صرف ایک دن کے لئے۔۔۔۔۔ ایک جا ئز ہ

ڈا کٹر رضا محمود

لکچرر شعبہ اردو جمو ں یو نی ور سٹی

razakhan959636464@gmail.com

  ابن ِ کنول کا افسا نہ ’’ صرف ایک دن کے لئے ‘‘ استعا را تی اسلوب میں لکھا گیا ہے۔یہ سما جی اساطیریت سوشل متھا لو جی (Social Mythology )پر لکھا گیا ایک کا میاب افسا نہ ہے۔سما جی استعا راتی افسا نے کی خصو صیت یہ ہو تی ہے کہ یہ لکھا تو جا تا ہے ما ضی کے دا ستا نوی کر دار اور  ماحول کے حوا لے سے۔ لیکن اس کی معنو یت اور تاثراتی جڑ یں دور ِ حا ظر کے سما جی ، سیا سی اور تہذ یبی حا لات میں پیو ست ہوتی ہیں۔

افسا نہ’’ صرف ایک دن کے لئے ‘‘میں افسا نہ نگار نے عصر حا ضر کے حکمر انو ں کی صفا ئی مُہم( سو چھتا ابھیان ) کی جا نب اشا رہ کیا ہے قصہ طنز یہ اندا ز میں شروع سے آ خر تک حقیقت پسندا نہ طر یقے سے بیان کیا گیا ہے۔ کہانی یہ ہے ایک  علا قے میں اعلان کیا جاتا ہے کہ آ ٹھ روز بعد با دشاہ سلا مت اس گا ئوں میں تشریف لا ئیں گے اور غر یبو ں کی فر یا دیں سنیں گے۔ گا ئوں کے تمام لوگوں سے در خوا ست ہے کہ وہ یہا ں کی صفا ئی میں مدد کر یں۔

 گا ئوں کے لو گو ں کی خو شی کی انتہا نہ رہی ہر شخص با دشاہ سلامت کی آمد کے انتظار میں اپنے گا ئوں اور گھر وں کی صفا ئی میں مصروف ہو گیا۔ اس مو قعے پر افسا نہ نگار نے یہ دکھا نے کی کوشش کی ہے کہ آ ج بھی گا ئوں میں جب کسی بڑ ے رہنما کی آ مد کا اعلان ہو تا ہے تو پسما ندہ گا ئوں کی نفسیا تی کیفیت کیا ہو تی ہے اس نقطے کو افسا نہ نگار نے دو منا ظر سے پیش کیا ہے :

۱۔’’ الف کی بیوی نے کہا ؛

سنتے ہو میں سوچ رہی ہوں کہ با دشا ہ سلا مت کے آ نے وا لے دن اپنی گا ئے کے دو دھ کی کھیر بنا کر رکھ لوں۔ اگر وہ ہما رے جھو نپڑے میں آ ئے تو کھلا دو ں گی۔ با زار سے تھو ڑا نا ریل لیتے آ نا۔ ‘‘

’’ ٹھیک ہے ذرا اچھی سی بنا نا۔ حا کم لو گ ہیں پتہ نہیں کیسا کھا تے ہوں گے۔‘‘

ٓٓالف نے یہ بات اتنے اعتماد سے کہی جیسے با دشاہ صرف اسی کا مہمان ہو‘‘۔ ’’ ابن ِکنول۔ پچاس افسا نے۔ سنِ اشا عت ۲۰۱۴؁ء۔ص۔ ۱۱۲( ایچ۔ایس آ فسٹ پر نٹر س نئی دہلی )

۲۔ ’’ جیم ‘‘ اپنی بیوی اور جوان بیٹیوں سے کہہ رہا تھا :

’’ ارے تم لو گوں نے ابھی تک کچھ نہیںکیا۔ با دشا ہ سلا مت کے آ نے میں صرف پا نچ دن با قی رہ گئے ہیںمیں نے کہا تھا کہ گھر کے دروا زے کے آس پاس سفیدی کر لو۔ٹوٹی پھو ٹی اینٹو ں کو ہٹا دو۔ ارے با دشاہ سلامت دیکھیں گے تو کیا کہیں گے ‘‘ اور اس کی بات ختم ہو تے ہی سب صفا ئی کے کام میں لگ گئے۔

ہر گھر سے یہی آ وا زیں آ رہی تھیں۔

’’ سنیے میں تو اس روز اپنے گھر کے دروا زے پر بہت سے چر اغ جلا کر رو شنی  کرو ں گی۔‘‘

’’ تو کیا ہوا رات کو بھی ٹھہر یں گے۔ گا ئوں کی رات بھی دیکھیں گے۔ میں تو کہتی ہو ں پوری بستی میں چرا غ جلنے چا ہئیں تا کہ اند ھیرا پتہ ہی نہ چلے۔‘‘

’’ ہا ں اپنی زند گیو ں میں تو اند ھیرا ہے لیکن اپنے حا کم کے را ستو ں کو رو شن کر نے کے لئے اپنے لہو کے چرا غ جلا نے چا ہئیں۔‘‘

  ابن ِ کنول۔ پچاس افسا نے۔ سنِ اشا عت ۲۰۱۴؁ء۔ص۔ ۱۱۳( ایچ۔ایس آ فسٹ پر نٹر س نئی دہلی )

 لیکن یہ افسا نہ اکیسو یں صدی کا افسا نہ ہے اور اکیسو یں صدی میں گا ئوں اور قصبو ں میں بھی صرف سید ھے سا دھے  لو گ ہی نہیں رہتے جنہیں ہما رے سیا ست دان بڑی آ سا نی سے بے وقوف بنا لیتے ہیں بلکہ آ ج کے گا وں میں حا لات کو ہر پہلو سے دیکھنے اور سمجھنے وا لے بھی ہو تے ہیں۔ چنا نچہ اس افسا نے میں بھی ایک طرف جہا ں با دشاہ سلامت کے آ نے کی خو شی میں لوگ نئے نئے کپڑے سلوا رہے تھے گھر وں کی عو رتیں کھیر اور دوسرے پکوان پکا رہی تھیں ، وہیں ایک نو جوان ان چیزوں کو وقت کا زیاں سمجھ رہا تھا اور گاوں وا لوں سے کہہ رہا تھا :

’’ لوگ گا ئوں کی گند گی سے مر تے ہیں۔ کیڑ ے مکو ڑوں کی طرح زند گی گذا رتے ہیں۔ آ ج یہا ں کی صفا ئی ہو رہی ہے۔ اس لئے کہ با دشاہ آ رہا ہے۔ اتنے بر سوں سے گا ئوں سڑ رہا ہے تو کو ئی دیکھنے نہیں آ یا۔ با دشاہ آ ئے گا بھو کوں کو کھا نا با نٹے گا۔ ننگو ں کو کپڑ ے دے گا۔ مظلو مو ں کی فر یا دیں سنے گا۔ سب کچھ ملے گا لیکن صر ف ایک دن۔ پھر سب بھو کے رہیں گے۔ سب ننگے رہے گے۔ سب ظلم سہیں گے۔ کو ئی کچھ دینے یا سننے وا لا نہیں ہو گا۔‘‘

  ابن ِ کنول۔ پچاس افسا نے۔ سنِ اشا عت ۲۰۱۴؁ء۔ص۔ ۱۱۴( ایچ۔ایس آ فسٹ پر نٹر س نئی دہلی )

  اس اقتباس میں افسا نہ نگار کے حقیقت پسندا نہ طنز کو صا ف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ افسا نہ کے اس اقتباس میں افسا نہ  نگار نے یہ بتا نے کی کوشش کی ہے کہ آ ج کی نو جوان نسل چا ہے شہر وں میں ہو یا گا وں میںحا لات اور حقائق کو اچھی طر ح سمجھتی ہے۔ ویسے بھی اس ملک کی ۷۵ فیصد آ با دی نو جوا نو ں پر ہی مشتمل ہے۔ ابن ِ کنول کی افسا نہ نگا ری کی خوبی یہ ہے کہ وہ استعا را تی انداز میں حقیقتوں کو اس طرح بیان کر تے ہیں کہ اُ ن کے نظر یہ اور ما فی الضمیر تک قا ری کی رسا ئی بغیر کسی الجھن کے ہو جا تی ہے۔دراصل علا متی اور استعا را تی افسا نے کی خو بی بھی یہ ہو نی چا ہیے کہ قا ری افسا نہ کے مر کز ی خیا لات تک بغیر کسی پیچید گی کے پہنچ سکے۔ عام طور پر جدیدیت کے تحت جو افسا نے علامتی اور استعا راتی اسلوب میں لکھے گے اُ ن میں ’’ترسیل کا المیہ‘‘ سب سے بڑ امسئلہ تھا۔کیو ں کہ زیا دہ تر لو گو ں نے علامت اور استعا رے تو استعمال کیے لیکن وہ حد درجہ ذ اتی نوعیت کے تھے اُ ن کی سما جی بنیا دیں یا تو نہیں تھیں یا کمزور تھیں۔لیکن ابن ِ کنول کی افسانہ نگاری کی خوبی یہی ہے کہ وہ چا ہے اپنے افسا نوںمیں اسا طیری یا علامتی اور استعا را تی اسلوب کیوں نہ اپنا ئیں۔ اُ ن کے بیا نیہ( narration) کی جڑ یں اپنے سماج میں پیو ست ہو تی ہیں۔ ہما رے معا شرے میں سیا سی رہنما ئوں کے مو قعو ں پر عام طور پر ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جنہیں افسانہ نگار نے اس افسانے میں پیش کیا ہے۔لیکن پھر جو حقیقت سامنے آ تی ہے وہ بڑی عبرت ناک ہو تی ہے۔ افسانہ نگار نے اس افسانہ کے اختتام پر طنز یہ انداز میں اس حقیقت کو اس طرح پیش کیا ہے :

’’ دھیرے دھیرے سواری کا جلوس اور نز دیک آ گیا۔ با دشاہ ہا تھی پر سوار تھا۔ اس کے چا روں طرف تلوا ریں لئے ہوئے مسلح سپا ہی چل رہے تھے۔ گا ئوں والوں نے خو شی سے با دشاہ کے اقبال کی بلندی کے نعرے لگا ئے۔ اس کے اُ وپر پھول بر سائے۔ با دشاہ نے مسکراتے ہوئے ہا تھ ہلا کر ان کے استقبا لیہ نذرانوں کو قبول کیا۔ اور اُ ن کی خوش حا لی دیکھ کر اطمنان کا سانس لیا۔آ ہستہ آہستہ سوا ری آ گے بڑ ھتی گئی۔ با دشاہ کو دیکھنے کے لئے بچے، مرد، عو رتیں دیواروں ، چھتوں اور پیڑ وں پر چڑ ھے ہو ئے تھے۔ عورتیں چھتوں سے پھول بر سا رہی تھیں اور با دشاہ کی شان میں قصیدے پڑھ رہی تھیں۔تھو ڑی دیر بعد بادشاہ کی سواری گا ئوں سے گزر گئی اور جلوس کا ’’غبار‘‘ گا ئوں میں با قی رہ گیا۔بادشاہ گائوں میں ٹھہرا نہیں۔ اس نے گا ئے کے دودھ کی کھیر نہیں کھا ئی۔اس نے گھر وں کے دروا زوں پر جلے ہو ئے چرا غو ں کو نہیں دیکھا۔ اس نے کسی کی فر یاد نہیں سنی۔ شا ید چہر وں پر تمام زند گی کی خو شیاں سمیٹے ہو ئے لو گو ں میں کو ئی فریادی نہیں تھا۔‘‘

ؓ  ابن ِ کنول۔ پچاس افسا نے۔ سنِ اشا عت ۲۰۱۴؁ء۔ص۔ ۱۱۶( ایچ۔ایس آ فسٹ پر نٹر س نئی دہلی )

 با دشاہ ( سیا سی رہنما) کے جانے کے بعد جو صورت ِ حال سامنے آ تی ہے اس کی تصویر کشی افسانہ نگار نے اس طرح کی ہے:

’’ کئی روز بیت گئے۔ راستے پھر خراب ہو گئے۔ گلی کو چوں میں پھر کو ڑا کر کٹ جمع ہو گیا۔ نا لیوں سے پھر بد بو آ نے لگی۔ گھر پھر بے چراغ ہو گئے۔ایک شخص کہنے لگا :

’’ با دشاہ یہاں ہر روز کیوں نہیں آ تا ؟‘‘

دوسرے نے سوال کیا۔

’’ با دشاہ یہاں ہر روز کیوں آ ئے؟ اس نے تو ایک ہی دن میں رعا یا کی خو ش حالی دیکھ لی۔

  ابن ِ کنول۔ پچاس افسا نے۔ سنِ اشا عت ۲۰۱۴؁ء۔ص۔ ۱۱۶( ایچ۔ایس آ فسٹ پر نٹر س نئی دہلی )

 افسا نہ’’ صرف ایک دن کے لئے‘‘ایک طنز یہ ا فسا نہ ہے اور افسانہ نگار نے مو جودہ سیا سی اور سما جی رہنما وں پر بڑی خو ب صورتی کے سا تھ طنز کیا ہے۔ گا ئوں اور قصبوں کے لو گ با دشاہ یا رہنما کے استقبال کے لئے بڑے جوش وخروش سے  تیا ریاں کرتے ہیں۔ گھر وں سڑ کوں اور محلوں کی صفا ئی کر تے ہیں پو رے علا قے کا نقشہ بدل جا تا ہے۔ لیکن’’ صرف ایک دن کے لئے ‘‘ اس کے بعد اُ س علاقے میں پھر سے کو ڑا کرکٹ اور گند گی کے ویسے ہی منا ظر آ نے جا نے والوں کا منہ چڑ ا تے رہتے ہیں۔ بنیا دی طور پر یہ افسا نہ پسما ندہ لو گو ں کی نفسیا تی کیفیات کے علا وہ سیا سی اورسما جی رہنما ئوں کی فریبی سوچ کو بڑ ی خوبصورتی کے سا تھ پیش کر تا ہے۔

  ٭٭٭٭٭

Sirf Ek din ke liye… by: Dr. Raza Mahmood

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.