ن۔م۔راشد کی نظم گوئی

عبدالحلیم انصاری(محمد حلیم)

 شعبہ اردو ،رانی گنج گرلس کالج،مغربی بنگال(انڈیا)

9093949554

 ن۔م۔راشدحلقہء ار باب ذوق سے وابستہ شاعروں میں سے تھے جنہوں نے شاعر ی کو محض اصلاحی وسماجی انقلاب یا سیاسی پیغام کے لئے استعمال کرنے کے روئیے سے بغاوت کی اور اس طرح ترقی پسند تحریک کی نظریاتی شاعری سے انحراف کیا۔ان کی شاعری کا محور و مرکز انسانی حیات کی گوں نا گوں سچائیاں ہیں۔انہوں نے اردو شاعری کو نئی فکری و فنی جہتوں سے آشنا کیا اور روایتی اسلوب شاعری سے بغاوت کی۔انہوں نے خود اپنے پہلے شعری مجموعے ’’ ماورا ‘‘ میں خود کو ’’ قدیم اسالیب بیان کا ادنی ٰباغی قرار دیا ہے۔

 انہوں نے پابند نظموں سے زیادہ آزاد اور معریٰ نظم کو اپنی تخلیقی اظہار کا وسیلہ بنایا اور اس میں مختلف ہئیتی تجربے کئے۔’’ ماورا ‘‘،’’ایران میں اجنبی ‘‘ انسان ‘‘  اور ’’ گمان میں ممکن ‘‘ ان کے شعری مجموعے ہیں جو اردو شاعری میں نئی حسیت اور نئے تجربوں کی امین ہیں۔’’ رات کے سناٹے ‘‘،’’ اتفاقات ‘‘،’’ دریچے کے قریب ‘‘ ،’’ رقص ‘‘ ، انتقام ‘‘ ،’’ اجنبی عورت ‘‘،’’ نمرود کی خدائی ‘‘ راشد کی نمائندہ نطموں میں شمار کی جا تی ہیں۔ان کی نظم ’’ اتفاقات ‘‘ سے انکے شعری روئیے اور فکری جہات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

آسماں دور ہے لیکن یہ زمیں ہے نزدیک

آ اسی خاک کو ہم جلوہ گہہ راز کریں

روحیں مل سکتی نہی ہیں تو یہ لب ہی مل جائیں

آ اسی لذّت ِ جاوید کا آغاز کریں

صبح جب باغ میں رس لینے کوگر ہوا آئے

اس کے بوسوں سے ہو مدہوش سمن اور گلاب

شبنمی گھاس پہ دو پیکر یخ بستہ ملیں

اور خدا ہے تو پشیماں ہوجائے

 ان کی ایک اور نظم  ’’ دریچے کے قریب ‘‘ بھی ملاحظہ ہو۔

اسی مینار کے سائے سائے تلے کچھ یاد بھی ہے

اپنے بیکار خدا کے مانند

اونگھتا ہے کسی تاریک نہاں خانے میں

ایک افلاس کا مارا ہوا ملائے حزیں

ایک عفریت اداس

تین سو سال کی ذلّت کا نشاں

ایسی ذلت کہ نہیں جس کا مداوہ کوئی

 مذکورہ بالا دونوں نظموں میں دو الگ الگ فکری لہریں موجزن ہیں۔ایک میں ذاتی احساسات وکیفیات کا بیان ہے تو دوسرے میں سو سالوں سے ذلّت اور محرومیوں کے تاریک غار میں سوئی ہوئی قوم کا نوحہ ہے۔یہ نظم انکی سماجی وابستگی کا آئینہ ہے گو کہ وہ فرد کی آرزوئوں ،تمنّائوں اور اس کے وجودی مسائل کا ذکر بھی اپنی نظموں میں کرتے ہیں۔اس طرح وہ فرد کے ساتھ ساتھ سماج کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیںکیونکہ راشدؔ کا دور سیاسی انتشار اور سماجی اضطراب کا زمانہ تھا۔اُس دور میں بیک وقت کئی سیاسی ،ادبی اور سماجی تبدیلیاں پیدا ہو رہی تھیں۔لہذا، راشدؔ کے لئے ان تبدیلیوں اور تحریکوں سے منہ موڑنا ممکن نہیں تھا۔یہی وجہ ہے کہ راشدؔ کی نظموںمیں فرد کی داخلی اضطراب کے ساتھ معاشرے کا اجتماعی درد بھی فنی تقاضوں کے دائرے کے اندر ظاہر ہوتا ہے۔ان کی نظموں میں رومانی فضا بھی ملتی ہے مگر اس میں ایک اضطراب ،ایک بے چینی اور روحانی کرب کا اظہار بھی ملتا ہے اور وہ اس اضطراب اور بے چینی کی کیفیت سے کہیں دور نکل جانا چاہتے ہیں۔

میں نالہء شب گیر کے مانند اٹھوں گا

فریاد اثر گیر کے مانند ٹھوں گا

تُو وقت ِ سفر مجھ کو نہیں روک سکے گی

پہلو سے تیر کے مانندا ٹھوں گا

گھبرا کے نکل جائوں گا آغوش سے تیری

عشرت ِ گہہ سرمست و ضیا پوش سے تیری

  (نظم۔رخصت)

 یا پھر انکی یہ نظم ملاحظہ ہو جس میں وہ اسی خوابناک فضا سے نکل کر کسی انجان اور مثالی جہاں میں چلے جانے کی تمنّا کرتے ہیں۔

مرے محبوب جانے دے مجھے اس پار جانے دے

اکیلا جائوں گا اور تیر کے مانند جائوں گا

کبھی اس ساحلِ ویران پر میں پھر نہ آئوں گا

ّ  ( نظم۔خواب کی بستی)

 راشدؔ کے یہاں محبت کا رومانی تصور وہی ہے جو فیض ؔ کے یہاں ملتا ہے۔فیضؔ کے یہاں عشق سماجی ذمہ داریوں پر قربان ہو جاتا ہے۔ان کے یہاں عشق ہی سب کچھ نہیں ہے بلکہ معاشرے کی پریشانیاں اور محروی عشق پر مقدم ہے اس لئے وہ کہتے ہیں۔

اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کے راحت کے سوا

 اور وہ یہ بھی کہتے ہیں

مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ

 راشدؔ کے یہاں سماجی ذمہ داریوں کا یہی احساس اسے محبوب کی عشرت گہہ سرمست و ضیا پوش سے نکل جانے پر اُکساتا ہے مگر یہاں راشد اپنی باتیں رمز وایما  کے پردے میں کہتے ہیں۔ان نظموں میں زندگی سے فرار یا پھر ایک نئے جہان کی تلاش کا جذبہ جھلکتا ہے۔ان کی نظم  ’’ وادیء پنہاں ‘‘ میں یہی خواہش جا گزیں ہے۔

مجھ کو ہے اب تک تلاش

زندگی کے تازہ جولاں گاہ کی

اور بیزاری سی ہے

زندگی کے کہنہ آہنگ مسلسل سے مجھے

سر زمیں زیست کی افسردگی محفل سے مجھے

 یہی خواہش یہی تلاش راشد ؔ کے ذہن میں باغیانہ میلان کو جنم دیتی ہے جو ان کے ہمعصر میرا جیؔ اور بعد کے شعراء میں نظر آتا ہے۔فرسودہ روایات و عقائد کی زنجیر وں میں جکڑا ہوا یہ سماج راشدؔ کے اندر گٹھن کا احساس پیدا کرتا ہے اور وہ تمام سماجی حد بندیوں کو توڑ کر ایک ایسی دنیا میں نکل جانا چاہتے ہیںجہاں ’’ زندگی کا کہنہ آہنگ ِمسلسل ‘‘ نہ ہو اور زیست کی سر زمیں افسردہ نہ ہو۔وہ خدا کی ذات کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیںجو جدیدیت کے دور کی نمایاں خصوصیت ہے اور جنس کے تئیں بھی ایک باغیانہ رویہ اختیار کرتے ہیںجو میرا جی ؔ کے یہاں بھی ملتا ہے۔جنس میرا جی ؔ اور راشدؔ کے یہاں شجرِ ممنوعہ نہیں ہے اور نہ ہی جنسی خواہشات اور فرسٹریشن کے اظہار میں جھجھک ہے۔کیونکہ وہ جنس کو انسانی فطرت کا ایک اہم جز تصور کرتے ہیں۔اس کے گرد تقدیس کا ہالہ بُننے کے منافقانہ زاوئیے کا تمسخر اُڑاتے ہیں۔اپنی نطم ’’ حزنِ انسان ‘‘ میں وہ اپنے اسی مئوقف کا اظہار کرتے ہیں۔

آہ انسان کہ ہے وہموں کا پرستار ابھی

حُسن بے چارہ کو دھوکہ سا دیئے جاتا ہے

ذوق ِ تقدیس پہ مجبور کئے جاتا ہے

ٹوٹ جائیں گے کسی روز مرا پر کے تار

مسکرا دے کہ ہے تابندہ ابھی ترا شباب

ہے یہی حضرت یزداں کے تمسخر کا جواب

 انکی نظم’’  مکافات‘‘ میں بھی اسی فرسٹریشن کا بیباک اظہار ہے۔

دبائے رکھا ہے سینے میں اپنی آہوں کو

وہیں دیا ہے شب و روز پیچ و تاب انہیں

کیا نہیں کبھی وحشت میں بے نقاب انہیں

خیال ہی میں کیا پرورش گناہوں کو

کبھی کیا نہ جوانی سے بہرہ باب انہیں

یہ مل رہی ہے مرے ضبط کی سزا مجھکو

کہ ایک زہر سے لبریز ہے شباب مرا

فشار ِ ضبط سے بے تاب ہے رباب مرا

لو آگئی ہیں وہ بن کر مہیب تصویریں

وہ آرزوئیں کہ جن کا کیا تھا خوں میں نے

اے کاش چُھپ کے کہیں اک گناہ کر لیتا

حلاوتوں سے جوانی اپنی بھر لیتا

 راشدؔ جنس کے مذہبی تصور کو نہیں مانتے اور اسے ویشومت کے فلسفے کے زیر اثر روحانی تسکین کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

رہنے دے اب کھو نہیں باتوں میں وقت

اب رہنے دے

وقت کے اس مختصر لمحہ کو دیکھ

تو اگر چاہے تو یہ بھی جاوداںہوجائیگا

مطمئن باتوں سے ہو سکتا ہے کون؟

روح کی سنگین تاریکی کو دھو سکتا ہے کون ؟

  اور جنسی خواہشات کی تشکیل کے بعد غم کے بحر بیکراں میں سکون پیدا ہو جاتا ہے۔

تیرے سمن زاروں میں ،اٹھیں لرزشیں

میرے انگاروں کو بے تابانہ لینے کے لئے

اپنی نکہت اپنی مستی مجھکو دینے کے لئے

غم کے بحر بیکراں میں ہوگیا پیدا سکوں

  (نظم۔ ایک رات )

 لہذا،ن۔م۔راشد کی سطحی جنسیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:

 ’’ اسی طرح ‘‘،’’ آنکھوں کے جال‘‘ ،’’ گناہ‘‘ اور عہد وفا ‘‘ میں راشد ؔ نے محبت کی مسرت کو گناہ کی لذ تک تک محدود کر دیا ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ وہی شاعرجو ابتداء میں محبت کو گناہ سے کہیں زیادہ ارفع تصور کرتا ہے اور گناہ کی ’’ ہوس پرستی  ‘‘سے محبت کی ’’ پاکیزہ زندگی ‘‘کی طرف مراجعت کو ’’فردوس گم گشتہ ‘‘کی تلاش قرار دیتا ہے۔جب بعد ازاں بے اطمینانی کا شکار ہوتا ہے تو محض انتقاماً محبت پر گناہ کو فوقیت دینے لگتا ہے۔بہر حال ،راشدؔ کے یہاں محبت کو تصور سے انحراف کی صورت اختیار کر گیا ہے اور راشد ؔ کی بغاوت کا یہ ایک قابلِ ذکر غور پہلو ہے۔محبت کو ضمنی لذّت کے حصول تک محدود کرکے اور خواب و خیال کی غیر مادی دنیا کے مقابلے میں گزرتے ہوئے لمحے کی’’ ٹھوس مادیت ‘‘کو اہمیت دے کر راشد ؔ نے نہ صرف محبت کے سلسلے میں ماحول کے عم رجحانات سے بغاوت کی ہے بلکہ اس نقطہء نظر سے بھی نفی کی ہے جو مشرق میں زمانہء قدیم سے رائج رہا ہے اور جس کے تحت گزرتا ہوا لمحہ سراب محض ہے۔غور کیجئے تو راشدؔ کی اس بغاوت میں اس فرد کی سرکشی بھی دکھائی دیتی ہے جس نے مغربی تعلیم حاصل کرکے اور مغربی فکر سے آشنا ہوکر مشرقی روایات کا جوڑا اپنے کندھوں سے اتار پھینکا تھا اور روحانی مسائل سے سرو کار رکھنے کے بجائے مادے کی ٹھوس دنیا کو اہمیت دینے اور گزرتے ہوئے لمحے سے مسرت کا رس نچوڑ لینے کی طرف مائل ہو گیا تھا۔‘‘

  (نظم کی جدید کروٹیں از ڈاکٹر ازیر آغا،ص۔۴۱)

 جنس سے متعلق معاشرے کے روایتی مشرقی تصور کے علاوہ راشدؔ کے یہاں خدا سے متعلق ایک باغیانہ لہجہ ملتا ہے جو نطشے ؔسے متاثر ہے۔حلقہء ارباب ذوق اور بعد میں جدیدیت کے تحت ہونے والی شاعری میں خدا کی ذات سے متعلق تشکیک اور باغیانہ رویّہ عام تھا۔نطشےؔ نے خدا کی موت کا اعلان کر دیا تھا۔یہ دراصل سماجی انتشار،انسان کی بدحالی اور دنیا میں تباہی و بربادی پر شاعروں اور فلسفیوں کا غیر روایتی ردِّ عمل تھا۔راشد ؔ کے یہاں بھی خدا سے بغاوت کا کم وبیش یہی انداز ملتا ہے۔ ’’پہلی کرن ‘‘ ، ’’دریچے کے قریب ‘‘ ،شاعرِ درماندہ ‘‘  اور ’’ اتفاقات ‘‘ انکی ایسی ہی نظمیں ہیں۔

نہیں اس دریچے کے باہر تو دیکھو

خدا کا جنازہ لئے جا رہے ہیں فرشتے

اسی ساحر بے نشاں کا

جو مغرب کا آقا ہے مشرق کا آقانہیں

 (نظم۔پہلی کرن)

تکھے معلوم ہے مشرق کا خدا کوئی نہیں

اور اگر ہے تو سرا پردہء نسیاں میں ہے

 ( نظم۔ شاعرِ درماندہ )

 مگر وزیر آغا ،راشد کو منکر خدا نہیں مانتے تھے۔انکے خیال میں راشدؔ خدا کی ’’ ناانصافی ‘‘ کو طنز کا نشانہ بنا تے ہیں۔اس خدا مخالف روئیے کا نفسیاتی تجربہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

 ’’ یہ نہیں کہ راشد ؔخدا کے منکر ہیں۔انہوں نے اپنی بہت سی نظموں میں مغرب کے خدا کے وجود کو تسلیم اور مشرق کے خدا کا انکار کرکے دراصل خدا کی ’’ ناانصافی ‘‘ کو نشانہء طنز بنایا ہے۔تاہم یہ طنز ایک ایسے فرد کی طنز ہے جو بے اطمینانی کا شکار ہو کر انتقامی روش اختیار کرنے پر مجبور ہوگیا ہو۔ان نظموں میں راشد ؔ نے جو بات کہی ہے اس کی صداقت یا عدم صداقت سے بحث نہیں ہے۔دیکھنے کی چیزصرف اس قدر ہے کہ بات میں سمّیت کا عنصر کس قدر ہے۔اور ردِّعمل میں جذباتی انداز کا کیا عالم ہے۔میری رائے میں اگر راشدؔ کے فرد کے پیش نظر محض انتقامی جذبات کی تسکین نہ ہوتی تو وہ اس بات کا ایسے چبھتے ہوئے انداز میں ہر گز پیش نہ کرتا۔‘‘

 (نظم کی جدید کروٹیں از ڈاکٹر ازیر آغا،ص۔۴۳۔۴۲)

 راشد ؔکی شاعری میں اگرچہ فرد کے داخلی کرب اور عقیدے کا اظہار زیادہ ہوا ہے مگر وہ گہرا سماجی شعور بھی رکھتے ہیں اور سماجی مسائل سے بھی مضطرب رہتے ہیں۔راشدؔ ترقی پسند وں کی سماجی انقلاب کے پروپگنڈوے اور شاعری میں سیاسی نعرے بازی کے مخالف تھے مگر وہ سماج کے درد کو شاعری میں فنی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے پرونے میں بھی یقین رکھتے تھے۔انکی نظم ’’ مجھے وداع کر ‘‘ میں اس سماجی شعور کی کارفرمائی ہے۔

مجھے وداع کر

کہ آب و گل کے آنسوئوں

کی بے صدائی سُن سکوں

جات ومرگ کا سلام روستائی سُن سکوں

میں روز و شب کے دست و پا کی نارسائی سُن سکوں

مجھے وداع کر

کہ شہر کی فصیل تمام در ہیں واں ابھی

کہیں وہ لوگ سو نہ جائیں

بوریوں میں ریت کی طرح

میں ان کے سیم وزر سے ان کے

جسم و جاں سے

کولتار کی نہیں ہٹائوں گا

تمام سنگ پارہ ہائے برف

ان کے آساتانوں میں اٹھائوں گا

ان ہی سے شہر نو کے راستے تمام بند ہیں

 راشد کے ابتدائی دور کی ایک نظم ’’ انسان ‘‘  ہے جس میں یہی سماجی شعور نمایاں ہے۔

الٰہی تیری دنیا جس میں ہم انسان رہتے ہیں

غریبوں ،جاہلوں،مُردوں،کی بیماروں کی دنیا ہے

یہ دنیا بے کسوں کی اور لاچاروں کی دنیا ہے

ہم اپنی بے بسی پر رات دن حیران رہتے ہیں

یہاں زندگی اک داستاں ہے ناتوانی کی

 راشدؔ جس دور میں شاعری کر رہے تھے وہ دور تحریک آزادی کے شباب کا دور تھا۔غیر ملکی استبداد کے خلاف قلمی وعلمی طور پر جدوجہد جاری تھی۔شاعروں نے اپنے اپنے اسلوب و لہجے میں اس غیر ملکی غلبے اور سامراجی طاقت کے خلاف القلاب وبغاوت کا پیغام دیا۔راشد ؔ نے بھی ایسی نظمیں کہیں جن میں بغاوت کی تر غیب اور ایک نئی صبح کی بشارت ہے۔انکی نظم ’’ زنجیر ‘‘ اس سلسلے میں قابلِ ذکر ہے۔

گوشہء زنجیر میں

اک نئی جنبش ہویدا ہو چلی

سنگِ خارا ہی سہی ،خار مغیلاں ہی سہی

دشمن ِ جاں ،دشمن ِ جاں ہی سہی

دوست سے دست و گریباں ہی سہی

یہ بھی تو شبنم نہیں

یہ بھی تو مخمل نہیں،دیبا نہیں ،ریشم نہیں

ہر جگہ پھر سینہء زنجیر میں

اک نیا ارماں نئی امید پیدا ہو چلی

کوہ ساروں ،ریگ زاروں سے ندا آنے لگی

ظلم پروردہ غلامو بھاگ جائو

پردہ شب گیر میں اپنے سلاسل توڑ کر

چار سو چھائے ہوئے ظلمات کو اب چیر جائو

اور اس ہنگام ِ باد آورد کو

 حیلہء شب خوں بنائو

 راشدؔنے موضوعاتی سطح پر جہاں اپنی انفرادیت قائم کی وہیں انہوں نے اپنے ہم عصروں میں لفظیات ،اسلوب،اور ہئیت کے معاملے میں بھی الگ راہ اختیار کی۔وہ اگر چہ میرا جیؔ کے ہم عصروں میں تھے اور میرا جی نے ؔ اپنے ہمعصروں پر گہری چھاپ چھوڑی تھی مگر راشد ؔ لفظیات کے معاملے میں میراجیؔ سے بہت مختلف تھے۔میراجیؔ کی شاعری میں جہاں ہندی الفاظ اور ہنو دیو مالا و اساطیری فضا ملتی ہے اہیں راشدؔ کے یہاں عربی و عجمی روایات کی پاسداری ہے۔نیز راشدؔ کی لفظیات اقبال ؔ کی لفظیات سے متاثر ہے۔اپنی نظموں کو انہوں نے الفاظ کے رکھ رکھائو ،نزاکت اور فنی تجربوں سے فنی شاہکار بنا دیا۔

 انہوں نے جدید نظم کو انتہائی بلندی عطا کی اور نئی نظم کو اظہار کے نئے زاوئیے سے روشناس کیا۔انہوں نے اردو نظم کو مغربی شاعری کے فنی وجمالیاتی اقدار سے متعارف کرایا اور جدید دور کے انسان کے مسائل اور نفسیاتی الجھنوں کو نظموں کا لبادہ عطا کیا۔علاوہ ازیں نظم کی ہئیت کو نئے موضوعات کی پیش کش کے لئے اپنایا اور اسے عروج عطا کیا۔وہ ہئیت کے متعلق اپنے مئوقف کا اظہار اپنے مضمون ’’ جدیدیت کیا ہے ‘‘ میں کرتے ہیں:

 ’’ جدید شاعری کے نزدیک جہاں ہئیت کی کوئی پابندی نہیں وہیں موضوعات کا میدان بے کنار ہے بلکہ ہئیت کی پابندی بھی اس لئے نہیں تاکہ وہ موضوعات کی مجبوری کا بہانہ نہ بن جائے۔‘‘

 اس طرح راشدنظم کو ہئیتی پابندیوں سے اس لئے آزاد کرتے ہیں تاکہ اس میں انسان اور معاشرے سے متعلق کوئی بھی موضوع کسی بھی نقطہء نظر یا عقیدے کے تحت نظم کی جاسکے اور اس موضو ع کو نظم کرنے میں ہئیت آڑے نہ آئے۔راشد ؔ کے پہلے دو شعری مجموعوں ’’ ماورا ‘‘ اور ’’ ایران میں اجنبی ‘‘ میں پابند نظموں کا آہنگ ملتا ہے مگر بعد میں انہوں نے کھل کر آزاد نظوں کی ہئیت کا استعمال کیا اور اس میں اظہار کے نئے نئے طریقے تلاش کئے۔انہوں نے مصرعوں میں داخلی آہنگ اور موسیقیت پر زیادہ زور دا اور الفاظ کی نشست و برخاست پر خصوصی توجہ دی۔

 لہذا، یہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ راشدؔ نے اردو نظم کو موضوعاتی،ہئیتی اور اسلوبیاتی سطح پر باغیانہ روش سے مالا مال کیااور اردو ادب پر جو جمود طاری تھا اسکو توڑنے میں اہم رول ادا کیا۔راشدؔ جدید اردو نظم میں ایک ہم سنگ میل کی حیثیت سے یاد کئے جائیں گے۔

٭٭٭

Nun Mim Rashid ki Nazm Goi by: Abdul Haleem Ansari

Leave a Reply

1 Comment on "ن۔م۔راشد کی نظم گوئی"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
Imran
Guest

Thnx sir
Isee yeah
Meera g faiz Ahmad faiz
Mjeed Amjad aor jadeed nzm ngaar ka hawala send kr den

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.