اردو زبان کے ارتقا میں سرکاری اداروں کا کردار:ایک جائزہ

        برٹش حکومت کے شروعاتی دورمیں سرکاری زبان کا درجہ فارسی زبان کو حاصل تھا۔کیوں کہ انگریزوں نے ہندوستانی سلطنت مغلیہ حکومت سے چھینی تھی اور مغلوں کی زبان چونکہ فارسی تھی اس لیے حکومتی کام کاج کی زبان بھی فارسی ہی ٹھہری۔انگریزوں کے ہندوستان پر قابض ہونے کے بعد انگریزی حکومت نے فارسی کا برچسپ ختم کرنے کے لیے علاقائی زبان کو فروغ دینے کی کوشش کی۔یعنی اسی وقت عوام میں جو زبان  بولی اور سمجھی جا رہی تھی اس کو فروغ دینے کی خاطر۱۸۰۰عیسوی میں فورٹ ولیم کالج کی بنیادر کھی اور ۱۸۲۵میں دلی کالج قائم کیا۔ان دونوں کالجوں کے قیام کا مقصد الگ الگ تھالیکن ان دونوں کالجوں کے قیام سے اردو زبان کے فروغ میں بہت مدد ملی۔فورٹ ولیم کالج کو قائم کرنے کا مقصد انگریزی افسران کو عوامی بول چال کی زبان سے روشناس کرانا تھا۔تاکہہ وہ محکوم کی زبان سیکھ کر ان کے مسائل کو سمجھ سکیں اور زیادہ دنوں تک حکومت کر سکیں۔پھر انگریزوں کا مقصد چاہے جو بھی ہو،ا س سے اردو زبان کو پھلنے اور پھولنے کا بہترین موقع ملا۔مختلف علماء جو عوامی زبان یعنی اردو زبان کے ماہر تھے انہیں اکٹھا کرکے ان سے دوسری زبانوں کی کتابوں کا ترجمہ کرایا گیا جو قصہ وکہانی پر مبنی تھا اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ زبان بالکل سادہ اور سلیس ہو۔مرصع،مسجع اور مقفیٰ عبارتوں سے پرہیز کریں کیوں کہ اس دور کی ادبی زبان مقفیٰ مرصع اور مسجّع ہوا کرتی تھی۔اس سے زبان میں سلاست اور روانی پیدا ہوئی اور بہترین قصہ اور کہانیاں وجود میںآئیں جو آج بھی یادگار زمانہ ہے۔مثلا باغ وبہار(میرامن)وغیرہ ، دلی کالج کے قیام کا مقصد ہندوستانی طلبہ کو انگریزی خیالات سے روبرو کرانا تھا اور ذریعہ تعلیم اردو زبان کو رکھا گیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ انگریزی اور دوسری زبانوں کی اعلیٰ کتابوں کو اردو زبان میں ترجمہ کرایا گیا اور اسے نصاب تعلیم میں داخل کیا گیا۔تاکہ طلبہ بآسانی اعلیٰ خیالات سے واقف ہو سکیں۔اسی طرح اردو زبان ترقی کے منازل طے کرتی رہی کہ یکایک ۱۸۵۷کی بغاوت کا اثر اردو زبان پر بھی پڑا اور اس کی ترقی کی رفتار دھیمی پڑنے لگی۔یہاں تک کہ آزادی کے کئی دہائی تک اردو زبان کو انہیں مسائل سے نبردآزما ہونا پڑا بالآخر ستر کی دہائی میں کئی سرکاری ادارے کھلے جنہوں نے اس زبان کے فروغ میں اپنے نمایاں کردار ادا کیے ہیں جن کا مقصد اردو زبان وادب کا فروغ اور ارتقا ہے۔یہاں پر اردو اکیڈمیوں کا ذکر لازمی وضروری ہے۔مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے مل کر ملک کے الگ الگ صوبوں میں اردو اکادمی کا قیام کیا ہے۔مثلا آندھرا پردیش اردو اکادمی،بہار اردو اکادمی ،دہلی اردو اکادمی،گجرات اردو اکادمی،ہریانہ اردو اکادمی،ہماچل پردیش اردو اکادمی،جموں وکشمیر اردو اکادمی،کرناٹک اردو اکادمی،مدھیہ پردیش اردو اکادمی،مہاراشٹر اردو اکادمی،اڑیسہ اردو اکادمی،پنجاب اردو اکادمی،راجستھان اردو اکادمی وغیرہ۔

(۱)   سوسائٹی کی ساری آمدنی سوسائٹی کے اغراض ومقاصدکے حصول ہی کے لیے خرچ کرنا۔(www.urduacedmydelhi.org)

        مذکورہ بالا مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے اردو اکادمی دہلی اردو زبان و ادب کی خدمات بخوبی انجام دے رہی ہے۔ان مقاصد سے الگ ہٹ کر بھی یہ اکادمی اردو زبان کے جاننے والے طلبہ وطالبات کے لیے مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری  اور اس کے لیے کوچنگ کا بھی اہتمام کرتی ہے۔تاکہ اردو داں طلبہ وطالبات مقابلہ جاتی امتحانوں میں کامیاب ہو سکیں۔اس کے علاوہ دلی کے مختلف علاقوں میں اردو تدریس کے مراکز بھی کھولے ہیں تاکہ صوبۂ دہلی کے عوام جو اردو زبان کے سیکھنے کے خواہش مند ہیں وہ اسے بہ آسانی سیکھ سکیں۔آج کے دور میں یہ اکادمی بقیہ اردو اکادمی کے لیے رہنمائی کا کام کر رہی ہے۔

}      قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان:اس ادارہ کا قیام وزارت ترقی انسانی وسائل کے محکمۂ اعلیٰ تعلیم کے ماتحت عمل میں آیا۔اردو زبان وادب کی ترقی کی خاطر ایک اپریل1996سے یہ ادارہ کام کرنا شروع کر دیا۔یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس نے پورے ملک میں اردو زبان وادب کی ترقی کے لیے تدریسی مراکز کھولا ہے۔جہاں اردو داں اور غیر اردو داں طبقہ بآسانی سرٹیفیکیٹ یا ڈپلومہ کی ڈگری کا کورس کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ کمپوٹر کی تعلیم اردو زبان میں دی جاتی ہے اور اس کے سینٹر بھی ملک کے مختلف حصوں میں کھولے گئے ہیں۔اس کے علاوہ اردو ڈیجیٹل لائبریری،اردو آن لائن کورس اوراردو آن لائن آڈیو لائبریری کا اہتمام کیا گیا۔تاکہ لوگ چلتے پھرتے اس سے استفادہ کر سکیں۔یہ ادارہ ملکی اور غیر ملکی سطح پر اردو زبان وادب کے فروغ میں عمل پیرا ہے۔اس کائونسل کے مندرجہ ذیل مقاصد ہیں:

÷’’اردو زبان کو فروغ دینا اور اس کی ترویج وتوسیع کے لیے فضا ہموار کرنا۔

÷ایسے اقدام کرنا جن سے اردو زبان میں سائنسی اور ٹیکنالوجیکل ترقیات کے علوم کی توسیع ہو اور ایسے اعمال وافکار کو بڑھاوا ملے جو اردو زبان کو جدید علوم سے ہم آہنگ کر سکیں۔

÷حکومت ہند کو اردو زبان و تعلیم سے متعلق معاملات کے بارے میں صلاح ومشورہ دینا۔

÷اردو زبان کے فروغ کے لیے مزید ایسے اقدام کرنا جتنی کائونسل موزوں خیال کرے۔‘‘

مندرجہ بالا مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے(ncpul.website)اس کائونسل نے اردو کی ترقیات میں اہم اقدام اٹھائے۔مثلا تقریبا قیام سے لے کر اب تک اس ادارہ نے گیارہ سو اردو کتابوں کی طباعت واشاعت کی ہے۔اور ان کتابوں کو ملکی وغیر ملکی سطح پر فروخت کا اہتمام بھی کیا ہے۔ظاہر ہے کہ اس سے زبان کے فروغ میں بہت مدد ملے گی۔اس کے علاوہ مختلف موضوعات کے تحت آن لائن لائبریری کھولی گئی تاکہ لوگ اپنی دلچسپی کے مطابق اس لائبریری سے فائدہ حاصل کر سکیں اور ملک کے دور دراز علاقوں تک اردو زبان کی تدریس کے مراکز کھولے ہیں تاکہ خواہش مند حضرات اردو زبان کو بہ آسانی سکیھ سکیں۔ظاہر ہے کہ اس ادارے کی اہمیت وافادیت سے انکار ناممکن ہے۔

        اردو اکادمی ،تامل ناڈو اردو اکادمی،اتر پردیش اردو اکادمی،ویسٹ بنگا ل اردو اکادمی،تلنگانہ اردو اکادمی اور چھتیس گڑھ اردو اکادمی ،اس کے علاوہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (N.C.P.U.L)جس کا قیام وزارت ترقی انسانی وسائل،محکمۂ اعلیٰ تعلیم کے ماتحت مرکزی حکومت کی ایماء پر اس ادارہ کا قیام عمل میں آیا ہے۔اس کے علاوہ بھی بہت سے ادارے ہیں جو اردو زبان وادب کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔مثلا انجمن ترقی اردو(ہند)،غالب اکادمی ،غالب انسٹی ٹیوٹ وغیرہ۔

        لیکن یہاں صرف چند اداروں کا تذکرہ کیا جائے گاجو سب سے زیادہ فعال اور متحرک ہیں اور شب وروز اردو زبان وادب کے فروغ میں سرگرم عمل ہیں۔ان میں سرِ فہرست اردو اکادمی دہلی،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور انجمن ترقی اردو (ہند)ہیں۔باقی ادارے بھی وقت اور ضرورت کے مطابق اردو زبان کی خدمات انجام دے رے ہیں مگر کچھ وجوہات کی بنا پر خواہ پیسے کی قلت یا حکومت کی عدم توجہی یا کسی اور وجہ سے اتنے متحرک نہیں ہے جتنا کہ مذکورہ بالا چند اداروں کا ذکر کیا۔یہاں سب سے پہلے اردواکادمی دہلی کا ذکر کیا جائے گا۔

}      اردو اکادمی دہلی:

        حکومت دہلی نے اس مقصد کو سامنے رکھ کر اردو اکادمی دہلی کو قائم کیا کہ وہ صوبہ میں اردو زبان کی ترقی اور تدریس پر بخوبی توجہ دے سکے۔یہاں کی تہذیب وتمدن اور اردو زبان کی تعلیمی ترقی میں یہ ادارہ اپنا کردار بخوبی نبھا رہاہے۔

        مئی 1981میں اس ادارہ یعنی اردو اکادمی دہلی کا قیام عمل میں آیا اور مندرجہ ذیل اغراض ومقاصد کے ساتھ یہ ادارہ اردو زبان وادب کے فروغ میں شب وروش کوشاں ہے۔رجسٹرڈ سوسائٹی کے طور پراردو اکادمی ،دہلی کے اغراض ومقاصد مندرجہ ذیل ہیں:

(۱)دہلی کی لسانی تہذیب کے مشترکہ حصے کے طور پر اردو زبان اور ادب کا تحفظ اور ارتقا۔

(۲)ادبی اور معیاری تصنیفات اور اردو میں بچوں کی کتابوں کی اشاعت اور حوصلہ افزائی۔

(۳)اردو میں ادبی اور سائنسی اور دوسرے موضوعات سے متعلق ایسی اہم کتابوں کے ترجمے کا اہتمام کرنا جن کا ابھی تک اردو زبان میں ترجمہ نہ ہوا ہو۔

(۴)اردو میں کتابوں کی تالیف واشاعت۔

(۵)قدیم اردو ادب کی صحیح ترتیب وتدوین کے بعد اشاعت۔

(۶)اردو کے غیر مطبوعہ معیاری ادب پاروں کی اشاعت۔

(۷)اردو کے مستحق مصنفین کی غیر مطبوعہ تصنیفات کی اشاعت کے لیے مالی اعانت کرنا۔

(۸)گزشتہ ایک سال کے دوران مطبوعہ اردو تصنیفات کے مصنفوں کو انعامات دینا۔

(۹)اردو کے عمر رسیدہ اور مستحق مصنفین کی ماہانہ مالی اعانت۔

(۱۰)اردو کے اسکالروں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک مقررہ مدت کے لیے مالی اعانت۔

(۱۱)مشہور اسکالروں اور دوسری اہم شخصیتوں کو جلسوں کو خطاب کرنے کے لیے دعوت دینا۔

(۱۲)ادبی موضوعات پر سمینار،سمپوزیم،کانفرنس اور نشستیں منعقد کرنا جن میں عالمی ادبی رجحانات کے پس منظر میں اردو کے مسائل پر بحث ومباحثہ،اسی کے ساتھ اردو کی تدریس اور اس کے استعمال کے متعلق سرکاری احکامات کی تعمیل وتکمیل دینا جو کہ اسی طرح کی نشستیں منعقد کرتی ہے۔

(۱۳)اردو میں اعلیٰ معیار کے رسالے،جریدے اور اسی طرح کی دوسری مطبوعات کی اشاعت۔

(۱۴)اکادمی کے ضابطوں کے تحت مطبوعات کی فروخت کا اہتمام۔

(۱۵)اکادمی کے لیے منقولہ اور غیر منقولہ جائداد حاصل کرنا لیکن شرط یہ ہے کہ غیر منقولہ جائداد کے حصول سے سرکار کی پیشگی منظوری ضروری ہوگی۔

(۱۶)اردو کی تعلیم،اس کے استعمال اور سرکاری احکامات کی تکمیل میں حائل دشواریوں اور اردو بولنے والوں کے مطالبوں کو دہلی سرکار کے علم میں لانا۔

(۱۷)ایسے سبھی جائز اقدامات کرنا اور قانونی کارروائیاں کرنا جس سے مذکورہ مقاصد کے فروغ وتعمیل میں مدد مل سکتی ہے۔

        انجمن ترقی اردو (ہند)

        اس ادارہ کا قیام سرسید احمد خاں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔آل انڈیا مسلم ایجوکیشن کانفرنس کا انعقاد سر سید احمد خاں نے محسن الملک کے ساتھ مل کر 1886میں کیا تھا۔جس کا مقصد تھا کہ مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرایاجائے اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طرز پر کالجز اور اسکول کھولے جائیں۔اس کانفرنس کو تین حصوں پر تقسیم کیا گیا تھا۔پہلا عورتوں کی تعلیم،دوسرامردم شماری اور تیسرا اسکول، دوبارہ اس کانفرنس کاانعقاد1903میں ہوا اور اس میں تین اور شقوں کا اضافہ کیا گیا۔پہلا سماجی اصلاحات،دوسرا شعبہ ترقی اردو،اور تیسرا بقیہ بچی ہوئی چیزیں ،یہی شعبہ آگے چل کر انجمن ترقی میں تبدیل ہو گیا۔اس انجمن کو قائم کرنے والے سر سید احمد خان تھے اور ان کا ساتھ دینے والوں میں محسن الملک،شبلی نعمانی،مولانا ابو الکلام آزاد اور مولوی عبد الحق وغیرہ تھے۔اس ادارہ نے اردو زبان وادب کے فروغ میں نمایاں اور اہم کردار ادا کیا ہے جنہیں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔اس ادارہ کی اہم اشاعت سہ ماہی’’اردو ادب‘‘اور ہفتہ واری’’ہماری زبان‘‘ہیں۔

        ڈاکٹر اطہر فاروقی رقمطراز ہیں:

’’1886میںسر سید احمد خان’’ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس‘‘نے جو تنظیم قائم کی تھی اس کے نتیجے میں آگے چل کر1903میں انجمن ترقی اردو کا قیام عمل میں آیا۔سر سید کے دور رس مقاصد کے مطابق انجمن کے قیام کا مقصد خصوصا مسلمانوں کو نئے نظام سے ہم آہنگ کرنا تھا۔یہ وہ دور تھا جب ہندی کے نام ہندو نیشنلزم کی سیاست زور پکڑ چکی تھی اور اردو ہندی تنازعے کے نتیجے میں اردو مسلمانوں اور ہندی ہندئوں کی زبان کے طور پر جانی جانے لگی تھی۔اردو ہندی تنازع میں سر سید اور ان کے رفقاء پہلے ہی سے اردو کے ساتھ تھے۔محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا قیام مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے سر سید کا مشن تھا۔‘‘الی آخرہ۔(مضمون انجمن ترقی اردو(ہند)نئے امکانات کی پیہم وجستجو،ڈاکٹر اطہر فاروقی،کتاب،اکیسویں صدی میں اردو فروغ اور امکان،مرتبہ خواجہ محمد اکرام الدین سنہ اشاعت2014،پبلشر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،دہلی،ص:163)

انجمن ترقی اردو (ہند)کی مختلف شاخائیں ملک کے مختلف حصوں میں اردو زبان وادب کے فروغ میں عمل پیرا ہیں۔اس ادارہ کا دائرہ کار بہت وسیع وعریض ہے۔ملکی سطح پر یہ ادارہ اردو زبان وادب کی ترقی کے لیے کام کرتی ہے۔ملکی سطح پر اسکولوں میںا ردو زبان کی تدریس کی بگڑتی صورت حال کو بہتر کرنے کی ذمہ داری بھی اسی ادارہ کے ذمہ ہے۔اور اس اداری کے قیام کا مقصد اردو زبان وادب کا تحفظ اور اس کی بقا ہے۔

        مندرجہ بالا تینوں اداروں پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ان اداروں کا کردار کیا ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ادارے اگر فعال اور متحرک نہ ہوتے تو آج اردو زبان وادب کی صورت ہی کچھ اور ہوتی۔ان اداروں کی خدمات لائق تحسین ہیں۔اس کے علاوہ بھی بقیہ صوبوں کے ادارے اپنے حلقہ میں اردو زبان وادب کی ترقی میں سرگرم عمل ہیں۔ان تین اداروں کا دائرہ کار وسیع ہے۔اس لیے ان تینوں اداروں کو مرکز یت حاصل ہے۔بقیہ ادارے ان کی رہنمائی میں اپنے کام بخوبی انجام دے رہے ہیں اور اسی طرح اردو زبان وادب کا فروغ ہوتا رہے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مدنی اشرف

ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.