حجاب امتیاز علی تاج بیسویں  صدی کی ایک اہم فنکار (فن اور شخصیت کے  حوالے  سے )۔

جنّتی جہاں

ریسرچ اسکالر

شعبۂ اردو، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ

Mob. 9837877٭٭٭

E-mail: jannatijahan53@gmail.com

                حجاب امتیاز علی تاج بڑے  پائے  کی مصنفہ تھیں ۔ انھوں  نے  ناول اور افسانوں  میں  مستحکم بیانیہ خلق کرنے  کے  ثبوت دیے  ہیں ۔ انھوں  نے  رومانی افسانے  لکھے ۔ ان کا مطالعہ وسیع، مشاہدہ اور تجربہ بھی بے  حد تیز اور گہرا تھا۔ وہ ایک بات اگر اپنے  دل میں  طے  کرلیتیں  تو اس کو پورا کرکے  ہی چھوڑتی تھیں ۔ اس بات کا اندازہ ہم ڈاکٹر مجیب احمد خاں  کی کتاب ’’حجاب امتیاز علی فن و شخصیت‘‘ سے  لگا سکتے  ہیں ۔ مجیب احمد خاں  لکھتے  ہیں :

’’حجاب نے  میرے  نام ایک خط میں  اس طرح بیان کیا ہے  ’’باقی آئندہ لکھوں  گی۔ بیمار ہوں  تھک گئی ہوں ۔ اپنا مقولہ بھیجئے ۔ ایک دفعہ میں  باغ میں  بیٹھی لکھ رہی تھی۔ ایک چیل بہت اوپر سے  نیچے  اتری اور زمین پر ‘‘لینڈ‘‘ کرگئی اسی کو دیکھ کر مجھے  اڑنے  کا خیال آیا اور میں  فیلڈنگ کلب کی ممبر بن گئی۔‘‘  ۱؎

                حجاب امتیاز علی تاج کا زمانہ وہ زمانہ تھا جب مسلم گھرانوں  کی لڑکیوں  پر سخت پابندیاں  عائد تھیں ۔ اس زمانے  میں  علم حاصل کرنے  کے  لیے  باہر جانے  بات تو دور تھی وہ گھر سے  بھی باہر نہیں  نکل سکتی تھیں  لیکن حجاب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے  کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ ان کی فیملی تعلیم یافتہ تھی اس لیے  حجاب کو زیادہ سے  زیادہ تعلیم حاصل کرنے  کا موقع ملا۔

                حجاب امتیاز علی ۱۹۱۵ء میں  حیدرآباد میں  پیدا ہوئیں ۔ ان کے  والد کا نام سید محمد اسمٰعیل تھا۔ وہ نظام حیدرآباد کے  فرسٹ سکریٹری تھے ۔ حجاب کی پیدائش، پرورش اور تعلیم و تربیت حیدرآباد میں  ہوئی۔ انھوں  نے  عربی، فارسی، اردو اور موسیقی کی تعلیم گھر پر پائی۔ اسکول سے  سینئر کمبرج کے  امتحان کو پا س کیا لیکن ان کے  والد ملازمت سے  سبک دوشی کے  بعد مدراس چلے  گئے  اور وہیں  پر رہائش پذیر ہوگئے ۔

                حجاب کی والدہ عباسی بیگم مشہور و معروف ناول نگار تھیں ۔ ان کا ناول ’’زہرا بیگم‘‘ بہت مشہور ہوا اور اس کے  علاوہ ان کا فلسفیانہ مضامین کا مجموعہ ’’گل صحرا‘‘ ان کی بہترین یادگار ہے ۔ اپنے  والدین کی طرح حجاب نے  بھی افسانے  اور ناولوں  میں  شہرت حاصل کی۔

                حجاب کی ایک الگ انفرادیت ہے ۔ انھوں  نے  ابتدائی تعلیم والدین کی زیر نگرانی میں  حاصل کی اور انگریزی تعلیم کالج میں  حاصل کی۔ وہ انگریزی زبان کی ماہر تھیں ۔ اس کے  علاوہ انھوں  نے  ۱۹۳۶ء میں  ناردن لاہور فلائنگ کلب سے  ہوا بازی کی سند حاصل کی اور حکومت برطانیہ کی پہلی ’’ہوا باز خاتون‘‘ کی شہرت پائی۔ ان کی ہوا بازی کے  بارے  میں  پہلے  عرض کرچکی ہوں  جو وہ دیکھتی تھیں  وہی کام پورا کرتی تھیں ۔ جس طرح سے  چیل کو دیکھ کر انھوں  نے  ہوا بازی سیکھی اور وہ فلائنگ کلب کی ممبر بن گئی یہ اپنے  آپ میں  بہت بڑی بات ہوتی ہے ۔ کسی چیز کو دیکھ کر اس جیسا بن جانا یا اس جیسا کام انجام دینا اس سے  ہم ان کی ذہنیت کا اندازہ لگا سکتے  ہیں ۔ کوئی تخیل خیال یا بے  حد ذہین ہی اس کام کو انجام دے  سکتا ہے ۔

                حجاب کی شادی ۱۹۳۵ء میں  مشہور ڈرامہ نگار اور مقبول ترین ڈرامہ ’’انار کلی‘‘ کے  خالق سید امتیاز علی تاج سے  ہوئی۔ شادی سے  قبل حجاب کا نام حجاب اسمٰعیل تھا۔ اس لیے  انھوں  نے  اپنے  ابتدائی دور کی تصانیف کو حجاب اسمٰعیل اور مس حجاب کے  نام سے  شائع کیا۔ لیکن شادی کے  بعد مسز حجاب امتیاز علی اور بیگم حجاب امتیاز علی کے  نام سے  شائع کرنے  لگیں ۔ اب اردو ادب میں  ان کا نام حجاب امتیاز علی ہی لیا جاتا ہے ۔

                تاج صاحب حضرت امام رضا کی نسل سے  تھے  اور ان کے  آبا واجداد اورنگ زیب عالمگیر کے  عہد میں  بخارا سے  ہندوستان آئے  تھے ۔ وہ ۱۳؍اکتوبر ۱۹۰۰ء کو لاہو ر میں  پیدا ہوئے ۔ ان کے  والد کا نام شمس العلماء سید ممتاز علی تھا۔ وہ دیوبند ضلع سہارنپور کے  رہنے  والے  تھے ۔ سرسید احمد خاں  کے  دوست مولانا محمد حسین آزاد اور مولانا محمد قاسم تانوتوی کے  شاگرد رہ چکے  تھے ۔ ۱۸۷۶ء میں  لاہور ہائی کورٹ میں  مترجم مقرر ہوئے  اور ۱۸۹۱ء میں  رفاہِ عام پریس قائم کیا۔ ’’دربار اکبری‘‘ اپنے  پریس سے  شائع کیا۔ اس کے  علاوہ ۱۹۰۹ء میں  بچوں  کا ہفتہ وار ’’پھول‘‘ اخبار جاری کرکے  بنت نذر الباقر کو اس کا اعزازی ایڈیٹر مقرر کیا۔ وہ ’’تہذیب نسواں ‘‘ کے  بانی بھی تھے ۔ ان کی بیوی محمدی بیگم نے  اس اخبار کی ادارت کی۔

                حجاب کی شادی کرانے  میں  سجاد حیدر یلدرم، نذر سجاد حیدر اور تاج کے  بہنوی سر محمد یعقوب پیش پیش تھے ۔ حجاب بے  حد خوش نصیب خاتون تھیں  کیوں  کہ ان کی شادی دو ادبی خاندانوں  کا سنگم تھا۔ حجاب ادبی ماحول میں  پیدا ہوئیں  اور شادی کے  بعد بھی ادبی ماحول سے  وابستہ رہیں ۔

                حجاب کی اور تاج کی خط و کتاب شادی سے  پہلے  ہی شروع ہوگئی تھی۔ لیکن کسی وجہ سے  یہ خط و کتاب بند ہوگئی۔ تاج بے  حد پریشان تھے  کہ خط و کتابت کا سلسلہ کس طرح شروع کیا جائے ۔ ایک طرف تاج ’’انار کلی‘‘ لکھ رہے  تھے  تو دوسری طرف حجاب کے  بارے  میں  سوچتے  رہتے  تھے ۔ ایک دن تاج کو پطرس بخاری نے  مشورہ دیا اور ان کے  مشورے  پر تاج نے  ’’انار کلی‘‘ کو حجاب کے  نام سے  معنون کردیا۔ ان کی ناراضگی ختم ہوگئی اور پرانا والا سلسلہ پھر شروع ہوگیا۔

                حجاب کی والدہ کا مطالعہ کتب اور مضمون نگاری کا شوق بچپن سے  تھا۔ اس زمانے  کی ادبی دنیا میں  عباسی بیگم بہت شہرت رکھتی تھیں ۔ اس پابندی بھرے  دور میں  صرف چند ہی ادیب عورتیں  تھیں ۔ ان میں  ایک مسز سجاد حیدر یعنی نذر سجاد، قرۃالعین حیدر کی والدہ اور دوسری حجاب امتیاز علی کی والدہ عباسی بیگم زیادہ مصروف تھیں ۔ وہ اپنی والدہ اور نذر سجاد کی ادبی مشاغل میں  مصروفیت کو دیکھ کر خود بھی متاثر ہوئے  بغیر نہ رہ سکیں ۔

                حجاب اور عباسی بیگم دونوں  کی نذر سجاد حیدر سے  خط و کتاب جاری تھی۔ حجاب نذر سجاد حیدر کو خالہ کہتی تھیں  اور قرۃ العین کو بہن۔ ان دونوں  گھرانوں  میں  نہایت خوشگوار تعلقات تھے ۔ ان دونوں  گھرانوں  پر نظر ڈالیں  تو معلوم ہوتا ہے  جب ان گھرانوں  میں  اتنے  تعلیم یافتہ والدین تھے  تو ان کی اولادیں  بھی انہیں  کی وجہ سے  اتنی ذہین ہوں  گی۔ گائوں  میں  ایک کہاوت ہے  کہ بچے  کے  پیر پالنے  میں  دکھائی دے  جاتے  ہیں ۔ یہی وجہ ہوتی ہے  کہ جیسے  والدین اولاد کی پرورش کرتے  ہیں  ویسے  ہی اولاد ہوتی ہے ۔ میں  یہ نہیں  کہتی کہ ہر اولاد ایک جیسی ہوتی ہے ۔ سو میں  سے  دس فیصد اولاد ایسی ہوتی ہے  جو والدین کے  بتائے  ہوئے  راستے  پر نہیں  چلتی۔ میرا ماننا ہے  کہ اس کو خدا کی طرف سے  ہی نصیحت نہیں  ملتی۔ اس لیے  زیادہ پڑھے  لکھے  لوگوں  کے  بچے  بگڑ جاتے  ہیں  نہیں  تو نوے  فیصد بچے  اپنے  والدین کی ہدایتوں  پر عمل کرتے  ہیں ۔ یہ ماضی میں  بھی تھا حال میں  بھی ہے  اور مستقبل میں  بھی رہے  گا۔

                حجاب کی زندگی بے  حد رنگین تھی۔ ان کی شام اکثر و بیشتر کسی نہ کسی جشن، ادبی محفل، سنیما ہال یا ریستوراں  میں  گزرتی تھی۔ ان کو اڈلی ڈوسا بہت پسند تھا اور وہ سموسے  کا بھی شوق رکھتی تھیں ۔ وہ اسکول کے  جشن، ریڈیو پروگرام، ادبی مجالس وغیرہ میں  ضرور نظر آتی تھیں ۔

                حجاب کی زندگی میں  بہت غم بھی آئے  لیکن حجاب نے  غموں  کا مقابلہ کیا اور کبھی بھی ہار نہیں  مانی۔ وہ ہمیشہ حرکت و عمل میں  رہتی تھیں ۔ ان کی شادی کے  تقریباً بارہ برس بعد ۱۹۴۷ء میں  پاکستان ایک نئی مملکت کی حیثیت سے  وجود میں  آیا۔ اس وقت بھی ان کو بہت پریشانیوں  کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر دیکھا جائے  تو حجاب جتنی پیار اور لاڈ سے  پلی تھیں  اتنا ہی ان کو غم ملا۔ لیکن ان سب غموں  کو انھوں  نے  اپنے  اندر دفن کردیا تھا۔

                حجاب ایک اعلیٰ اور آسودہ خاندان سے  وابستہ تھیں ۔ ان کی پرورش امیرانہ طرز پر ہوئی۔ حجاب کی شادی کے  بعد پھول جیسی خوبصورت بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام انھوں  نے  یاسمین رکھا۔ یاسمین حجاب اور تاج دونوں  کی لاڈلی تھیں ۔ حجاب کی دنیا تین افراد پر مشتمل تھی۔ حجاب، تاج اور یاسمین۔

                حجاب کو پھول، موسیقی، چاندنی رات، بادل، بلی، ندی ، پیڑ پودے ، کبوتر، طوطے ، گائے  وغیرہ ان سب سے  حجاب کو دلی لگائو تھا۔ ان سب چیزوں  کا وہ اپنے  افسانوں  اور ناولوں  میں  بھی ذکر کرتی ہیں ۔ حجاب کو اپنی بلیوں  کے  ساتھ گرائونڈ میں  گھومنا بہت پسند تھا۔

                رومانی تحریک کا آغاز اٹھارہویں  صدی میں  یورپ میں  ہوا۔ رومانی تحریک کا بانی روسو بھی ایک ذہین آدمی تھا۔ حجاب مغربی ادب سے  متاثر تھیں  اور ان کا مغربی ادب کا مطالعہ بھی وسیع تھا۔ وہ فرانسیسی ناول نگار پیری لوٹی کو بے  حد پسند کرتی تھیں  اور مغربی ادب میں  شیکسپیئر، نطشے ، تھیکرے ، کیٹس، ملٹن، رالڈر، ہیگرڈ، گورکی، دوستوسکی، دلکارکس اور میری کوریلی وغیرہ سے  بے  حد متاثر تھیں ۔وہ سقراط، افلاطون اور فرائط کے  فلسفے  سے %

Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.