انسانیت کانوحہ گرافسانہ نگاراقبال متین۔۔۔ احمد علی جوہر

Click Here for PDF File

Click Here for PDF File

آزادی کے بعد جب ہم اردو افسانہ نگاروں کی فہرست پر نظر ڈالتے ہیں تو اقبال متین ہمیں ایک اہم اور ممتاز افسانہ نگار دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے سات افسانوی مجموعے منظر عام پر آکر اہل علم وادب سے داد و تحسین وصول کر چکے ہیں۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’اُجلی پرچھائیاں‘‘ ہے جو ۱۹۶۰ء میں شائع ہوا۔ دوسرا مجموعہ ’’نچا ہوا البم‘‘ کے عنوان سے ۱۹۷۳ء میں سامنے آیا۔ ان کے دیگر افسانوی مجموعوں میں ’’خالی پٹاریوں کا مداری‘‘ (۱۹۷۷ء) ’’آگہی کے ویرانے‘‘ (۱۹۸۰ء) ’’مزبلہ‘‘ (۱۹۸۹ء) ’’میں بھی فسانہ تم بھی کہانی‘‘ (۱۹۹۳ء) اور ’’شہرآشوب‘‘ (۲۰۰۳ء) ہیں۔

اقبال متین کی پہلی کہانی ’’چوڑیاں‘‘ ۱۹۴۵ء میں ’ادب لطیف‘ میں شائع ہوئی اور ان کا آخری افسانوی مجموعہ ’’شہر آشوب‘‘ ۲۰۰۳ء میں منظر عام پر آیا۔ اس طرح دیکھا جائے تو ان کا افسانوی سفر تقریبا چھ دہائیوں پر محیط ہے۔ اس طویل عرصہ میں اقبال متین نے اپنی افسانوی تحریروں سے افسانوی ادب کو مالامال کیا اور بہت سی ایسی خوبصورت اور شاہکار کہانیاں لکھیں جن سے دنیائے افسانہ میں ان کی اپنی منفرد و مستحکم شناخت قائم ہوئی اور وہ ایک اچھے اور باکمال افسانہ نگار تسلیم کیے گئے۔

اقبال متین کی کہانیوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ قاری کو اپنی گرفت میں لیتی ہیں اور زندگی کے مختلف رُخوں کی نقاب کشائی کرتے ہوئے کئی زاویوں سے سوچنے پر آمادہ کرتی ہیں۔ ان کی کہانیاں انسانیت کے دکھ درد میں ڈوبی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ بقول عابد سہیل:

’’ان کے افسانوں میں دکھوں کی پھوار جس طرح برستی ہے ویسے اردو کے کسی دوسرے افسانہ نگار کی تحریروں میں شاید ہی برسی ہو۔ لیکن یہ پھوار ان کو، ان کے کرداروں کو اور ان افسانوں کے قاری کو جینے اور زندگی کرنے کا حوصلہ بخشتی ہے۔ ‘‘ (۱)

     اقبال متین کی ذاتی زندگی انتہائی دُکھ بھری تھی۔ اپنے نجی غم میں انھوں نے دنیا کے غموں اور دکھوں کو شامل کرکے جب کہانیاں لکھنی شروع کیں تو ان کی کہانیوں میں دکھ درد کے مارے تمام انسانوں کو اپنی کہانی نظر آنے لگی۔ ان کی کہانیوں کی یہی وہ خوبی ہے جو انھیں مقبول ومحبوب اور ایک قابل قدر افسانہ نگار کی شکل میں سامنے لاتی ہے۔

اقبال متین کے افسانوں کے مطالعہ سے یہ احساس قوی ہوتا ہے کہ وہ انسانیت اور اخلاقی قدروں کے زوال کے نوحہ گر ہیں۔ دراصل اقبال متین کو انسانیت اور انسانی قدریں بے حد عزیز ہیں مگر بدلتے اور بگڑتے معاشرے میں جب وہ انسانیت کا جنازہ نکلتے دیکھتے ہیں تو وہ درد سے تلملا اُٹھتے ہیں اور کراہنے لگتے ہیں۔ یہی وہ دُکھ درد ہے جسے اقبال متین الفاظ کا جامہ پہنا کر افسانوی شکل عطا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں درد کے اتھاہ سمندر میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہیں۔ دیکھئے درج ذیل اقتباس میں وہ انسانیت کے ملیامیٹ ہونے پر کس طرح ماتم کناں ہیں اور اس نوحہ وغم کو وہ کس طرح لفظوں میں ڈھالتے ہیں:

’’اب تو ہر عید تہوار کو خوشیاں گھر گھر میں چھپ چھپ کر روتی ہیں۔ مسرتیں ہنسنا بھول گئی ہیں۔ فطرت جب اپنا سب کچھ لٹا چکتی ہے تو نہ شعائیں روشنی پھینکتی ہیں نہ کرنیں۔ بس ایسے اندھیرے پھیلتے ہیں۔ ایسے اندھیرے پھیلتے ہیں کہ سورج کالا ٹھیکرا بن کر رہ جاتا ہے۔ اب یہ کالا ٹھیکرا کب طلوع ہوتا ہے، کب غروب ہوتا ہے کسی کو پتہ نہیں۔ اب میرے شہر میں کوئی آدمی کسی آدمی کو نہیں پہچانتا۔ انسانیت جب پہچانی نہیں جاتی تو دلوں کی اجڑتی بستیوں کو کون پہچانتا ہے۔ آنکھوں میں بستے ویرانوں کو کون پہچانتا ہے۔ اب تو نام پوچھ کر خنجر چلائے جاتے ہیں لیکن کٹتے ہیں تو سڑک پر بہتا ہوا لہو کچھ اس طرح ایک ہوجاتا ہے کہ اس خنجر سے لکیر کھینچ کر اس کو جدا نہیں کر سکتے جس خنجر سے وہ بہایا گیا تھا۔ نام پوچھنے پر یہ خون اپنا نام بھی تو نہیں بتلاتا۔ اور میں ایسے میں ہر ارتھی، ہر جنازے کے ساتھ اپنی منی کو دفناتا پھرتا ہوں جلاتا پھرتا ہوں۔‘‘ (۲)

اسی افسانے کے دوسرے اقتباس میں ملاحظہ کیجیے کہ افسانہ نگار نے فنکاری کے ساتھ انسانی درندگی کو کس طرح آشکارا کیاہے:

’’باہر لگے کرفیو میں زندگی اپنی حفاظت کے تصوّر کے باوجود کس درجہ بے آرام ہے۔ ساری آدمیت چوہے کی طرح بلوں میں دبکی بیٹھی ہے۔ چھپے ہوئے خنجروں نے جنہیں کاٹ دیا ہے۔ تھوڑی سی دیر میں وہ تباہی مچی ہے کہ آدمی کی درندگی پر شرم آنے لگی ہے۔ غذا مہنگی ہے خون ارزاں ہے، انسانی خون گلی کوچوں میں ضائع ہوسکتا ہے لیکن گیہوں کے دانے کے لیے بچے بلک رہے ہیں۔‘‘ (۳)

اقبال متین نے اپنی کہانیوں میں طنز کے عنصر سے بہت کام لیا ہے۔ یہ عنصران کی تحریروں کے رگ وپے میں خون کی طرح جاری وساری ہے۔ دیکھئے انھوں نے اپنے ایک افسانے بعنوان ’’چھت‘‘ میں موجودہ تہذیب اور معاشرتی زوال کا نقشہ کھینچتے ہوئے کتنا گہرا طنز کیا ہے:

’’آج آنکھوں کو خیرہ کرنے والی روشنیاں شہروں کو لوٹ رہی ہیں۔ ایک دوسرے سے کٹا پھٹا سڑکوں پر بے تحاشہ بھاگتا ہوا انسان شہروں کو لوٹ رہا ہے۔ دوڑتی ہوئی کاریں اڑتے ہوئے جہاز، بڑے بڑے سنیما گھروں کے پردوں پر اسمگلنگ کا کاروبار، قتل، غارت گری جو سارے معاشرے کا گھناؤنا پہلو ہے وہی آج سب سے دلچسپ پہلو ہے۔‘‘ (۴)

اقبال متین کی کہانیوں میں بے زمینی کا احساس شدید طور پر نمایاں ہے۔ انھوں نے بے زمینی کے کرب کو بڑی گہرائی سے محسوس کیا ہے اور انتہائی فنکاری سے اُسے لفظوں کا پیرہن عطا کیا ہے۔ ان کے یہاں بنیادی انسلاک کے فقدان سے پیدا کرب بے زمینی کے کرب کی نشاندہی کرتا ہے۔ دیکھئے یہ بے زمینی ’’نچاہواالبم‘‘ میں کس طریقے سے سامنے آئی ہے۔ افسانہ کا کردار ’’میں‘‘ بچپن کی سرزمین کی بازیافت کے لیے سفر کرتا ہے اور دوبارہ اس ماحول میں سانس لینے کی کوشش کرتا ہے مگر۔

’’یہ ہمارا مکان ہے۔ میں مکان کے صدر دروازے تک آپہنچا ہوں صدر دروازہ جیسے صرف میرے لئے کھلا رکھا گیا ہے۔ میرا اشتیاق کس قدر بڑھ گیا ہے۔ مگر میں اپنے ہی گھر میں اس طرح داخل ہورہاہوں جیسے کسی دوسرے کے گھراپنی کوئی سب سے زیادہ قیمتی شئے تلاش کر رہا ہوں جو گم ہو گئی ہے۔ درودیوار مجھے حسرت سے تک رہے ہیں یا میں انہیں حسرت سے تک رہا ہوں فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ حسرتیں مشترک ہیں۔ میں احتیاط سے قدم بڑھاتا ہوں، یادوں کے اس جھرمٹ میں کسی کو نظروں سے گدگداتا ہوں۔ کسی سے نظریں چراتا ہوں اور آگے بڑھتا بڑھتاآہستہ آہستہ اس دروازے تک آپہنچا ہوں جہاں سے مجھے اپنے گھر کے اندرونی حصے میں داخل ہونا ہے۔ لیکن دروازے پر قفل لگا ہے۔ میں تڑپ کر رہ گیا ہوں۔ جیسے کوئی دودھ پیتے بچے کواس کی ماں کے سینے سے جھپٹ لے۔ کاش یہ دروازے ایک بار میرے لئے کھل سکتے۔‘‘ (۵)

 ’’نچاہواالبم‘‘ میں بچپن کے ماحول سے دوری ایک کسک کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ یہی وہ کسک ہے جو افسانے کے کردار کو دو حصّوں یعنی حال اور ماضی کی شخصیت میں منقسم کر دیتی ہے۔ ان دونوں کے درمیان وقت کی خلیج ہے جسے وہ پُر کرنے سے معذور ہے۔ اس طرح دونوں شخصیتیں ایک سطح پر آکر استعاراتی جہت اختیار کر لیتی ہیں اور ذات کی شکستگی بڑے نوکیلے انداز سے وقت کے پس منظر میں ظہورپذیر ہوتی ہے:

’’میرا بچپن جسے میں ابھی ابھی بستی میں چھوڑ آیا ہوں، دبے پاؤں میرے پیچھے پیچھے یہاں تک چلا آیا۔ پھر اس نے آگے بڑھ کر میرے ہاتھ تھام لئے مجھے غور سے دیکھاــ․․․․․․․ کیا تم وہی ہو جس نے مجھے ابھی ابھی بستی میں تنہا چھوڑدیا؟۔ کیا تم میری تلاش میں یہاں تک نہیں آئے تھے؟․․․․․․ میں نے منہ پھیر لیا تو اس نے میرے ہاتھ جھٹک دیئے۔ ٹھیک ہے، آج سے میں بھی اسی کو ڈھونڈوں گا جس کی تمہیں تلاش ہے لیکن کیا اس تلاش میں ہم پھر کبھی ایک دوسرے کو پہچان سکیں گے؟ ‘‘ (۶)

اقبال متین نے اپنے افسانوں میں بے زمینی کے تجربے عجیب وغریب زاویوں سے کئے ہیں۔ ’’کتاب سے کتبہ تک‘‘ میں یہ بے زمینی منوّرمیاں، کی غیر عملی زندگی کی صورت میں نمودار ہوئی ہے۔ اپنی بڑھتی عمر کے ساتھ منوّر میاں ذہنی طور پر عالم وفاضل تو بن گئے اور پڑھتے رہنا ان کا مشغلہ تو ہو گیا لیکن ان کی بے عمل زندگی جو جاگیردارانہ نظام کی پروردہ تھی گزرے ہوئے وقت کی صورت میں بے زمینی کا احساس بن کر کاٹنے لگی۔

’’اور اب منوّرمیاں کی سمجھ میں یہ بات آچکی تھی کہ یہ سب کچھ انھوں نے کھودیا ہے۔ اور یہ سب کچھ اس قدر تیزی سے ہوگیا کہ منوّرمیاں بیچارے قبروں کے بیچوں بیچ کھڑے اپنی نکٹائی اور پتلون کی کریزدرست کرتے رہ گئے۔‘‘ (۷)

اقبال متین کے افسانوں کو پڑھتے ہوئے قدم قدم پر اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اقبال متین کو اس بات کا شدیدرنج وملال ہے کہ موجودہ متعفن معاشرے میں بے حسی و بے ضمیری عام ہو چکی ہے۔ لوگ اپنی انفرادی شناخت کھوچکے ہیں۔ انسانی اور اخلاقی اقدار بے معنی ہو چکی ہیں۔ بیشتر افراد ذاتی اور محدود مفادات کے چکر میں پڑ کرایک دوسرے کے لیے اجنبی بن گئے ہیں۔ بظاہر تو انسان نے سائنس اور صنعت کی بدولت بڑی ترقی کرلی ہے مگر زندگی کی بنیادی قدر یعنی انسانیت دم توڑتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جو چند افراد آج بھی اس قدر کو کسی نہ کسی وجہ سے سینے سے لگائے ہوئے ہیں، وہ ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں۔ عام انسانوں کا استحصال کرنے والے دولت مند ہوگئے ہیں مگر شدید غربت کی چپیٹ میں آنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ پڑھے لکھے غریب لوگوں کی زندگی المناک بنتی جارہی ہے۔

اقبال متین موجودہ مادّی تہذیب سے بہت نالاں ہیں۔ اس مادّی تہذیب کی وجہ سے انسانی واخلاقی قدریں ملیامیٹ ہورہی ہیں۔ افراد بے حس ہورہے ہیں۔ افراد کی طرح ہمارے شہر بھی بے چہرہ اور بے حس ہوچکے ہیں۔ اب ان کی کوئی انفرادی شناخت باقی نہیں رہ گئی ہے۔ اس سنگین صورت حال سے اقبال متین سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ شاید اسی لیے ان کے اکثر مرکزی کردار شدیدترین ذہنی اور دماغی الجھنوں اور مستقل بے خوابی کا شکار نظر آتے ہیں۔

اقبال متین کے افسانے فنّی وتکنیکی اعتبار سے بہت متاثّر کرتے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں فنکارانہ اختصار سے کام لیا گیا ہے اور فنّی ہنرمندی کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیاں ساحرانہ فضا پیدا کرنے اور قاری کواپنی طرف متوجّہ کرنے میں خاصی کامیاب ہوئی ہیں۔ ان کی افسانہ نگاری پر اظہارخیال کرتے ہوئے فضیل جعفری رقم طراز ہیں:

’’ہارڈی کی طرح اقبال متین کے افسانوں کا کینوس بھی بہت زیادہ وسیع نہیں ہے۔ وہ اختصار سے شدّتِ تاثر پیدا کرنے کا کام لیتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ آپ ایک کے بعد ایک افسانہ پڑھتے چلے جائیں آپ کو ان میں ایک بھی فالتو جملہ نہیں ملے گا۔ اسی طرح ان کے یہاں کردار تو ہیں مگر اس طرح کہ ہیرو اور ہیرئن نہیں ہیں جن سے ہم ترقی پسند افسانہ میں عموماََ دوچار ہوتے ہیں۔ آخری بات یہ ہے کہ اقبال متین کے افسانوں میں افسانہ نگار کا خلّاقانہ ذہن سب سے زیادہ اہمیت رکھتاہے۔ احساسات وجذبات کو اجاگر کرنے کے لیے ان کا ذہن کرداروں کی تشکیل بھی کرتا ہے اور واقعات کو بھی جنم دیتا ہے۔ انہوں نے خود زبوں آثار میں اعتراف کیا ہے کہ:ــ’’آنکھیں نہیں دیکھتیں، ذہن دیکھتا ہے۔ ٹانگیں کسی کے پیچھے نہیں بھاگتیں، ذہن بھاگتاہے۔ ہاتھ کسی کو سینے سے کھینچتے ہیں نہ پرے ڈھکیلنے کا یارا رکھتے ہیں‘‘۔

بیانیے کی یہ تکنیک اور یہ افسانوی اسلوب اقبال متین کی اپنی ایجاد ہے۔‘‘ (۸)۔

                                                     حوالے

۔(۱) عابد سہیل، اقبال متین کے تین افسانے (ایک غیر رسمی سا تنقیدی مطالعہ) مشمولہ، سہ ماہی بادبان(اقبال متین نمبر)، شمارہ نمبر:۱۳، جولائی تا ستمبر ۲۰۱۰ء، کراچی۔

۔(۲) اقبال متین، شہرآشوب، مشمولہ، اقبال متین کے افسانے (جلداوّل) ص،۶۷۸، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ۲۰۰۹ء۔

۔(۳) ایضاََ، ص،۶۸۱۔

۔(۴) اقبال متین، چھت، مشمولہ، اقبال متین کے افسانے (جلد اوّل) ص،۷۰۴۔

۔(۵) اقبال متین، نچاہواالبم، مشمولہ، اقبال متین کے افسانے (جلد اوّل) ص، ۸۱،۱۸۰۔

۔(۶) ایضاََ، ص،۱۸۳۔

۔(۷) اقبال متین، کتاب سے کتبے تک، مشمولہ، اقبال متین کے افسانے (جلد اوّل) ص، ۲۱۰۔

۔(۸) فضیل جعفری، اقبال متین: شہرآشوب کا تنہا مسافر، مشمولہ، اقبال متین سے اُنسیت، مرتب، نورالحسنین، ص،۸۶،۸۷، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی،۲۰۱۲ء۔

احمد علی جوہر

ریسرچ اسکالر

جواہر لعل نہر یونی ورسٹی

اردو ریسرچ جرنل میں شائع شدہ مواد کی بغیر پیشگی اجازت کے دوبارہ اشاعت منع ہے۔ ایسا کرنا قانوناً جرم ہے۔

Leave a Reply

2 Comments on "انسانیت کانوحہ گرافسانہ نگاراقبال متین۔۔۔ احمد علی جوہر"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] انسانیت کانوحہ گرافسانہ نگاراقبال متین۔۔۔   […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.