فسادات کے وجوہات اور افسانوی توجیہات

ڈاکٹر ساجد حسین

اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ اردو ، دیال سنگھ کالج، دہلی یونیورسٹی،دہلی

sajiddse@yahoo.in

 47 ء کے فسادات کے وقت شاعروں اور ادیبوں کے یہاں بھی ہیجانی کیفیت طاری تھی۔ ایک طرف ان کے یہاں جہاں یہ آواز ابھر رہی تھی کہ :

مجھ کو کچھ فکر نہیں آج یہ دنیا مٹ جائے

مجھ کو کچھ فکر نہیں آج یہ بے کار سماج

تو دوسری طرف کرشن چندر ’’ہم وحشی ہیں‘‘ لکھ رہے تھے۔ رامانند ساگر گھوم گھوم کر یہ اعلان کررہے تھے ’’اورانسان مر گیا‘‘  تو سعادت حسن منٹو’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ میں ایک پاگل کو خدا بنا کر فیصلہ کروارہے تھے اور سارے مسئلے کا حل پاگل بشن سنگھ کے اس بڑ’’اوپڑی گڑگڑوی اینکس دی بے دھیانا دی منگ وال آف دی لالٹین‘‘ میں پیش کر رہے تھے۔

 47ء کے اس ظالم وقت کو مہذب قوموں کی تاریخ کی عدالت میں لے آناتھا لیکن کوئی گواہ نہیں مل رہا تھا۔ سب سے پہلے گاندھی جی پر نظر پڑی مگر انہیں گواہی سے پہلے ہی ختم کر دیا گیا۔ باقی تو وزارتوں کے قلم دان سنبھالنے میںلگے ہوئے تھے۔ مولانا آزاد نے اپنی گواہی 30سال کے لیے فکسڈ ڈپوجٹ کردی۔ شاید انہیں اپنی قوم کے مستقبل کی فکر زیادہ لاحق تھی۔ ایسے میں ادیبوں کو اپنے فرض کا احساس ہوا اور اس شعر کے ساتھ:

اے وطن خاک وطن وہ بھی تجھے دے دیں گے

بچ گیا ہے جو لہو اب کے فسادات کے بعد

قلم لیے میدان میں آگئے۔ ان میں اردو کے ادیب خاص طور سے افسانہ نگار پیش پیش تھے۔ انہوں نے نہ صرف فسادات کی روداد قلم بند کی بلکہ اس کے اصل مجرم کی پہچان کی اور دکھ درد جھیلنے والوں کے دکھ درد میں شریک بھی ہوئے۔ فساد پر لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ افسانہ نگار بھی کسی نا کسی جماعت کا فرد ہوتا ہے۔ اس کا بھی اپنا تہذیبی تشخص ہوتا ہے۔ ایسے میں اس کے جذباتی ہوجانے اور فن کا لحاظ نہ رکھنے اوراس کی غیر جانب داری ختم ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔اس صورت حال میں انہیں ان کی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے ان سے کہا گیا:

’’تاریخ کی اس کٹھن منزل میں ہمیں اپنا توازن باقی رکھنا ہے۔ ہمیں ادب اور انسانیت دونوں سے انصاف برتنا ہے۔ فسادات ہوئے ہیں اور ان کی ذمہ دار انسان ہیں جو سکھ ہندو یا مسلمان کے بہروپ میںنظر آتے ہیں۔ یہ اپنے مذاہب کے لیے باعث ننگ ہیں تاہم مجاز نہیں کہ پوری قوموں کو موردالزام قرار دے کرتاریخ کی سولی پر ٹانگ دیں۔‘‘( اختر حسین رائے پوری، نیا دور‘ فسادات نمبر، کراچی،ص۲۱)۔

اس اپیل کا اثر ہوا مگر افسانہ نگاروں میں کچھ ایسے بھی تھے جو براہِ راست فسادات کا شکار ہوئے تھے۔ یہ ٹریجڈی ایسی ہولناک تھی کہ وہ سمجھ نہیں پارہے تھے کہ اس المیے کو وہ کیسے پیش کریں۔دوسری طرف اظہار کی شدت تھی اس لیے وہ اس سانحے کوذہنی تجربہ بنائے بغیر لکھ گئے جو ہیجانی نوعیت کے افسانے ثابت ہوئے۔ کرشن چندر کے بعض افسانے اور خواجہ احمد عباس کے افسانے اس ضمرے میں آتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں کردار ظالم یا مظلوم کسی نا کسی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ منٹو، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی اور رامانند ساگر کے یہاں ایسی کویٔ تمیز یا تفریق نہیں ملتی۔ ان کے افسانوں میں ہندو  یامسلمان کردار ہونے کے باوجود بھی وہ ہندو یا مسلمان معلوم نہیں ہوتے۔رامانند ساگر کے افسانے ’’بھاگ ان بردہ فروشوں سے‘‘ میں بھاگنے والی لڑکی اور منٹو کے افسانے ’’کھول دو‘‘ کی ہیروئن نہ ہندو ہے نہ مسلمان۔

 شاعر و ادیب کا کام بڑا ہی نازک ہوتا ہے۔ وہ اپنے کندھے پر انسانی اقدار کو لے کر پل صراط سے گزرتا ہے۔ اردو ادب کی یہ خوش قسمتی رہی کہ اس کے بیشترادیب وکہانی کار کامیابی سے اس پل صراط پار کو کرگئے۔

 ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے مگر ایک عورت کے ساتھ کیا گیا زنا کئی نسلوں کے قتل کے مترادف ہوتا ہے۔ اس فساد میں سب سے زیادہ یہی کیا گیا۔ اردو افسانوں نے اس مذموم عمل کو اپنا موضوع بنایا اور گہرائی سے اس کا نفسیاتی تجزیہ کیا۔ عزیز احمد کی ’’کالی رات‘‘ ، حیات اللہ انصاری کی ’’شکر گزار آنکھیں‘‘، منٹو کا ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ اور ’’کھول دو‘‘، رامانند ساگر کا ’’بھاگ ان بردہ فروشوں سے ‘‘، راجند سنگھ بیدی کا ’’لاجونتی‘‘ اس موضوع پر لکھے جانے والے قابل ذکر افسانے ہیں۔ 47کے فسادات میں جلے ہوئے انسان کے راکھ میں سے افسانہ نگاروں نے انسانیت کی تلاش کی تھی۔ اپندرناتھ اشک کا ’’ٹیبل لینڈ‘‘ ، احمد ندیم قاسمی کا ’’پرمیشرسنگھ‘‘، خواجہ احمد عباس کا ’’سردار جی‘‘ اور عصمت چغتائی کا افسانہ’’جڑ یں‘‘ اس کی بہتر مثالیں ہیں۔

47کے فسادات کا پس نظر:

 ہندوؤں اور مسلمانوں میں نفرتوں کی بنیاد انگریزوں نے نصف صدی پہلے سے ہی ڈالنی شروع کردی تھی۔ اس کی شروعات ہندی اردو تناز عے سے ہوئی۔ سرسید اس سے بے حد دل برداشتہ ہوئے۔ کل تک ہندو و مسلمان کو اپنی دونوں آنکھیں بتانے والے سرسید اتنا غم زدہ ہو ئے کہ انہیں اپنی ایک آنکھ کی فکر ستانے لگی اور وہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھے۔تحریک آزادی کے زور پکڑنے کے ساتھ ساتھ نفرتوں کا زور بھی بڑھنے لگا۔ انگریز مسلمانوں کو یہ باور کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ آزادی کے بعد جمہوری حکومت بنے گی اور جمہوریت میں اکثریت کی حکومت ہوتی ہے۔ تم اس ملک میں ہزار سال تک حاکم رہے ہو کیااب  محکوم بن کررہوگے اور کیا ہندو تم سے تمہاری ہزار سالہ حکومت کا حساب نہیں مانگیں گے۔ ہم تو چلے جائیں گے تمہارا کیا ہوگا؟ دوسری جانب ہندوؤں کے نزدیک مسلمانوں کو راستے کا پتھر بتایا گیا او ر ان کے اندر جوش‘ حکومت و اقتدارکا نشہ اور بدلے کا جذبہ پیداکیا گیا۔ اسی درمیان ’’خاک وطن کا ذرّہ ہر مجھ کو دیوتا ہے‘‘ کہنے والے اقبال ایک خط میں یہ لکھ گئے۔

ــ’’میں خود بھی یہ رائے رکھتا تھا کہ اس ملک (ہند) میں مذہبی اختلاف کا خاتمہ ہو جانا چاہئے، اور اپنی بھی زندگی میں اسی اصول پر عمل پیراہوں۔ لیکن اب میرا خیال یہ  ہے کہ ہندو اور مسلم اقوام کے لیے اپنے اپنے جداگانہ قومی وجود کا تحفظ ہی مناسب ہے۔ ہندوستان میں متحدہ قومیت کا تصور ایک حسین نصب العین ضرور ہے اور اس میںشاعرانہ تخیّل کے لیے بڑی کشش ہے لیکن دونوں قوموں کے موجودہ حالات اور غیر شعوری  رجحانات کے پیش نظر یہ تصور ناممکن معلوم ہوتا ہے‘‘۔(شذرات اقبال‘مجلس ترقّی ادب ،لاہور‘  میٔ 1983 ص(53

  اقبال کے اس خط کو دو قومی نظریے کے فلسفے کے طور پر پیش کیا گیا۔ ملک خداداد کا خواب دکھایا گیا۔ مسلمانوں کی بڑی آبادی کا ہندوستان میں رہ جانا اور بعد میں بنگلہ دیش کا قیام نے اس نظریے کو رد کر دیا۔ یہ بات ثابت ہو گیٔ کہ ہندوستان کا معاملہ دوسرے ملکوں کی طرح نہیں ہے جہاں زبان و مذہب کی بنیاد پر قومیت بنتی ہے۔ بہرحال مولانا آزاد نے سمجھانا چاہا مگر ان کی نہیں سنی گئی بلکہ ایک ایسے شخص کی آواز پر لبیک کہا گیا جو غیر متشرع اور غیر مذہبی تھا اور جس کا ذہن انگریزوں کی وفادار ی کو جزّایمانی سمجھتا تھا۔ یہ مولانا کا المیہ نہیں تھابلکہ اس بھاگتی ہوئی قوم کا المیہ تھا جس کا مذہبی تصور  ریت کا ایک ٹیلا ثابت ہوا جو بحر الہند کے ایک لہر میں بہہ گیا۔ جس پر مولانا نے بکھرتے اور ٹوٹتے ہوئے الفاظ میں کہا تھا: ’’افسوس کہ تم حقیقی اور سچی بات کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ تم نمائش کے پجاری ، شور و ہنگامے کے بندے ، تم میں نہ امتیاز ہے نہ نظریہ ، نہ تم جانتے ہو ، نہ پہنچانتے ہو، تم جس قدر تیز دوڑ کر آتے ہو، اتنی ہی تیزی کے ساتھ فرار بھی ہوجاتے ہو۔‘‘ ــــ انگریزوں کے بہکاوے میں جب کچھ مسلمانوں نے احیائے اسلام کی بات کی اور اپنی پرانی تاریخ و تہذیب کی باز یافت چاہی تو مولانا نے کہا:

’’ہم میں اگر ایسے مسلمان موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ اپنی اس گزری ہوئی تہذیب اور معاشرت کو پھر تازہ کردیں جو وہ ایک ہزار برس پہلے ایران اور وسط ایشیا سے لائے تھے تو میں ان سے یہی کہوں گا کہ اس خواب سے جس قدر جلد بیدار ہو جائیں بہتر ہے کیونکہ یہ ایک غیر قدرتی تخیل ہے اور حقیقت کی زمین میں ایسے خیالات نہیں اگ سکتے۔ ہم ایک ہندوستانی قوم اور ناقابل تقسیم ہندوستانی قوم بن چکے ہیں۔‘‘  (خطبات آزاد ـ ‘ ساہتیہ اکیڈمی دہلی ۲۰۰۶‘  صفحہ ۳۰۰)

مولانا کی باتوں کو نہیں سنا گیا۔ دونوں طرف کے لوگ تو حکومتوں کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ملک میں مچی چیخ و پکار کے دوران آدھی رات کو اپنے اپنے عہدوں کی حلف برداریاں لے رہے تھے۔ اگر دونوں طرف کے سیاسی رہنما انسان دوستی اور دوراندیشی کا مظاہرہ کیے ہوتے تو آج ہمارے ملک کی تاریخ اس سانحے سے داغ دار نہیں ہوتی۔

تقسیم کے بعد فسادات:

 ملک آزاد ہو گیا۔ ملک تقسیم ہو گیا۔ جناح کو مرگ بستر پر اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے کہا کہ زندگی نے وفاکی تو نہرو سے اس غلطی کی تلافی چاہوں گا۔ ان کی یہ غلطی برصغیر کی مستقبل میں محیط ہو گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تقسیم کے بعدفسادات نہیں ہوتے۔ ہجر تیں نہیں ہوتیں۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ الگ پہچان کے نام پر ملک بن جانے کے بعد کہیں نہ کہیں بعض ہندو حلقوں میں یہ بات گھر کر گیٔ کہ ہندوستان کی مٹی میں بچے ہوئے مسلمانوں کی صورت میں وہ بیج رہ گیٔ ہے جو تقسیم ہند کی وجہ بنی۔ وہیں مسلمانوں کے اندر بھی اکثریتی طبقے کی اس سوچ کا احساس اپنی پوری شدت سے موجود  رہا جس نے دونوں کے درمیان عدم اعتماد بنائے رکھا۔دوسری طرف جاگیر دارانہ نظام سے ہم جمہوری نظام میں آئے اور ملک نے تیزی سے تکنیکی ترقی کی۔ نہرو آدھونک بھارت کے نرماتا بنے۔ اندراگاندھی نے ہندوستان کو ایٹمی ملک بنا دیا راجیوگاندھی نے ملک کو کمپیوٹر عہد میں پہنچایا مگر ساتھ ہی ساتھ ہمار ا سماج سرمایہ داری کی گرفت میں آتا گیا۔ نرسمہاراؤ کے زمانے میں تو بازارواد اور صارفیت ہمارے مزاج کا حصہ بن گئے۔ صارفی اور سرمایہ دارانہ سماج نے جاگیرداری دور کی کچھ اچھی اور انسان دوست قدروں کو بھی گنوادیا۔ وہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن بننے کے بجائے نفرت اور تعصب کا شکار ہو گیا اور اقلیتوں کے وحشیانہ قتل عام کا مجرم بنا۔

 جب بھی کسی ملک میں سرمایہ کی تشکیل اپنے عروج کی طرف بڑھتی ہے۔ تب اس ملک کے برسراقتدار طبقہ کو اپنی بقاء اور توسیع کے لیے سرمایہ داروںکی ضرورت پڑتی ہے اور وہ اس کے ہر کیے کہے کو قبول کرتا ہے۔ اس کو سامنے رکھ کر پالیسی بناتا ہے۔ جب سیاسی جماعتیں (میں انہیں برسر اقتدار طبقہ کہنا پسند کروں گا) عام انسانوں کے زندہ رہنے کے بنیادی مسائل کاحل پیش کرنے میں ناکامیاب ہوتی ہیں تب ان کے ذہن کو بھٹکانے کے لیے اقلیتوں اور کمزور طبقوں کا خون چاہئے ہوتا ہے۔ انہیں پھر سے اقتدار تک پہنچنے کے لیے ایک پتلی گلی چاہئے ہوتی ہے جو اقلیتوں یا غریبوں کی گنجان آبادی سے ہوکر گزرتی ہے۔

 فساد کی سیاست پر الیاس احمد گدی نے ایک افسانہ’’سدھ کیا ہوا سانپ‘‘ لکھا۔ عنوان سے ہی موضوع واضح ہے۔ یہ افسانہ اس جملے پر ختم ہوتا ہے:

’’یار مجھے تو اس بات کا ڈر ہے کہ وہ سانپ جو جھاڑیوں میں چلا گیا ہے اب پتہ نہیں کس علاقے میں کس شہر میں نمودار ہو۔‘‘

گویا کہ آزاد ہندوستان میں فسادات اورفرقہ واریت ایک لامتناہی سلسلے ہوگئے جس کا کوئی انت نہیں۔ فساد ہندوستانی سماج اور سائیکی کا حصہ بن گیا۔ اردو کے افسانہ نگار اپنے مشن پر چلتے رہے۔ وہ فسادات کی بہمیت کو بڑے شدومد کے ساتھ بیان کرتے رہے۔ اس حیوانیت کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی ساتھ قارئین کے سامنے اس کی توجیہات بھی پیش کی۔ ایسی بربربیت عام طور سے انسانوں میں نہیں ہوتی۔ یہ تو گندی سیاست کا نتیجہ ہے۔ افسانہ نگار کی تمام ترہمدردی فساد کے شکار بننے والوں کے ساتھ رہی۔ عہد جدید کے فسادات نے آپسی اعتماد اور میل جول کو ختم کر دیا۔ ایک محلے اور ایک ہی گلی میں نفرت کی ایک دیوار کھینچ دی۔ رشتے ختم ہو گئے مکالمے بند ہوگئے برسوں برس کی دوستی بے اعتبار ہوگئی۔ جیلانی بانو کا افسانہ’’مجرم‘‘ اور سریندپرکاش کی کہانی ’’بالکونی‘‘ اس کی بہترین مثال ہیں۔ احمد یوسف کا افسانہ ’’بدلتے ہوئے سورج‘‘ تقسیم کے بعد المناک روح فرسا اور وحشت ناک قتل و غارت نیز اس کے بعد کی زندگی کی مایوسیوں اور مشکلات کی تصویر پیش کرتا ہے۔ م ناگ کا افسانہ ’’’ایک بار پھر‘‘ بھی تقسیم ہند کے بعد اقلیتوں کی صورت حال کو اپنا موضوع بناتاہے۔ فسادات میں پولس کے رول پر ہمیشہ سوال اٹھتا رہا ہے۔ فسادات پر قائم کمیشنوں کی رپورٹ میں بھی پولس کی جانبدارانہ رویے کا ذکرہے۔ملک کے دانشوروں اور اردو کے افسانہ نگاروں نے بھی پولس کے اس رویے کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ ساجد رشید کا افسانہ ’’زندہ درگور‘‘ اور بیگ احساس کی کہانی ’’کرفیو‘‘ میں اس کی بہتر عکاسی ملتی ہے۔ کرفیو کے اس اقتباس کا ملاحظہ کیجیے:

’’اس عفریت (فسادات) نے بہت سی ہرنیوں کا خون پیا ہے اور اس عفریت کو ختم کرنے کے بہانے بہت سے محافظوں نے بھیڑوں کی طرح ہرنیوں کا شکار کیا ہے۔وہاں بہت سے بھیڑ ئیے دانت نکوسے کھڑے تھے ایسے میں وہ اس کی بوٹیاں نوچ کر گولی مارسکتے ہیں۔ کرفیو کی خلاف ورزی کرنے پو گولی مار دینے کا حکم ہے۔سارا الزام اسی عفریت پر تھوپا جاسکتا ہے۔‘‘

بابری مسجد کی شہادت نے افسانہ نگاروں کو اندر تک ہلا دیا۔ اب تک سماج اور معاشرے میں عدم اعتماد کا معاملہ تھا۔ اب پورے نظام پر سے اعتبار اٹھ گیا۔ انصاف کی امیدیں باقی نہ رہیں۔ شہردر شہر اقلیتوں کی لاشیں لگتی رہیں۔ تاریخ ایک بار پھر گنگ ہوگئی مگر اردو افسانے نے اپنی گویائی نہیں کھوئی۔اس ٹریجڈی کی گونج حسین الحق کی کہانی ’’نیو کی اینٹ‘‘ ، ساجد رشید کی ’’زندہ در گور‘‘ ، مظہر سلیم کی ’’جڑیں‘‘ اور معین الدین جینا بڑے کی ’’تعبیر‘‘ میں سنائی دیتی ہے۔ فسادات کے باعث اقلیتوں کی زندگی میں مستقل دہشت اور لٹ جانے کا خوف اتنا شدت اختیار کر گیا کہ یہ ان کی سائیکی کا حصہ بن گیا۔ گھربناتے ہوئے ، کاروبار کرتے ہوئے اکیلے کسی کالونی میں رہتے ہوئے مسلمان اس سائیکی کا شکار ہوجاتا ہے۔ گلزار کا افسانہ ’’خوف‘‘، شفق کا ’’نیلا خوف‘‘، سید محمد اشرف کا ’’آدمی‘‘ اقلیتوں کے اندر کے ڈر و خوف کو بیان کرتا ہے۔ اسی ڈر اور خوف کی وجہ سے ایک بار پھر اس طبقے کو ہجرت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہجرت کا تاریخی واقعہ اس کی زندگی کی حقیقت بن جاتا ہے اور وہ اپنے ہی ملک میں باربار ہجرت کے درد وکرب سے گزرتا ہے۔اس کرب کو الیاس احمد گدی کے افسانے ’’بغیر آسمان کی زمین‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ فسادات کے اثرات کس طرح سماج میں دیر پا ہوتے ہیں اسے شموئل احمد کا افسانہ ’’سنگھاردان‘‘ پیش کرتا ہے۔ فسادات کے بطن سے دہشت گردی جنم لے سکتی ہے اسکو شوکت حیات نے اپنے افسانے ’’سانپ سے نہ ڈرنے والا بچہ ‘‘ میں بیان کیا ہے۔ فسادات کے شکار ہونے والے کو سماج اور سرکار دونوں طرف سے اگر تحفظ اور اعتماد حاصل نہیں ہوتا ہے تو ہو سکتا ہے وہ مایوسی ، تشددیا دہشت گردی کے راستے پر چل پڑے۔ اردو کے کیٔ افسانے اس کا اندیشہ ظاہر کرتے ہیں۔

گجرات کے فسادات:

 واقعات پر بغور مطالعہ کرنے کے بعد لگتا ہے کہ گجرات میں فسادات کی منصوبہ بندی اقتدار منتقلی کے ساتھ ہی شروع ہو چکی تھی۔ دیہاتوں اور شہروں کے حاشیوں پر بسی اقلیتی آبادی کا صفایا، ان کے مال و اسباب اور صنعتی اداروں کو ختم کرکے انہیں اقتصادی طور پر لا چاربنانا ان کی عبادت گاہوں کو مسمار کر کے اور مذہب کی توہین سے ان کے مذہبی احساسات کو لہولہان کرنا اور پھر ان کی قتل و غارت سے انہیں ذہنی اور عملی طور پر اپنا غلام بنا لینا ان کے منصوبے میں شامل تھا۔ اس کے لیے ایک بہانہ چاہیئے تھا جو گودھرا واقعے نے فراہم کر دیا۔

گجرات فسادات کا پس منظر: اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ ملک میں بڑی تیزی سے ہندو احیاء  پر ستی ہوئی۔ ہندوستان تیزی سے عالمی بازار کا ایک بڑا منڈی بن گیا۔ گجرات فساد کے ذمہ دار ملک کی فسطائی طاقتیں ہیں۔ یہ دو گروہوں میں تقسیم ہیں۔ پہلا گروہ ہندوستان کے ہند اسلامی تاریخ کا نہایت ہی تنگ نظری اور تعصبات کی نظر سے دیکھتا ہے اور انہیں اپنی غلامی اور تذلیل کی تاریخ بتاکر ہندو نوجوانوں کے اندر نفرت اور جذبۂ انتقام پیدا کرتا ہے۔ اس گروہ سے وابستہ لوگ خبر رساں ایجنسیوں میں اثر و رسوخ والے ہوتے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منفی پروپگینڈا کرکے ملک کی سلامتی اور عام لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کی دہائی دے کر خوف و نفرت پیدا کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ جماعت ہندو راشٹر اور آدرش ہندو سماج کی خواہاں ہوتی ہے اور اس کے لیے ’رام مندر‘ یونیفارم سول کوڈ جیسی تحریک کو گاہے بگاہے چھیڑتی رہتی ہے۔

 دوسری جماعت کی پہچان ذرا مبہم ہے۔ یہ ہر وقت اپنے مفاد پر نظر رکھتی ہے۔ یہ فسادی قوتوں کی مالی، اخلاقی اور قانونی مدد کرتی ہے۔ ایسا اس لیے کرتی ہیں کہ کہیں ان کی استحصال پسندانہ پالیسی بے نقاب اور ذات پات کی سیاست کی مات نہ ہوجائے۔ وہ ایک طرف پس ماندہ ہندو طبقہ کے لوگوں کے اندر مذہبی جنون پیدا کرکے فسادات کے لیے استعمال کرتی ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کے اندر فساد کا خوف و ہراس پیدا کرکے انہیں کبھی مین اسٹریم میں آنے نہیں دیتی۔

 گلوبلائزیشن کے بعد اب پوری دنیا ایک منڈی بن چکی ہے۔ ہندوستان جیسے بڑے جمہوری ملک کے رویے پر اس منڈی کا انحصار ہے۔ اور اسی بنیاد پر آج عالمی طاقت صرف ایک محور پر ٹک گئی ہے اور اسی ایک محور پر طاقت ٹکی رہے اس کے لیے بین الاقوامی ادارے بڑے صارفین والے ملکوں کے اندر پائی جانے والی آپسی اختلافات اورتضادات کو بڑی سمجھ بُوجھ کے ساتھ ہوا دیتے ہیں۔ اس کام میں مدد کے لیے وہ اس ملک کے سرمایہ دار کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔

 اقلیتی فرقہ پرست جماعتیں بھی پیچھے نہیں ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ دونوں جانب کی فرقہ پرست جماعتوں کے درمیان گٹھ جوڑ ہو گیا ہے اور دونوں کا مقصد ایک ہے۔ اقلیتی فرقہ پرست جماعتیں اقلیتوں کے عدم تحفظ اور اس ملک کے وسائل سے محرومیت کے احساس کو شدت سے ابھارتی ہیں اور ان کے اندر جذبہ جہاد پیدا کرکے شہید ہوجانے کی ترغیب دیتی ہیں۔

منظرنامہ:

 ہمارے ملک کی مسلم اقلیت بابری مسجد کی شہادت اور اس کے بعد ہوئے پورے ملک کے فرقہ وارانہ فسادات کے صدمے سے ابھی پوری طرح باہر بھی نہںہوپائی تھی کہ گجرات کا فساد برپا ہوگیا۔ خاک اور خون کی ہولی کھیلی جانے لگی۔ سرعام اقلیتی طبقے کا قتل عام ہوا اور لوگوں کو زندہ ان کے گھروں میں جلادیا گیا۔ کنواری لڑکیوں کے ساتھ کھلے عام زنا بالجبر کیا گیا۔ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کرکے بچے کو تلوار کی نوک پر اچھالا گیا پھر انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے جلا دیا گیا۔ ہندوستانی تاریخ کا سب سے سیاہ ترین باب کون ہے۔ گجرات کا فساد یا 47ء کا فساد یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا۔ شاعروں نے تو میر تقی میر کے اس شعر سے تحریک پائی:

کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک

مثرگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

شاعری قدرے زیادہ ہوئی مگر افسانہ نگاروں کی انگلیوں میں ارتعاش تھا۔ دو چند افسانے آئے مگر زیادہ ترکے قلم خاموش رہے۔ میں نے جب ایک افسانہ نگار سے سوال کیا تو اس نے جواب دیا ’’حاکم وقت کو فیصلے تو لے لینے دو ہم اس مقدمے کو ضرور انسانی عدالتوں میں لے آئیں گے۔‘‘

افسانے:

 سب سے پہلے ہم اصغر وجاہت کے افسانے ’’شاہ عالم کیمپ کی روحیں‘‘ سناتے ہیں یہ وہی کیمپ ہے جہاں ملک کے  وزیراعظم اٹل بہاری باجپائی نے ریاست کے مکھ منتری کو ’’راج دھرم‘‘ کی یاد دلائی تھی۔ ملاحظہ کیجیے:

’’شاہ عالم  کیمپ میں دن تو کسی نہ کسی طرح گزرجاتے ہیں لیکن راتیں قیامت کی ہوتی ہیں۔ ایسا نفسی نفسی کاعالم ہوتا ہے کہ اللہ بچائے اتنی آوازیں ہوتی ہیں کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی۔ چیخ پکار، شوروغل ، رونا، چلانا آہیں، سسکیاں۔

شاہ عالم  کیمپ میں آدھی رات کے بعد بچے کی روح آتی ہے۔۔۔بچہ رات میں چمکتا ہوا جگنو جیسا لگتاہے۔۔۔ادھر ادھر اڑتا پھرتا ہے۔۔۔ پورے کیمپ میں دوڑ ادوڑا پھرتا ہے۔۔۔اچھلتا ہے کودتا ہے۔۔۔شرارتیں کرتا ہے۔۔۔تتلاتا نہیں۔۔۔صاف صاف بولتا ہے۔۔۔ماں کے کپڑوں سے لپٹا رہتا ہے۔۔۔باپ کی انگلی پکڑے رہتا ہے۔

شاہ عالم کیمپ کے دوسرے بچوں سے الگ یہ بہت خوش رہتا ہے۔ تم اتنے خوش کیوں رہتے ہو بچے۔

تمہیں نہیں معلوم۔۔۔یہ تو سبھی جانتے ہیں

’کیا‘

یہی کہ میں ثبوت ہوں۔’بہادری کا ثبوت ہوں۔‘ کس کی بہادری کا ثبو ت ہو؟ ان کی جنہوں نے میری ماں کا پیٹ پھاڑ کر مجھے نکالاتھا اور میرے دو ٹکڑے کر دیے تھے۔‘‘

 گجرات فساد پر سب سے زیادہ مشرف عالم ذوقی نے لکھا ہے۔ان کا ایک افسانہ ’’لیبارٹری‘‘ ہے جس میں انہوں نے خونی منظر کو انوکھے اور منفر دانداز میں پیش کیا ہے۔افسانہ نگار نے گجرات کو ہندوتو کی پہلی لیبارٹری قرار دیا ہے جس میں سے دنگا فساد اور لوٹ مار کرنے والے پروڈ کٹ کی صورت میں باہر آ رہے ہیں رہے ہیں۔ ان کا دوسرا افسانہ احمدآباد 302میل نہ صرف گجرات کے فسادات کا احاطہ کرتا ہے بلکہ پورے جمہوری نظام کو کٹگھرے میں کھڑا کر دیتا ہے۔ افسانہ کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:

’’سنگ میل پر 302کے حرف جگمگا رہے۔ بیوی بچوں کے ساتھ اچانک بھاگتے بھاگتے وہ ٹھہر گئے ہیں302۔۔۔دفعہ نمبر302پھانسی، سزائے موت، آنکھوں میں پھر چکر آرہے ہیں۔ گول گول دائرے ، سب کچھ سرخ سرخ، وہ جیسے انصاف کی کسی بڑی عمارت میں ہیں، انصاف سنایا جا چکاہے، ملزم کا سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ ملزم مسلمان ہے ملزم نے اس ہندو بھارت میں جنم لیا ہے۔تعزیرات ہند دفعہ302کے تحت ملزم کو۔۔۔۔

ا ب انہیں کچھ بھی نظر نہیں آرہا۔

 انصاف کی بڑی سی عمارت بھی اندھیرے میں کھو گئی ہے۔‘‘

’’ایک چھوٹا سا جہنم‘‘ ساجد رشید کا افسانہ ہے جس میں فاشسٹوں کے ذریعہ شاہ عالم کیمپ میں ڈاکٹروں کو جانے سے روکنے کو موضوع بنایا گیا ہے۔انہوں نے زندگی کے محافظ (ڈاکٹر) اور فسادات کے محرک (فاشٹ سیاست داں) کے درمیان کی کشمکش کو بڑی چابکدستی سے پیش کیا ہے۔ افسانہ نگار نے ملک میں پھیلی فرقہ پرستی کو ایک چھوٹا سا جہنم قرار دیا ہے۔

 بیگ احساس کا افسانہ ’’پناہ گاہ‘‘ گجرات میں ہوئے خونی واقعات و واردات کو پیش کرتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ فسادات کی خونی تاریخ کو بھی بیان کرتا ہے:

’’گِدھوں سے ڈھکا آسمان، خون کی بارش، سرخ پانی کے دریا، جلتی لاشیں ، عبادت گاہوں پر خون کے چھینٹے، مقدس کتابوں کی ادھ جلی جلدیں، بکھرے صفحات جوان عورتوں کی لاشیں، برہنہ داغ دار جسم کتنا خطرناک منظر ہے۔گزشتہ تیس برسوں سے اس نے یہ منظر بار بار دیکھا تھا۔ ہوش سنبھالنے کے بعد سے وہ مسلسل یہی کوشش کرتا رہا کہ اس منظر پر خوبصورت رنگوں کے برش پھیردے لیکن کچھ عرصہ بھی گزرنے نہیں پاتا کہ وہ سارے رنگ دھل جاتے اور وہی خطرناک منظر کینوس پر ابھر آتا ہے۔ آرٹسٹ بدلتے جارہے تھے، لیکن ہر آرٹسٹ سفیدی کا برش لیے کینوس تک آتا اور پھر نئے رنگ اور نئے برش کے ساتھ وہی بربریت کی تصویر پیش کرنے لگتا۔‘‘

گجرات کے فسادیوں نے گجرات کے شاعر ولی دکنی جسے اردو شاعری کا باواآدم کہا جاتا ہے اور جسے گجرات سے بے حد پیار تھا کی قبر کو بھی کھود ڈالا اور ریاست کی PWDنے راتوں رات اس پر کولتار کی لمبی چوڑی سڑک بناڈالی۔ گجرات کی محبت میں لکھے گئے ولی دکنی کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

گجرات کے فراق سے ہے خار خار دل

بیتاب ہے سینے سے آتش بہار دل

مرہم نہیں ہے اس کے زخم کا جہان میں

شمشیر ہجر سے جو ہوا ہے فگار دل

کہا جاتا ہے کہ شاعر مستقبل کو بھی دیکھ لیتاہے۔ ولی دکنی نے بھی اپنے پیارے گجرات میں آئندہ صدیوں میں پیدا ہونے والے ظالم کو صدیوں برس پہلے دیکھ لیا تھا جس نے اس کے گجرات کو تارتار کر دیا۔ اس شعر کو دیکھئے:

حاکم وقت ہے تجھ گھر رقیب بدخو

دیو مختار ہوا ملک سلیمان میں آ

قلم کاروں کے سامنے گجرات فساد نے ایک نیا چیلنج پیش کیا۔ چیلنج یہ ہے کہ:

وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا

اردو افسانہ نگاروں کے سامنے مشرف عالم ذوقی نے ایک کینوس پیش کر دیاہے۔ بس اس کینوس میںرنگ بھرنا دینا ہے۔ کینوس کچھ اس طرح سے ہے:

’’وہ تقسیم ایک پڑاؤ تھا۔اب ایک اہم پڑاؤ گودھرابن گیا ہے۔مسلمان آنے والے وقت میں بھی اس پڑاؤ سے گزرے بغیر آگے نہیں جاسکتے۔ گودھرا کانڈ کے بعد جیسے ساری حقیقتیں بدل گئیں۔ ملک میں اس سے پہلے بھی فساد ہوتے رہے لیکن نفرت کی ایسی کہانی کا جنم پہلی بار ہواتھا۔ کیا تاریخ خود کو دہرارہی تھی؟ تہذیبوں کی تاریخیں بدلی تھیں۔نئی دنیا میں مہذب ہونے کا ایک ہی مطلب تھا، طاقت ور ہونا۔ ہم نے یہ بھی جانا کہ اصول ، قاعدے، قانون اقلیتوں کے پاس نہیں ہوتے ، طاقت وروں کے پاس ہوتے ہیں۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Fasadat ke wojoohat aur Afsanvi Taujeehat by: Dr. Sajid Husain Khan

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.