پروفیسر محمود الٰہی: بحیثیت محقق و نقاد

اردو ادب میں پروفیسر محمود الٰہی (1930 – 2014)کا نام محتاج تعارف نہیں۔ افسوس کہ زندگی کے 84 سال کی عمرکو پہنچ کر اس دار فانی کو الوداع کہہ گئے۔مگر انہوں نے اپنی زندگی میں جو خدمات انجام دیں اسے اردو دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔وہ ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے اور اپنی پوری زندگی اردو ادب کی خدمت میں گذار دی۔کتابوں کی تدوین و تسویداور مخطوطات کی تلاش میں اپنی زندگی کا بیش بہا سرمایہ صرف کردیا۔ تحقیقی و تنقیدی میدان میں بے مثل خدمات کیں۔ ان کے اہم کارناموں میں ’فسانۂ عجائب کا بنیادی متن‘ اردو کا پہلا ناول-خط تقدیر، تذکرۂ نکات الشعرا، تذکرہ ٔشورش، صحیفۂ محبت اور الہلال (الہلال اور البلاغ کے تمام شماروں کا عکس) ہیں۔ انہوں نے طنز و مزاح اور شاعری میں بھی طبع آزمائی کی۔ طنز و مزاح میں نبّاضؔ اور شاعری میں زخمیؔ تخلص اختیار کیا۔ طنز و مزاح کے زیادہ تر مضامین ’خبرنامہ‘ لکھنؤ میں شائع ہوئے اور زیادہ تر نظمیں ’مدینہ‘ اخبار بجنور میں شائع ہوئیں۔(۱) صبح آزادی، تفخر اورعزم ان کی اہم نظمیں ہیں۔ ان کی تحقیق کا طریقہ کار کچھ مختلف تھا۔ اگر وہ کسی عنوان پر قلم اٹھاتے تو یا تو اس پر اضافہ کرتے یا اس کا بھرپور تنقیدی جائزہ لینے کی کوشش کرتے۔ ان کو کبھی یہ بات پسند نہ آئی کہ صرف نقطے درست کرکے ترتیب و تدوین میں نام ڈال دیا جائے۔ان کی خدمات پر کئی اداروں میں تحقیقی کام ہورہے ہیں اور حال ہی میں ان کی خدمات پر اس خادم کی تصنیف کردہ کتاب ’محمود الٰہی: حیات و خدمات ‘ منظر عام پر آچکی ہے۔
پروفیسر محمود الٰہی کی تحقیقی خدمات پر نظر ڈالیں تو فسانۂ عجائب کا بنیادی متن تلاش کرنا ان کا اہم کارنامہ ہے۔ انہوں نے اپنی تحقیقی کاوشوں سے فسانۂ عجائب کا بنیادی متن تلاش کیا اور ’فسانۂ عجائب کا بنیادی متن‘ کے نام سے کتاب ترتیب دیکر ادارۂ تصنیف، ماڈل ٹاؤن، دہلی سے 1973 میں شائع کیا اور ان تمام شواہد کو پیش کیا جو اس متن کے بنیادی ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ انھیں شواہد پر گفتگو کرتے ہوئے کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں ’’ رجب علی بیگ سرور نے جب پہلی بار جانِ عالم کے قصے کو فسانۂ عجائب کی شکل میں 1824میں لکھا تو اس وقت نثر نہایت آسان اور عام فہم تھی۔ مگر تقریباً انیس سال بعد جب اس کی طباعت کا وقت آیا تو سرور نے اس میں بہت سی تبدیلیاں کی۔ یہ تبدیلیاں اس لئے تھیں کہ کسی بھی بات کو تکلف و تصنع سے پیش کرنا لکھنؤ کی عام روش بن گئی تھی۔سرور پر بھی اس کا اثر پڑا اور انھوں نے فسانۂ عجائب کی نثر کو مشکل کردیا۔‘‘ مزید لکھتے ہیں ’’ فسانہ عجائب بنیادی طور پر آسان زبان میں لکھی گئی اس پر یہ بھی دلیل ہے کہ جس شخص کے کہنے پر رجب علی بیگ سرور نے ’فسانۂ عجائب‘ تحریر کیا اس کا مطالبہ بھی آسان زبان میں تحریر کرنے کا تھا۔ محمود الٰہی نے جن ثبوتوں کو پیش کرکے اپنی ترتیب کردہ نسخے کے متن کو اصل متن کہا ہے، ان دلائل کو دیکھنے کے بعد یہ بات قابل قبول معلوم ہوتی ہے کہ یہی نسخہ اصل نسخہ ہے اور فسانۂ عجائب کا بنیادی متن بھی یہی ہے۔‘‘(دیکھیں مقدمہ فسانۂ عجائب کا بنیادی متن، از محمود الٰہی)
اس کے علاوہ اردو ناول کے تعلق سے بھی پروفیسر محمود لٰہی کا اہم تحقیقی کام رہا ہے۔اگرچہ اس موضوع پر انھوں نے کوئی باضابطہ کتاب نہیں لکھی لیکن انھوں نے ’اردو کا پہلا ناول خط تقدیر‘‘ کے مقدمے میں جو تنقیدی نوٹ لکھا ہے وہ ناول کے فن پر ایک اہم مقالے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اردو ناول کا باضابطہ آغاز کب اور کیسے ہوا، اس کے متعلق محققین میں اختلاف پایا جاتاہے۔ البتہ نذیر احمد کے ناول ’مرأۃ العروس‘ کو اکثر محققین نے اردو کا پہلا ناول تسلیم کرلیا ہے۔ مگر کئی محققین کی آرا الگ الگ ہیں اور وہ دوسری تصانیف کو اردو کا پہلا ناول قرار دیتے ہیں۔ پروفیسر ابن کنول نے 1832کی تصنیف کردہ منشی گمانی لعل کی ’ریاض دلربا‘ کو اردو ناول کا نقش اول کہا ہے تو بعض حضرات نے منشی عزیز الدین کی لکھی ہوئی تمثیل ’جوہر عقل‘ (1868) کو اردو کا پہلا ناول قرار دیا ہے۔ مگر پروفیسر محمود الٰہی نے مولوی کریم الدین کی لکھی ہوئی کتاب ’خط تقدیر‘ کو اردو کا پہلا ناول قرار دیتے ہوئے اس پر کئی ثبوت پیش کیے ہیں۔ اس پر مقدمہ لکھ کر 1964 میں ’’اردو کا پہلا ناول-خط تقدیر‘‘ کے نام سے شائع کیا۔
نذیر احمد کا تحریر کردہ ناول مرأۃ العروس کو اردو کاپہلا ناول اس لیے مانا گیا کہ اس میں ناول کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد نے اپنے ناول میں اس وقت کے روایتی قصوں سے ہٹ کر اپنا ایک الگ طرز اپنایا جس کا ذکر بھی انہوں نے کیا ہے۔ مگر اس سے قبل مولوی کریم الدین نے ’خط تقدیر‘ لکھا اور دیباچہ میں روایت سے انحراف کے بارے میں اشارہ بھی کیا۔کریم الدین مشرقی علوم و فنون کے علم بردار ہوتے ہوئے بھی مغرب کے علمی و ادبی مذاق میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ انگریزی کی مقبولیت اور کامیابی دیکھ کر اردو کو بھی اس کے مقابل دیکھنے کی خواہش رکھتے تھے۔ اردو میں قصہ بیان کرنے کا جو طریقہ اس وقت تھا اس سے انہیں تکلیف پہونچی تھی۔ اس لئے قصہ لکھتے وقت انہوں نے روایت سے انحراف کیا۔ بقول محمود الٰہی ’’اسے روایتی قصہ نگاری کی شدید مخالفت اور نئے طرز کے قصوں کو رواج دینے کی پہلی شعوری کوشش سے تعبیر کرنا غلط نہ ہوگا۔‘‘
(’اردو کا پہلا ناول:خط تقدیر‘ ص 20، مطبع دانش محل ، لکھنؤ)
کتاب کے مقدمے میں محمود الٰہی مزید لکھتے ہیں کہ خط تقدیرمیں جو ایک اہم کمی محسوس ہوتی ہے وہ اشعار کا جابجا استعمال ہونا ہے۔ اکثر جملے مقفی و مسجع ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ کریم الدین جانتے تھے کہ عوام کو داستانوں سے بہت دلچسپی ہے مگر وہ نئے طرز کا قصہ سنانا چاہتے تھے لیکن اس طرح نہیں کہ کوئی سننے کو تیار نہ ہو اسی لیے جابجا اشعار کا استعمال کیاتاکہ عوام کی دلچسپی برقرارہے۔ (دیکھیں: اردو کا پہلا ناول: خط تقدیر، از پروفیسر محمود الٰہی)
اپنے بات کو مزید تقویت دیتے ہوئے محمود الٰہی لکھتے ہیں کہ’خط تقدیر‘ سے اردو میں قصہ نگاری کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ ہمارے افسانوی ادب میں مغربی اقتدار کے زیر اثر جو تبدیلی ہوئی اب تک کی تحقیق کے مطابق اس کا یہ اولین نمونہ ہے۔ کریم الدین محمد حسین آزاد اورڈپٹی نذیر احمد دونوں کے پیش رو تھے۔مولوی کریم الدین کے بعد ہی محمد حسین آزاد بھی تمثیل نگاری میں مشہور ہوئے اور نذیر احمد نے ناول نگاری میں مقبولیت حاصل کی۔ اس طرح ’مرأۃ العروس‘ کے بجائے ’خط تقدیر‘کو اردوکا پہلا ناول کہا جاسکتاہے۔
ناول کے بعد تذکرے کی بات کریں تو پروفیسر محمود الٰہی نے میر تقی میرؔ کے تذکرۂ نکات الشعرا کے ایک نسخے کو پیرس کے قومی کتب خانے سے حاصل کرکے اس کے اصل متن کو ترتیب دیا۔ اس نسخے کا عکس ان کے دوست مرزا سعید الظفر چغتائی کی مدد سے ملا۔ محمود الٰہی نے اس میں یوں تو بنیادی متن انجمن کے ہی نسخہ کو بنایا ہے مگر اس متن کو پیرس والے نسخے اور دوسرے نسخوں کے متن سے موازنہ کرکے صحیح متن پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔اپنی مرتب کردہ تذکرہ نکات الشعرا کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے محمود الٰہی لکھتے ہیں ’’ نسخۂ پیرس کے مطالعے سے وہ بیانات واضح ہوجاتے ہیں جو مطبوعہ نسخہ میں کسی وجہ سے مبہم اور غیر واضح رہ گئے تھے۔ اس طرح مطبوعہ نسخہ کی تصحیح و توثیق کی وجہ سے اسے قدیم ترین ماخذ کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ چونکہ مطبوعہ دونوں نسخوں میں کہیں کہیں معمولی اختلاف بھی ہے جو اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ میرؔ نے تذکرے پر نظر ثانی کی تھی لیکن دونوں میں اصل متن کون ساہے اور کون اصلاح شدہ متن کی نقل ہے، اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔‘‘(تذکرۂ نکات الشعرا ،مرتبہ پروفیسر محمود الٰہی، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ،2003)
تذکرۂ نکات الشعرا کی ترتیب دینے کے طریقہ کار پر اظہار خیال کرتے ہوئے محمود الٰہی لکھتے ہیں :
’’ اس ترتیب میں نسخہ انجمن ہی کو بنیاد بنایا گیا ہے کیونکہ یہ مکمل بھی ہے اور قدیم بھی۔ نسخہ پیرس سے متن کی تصحیح کی گئی ہے۔ متن کی تصحیح و توثیق میں کہیں کہیں تذکرۂ شورش کے اس خطی نسخے سے بھی استفادہ کیا گیا ہے جو کتب خانہ رشیدیہ جون پو رمیں محفوظ ہے۔ شورش نے میرؔ کے بیانات کو کہیں کہیں من و عن نقل کیا ہے اور اس کا حوالہ بھی دیا ہے۔ اس طرح اس کی مدد سے نکات الشعرا کے بعض حصوں کا متن تیار کیاجاسکتا ہے۔ اگرچہ نسخۂ انجمن کے متن کو بنیاد بنایا گیا ہے لیکن کہیں کہیں نسخۂ پیرس کے الفاظ کو متن کے لیے ترجیح دی گئی ہے اور نسخۂ انجمن کے الفاظ حاشیہ میں لکھ دیے گئے ہیں۔‘‘ (دیکھیں : تذکرۂ نکات الشعرا ،مرتبہ پروفیسر محمود الٰہی، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ،2003)
محمود الٰہی نے اپنے بنائے گئے طریقہ کار پر تذکرہ نکات الشعرا کو ترتیب دے کر اصل متن پیش کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ اس طرح کی کوشش دوسروں کے یہاں نہیں ملتی۔ اس طرح تذکرۂ نکات الشعرا جو کہ کافی اہمیت کا حامل ہے، اس کی اصلی شکل پیش کرکے محمود الٰہی نے کافی اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ انہوں نے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے وہ نہایت ہی عمدہ ہے اس سے ساری باتیں سامنے آجاتی ہیں کہ اصل عبارت کیا ہے اور کیا ہونی چاہیے۔ حاشیہ میں اختلاف نسخ کی طرف اشارہ کرکے بالکل صاف و شفاف انداز میں اصل متن پیش کیا ہے۔ یہ ان کا عمدہ اور قابل تعریف کارنامہ ہے۔
پروفیسر محمود الٰہی نے تذکرۂ شورش (رموز الشعراء) کا قدیم نسخہ خانقاہ رشیدیہ، جونپور سے حاصل کرکے 1984 میں اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤسے شائع کیا ، جو ایک بڑا کارنامہ ہے۔تذکرۂ شورش بہار میں لکھے گئے تذکروں میں اہمیت کاحامل ہے۔ شورش نے رکن الدین عشق کے کہنے پر 1777ء میں تذکرۂ شورش لکھا جس میں ہندوستان کے دوسرے شعرا کے ساتھ عظیم آباد کے شاعروں کو خاص جگہ دی گئی۔ تذکرۂ نکات الشعراء اور تذکرۂ ریختہ گویاں سے بھی بہت سارے شعرا کے حوالے لیے اور ان مآخذ کا ذکر بھی کیا۔اس طرح تذکرۂ شورش ایک تاریخی حیثیت کا حامل ہے کہ یہ عظیم آباد کے شعراء کا پہلا تذکرہ ہے۔شورش کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ شعراء کے کلام پر بڑے اعتماد کے ساتھ آزادانہ اور بے باک رائے دیتے ہیں۔ تنقید کا یہ فن انہوں نے رکن الدین عشق سے سیکھا جو بلا شبہ عظیم آباد کے عالموں، صوفیوں اور بزرگوں میں ایک امتیازی مقام رکھتے تھے۔
شورش کے اکثر بیانات ان کے اپنی ذاتی معلومات پر مبنی ہیں۔ تذکرہ میں تقریباً 75 ایسے شعرا ہیں جن کے بارے میں شورش ذاتی معلومات رکھتے تھے اور ان میں سے تقریباً 35 سے مل چکے تھے۔ حزیں، حسرت، حیرت، حریف، حیراں، ذاکر، دردمند، رضا، رند، فغاں، محترم، مصیب، مست، اظہر، امین، آگاہ، بیدار، بسمل، تمنا اور جوشش وغیرہ کا تعارف ملاقاتوں پر مبنی ہے۔تذکرۂ شورش میں 263شعرا کا تذکرہ شامل ہے۔ اس کا مقدمہ کافی اہم ہے۔ شورش نے تمام شعرا کا ذکر کرنے کی پوری کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ شاعری کے مالہ و ماعلیہ کا بھی ذکر کیا ہے۔ اقسام ریختہ پر روشنی ڈالی ہے۔ یوں تو میر نے ریختہ کی چھ اقسام بتائی ہیں مگر شورش نے اس کی تعداد دس تک پہنچادی ہے۔ شورش پہلے تذکرہ نگار ہیں جنھوں نے قواعد کے نقطۂ نظر سے ریختہ کو موضوع قلم بنایا ہے۔
یوں تو تذکرۂ شورش کاایک نسخہ آکسفورڈ میں محفوظ ہے مگربقول محمود الٰہی اس میں کسی نے کافی حد تک تصر ف کردی ہے۔نسخۂ آکسفورڈ اور نسخۂ جونپور میں کافی فرق نظر آتا ہے۔ شعرا کے سلسلے میں بیانات اور انتخابات اشعار کے اعتبار سے دونوں میں قابل لحاظ فرق اور اختلاف موجود ہے۔ شورش نے اکثر مقامات پر اپنے ماخذ اور ذرائع معلومات کی صراحت کردی ہے جن سے اس تذکرے کا زمانۂ تحریر متعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔ لیکن آکسفورڈ والے نسخے سے ایسے بیانات غائب ہیں۔پروفیسر محمود الٰہی نے اپنے مقدمہ کے ساتھ ساتھ ’بازیافت‘ میں بھی اس پر بحث کی ہے۔
خطوط کی طرف نظر ڈالیں تو مہدی افادی کے خطوط کا مجموعہ’صحیفۂ محبت‘ کو محمود الٰہی نے ترتیب دے کر 1964 میں ادارۂ فروغ اردو، لکھنؤ سے شائع کیا۔ یہ ان خطوط کا مجموعہ ہے جنہیں مہدی افادی نے اپنی بیگم عزیز النسا (مہدی بیگم) کے نام لکھاتھا۔ ان میں ادبیت اس قدر ہے کہ یہ ایک عظیم ادبی سرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ گورکھپور کی اہم ادبی شخصیتوں میں مہدی افادی کی ایک قابل قدر حیثیت ہے۔ مہدی افادی نے یوں تو کوئی خاص کتابیں نہیں لکھیں مگر ’افادات مہدی‘ اور ’صحیفۂ محبت‘ ان کے عظیم کارنامے ہیں۔
مکتوب نگاری میں مہدی افادی شبلیؔ کے رنگ کے مداح اورانہیں کے پیرو کارتھے۔ وہ اپنے خطوط میں مکتوب الیہ کی ذات کو زیادہ توجہ کا مرکز بناتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ توجہ حسنِ بیان اور ادیبانہ شان پر دیتے ہیں۔ ان کے کم و بیش ہر خط میں ادبیت کی چاشنی موجود رہتی ہے۔ اور وہ اپنے مخصوص اسلوب بیان کی وجہ سے ہمیشہ قارئین کی دل چسپی کا مرکز بنے رہیں گے۔ وہ حسن پرست تھے اور ان کا ادبی ذوق رچا ہوا تھا۔
پروفیسر محمود الٰہی کو خطو ط شائع کرنے کی اجازت تو مہدی بیگم نے 1959 میں ہی دے دی تھی۔ مگر وہ خطوط1963ء میں شائع ہوسکے۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ محمود الٰہی کو یہ سوال ہمیشہ پریشان کرتا رہا کہ آخر ایسے خطوط کا شائع کرنا مناسب ہوگا یا نہیں جیسا کہ انہوں نے خود صحیفہ محبت کے مقدمے میں اس بات کی وضاحت کی ہے۔ آخر کار جب پروفیسر آل احمد سرور اور پروفیسر احتشام حسین نے شائع کرنے پر اطمینان کا اظہار کیا تو وہ خطوط شائع ہوسکے۔ ان خطوط میں کئی جگہ بے ربطی معلوم ہوتی ہے جس کا سبب یہ ہے کہ مہدی بیگم نے خطوط سے وہ جملے حذف کردیے ہیں جن کی اشاعت مناسب نہیں تھی۔ (مفہوم از مقدمہ صحیفہ محبت، مرتبہ محمود الٰہی)
پروفیسر محمود الٰہی نے مہدی افادی کے خطوط کو شائع کرکے اہم کارنامہ انجام دیا۔ مہدی افادی کے خطوط سے ان کی ادبی حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ بالکل نجی خطوط ہیں جس میں انسان ادبیت کا لحاظ کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ پھر بھی ان خطوط سے ان کی ادبیت ظاہر ہوتی ہے۔محمود الٰہی نے اس کام سے اردو ادب میں عظیم خدمت انجام دی ہے کہ اگر وہ ان خطوط کو شائع نہ کرتے تو شاید ایک اہم شخصیت کے ادبی کارنامے منظر عام پر نہ آپاتے جبکہ مہدی افادی کے خطوط اردو ادب کا اہم حصہ ہیں۔ ان کے خطوط سے جہاں ان کی ادبیت کا اندازہ ہوتا ہے وہیں اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مغربیت سے کس قدر متاثر تھے۔ انگریزی طرز زندگی انہیں بہت پسند تھی اوروہ اسے اپنانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔
الہلال اور البلاغ کی اشاعت کو اردو صحافت کا عہد زریں تصور کیاجاتا ہے۔ یہ دونوں اخبارات مختلف لائبریریوں اور شخصی کتب خانوں میں بکھرے پڑے تھے۔ پروفیسر محمود الٰہی کا یہ ایک عظیم کارنامہ ہے کہ انہوں نے کافی محنت و مشقت کرکے ان دونوں اخبارات کی فائلوں کو جمع کیا اور انہیں کتابی شکل میں شائع کرکے ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیا۔انہوں نے الہلال اور البلاغ کے مکمل شماروں کا عکس تیار کرکے تین جلدوں میں 1988میں اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ سے شائع کیا۔ اس کے لیے انہیں تمام اخبارات کو جمع کرنے اور پھر ان کا عکس لینے تک کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مگرکام سے ان کی دلچسپی اور لگاتار محنت نے اس کوپائیہ تکمیل تک پہونچایا۔
پروفیسر محمود الٰہی لکھتے ہیں کہ جب میں نے الہلال پر کام کرنا شروع کیا تو ذاتی کتب خانہ سے الہلال کی اکثر فائلیں مل گئیں۔ لیکن ان میں سے بعض کی حالت بہت خراب تھی جن کا پڑھنا مشکل تھا۔ کسی کے بیچ کے صفحات غیر حاضر، بعض فائلیں ناقص الاول، بعض ناقص الآخر اور بعض ناقص الطرفین نکلیں۔ اس میں بھی کہیں کہیں دیمک چاٹ گئے تھے۔ (دیکھیں:مقدمہ، الہلال (الہلال اور البلاغ کا عکسی مجموعہ) پروفیسر محمود الٰہی، اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ1988)
الہلال میں جو خوبیاں اور تنوع تھا وہ مولانا کی بہت کوششوں سے پیدا ہوئی تھیں۔ مولانا الہلال کو انگریزی کے کسی معیاری جرنل کے پس منظر میں دیکھ رہے تھے۔ وہ مواد کے لحاظ سے بھی الہلال کو اعلیٰ بنانا چاہتے تھے اور مواد کی ترتیب، اس کی طباعت اور اس کے گیٹ اَپ کے لحاظ سے بھی۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر، دعوت الہلال، دار الارشاد، حزب اﷲ اور اس طرح کے بہت سے دینی موضوعات تھے جنہیں وہ فرقہ واریت کے سائے سے بھی دور رکھنا چاہتے تھے۔ اتنے اہم اخبار یا جرنل کا کام مولانا تنہا نہیں کرسکتے تھے، اس لیے ایک ادارۂ تحریر کا قیام لازمی تھا۔ آخر کار ادارۂ تحریر کا قیام عمل میں آیا۔ادارۂ تحریر میں جو لوگ وقتاً فوقتاً شریک رہے ان میں مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبد السلام ندوی، مولانا عبد اﷲ عمادی تھے جن کا زمانہ طویل رہا۔ الہلال کے دور اول میں مولانا کی رفاقت کر رہے خواجہ عبد الواحد ندوی بھی الہلال کے قلمی معاونین میں رہے۔ الہلال کے آخری دور میں عبد الرزاق ملیح آبادی ادارۂ تحریر کے سب سے فعال رکن تھے۔
محمود الٰہی مولانا آزاد کے نظریات کو ظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دینی خدمات ، یورپی استبداد سے نجات کے لیے جد و جہد، کانگریس کی ہم نوائی اور اس ہم نوائی کے ساتھ برادران وطن کے ساتھ اخوت و تعاون کا سلوک، مسلم لیگ کے نظریات و طریقۂ کار کی مخالفت اور مسلمانوں کی ’چہل سالہ قومی پالیسی‘ کے خلاف شدید احتجاج، یہ تھے مولانا کی زندگی کے مبادیات واولیات جن کا عکس الہلال کے کالموں میں ملتا ہے۔محمود الٰہی نے الہلال اور البلاغ کو یکجا کرکے ایسا اہم کام انجام دیا جس سے آنے والی نسلیں فائدہ اٹھاتی رہیں گی۔ ان کی کوشش اور بے انتہا محنت و لگن ہی کا نتیجہ تھا کہ اتنا مشکل کام کامیابی سے ہمکنار ہوسکا۔ (حوالۂ سابق)
تحقیق کے علاوہ پروفیسر محمود الٰہی نے تنقیدی خدمات بھی انجام دی۔ ان کی کتاب ’اردو قصیدہ نگاری کا تنقیدی جائزہ‘ قصیدہ نگاری پر ایک ایسی کتاب ہے جس کے بغیر قصیدہ کے تعلق سے اہم معلومات حاصل ہونا مشکل ہے۔اسے قصیدہ نگاری سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی شخص نظر انداز نہیں کرسکتا۔ یہ کتاب 1972ء میں شائع شائع ہوئی۔ در اصل یہ ان کے پی ایچ ڈی کا مقالہ تھا جو انہوں نے 1958ء میں پروفیسر محمد حسن کے زیر نگرانی لکھا۔ محمود الٰہی کا یہ کام اپنی نوعیت کا انفرادی کارنامہ ہے۔ جس میں انہوں نے اردو قصیدہ نگاری کے ساتھ ساتھ عربی و فارسی قصائد سے بھی بحث کی ہے اور اردو قصیدہ نگاری کا عہد بہ عہد جائزہ لیاہے۔اس کتاب میں اردو شاعری کی ابتدا سے لے کر دور جدید تک کی قصیدہ نگاری کے رجحانات کا جائزہ لینے کے ساتھ قصیدہ کے مرتبے کا تعین بھی کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی چند اہم قصیدہ نگاروں کی تخلیقات جو پردۂ خفا میں تھیں انہیں منظر عام پر لایا گیاہے۔
پروفیسر محمود الٰہی اپنے تحقیقی و تنقیدی مقالات یکجا کرکے ’بازیافت‘ کے نام سے 1965 میں دانش محل، لکھنؤ سے شائع کیا۔ حرف آغاز میں ان مضامین کے طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’بازیافت‘ میرے ان مضامین کا انتخاب ہے جو گزشتہ تین سال کی مدت میں لکھے گئے اور فکر و نظر علی گڑھ، نیادور لکھنؤ، اردو ادب علی گڑھ اور دوسرے علمی جرائد میں اشاعت پذیر ہوئے۔ ’اردو ڈرامہ اور انار کلی‘ پہلی بار 1959 میں شائع ہوا تھا۔ اسے اس خیال سے شامل مجموعہ کیا جارہا ہے کہ یہ میری تنقیدی اور تحقیقی زندگی کا نقش اول ہے۔ ’مقدمہ تذکرہ شورش‘ ، ’تذکرہ بہادر سنگھ‘ اور ’احتشام حسین بحیثیت نقاد‘ غیر مطبوعہ ہیں۔‘‘
ان کے اس مجموعے میں دس مضامین شامل ہیں جن میں اردوو میں جدید تحقیق کا آغاز ، اردو ڈرامہ اور انار کلی اور احتشام حسین بحیثیت نقاد اہم مضامین ہیں۔ محمود الٰہی نے سرسید کو اردو میں جدید تحقیق کے آغاز کرنے والوں میں شامل کیا ہے، ساتھ ہی سرسید کے رفقا محسن الملک، چراغ علی اور حالی کو بھی اس میں شامل کیا ہے کہ ان حضرات نے بھی اردو میں جدید تحقیق کا آغاز کیا۔ ’اردو ڈرامہ اور انار کلی‘ میں محمود الٰہی نے امتیاز علی تاج کے ڈرامہ نگاری کا تنقیدی مطالعہ پیش کیا ہے۔ پلاٹ میں حسن ترتیب، فنی کرداری نگاری، ماحول کی عکاسی، حسب حال مکالمے، شروع سے آخر تک دلچسپی کا وجود اور اثر انگیزی ڈراما انار کلی کی امتیازی خصوصیات ہیں۔انار کلی اکبری دربار کا المیہ ہے۔ یہ محبت کی ایسی داستان ہے جس کی فتح و شکست کے لیے محل کی ایک کنیز سے لے کر اکبر اعظم تک کی کوششیں برابر کی شریک رہیں۔ تاج نے انار کلی کے پردے میں عورت کا گہرا مطالعہ پیش کیا ہے۔ عورت کسی بھی سطح کی ہو جب وہ محبت کرتی ہے تو شاہی محلوں کو بھی ہلا کر رکھ دیتی ہے ۔ اس ڈرامے کو المیہ تک پہنچانے میں دل آرام کا سب سے زیادہ ہاتھ ہے۔ وہ ایک حاسد، ہوس پرست، خوشامدکرنے والی اور بلا کی ذہین ہے۔ دل آرام کا کردار پورے ڈرامے پر چھایا ہوا ہے۔ محمود الٰہی لکھتے ہیں ’’ امانت سے آغا حشر تک ڈراما ایک بھی ایسا کردار نہ پیش کرسکا جس میں ہمیشہ رہنے والی قدریں ہوں۔ تاج نے ایک ایسے کردار کی تخلیق کی ہے جس پر کبھی زوال نہ آئے گا۔انار کلی جذبات نگاری کا بہترین مرقع ہے ۔ اس کے مکالمے فطری تقاضوں کے مطابق ہیں اور ان کی ہر گفتگو جذبات کی ترجمان ہے۔ تاج کے مکالموں نے کرداروں میں جاذبیت، دل کشی اور زندگی پیدا کردی ہے۔‘‘ (اردو ڈرامہ اور انار کلی‘ مشمولہ بازیافت، پروفیسر محمود الٰہی، دانش محل، لکھنؤ ، 1965)
یہ تور ہیں ان کی ادبی خدمات مگر ان کی دیگر خدمات پر نظر ڈالیں تو انہوں نے کئی اہم کارنامے انجام دیے ہیں۔ ان کا ایک اہم کام گورکھپور یونی ورسٹی میں شعبۂ اردو کو ابتدائی دور سے ترویج وترقی دینا ہے۔جہاں انہوں نے اردو میں بی اے، ایم۔ اے اور پی ایچ ڈی کے کورس شروع کیے اور ایسے باصلاحیت افراد کی تربیت کی کہ آج ان میں سے کئی ہندوستان کی اہم یونی ورسٹیوں میں اردو کے اہم عہدوں پر فائز ہوکر ارد کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر عبد الحق،پروفیسر فضل الحق، پروفیسر قاضی افضال، پروفیسر شاہد حسین، پروفیسر قاضی جمال، پروفیسر ملک زادہ منظوراحمد،پروفیسر فضل امام، پروفیسر فیروزعالم، پروفیسر اصغر عباس وغیرہ جیسے افراد انہیں کے شاگرد ہیں جن میں ہر ایک شخص اپنی جگہ ایک ادارہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ پروفیسر محمود الٰہی کی عزت اور محبوبیت اس عہد کے انتہائی ذی علم اور بزرگ اساتذہ کے حلقے میں بہت زیادہ تھی۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی، پروفیسر آل احمد سرور، پروفیسر مسعود حسین خان اور پروفیسر احتشام حسین وغیرہ سبھی شفیق و رفیق تھے اوران کا ہر جگہ پیار و محبت کے ساتھ استقبال کیا جاتا ۔ پروفیسر محمد حسن ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’کچھ عجب نہیں کہ اردو تحقیق میں جلد ہی’محمود الٰہی دبستان‘ کا اضافہ ہوجائے۔‘‘ (’ہے تصرف میں یہی مسند ارشاد‘ از پروفیسرمحمد حسن ماخذ: محمد حسن افکار و اسالیب، ص 266، مرتبہ، پروفیسر عبد الحق، اردو اکادمی، دہلی سن اشاعت، 2011)
اردو دنیا میں اترپردیش اردو اکادمی نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ سبھی پر عیاں ہے۔ وہاں کی نصابی کتابیں اردو حلقے میں نہایت ہی مقبول ہیں۔ مگر ان کتابوں کو منظر عام پر لانے اور اترپردیش اردو اکادمی کو ترقی دینے والی شخصیت کی بات کریں تو وہ محمود الٰہی کی شخصیت ہی ہے جو اترپردیش اردو اکادمی کے چیئرمین کی حیثیت سے چھ سال تک اردو کی ترویج و ترقی کرتے رہے ۔اپنے دور میں اردو کے نصابی اور کلاسیکی کتابوں پرکافی اہم کام انجام دیا۔نہایت سستی اور اچھی کتابوں کو منظر عام پر لائے۔ افسانہ، نظم اور غزل کے انتخابات شائع کیے۔ سیکڑوں کتابوں کے جامع مقدمے تحریر کیے۔ یونیورسٹی کے نصاب کے مطابق کتابوں کو ترتیب دے کر شائع کیا۔ یوپی اردو اکادمی میں جتنا ان کے دور میں کام ہوا اتنا کام شاید ہی کسی کے دور میں ہوسکا۔یوپی اردو اکادمی سے شائع ہونے والے دو رسالے ’اکادمی‘لکھنؤ اور ’خبرنامہ‘ لکھنؤ کے مدیر بھی رہے۔جس میں ان کے اداریے کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ محمود الٰہی نے اترپردیش اردو اکادمی کے چیئرمین کی حیثیت سے جو خدمات دیں ان کا اعتراف کرتے ہوئے پروفیسر محمد حسن لکھتے ہیں :
’’سب سے بڑی بات یہ ہوئی کہ اردو کی کلاسیکی کتابوں کا بڑا ذخیرہ چھپ گیا اور سستے داموں دستیاب ہونے لگا۔ اور یہ کام ایسا ہے جس کا فیض کئی نسلوں تک پہنچے گا۔‘‘ (ایضاً)
پروفیسر محمود الٰہی کی انہیں اردو خدمات کے اعتراف میں غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی نے انہیں 1998میں ’غالب انعام‘ برائے اردو نثرسے نوازا۔
2ستمبر 1930 کا وہ د ن تھا جس دن محلہ چھجاپور، قصبہ ٹانڈہ، ضلع فیض آباد، اترپردیش میں مولانا علیم اﷲ کے گھر یہ چراغ روشن ہوا۔ اپنی تعلیمی زندگی کا آغاز وہیں کے ایک مدرسہ کنزالعلوم سے کی جہاں ان کے والد صدر المدرسین تھے۔ اسی مدرسے سے انہوں نے مولوی، عالم اور فاضل کی اسناد حاصل کیں۔ صرف مدرسے کی تعلیم ہی پر اپنا تعلیمی سفر نہیں روکا بلکہ دنیاوی تعلیم کی طرف بھی توجہ دی اور ہائی اسکول و انٹرمیڈیٹ کیا۔ پھر اعلیٰ تعلیم کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے آگرہ یونیورسٹی سے بی اے اورایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ تعلیمی تشنگی یہیں نہیں بجھی بلکہ تحقیق کی طرف رخ کرتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1958میں پروفیسر محمد حسن کے زیر نگرانی ’اردو قصیدہ نگاری کا تنقیدی جائزہ‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی ایوارڈ ہوئے۔
اپنی ملازمت کی ابتدا اسلامیہ انٹر کالج ہمیرپور میں عربی و فارسی کے استاد کی حیثیت سے کی اور گورنمنٹ رضا ڈگری کالج، رامپور میں اردو لیکچرر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔مگر یہ شخص کوئی بڑا کام کرنا چاہتا تھا اردو کی ایک نئی بستی بسانا چاہتا تھا اور اس کا وہ خواب اس وقت پورا ہوگیا جب گورکھپور یونی ورسٹی میں سب سے پہلے نومبر 1958ء میں بحیثیت لیکچرار تقرر ہوا۔ جہاں چھ سال لیکچرر، آٹھ سال ریڈر اور پروفیسر کی حیثیت سے اٹھارہ سال تک خدمات انجام دیں۔ اس طرح تقریباً بتیس سال تک شعبہ أردو کے سربراہ کی حیثیت سے بحسن خوبی خدمات انجام دیتے رہے۔گورکھپور یونیورسٹی مشرقی یوپی کی ایک عظیم یونیورسٹی ہے۔محمود الٰہی نے گورکھپور یونیورسٹی کے تحت آنے والے کئی کالجوں میں اردو کو بحیثیت مضمون شامل کیا اور آج بھی یونیورسٹی کے زیر اہتمام چلنے والے کئی کالجوں میں اردو کو ایک زبان کی حیثیت حاصل ہے۔وہ تین سال تک ڈین بھی رہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ کچھ مدت کے لیے انہوں نے کار گزار وائس چانسلر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی۔ کئی بار انہیں باقاعدہ وائس چانسلر کا عہدہ قبول کرنے کی پیش کش کی گئی مگر انہوں نے اسے قبول نہ کرکے شعبۂ اردو کی ترقی کو ہی ترجیح دی۔ شعبۂ اردو سے سبکدوشی کے بعد بھی وہ ادبی خدمات انجام دیتے رہے۔انہوں نے تین سال تک یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے ریسرچ پروجیکٹ پر بھی کام کیا۔اورآخر کار اردو کی بیش بہا خدمات انجام دیکر ایک طویل علالت کے بعد 19مارچ 2014 بروز بدھ اس اردو دنیا کوتشنہ چھوڑ گئے۔
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے
حواشی:
۱۔ صبح آزادی 29؍ جمادی الاول 1364ھ اور ’عزم‘ 28 رجب 1364ھ، جنون محبت 23جمادی الثانی 1364 میں شائع ہوئی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زیادہ تر نظمیں 1364ھ کے آس پاس میں شائع ہوئی ہیں
٭٭٭
“Prof. Mahmood Ilahi: Bahasiyat Mohaqqiq-o- Naqqad” by Mr. Mohd Shamsuddin, “Urdu Research Journal” ISSN 2348-3687, Vol. I, Issue II, page No. 20-30.

Leave a Reply

1 Comment on "پروفیسر محمود الٰہی: بحیثیت محقق و نقاد"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] پروفیسر محمود الٰہی: بحیثیت محقق و نقاد← […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.