انشاء پردازی کے رہنما اصول

ڈاکٹر عبدالودودقریشی، (ستارۂ امتیاز)

اسلام آباد،پاکستان

00923335170786

drabdulwadoodqureshi@gmail.com

Abstract

Elegance of writing the composition

What is composition, different definition and ideas about it have been presented. How does it become effective and what is its utility has been narrated comprehensively.

How a common writing becomes a proper composition and what are its motives. How the readers take inspiration from it. Writing and speech have a magical inspiration. When this things is converted into composition then its impact becomes ever lasting. The feelings of love and hatred can be composed in a composition in its true spirit, its history is as old as the words and writings are. It creates the unique impact upon the minds of readers which last for a long. It brings beauty in expression and style.

Key words: Diction of speech,Scope of composition.

جہاں تک اردو زبان میں انشاء پردازی کا تعلق ہے وہ اردو کی ابتداء اور ارتقاء کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی جب خیالات کو تحریری شکل دینے کے لئے قلم اور کاغذ کا سہارا لیا گیا تو پھر یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ جس طرح ایک مقرر اور خطیب اپنی گفتگو کو خوبصورت الفاظ سے مزین کر دیتا ہے اور وہ آواز کے زیر و بم سے اپنے خیالات اور تاثرات کا اظہار کرتا ہے جس سے سامعین اور ناظرین بخوبیآگاہ ہوتے چلے جاتے ہیں کہ وہ ان باتوں پر زور دے رہا ہے اور اس کا حقیقی مطمع نظر کیا ہے وہ تقریر میں زیر و بم کے ذریعے حقیقی جذبات تک پہنچتا چلا جاتا ہے۔انہی زیر و بم سے سامعین سحر خطابت میں گم ہوتے چلے جاتے ہیں اور اس کے ایک ایک جملے کو غور سے سنتے ہیں تحریر میں اور خاص کر نثر میں نثر نگار سامنے تو نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ آواز کے زیر و بم سے کچھ تاثر دے سکتا ہے کیونکہ وہ موجود نہیں ہوتا لہٰذا نثر نگار کو اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار اسی پیرائے کے ذریعے کرنا ہوتا ہے جو وہ لکھ رہا ہوتا ہے اور اسی تحریر کے ذریعے اسے  قاری کو غم ، خوشی، حیرت، خوشبو، بدبو، محبت اور نفرت کے جذبات سے معمور کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا لکھنے والوں کو ہی اپنی تحریر کو ایسے رنگ ڈھنگ میں ڈھالنا اور ترتیب دینا ہوتا ہے کہ قاری لکھنے والے کی تحریر کو اپنے پر اسی طرح محسوس کرے جس طرح لکھنے والا چاہتاہے اور قاری لکھنے والے کا گرویدہ بن جائے اسی سوچ نے انشاءپردازی کو پیدا کیا۔ابتدائی دور میں افسانے کے انداز میں لکھی جانے والی تحریر کو انشاء پردازی کہا جانے لگا۔ڈاکٹر وحید الدین قریشی کا کہنا ہے:

دنیا کا قدیم ترین انشائی ادب وہ تھا جس کی تخلیق آدمؑ نے حواسے اظہار محبت کرتے ہوئے کی تھی اس زمانے سے لیکر آج تک انسانی ذہن کی یہ ترنگ جاری ہے اور انشائی ادب تخلیق ہورہا ہے۔(۱)

انشاء حقیقت میں کیا ہے فرہنگ آصفیہ عربی النسل لفظ کے مطلب یوں بیان کرتی ہے:

(۱)       کچھ بات دل میں پیدا کرلینا

(۲)       عبارت،تحریر

(۳)      علم معانی وبیان،صنائع بدائع، خوبی عبارت، طرز تحریر

(۴)      وہ کتاب جس میں خط و کتابت سکھانے کے واسطے ہر قسم کے خطوط جمع ہوں ، لیٹر بکس، چھٹیوں کی کتاب ۔ (۲)

لفظ انشاء جب انشاء پردازی بنتا ہے تو اس کے معنی یوں درج ہیں:

(۱)       طرز تحریر،عبارتآرائی، خط یا عبارت لکھنے کا ڈھنگ، عبارت کی خوبی

(۲)       مضمون نگاری، مضمون نویسی۔(۳)

      درحقیقت انشاء پردازی انشاء پرداز کی ہی پیداوار ہوتی ہے وہ لفظوں اور جملوں کو اس انداز میں ترتیب دیتا ہے کہ انشاء پردازی پیدا ہوتی ہے اس سے اس کا حسن نکھرتا ہے جدت کے ساتھ بات لوگوں کے دلوں میں اترتی چلی جاتی ہے۔سید محمد حسنین کا کہنا ہے:

انشاء کا مادہ نشاء(نشءَ) سے نکلا ہے جس کے لغوی معنی پیدا کرنا ہے یعنی انشاء کی علت غائت’’زائیدگی‘‘ ہے یا ’’ آفریدگی‘‘ انشاء کی توانائی دراصل خیال کی تازگی و تنومندی سے ظاہر ہوتی ہے۔ انشائی قوت سے بات میں معنویت پیدا ہوتی ہے اور خیالات کی لہریں نکلتی ہیں۔(۴)

اپنے گہوارے سے نکل کر لفظ کئی مدارج طے کرتا ہوا مخصوص معنی کی حامل ایک اصطلاح بن جاتا ہے۔بعض اوقات لفظ کی اصل اور اصطلاح میں بہت فاصلہ ہوتا ہے۔ اصطلاح استعاراتی، علامتی، اصلاحی معنی کو لغوی معنوں پر مرکوز رہنے کی درخواست کرتا ہے۔ انشاء کے جو بھی مطالب ہوں انشائیہ صرف مضمون کا مترادف ٹھہرتا ہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی کے بقول انشاء کا لفظ ابتدائی طور پر ایک دفتری اصطلاح سمجھا جاتا تھا پھر رفتہ رفتہ سرکاری احکام اور خطوط میں یہ رائج ہوتا گیا اور صاف شدہ تحریر کو اس سے منسوب کیا گیا۔جس محکمے کے سپرد ’’مسودے‘‘ کی تیاری کا کام ہوتا تھا اسے دیوان انشاء کہاکرتے تھے۔شروع میں دربار کے زیر اثر فارسی نثر میں یہ تحریر لکھی جاتی تھی اور پھر یہی زبان مکتوبات کی زبان قرار پائی۔ اس حوالے سے جابر علی سید کچھ یوں رقم طراز ہیں:

لفظ انشاء کا لفظی مفہوم تخلیق ہے اور فرانسیسی ESSAYکا مفہوم بھی کم و بیش تخلیق ہی ہے۔ اس بنا پر کہ ESSAYذہنی کوشش و کاوش سے لکھی ہوئی تحریر ہے۔TO ESSAYبطور فعل تخلیقی کوشش کرنا ہے اور بطور اسم اس کاوش کا تحریری نتیجہ ہے۔(۵)

انشاء پرداز کی تاریخ پر لسانیات کے ماہرین میں ہمیشہ تھوڑا بہت اختلاف رہا ہے اور ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں انشاء اور انشاء پردازی کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر جی ایم ملک اور پروفیسر نثار احمد جمیل کا کہنا ہے:

اپنے جذبات، احساسات، تاثرات، خیالات و تصورات اور مافیالضمیر کو صحت و تندرستی کے ساتھ اپنی زبان میں ادا کرنے کا نام انشاء ہے۔ اظہار خیال کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں، زبانی یا تحریری پہلی صورت کو تقریری انشاء کہتے ہیں اور دوسری صورت کو تحریر ی انشاء کہا جاتا ہے البتہ مقاصد کے اعتبار سے دونوں ایک ہی ہیں۔(۶)

یوں تو ہر تحریر قاری کے لئے لکھی جاتی ہے مگر تخلیقات جہاںاپنا مدعا بیان کرنا چاہتی ہیں وہاں قاری کے مزاج کو بھی سامنے رکھنا ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ انشاء پردازی کے ذریعے قاری تک اپنی بات پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ بعض اوقات قاری انشاء پردازی کی فنکارانہآمیزش سے پیدا ہونے والی جمالیاتی حس سے اتنا محظوظ ہوتا ہے کہ وہ اس تحریر سے خاصا اثر لے لیتا ہے۔ قاری کی یہی روش تخلیق کار کے لئے باعث اطمنان و مسرت ہوتی ہے۔ ہر ادب کے پاؤں ہمیشہ زمین پر ہی رہتے ہیں مگروہ سانس فضاء میں ہی لیا کرتا ہے۔ہمیشہ ہر تخلیق کو اپنی مقصدیت کی طرف لانے کے لئے کچھ نہ کچھ فنی صلاحیت بروئے کار لانی پڑتی ہے۔سقراط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گھنٹوں نہیں دنوں غور و فکر میں گم رہتا تھا اور جب کسی بات کی تہہ اور حقیقت تک پہنچ جاتا تو پھر اسے لکھنا شروع کرتا اور پھر اس کے تخیل کاایک دریا بہ نکلتا۔ تخیل کے لئے مشاہدات، تجربات، اور تاریخ کا وسیع علم ہونا اہم اور ضروری ہوتا ہے ورنہ وہ بے راہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح انشاء پرداز کا علم، تجربہ اور الفاظ پر گرفت کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ انسانوں کی زندگی میں جابجا اس کے جذبات کی کارفرمائی دکھائی دیتی ہے۔ انسان خوشی اور غم کا اظہار کرتا ہے، تالیاں بجاتا ہے، ناچتا اور گاتا ہے، روتا اور آہ و فغاں کرتا ہے نالہ کی فریاد سے عرش کو بھی ہلا دیتا ہے یہ تمام باتیں غیر محسوس طریقے پر اس کی آنکھوں سے چھلک جاتی ہیں۔ جذبات سے ہی اس کی زندگی میں رعنائی ہوتی ہے جذبات نہ ہوں تو زندگی میں وہ رنگینی اور دلکشی نہ رہے اور انسان ایک پتھر کی طرح ہوجائے اسی طرح جب تک انسان کسی تحریر کو انشاء پردازی اور ضابطے میں نہیں ڈالتا اس کی صورت ایک جامد پتھر کی ہی ہے۔

 اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کے قلب اطہر پر وحی کا نزول کرکے اپنے پیغام کو ان تک پہنچایا اور انہیں کہا کہ پڑھ اپنے رب کے حکم سے یہ وہ ابلاغ تھا جو جبرائیلؑ کے توسط سے کیا گیا اور پھر اس کا سلسلہ جاری رہا۔اللہ کے اس کلام کو تحریری شکل میں ڈھال کر آگے لوگوں تک پہنچایا گیا گویا پہلے ایک بات پہنچائی گئی اور پھر اسے کتابی شکل میں رہتی دنیا تک کے انسانوں تک پہنچایا گیا۔(۷)

گفتگو کو عربی میں ’’سحر ‘‘جادو سے تشبیہ دی گئی ہے انشاء پردازی وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنایا جاسکتا ہے، رولایا جاسکتا، مشتعل کیا جاسکتا ہے اور انکے قلوب کو مسخر کیا جاسکتا ہے انہیں اپنا نکتہ نظر ماننے پر آمادہ اور مجبور کیا جاسکتا ہے مگر اس تحریر میں تاثیر کا ہونا ضروری ہے اور یہ تاثر انشاء پردازی کے ذریعے ہی پیدا کی جاسکتی ہے۔ دشمن کے خلاف لوگوں کو صف آرا کرنے کے لئے بھی ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے رہے ہیں کہ وہ عوام کے دلوں میں پیوست ہوجاتے ہیں اور وہ جذبے اور ولولے سے جان دینے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ ایک بہترین انشاء پرداز محل و قوع کے حوالے سے قاری کو کبھی رلا دیتا ہے، کبھی ہنسا دیتا ہے اور کبھی انہیں خواب غفلت سے بھی جگا دیتا ہے درحقیقت جذبات نگاری انشاء پردازی کا نہایت ہی کارگر عنصر ہے لفظوں سے کھیلنے کا جتنا اچھا فن جسے آئے گا وہی بہتر انشاء پرداز ہوگا۔ نسیم حجازی اس حوالے سے لکھتے ہیں:

میں نے رنگارنگ پھولوں سے اپنا دامن بھر لیا آج ان پھولوں کو ایک گلدستے کی صورت میں پیش کر رہا ہوں اگر اس گلدستے کو دیکھ کر ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں اس وادی کی سیاحت کا شوق اور خزاں رسیدہ چمن کو اس وادی کی طرح سرسبز اور شاداب بنانے کی آرزو پیدا ہوجائے تو میں سمجھوں گا کہ مجھے اپنی محنت کا پھل مل گیا ہے۔(۸)

انشاء پردازی میںحِس لطافت اور جمالیات لازم و ملزوم ہیں انسان خوبصورتی کو پسند کرتا ہے حسن کا دلدادہ ہوتا ہے جہاں بھی تحریروں میں چاند کا تذکرہ ہوگا، سبزہ زاروں کا ذکر ہوگا، آبشاروں ، مرغزاروں کے علاوہ لب رخسار، محبوب کی اداؤں کی باتیں آئیں گی قاری اس طرف متوجہ ہوتا ہے اور جب ادیب اپنے قلم کو حسن کی گہرائیوں میں لے جاتا ہے تو قاری اس قلم کار کا گرویدہ بن جاتا ہے جس نے حسن کو بیان کرنے کے علاوہ عشق، محبت، پیار اور وفا کی داستانیں اپنی تحریر میں بیان کی ہوتی ہیں۔ عشق کی پاکیزگی ایسی تحریروں کو مزید چار چاند لگا دیتی ہے۔ جو تحریر اپنے ہی قابو میں رہے مقصد سے انحراف نہ کرے اس میں جمالیاتی حسن بھی برقرار رہے کسی لغزش کا بھی شکار نہ ہو اس میں جمالیاتی حِس انشاء پردازی کے فن کو جلا بخشتی ہے اور قاری کے ذوق کو پختہ کرتے ہوئے تقویت پہنچاتی ہے۔ انشاء پردازی میں تشنگی نہیں ہوتی وہ قدرتی مناظر کی عکاسی کا دلکش نمونہ بھی ہوتی ہے اور ذوق جمال کی تسکین بھی۔

      انشاء پردازی اور ادب جو انسانی تقاضوں کو سامنے رکھ کر تخلیق کیا جائے اس میں محبت کا عنصر بھی داخل ہو وہ قاری کی رگوں میں خون کی طرح دوڑنا شروع کر دیتا ہے۔انشاءپردازی کے بارے میں تو یہ تک کہا گیا کہ اس گونگے شخص کی مانند ہے جو بول نہیں سکتا مگر اپنا احساس شدت سے دلاتا ہے۔ اس کے رگ و پے میں رومان کی دلکشی اور محبت کے جذبات دھیرے دھیرےآگ کی طرح سلگتے رہتے ہیں مگر  اس کا نشان نظر نہیں آتا۔ انشاء پردازی سے بڑا کارگر ہتھیار شاید ہی کبھی اس سے پہلے ایجاد ہوا ہو۔ انشاء پردازی دراصل کہلاتی ہی وہ ہے جو ادب اور تاریخ کے بے جان اوراق میں شعور اور احساس کی روح کو پھونک دے اور قاری ان احساسات کا ادراک کرے جسے لکھنے والا ان تک پہنچانا چاہتا ہے۔ انشاء پردازی ہی دشمن ملک کے خلاف اپنے نوجوانوں اور لوگوں میں قوت مدافعت کو بیدار کرتی ہے۔ ادبی چاشنی اور فنون لطیفہ کی ٹھوس بنیادوں پر لکھی جانے والی تحریر کو جب مربوط کیا جاتا ہے تو وہ انشاء پردازی کے قالب میں ڈھل جاتی ہے۔ انشاء پرداز کی تحریر احساس فن کا حسین امتزاج ہوتی ہے۔ فنی مہارت اور چا بک دستی سے اس کے اثرات ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔ انشاء پرداز بھی اپنی انشاء پردازی کی بدولت ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔

حوالہ جات

(۱) وحید قریشی ڈاکٹر ’’اردو کا بہترین انشائی ادب‘‘، سنگِ میل پبلیکیشنز، اردو بازار لاہور، ص :11

(۲) ’’فرہنگ آصفیہ‘‘فیروز سنز لاہور، ص، ۹۳۰

(۳)            ایضاً،ص،۹۳۰

(۴)            حسنین محمد سید ’’صنف انشائیہ اور انشائیے‘‘، ص:۳۸

(۵)فنون۔ مارچ اپریل ۱۹۷۷ء، ص :۲۳۰

(۶) جی ایم ملک پروفیسر، نثار احمد جمیل: ’’تدریس اردو‘‘ مجید بک ڈپو اردو بازار لاہور، ص: ۱۵۶

(۷)محمد احمد ڈاکٹر’’ابلاغ کی حقیقت‘‘ ستارہ پبلیکیشنز ،صفا نوالہ چوک لاہور، ص: ۲۳۵۷

(۸)            حجازی نسیم، ’’داستان مجاہد‘‘ پیش لفظ، جہانگیر بکس غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور، ص:۶

٭٭٭

00923335170786

drabdulwadoodqureshi@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.