وارث علوی  اور تیسرے درجے کا مسافر

آس محمد صدیقی

ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی،

’’تنقید ہماری زندگی کے لیے اتنی ہی ناگزیر ہے جتنی سانس‘‘ایلیٹ کا یہ جملہ یقینا اپنے اندر معنویت کا ایک اتھاہ سمندر لیے ہوئے ہے۔ وہ تنقیدی شعور ہی ہے جو انسان کو تمام قسم کی گمراہیوں سے بچا کر صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرماتی ہے۔ دیگر تمام شعبۂ ہائے زندگی کی طرح ادب کے لیے بھی تنقید اتنی ہی ضروری ہے جتنی زندگی کے لیے سانس ،کیوں کہ تنقید فن پارے کو وہ حرارت بہم پہنچاتی ہے جس سے اس کی پژمردگی دور ہوتی ہے اوروہ ادبی فن پارے کا حصہ بن پاتی ہیں۔ وارث علوی کا شمار فکشن تنقید کے انھیں جیالوں میں ہوتاہے جنھوں نے اپنی پوری زندگی فکشن کو پڑھنے ، سمجھنے اور سمجھانے میں صرف کردی۔ انھوں نے تقریباً دو درجن کتابیں تصنیف کرکے فکشن تنقید کے ارتقا میں اپنی انفرادیت اوراہمیت کے پرچم نصب کیے۔
’’تیسرے درجےکا مسافر‘‘ وارث علوی کے تنقیدی مضامین کا پہلا مجموعہ ہے جوامِت پرکاشن جودھپور (راجستھان) سے مئی ۱۹۸۱ میں شائع ہوا۔ اس کتاب کو وارث علوی نے باقر مہدی کے نام معنون کیاہے اور انتساب کرتے ہوئے غالب کا یہ مصرعہ ’’ہوئے تم دوست جن کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘‘ لکھاہے۔ غالب کا شعر جس کا یہ مصرعہ ہے بہت مقبول ہے اورادب کا تقریباً ہر طالب علم اس کے مفہوم سے واقف بھی ہوگا۔ ظاہر ہے یہ مصرعہ وارث علوی اور باقر مہدی کے درمیان رِشتے کا عکاس ہے ۔ اس کتاب میں کل سات مضامین شامل ہیں جن کی فہرست کچھ یوں ہے:
(۱)تیسرے درجے کا مسافر
(۲)منفی اور مثبت اقدار کا مسئلہ
(۳)ادب اور فناٹسزم
(۴) ادب اور سیاست
(۵)سماجی ادب کی بحث
(۶)فسادات اور فن کار
(۷)جاں نثار اختر کی شاعری
’’تیسرے درجے کا مسافر‘‘ اس کتاب کا اہم مضمون ہے۔ اہم اس لیے کہ وارث علوی نے اس کتاب کا عنوان اسی مضمون کو بنیاد بناکر طے کیاہے بلکہ عنوان ہی یہی رکھا ہے۔’’تیسرے درجے کا مسافر‘‘ ۔چونسٹھ صفحات پر مشتمل یہ ایک طویل مضمون ہے جس کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ وارث علوی نے تیسرے درجے کا مسافر فن کار کو کہاہے یعنی مواد اور اسلوب پہلے اور دوسرے درجے کے مسافر ہیں۔ فن کارکا فن اس کی شخصیت کی نمائش نہیں ہے اس لیے ان کا مشورہ ہے کہ فن کار کی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ اس کے فن سے اس کی شخصیت پرے رہے۔ شخصیت کو پرے رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ:
’’ جس قسم کی مثلاً لبرل انسان دوست، روشن خیال، صحت مند شخصیت اس نے تعمیر کی ہے وہ اپنی جگہ ٹھیک ہے ، لیکن جس طرح گریبان کے بٹن کھلے رکھ کر چوڑے چکلے تندرست سینے کی نمائش کرنا ناپسندیدہ حرکت ہے اسی طرح افسانے کا گریبان کھلا رکھ کر تندرست خیالات کی نمایش کرنا بھی غیر مستحسن ہے ۔‘‘ ص ۹
فن کار دراصل انسانی معاشرے کا ہی ایک فرد ہوتاہے بلکہ وہ انسان پہلے ہوتاہے اورفن کار بعد میں دیکھنے والی بات یہ بھی ہوگی وہ آدمی کتنا ہے اورانسان کتنا۔ اگر وہ آدمی زیادہ ہے تو اعلیٰ فن کے نمونے پیش کرنے سے قاصر رہے گا۔ فن کو بلندی انسانی عناصر سے نصیب ہوتی ہے۔ فن کار نے اگر آدمیت کی منزل سے گزر کر انسان کی سرحد کو عبور کر کے ’’سر زمین انسانیت‘‘ میں داخلہ پا لیا تو اب اس کے فن کو بلندی پانے کے مواقع بنسبت پہلے کے زیادہ ہوں گے۔ فن کار اگر صر ف آدمی ہے تو بہت ممکن ہے کہ وہ بھوکے بچوں اورمفلوک الحال لوگوں کا استعمال اپنی انا کی تسکین کی خاطر کر ے اور اگر اس نے ایسا کیاتو کم ظرفی کی اس سے بڑی دلیل شاید ہی کوئی اور ہو۔
فن کار ی دراصل معاشرے کی جرّاحی کاکام ہے۔ انسانی اعضا کی جرّاحی تو آسان ہے ، زخم سے پیپ اور مواد نکال کراس کی صفائی کر کے مرہم پٹی کر دیا اور کام ختم لیکن معاشرے کی جرّاحی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک فن کار آدمی سے انسان نہ بن جائے۔ اس ضمن میں منٹو ، بیدی کا نام لیا جاسکتا ہے جن کا فن محبت کے لطیف جذبات کا بھی عکاس ہے اور معاشرے کی غلاظتوں کا بھی۔ یعنی انھوں نے معاشرے کو ویسا ہی قبول کیا جیسا وہ ہے،دراصل یہی فن کار ی ہے۔ فن کار اور فن کاری پر گفتگو کرتے ہوئے وارث علوی لکھتے ہیں:
’’فن کار خودایک انسان ہے اور انسانوں کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ فن کاری بذاتِ خود انسان کا تہذیبی عمل ہے اور تہذیب انسانوں کے ایک گروہ کے باہم مل جل کر سماجی زندگی گزارنے کا نتیجہ ہے۔ فن کار انسانی زندگی کے تمام مظاہر کو اپنی ذات میں جذب کرتاہے۔ کبھی زندگی کی پراسراریت اسے ششدر اور حیرت زدہ کرتی ہے ، کبھی وہ اس کی المناکیوں کو دیکھ کر غم زدہ بنتاہے۔ فن کار انسان کو زبان ومکان میں رکھ کر بھی دیکھتاہے۔ کبھی ان سے ماورا ہوکر بھی اس کا مطالعہ کرتاہے۔ کبھی اسے تاریخ کے پس منظر میں رکھ کر دیکھتاہے، کبھی ابدیت کے تناظر میں رکھ کر۔ وہ انسان کی آرزو مندیوں اور نامرادیوں، اس کا زندگی سے لگاؤ اور موت کوخوف، اس کی روحانی تڑپ اور نارسائی ، اس کا وجود کی نا پائداری اور شرر جستگی کا احساس ، سبھی سے واقف ہوتاہے کیوں کہ وہ خود انسان ہے۔ وہ اس وسیع وعریض کائنات میں انسان کی بے بضاعتی کے تصور سے لرز اٹھتاہے۔ موت انسانی زندگی کو جس طرح بے معنی بنادیتی ہے اس کا تصور کر کے وہ کانپ اٹھتا ہے۔ اس ناپیداکنار کائنات میں انسان جس طرح اپنے مقدر کاچیلنج قبول کرتاہے اسے دیکھ کر فن کار کا دل انسان کے لیے ایک عجیب دردمندانہ لگاؤ محسوس کرتاہے۔ فن کار جب انسانی مقدر کے مسائل پر سوچ بچار کرتا ہے تو اس کے لب ولہجہ میں دل گداختگی اور فلسفیانہ حزن کی نرمی اور ملائمت پید ا ہوجاتی ہے۔ یہ دردمندی یہ حزن ، یہ فلسفیانہ بے قراری اور کرب اسے اُس انسان دوست، انقلابی اور باغی دانشورسے مختلف بناتی ہے جوانسان کو کسی آدرش کی تکمیل کا ذریعہ سمجھتا ہے اور جب انسان کو اپنے اس آدرش تصور کے مطابق نہیں پاتا تو جھنجلاتا ہے۔ غصہ، نفرت اورحقارت کا شکار ہوجاتاہے۔ نفرت ، حقارت،جُھنجلاہٹ اور اعصابیت سے ماورا بھی ایک مقام ہے جہاں سے زندگی کی پُر اسرارپہنائیوں پر نظر ڈالی جاسکتی ہے ۔ فن کار کا سفر Les Enfant Terribleسے شروع ہوکر اسی مفکر انہ سنجیدگی کے مقام پر آکر ختم ہوتاہے۔ بڑا فنکار وہی ہے جس کا حساس کسی ایک منزل میں رک نہیں جاتا۔ کتنے لوگ باغیوں کے طور پر آتے ہیں اور زندگی بھر باغی ہی رہتے ہیں۔ کتنے ہی شاعر ہیں جو زندگی بھر رومانی محبت ہی کی شاعری کرتے رہتے ہیں۔ بڑافن کار ان تمام منزلوں سے گزرتا ہوا ان کی تمام کیفیات اوراثرات کو سمیٹتا ہوا فن کاری کے اس مقام کو چھولیتاہے جہاں اس کے پاس وہ سب کچھ ہوتاہے جو دوسروں کے پاس ہوتاہے۔ لیکن ساتھ ہی فکر ونظر اور اظہار وبیان کی اس کے پاس چندایسی قوتیں بھی ہوتی ہیں جن سے دوسرے محروم ہوتے ہیں۔‘‘ ص ۱۲،۱۱
عام آدمی اور فن کار کے درمیان یہی فر ق ہوتا ہے کہ اس کے پاس نظر اور نظریہ دونوں ہوتے ہیں جنھیں بنیاد بنا کر وہ اظہار وبیان کر تاہے جب کہ عام آدمی ان صلاحیتوں سے محروم ہوتاہے۔
اگلے صفحات میں وارث علوی لفظ ’’ادب‘‘ کو موضوع گفتگو بناتے ہیں اور اس لفظ کا مطالعہ وسیع تناظر میں کرتے ہیں مثلاً ادب کیاہے؟ ادب کو کیسا ہونا چاہیے؟ جیسے سوالوں کا وہ مفصل جواب تحریر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ادب اگر انسانی کردار کو متاثر کرتاہے تو اس وجہ سے نہیں کیوں کہ اس میں اخلاق کی تعلیم اور تلقین کی باتیں بیان ہوتی ہیں بلکہ اس وجہ سے اس میں انسان کے رنگ برنگ تجربات کی جیتی جاگتی تصویر پیش کی جاتی ہے۔ اس لیے وہ فن کار سے انسانیت کا تقاضہ تو کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی تاکید بھی کرتے ہیں کہ اس کی تحریریں انسان کی حمایت یا مخالفت میں نہیں ہونی چاہیے بلکہ حمایت یا مخالفت سے بلند ہوکر ایک ایسے انصاف پسند ناظر کی سی ہوجو محبت اور غلاظت کے تجربوں پر یکساں نظر رکھ سکے۔ جب کسی فن پارے سے انسانیت نوازی کی بو آتی ہے تووہ کہتے ہیں:
’’جب کسی تحریر سے انسان دوستی کی بوآنے لگتی ہے تو یہی خیال گزرتا ہے کہ فن کار ابھی بلوغت کی اس منزل کو نہیں پہنچا جہاں پر وہ انسانوں سے طفلانہ محبت کرنے کی بجائے ایک بالغ آدمی کی طرح ان کے بیچ رہنا سیکھے ۔ اچھے برے انسانوں کے بیچ رہنے کا تجربہ ایسانہیں ہوتا جیسا ڈرائنگ روم میں انسان دوستی کی میٹھی میٹھی فیرنی کے چٹخارے بھرنے کا ہوتاہے۔ ‘‘ ص ۵۰
’’منفی اور مثبت اقدار کا مسئلہ‘‘کے تحت وارث علوی نے تنقید نگار کو موضوع بحث بنایاہے نیز منفی اورمثبت اقدار پر عالمانہ گفتگو کی ہے ۔ تنقید نگار سے تقاضہ کرتے ہیں کہ وہ فن پارے پر بحث سے قبل اس کے خالق کو سمجھے اوریہ جاننے کی کوشش کرے کہ فن پارہ کیوں کر وجود میں آیا؟وہ کیااسباب وعوامل تھے جنہوں نے فن کار کو فن پارے کی تخلیق پر اکسایا؟ اگر تنقید نگار ان تمام سوالات کا جواب تلاش لیتاہے تو فن کار اور فن کے ساتھ اس کا ایک رشتہ استوار ہوجاتا ہے اور تبھی وہ فن پارے کے تمام معائب ومحاسن کا ٹھیک ٹھیک تجزیہ پیش کر پاتاہے۔ ویسے بھی وہ تنقید نگاروں کو تنقید کے پیش امام کے نام سے یادکرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’تنقید کے پیش امام چوں کہ پیش امام ہوتے ہیں اس لیے شاعروں کو با جماعت نماز پڑھنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں ۔ صف بندی سے پیش تر وہ یہ دیکھتے ہیں کہ شعرا حضرات باوضو ہیں یا بے وضو ۔ با وضو شاعری کے ارکان یہ ہیں : رجائیت، انسان دوستی ، امن دوستی، زندگی سے پیار، معاشی آسودگی، سائنسی نظر، علم کی روشنی، انصاف ، رواداری ، یقین ،اعتماد، محبت، حسن ، مسرت ، سماجی ذمہ داری ، شعور وغیرہ ۔ بے وضو شاعری کی لیبل بازی کچھ اس قسم کی ہوتی ہے۔ قنوطیت ، کلبیت، افسردگی، تنہائی، مایوسی ، خوف تردّد، غیر محفوظیت ، ذات کا کرب، موت، جارحیت، انسان دوستی ، عدم دشمنی، عقل دشمنی، انقلاب دشمنی، امن دشمنی ، جہاں بے زاری، لایعنیت، خراج،انحطاط، مریضانہ ذہنیت،سرّیت،لاشعور،تحت الشعوروغیرہ وغیرہ۔‘‘ص۶ ۵
ظاہر ہے مندرجہ بالا اقتباس طنزیہ ہے جس میں ان نقادوں کی طرف اشارہ کیا گیاہے جو تنقید کو کسی مکتبۂ فکر سے جوڑ کر دیکھتے ہیں اور وارث علوی چوں کہ کسی مکتبہ فکر سے کمٹ ہونا پسند نہیں کرتے وہ نظریات سے کام لیتے ضرور ہیں لیکن انھوں نے کبھی بھی کسی ایک نظریے کی علمبرداری نہیں کی۔
’’ادب اور فناٹسزم‘‘ میں وارث علوی نے صنعتی دور کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو موضوعِ گفتگو بنایا ہے جس کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ ادب پر اس کے منفی اثرات پڑے۔ صنعتی دور نے ایک طرف اشتراکی آمریت کو جنم دیا تو دوسری طرف آدمی سے اس کی حقیقت چھین لی جس کے سبب وہ محض ایک پرچھائی بن کر رہ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ ادب پارے کا فقدان ہے کیوں کہ ادب انسانوں کے ذریعے لکھا جاتاہے پرچھائی کے ذریعے نہیں۔ فن کاروہ ہے جواپنی ذات اور کائنات کے اسرار ورموز کو سمجھنے کی کوشش کرتاہے جو کچھ اسے حاصل ہوتاہے اپنی تحریروں میں بکھیرتاہے ۔ وارث علوی آدمی اور پرچھائیں کے درمیان تفریق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’فن کار اپنے فن کے ذریعہ اپنی ذات کا عرفان حاصل کرکے پوری کائنات کو سمجھتا ہے ۔ فن کار تو یہی دیکھتا ہے وہ خود کیاہے، پرچھائیں یا آدمی، اگر وہ پرچھائیں ہے تو اکہرایک طرفی میکانکی ، تبلیغی اور تلقینی ادب پیدا کرتاہے۔ اگر آدمی ہے تو وہ ادب پیدا کرتاہے جو پہلو دار ہے آرزوؤں کی انجمن اور اندیشوں کا نگار خانہ ہے۔ سوز وساز رومی او رپیچ وتاب رازی کی کشمکشوں کی رزم گاہ ہے۔‘‘ ص ۱۱۳
ادب اورشے ہے اور فناٹسزم اور ۔ فناٹسزم دراصل ایک جزباتی اور غیر عقلی رویہ ہے، ایک قسم کا جنون ہے ،فیناٹک کے خیالات ونظریات بہت سخت اور الجھے ہوئے ہوتے ہیں، وہ اپنے نظریات پر نہایت سختی سے قایم رہتاہے۔ اس کے سامنے ہزاروں دلائل او ر ثبوت رکھ دیا جائے اس کا عقیدہ متزلزل نہیں ہوگا۔ وارث علوی نے اپنے اس مضمون میں ادب اور فناٹسزم پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ ادب کے مقاصد کو اجاگر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’ادب احساس حسن ، عرفانِ ذات اور حقیقت کا شعور پیداکرتا ہے۔ وہ دوسروں کے درد کو سمجھنے اوراپنے غم کو برداشت کرنے کا حوصلہ بخشتا ہے۔ ادب انسان کی جذباتی کشمکشوں ، نفسیاتی پیچیدگیوں اور اس کی اخلاقی اور روحانی مسائل کی آگہی بخشتاہے۔ادب کو انسانی تعلقات کی روشنی میں دیکھتا ہے اور اس طرح انسان کاانسان سے ، خداسے فطرت اور پوری کائنات سے کیا رشتہ ہے اس کا علم عطا کرتاہے۔ مختصر یہ کہ ادب ان بنیادوں کو استوار کرتاہے جس پر ایک صحت مند معاشرے اور حیات بخش تمدن کی تعمیر کی جاسکے۔ ادب یہ دعویٰ نہیں کرتا اس کے پڑھنے والے لازمی طورپر بااخلاق اوراچھے آدمی ہوں گے۔ ایسے دوٹوک دعوے کرنا ادب کا کام نہیں ہے۔ ‘‘ ص ۱۳۹
’’ادب اور سیاست‘‘ کے تحت وارث علوی نے ادب اور سیاست کے تقاضوں کو موضوع بحث بناتے ہوئے وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ادب کی تخلیق کا اپنا مقصد ہے اور سیاست کا اپنا ۔ انھیں سیاست سے کوئی بیر نہیں لیکن سیاست کا نام جب ادب کے ساتھ آتا ہے اوراس قدر آتاہے کہ ادب سیاست کے ہاتھوں کا کھلونا بننے لگتا ہے تو وارث علوی کا قلم چل پڑتاہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سیاست ادب کا حصہ ہے لیکن ادب سیاست کا حصہ نہیں ہے۔ معاشرے یا پھر ملک میں پھیلی سیاسی بدامنی ادب کا موضوع ہوسکتاہے کیوں کہ سیاست بھی بہر حال انسانی زندگی کا ہی ایک حصہ ہے۔ انھیں ان لوگوں سے کوئی شکایت نہیں جو سیاست کوادب کا ایک موضوع مانتے ہیں ہاں لیکن وہ کھارکھاتے ہیں ان لوگوں سے جوادب کواپنے سیاسی مفاد کی خاطر استعمال کرتے ہیں۔
ادب انسانی زندگی کے تجربات اور اس کے جذبات کے اظہار کا نام ہے اس لیے اس کا تعلق سماج سے بھی ہے۔ کوئی بھی فن کار سماج سے رشتہ توڑ کر فن کار نہیں بن سکتا کیوں کہ سیاسی، معاشی یا تہذیبی موضوعات ظاہر ہے ان سب کا تعلق سماج سے ہے لہٰذا فن کار کا فن سماج کے بغیر فن نہیں بن سکتا اسی لیے ادب کے تعلق سے کہا جاتاہے کہ یہ سماج کا آئینہ ہے۔ وارث علوی نے اپنے مضمون ’’سماجی ادب کی بحث‘‘ سماجی ادب کو موضوع بحث بنایا ہے اور اس پر عالمانہ گفتگو کی ہے۔
’’فسادات اورفن کار‘‘ زیر مطالعہ کتاب کا چھٹا مضمون ہے۔ وارث علوی نے اس مضمون میں احمدآباد کے فساد کو موضوع بناکر فسادات اور فن کار پر مفصل بحث کی ہے جس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ فسادات میں سیاست کا کلیدی رول ہوتاہے۔ انسان بحیثیت انسان فسادات کو ہر گز نہیں پسند کرتا، وہ تو سیاست ہے جو معاشرے کو اس آگ میں جھونک کر اپنی دکان سجاتی ہے۔ وارث علوی اپنے دور کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ:
’’ ہمارا دور سیاسی رنگ میں اس قدر ڈوبا ہوا ہے کہ گویا ہماری رُوحانی اور جبلّی خواہشوں کی تکمیل بھی اب ہماری ذات سے وابستہ نہیں رہی بلکہ اس کا فیصلہ بھی سیاسی اداروں اور جماعتوں اورمنصوبوں کے تحت ہوتاہے۔ ‘‘ ص ۲۳۰
گویا یہ کہ فن کارسیاست کا شکارہو کر فسادات کا نظارہ کرنے پر مجبو ر ہے کیوں کہ فن کار کی سوچ پر اب سیاست کی اجارہ داری ہے۔
تنقیدی مضامین پر مبنی اس مجموعے میں تقریباً ہر مضمون کا تعلق کسی نہ کسی طورپر نظریاتی ہے اخیر کا ایک مضمون ’’جانثاراختر کی شاعری‘‘ کے عنوان سے معنون ہے جو اس کتاب میں شامل موضوعات سے الگ شاعری سے متعلق ہے۔ بہرکیف کسی بھی موضوع پر سیر حاصل بحث وارث علوی کی تحریروں کا اہم خاصہ ہے۔ انھوں نے جس بھی موضوع پر قلم اٹھایا یقینا اس کا پورا پورحق ادا کر نے کی کوشش کی۔ جانثار اختر کی شاعری پر قلم اٹھایا تو ان کی تمام خوبیوں اور خامیوں کو بغیر کسی رورعایت کےبیان کر دیا۔
مجموعی طورپر وارث علوی کی یہ کتاب تنقید کے حوالے سے بھی اہم ہے اور خود وارث علوی کے حوالے سے بھی۔ وارث علوی کے حوالے سے اس لیے کیوں کہ یہ ان کے مضامین کا پہلا مجموعہ ہیے جوان کی تنقید ی نگارشات اور افکار کو سمجھنے میں ہر قاری کے لیے بنیاد ی حیثیت رکھتا ہے۔
حواشی:
۱۔ وارث علوی، تیسرے درجے کا مسافر، ۱۹۸۱،امت پرکاشن ،راجستھان، ص ۹
۲۔ ایضاً ،ص ۱۲،۱۳
۳۔ ایضاً، ص ۵۰
۴۔ایضاً،ص ۵۶
۵۔ ایضاً،ص۱۱۳
۶۔ایضاً،ص۱۳۹
۷۔ایضاً،ص۲۳۰

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.