قمر رئیس کی ادبی شخصیت کے چند بنیادی پہلو

غلام مصطفٰے ضیاؔ

ستلج ہاسٹل روم نمبر دوسو بار جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی، دہلی

9555752689

ghulammustafajnu@gmail.com

مجھے ہندوستانی تاریخ کے ادبی و نمائندہ چہروں کی فہرست تیار کرنے کا کوئی ذاتی شوق نہیں ہے اور نا ہی میں اس عمل سے کئی بار گزرا ہوں ۔لیکن دہر کی ہنگامہ آرائیوں کو محسوس کرنے کی جو لذت ایک فن کار کو حاصل ہوتی ہے اس کا انکار کیئے بنا ہی ایک سچے نقاد کی تعریف اسی میں مضمر ہوتی ہے کہ وہ سچائی کے نمائندہ اصولوںکی کار فرمائی میں خامہ فرسائی کرتا ہے ۔نقاد کون ہے کیسا ہے کتنا ہے کب کا ہے کس تحریک سے ہے کس جگہ سے اور کس وقت میں جنم لینے والا ہے یہ تمام سوال ٹھیک اسی وقت تشنہ لبی کھو دیتے ہیں جب جس پر بحث کی جا رہی ہے وہ اور اس کی ذات ان سوالوں کے گھیراو سے بالاتر ہو چکی ہو۔میں ہندوستانی اردو ادب کی جب جب بات کرتا ہوں میرے ذہن میں اس گفتگو کے دوران ہی پاکستانی ادب کا تصور اپنے پورے شباب کے ساتھ آجاتا ہے ۔اس لئے کہ میں ہند و پاک کو دو ریاستوں کے ذیل میں دیکھنے کا قائل تو ہوں مگر دو تہذیبو ں کا نہیں۔ان دو سیاسی ریاستوں کے ایک تہذیبی سنگم کوحال فلحال جس ادب نے سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر پیش کیا ہے وہ اردو زبان و ادب ہے ۔اور اردو زبان و ادب میں چند تحریکات کی طرح مارکسی تحریک کا بھی اس میںاہم رول رہا ہے ۔بعض لوگ اس بات پر مصر ہیں کہ اس سے ترقی پسند تحریک ہی کہا جائے جو میرے نزدیک سرا سر غلط تصور ہے، اس لئے کہ کوئی بھی تحریک تنزل پسند کیسے ہو سکتی ہے؟ لہذااگر یہ کائنات جوڑوں میں ہے تو ترقی پسندی کا جوڑا تنزل پسندی ہوگا جو کہ ادب کہ لئے تو بالکل نا معقول جملہ ہے ۔اس لئے کہ ہم اہل ادب ادب کو سماج کی تصویر بتاتے ہیں۔ تو جب سماج کے مصور تنزل پسند ہونگے توپھر سماج کی خاطر پیدہ کردہ شے کی شکل و صورت کیا ہونی چاہیے؟خیر یہ مضمون کی ابتدا ہے جس سے میں ان جملوں کے سوا نہیں کہہ سکتا ۔اس لئے قمر رائیس صاحب کو ہند و پاک کے ترقی پسندیعنی مارکسی ادب کا پچھلے عہد میں نمائندہ نقاد ماننے کے لئے میں بضد تو نہیں ہوں، ہاں مگر وہ اس لائیق ہیں۔کہ انہیں ایک بڑا نقاد تسلیم کیا جائے۔

پروفیسر قمر رائیس اپریل ۱۹۳۲کو شاہجہاں پورمیں پیدے ہوئے تھے ۔ حالانکہ قمر رائیس کی شہرت ان کی پریم چند شناسی ہے لیکن اس بات سے بھی کسی ذی شعور کو انکار نہیں ہو سکتا کہ انہوں نے انسانی نفسیاتی اور سماجی قدروں کا بری سنجیدگی سے مطالعہ کیا اور پھر اس مطالعے کی روشنی میں اردو ادب کے لئے مارکسزم کو از سر نو تھیورائز کرنے کی کوشش بھی کی۔ اکثر مارکسی فن کار روکھے سوکھے لفظوں سے کائنات کا نقشِ نو تیار کرتے ہیں ۔ کچھ ایسے خیالات کہ میں کہاں سے آیا ہوں مجھے کس نے سڑک پر رکھا ہے کون میری بربادی کے سامان تیار کر رہا ہے ،کس نے مجھے دنیا کے عذاب میں مبتلا کردیا ،انہی سوالوں کے جواب چاہتے ہیں لیکن قمر رائیس ان سوالات کے ساتھ ساتھ اپنے تنقیدی شعور کو بروئے کار لاتے ہوئے سماجی الجھنوں کا حل تلاش کرنے کی کوشش بھی کرتے رہے ہیں۔جن کی شائد قمر رائیس کوبھی تلاش تھی بس فرق یہ تھا کہ وہ یہ خواب دوسروں کے ادب پاروں میں دیکھتے رہے اور ان کا حل تلاش کرتے رہے۔ ہاں  لیکن جب خود شاعری کی تو انداز ایسااختیار کیا کہ اس میں غربت کے پستے ڈھانچوں اورعرقِ انفعال  سے تعبیر معصوم زندگیوںکو خاطر خواہ رکھا۔گھر میںبچپن کا ایک نام’’ چھکّن ‘‘بھی تھااور والدین کی طرف سے ودیعت کردا نام مصاحب علی خان کے ساتھ بھی قمر رائیس صاحب کو اتفاق نہیں ہوا ۔جس انسان کے شب وروز شرارت و اسکول میں بھاگ جانے سے مکمل ہوتے رہے ہوں وہ عشق سے کیوں کر دور رہتااسی لئے دو معاشقے بھی لڑائے۔عشق تو خیر عشق ہے کسی کو نام دیتا ہے تو کسی کو زندگی کہیں سببِ موت ہے تو کہیں صبح بہاراں ،چھکّن میاں مصاحب علی خان کو عشق نے نام دے دیا ناکام ٹھہرے تو قمر اور محبوب مِل گیا  تو رائیس ہوگئے یعنی قمر رائیس ان کا نا تو تخلص تھا اور نا ہی کسی نے یہ نام انہیں عطا کیا تھا دو عورتوں سے عشق ہوا اور انہی کے نام سے خود کو اردو ادب میں پیش کرنا پسند فرمایابعد ازاں مصاحب علی خان کوہر انسان بھول کر قمر رائیس کو ہی جاننے پہچاننے لگا۔اردو کے مشہور و معروف ادیب اور ترقی پسند ادب کے مشہور نقاد ،مترجم و صحافی اور صدر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کا انتقال ۲۹ اپریل ۲۰۰۹میں ہواان کی موت پر احمد علی برقی اعظمی نے یہ اشعار کہے تھے۔

نام تلہرجس سے روشن تھا جہاں میںوہ ادیب

ہم کو تنہا چھوڑ کر سوئے جہاں رخصت ہوا

اپنی تنقیدی بصیرت اور حسن خلق سے

جو کہ تھا سب کے دلوںپر حکمراں رخصت ہوا

گلشن اردو میں جس کی ذات تھی مثل بہار

کر کے برپا ناگہاں فصل خزاں رخصت ہوا

ویسے تو قمر رائیس کو ہر ایک ادیب نے ان کی ادبی کاوشوں پر سراہا ہے لیکن یہاںاردو ادب کے مشہور افسانہ نگار کشمیر ی لال ذاکر کو ان کی جو ادا پسند آئی اسے پیش کیا جاتا ہے۔

’’پروفیسر قمر رائیس کا میں اس لئے احترام کرتا ہوں کہ وہ اچھے انسان اور ایماندار دوست کے علاوہ ایک اعلٰی پائیہ کے تنقید نگار کے ساتھ ایک دانشور ،مفکر اور بڑے وسیع وژن والے تخلیق کار بھی ہیں‘‘ص ،۲۰۔ہماری زبان ،۲۰۰۹

ایک ایسا شخص جو جو مذکورہ خوبیوں کا حامل تو بہر حال تھا ہی ،شاعر ،مترجم ،صحافی،مدرس ،اور نقاد ہونے کا شرف رکھتے ہوئے انسانیت کے بنیادی اصولوں سے رو گرداں نا ہو اہو وہ نام قمررائیس صاحب کا ہے۔ جو ان کا اپنا نام انہی کی طرف سے اردو میں مستعمل عام ہے ۔شاعری میں قمر رائیس کی فکر کچھ اس نہج پر رہی۔

مرنے کی کوئی رہ نا جینے کا سبب ہے

جینا بھی یہاں قہر ہے مرنا بھی غضب ہے

آجاو ٔ یہ کوچہ بھی رہ گیسو و لب ہے

زنجیر بھی خنجر پہ لہو بھی یہاں سب ہے

ان اشعار میں لفظوں کی ترتیب وقت و حالات کی جو تصویر ہمارے سامنے ابھر کر آتی ہے اس سے صاف ظاہر ہیکہ وہ موت و زندگی میں انتخاب کے طور پر موت کو ترجیح تو دے رہے ہیں مگر بے بسی کی صورت یہ ہیکہ موت کا راستہ معلوم نہیں اور جینے کے لئے کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی اسی طرح دوسرے مصرعے میں قہر اور غضب کا ایک جگہ استعمال اور پھر اس کا رشتہ راہ اور سبب سے قائم کرتے ہوئے  انہوں نے ہم معنی لفظوں کی دو مختلف صورتیں واضح کی ہیں۔اس سے جس طرح شعر کا حسن دوبالا ہوا ہے ٹھیک اسی طرح شاعر کے وسیع شعری تجربے کا اندازہ بھی ہوتا ہے ۔حالانکہ قمر رائیس صاحب کی ذات میں چھپا شاعر کبھی بھی ہمعصر شعرا کی فہرست میں ممتاز شاعر بن کر سامنے نہیں آیا۔

قمر رائیس نے اردو ادب میں تنقیدی مزاج کو سادگی و برجستگی عنائیت کی ۔لفظوں کو سماجی زندگی کے پیرائے میں داخل کیا اور ادب کی سانسوں میں انجماد سے گریز کیا ۔وہ نثر کے بادشاہ تھے ۔غزل کو آزمایا ٹھیک اسی طرح جیسے وکالت کو ابا جان سے منسوب کر کے دیکھا تو خود کو الگ کر لیا اچھے وکیل تھے مگر انہیں تو اشتراکیت کی وکالت کا نشہ تھا اس لئے کورٹ سے باہر آگئے ۔دیکھا کے علی گڑھ میں پروفیسررشید احمد صدیقی جیسا سماج دوست پروفیسر موجود ہے پریم چند سے ویسے بھی انتہائی لگاؤ تھا اس سے تحقیقی شکل دے کر اردو میں ہی نہیں بلکہ اردوں کے باہر پریم چند سے جڑے لوگوں کو چلتا پھرتا پریم چندایک کتاب کی شکل میں رہتی دنیا تک زندہ کر دکھایا۔ان کا ہر لفظ اشتراکیت کے پانی سے دھل کر بھی ادبی حقیقتوں سے انکار نہیں کرتا شاعروںکو رمزیت و فن سے آگاہ کیاتو یوںگویا ہوئے ۔

’’کسی حقیقی شاعر کے شعری محرکات کسی خارجی تحریک کی ضرورتوں کے تابع نہیں ہوتے ۔عشق کی واردات ،عورت و فطرت کا لازوال حسن رومان انگیز حادثا ت اور دوسرے ان گنت واقعات بھی شاعر کے تخیل اور تخلیقی وجدان کے سہارے شعر میں ڈھل جانے والے تجربات کو جنم دیتے ہیں‘‘ص ۳۶،’’ہندوستانی ادب کے معمار ،علی سردار جعفری‘‘۔

ترقی پسندوں نے یعنی مارکس کے نظریات کو ماننے والوں نے سماج کو ہمیشہ معاشی درجہ بندیوں کے ذیل میں، دیکھا ہے اکثر و بیشتر تو اس پر انتہائی ضد کے دائرے میں چلے جاتے ہیںیعنی بضد و اڑیل ہیں مگر قمر رائیس کا یہاں بھی کچھ الگ خیال ہے ،وہ رقمطراز ہیں۔

’’دُنیا کے عوام صرف بورژو اور پرولتاری طبقوں میں ہی تقسیم نہیں رہے ہیں۔رنگ و نسل ذات پات اور مذہب کی تفریق نے بھی ایک جانب ظلم و استحصال کے راستے کھولے ہیںتو دوسری جانب بنی نوع انسان کے درمیان فاصلوں کی ایسی دیوار یں کھڑی کر دیںجن کو سیاسی نظرئیے اور جمہوری نظام بھی توڑ نہیں سکتے ‘‘ص۶۵،’’ہندوستانی ادب کے معمار،علی سردار جعفری،،۲۰۰۷۔

جمہوری طرزِ حکومت بھی ترقی پسندوں کے لئے کوئی منظم سماج کی خاطر مکمل طریقہ نظام ِ عدل نہیں ہے ۔یہاں وہ جن خرابیوں کو دکھاتے ہیں وہ واقعی اپنی اساس اور اپنے طرز کے اعتبار سے سماج کی فلاح و بہبود کا مکمل ڈھانچہ پیش نہیں کر سکتے ۔کیونکہ سماج مختلف اجزاء کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ جمہوری ریاست ایک کلیہ کی بات کرتی ہیں۔اور پھر مارکسی نظریہ ساز او رسمجھ کے پیرواکار تو اس سے قطعی قبول نہیں کر سکتے وہ تاریخ میں انسانی استحصال کو اسی ایک کلیہ کی شکل میں پیش کرتے ہیں جہاں کل میںجز کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے ،لہذا قمر رائیس صاحب کے لئے بھی یہ سماج کی شکل بالکل وہی تھی۔اس لئے انہوں نے اپنی تنقیدی کی اساس پریم چند سے رکھی ۔چونکہ میں اس حوالے سے بحث کر چکا ہوںکہ قمر رائیس نے سماج کی تقسیم محض پرولتاری و بورژ وکے بیچ نہیں دیکھی ۔در اصل خود کارل مارکس بھی مذہب کو ایک زہرہی سمجھتا تھا اور اس سے ہونے والے مظالم کی داستان کو دنیا کے سامنے رکھنے میں کامیاب رہا ۔رائیس صاحب نے اردو ادب میں سماجی صورت حال پر لکھنے والوں کی تنقیدی تھیوری کو اپنے عہد میں اچھے سے بیان کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کی ۔انہیں یہ شرف بھی حاصل ہیکہ ازبیکی داں بھی تھے ۔اردومیںجدید صدی کی ازبیک شاعری پر ایک کتاب کی شکل میں’’ بیسوی صدی کی ازبیک شاعری‘‘کے مقدمے سے انہوں نے بہت ساری باتوں کی وضاحت کی ہے ۔مثلاً وہ لکھتے ہیں۔

’’ازبیک شعراء کی نمائندہ نظموں کا ترجمہ کسی خاص پروجیکٹ کا نتیجہ نہیںبلکہ میرے بارہ سالہ زمانہ قیام میں یہ کام وقفوں اور قسطوں میں ہوتا رہا۔اس میں میرے عزیز و احباب رحمان بیروی محمد ہائف(مرحوم) اور امیر فیض اللہ کے پر خلوص تعاون کا  اہم حصہ رہا ہے۔بول چال کی ازبیکی سے میرا کچھ تعارف ضرور ہے لیکن شعری زبان کی رمزیت اس کی نزاکت اور لطافت کو سمجھانا اہل زبان ہی کا کام ہے‘‘ ’بیسویں صدی کی ازبیکی شاعری‘ ص۱۹،۲۰۰۱

یہ الگ بات ہیکہ وہ خود اس بات پر زور دے کر اپنے علم کی شیخیاں نہیں جتاتے درحقیقت ان کے ترجموں سے یہ صاف واضح ہوجاتا ہیکہ ازبیکی زبان میں بھی اچھی خاصی مہارت رکھتے تھے ۔اور ان کی زندگی کے بارہ سال جو تاشقند میں گزرے و ہ اردو زبان و ادب کے حوالے سے کافی سود مند رہے ہیں۔مزید ازبیکی زبان کے حوالے سے لکھتے ہیں ۔

’’در اصل ازبیک شاعری میں دو طرح کے اوزان موجود ہیں ۔ایک تو عربی نظام ِ اوزان جو اردو میں بھی رائج ہے اوردوسرا ترکی زبانوں کا اپنا ایک نظام ِ اوزان ہے جو بیس برماق کہلاتا ہے ‘‘ص۲۲ ،’’بیسویں صدی کی ازبیک شاعری ‘‘۲۰۰۱

مندرجہ بالا سطور سے صاف ہوتا ہیکہ موصوف نے کس درجہ ازبیکی سیکھ رکھی تھی اور کس قدر اس کے نظام ِ عروض و بحور سے آشنا تھے۔قمر رائیس نے ترقی پسند شعراء پر بھی مضامین لکھے اور سیر حاصل بحث کی بالخصوص علی سردار جعفری و فیض احمد فیض کے تعلق سے ان کے مقالوں نے اردوں دنیا کو ایک نئی فکر سے روشنا س کرایا ۔وہ شعراء کی جن خوبیوں سے واقف ہوتے ہیں انہیں اس قدر کھل کر بیان کرتے ہیں گویا سامنے والے کو درس دے رہے ہوں اور اس کے سامنے اس کی خامیوں خوبیوں کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔مثلاً جوش ملیح آبادی کی شاعری بر تبصرہ کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں۔

’’بعض ناقدین نے جوش کی کثیر الجہت شخصیت اور شاعری پہ بھی اپنی بے آب اصطلاحوں کی بوسیدہ قبائیں پہنانے کی کوشش کی ہے ۔نتیجہ میں جوش کی شاعری کا تو کچھ نہ بگڑا یہ خود تار تار ہوگئی۔اس سلسلہ میں جوش کی خطائیں بھی کم نہیں ہیں وہ بھی اپنی شاعری کو آتش کدہ ،رنگ و بو اور اسلامیات جیسے خانوں میں تقسیم کرتے آئے ہیں گویا شاعر کا کلام نہ ہوا کبوتروں کی کابک ہوگئی‘‘ص۱۰۳۔’’جوش ملیح آبادی خصوصی مطالعہ‘‘ ،۲۰۰۵۔

اس نو کے وہ تمام مضامین جو ان کے رہین منت ہیں صرف انہی کا ملکہ ہیں حالانکہ میں اس بات کا قائل نہیں پھر بھی یہ تسلیم کرنا پڑھے گا کہ قمر رائیس صاحب کی فکر میں رشید احمد صدیقی ؔصاحب کا جلوہ بھی دیکھا جا سکتا اس لئے کہ استاد کے اندازِ فکر سے طلب علم کو فیض نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں، لہذا انہوں نے اپنا وہ وقت جو رشید احمد صدیقی ؔصاحب کے ساتھ بطورایک محقق گزارا وہ بھی ان کے سرمایہ کل کا ایک اہم جز ہے ۔قمر رائیس کا ہر ایک تنقیدی کام اہم ہے اور قابل داد بھی مگر پریم چند کے فکر و فن اور ان کی حیات و کارگردگیوں کو جس طرح انہوں نے پیش کیا نہ تو ان سے پہلے اس نوعیت کا کام اس تعلق سے موجود تھااور نا ہی اب تک کسی نے اس طرح پریم چند کی نجی زندگی سے لے کر ان کے ادبی کارناموں کو یکجا کیا ہے۔جدید اردو افسانے کے مسائل و مباحث بھی ان کے رہین منت رہے ہیں اسی طرح جدید غزل پر اپنے مضامین میں علمی و سماجی نقطہ نظر سے گفتگو کر کے اہلیان اردو کو ما بعد جدیدت و جدیدیت کے عہد میں بھی ترقی پسندی سے الگ نہیں ہونے دیا ۔قمر رائیس نے علم کی سماجی تشریح کا بھیڑا اٹھا یا جو ان کے نزدیک ایک سچے فن کارکی پہچان ہوتی ہے اور آخری دم تک اس سے کا پیچھا نہیں چھوڑا ۔دہلی یونیورسٹی میں بطور استاد خدمات انجام دیں اس کے بعد وہی کہ جو طبعیت کو موزوں لگا اس سے سر خامہ صریر کیا ۔پریم چند سے علی سردار جعفری تک کے ان تمام ترقی پسندوں کو اپنے قلم کی نوک پر لائے جو بھی ان کے پیش رو یا ہم عصر تھے ۔فیض احمد فیض کے تعلق سے ایک مضمون میں یوں لکھتے ہیں۔

’’فیض کی غزل میں رموز و علائم کا جو نظام ہے وہ فارسی اور اردو کی کلاسیکی شاعری سے ماخوذ ہے ۔قفس ،آشیانہ ،آتشِ گل،صیاد،گلچیں ،صبا ،باغباں،بلبل،سرد و سمن،ناصح،شیخ،منصور و قیس،اور اس طرح کے دوسرے بے شمار علامتی اظہارات فیض کی غزل میں ملتے ہیں۔لیکن ان وجہ سے فیض کی شاعری کو کلاسیکی شاعری کی توسیع نہیں کہا جا سکتا‘‘ص ۳۰۰،’’معاصر اردو غزل مسائل و میلانات ،،۲۰۰۶

ویسے یہ بات تو عیاں ہیکہ کسی شاعر کے محض چند لفظوں کی تہذیب کو اس کی شاعری کے پورے مادہ علم یا ڈسکورس سے جوڑ کر حد بندی کر دی جائے تو بھلا اس کو شعر کہنے کی کیا ضرورت تھی وہی بات تو نثر میں ان جملے یا لفظوں سے کہی جا سکتی تھی ۔اس طرح قمر رائیس کسی بنائے گئے یا موجود نظام ِ نقد کی پیروی نہیں کرتے ہیںبلکہ اپنے علم و تجربے سے شاعر و فکشن نگار کے لئے بحث و مباحثے کا دروازہ کھولتے ہیں۔ان کے تراجم نے ازبیکستان کی تہذیب کا نقشہ ہمارے سامنے رکھا ہے اور یوں ہی اردو کے ممتاز فکشن نگاروں کے تراجم سے ازبیکی زبان کو ہندستانی معاشرے کے بنیادی نکات سے ہم آہنگ ہونے کا شرف بخشا ہے ۔پروفیسر قمر رائیس سے منسلک حضرات ان کی تعریفیں کرتے دکھائی دیئے ۔ویسے ادیبوںکی چشمک کے قصے چلتے ہی رہتے ہیں لیکن قمر رائیس صاحب اس میدان میں کئی بڑے ادیبوں سے کم تر ہیں کہ وہ معرکہ آرائی کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ان کی زندگی کی الجھنیں ادب پاروں کی تفہیم تھی اوروہ اسی اعتبار سے جانے جاتے ہیں۔انہوں نے کوئی نئی ادبی تھیوری تو نہیں دی لیکن دی گئی تھیوریز کی تفہیم میں کارہائے نمایاں انجام دیئے۔یہی وہ کام ہے جس کے لئے اردو ادب کا ہر باذوق قاری انہیں سراہتا رہے گا اور ان کے تنقیدی مضامین کی نہج پراپنے علم کی بساط کو پائے تکمیل تک لے جانے میں خیریت سمجھے گا ۔قمر رائیس صاحب کی پریم چند دوستی کی ایک بڑی وجہ جس تک میں پہنچ سکتا ہوں شائید یہ ہو کہ وہ ارود ادب میں پریم چند کے اسلوبِ نگارشات  سے سماجی زندگی کے ادھورے خوابوں کی تکمیل کا سہارا ڈھونڈتے ہوں ،اور نئی نسل کو پریم چند کے کرداروں کی روشنی میں دیکھنے کا درس دینے کی سعی کرتے ہوں ،ہو سکتا ہے وہ اس سے نئے فن کاروں کو نئی راہ دینے میں اردو ادب کا بھلا سمجھتے ہوں اس لئے پریم چند سے انتہا ئی محبت کا ثبوت دیا ۔جب بھی کوئی آدمی اس درجہ بلندی حاصل کر لے کہ اس کے آئیڈئل کی تصویر اس سے کہیں بڑی اور اس کا آئیڈئل باقی سب میں ممتاز بھی ہو تو ایسے آدمی کی نجی زندگی و سماجی زندگی دونوں بالکل کھلی کتاب ہو جاتی ہے ۔کیونکہ وہ سماج کا اتنا بڑا دوست بننا چاہتا ہے جتنا بڑا سماج دوست اس کا آئیڈئل ہو ،لہذا قمر رائیس نے سماجی زندگی کی تفہیم پریم چند کے بنائے گئے زاویوں میں کی ہے اس لئے قمر رائیس کو پڑھنے سے پہلے قاری پر یہ ذمہ داری عائید ہوجاتی ہیکہ وہ پریم چند ،رشید احمد صدیقی ،فیض احمد فیض اور علی سردار جعفری کو ضرور پڑھے اور پھر ان کے پورے عکس کو دیکھے جو قمر رائیس کے ہاتھوں صفحہ قرطاس پر لایا گیا ہے۔اولذکر تو ان کا آئیڈل تھا مگر دوسرے ان کے ہم نشیں بھی تھے لہذا ترقی پسندوں کی جڑ سے چوٹی تک کا ڈھانچہ قمر رائیس کے اندر پیوست ہوگیا تھا۔اس لئے اس عہد یعنی عہد جدید کے ترقی پسند جنہیں  میں سیدھا مارکس پسند کہتا ہوں یا جنہیں اشتراکیت پسند بھی کہا جاتا ہے کوسمجھنے کے لئے قمر رائیس کو سمجھنا نا کہ صرف اہم ہے بلکہ ان کے بنا اس عہد کی اشراکیت پسندی کی تفہیم نا مکمل رہے گی ۔قمر رائیس صاحب جیسے لوگوں کے لئے ہی’’ فرینک سمیتھ ‘‘نے کہا تھا

one language sets you in a corridor of life .two languages open every door along the way

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 Qamar Raees ki Adabi Shakhsiyat ke Hand Pahlu by: Ghulam Mustafa

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.