ جان محمد، جاؤ حنیف جاؤ، راجو وغیرہ ہیں۔ جہاں تک کردا رنگاری کی بات ہے تو منٹو خود ایک ایسا کردار ہے جو اپنے زیادہ تر افسانوں میں واحدمتکلم کی حیثیت سے کہانی کو بیان کرتا ہے او رایسا لگتا ہے کہ کہانی پڑھ نہیں رہے ہیں بلکہ سن رہے ہیں گویا منٹو کی کہانی انہی کی زبانی کردارنگاری کے دو اقسام ہیں۔ داخلی اورخارجی اور منٹو نے زیادہ تر داخلی کردارنگاری پر زور دیا ہے۔ منٹو نے زندگی کے ہر شعبہ سے کردار کے افسانوں کے طور پر پیش کرنے کی سعی کی مثلاً دلال، طوائف، مولوی، استاد وغیرہ۔افسانہ ’جانکی‘ میںمنٹو خود راوی کا کردار ادا کررہا ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار جانکی ہے۔ یہ افسانہ فلم انڈسٹری کو مدنظر رکھ کر تخلیق کیا گیا ہے۔ اس افسانے کے ذریعہ قاری بہت حد تک فلمی دنیا کی سیر کرلے گا۔ جانکی پشاور سے پونے منٹو کے پاس فلم میں کام کرنے کے لیے آتی ہے۔ اس افسانے میں تین کردار اور ہیں جو کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ عزیز، سعید اور نرائن۔ جانکی عزیز اور سعید کے عشق میں گرفتار ہے۔ اس افسانے میںمنٹو نے ایک جدوجہد کرتی ہوئی لڑکی کا استحصال دکھایا ہے۔ منٹونے اس افسانے میںاپنے چونکادینے والے اندازکو برقرار رکھا ہے۔ قاری اس وقت چونک جاتا ہے جب جانکی نرائن کے ساتھ رہنے لگتی ہے۔ منٹو کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ نسوانی کردار کی تصویر کشی بہت زبردست طریقے سے کرتے ہیں ایک جگہ جانکی کے بارے میں لکھتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’تیکھے ہونٹ جو مسکراتے وقت سکڑ جاتے تھے یاسکیڑ لیے جاتے تھے۔‘‘

وہ مزید آگے ایک جگہ پھر تصویر کشی کرتے ہیں:

’’مسکراتے ہوئے تیکھے ہونٹوں کی محراب میں سے مجھے اس کے دانت نظر آئے جو غیرمعمولی طور پر صاف اور چمکیلے تھے۔‘‘

مذکورہ بالا اقتباس کے پیش نظر یہ کہاجاسکتا ہے کہ شاید ہی کوئی افسانہ نگار اس طرح باریکی سے کرداروں کی حرکت و عمل کو پیش کرتا ہو۔اسی طرح ایک افسانہ ’فورشٹ‘ ہے۔ یہ افسانہ بالکل سیدھا سادہ ہے جس میں کوئی پیچیدگی نہیں۔ اس کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ منٹو اپنی آپ بیتی سنارہے ہیں۔ فورشٹ کا اصلی نام خورشید ہے۔ اس میں دو کردارو اور ہیں ایک سردار نامی اور دوسرا ڈاکٹر کا پڑیا۔ فورشٹ ڈاکٹر کاپڑیا کی بیوی ہے لیکن قاری اس وقت سوچ میں مبتلا ہوجاتا ہے جب فورشٹ اور سردار ہنی مون کے لیے ممبئی پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں میں ایک بات کا ذکر کرتا چلوں کہ منٹو کرداروں کی بغاوت اور انقلاب کا ذکر نہیں کرتا بلکہ اچانک چونکانے پر اکتفاکرتا ہے اسے منٹو کی خوبی کہئے یا خامی۔ ان کے افسانوںکو پڑھ کر ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ منٹو کے اکثر کرداروں میں بے وفائی کا مادہ زیادہ ہے وہ دھوکہ دینے پرآمادہ رہتے ہیں اور سمجھوتہ پر بہت کم اکتفا کرتے ہیں۔ اس کی توضیح ایک نفسیاتی نقاد ہی کرسکتا ہے۔

منٹو کے کرداروں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ ان کے سارے کردار آپس میں خلط ملط رہتے ہیں سب ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پیار کسی اور سے کرتے ہیں اور شادی کسی اور سے ہوتی ہے۔ ان کے ابتدائی دور کے افسانوں میں نسوانی کردار ہو یا مرد کردار سب مطلب پرست اور اناپرست ہوتے ہیں کبھی نسوانی کردار اپنے شوہر کو چھوڑ کر دوسرے کے ساتھ رہنے لگتی ہے توکبھی مرد کردار دھوکہ دینے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال افسانہ ’جانکی‘ ہے۔ سعید اور عزیز جانکی کو اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ ان کے وعدہ کے مطابق ان سے ملنے نہیں آتی ہے جبکہ دونوں جانکی کے ساتھ جنسی تعلقات بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔

اسی طرح افسانہ ’فورشٹ‘ میں فورشٹ اپنے شوہر کو چھوڑ کر سردار کے ساتھ ہنی مون منانے ممبئی چلی جاتی ہے حالانکہ اس بات پر غور کرنا کافی دلچسپ ہوگاکہ ڈاکٹرنے فورشٹ کو چھوڑا ہے یا خود فورشٹ نے۔ان کے افسانوں کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ منٹو نے اپنے کرداروں کے ذریعہ ازدواجی زندگی کی ناکامیوں کو بھی پیش کیا ہے، جس کی سب سے اچھی مثال افسانہ ’محمودہ‘ ہے اس افسانے کا مرکزی کردار خودمحمودہ ہے۔محمودہ اس لیے طوائف بن جاتی ہے کہ اس کا شوہر ازدواجی زندگی میںناکام رہتا ہے۔

منٹو کے کرداروں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے بیشتر کرداروں میں احتجاج کا رویہ نظر آتا ہے۔ اس کی مثال افسانہ ’جان محمد‘ ہے۔ یہ افسانہ دو لوگوں کی محبت کی داستان ہے۔ جان محمد کو شمیم سے پیار ہوجاتا ہے اور وہ دونوں گھر سے باہر جاکر شادی کرلیتے ہیں۔ اسی طرح ایک افسانہ ’راجو‘ ہے جو سوداگر کے بیٹوں کے یہاں کام کرتی ہے اور اس کے تینوں بیٹوں نے راجو کے ساتھ جسمانی تعلقات بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک دن راجو ان سے تنگ آکر ٹھنڈ کی رات میں باہر نکل آتی ہے اوربغاوت پر اتر آتی ہے۔ راجو کے احتجاجی تیور اس وقت ظاہر ہوتے ہیں جب سوداگر کا ایک بیٹا اسے کہتا ہے کہ راجو گھر میں آجا کوئی دیکھ لے گا تو کیا کہے گا اس پر راجو کہتی ہے کہ مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے۔ ساری دنیا کو دیکھنے دے۔ بعدمیں راجو واحد غائب کردار (وہ) کے ساتھ بھاگ جاتی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ منٹو کو سمجھوتا پر یقین نہیں ہے۔ حالانکہ بعد میںمنٹونے ایسے کئی افسانے لکھے جس میں انھوںنے سمجھوتہ پر اکتفا کرلیا ہے مثلاً خوشیا، رام کھلاون وغیرہ وغیرہ۔

منٹو کے نسوانی کردار تشدد کے شکار ہوجاتے ہیں۔ منٹو نے کئی افسانے میں اسی پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ اس کی کئی مثالیں ہیں افسانہ ’جاؤ حنیف جاؤ‘ میں سمتری نامی کردار کی جبراً عصمت دری کی جاتی ہے،جس کی وجہ سے وہ حنیف سے شادی نہیں کرپاتی ہے یہاں ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ مرد ایسے معاملوں میں بہت کمزور ہوتا ہے جب وہ کسی عورت کے بارے میں یہ جان لیتا ہے کہ اس کی آبروریزی ہوئی ہے تو وہ بالکل اس سے کنارہ کشی کرنے لگتا ہے۔ حنیف شادی کے لیے سمتری سے زیادہ ضد نہیں کرتا اس لیے کہ اس کی عصمت لوٹ لی جاتی ہے۔ حالانکہ اس واقعہ کے رونما ہونے سے پہلے حنیف سمتری سے بہت شدت سے پیار کرتا تھا۔ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’ایک دن جب وہ اپنی محبت کا اظہار کررہی تھی۔ میں نے وہ بات جو بڑے دنوں سے مرے دل میں کانٹے کی طرح چبھ رہی تھی، اسے سے کہی میں کوئی اوباش نہیں کہ تہیں خراب کرکے چلتابنوں میں تمہیں اپنا جیون ساتھی بنانا چاہتا ہوں۔‘‘

دوسری مثال افسانہ ’محمودہ‘ ہے جس میںمحمودہ کے لیے واحد غائب کردار (وہ) محمودہ کے تئیں دل میں احترام نہیں رکھتا۔ جب کہ طوائف بننے سے پہلے وہ محمودہ کی آنکھوں کا دیوانہ تھا۔یہاں ایک بات کا ذکر کرنا ناگزیرسمجھتا ہ وں کہ منٹو کے افسانوں میں یہ بات نمایاں طور پر عیاں ہے کہ مرد کردار ایسے پائے گئے ہیں کہ جنھوںنے آبروریزی اور عصمت دری کا شکار ہوئی عورتوں کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ دراصل یہاں منٹو نے مردوں کی اس نفسیات پر طنز کیا ہے کیونکہ معاشرہ اپنا نام نہاد اصول و ضوابط بنالیتا ہے کہ جس عورت کی آبروریزی ہوئی ہے اس کی عزت جاتی رہی ہے جب کہ اس سلسلے میں عورت کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ کیونکہ وہ بیچاری خود ہی مظلوم ہے اور معاشرہ اس مظلوم کے ساتھ تحقیر آمیز رویہ اپناکر اس کے ساتھ اور ظلم روا رکھتا ہے۔

ان کے بعض افسانوں کو پڑھ کر ایسامعلوم ہوتا ہے کہ منٹو نے پریم  چند کے اس قول کا بہت احترام کیا ہے کہ اب ہمیں حسن کا معیار بدلنا ہوگا۔ بدصورتی میں بھی حسن تلاش کرنا ہوگا۔ اگر اس حوالے سے ان کے کرداروں کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ منٹو نے کئی ایسے کرداروں میں حسن کا بیان کیا ہے جو بالکل بری اور بھدی ہیں۔ ان کے کردار کتنی ہی بری کیوں نہ ہو وہ اس کی شکل و صورت اور خدوخال کی تصویر کشی اس طرح کرتے ہیں کہ قاری لذتیت کی دنیا میں سیر کرنے لگتا ہے، جس کی مثال افسانہ بو، راجو وغیرہ ہیں۔

مختصر یہ کہ منٹو اپنی ابتدائی دور کی افسانہ نگاری میں کافی Confusionکا شکار تھے۔ ان کو یہ سمجھ میں نہیںآرہا تھا کہ کرنا کیا ہے۔ کبھی بغاوت پر آمادہ ہوتے تھے تو کبھی سمجھوتہ کرلیتے تھے۔ یعنی ہر عام فن کار کی طرح کافی جدوجہد کے مراحل سے گزرتے تھے تب جاکرانھوںنے ٹوبہ ٹیک سنگھ، کالی شلوار، ٹھنڈا گوشت، نیا قانون وغیرہ جیسے اردو کے شاہکار افسانے تخلیق کئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.